Pages

Time

اسلام کی عسکری زندگی ---- علامہ مشرقی

قوموں کا زوال و جمود
مسلمانو ! تم پچھلے کم از کم تین سو برس سے بھولتے گئے ہوکہ اسلام کی فاتحانہ زندگی کی بنیاد کیا تھی؟ تم نے بھلا دیا کہ اسلام کیا تھا اور کیوں دنیا میں غالب تھا ؟اٹھارویں صدی کے شرو ع میں تمہاری ہوا ہندوستان میں اکھڑی لیکن تم نے نہیں سمجھاکہ تمہارے بارہ سو برس پہلے کے اسلام سے کیا چیز گم ہوگئی؟ قومیں جب گرنے لگتی ہیں تو ان کے افراد پر اسی قطع کی بیہوشی طاری ہوجاتی ہے۔ گرنے والے سمجھتے ہیں کہ اُبھرے ہوئے ہیں۔ مرض الموت کا مریض بھی صحتیاب ہونے کی آس لگائے رکھتا ہے۔ مرض اس کے جسم کے ڈھنچر کو کھائے جاتا ہے۔ لیکن اُمیدبندھی رہتی ہے کہ حکیم کی دوا اِس کا مقابلہ کرلے گی۔ لیکن گرتی ہوئی قوم کا اپنے مرض سے باخبر ہونا تو درکنار، وہ صحت اور طاقت کے نشہ میں سرشار ہوتی ہے۔ اُسے دَوااور علاج کی نہیں سوجھتی، وہ سمجھتی ہے کہ اُس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ناممکن ہے۔ اُس کا مقابلہ کوئی خدائی طاقت نہیں کرسکتی۔اِسکی ہرچال اور ہر چلن ٹھیک ہے۔ رُوما کی عالم آراسلطنت کا زوال اُس روز سے شروع ہُوا، جب روما کے شہر اور روما کی سلطنت کو”غیرفانی“ قرار دیا گیا۔ جب روما کے رہنے والے اپنی طاقت کے نشے میں بیہوش ہونے لگے، جب طاقت کااحساس غرور اور دھوکہ میں تبدیل ہوگیا! ہا ں مرض الموت کے مریض کی آس درسُت اس لئے ہے کہ وہ اپنے مرض کا مقابلہ حکیم، علاج اور دَوا سے کررہا ہے۔ لیکن گرتی ہوئی قوم کی آس ایک نرا دھوکہ اور محض فریب ہے۔ کیونکہ اس کو اپنے مرض کی مطلق خبرنہیں ، وہ اپنے مرض کو آسان سمجھ رہی ہے۔ حکیم اورعلاج کی پروا نہیں کرتی اور دوا کی روک ٹوک کے بغیر ہلاکت کے جہنم کی طرف اپنے ہاتھوں گھسِٹ رہی ہے! اِصلاح یافتہ اور دُرست ہونے کے فریب نے مسلمانو! تم کو تین سو برس تک مدہوش رکھا۔ تم نے اِس اثنا میں کچھ اپنے حالت کی طرف نہ دیکھا کہ کیا سے کیا بنتے گئے؟ کچھ اپنے نفس کا جائزہ نہ لیا کہ کیاکیاورغلاتا رہا؟ بالاآخر جب سلطنت کا زوال اٹل ہوگیا اور قضاوقدر کے کارکنوں نے ہندوستان کی بادشاہت کا انعام تم سے مکمل طور پر چھین لیا تو تمہیں اپنی اصلاح محسوس ہوئی۔ پہلی آواز آنے لگی کہ مسلمانو !”درست“ہوجاؤ ”اپنی چال“ اور”اپنا چلن“ ٹھیک کرلو۔ اپنا اسلام درست کرو ”پکے مسلمان بن جاؤ خدا تمہارے رویے سے ناراض ہے اس کو پھر راضی کرنے کی تدابیر اختیا ر کرو۔ خداکا مسلمان سے بہتری کا وعدہ ہے“۔

مُصِلحین کی غلط تدابیر

لیکن اس سو برس کی مدہوشی اور خواب ِغفلت نے آہستہ آہستہ تمہارا باوا آدم اِس قدر بدل دیا کہ تمہیں اورتمہارے مصلحوں کو تمہاری اگلی مسلمانی کی تصویر کچھ یاد نہ رہی تھی۔اس وقت تک کچھ معلوم نہ رہا تھا کہ ”درسُت“ ہونا کیا شے ہے پکے مسلمان ہونا بننے کے کیا معنیٰ ہیں۔ ”اسلام کو درست“ کرنے کا مطلب کیا ہے۔مسلمان میں اُس وقت تک یہ تخیل مٹ چکا تھا کہ دنیا میں غالب بن کررہنا ہی اسلام ہے۔اسلام صرف چند رسوم کا مجموعہ رہ گیا تھا۔ سعی وعمل کی جگہ قسمت اور تقدیر نے لے لی۔ اتحاد وعمل کی ہَو ا اُکھڑچکی تھی۔ جہدووعمل توکل کے غلط مفہوم سے بدل چکا تھا۔غلامی کی زنجیروں نے بلند نظری مفقود کردی تھی۔ نماز، حج، زکوٰة، سب عالم انگیز اعمال اجتماعی اور سیاسی سطح سے گر کر انفرادی اور شخصی اعمال بن چکے تھے۔ دین اور سیاست کے میدان الگ الگ ہوچکے تھے۔مولوی اور ”عالم دین“ نے سلطنت کو مسلمان کے ہاتھ سے چھنتی دیکھ کر اپنے زعم میں مذہب کو بربادی سے بچانے کے لئے دلوں میں غلط ڈال دیاتھا کہ ”دنیا“ یعنی سلطنت مُردار شے ہے۔ اور اس کا طالب کتا ہے۔ عیش کوشی اور تغافل، بزدلی،اور نامرادی ، بے خبری اور جہالت نے مسلمانوں کی بودوباش، شکل وشباہت بلکہ وضع قطع میں وہ عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا تھا کہ مُسلمان کے پاس تلوار بلکہ کسی لازمہ طاقت کا ہونا،اس کی مذہبی آن کے خلاف سمجھا جاتاتھا۔الغرض اس دگرگوں حالت میں قومی مصلح جوق درجوق نمودار ہوئے۔امت کے حکیم تاریخ خوان ضرور ہوں گے، مگر تاریخ دان ہرگز نہیں تھے انگریز کی چالوں سے ناواقف، انگریز کی زبان سے نابلد، انگریز کے چلن اور طبیعت سے بے خبر المختصر نہ دوا کے ماہر، نہ زہر سے آشنا نہ مریض کے نباض، نہ مرض کی خبر۔ انہوں اُمّتِ اسلام کو پہلی بلندی پر پہنچانے کےلئے کئی علاج تجویز کئے۔ کسی نے دعاؤں اور عقیدوں کو درست رکھنے پر زور دیا کسی نے دین اسلام کے متعلق بحثوں، مناظروں، فرقہ بندیوں اورآپس میں کفر کے فتؤں کو عروج حاصل کرنے کا باعث سمجھا۔ کسی نے کہا کہ مسلمان کو پہلے عروج پر پہنچانے کے لئے سکولوں اور کالجوں کی تعلیم ضروری ہے۔ کسی نے نظام پیدا کرنے کی عبث خواہش میں انجمن سازی تجویز کی ۔ کئی ایک قوم کی مستقل مرثیہ خوانی میں لگ گئے کہ قوم کے جذبات ابھریں۔ کئی ایک نے چندہ جمع کرنا زوال ِ قوم کا علاج سمجھا۔ ایک طبقہ عورتوں میں اسکول کی تعلیم نہ ہونے کو باعث ِ زوال سمجھتا رہا۔کچھ رہنما، انگریزی ملازمتوں کے حصول کو کامیابی کی کلیدبتاتے رہے۔ کچھ انگریزی طرز ِمعاش اختیا ر کرنے کے دل دادہ ہوگئے۔ کچھ اصلاح رسوم میں مشغول ہوگئے الغرض سلطنت کے زوال کے بعد قوم کو عروج تک پہنچانے کی تجویزیں اس قدر نارسا اور پھسپھسی تھیں، کہ قوم آج تک غلبہ کی کسی منزل تک پھر نہ پہنچ سکی۔ ہندوستانی مسلمانوں کا زوال آج دو سو برس کی اسلام فراموشی اور تقریباًسو برس کی غلط تدبیروں کے بعد اس قدر درد ناک اورمکمل ہوچکا ہے کہ اب حکیموں اور چارہ گروں سے مؤدبانہ طور پر طور پر رخصت ہوکر مریض کو خود اُس اصل اور نبوی اسلام کی طرف رجوع ہونے کی ضرورت ہے جس نے۲۳برس کے اندر اندر عرب جیسی اُجڈ اور کفر ونفاق سے بھری قو م کو دنیا کے بڑے حصّے پر غالب آنے کا اہل بنادیا تھا۔

مسلمانوں کی اصلاح مذہب کی طرف رجوع سے ہے

مسلمانو! ہادی اسلام کا قول ہے کہ آگے چل کر اسلام کی گری ہوئی امت انہی باتوں پر عمل کرکے پھر ابھر سکے گی ، جن پر چل کر میرے وقت کے لوگ ابھرے تھے۔ یہ حدیث اس امر کی تسکین ہے کہ مسلمان کا علاج صرف اسلام ہے۔ قرونٰ اولیٰ کے کافر وں نے جب تک کفر نہ چھوڑا اُبھر نہ سکے۔ اور جب تک آج کے مسلمان کفر چھوڑ کر پھر اسلام اختیار نہ کریں گے، اُبھر نہ سکیں گے لیکن بڑا جھگڑا اس بات پر ہے کہ اس ” پھر اسلام اختیا ر کرنے کے معنیٰ کیا ہیں؟“ آ ج کا مسلمان کلمہ شہادت، نماز، روزہ، حج، زکوٰة اور عبدالرحمٰن ہوتے ہوئے اس بات سے انکاری ہے کہ وہ اپنے کفر کے باعث گررہا ہے۔اُس کو آج کا کافرِاسلام کہنا اُس کے تن بدن میں آگ لگادیتا ہے اُس کو معلوم نہیں رہا کہ تین سو برس پہلے اسلام کے اِن پانچ رکنوں کا رنگ اور تھا اور اِنکی باندھی ہوئی ہوا اور تھی۔اُ س کلمہ شہادت میں خدا کے خدا ہونے کی گواہی ہردم اور صاف نظر آتی تھی۔اُس نماز، اُس روزے، اُس حج، اُس زکوٰة میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اجتماعی قوت کو ایک نظام میں لانے کی وہ عظیم الشّان طاقت عیاں تھی کہ کالجوں اور اسکولوں، انجمنوں اور مرثیہ خوانیوں، چندوں اور عقائد پر فرقہ بندیوں، بحثوں اور مناظروں کے نہ ہوتے ہوئے مسلمان ہندوستان کی وسیع سلطنت کے مالک تھے۔اُس عظیم الشّان حکو مت کے ہر شعبے کو حسنِ تد بیر اور خوبئ انتظام سے خود سنبھالتے تھے۔ آج کا مسلمان اگر ایک انجمن ایک کالج ایک سکول، ایک عقیدہ، ایک بحث کو سنبھالنے اور اپنے پسند کردہ ایک علاج کوبروئے کارلانے کے قابل نہیں رہا تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ وُہ تین سو برس پہلے کے اسلام کی صحیح تصویر کوجو ہندوستان میں نظر آتی تھی بھول چکاہے!

دین اسلام سپاھیانہ زندگی کے مترادف ہے

مسلمانو! اگر تم اپنی آنکھ سے پٹی ہٹاکرغورکرو تو سمجھ سکتے ہوکہ ہمارے باپ دادا نےاگردُنیامیں ایک ہزار برس تک دھڑلے سے بادشاہت کی، اگر ہمارے آباؤاجداد نے ہزاروں میل سے آکر ہندوستان کی سلطنت پر کئی حملوں کے بعد قبضہ کیا۔ اگر قرونٰ اولیٰ کے مسلمانوں نے٢١برس میں۳۶ہزار شہر اور قلعے فتح کئے۔اگردینِ اِسلام کے پہلے دعویدار بلاناغہ ایک دن میں نونو شہر اور قلعے فتح کیا کرتے تھے، تو اُس اسلام اور آج کے اسلام میں زمین وآسمان کا فرق ہوگا ۔ غور کرو کہ کیا سلطنتوں کو فتح کرنا ہاتھوں اور پیروں کے بے پناہ اور متواتر عمل کے بغیر ہوسکتا ہے؟ کیا بہادری، بے خوفی، آپس میں کامل محبت، سردار کی مکمل فرمابرداری، تلوار چلانے کے ہنر میں کمال ہزاروں میل کے پیدل سفربرداشت کرنے کی قابلیت، بھوک اور پیاس پر صبر ، میدان ِجنگ میں مارنے اور مرنے کی تمنّا، الغرض مکمل سپاھیانہ قابلیت حاصل کئے بغیر ہمارے باپ دادا چھوٹے سے چھوٹا قلعہ فتح کرسکتے تھے؟ کیا اُس زمانہ کے مسلمانوں کو ادنیٰ سی فرصت بھی کسی عقیدے پر بحث کرنے یا کسی انجمن اور اسکول بنانے کے لئے ملتی تھی؟ کیا عرب جب تک دنیا کو زیر نگیں کرتے رہے کسی کالج یا سکول یا یونیورسٹی سے پڑھ پڑھ کر فتح کرتے رہے؟ کیا یہ سب کے سب سپاہی جنہوں نے دنیا کی حکومتیں زیرو زبر کردیں ، پانچ نمازیں نہیں پڑھتے تھے؟ تیس روزے نہیں رکھتے تھے؟ حج کو نہیں جاتے تھے، زکوٰة ادا نہیں کرتے ،کیا اِن کو اپنی روزی کی فکر نہیں تھی،کیا ان کی تجارتیں نہ ہوتی تھیں ،کیا وُہ سب کے سب بیوی، بچے، باپ بھائی، عزیز اقارب نہ رکھتے تھے، کیا ان کی” مجبوریاں “اور مصروفیتں نہ ہوتی تھیں ۔کیا اِن سب فرائض کے ادا کرلینے کے بعد اُن کا دِن رات کا عمل یہ نہ تھا کہ تلوارہا تھ میں لے کر اﷲ زمین پر قبضہ کریں ۔کیا خاوند سے بیوی کی اِس طرح کی محبت ہوتی تھی جو آج کل ہے۔ کیا بیٹا اِسطرح باپ کو گلے لگائے رکھتا تھا، جیساکہ آج ہر گھر میں ہے۔کیا مسلمانوں کی کروڑوں روپیہ کی تجا رتیں اُن کو اِس طرح نا کارہ اور اپاہج کردیتی تھیں، جس طرح کہ آجکل ایک چھوٹی سی دکان مسلمان کو کردیتی ہے۔ کیا مسلمانوں کی اپنی لاکھوںروپیہ کی جائیدا اُس کے اعضاءکو اِس طرح شل کر دیتی جس طرح کہ ایک بوریے کی محبت آج اوسط مسلمان کو کردیتی ہے، نہیں کیا اُس وقت کے مسلمان نماز، روزہ، حج، زکوٰاة ادا کرنے بعد اپنے اسلام پر اسِی طرح مطمعین اور مغروُر (یعنی دھوکہ کھائے ہوئے) تھے جس طرح آجکل کے مسلمان ہیں۔ نہیں کیا اِسی نماز، روزہ، حج زکوة، کا عملی نتیجہ سپاہیانہ زندگی نہ تھا۔ کیا نماز، روزہ، حج، زکوٰة اسی سپاہیانہ زندگی کو پیدا کرنے کے اوزار نہ تھے۔ کیا ہر مسلمان نماز پڑھنے کے بعد یہ نہ سمجھتا تھا کہ خدا مسلمانو ں کو ایک صف میں کھڑا کرکے سپاہی بناناچاہتا ہے۔ اپنے آگے جھکا کر غیر اﷲ سے باغی کرناچاہتا ہے ۔ اپنا سجدہ کراکر بیوی اور بچوں ، مکانوں اور باغیچوں بوریوں اور چیتھڑوں کے آگے سجدہ کرانا نہیں چاہتا، نماز میں یکساں حرکتیں کراکر سب کو یک عمل اور متحد کرنا چاہتا ہے ۔کیا روزہ رکھ کر مسلمان اُس وقت نہ سمجھتا تھا کہ یہ روزہ رکھنے کی عادت کسی قلعہ کو فتح کرنے کے دن کام آئے گی۔زکوٰة دینے کے وقت یہ نہ جانتا تھا کہ یہ روپیہ تلواریں اور توپوں پر خرچ ہوگا۔ حج جاتے وقت یہ نہ جانتا تھا کہ دُنیا کے تمام مسلمانوں کی کانفرنس پر عام مسلمانوں کی کسی بگڑی بنانے، مسلمانوں کی عالمگیر شوکت کا اندازہ کرنے،یاکفرکےخلاف کسی بڑی سازش میں شریک ہونے کےلئے جارہاہوں۔ حضرت امام مالک کے والد اٹھارہ برس تلوار لے کر گھر سے کئی سو میل دور اسلام کی لڑائیاں لڑتے رہے ۔ مالک رخصت کے وقت کوئی دس بارہ برس کے ہوں گے۔ اِس اٹھارہ برس کی مدت میں ماں کی تربیت اور تعلیم نے حضرت کو بغداد کا قاضی القضاد کردیا۔اٹھارہ برس کے بعد اِس کے مجاہد والد نے گھر پہنچنے سے پہلے جمعہ کی نماز بغداد کی جامع مسجد میں پڑھی۔ قا ضی القضاد کا جلال دیکھا کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع اُس کے گرد دم بخود بیٹھا تھا ، لیکن خبر نہ تھی مالک اُس کا بیٹا ہے۔ نماز ادا کرکے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ بیوی نے اٹھارہ برس تک خاوند کو نہ دیکھاتھا۔ اِس لئے دروازے کی درَز سے نہ پہچان سکی بالآخرخاوند نے کئی ایک پتے دے کر بیوی کو دروازہ کھولنے پر راضی کیا۔ کچھ دیر کے بعد پوچھاکہ مالک کہاں ہے ۔ ماں نے فخر یہ جواب دیا کہ نماز جمعہ ادا نہیں کی اور اپنے قاضی القضاد بیٹے کے جلال کو دیکھ کر نہیں آئے۔ باپ یہ سن کر شُشدر رہ گیا ۔واپس مسجد میں گیا اور جب گھنٹوں کے بعد لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو رعب وجلال سے خوف کھاتے ہوئے بیٹے سے بلغلگیر ہوا، اور دونوں آبدیدہ ہوگئے!

اسلام کا پہلانقشہ

مسلمانو! اِس ایک خاندان کی زندگی پر غور کرو کہ مسلمان کسی زمانے میں کیا تھے؟ سوچو کہ باپ کو اِسکے سو ِا دُھن نہ تھی کہ اپنی زندگی تلوار کے جہاد میں صرف کرے۔ ماں ایسی حوصلہ مند تھی کہ خاوند کی غیر حاضری کو اٹھارہ برس تک محسوس نہ کیا۔اِس پائے اِس درجے اور دھڑلے کی عورت تھی کہ بیٹے کوبہترین مقام پرپہنچا دیا۔ باپ کو اسلام کے مقابلہ میں بیٹے کی کچھ پرواہ نہ تھی۔ ماں کی عظمت اُس کی عفِت اور پاک دامنی اُس کی اولاد کے متعلق فرض شناسی، اُس کا خاوند کی غیر حاضری میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ،اُس کا خاوند کی راہ میں روک نہ ہونا، بیٹے کا باپ کی غیر حاضری میںماں کے حکم کے تابع رہنا۔الغرض ایک ہزار سال پہلے کے اسلام کی ایک تصویر اس چھوٹے سے قصے سے عیا ں ہے۔ باپ کا عمل، ماں کا عمل، بیٹے کا عمل، سب کچھ اِس چھوٹی سی تصویر سے ظاہر ہے۔ آج یہ افسانہ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تخیل بگڑچکا ہے۔ مسلمانی کی تصویر کسی کو یاد نہیں رہی۔ مسلمانی آج اس میں ہے کہ باپ، ماں ،بیٹا، سب کے سب ایک دوسرے کی نامناسب محبت میں پھنس کر تمام اعضاءکو شل کردیں۔ قوم کے لئے کوئی مفید کام نہ کرسکے، سب کے سب ”مُردار “ دنیاکے پیچھے کتوں کی طرح لگ جائیں تاکہ سلطنت، حکومت اور غلبے کا آخری نشان مٹ جائے۔”دنیا “ فی الحقیقت مُردار ہے کیونکہ اس کا طلب کرنے والا بے کار ہو ہو کرمُردہ ہو جاتا ہے ۔ قو م کو مُردہ کردیتا ہے ۔ مسلمان آج دنیا کا طالب اس قدر ہے کہ ایک چیتھڑے اور بوریے کی محبت، بیوی اور بچے کا ایک چھوٹا سا عذر ، نفس کا ایک ادنیٰ سا” بہانہ“ ،اُسکے تمام اعضاءکو حرکت سے روک دیتا ہے۔ مسلمان کو دنیا کی سلطنت آج اس لئے نہیں ملتی کہ وہ دنیا کا طالب بے حد ہے۔ چو بیس گھنٹے اِس ”مُردار“ کی طلب میں ہے ،دنیا اسی قوم کو ملتی ہے جو دنیا کی عاشق نہ ہو۔ زندہ قومیںزندہ اس لئے ہیں کہ اُن میں خد اکے تکلیف دِہ حکموں کے سوا کسی شے کی محبت نہیں ہوتی۔ اِن میں مال ودولت ، فرزند وزن ، جاہ وغرض کے بُت اکثر نہیں ہوتے۔ وُہ صرف خدا کو ”مانتی “ ہیں ۔ خدا کے سوا کسی کے حکموں کو نہیں مانتیں۔ قرآن نے صاف کہہ دیا تھا کہ مسلمانو! تمہارے مال اور اولاد صرف ایک فتنہ ہے۔ ہم انہیں دیکر آزماتے ہیں کہ تم اِن کی محبت میں کس قدرپھنستے ہو۔ ورنہ یادرکھو کہ ہم دنیا میں عروج اُسی قوم کو دیں گے جو اِن کی محکو م نہ ہو۔ میری محکوم، میری غلام اور میری تابع فرمان بنکررہے! قُرون اُولیٰ میں مسلمانوں کی سپاہیانہ زندگی الغرض جُوں جُوں اسلام کی تلاش میں پیچھے ہٹتے جاؤگے، مسلمان کی سپاہیانہ زندگی دینِ اسلام کا سب سے بڑا جزو نظر آئے گا۔ مسلمان کے متعلق معلوم ہوگا کہ سر سے پاؤں تک ہر وقت کسَارہتاتھا۔ تلواراس کے زیب تن رہتی تھی ۔قرآن اس کی بغل میں ہوتا تھا۔ خدا کے سوا سب شے اس کے سامنے ہیچ اور ناقابل ِاطاعت تھی ،کسی ماسوا سے لگاؤ نہ تھا، تمام مسلمانو ں سے خداواسطے کی محبت تھی۔ ہر ایک پر نیک گمان تھا ۔ مال، اولاد، ماں، باپ، زن وزرسے صرف اِس لئے لگاؤ رہا تھا کہ قوم کی ترقی کے راستے میں حائل نہ ہو ں ۔ نفس کو ادنیٰ سا آرام نہ دیتا تھا۔ محنت اور مُشقت کا عادی تھا۔ حیا سے غیر اور غیر کے مال پر آنکھ نہ اٹھاتا تھا، اپنی جان کو اسلام کی حفاظت کے بالمقابل بے قدراور قیمت سمجھتا تھا۔ بادشاہت اور حکومت اُس کی تھی۔ اس لئے شاہ نظر اور شاہ کرم ہُو ا کرتا تھا۔ نماز ، روزہ ، زکوٰة اور حج کو تمام دنیا سے جنگ کرنے کا اوزار سمجھتا تھا، تمام دنیا کی حکومت حاصل کرنا اسکے پیش نظر تھا۔ یہ سبق تھا جو ہادی اسلام اور اس کے لائے ہوئے قرآن نے مسلمان کو براہ راست دیا۔یہی خدائے عظیم کے آخری رسول کی ٣٢ برس کی مکّی اور مدنی اور زندگی کا ماحصل تھا۔ یہی اُسوہ رسول تھا ۔ یہی مذہب اور دین تھا۔اِسی مذہب، چلن اور اخلاق کے پیدا کرنے کے لئے رسول بھیجے گئے تھے۔ قرآن نے صاف اور غیر مشکوک الفاظ میں اعلان کردیا تھا کہ رسول کو ہدایت اور دین ِ حق دے کر صرف اس غرض وغایت کے لئے بھیجا گیا کہ اس دین کو تمام دنیا کے دینوں پر غالب کردے۔ خواہ یہ روئے زمین پر چھاجانا کافروں کو بُراکیوں نہ لگے۔

ھُوَالّذِی اَرُسَلَ رَسُولَہ‘ بالھُدَیَٰ وَدِینِ الحّقِ لِیُظھِرَہ علَی الدِّیُن کُلِّہ وَلَوُکَرَہَ الُمشرِکُوَن۔

کیا قرآن کریم کی اس نصّ صریح کے بعد دین ِاسلام کی ماہیت کے متعلق کو ئی شک باقی رہ سکتاہے؟


قرآن کی صِحیح تعلیم

اگر یوم میلادِ النبی کودُنیا کے آخری پیغمبر کی سیرت پر کوئی غور و خوض نتیجہ خیز ہوسکتا ہے تو مسلمانو! اِس امر پر غو ر کرو کہ اس پیغمبر کی تعلیم کیا تھی؟ اس کا لایا ہوا مذہب کیا تھا؟ مذہب سے ہر انسان کی تمام زندگی کا لگاؤ ہے۔ ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بدُھ وغیرہ وغیرہ سب اسی اُلجھن اور معمے میں اپنی زندگی گزارہے ہیں کہ اُن کا مذہب سچا ہے۔ سب کے سب فرضی اطمینان میں ہیں کہ جو کچھ کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں۔ لیکن مسلمان تمہارا پیغمبر کی سیرت کا ایک ایک لفظ واضح ہے تمہارے پیغمبر کا چھوٹے سے چھوٹا عمل تاریخ کے اوراق پر صاف لکھا ہے۔ تمہارے سامنے قرون ِ اولیٰ کے مسلمانوں کی عملی زندگی روشن حروف میں لکھی ہے ۔ تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبر کے وصال کے بعد تمام دنیا میں چھاگئے تھے۔ ان کا منتہا کئی سو برس تک یہی رہا کہ دُنیا کی تمام اقوام پر غالب آجائیں۔ تمہارے قرآن کے ایک ایک ورق پر صاف لکھاہے کہ ”مومن وہی ہے جو اپنامال اور اپنی جان جہاد بالسیف کرنے کے لئے تیار رکھتے ہیں“۔ تمہا رے قرآن میں جنت حاصل کرنے کی صاف شرط دشمن سے میدان جنگ میں لڑنا لکھی ہے ۔ تمہارے پیغمبر نے اپنی زندگی میں دشمنوں سے کئی غزوے کئے۔ اِن غزووں میںوہ بذاتِ خود خود شریک ہوئے۔ میدانِ جنگ میں خود سب سے آگے رہتے۔ قرآن کریم نے میدان ِ جنگ میں شریک نہ ہونے اور عذر کرنے والوں کو جہنم کی دھمکیاں دیں۔ ایمان والوں کی تعریف صاف الفاظ میں کردی کہ’ اﷲنے میدانِ جنگ میں لڑنے کو مومنوں کے ایمان کا کافی ثبوت قرار دیا ہے’کَفَی اﷲُالمومِنینَ اُلِقَتال‘َ۔ تین چوتھائی کے قریب قرآن جہاد بالسّیف اور فتح وظفر کے مذاکروں سے پُر ہے۔ تمہا رے نبی کا قول ہے کہ میدانِ جنگ میں ایک رات بسر کرنا ستر برس کی عبادت کے برابر ہے ۔کیا قرآن وحدیث اور تاریخ اسلام کی ان صریح شہادتوں کے بعد تم اپنے مذہب کو معّمہ سمجھتے ہو۔دینِ اسلام کے متعلق دلوں میں شک پیدا کرتے ہو کہ وہ کیا تھا ۔مذہب کے متعلق اختلاف رائے کرکے فرقہ بندیاں پیدا کرتے ہو؟ مذہب سے انسان کی دلچسپی صرف اِس لئے ہے کہ ِاس پر چل کر موت کے بعد جنت ملے اور جہنم کی آگ سے نجات ہو۔ جب قرآن کے اندر صاف لکھا ہے کہ جنت اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ میدانِ جنگ میں جانیں دو، اور جہنم اُس بدبخت کے لئے ہے جو میدانِ جنگ میں جانے سے عذر کرتارہا تو کیا پھر مذہبِ اِسلام سپاہیانہ زندگی اختیار کرنے اور اُس کو تمام عمر نباہنے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے؟ کیا دینِ اسلام کے سچے اور عالم آرا ہو نے کا یہ کھلا ثبوت نہیں کہ جب سے انسان پیدا ہو ا ہے، فتح اُسی قوم کی رہی جس نے سب سے بہتر اور اور منظم تر سپاہیانہ زندگی اختیار کی۔ خدااُسی قوم کے ساتھ رہا جس نے مجاہدانہ طیرہ اختیار کیا ذلت اور مسکنت اُسی قوم پر لیس دی گئی جس کی جنگی طاقتیں مفقود ہوگئیں۔ کیا دینِ اسلام اور سپاہیانہ زندگی کے معنیٰ ہونے کی یہ روشن دلیل نہیں کہ جب مسلمانوں نے سپاہیانہ زندگی چھوڑدی، جب سے مذہب کو سپاہیانہ زندگی سے اور دین کو دنیا سے الگ کردیا، خدا مسلمانوں سے ناراض ہوگیا۔ خدا نے بیدریغ مسلمانوں سے سلطنتیں چھین چھین کر دوسری جنگی قوموں کے سپرد کردیں۔ کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سپاہیانہ زندگی کا چھوڑ دنیا دینِ اسلام کو چھوڑ دینے کے مترادف ہے؟“

مولویوں کی تحریف دین

مسلمانو! بصیرت کی آنکھیں کھولو! تمہارے پیشوا یانِ دین نے کئی برس سے صحیح اسلام کو مشکل سمجھ کرآسان اسلام اپنی طرف سے گھڑ کرلیا ہے! اب اس مذہب پر چل کر نہ کوئی دُنیوی ثواب مل سکتا ہے، نہ اُخری نجات۔ تمہا رے قرآن کا ایک ایک ورق جہاد اور عمل سے پُر ہے۔ سورتوں کی سورتیں ہیں جن میں قتال اور میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ پھیرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ مومنوں کے متعلق کہا ہے کہ ”اﷲنے جنت کے بدلے ان کی جان اور ان کا مال خرید لیاہے“۔ تو کیا ان الہیٰ تصریحات کے بعد مولویوں کے ”مومن“ کی تعریف تمہارے دل کو تسلی دے سکتی ہے؟ کیا اﷲکے اپنے کلام کے ہوتے ہوئے خداروز قیامت کو مولویو ں کی سند پر تمہیں مومن قرار دے سکتا ہے؟ کیا یہ سند اُس روزِ جزا وسزا کو کوئی کام آسکتی؟ رسول خدا خود اپنی بیٹی کو تنبیہہ کرتا ہے کہ”روز جزا کو میری شفاعت پر بھروسہ نہ کرنا“۔ اپنے متعلق قرآن میں کہتا ہے کہ ”مجھے یہ معلوم نہیں کہ روزِ جزا کو میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟“ اور تم مولوی کی غلط سند پر کہ اسلام چند مسائل شرعی وضع وقطع ، عقیدو ں، قولوں یا حد سے حد چند عبادتو ں کا مجموعہ ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو۔ یادرکھو کہ اگر مذہب اختیا ر کرنے کا مُدعا روزِ آخرت کو نجات ہے تو تم ان آسان اور حسبِ پسند باتو ں کے کرلینے سے خدا کی نظروں میں مسلمان نہیں بن سکتے، روزِآخرت کو اس کرتوت پر کچھ نہیںمل سکتا۔ تم صحابہ کرام سے زیادہ خدا کے لاڈلے نہیں ہو۔ غروہ اُحد میں جب بعض صحابہ نے کمزوری دِکھلائی اور مورچہ چھوڑ کر چلتے بنے تو خدا نے قرآن میں اِس سختی سے دھتکارا کہ اِس دھتکار کو یاد کرکے برسو ں تک حضرت عمر روتے رہے۔ جب خود صحابہ کرام بلکہ رسولِ خدا کو اﷲ کے احکام ٹالنے کی مجال نہیں تو تم اور تمہارے مولوی کس باغ کی مُولی ہیں کہ اپنی سند سے قرآن میں تحریف پیدا کردیں۔ اپنے عقائد وضع کرکے عقیدوں پر لفظی طور پر قائم رہنے کو اسلام سمجھیں۔ یادرکھو کہ تمام قرآن کے طول وعرض میں ”عقیدے“ کا لفظ کہیں موجو د نہیں، نہ اِس کا کوئی مشتق موجود ہے۔ قرآن میں صرف ایمان اور عمل صالح کے الفاظ ہیں اور جو معنیٰ اِن الفاظ کے ہوسکتے ہیں ایک دنیا جانتی۔

قُرونِ اُولیٰ کا مشکل اسلام

مسلمانو! یو م میلاد النبی کو دین اسلام سمجھنے کی تقریب بناؤ نبی کی ولادت کی سالگرہ کا مطلب یہ ہے کہ نبی کو سمجھو، نبی نے۲۳برس تکلیفیں جھیل جھیل کر جو کچھ عرب کی کافر اور منافق قوم میں پیداکردیا تھا اس کو نہ بھولو۔ نبی نے آٹھ برس مسلسل کوشش کے بعد صرف چالیس مرد اور پندرہ عورتیںمسلمان کی تھیں اِسکو نہ بھولو۔ گیارہ برس کی شبانہ روز محنت سے صرف چند مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے تیا ر تھے۔ اِسکو نہ بھولو۔ نبی نے تمام عمر رنج اور تکلیف میں کاٹ کر صرف چار یار پیداکئے تھے۔ اِسکو نہ بھولو نبی کی مدت العمر کی تکلیفوں اور زہرگداز محنتوں کے باوجود ان کی وفات کے عین بعد ہی سارا عرب نبی سے برگشتہ اور دین اسلام سے مرتد ہوگیا تھا۔ اِسکونہ بھولو، جب دنیا کے سب سے بڑے انسان کی تعلیم کو دنیا نے اس مشکل سے مانا اور اِس شکل سے اختیا ر کیا، توکیا دینِ اسلام ہمارے مُلاّوں کی بنائی ہوئی کوئی آسان چیز ہوسکتی ہے؟ کیا ہندوستان کے آٹھ کروڑ یادنیا کے ساٹھ کروڑ مسلمان صرف مسلمان کےگھر پیداہوکرمسلمان بن سکتے ہیں؟ دینِ اسلام یہ تھا کہ مسلمانوں کا جابراورتُندخُوجرنیل عمر مدینہ میں امیر المومنین ہے ۔امیر المو منین ہونے کے باوجود کھجور کے درخت کے نیچے سخت تپش میں کھجور کی چٹائی پر بیٹھا ہے ۔ جسم پر لیٹنے کے باعث بدھیاں پڑی ہیں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے چیتھڑوں کے پرتلوں میں حمائل کی ہوئی تلواریں اور کُندتیروں سے مدینہ سے ڈیڑھ ہزار میل دُور، داراوجمشید اور کیقباد کی سلطنت پر حملہ کیا ہواہے۔ روزانہ اُونٹنی سوار قاصد اور برق رفتار گھوڑوں کے شہسوار مخبر فاروق اعظم کے حضور میں میدانِ جنگ کی خبریں اور فوجو ں کی تقسیم کے احکام لینے کےلئے پہنچتے ہیں۔ نقشہ جنگ زمین پر پڑا ہے۔ عمر نماز ظہر کے بعد اِس فکر میں ہے کہ شاہِ ایران یزد جُرد کو ہتھکڑی لگانے کے لئے فلاں بیس ہزارفوج کس طرف سے روانہ کی جائے۔ قاصد امیر المومنین کے جلال کے سامنے دم بخود حکم کا منتظر کھڑا ہے۔ عمر ڈیڑھ ہزار میل دور بیٹھے حکم دیتاہے کہ ”بیس ہزار کے فلاں دستے کوفلاں فلاں راستے سے فلاں مقام پر منتقل کرکے ہلّہ بول دیا جائے۔”غور کا مقام ہے کہ یہ حکم پہنچتا ہے اورکالے کوسوں دوراِس حکم کی تعمیل اِس طرح ہوتی ہے کہ گویا عمر میدانِ جنگ میں کھڑا گھُوررہا ہے۔ دین اسلام یہ تھا کہ اسی جنگ کے دوران میں قاصد نے اطلاع دی کہ مسلمانوں کے سالارِ اعظم سعد ابنِ وقاص نے ملاقاتیوں کے ہجوم سے گھبرا کر یا شاید اپنے وقار کو زیادہ کرنے کے لئے کچی ڈیوڑھی بنالی ہے تاکہ لوگ اس میں آکرملاقات کے لئے انتظارکریں۔ ایک خبر تھی کہ سعد کے بدن پر ریشمی کُرتا نظرآتاہے۔ فاروق اعظم کا چہرہ ان خبروں کو سُن کر تمتمااُٹھتا ہے عین وسط جنگ میں(اوردر انحالیکہ ایران ابھی مکمل طور پر فتح نہیں ہوا تھا ) قاصد کو حکم ملا کہ سعد کی گردن میں اس کا عمامہ ڈال کر مدینہ حاضر کرو! میرے چھوٹے سے دماغ میں کئی برس تک نہ سعد کا جرم ، نہ عمر کا حکم ، اس کی سزا کی نوعیت سمجھ میں آئی۔ میں سٹ پٹاتا رہا کہ الہیٰ ! اس چھوٹے سے جرم پر اتنے بڑے جرنیل کو یہ توہین آمیز سزا عین اس وقت جب کہ ایران میں مسلمانو ں کی ایک لاکھ بیس ہزار فوج موجود تھی اور ادنیٰ سی سختی بھی دو ہزار میل دور فاروق اعظم سے تمام مسلمانوں کی بغاوت کا پیش خیمہ ہوسکتی تھی۔ کئی برس کی سوچ بچار کے بعد اس ہوش رُبانتیجہ پر پہنچا کہ اِس وقت کا مسلمان ، مسلمان تھا ۔ پنجاب اور ہندوستان کے فتنہ ساز اور ناکارہ مسلمان نہ تھا۔ مسلمانوں میں نظام خدا کو پیشِ نظر رکھ کر پیدا ہوا تھا ۔ مسلمان کا خدا اور صرف خداحاکم تھا۔عمر اور سعد حاکم نہ تھے عمر اگرحکم دیتا تھا تو خدا کے لئے اور سعدتعمیل کرتا توخداکے لئے، مسلمان اگر دم بخود رہتےتھے تو اﷲکی رسی ّ کو پکڑ کر۔ جب تک اسلام کے موجودہ تخیل کو دماغ سے قطعًا علیحدہ نہ کیا واقعہ قطعًا سمجھ میں نہ آیا۔ الغرض دین اسلام یہ تھا اور اس شان سے صفحہ وجود پر چمکا کہ دماغ کی آنکھوں کو چکاچوند کر گیا !

دین اسلام اور اطاعتِ امیر

مولوی تمہیں یہ کہکر ٹال دیتا ہے کہ یہ سب اگلے وقتوں کی کہانیا ں ہیں اور معاذ اﷲصحا بہ کرام کی ہم پلگی کا دعویٰ کیسے ہوسکتا ہے مسلمانوں! سوچو اگر نبی کریم کا لایاہُوا مذہب یہ کچھ نہ تھا اور نرے چند عقیدے رکھ کر اور مسئلے مسائل پڑھ کر جان کاچھٹکارا ہوسکتا تھا توصحابہِ کرام کو کیا پڑی تھی کہ اِس مشکل مذہب پر چلیں ۔ سعد کو کیا پڑی تھی کہ بے چُون وچرا اپنے امیر کا حکم مانتا۔ ایک لاکھ بیس ہزار فوج کو کیا پڑی مجبوری تھی کہ فاروق اعظم کا حکم دم بخود سنتی اور اپنے جرنیل کی انتہائی رسوائی اِس معُمولی جُرم پر گوارا کرتی کہ اُس نے ریشمی کُرتہ پہن لیا ہے۔ آج عام مسلمان صرف پانچ نمازیں پڑھ کر اور شرعی ڈاڑھی رکھ کر تمام باقی مسلمانوں سے بپھرا پھرتا ہے اور کسی دوسرے شخص کے اسلام کو خاطر میں نہیں لاتا۔ صرف چندسطحی باتیں کرکے باقی سارے قرآن پر عمل کرنا ضروُری نہیں سمجھتا۔ سوچو کہ اُس وقت کے سب مسلمان نمازیں بھی پڑھتے تھے پھر کیا اشد شدید مجبوری تھی کہ سب کے سب عمرکے حکم کو سُنکر لرز گئے، کیا نفس پتلا کردیا تھا کہ سعد نے اتنے رُسوا کن حکم کے آگے گردن جُھکادی۔ حضرت عمرکے خالد بن ولید کو عین میدانِ جنگ میں معزول کرنے کا واقعہ مشہور تاریخی واقعہ ہے۔ مسلمانوں کے سالارِ اعظم خالد بن ولید کو (خد اکی رحمت ہو اُس پر) کیا مجبوری تھی کہ میدان ِجنگ سرکرلینے کے فوراًبعد یہ اپنی کمان ابوعبیدہ کودے دی۔ خود سپاہیوں کی قطار میں شامل ہوگیا۔ اپنے نفس کو خدا اور اسلام کی خاطر اس قدر پتلا کردیا کہ آج دنیا اس تہور اور شجاعت پر دنگ ہے۔ نہیں صاف نتیجہ یہ کہ اُس وقت امیر کی کامل اطاعت دین اسلام کا سب سے ضروری حصہ سمجھاجاتا تھا۔ دین اسلام کا دوسرا نام تھا، ہر مسلمان کی گھُٹی میں رسولِ خدا کی۲۳برس کی تعلیم نے یہ بات ڈال دی تھی کہ اگر مسلمان بننا چاہتے ہو تو جو حکم ملے کرو، بہر حال خاموش رہو۔ نظام میں فساد پیدا نہ کرو نماز، روزہ، حج، زکوٰة سب اِس لئے ہیں کہ تم میں یہ بلنداخلاق پیدا ہوجائے!

خاکسار تحریک میں عملی مشکلات !!

آج جبکہ خاکسار تحریک چار برس سے جاری ہے میں دربدر ایک ایک محلہ میں پھر رہا ہوں، ایک ایک تیس مار خان کے پاؤں کے نیچے اپنا سر رکھ کر اس کو آمادہ کرتا ہوں کہ خدااور رسول کے واسطے مسلمانوں کی قطار اپنے محلے میں کھڑی کرو۔ وہ میری منتوں کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے کھڑا ہوجاتاہے۔ جب تک منتیں کرتاہوں کھڑا رہتا ہے ۔ جب کسی اورطرف چلا جاتاہوں ناراض ہوجاتا ہے۔ اس سعی میں لگارہتا ہے کہ جھوٹ سچ میرا کوئی عیب نکال کر میرا مُنہ کالا کرے اور جماعت سے نکل کر چلتا بنے۔ خاکسار تحریک میں طبعًا یہ چاہتا ہوں کہ سعد اور خالد (خواہ ادنیٰ درجہ کے ہی ہوں) پیداہوں۔ اس لئے بعض پرانے گرم وسرددیدہ سالاروں پر کچھ سختی کرنے کا ارادہ کرتا ہوں، اِدھرمیری سختی ہوئی اور اُدھر یہ سالار اور خاکسار واویلا مچادیتے ہیں اور شرمناک الزام مجھ پر لگاکر میرا منہ کالا کرتے ہیں۔ لاہور کے ایک پرانے سالار نے ابھی ابھی مجھ پر وہ شرمناک اور نرِا جھوٹاالزام لگایا اور اُ س کی وہ تشہیر کی کہ میں اس کے مُوجدِ فساد نفس کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ ِاس لئے کہ اس سالار کو نماز کے وقت کی پابندی کے لئے سختی سے کہا گیا تھا۔ الغرض یہ مسلمان کا اخلاق اور آج کل کا اسلام ہے۔ خاکسار تحریک میں کئی برس منجھ کر بھی ابھی ہمارے سالار نہیں سمجھے کہ اسلام کیا ہے۔ مجھ میں حوصلہ اس لئے ہے کہ:

باد ہمیں مردماں بیاید ساخت “کو پیش نظر رکھ کر چلاجا رہا ہوں۔ خدا تیئس برس نہ سہی پچاس برس کے بعد کچھ نہ کچھ بناکر رہے گا۔


قرآن کا اصلی اور نبوئ اسلام

الغرض مسلمانو ! اگر اس دنیا میںاپنی گذشتہ عظمت اور بادشاہت کو پھر لینا چاہتے ہو۔ اگر آگے چل کر روزِقیا مت کو کسی قسم کے ادنیٰ ثواب کے منتظر ہو تو قرآن کو خود دیکھ کر نئے سرے سے مسلمان بنو۔ قرآن خوش قسمتی سے وہ کتاب ہے جس کا آج تک ایک حرف نہیں بدلا معمولی سااردو ترجمہ لو جس پر کسی مولوی یا ملونا کسی مفسر یا محدث کی کوئی حاشیہ آرائی نہ ہو۔ صرف اس بات کو مدِنظر رکھو کہ قرآن حکموں کی کتاب ہے، عقیدوں اور مناظروں کی کتاب نہیں۔ اِس کا ہر حکم اﷲکی طرف سے ہے۔ اس لئے ہر حکم دُوسرے ہر حکم کے برابر ہے۔ اس میں صرف نماز اور روزے ، حج اور زکوٰة ہی حکم ہی نہیں ، بلکہ بہت سے اور ایسے حکم ہیں جو ان سے بدرجہا ضروری ہیں۔ اس میں بیسیوں احکام ایسے ہیں جن کے نہ کرنے کی سزا جہنم ہے ۔جن کے کرنے کی جزا جنت ہے۔ جتنی سخت سزا ہے، اتنا ہی ضروری حکم ہے۔ اور اُس جرم سے اُتنا ہی بچتے رہنا صحیح مسلمانی ہے ۔ تمہیں قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوجائے گا کہ اس میں نہ کسی ڈاڑھی کا ذِکر ہے، نہ لمبی ڈاڑھی کا، نہ چھوٹی ڈاڑھی کا، نہ مونچھوں کے تراشنے کا، نہ ڈھیلے اور استنجا کا، نہ ٹخنوں کے اوپر پاجاموں کا، نہ تہمد کا، نہ گیا رھویں شریف، نہ مردے پر قرآن پڑھنے کا، نہ مولوی کو کفن کی چادر دینے کا، نہ شب برات کے حلوے کا، نہ عاشورے کی حلیم کا، نہ عید کی روٹیوں اور سویّوں کا! اس میں جہاد میں جم کر لڑنے کی جزا جنت لکھی ہے۔ اﷲ کیا راہ میں جان لڑدینے کی جزاجنت ہے۔ آپس میں محبت اور اتحاد عمل کی جزا جنت ہے۔ اسلام کی خاطر ترکِ وطن اور ہجرت کرنے جزا جنت ہے۔ خداکے سوا کسی غیر اﷲکے محکوم نہ بننے (یعنی شرک نہ کرنے)کی سزا جنت ہے۔ اپنے امیر کی کامل فرمانبرداری کی جزا جنت ہے۔ دنیا میں غالب اور سردار بن کر رہنے کی جزا جنت ہے۔ دین میں فرقہ بندی اور نفاق پیدا کرنے کی سزا جہنم ہے۔ نفاق پیدا کرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے۔ میدانِ جنگ سے بھاگ جانے والے اور پیٹھ پھیرنے والوں کی سزا جہنم ہے، میدانِ جنگ میں جانے کے متعلق عذر کرنے والوں کی سزا جہنم ہے۔ جنگ کے وقت گرمی سردی کا عذر کرنے والوںکی سزا جہنم ہے۔ جنت کے متعلق صاف لکھا ہے کہ صرف ان لوگو ں کو مل سکتی ہے جو جہاد بالسیف کرتے ہیں۔ اپنے امیر کی نافرمانی کرنے والوں کر نے والوں کی سزا جہنم لکھی ہے۔ امیر کے حکم کونہ سننے والی قوم کو بدترین حیوان لکھا ہے ۔شرک کرنے والوں کی سزا جہنم ہے علم والوں کی جزا جنت ہے۔ جاہلوں کی سزا جہنم لکھی ہے۔ جو یوم آخرت پر یقین کرکے نیک عمل نہ کریں اُن کی سزا جہنم ہے۔ جنت اور جہنم انتہا ئی جزا یا انتہائی سزا ہے ۔ کم درجے کے جرموں یا نیکیوں کی سزائیں اور انعام اِن مذکورہ بالا سزاؤں یاجزاؤں سے زیادہ حیرت انگیز ہیں مثلاً زنا کی سزا صرف سو کوڑے لکھی ہے ۔ شراب پینے کی سزا کچھ نہیں لکھی،صرف لکھا ہے کہ اس سے بچتے رہو۔ یہ شیطانی گندگی ہے ۔ اِس کا گناہ اِس کے نفع سے زیادہ ہے۔ جو شخص کبھی کبھی نماز قضا کردے اس کی سزا نہیں جو حج نہ کرے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا ۔ جو مال حرا م کھائے اُس کو کبیرہ گناہ کا مرتکب کہا ہے۔ گویا اُس کے لئے جہنم ہے۔ مالِ یتیم کھانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ گویا یتیم خانے چلانے والے پیشہ وَر لوگوں کے لئے جہنم ہے۔ چندہ خور لیڈروں اور کونسلوں کی شِہ دے کر قوم سے پیسہ بٹورنے والے حرام خوروں کی سزا جہنم ہے۔ مال حرام کھانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ گویا انجمنیں چلانے والے پیشہ وروں کی سزا بھی جہنم ہے۔ کہہ کر پھر نہ کرنے والے کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کہا ہے۔ اس کی سزا بھی جہنم ہے۔الغرض قرآن میں جس طرف بھی نظر کرو گے مولویانہ اسلام ہرگز نہ پا ؤگے۔ صرف عملی اسلام پاؤگے ۔ قومی اور اجتماعی گناہوں کی سزا جہنم پاؤگے ،شخصی اور انفرادی گناہوں کی سزا ہلکی پاؤگے ، میدانِ جنگ میں بزدلی سے بھاگنے کی سزا شدید پاؤگے۔ امیرکی نافرمانی پر خدا کو بڑا ناراض اور بے حد انتقام لینے والا پاؤگے۔ قرآن میں یہ لکھا پاؤگے کہ جس قوم نے قرآن کے ایک حصہ پر عمل کیا اور دُوسرے حصے سے بھاگی اس کی سزا اس دنیا میں رسوائی اور آگے چل کر جہنم ہوگی۔ یہ اس لئے کہ خدا کے سب حکم یکسا ں طور پر ضروری ہیں۔ زنا سے بچنا ، شراب نہ پینا، نماز پڑھتے رہنا بھی اس قدر ضروری ہے جس قدرکہ میدانِ جنگ میں بہادری سے لڑنا خواہ ان چھوٹے چھوٹے جرموں کی سزا تھوڑی ہو! الغرض قرآن کو اول سے آخر تک بچشمِ خود دیکھو گے اور کسی مولوی یا مُلا سے نہ پوچھو گے کہ اسلام کیا ہے تومسلمانو! تم کو صاف نظر آئے گا کہ اسلام صرف اور صرف سپاہیانہ زندگی کا دوسرا نام ہے! اس مذہب کو پیش نظر رکھ کر سب کے سب خاکسار تحریک میں شامل ہوجاؤ۔پھر دیکھو تمہاری دینوی اور اخروی نجات کیونکر ہوتی ہے۔

علامہ عنایت اللہ خان مشرقی

Allama Mashriqi's Pridiction about 1970-71 at Manto Park Lahore 1956


مفکرعالم حضرت علامہ المشرقی نے منٹو پارک لاہورسقوط ڈھاکہ کے بارے میں ۷۱-۱۹۷۰ ء میں درپیش آنیوالے حالات وواقعات کی پیشنگوئی فرمائی اور ان سے نپٹنے کی راہیں واکردیں ۔ خطاب کا ایک حصہ درج ذیل ہے۔

         مسلمان بھائیوں! میں نے مسلمان قوم کی حالت دیکھتے ہوئے کافی سوچ بچار کے بعد ۱۹۳۱ میں خاکسار تحریک شروع کی تھی جس کا مقصد دنیا میں غلبہ اسلام تھا اور دنیا میں مسلمان قوم کی بادشاہت قائم کرنا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ ہندوستان کا مسلما ن سپاہیانہ زندگی اختیار کرکے آنے والے حالات میں اپنی عزت، جان ومال کو بچاسکے اور مسلمان منظم ہوکر انگریز سے اپنا حق چھین لے اور ہندوستان پر بادشاہت بھی مسلمان کو ملے۔ مگر مسلمان قوم نے میری بات پر توجہ نہیں دی۔ ماسوائے اس کے مجھے پاگل اور دیوانہ سمجھتی رہی جس کا نتیجہ یہ نکلا تقسیم کے وقت مسلمان قوم کو ستر ہزار عصمتوں اور لکھوکھہا انسانوں کی کی قربانی دینی پڑی۔ تقریباً دو کروڑ انسانوں کو گھر بار چھوڑنے پڑے۔ سوا تین کروڑ مسلمانوں کو ہندو کی غلامی اختیا ر کرنی پڑی اتنا بڑا عذاب شاید ہی کسی قوم پر خدا کی طرف سے نازل ہوا ہو۔ میں نے حکومت وقت کو کئی با ر مطلع کیا۔ ۱۹۴۸ء میں مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں پیش کرنے کی مخالفت کی کہ اگر یہ مسئلہ سلامتی کونسل میں چلاگیا تو قیامت تک حل نہ ہو سکے گا۔ حکومت ِوقت کو بزور ِ جہاد کشمیر حاصل کرنے کے لئے کہا گیا کہ کشمیر کو ہر حالت میں حاصل کیا جائے۔ اگر کشمیر کو حاصل نہ کیا گیا تو انڈیا تمام دریاؤں کے رخ انڈیا کی طرف پھیر لے گا۔ مگر مجھے ایک مجذوب کی بڑ سے نوزاگیا اور برسر اقتدار طبقہ کے حکم پرڈیڑھ سال کےلئے بغیر مقدمہ چلائے جیل میں ڈال دیا۔ پھر مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستا ن کو آپس میں مضبوط اور طاقتور ایک جان دو قالب میں منقسم کرنے کے لئے پروگرام دیا کہ دونو ں طرف سے تقریباً دس لاکھ انسانو ں کو دونو ں طرف آباد کر دیا جائے تاکہ ان کی تہذیب، کلچر، رہن سہن مشترک ہوجائیں، شادی بیاہ کے بندھن میں ایک دوسرے سے لگاؤ کریں تاکہ کوئی بھی طاقت ملک کے دونوں حصّوں کو آپس سے علیحدہ نہ کر سکے۔ اس پر بھی گورنمٹ نے توجہ نہ دی“ ۔
        مسلمانو! میں تمہیں خبردار کرتا ہوں کہ ایسا دور آنے والا ہے جوکہ غالباً ۷۱-۱۹۷۰ء کا دور ہوگا۔ اس دور میں میری نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ ہر طرف ایک یورش کا طوفان اٹھ رہا ہوگا۔ ملک کے اندورنی حالات بڑے خراب ہوں گے۔ خو ن خرابہ کا ہر وقت خدشہ ہوگا۔ نسلی اور صوبائی تعصب کو ہر جگہ ہوا دی جارہی ہوگی۔ زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے ہوں گے۔ ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے پروگرام بن رہے ہوں گے، میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر ملک کی قیادت مضبوط ہاتھوں میں نہ ہوئی تو جا ن لو اس ملک کا بچنا محال ہوسکتا ہے۔ مشرقی پاکستان مغربی پاکستان سے کٹ جائے گا ۔ ہوسکتا ہے کہ اندورنی خلفشار کی وجہ سے کہیں انڈیا فائدہ اٹھاکر ملک ہڑپ نہ کر لے ہوسکتا ہے کہ غلط قسم کے لوگ برسر اقتدار آکر پاکستان کو ہندو کی غلامی میں نہ دے دیویں ۔ میں تمہیں ۷۱-۱۹۷۰ء کے لئے خبردار کرتا ہوں کہ اُس وقت کے لئے ابھی سے تیاری شروع کر دو اس وقت اس ملک میں ہر فرد اپنے آپ کو منظم کرلے تاکہ ملک کے بیرونی دشمن اور اندرونی دشمن کوئی فائدہ نہ اٹھالیں۔ یاد رکھو کہ اگر تم ایسا نہ کیا تو ایک بہت بڑا عذاب تم پر نازل ہوگا ۔ ۱۹۴۷ء میں تمہارے لئے ایک جائے پناہ تھی جس میں آکر تم محفوظ ہوگئے مگر اب میری نگائیں دیکھ رہی ہیں کہ ایک طرف اٹک کا دریا ہوگا دوسری طرف چین کی سرحدیں ہوں گی تمہارے پاس کہیں جائے پناہ نہ ہوگی تمہیں ہندو کا غلام بنکر رہنا ہوگا ، ہوسکتا ہے کہ تمہاری نسلیں در نسلیں ہندو کی غلام بنکر رہیں۔ اگر تم آزاد رہنا چاہوگے تو تمہیں ہندو مت اختیا ر کرنا پڑے گا جو کہ تمہاری زندگی کا برا دن ہوگا! کہ تم اپنا مذہب سے ہٹ کر دوسرا مذہب اختیا ر کر رہے ہوگے۔ نافرمان قوموں پر خداکا عذاب ان کے اپنے ہی اعمال کی وجہ سے آیا کرتا ہے۔ اس عذاب سے بچنے کےلئے ابھی سے خدا کا سپا ہی بن کر عملاً طاقتور بن جاؤاسی میں تمہاری بہتری ہے۔
خدا تمہا رے ساتھ ہے۔

علامہ المشرقی

Historical Speech of Allama Mashriqi before Partation (14th May 1947) at Patna, India


۱۴ مئی ۱۹۴۷ تقسیم ہند سے کئی ماہ پہلے بانکی پور میدان (پٹنہ ) میں حضرت علامہ المشرقی کا تاریخ ساز خطاب، اس جلسہ ِعام میں پچاس ہزارسے زائد افراد نے شرکت کی، اس تاریخ ساز جلسہِ عام میں درج ذیل الفاظ میں علامہ صاحب نے تقسیم ہند کی جو تصویر کشی کی وہ آج حرف بہ حرف صحیح ثابت ہورہی ہے۔

صرف وہی انقلاب جو عوام کے متحدہ جسمانی زور سے میدان جنگ میں پیدا ہوا ہو ہندو ستانیوں کو صحیح معنوں میں آزادی دے سکے گا۔ ایسا انقلاب ہی حکومت کے نظام کو الٹ پلٹ سکتا ہے جو اس وقت رائج ہے اور جس نے چالیس کروڑ انسانوں کے دل اس وقت مکمل طور پر انگریز سے برگشتہ کردیئے ہیں۔ صرف یہ ہی جمہور کی طاقت سے پیدا ہوا ہوا انقلاب خود بخود برطانوی راج کے خدو خال کو مٹاکر اس کی جگہ ہندوستانیوں کا بنایا ہوا ہندوستانی راج قائم کرنے کا راستہ صاف کرسکتا ہے۔ انگریز کا ان لوگوں کو پرُ امن طور پر حکومت سپرد کردینا جن کو انگریزی طریقِ تخیل کی تربیت دی گئی ہے، بدترین قسم کے برٹش راج کو پھر لانے کے سوا کچھ پیدا نہ کرسکے گا۔ ایسا راج برطانوی راج سے کی بدترین صور ت سے بھی دس گنا زیادہ ظالمانہ، زیادہ بدصورت، زیادہ بھیانک، زیادہ سرمایہ دارانہ، اور غیر ہندوستانی ہوگا۔ یہ حقیقت میں تما م سچائیوں کا الٹ ہوگا۔ اور پچھلے سو سال میں انگریزوں نے جو بھلی یا بری شے ہندوستانیوں کو دی ہے اس کی مسخ شدہ تصویر ہوگا۔ یہ فی الحقیقت ایک منظم فتنہ، ایک مستقل ظلم اور پائیدار ہڑبونگ ہوگی جس سے بڑھ کر ہڑبونگ نہیں ہوسکتی۔ یہ ایک ایٹم بم کی طرح کی دائمی حکومت اور دہشت کی دائمی بادشاہت ہوگی۔ اس میں دوسری قوموں کے قتل ِعام کا جواز حکومت کی طرف سے ہوگا۔ بچوں کو ماؤں کے پیٹ میں قتل کرنا، مخالف قوم کو یکسر مٹا دینا، غیر قوم کی صحیح تاریخ کو ملیا میٹ کردینا، ملی فلسفوں کی موت، باعزت روایات کو نیست و نابود کرنا اور خیالات کا قتل عام کرنا ان حکومتوں میں جائزہ ہوگا۔ ہندوستان میں ایک سے زیادہ سیاسی جماعتوں کو حکومت سپرد کردینا اس سے زیادہ بدترین شہنشاہیت، زیادہ بدترین سرماداری، زیادہ ہلاکوخانیت پیدا کرےگا جو آج تک کسی تاریخ نے پیدا کئے ایسا راج دراصل برطانوی تو ہوگا لیکن برطانوی راج کی خوبیوں سے عاری ہوگا۔ یہ دنیا میں دوزخ کا نمونہ ہوگا۔ یہ ایشیا کے خوبصورت تمدنوں کو مٹادے گا، اخلاقی قواعد کے خوبصورت آئین کو، محبت اور باہمی رواداری کے خوبصورت فلسفے کو تہس نہس کردے گا۔ بلکہ درحقیقت ان تمام بنیادی سچائیوں کو جوایشیا کے بر اعظم نے پچھلے پانچ ہزار سال میں بنی انسان کو دی ہیں، یکسر نیست و نابود کردے گا“۔
مجھے خطر ناک شکوک ہیں کہ ان حکومتوں کے ماتحت اٹھارہ کروڑ ادنیٰ ذات کے ہندو یا قریباً ساڑھے نو کروڑ مسلمان یا چھ کروڑ اچھوت اس قدر زندہ بھی رہ سکیں گے، کہ اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاسکیں۔ مجھے سخت شکوک کہ آیا عربی کے ہندسے بھی باقی رہیں گے۔ عربی کے حروف تہجی بھی قائم رہیں گے یا اگر پلڑا دوسری طرف جھک گیا تو سنسکرت زبان اور ہندو فلسفے کا ہندوستا ن میں نام ونشان بھی باقی رہےگا یا نہیں۔ انتقالِ اقتدار کی موجودہ تجویز میری نظروں برلا راج، برہمن راج، خان بہادر راج، اور برٹش راج کی بے رحمانہ حکومت کی ایک شیطانی تجویز ہے جس میں انسانوں کے بجائے تمرد، سرمایہ داری اور ظلم حکومت کریں گے“۔” موجودہ حالات میں آخر ی علاج یہ ہے کہ ہندوستان کے تمام افراد اس خوفناک سازش کے خلاف یک جان و یک زبان ہوکر اٹھ کھڑے ہوں اور ان کے متحدہ زور سے ایک مشترکہ انقلاب پیدا ہو جس میں سینکڑوں نہیں بلکہ لاکھوں انسان برلا، خان بہادر اور برٹش کی گولیو ں سے ہلاک ہوں گے۔ ہاں اس طرح لاکھوں ضرور مریں گے لیکن کروڑوں ضرور بچ جائیں گے اگر طاقت حاصل کرنے کی حرص میں انسان نے انسان کو قتل کرنے کا فیصلہ کیا اور دنیا کو لوٹ اور ظلم کا تماشہ دکھلانا ہے، تو وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے آدمیوں کی لاکھوں کی تعداد میں قربانی دیں تاکہ سچائی اور عزت کا بول بالا ہو “ دیکھنا ہے کہ اس تجویز کا شیطانی ہونا کس قدر صحیح ثابت ہوتا ہے۔

علامہ المشرقی جریدہ الاصلاح ۲۳ مئی ۱۹۴۷ء﴾﴾﴾

بانی خاکسار تحریک حضرت علامہ المشرقی مسئلہ کشمیر سے متعلق فکر انگیز انتباہ!

کشمیر کے پہاڑوں میں بڑی خاموشی سے پانچ دریاؤں کے رخ بدلے جارہے ہیں اور مغربی پاکستان کو سیراب کرنے والے ان دریاؤں کا پانی جے پور، جودھ پور اور جیسلمیر جیسے صدیوں کے بنجر علاقوں کو آباد کرنے پر منتقل کیا جارہا ہے میں نے اس سلسلے میں تعمیر ہونے والے ہیڈ ورکس کی پوری تفصیل منظر عام پر رکھ دی۔ میرا خیال تھا کہ یہ انکشاف پاکستان کے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردے گا میں یہ چیخ چیخ کر تھک گیا کہ آنکھیں کھولو اور پاکستان کو موت سے بچالو لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی الٹا میرے صور اسرافیل سے تنگ آکر مجھے میانوالی جیل خانے میں پہنچا دیا گیا۔ اگر مجھے جیل بھیجنے سے پاکستان کی جان بچ سکتی ہے ، اگر میری نظر بندی سے بھارت کے منصوبے مٹی میں ملائے جا سکتے ہیں اگر میری قید سے یہ بھارتی سازش ناکام ہو سکتی ہے تو یہ ڈیڑھ سال کیا میں عمر بھر جیل کی کوٹھڑی قبول کرنے کو خوشی سے تیار ہوںلیکن حکومت کا یہ رد عمل تو صاف گواہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنی میٹھی نیند میں خلل گوارا کنے کو تیار نہیں اور اس کی آنکھ اس دن کھلے گی جب سارا مغربی پاکستان ویران ہوچکا ہوگا۔ کروڑوں انسان پانی کے ایک ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں گے لیکن یاد رکھو کہ اس دن جا گ اٹھنے سے اس قیامت کا ٹلنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لئے ابھی وقت ہے آنکھیں کھولو! دماغی عیاشی کے کھیل کو کچھ مدت کے لئے بھول جاؤاور اس موت سے بچنے کا چارہ کرو جو دریاؤں کے رخ بدلنے سے پورا ملک میں جھومتی ہوئی بہاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ تم پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس جاؤ گے، تمہارے لہلہاتے ہوئے کھیت، بنجر زمینوں میں تبدیل ہو جائیں گے اور اس وقت تمہاری یہ علمی اور سیاسی بحثیں کچھ کام نہ دیں گی۔

خطاب جیکب آباد٭04مارچ 1953ء حضرت علامہ المشرقیؒ 

Hitler and Jihad By: Andrew G. Bostom (FrontPageMagazine.com) Friday, October 24, 2008


A recent report (summarized in translation here) by the Hamburg intelligence service —the Office for the Protection of the Constitution [Verfassungsschutz]— stressed the hostility of the neo-Nazi North German Action Office toward “Anti-Islamification” efforts in Cologne. At the North German Action Office’s [Aktionsbüro Norddeutschland], “campaigns” page website, links are featured with titles such as “National Socialists in Lower Saxony,” “Free! Social! National!,” and “May 1 — Day of struggle for national Socialism.” The Hamburg domestic intelligence report noted the neo-Nazi group’s repeated allusions—commonplace in Nazi “analyses”—to the American “east coast,” which are meant to characterize “Jewish” domination of America and, by extension, the world. And in a statement published on its website (German link) September 25, 2008, five days after an “Anti-Islamification Congress” was banned by Cologne municipal authorities, the North German Action Office elucidated its solidarity with the global jihad:
Inasmuch as it is a determined opponent of the western-plutocratic one-world policy, we regard Islam, globally considered, as an ally against the mammonistic dominance of the American east coast. The freedom of nations is not threatened by Islam, but rather by the imperialism of the USA and its vassals from Jerusalem to Berlin.

Such concordance between Nazism and jihadism reflects an historical continuum evident since the advent of the Nazi movement. This nexus was already apparent in Hitler’s own observations from 1926, elaborated upon over the following decades by both the Nazi leader, and other key Nazi officials, and ideologues. Not surprisingly, there are two predominant, recurring themes in this discourse: jihad as total war, and the annihilationist jihad against the Jews.
Perhaps the earliest recorded evidence of Hitler’s serious interest in the jihad was provided by Muhammad ‘Inayat Allah Khan [who adopted the pen name “al-Mashriqi”—“the Orientalist” or “the Sage of the East”]. Born in the Punjab in 1888, al-Mashriqi was a Muslim polymath who attended Cambridge on a government scholarship, and excelled in the study of oriental languages, mathematics, engineering, and the sciences.
Not only did Mashriqi translate the standard abridged version of Mein Kampf (then commonly available) from English into Urdu, during one of his sojourns in Europe, which included time spent in Berlin, he met Hitler in the early years of the Fuehrer’s leadership of the National Socialist [Nazi] Party. Their meeting took place in 1926 at the National Library. Here is the gist of Mashriqi’s report on his interaction with Hitler as described in a letter to the renowned scholar of Indian Islam, J.M.S. Baljon:
I was astounded when he [Hitler] told me that he knew about my Tazkirah. The news flabbergasted me. . . I found him very congenial and piercing. He discussed Islamic Jihad with me in details. In 1930 I sent him my Isharat concerning the Khaksar movement with a picture of a spade-bearer Khaksar at the end of that book. In 1933 he started his Spade Movement.
Mashriqi also wrote this independent summary of his 1926 encounter with Hitler on May 31, 1935:
If I had known that this was the very man who was to become Germany’s savior I would have fallen around Hitler’s neck, but on the occasion I was engaged in small talk and tried to find out what he understood about Germany’s weakness at the time. Professor [Weil, the host] said, introducing Hitler to me: “This is also a very important man, an activist from the Worker’s Party.” We shook hands and Hitler said, pointing to a book that was lying on the table: “I had a chance to read your al-Tazkirah.” Little did I understand at that time, what should have been clear to me when he said these words!
The astonishing similarities—or shall we say the unintentional similarity between two great minds—between Hitler’s great book and the teachings of my Tazkirah and Isharat embolden me, because the fifteen years of “struggle” of the author {Hitler] of “My Struggle” [Mein Kampf] have now actually led his nation back to success. But only after leading his nation to the intended goal, has he disclosed his movement’s rules and obligations to the world; only after fifteen years has he made the means of success widely known. It is possible that he has arrived at those means and doctrines by trial and error, but it should be absolutely clear that Mashriqi [referring to himself in the third person] has identified those means and doctrines in al-Tazkirah a full nine years and in the Isharat a full three years before the success of the Nazi movement, simply by following the shining guidance of the Holy Koran.
Mashriqi founded the Khaksar Movement, an Indian Muslim separatist (i.e., promoting the Pakistan “idea”), and global jihad supremacist organization. Its ethos is revealed in Mashriqi’s writings (for example, his Qaul-i-Faysel): “…we {Muslims] have again to dominate the whole world. We have to become its conqueror and its rulers.” His widely circulated pamphlet Islam ki Askari Zindagi further declared: “The Koran has proclaimed in unequivocal words to the world that the Prophet was sent with the true religion and definite instruction that he should make all other religions subservient to this religion [Islam]…”
Mashriqi emphasized repeatedly in his pamphlets and published articles that the verity of Islam could be gauged by the rate of the earliest Muslim conquests in the glorious first decades after the Muslim prophet Muhammad’s death (Mashriqi’s estimate is “36,000 castles in 9 years, or 12 per day”). He asserted “Nearly three-quarters” of the Koran concerns conquest, jihad (holy war), and related themes. And Mashriqi reminded that the Koran promises hellfire to all those who do not participate in Jihad bi-l-saif (“jihad with the sword”), or object to it. Mashriqi also believed the Koran’s jihad verses confirmed that if a Muslim fought for the cause of Islam, this action alone was sufficient for his salvation, requiring no other good deeds. According to Mashriqi, Islam’s “five pillars”—the confession of the oneness of Allah and Muhammad’s prophetic mission, the ritual prayer five times daily, the pilgrimage (haj) to Mecca, the giving of alms, and the fast in the month of Ramadan—were all aspects of military exercise: the confession of faith actually meant that the true Muslim had to forsake all worldly gains in the interest of military revival, prayer (to be performed in uniform and in a regimented way) was a kind of military drill, the haj was something like a grand counsel of Muslim soldiers where plans against enemies could be formulated, the fast was a preparation for the deprivations of siege warfare, the giving of alms, lastly, was a means of raising funds for Muslim re-armament. In short, he stated, “To leave the martial way of life is tantamount to leaving Islam.”
But it was the “Ten Principles” Mashriqi elucidated in the Tazkirah—the work Hitler discussed with him in 1926—which produced a quintessential message of Islam enshrining the ideals of militaristic nation-building. This vision sounded almost identical to sections of Hitler’s Mein Kampf (compare to Adolf Hitler, Mein Kampf, pp. 169-179, Reynal and Hitchcock trans, 1941)—certainly in the following paraphrase from al-Tazkirah prepared by some of Mashriqi’s colleagues for foreign consumption:
A persistent application of, and action on these Ten Principles is the true significance of “fitness” in the Darwinian [sic] principle of “Survival of the Fittest”, and a community of people which carries action on these lines to the very extremist limits has every right to remain a predominant race on this Earth forever, has claim to be the ruler of the world for all time. As soon as any or all of these qualities deteriorate in a nation, she begins to lose her right to remain and Fitter people may take her place automatically under the Law of Natural Selection.
Albert Speer, who was Hitler’s Minister of Armaments and War Production, wrote a contrite memoir of his World War II experiences while serving a 20-year prison sentence imposed by the Nuremberg tribunal. Speer’s narrative includes a discussion which captures Hitler’s effusive praise for Islam, “…a religion that believed in spreading the faith by the sword and subjugating all nations to that faith. Such a creed was perfectly suited to the Germanic temperament.” Hitler, according to Speer’s account, repeatedly expressed the conviction that, “The Mohammedan religion…would have been much more compatible to us than Christianity. Why did it have to be Christianity with its meekness and flabbiness?” These sentiments were also expressed by Hitler to Dr. Herman Neubacher, the first Nazi Mayor of Vienna, and subsequently, a special delegate of the Nazi regime in southeastern Europe. Neubacher wrote that Hitler had told him Islam was a “male religion,” and reiterated the belief that the Germans would have been far more successful conquerors had they adopted Islam in the Middle Ages. Additional confirmation of Hitler’s very favorable inclination towards Islam is provided by General Alexander Loehr, a Lutwaffe commander (executed in 1947 for the mass-murders of Yugoslav civilians). Loehr maintained a smiling Hitler had told him that Islam was such a desirable creed the Fuehrer longed for it to become the official SS religion.
Hitler appears to have viewed the uniquely Islamic institution of jihad as an appropriate model for waging genocidal, total war. During the mid to late 19th century, jihad total war campaigns—adapted to the conditions of modern warfare—were waged by the Ottoman Empire against its Bulgarian and Armenian Christian minorities. The Ottoman tactics included innumerable atrocities, mass slaughter, and extensive, murderous deportations. Official Ottoman jihad declarations during World War I assured that the genocidal aspects of Islamic doctrine were “updated” by the application of modern total war offensive doctrines, and directed at the Armenians, in particular. This jihad-inspired policy begot razzias (raids), massacres of villagers, massacres of Armenian conscripts in work battalions, and mass deportations—all representative of an overall total-war strategy implemented by the Ottoman state, and military high command.
And the disintegrating Ottoman Empire’s World War I jihad genocide against its Armenian minority, specifically, served as an “inspirational” precedent to Hitler. During August of 1939, Hitler gave speeches in preparation for the looming invasion of Poland which admonished his military commanders to wage a brutal, merciless campaign, and assure rapid victory. Hitler portrayed the impending invasion as the initial step of a vision to “secure the living space we need,” and ultimately, “redistribute the world.” In an explicit reference to the Armenians, “Who after all is today speaking of the destruction of the Armenians?,” Hitler justified their annihilation (and the world’s consignment of this genocide to oblivion) as an accepted new world order because, “The world believes only in success.”
Vahakn Dadrian—the foremost scholar of the Armenian genocide—observes that although Hitler’s motives in seeking to destroy the Jews were not identical with those of the Ottoman Turks’ in their attempts to eliminate the Armenians, “…the two victim nations share one common element in Hitler’s scheme of things: their extreme vulnerability.” Moreover, Hitler emphasized the urgent task, “…of protecting the German blood from contamination, not only of the Jewish but also of the Armenian blood.” Predictable impunity—the ease with which the Armenian genocide was committed and how the perpetrators escaped retributive justice—clearly impressed Hitler and his henchmen, considering a similar action against the Jews. Indeed, the German Jew, Richard Lictheim who as a young Zionist leader had negotiated with Ottoman leaders in Turkey during World War I, characterized the “…cold-bloodedly planned extermination of over one million Armenians…[as] akin to Hitler’s crusade of destruction against the Jews…” And as historian Abram Sachar noted, “…the genocide was cited approvingly twenty-five years later by the Fuehrer…who found the Armenian ‘solution’ an attractive precedent.”
Heinrich Himmler, head of the SS (Nazi Secret Service), and eventually all German police forces, was another champion of Islam’s singular bellicosity. Accordingly, Himmler foresaw that within the framework of the Waffen-SS, several Muslim divisions would be created to wage jihad “shoulder to shoulder” with Nazi and Axis power soldiers. Himmler was the guiding force behind the establishment of a Waffen-SS 13th (later dubbed Handzar) Division—comprised exclusively of Muslims from Bosnia and Herzegovina. He argued in support of the creation of this Muslim division that the global Islamic community (umma) was very sympathetic to Nazism, and that the targeted Balkan Muslims had a special consciousness of their Muslim Bosnian-Herzegovinian identity. Indeed, Himmler and his collaborators believed that these Balkan Muslims were ideally suited to forge a nexus between the Nazi Germanic “racial north,” and the Islamic east. SS General Gottlob Berger described how Himmler’s creation of the Handzar division was the apotheosis of this vision:
For the first time a connection is being established between Islam and National Socialism on an open, honest base, since it will be ruled from the North where blood and race are concerned, and from the East ideologically and spiritually.
As the ultimate fulfillment of his vision, Himmler also strove to re-create a contemporary version of the Ottoman Muslim devshirme levy, and form a modern janissary corps, not only in Bosnia-Herzegovina, but the Sanjak (regions in Serbia and Montenegro), most of Croatia, and the major part of Srem (which includes provinces in Serbia and Croatia between the Danube and Sava rivers). Historian Jennie Lebel describes this effort:
In order to supply the Reich on time with a “loyal population” for this planned SS border area [i.e., as outlined above in Bosnia-Herzegovina, Croatia, and Serbia], Himmler gave orders to collect children, male and female, who had been left without one or both parents and send them to Germany in order “to create a kind of Janissaries” and the “future soldiers and soldiers’ women of the old military border of the Reich.” The collection of the children was to be taken care of by the commanders of the Waffen-SS divisions. They had to report once monthly to Himmler personally on the number of children collected. This was stated in two letters by Himmler, one addressed to General Arthur Phleps on May 20, 1944, and the other to General Gottlob Berger on July 14 of the same year. Copies were sent to General Kammerhofer, SS representative for the NDH [Croatia], to General Erwin Rosener in Slovenia, General Hermann Behrends in Serbia and General Herman Foegellein, liason officer of the Waffen-SS with Hitler.
Hajj Amin el-Husseini—the pre-eminent Arab Muslim leader of the World War II era—was viewed by Hitler (and also the Waffen-SS)—as a “Muslim Pope.” For example, the Nazi regime promoted this former Mufti of Jerusalem in an illustrated biographical booklet (printed in Berlin in 1943) which declared him Muhammad’s direct descendant, an Arab national hero, and the “incarnation of all ideals and hopes of the Arab nation.”
On June 30, 1922, a joint resolution of both Houses of Congress of the United States unanimously endorsed the “Mandate for Palestine,” confirming the irrevocable right of Jews to settle in the area of Palestine—anywhere between the Jordan River and the Mediterranean Sea. The Congressional Record contains a statement of support from New York Rep. Walter Chandler which includes an observation, about “Turkish and Arab agitators… preaching a kind of holy war [jihad] against…the Jews” of Palestine. During this same era within Palestine, a strong Arab Muslim irredentist current—epitomized by Hajj Amin el-Husseini—promulgated the forcible restoration of Shari’a-mandated dhimmitude for Jews via jihad. Indeed, two years before he orchestrated the murderous anti-Jewish riots of 1920, i.e., in 1918, Hajj Amin el-Husseini stated plainly to a Jewish co-worker (at the Jerusalem Governorate), I.A. Abbady, “This was and will remain an Arab land…the Zionists will be massacred to the last man…Nothing but the sword will decide the future of this country.”
Despite his role in fomenting the1920 pogroms against Palestinian Jews, el-Husseini was pardoned, and subsequently appointed Mufti of Jerusalem by the British High Commissioner, in May 1921, a title he retained, following the Ottoman practice, for the remainder of his life. Throughout his public career, the Mufti relied upon traditional Koranic anti-Jewish motifs to arouse the Arab street. For example, during the incitement which led to the 1929 Arab revolt in Palestine, he called for combating and slaughtering "the Jews", not merely Zionists. In fact, most of the Jewish victims of the 1929 Arab revolt were Jews from the centuries old dhimmi communities (for eg., in Hebron), as opposed to recent settlers identified with the Zionist movement. With the ascent of Nazi Germany in the 1930s and 1940s, the Mufti and his coterie intensified their anti-Semitic activities to secure support from Hitler's Germany (and later Bosnian Muslims, as well as the overall Arab Muslim world), for a jihad to annihilate the Jews of Palestine. Following his expulsion from Palestine by the British, the Mufti fomented a brutal anti-Jewish pogrom in Baghdad (1941), concurrent with his failed effort to install a pro-Nazi Iraqi government. Escaping to Europe after this unsuccessful coup attempt, the Mufti spent the remainder of World War II in Germany and Italy. From this sanctuary, he provided active support for the Germans by recruiting Bosnian Muslims, in addition to Muslim minorities from the Caucasus, for dedicated Nazi SS units. The Mufti's objectives for these recruits, and Muslims in general, were made explicit during his multiple wartime radio broadcasts from Berlin, heard throughout the Arab world: an international campaign of genocide against the Jews. For example, during his March 1, 1944 broadcast he stated: “Kill the Jews wherever you find them. This pleases God, history, and religion.”
Hajj Amin made an especially important contribution to the German war effort in Yugoslovia where the Bosnian Muslim SS units he recruited (in particular the Handzar Division) brutally suppressed local Nazi resistance movements. The Mufti's pamphlet entitled, “Islam and the Jews”, was published by the Nazis in Croatian and German for distribution during the war to these Bosnian Muslim SS units. This incendiary document hinged upon antisemitic motifs from the Koran (for example, 5:82), and the hadith (including Muhammad’s alleged poisoning by a Khaybar Jewess), and concluded with the apocalyptic canonical hadith describing the Jews’ annihilation. And Jan Wanner has observed that,
His [the Mufti’s] appeals…addressed to the Bosnian Muslims were…close in many respects to the argumentation used by contemporary Islamic fundamentalists…the Mufti viewed only as a new interpretation of the traditional concept of the Islamic community (umma), sharing with Nazism common enemies.
This hateful propaganda served to incite the slaughter of Jews, and (Serb) Christians as well. Indeed, the Bosnian Muslim Handzar SS Division was responsible for the destruction of whole Bosnian Jewish and Serbian communities, including the massacre of Jews and Serbs, and the deportation of survivors to Auschwitz for extermination. However, these heinous crimes, for which the Mufti bears direct responsibility, had only a limited impact on the overall destruction of European Jewry when compared with his nefarious wartime campaign to prevent Jewish emigration from Europe to Palestine. Wanner, in his 1986 analysis of the Mufti’s collaboration with Nazi Germany during World War II, concluded, …the darkest aspect of the Mufti’s activities in the final stage of the war was undoubtedly his personal share in the extermination of Europe’s Jewish population. On May 17, 1943, he wrote a personal letter to Ribbentrop, asking him to prevent the transfer of 4500 Bulgarian Jews, 4000 of them children, to Palestine. In May and June of the same year, he sent a number of letters to the governments of Bulgaria, Italy, Rumania, and Hungary, with the request not to permit even individual Jewish emigration and to allow the transfer of Jews to Poland where, he claimed they would be “under active supervision”. The trials of Eichmann’s henchmen, including Dieter Wislicency who was executed in Bratislava, Czechoslovakia, confirmed that this was not an isolated act by the Mufti.
Invoking the personal support of such prominent Nazis as Himmler and Eichmann, the Mufti's relentless hectoring of German, Rumanian, and Hungarian government officials caused the cancellation of an estimated 480,000 exit visas which had been granted to Jews (80,000 from Rumania, and 400,000 from Hungary). As a result, these hapless individuals were deported to Polish concentration camps. A United Nations Assembly document presented in 1947 which contained the Mufti's June 28, 1943 letter to the Hungarian Foreign Minister requesting the deportation of Hungarian Jews to Poland, includes this stark, telling annotation: “As a Sequel to This Request 400,000 Jews Were Subsequently Killed.” Moreover, in the Mufti’s memoirs (Memoirs of the Grand Mufti, edited by Abd al-Karim al-Umar, Damascus, 1999) he describes what Himmler revealed to him during the summer of 1943 regarding the genocide of the Jews. Following pro forma tirades on “Jewish war guilt,” Himmler told the Mufti that “up to now we have liquidated [abadna] around three million of them.”
According to historian Howard M. Sachar, meetings the Mufti held with Hitler in 1941 and 1942 lead to an understanding whereby Hitler's forces would invade Palestine with the goal being “..not the occupation of the Arab lands, but solely the destruction of Palestin(ian) Jewry…” And in April, 2006, the director of the Nazi research center in Ludwigsburg, Klaus-Michael Mallman, and Berlin historian Martin Cueppers, revealed that a murderous Einsatzgruppe Egypt, connected to Rommel's Africa Korps, was stationed in Athens awaiting British expulsion from the Levant, prior to beginning their planned slaughter of the roughly 500,000 Jews in Palestine. This plan was only aborted after Rommel’s defeat by Montgomery at El Alamein, Egypt, in October/November 1942.
The Mufti remained unrelenting in his espousal of a virulent Judeophobic hatred as the focal tenet of his ideology in the aftermath of World War II, and the creation of the State of Israel. And the Mufti was also a committed supporter of global jihad movements, urging a “full struggle” against the Hindus of India (as well as the Jews of Israel) before delegates at the February 1951 World Muslim Congress: “We shall meet next with sword in hand on the soil of either Kashmir or Palestine.” Declassified intelligence documents from 1942, 1947, 1952, and 1954 confirm the Mufti's own Caliphate desires in repeated references from contexts as diverse as Turkey, Egypt, Jerusalem, and Pakistan, and also include discussions of major Islamic Conferences dominated by the Mufti, which were attended by a broad spectrum of Muslim leaders literally representing the entire Islamic world (including Shia leaders from Iran), i, e., in Karachi from February 16-19, 1952, and Jordanian occupied Jerusalem, December 3-9, 1953. Viewed in their totality these data do not support the current standard assessment of the Mufti as merely a “Palestinian Arab nationalist, rife with Jew hatred.”
During an interview conducted in the late 1930s (published in 1939), Karl Jung, the Swiss psychiatrist and founder of analytical psychiatry, was asked “…had he any views on what was likely to be the next step in religious development?” Jung replied, in reference to the Nazi fervor that had gripped Germany, We do not know whether Hitler is going to found a new Islam. He is already on the way; he is like Muhammad. The emotion in Germany is Islamic; warlike and Islamic. They are all drunk with wild god. That can be the historic future.
Although now, inexplicably, almost ignored in their entirety, writings produced for 100 years between the mid-19th through mid-20th centuries, by important scholars and intellectuals, in addition to Carl Jung—for example, the historians Jacob Burckhardt and Waldemar Gurian, Protestant theologian Karl Barth, and most notably, the renowned 20th century scholar of Islamic Law, G.H. Bousquet—referred to Islam as a despotic, or in 20th century parlance, totalitarian ideology.
Being imbued with fanaticism was the ultimate source of Muhammad’s great strength, and lead to his triumph as a despot, according to the 19th century Swiss historian Burckhardt:
Muhammad is personally very fanatical; that is his basic strength. His fanaticism is that of a radical simplifier and to that extent is quite genuine. It is of the toughest variety, namely doctrinaire passion, and his victory is one of the greatest victories of fanaticism and triviality. All idolatry, everything mythical, everything free in religion, all the multifarious ramifications of the hitherto existing faith, transport him into a real rage, and he hits upon a moment when large strata of his nation were highly receptive to an extreme simplification of the religious.
The Arabs, Burckhardt emphasizes, Muhammad’s henchmen, were not barbarians and had their own ingenuities, and spiritual traditions. Muhammad’s successful preaching among them capitalized upon an apparent longing for supra-tribal unification, “an extreme simplification.” Muhammad’s genius, “lies in divining this.” Utilizing portions of the most varied existing traditions, and taking advantage of the fact that “the peoples who were now attacked may also have been somewhat tired of their existing theology and mythology,” Muhammad …with the aid of at least ten people, looks over the faiths of the Jews, Christians, and Parsis [Zoroastrians], and steals from them any scraps that he can use, shaping these elements according to his imagination. Thus everyone found in Muhammad’s sermons some echo of his accustomed faith. The very extraordinary thing is that with all this Muhammad achieved not merely lifetime success, the homage of Arabia, but founded a world religion that is viable to this day and has a tremendously high opinion of itself.
Burckhardt concludes that despite this achievement, Muhammad was not a great man, although he accepts the understandable inclination,
…to deduce great causes from great effects, thus, from Muhammad’s achievement, greatness of the originator. At the very least, one wants to concede in Muhammad’s case that he was no fraud, was serious about things, etc. However, it is possible to be in error sometime with this deduction regarding greatness and to mistake mere might for greatness. In this instance it is rather the low qualities of human nature that have received a powerful presentation. Islam is a triumph of triviality, and the great majority of mankind is trivial…But triviality likes to be tyrannical and is fond of imposing its yoke upon nobler spirits. Islam wanted to deprive distinguished old nations of their myths, the Persians of their Book of Kings, and for 1200 years it has actually prohibited sculpture and painting to tremendously large populations.
University of Notre Dame historian Waldemar Gurian, a refugee, who witnessed first hand the Communist and Fascist totalitarian movements in Europe, concluded (circa 1945) that Hitler, in a manner analogous to the 7th century precedent of Muhammad, had been the simplifier of German nationalism.
A fanatical simplifier who appeared as the unifier of various German traditions in the service of simple national aims and who was seen by many differing German groups—even by some people outside Germany—as the fulfiller of their wishes and sharer of their beliefs, with some distortions and exaggerations—such, as long as he had success, was Adolf Hitler.
Based upon the same clear understandings, and devoid of our era’s dulling, politically correct constraints, Karl Barth, like Carl Jung (cited earlier), offered this warning, also published in 1939:
[Karl Barth] Participation in this life, according to it the only worthy and blessed life, is what National Socialism, as a political experiment, promises to those who will of their own accord share in this experiment. And now it becomes understandable why, at the point where it meets with resistance, it can only crush and kill—with the might and right which belongs to Divinity! Islam of old as we know proceeded in this way. It is impossible to understand National Socialism unless we see it in fact as a new Islam [emphasis in original], its myth as a new Allah, and Hitler as this new Allah’s Prophet.
Investigative journalist John Roy Carlson’s 1948-1950 interviews of Arab Muslim religious and political leaders provide consummate independent validation of these Western assessments. Perhaps most revealing were the candid observations of Aboul Saud, whom Carlson described as a “pleasant English-speaking member of the Arab League Office.” Aboul Saud explained to Carlson that Islam was an authoritarian religio-political creed which encompassed all of a Muslim’s spiritual and temporal existence. He stated plainly,
You might describe Mohammedanism as a religious form of State Socialism…The Koran give the State the right to nationalize industry, distribute land, or expropriate the right to nationalize industry, distribute land, or expropriate property. It grants the ruler of the State unlimited powers, so long as he does not go against the Koran. The Koran is our personal as well as our political constitution.
And after interviewing Muslim Brotherhood founder Hassan al-Banna himself, who “preached the doctrine of the Koran in one hand and the sword in the other,” Carlson observed:
It became clear to me why the average Egyptian worshipped the use of force. Terror was synonymous with power! This was one reason why most Egyptians, regardless of class or calling had admired Nazi Germany. It helped explain the sensational growth of the Ikhwan el Muslimin [Muslim Brotherhood]
In a brilliant, dispassionate contemporary analysis, Ibn Warraq describes 14 characteristics of “Ur Fascism” as enumerated by Umberto Eco, analyzing their potential relationship to the major determinants of Islamic governance and aspirations, through the present. He adduces salient examples which reflect the key attributes discussed by Eco: the unique institution of jihad war; the establishment of a Caliphate under “Allah’s vicegerent on earth,” the Caliph—ruled by Islamic Law, i.e., Shari’a, a rigid system of subservience and sacralized discrimination against non-Muslims and Muslim women, devoid of basic freedoms of conscience, and expression. Warraq’s assessment confirms what G.H. Bousquet concluded (in 1950) from his career studying the historical development and implementation of Islamic Law:
Islam first came before the world as a doubly totalitarian system. It claimed to impose itself on the whole world and it claimed also, by the divinely appointed Muhammadan law, by the principles of fiqh [jurisprudence], to regulate down to the smallest details the whole life of the Islamic community and of every individual believer… the study of Muhammadan Law (dry and forbidding though it may appear)… is of great importance to the world of today.
Thirty-fours years ago (1973/74) Bat Ye’or published a remarkably foresighted analysis of the Islamic antisemitism and resurgent Jihadism in her native Egypt, being packaged for dissemination throughout the Muslim world. The primary, core Antisemitic and jihadist motifs were Islamic, derived from Islam’s foundational texts, on to which European, especially Nazi elements were grafted. Nazi academic and propagandist of extermination Johannes von Leers’ writings and personal career trajectory—as a favored contributor in Goebbel’s propaganda ministry, to his eventual adoption of Islam (as Omar Amin von Leers) while working as an anti-Western, and antisemitic/anti-Zionist propagandist under Nasser’s regime from the mid-1950s, until his death in 1965—epitomizes this convergence of jihad, Islamic antisemitism, and racist, Nazi antisemitism, as described by Bat Ye’or. Upon his arrival in Egypt in 1956, it was Hajj Amin el-Husseini who welcomed von Leers, stating, “We are grateful to you for having come here to resume the struggle against the powers of darkness incarnated by international Judaism.” The ex-Mufti oversaw von Leers’ formal conversion to Islam, and remained one of his confidants. And von Leers described the origins of the Muslim “forename,” Omar Amin that he adopted as part of his conversion to Islam in a November, 1957 letter to American Nazi H. Keith Thompson, I myself have embraced Islam and accepted the new forename Omar Amin, Omar according to the great Caliph Omar who was a grim enemy of the Jews, Amin in honor of my friend Hajj Amin el Husseini, the Grand Mufti.
Already in essays published during 1938 and 1942, the first dating back almost two decades before his conversion to Islam while in Egypt, von Leers produced analyses focused primarily on Muhammad’s interactions with the Jews of Medina. These essays reveal his pious reverence for Islam and its prophet, and a thorough understanding of the sacralized Islamic sources for this narrative, i.e., the Koran, hadith, and sira. which is entirely consistent with standard Muslim apologetics.
Von Leers’ 1942 essay, for example, concludes by simultaneously extolling the “model” of oppression the Jews experienced under Islamic suzerainty, and the nobility of Muhammad, Islam, and the contemporary Muslims of the World War II era, foreshadowing his own conversion to Islam just over a decade later. And even earlier, in a 1938 essay, von Leers further sympathized with, “the leading role of the Grand Mufti of Jerusalem in the Arabians’ battles against the Jewish invasion in Palestine.” Von Leers observes that to the pious Muslim, “…the Jew is an enemy, not simply an ‘unbeliever’ who might perhaps be converted or, despite the fact that he does not belong to Islam, might still be a person of some estimation. Rather, the Jew is the predestined opponent of the Muslim, one who desired to bring down the work of the Prophet.”
Until his death in 1965, von Leers remained unrepentant about the annihilationist policies towards the Jews he helped advance serving Hitler’s Reich. Indeed he was convinced of the righteousness of the Nazi war against the Jews, and as a pious Muslim convert, von Leers viewed the Middle East as the succeeding battleground to seal the fate of world Jewry. His public evolution over the course of three decades illustrates starkly the shared centrality to these totalitarianisms—both modern and ancient—of the Jews as “first and last enemy” motif. Finally, an October 1957 US intelligence report on von Leers’ writings and activities for Egypt and the Arab League confirmed his complete adoption of the triumphalist Muslim worldview, desirous of nothing less than the destruction of Judeo-Christian civilization by jihad:
He [Dr. Omar Amin von Leers] is becoming more and more a religious zealot, even to the extent of advocating an expansion of Islam in Europe in order to bring about stronger unity through a common religion. This expansion he believes can come not only from contact with the Arabs in the Near East and Africa but with Islamic elements in the USSR. The results he envisions as the formation of a political bloc against which neither East nor West could prevail.
Fifty years later ignorance, denial, and delusion have engendered the sorry state of public understanding of this most ominous conversion of hatreds, by all its potential victims, not only Jews. This lack of understanding is little advanced by the current spate of analyses which seek “Nazi roots” of the cataclysmic September 11, 2001 acts of jihad terrorism, and see Nazism as having “introduced” antisemitism to an otherwise “tolerant”, even philosemitic Islamic world beginning in the 1930s. Awkwardly forced, and a historical, these analyses realign the Nazi cart in front of the Islamic steed which has driven both jihad and Islamic antisemitism, since the 7th century advent of the Muslim creed, particularly during the last decade of Muhammad’s life.
But even if all vestiges of Nazi militarism and racist antisemitism were to disappear miraculously overnight from the Islamic world, the living legacy of jihad war against non-Muslim infidels, and anti-Jewish hatred and violence rooted in Islam’s sacred texts—Koran, hadith, and sira—would remain intact. The assessment and understanding of the uniquely Muslim institution of jihad, and Islamic antisemitism, begins with an unapologetic exposure of both the injunctions sanctioning jihad war, and the anti-Jewish motifs contained in these foundational texts of Islam. Yet while the West has engaged in self-critical mea culpa, acknowledging its own imperialistic past, shameful role in the slave trade, and antisemitic persecution—taking steps to make amends where possible—the Islamic nations remain in perpetual denial. Until Muslims acknowledge the ugly realities of jihad imperialism, and anti-Jewish persecution in their history, the past will continue to poison the present, and there will be no hope of combating resurgent Jihadism, and Islam’s unreformed theological hatred of Jews in modern times, from Morocco to Indonesia, and within Muslim communities living in Western, and other non-Muslim societies across the globe.

====================
ABOUT ANDREW G. BOSTOM
====================
Andrew G. Bostom, M.D., M.S. (Providence, RI), is the author of the highly acclaimed The Legacy of Jihad: Islamic Holy War and the Fate of Non-Muslims. He is an Associate Professor of Medicine in the Division of Renal Diseases at Rhode Island Hospital, the major teaching affiliate of Brown University Medical School. Dr. Bostom has published numerous articles and commentaries on Islam in the Washington Times, National Review Online, Revue Politique, FrontPage Magazine.com, American Thinker, and other print and online publications. More on his work can be found at www.andrewbostom.org, Bostom has appeared on FOXNews as a commentator on Islam, including a preview of his eagerly anticipated forthcoming book, The Legacy of Islamic Antisemitism: From Sacred Texts to Solemn History.
Andrew G. Bostom is a frequent contributor to FrontPage Magazine.com, and the author of The Legacy of Jihad, and the forthcoming The Legacy of Islamic Antisemitism.
This Article is official publish on FrontPageMag.com on Dated: Friday, October 24, 2008, the article web address is as follow:
==============================================