Pages

Time

Moulvi ka Galat Mazhab ﴾مولوی کا غلط مذہب﴿ by Allama Mashriqi

Allama Mashriqi Address at Lyallpur 14th August 1938
Moulvi ka Galat Mazhab  (مولوی کا غلط مذہب)

لائل پور کے خاکسار سپاہیوں ! تمہاری محبت نے مجھے آج یک لخت مجبور کردیا کہ سب کام چھوڑ کر تمہیں ملو ں اور شاندار کیمپ میں جو تمہارے جو ان ہمت سالارمحمد افضل اور اس کے قابل ِ رشک مددگاروں یعنی سالار محمد عزیز اور محترم محمد سعید کے جنو ن کا نتیجہ ہے ،تمہیں کچھ بات بطور یادگار کہوں ۔ محبت اور جنو ں نے پوچھ لو آج تک دنیا کے کیا چہر ے بدل دیئے ہیں۔ پو چھ لو کیا کیا رنگ جمائے ہیں ، پوچھ لو سلطنتوں اور طاقتوں کے کتنے تختے الٹ دیئے ہیں، تم دنیا کی کو ئی تا ریخ اٹھا کر دیکھو ، سب انقلاب ، سب اصلاح، سب طاقت ، سب آسمانی برکتیں ، سب زمینی اچھائیاں قوم میں اسی دلوں کے آپس میں میل ہی سے قلوب کی آپس میں صفائی ، اسی رحمت اور رافت کی باہمی لہروں یادرد مندلوگو ں کے مستقل ارادوں ان کی ہوشربا اور زہرہ گداز محنتوں ،ان کے پتو ں کو پانی پانی کردینے والی کو شششوں ، نہیں ان کے حیرت انگیز بلکہ اکثر اوقات مضحکہ خیز جنونوں سے پیدا ہوئی ہیں ۔ خدا کی نگاہ ِ لطف و عاطفت بار بار بلکہ ہمیشہ اسی قوم کی طرف ہوئی ہے جس نے محبت اور محنت کے ساتھ جذبات میں اطافت اور رافت پیدا کی ، جس کے دو لفظوں میں دل مل گئے ، جس نے سینو ن کی کدورتیں نکال پھینک دیں ، جس نے شیطان کو کعبہ دل سے نکال کر خدا بسالیا ، جس نے دل کے بتوں کی بندگی سے منہ موڑ کر اﷲسے لَو لگالی ، ایک انسان کے انسان سے عشق سے غور کرو کیا رنگ جم جاتا ہے ، عاشق کے ادنیٰ اور دنیاوی عشق سے بدن میں کیا کیا بجلیاں دوڑتی ہیں ،سینے میںکیا سوز و گداز ہوتا ہے ، قلب میں کیا کیفیت ، اعضا میں کیا حرکت ، جوڑوں میں کیا اضطراب ، ذہن مین کیا تصورات ،آنکھو ںکے سامنے کیا نقشے ،خیال میں کیا تصور یکدم پیدا ہوجاتی ہیں ، عاشق کو معشوق کے تخیل کے سوا کچھ نہیں سوجھتا ، وہ دنیا کی ہر شے کو اپنے معشوق کے رنگ میں دیکھتا ہے ، دوسرا کو ئی رنگ اس کو پسند نہیں آتا ۔ بس یہی تصور اور نقشے ، یہی اعضا میں حرکت اور اضطراب اس کو بالآخر معشوق تک پہنچا دیتی ہیں ، کٹھن اور مشکل منزلیں اس قدر آسان نظر آتی ہیں کہ گو یاوہ ان سے گذراہی نہ تھا ، بعینہ اسی طرح بلکہ اس سے بہت بڑھ چڑھ کر قومی محبت اور جنون نے دنیا میں کرشمے کر دکھائے ہیں ، قوموں نے اس وقت سے اپنے سالہا سال کے پرانے چولے بدلنے شروع کردیئے ہیں جب سے محبت اور جنون نے دنیا ان کے دلوں میں کارفرمابن کر چمکے ، یاد رکھو محبت اخلاق الہیٰ کا جز ہے ۔عیسائیوں کا مشہور مقولہ ہے کہ ”خدا محبت ہے “ نفرت ، کینے ، بغاو ت شیطانیت کے آثار ہیں ، جنون محبت کی شدت کی آخری منزل ہے ، قرآن میں اشدُّحباًﷲِ کا درجہ ایمان کا بہت بڑا اور آخری درجہ ہے ، جس قوم کے کارکن اور کارفرما طبقے میں یہ دونوں پیدا ہوگئے اس قوم کا بیڑا پار ہے۔
خاکسار سپاہیوں اور مسلمانوں! میں تمہیں اس کیمپ میں ذرا وضاحت سے بیان کرنا چاہتا ہوں کہ مولوی کا پچھلے سو سال کا مذہب کیوں غلط ہے ، مولوی میرے اس غلط مزہب کے الفاظ پر بیحد سیخ پا ہوتا ہے ، وہ کچھ سناٹے میں ہے کہ یہ از غیبی اور آسمانی گولہ اس کے کئی سو برس کے وقار پر کس نے پھینکا ، بڑا کھسیانہ ہے کہ امت کا ”عالم“ ہوکر ایک امتی نے کیونکر اس کو دو سو برس کی غفلت اور سو بر س کی ملی بھگت کا بھانڈا پھوڑدیا ، سفارشین کراتا پھرتا ہے کہ اس قرآنی اور تخیل ِاسلامی کو جو تم پیدا کررہے ہو ، کچھ کہدو مگر خدارا اس کو ” مولوی کا غلط مذہب “نہ کہو، مولوی کے مذہب کو غلط کہنے سے مولوی کا رہا سہا وقار خاک میں مل جائے گا ۔ وہ امت کو کچھ کہنے کے قاب لہرگز نہ رہے گا ، وغیرہ وغیرہ۔ ہا ں میں تمہیں بتلانا چاہتا ہوں کہ مولوی کے مزہب کو غلط کہنے میں کیا اشد شدید مجبوریاں ہیں اور کیا عظیم الشان فائدے اُمت کو مل سکتے ہیں سب سے پہلے مولوی نے پچھلے دوسو برس سے دینِ اسلام کو صرف نماز ،روزہ ، حج ، زکواة، اور کلمہ شہادت کے رسمی طور پر ادا کرلینے کو پورا اسلام سمجھا کر باقی تمام قرآن کو مسلمان کی نگاہون سے اوجھل کردیا ہے ، اب نیک مسلمان کو دینِ اسلام کا خلاصہ یہی پانچ فعل نظر آتے ہیں ، جن کو وہ بیچارہ اپنے زعم میں پورے طور پر ادا کرلینے کے بعد تسلی پاجاتا ہے کہ مسلمان ہے ، بُرا مسلمان ان پانچ میں ایک دو یا اگر اور کچھ نہیں تو صڑف کلمہ شہادت پڑھ لینے کے بعد خوش بخوش ہے کے اسلام میں شامل ہے ، جنت کا مستحق ہے ، دنیا کے تمام کافروں سے بہتر ہے ،اس تخیل کا عا م نتیجہ امت کے حق میں یہ ہوا کہ امت کے سامنے کوئی نصب العین نہیں رہا، اسلام کے معنی سرف چند مقدس افعال یا رسموں کو ادا کرلینا رہ گیا قرآن مسلمان کا دستور العمل کسی معنوں میں نہیں رہا ، اچھے سے اچھا مسلمان ان پانچ باتوں کے کر لینے کے بعد بُرے سے بُرا اور قرآن حکیم کے منافی فعل بھی بے روک ٹوک کرلیتا ہے اور دل کے اندر مطمعین ہے کہ مولوی کے بتائے ہوئے ”اسلام کے خلاصے“ پر عامل ہے ، الغرض قرآن حکیم کے نگاہون سے اوجھل ہوجانے اور اس کے مطلب اور روان پڑھ لینے کے بعد مسلمان کی تمام عملی قوتیں بیکار ہوچکی ہیں دشمن خوش ہے کہ تیرہ سو برس کی بے مثال سلطنت اور جبروت کے بعد اب مولوی کی برکت سے مسلمانی صرف چند پرائیوٹ اور نجی باتوں تک محدود رہ گئی ہے جو کسی کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں مسلامن سے اب دکھ ملنے کا کا کو ئی احتمال باقی نہیں رہا ، مسلمان تیرہ سو برس تک دنیا کا نگہبان جہوکر اب دوسروں کی پاسبانی میں اپنی نمازین اور روزے ، اپنے حج اور زکوٰة تین گو شوں کے اندر چین سے ادا کررہا ہے ، یہی وجہ ہے کہ اس اسلام سے آج سب خوش ہیں انگریز خوش ہے کہ قرآن کی جگہ خدا خدا کرکے مولوی نے لے لی ہے اور مولوی نے قرآن کو عملاً مٹادیا ہے ، انگریزی حکومت اسی بناپر دین ِاسلام اور قرآن میں عدمِ مداخلت کا اعلان کرچکی ہے قرآن اور اسلام اس کے نزیک دونوں مردہ ہوچکے ہیں ۔ ہاں ! کسی دوسری قوم کہ مسلمانوں کی مولویوں والی نماز ، مولویوں والے روزے ، مولویوی والے حج مولویوی والی زکواة ، مولویوں والے کلمہ شہادت سے نہ خوش ہوتی پھرے ،مسلمان شوق سے رات دن لاکھ مولویانہ نمازیں پڑھتا رہے ،تمام عمر لاکھ مولویانہ روزہ رکھے ، تمام عمرپچاس مولویانہ حج کرتا رہے ۔ مولویانہ زکوٰتیںدے ، کسی کا سرپھرا ہے کہ ان کی اس روئی کے اندر آرام سے لپٹی ہوئی روحانیت سے کراہت کرے ،کسی اوسط مسجد کے اندر چلے جائیے یا کسی اوسط مسلمان سے پوچھ لیجئے اس کے پاس اسلام کے متعلق ان پانچ فعلوں کے لینے کو سوا کوئی دوسری تشریح موجود نہیں ، مولوی اگر ان پانچ ارکانِ اسلام کی بھی صحیح تشریحیں کرتا تو امت کو انہی پانچ سے سب کچھ مل رہتا مگر مولوی کی بے دماغی ان پانچ دین کے ستونوں کے متعلق بھی بھی یہی یقین دلارہی ہے کہ یہ آخر کے مقدس افعال ہیں ، ان کا اس دنیا سے کچھ لگاؤنہیں ، ان کو علی َالحساب اور بے سوچے سمجھے کرلینا عین دین ہے ان کا اجر اور بدلہ صرف آخرت میں ہے ، مسلمان کو گنجائش نہیں کہ ان کی حکمت کے متعلق ایک حرف زبان پر لائے ”کرلیا “ اور ”اداہوگیا“ یا ” پڑھ لی “ اور ”اداہوگئی “ کے الفاظ کے فرائض ادا کرلینے کا صحیح اجر ہیں ، رسید ان سب کی اکٹھی یوم آخر ت اور روزہ حساب ہی کو ملے گی ۔
مسلمانواور خاکسار سپاہیوں ! مولوی کا مذہب اس لئے سرتا پا غلط ہے کہ دینِ اسلام دشمنوں کی خوشی اور رضاکا مذہب ہرگز نہ تھا ۔ دینِ اسلام کے متعلق قرآن حکیم میں صاف صاف لکھا ہے کہ وہ دشمنوں کی کراہت کا مذہب ہے ، دینِ اسلام سے باہر کا کوئی شخص اس مذہب کو پسند نہیں کرسکتا ، اس دین کو ہر دشمن پھونکیں مار مار کر بجھانا چاہتا ہے لیکن خدا اس نو ر کے بجھنے پر راضی نہیں ، یہ مشرکوں کی کراہت اور ناخوشی کا مذہب ہے ، کا فروں کی کراہت اور ناخوشی کا مذہب ، سب دینوں پر غلبہ پانے کا مذہب ہے ،جاھد الکفار والمنفقین کا مذہب ہے، ولیحدوافیکم غلظة کا مذہب ہے ، حتیٰ لاتکو ن فتنة ویکون الدین کلہﷲکا مذہب ہے فیقتلون ویقیلون کا مذہب ہے ، لیظھرہ علی الدین کلہ مذہب ہے ، واﷲمتم نورہ کا مذہب ہے اشد اءعلی الکفار رحما بینھم کا مذہب ہے، ولوکرہ المشرکون والا دین الھق ہے ، ولو کرہ الکفرین والا صراط مستقیم ہے، قرآن کے کسی فحے کو کھول کر دیکھ لو کہ یہی مذہب ہر جگہ ملے گا،کسی مسجد کے مولوی سے پوچھ لو بغیر مطلب سمجھے ہوئے فرفر ئی آئیتیں اوّل سے آخر تک پڑھ دے گا اور انہی آئیتوں کو فرفر پڑھ لینے دینے کو اپنے ”عالم ِدین“ ہونے کا ثبوت سمجھے گا ، مولوی نے دینِ اسلام سے یہ عظیم الشان فریب اور مذہب ِخدا سے کا یہ پنج آتشہ ماءاللحم اس لئے تیار کیا ہے کہ اس اپنی گردن بچی رہے ، وہ آپ گو شے میں مزے سے بیٹھا رہے اور تمام امت کو گوشے میں سلاکر آپ اس کا چو ہدری بنے ، اس نے دین اسلام کے پانچ لمبے لمبے ستون کھڑے کرکے سب کو کہہ دیا ہے کہ تما م عمر ستو ن بناتے بناتے گذار دو ، ایک ستون ذرا دھے جائے پھر اسی چند گری ہوئی اینٹوں لگاتے رہو ، اﷲسے مکر کرتے رہو کہ ابھی ستون بنارہے ہیں ستونوں پر چھت ڈالنے یا عظیم الشان اور کئی منزلہ عمارت بنانے کا خیال تک نہ کرو ، خدا کو معاذ اﷲ اسی دھوکہ میں رکھو کہ ابھی ستون ہی درست نہیں ہوئے ۔یا رکھو !قرآن حکیم میں ایک لفظ اس امر کا کہیں نہیں موجود کہ یہ پانچ شعائر دینِ اسلام کے پانچ رکن ہین ، انہی کے کرلینے سے مسلمان کی نجات ہے ، یہی دینِ اسلام کا خلاصہ ہیں ،اگر حدیث شریف میں لکھا ہے کہ اسلام کی بنا ان پانچ رکنو ں پر ہے تو اس کے معنی قطعًااور ہیں ، حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ”اسلام صرف سمع اور اطاعت اور جہاد فی سبیل اﷲکا نام ہے “۔ مولوی اس حدیث پر کیوں نہیں آتے ، حدیث شریف میں یہ بھی ہے کہ ”اے مسلمانوں !تم پر لازم ہے کہ ایک جماعت بنے رہو اور سمع وطاعتہ کرتے رہو “۔ مولوی اس حدیث کو کیوں نہیں دہراتے ،یہ سب اس لئے کہان حدیثوں کے دہرانے مین ان کی صاف موت ہے ، ان کو ایک جماعت بننا پڑے گا ،ایک نظام کے اندر ہوگا ایک کی اطاعت کرنت ہوگی ،ایک کا حکم سننا پڑے گا ، مولوی ان حدیثوں کو ہضم اس لئے کرجاتا ہے کہ ان پر عمل بے حد مشکل ہے ، ان میں اس کی روزی نہیں بنتی،نماز ،روزہ ، حج ، زکوٰة ، کلمہ شہادت ، والی حدیث اس لئے باربار کہتا ہے کہ ہے کہ نماز اس کی اپنی مسجد مین ہوتی ہے ، اس لئے روٹیا ن مل سکیں گی ، روزہ کے دنوں میں خوب حلوہ مانڈا ملتا ہے ، حج کرانے سے کچھ نہ کچھ ضرور مل رہے گا ، قربانیوں کے بکرے ذبح ہوں گے ، زکوٰة مسجد میں آیا کرے گی ، کلمہ شہادت پڑھادینے سے کچھ نہ کچھ نذرانہ ملے گا ، نیں تسلیم کرتا ہوں کہ اسلام کی بنیاد انہی پنج ارکان پر ہے ، جو حدیث شریف کہتی ہے انہی کے صحیح قیام پر دینِ اسلام کو پورا دارومدار ہے،لیکن ان معنو ں میں ہرکز نہیں ، جن معنوں میں مولوی ان پانچ ارکا ن کو اہنے مطلب کے لئے گھسیٹ رہا ہے ، یہ پانچ ارکان اس کی روزی پیداکرنے کے سامان نہیں ، ان کی بنیاد اسلام کی اجتماعیت اور امت مھمدیہ کی وحدت پر ہے ،اسی نماز کے اندر بے پناہ قیام ِ جماعت کا راز ہے ، اسی روزے میں کمال تحمل اور فتح امت کا بھید ہے ، اسی حج میں صحیح مرکزیت ہے ،اسی زکوٰةامت کے قیام کی داماندگیوں کا علاج ہے ، یہ باتیں تمام امت کی بہتری کے لئے ہیں ، مولوی کے نفس کو موٹا کرنے کے لئے ہرگز نہیں ۔اسلامکا صحیح خلاصہ کیوں سمجھتے کیونکہ حدیث میں صاف لکھا ہے کہ جہاد کی ایک رات ستر برس کی عبادت سے بہتر ہے ،کیا نماز روزہ ، حج ، زکوٰة ، کلمہ شہادت کی پانچوںعبادتیں ”جہاد “ کے سامنے مات نہیں ہوتیں۔
خاکسار سپاہیوں ! اصل یہ ہے کہ دینِ اسلام کا صحیح دستور العمل قرآن ہے ، نرے پنج ارکان دینِ اسلام کا خلاصہ ہرگز نہیں ، قرآن میں صاف لکھا ہے کہ جس قوم نے اس قرآن کے ایک حصے پر عمل کیا اور دوسرے سے کفر کیا سا کی سزا اس دنیا اور آخر ت دونوں میں رسوائی ہے ۔ یہ خدائی فیصلہ ہے اور اس کا صاف مطللب یہ ہے کہ مسلمان کو قرآن کی کسی ایک آیت سے مفر نہیں ، تمام کا تمام قرآن حکمنامہ ہے ، سب حکموں کی تکمیل یکساں طور پر لازم ہے ، اول سے آخر تک وہی ایک زبردست حکم دے رہی ہے ، اس میں چھوٹے سے حکم کو نہ ماننا بھی احکم الحاکمین کی صریح گستاخی یہ کیا مسخرہ پن ہے کہ خدا قرآن میں بار بار حکم دے کہ اے مسلمانوں ! ایک امت بنے رہو، آپس میں تفرقہ ڈال کر جہنم کے گڑھے پر کھڑے نہ ہو ، فرقہ نہ بنو کیونکہ یہی مشرک لوگ ہیں ، ان کو کبھی بخشش نہ ہوگی ، جو لوگ گروہ در گروہ بن گئے ،اے پیغبر ان سے الگ تھلگ رہو، اپنے امیر کی اطاعت کرو، آپس میں کامل محبت رکھو ، دو گروہ لڑیں تو ان میں صلح کرادو ، غالب بن کر رہو دشمن سے پیٹھ نہ پھیرو ، مومن صرف وہی ہیں جنہوں نے مال اور جا ن سے جہاد کیا ، ، غیبت نہ کرو وغیرہ وغیرہ ہاں یہ کیا مسخرہ پن ہے کہ خدائے برتر پزاروں حکم اس قرآن میں دے مولوی ان کی پر کاہ کے برابر پرواہ نہ کرے ، روزانہ اپنے مناظروں سے مسلمانوں کی ہزاروں ٹولیاں بناتا اور گلی گلی جمعہ کراتا پھر ے ، ہردم امت کو جہنم کے گڑھے پر کھڑے لیکن اس آسان اور اپنے نفس کو فائدہ دینے والی حدیث کو ہزارہا بار رٹتا پھرے کہ اسلام کی بنیاد نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة اور کلمہ شہادت پر ہے اور پھر دیکھ لو کہ عنایت ا ﷲاس حدیث کا صاف منکر ہے ، اسلام کے ارکان سے صاف مخول کرتا ہے ، اس کے ستونوں کو گرانا چاہتا ہے اور اس لئے ملحد اور کافر ہے !
مسلمانوں اور خاکسار سپاہیوں ! مولوی کے قرآن حکیم سے مکر و فریب کی ایک وجہ بھی ہے جو اس سے بھی زیادہ جلد سمجھ میں آسکتی ہے میں تمہیں بتایا ہے کہ دین اسلام ہر مشرک اور کافر کی کراہت کا مذہب ہے ، تیرہ سو برس تک مسلمان دنیا میں پھیلتے رہے اور ہر غیر مسلم ان کے اس غلبے کو ناخوشی کی نظر سے دیکھتا رہا ۔ مولوی اب تمام قران کو امت اسے چھپا کر اور صرف پنج ارکا نِ اسلام کا گیت گا کر باقی تمام دنیا کو خوش رکھنا چاہتا ہے ، وہ خوب جانتا ہے کہ تماز ، روزہ ، حج ، زکوٰة اور کلمہ شہادت کے آسان عمل سیسے ہیں ان سے ہندو مسلامن ، پارسی ، عیسائی ، انگریز سب خوش رہیں گے لیکن قرآن کو پھر کھولا گیا تو سب ناراض ہوجائیں گے ، حکومت کی تلور گردن پر ہر دم لٹکتی رہے گی ، جیل خانہ کی ہوا کھانی پڑے گی ، پلاؤاورمرغ کی جگہ سوکھی روٹیاں ، چکی کی مصیبت اور مٹی میں ملی ہوئی دال ملے گی ، اسی لئے مولوی نماز کی ایک فضیلتین بیان کرے گے لیکن جہاد کا لفظ زبان پر نہ لائے گا ، اعتقاد کی بنا پر ایک لاکھ گالیاں دودسرے فرقے کے مسلمانوں کو دے گا ، ایک ایک گالی کی تائید میں دس دس حدیثیں سنائے گا ، لیکن اتھا د کا نام نہ لے گا ، روز روز فرقہ بندی کی ہوا پھیلاکر اپنا نذرانہ قبول کرے گا لیکن مسلمانون کو ای ککردینے کا نام تک نہ لے گا ، اِختلاف امتی رحمتہ کی حدیث بار بار رٹے گا لیکن المسلم من سلم المسلمون من یدہ وسانہ کا حرف زبان تک نہ لائے گا ۔ مسلمانوں ! مولوی کا مذہب غلط اس لئے ہے کہ مولوی نے تمام قرآن کی آیتوں کو ایک سو سال سے قطعًاچھپا رکھا ہے ۔ تاکہ اس کی گردن بچی رہے ، اس نے قرآن سے فریب اس لئے کیا ہے کہ اس کا اپنا حلوا مانڈا بنارہے ، وہ اسلام کو اس اسلام کا ایک حرف تمہیں کہیں نہی ملے گا ، مولوی کا نام قرآن مین نہ ملے گا ، مولوی کی بتائی ہوئی نماز نہ ملے گی ، مولوی کا روزہ نہ ملے گا مولوی کے حج اور زکوٰة نہ ملیں گے ، کلمہ شہادت نہ ملے گا ، سر پھٹول نہ ملے گی ، مناظر ے نہ ملیں گے ،ایک دوسرے پر کفر کے فتوے نہ ملیں گے مولوی کی مولوی سے جھڑپ نہ ملے گی ، سنی اور شیعہ ، وہابی اور اہل قرآن ، لالکی اور حنبلی ، شافعی اور حنفی کے الفاظ نہ ملیں گے صرف لفظ مسلم مے گا مومن ملے گا ، مسلم اور مومن بننے کے اعمال ملیں گے ، امت کو بلند کرنے والے حکم ملیں گے ، مولوی نے قرآن کو کم و بیش ایک سو برس چھپایا ہے ، لیکن اسی چھپانے والے مولوی کے متعلق قرآن میں صاف لکھاہےکہ جن لوگو ں نے ہماری آیتوں کو چھپایا انہوں نے اپنے پیٹ میں دوزخ بھرلیا ، خدا روز قیامت کو ان سے کلا م تک کرنا گوارانہ کرے گا!
خاکسار سپاہیوں اور مسلمانوں! مولوی کے مذہب کو غلط کہنے پر میں مجبور اس لئے ہوں کہ اب ایک سو برس کو مولوی اور پیر کے قرآن سے مکر و فریب کے بعد اگر کوئی شخص قرآن کی ایک چھوٹی سی آیت پر عمل کرانے کے لئے اٹھتا ہے ،اگر کوئی معمولی سے معمولی درد مند شخص ایک شہر میں صرف دو جمعہ کی مسجدوں کو ایک کرانے کے لئے ادنیٰ سی آواز اٹھاتا ہے تو حکومتِ وقت جھٹ کہہ دیتی ہے کہ یہ مذہب اسلام ہرگز نہیں ، یہ وہ نہیں جو مولوی نے پچھلے سو برس میں اسلام کے بارے میں کہا ہے ، یہ مذہب کی آڑ میں کھلی ”سیاست “ ہے ، یہ پولیٹکس ہے ، یہ سیاسی تحریک ، یہ انگریز حکومت سے دھوکہ ہے ، انگریز کی حکومت کی بیخ و بنیاد اکھاڑنے کی در پردہ تیاریاں ہیں ! انگریز چو نکہ بڑا ہوشمند اور اسلام کے مذہب کا بڑا ماہر ہے ، وہ مولویوں کے منہ سے مذہب اسلام کی تشریحیں کر اکر اب اس خو دساختہ مذہب پر تصدیق کی مہر لگانا چاہتا ہے تاکہ مسلمان ہمیشہ لے لئے قرآن پر عمل نہ کرسکے ، وہ جانتا ہے کہ بھو کا اور لو گو ں کی روٹیاں کھانے والا مولوی کبھی قرآن بولنے کی جرات نہی کرسکے گا اور دین سے ناآشنا اور مولویوں سے دبے وہئے مسلمان کبھی اس کے خلاف لہنے کی جرات نہ کرسکیں گے ۔ الغرض مسلمانو! مولوی کے مذہب صحیح کہنے میں اُمت کی صاف موت ہے ۔ لامتناہی شکت ہے ، کبھی نہ اٹھ سکنے کی تیاری ہے ، یاد رکھو یہودیوں کی قوم اس لئے ہلاک ہوئی کی انہوں نے اپنے پادریوں اور راہبوں کو خدا بنالیا تھا، وہ جس طرح چاہتے تھے ، امت کو اپنی انگلیوں پر نچاتے تھے ، جو کہتے تھے منوا لیتے تھے ، امت ان کے اثر کے نیچے دبی ہوئی تھی اور سر اٹھا نہ سکتی تھی ، آج مسلمان بھی اسی دردناک مصیبت میں گرفتا ر ہیں ، انہوں نے بھی مولویوں اور پیروں کو اپنا رب بنالیا ہے اور اس کی سزا صاف ہلاکت ہے!
لائل پور کے مسلمانوں ! تمہارا شہر کئی حیثیتوں سے ممتاز ہے ان امتیازات میں سب سے بڑی اور دل خوش تمیز یہ ہے کہ تم پنجاب کے سپاہیانہ علاقہ سے متعلق ہو ۔ ہندوستان میں پنجاب سب سے زیادہ سپاہیانہ صوبہ اور تم پنجاب میں سب زیادہ سپاہیانہ علاقہ ہو ، اگر میں کسی ایسے آزاد اسلامی ملک میں ہو تا جس کے مولوی اور مال کی نکیل حکومت اور بادشاہ کی ہاتھ میں ہوتی تو جھٹ اور بیدھڑک کہہ دیتا کہ تم خدا کے فضل سے کم از کم ہندوستان میں سب سے زیادہ مسلمان ہو ، لیکن مولوی کی کم نظری نہ تمہیں اپنی صحیح مسلمانی لحسوس ہونے دیتی ہے نہ میں اس امر کے الئے تیا ر ہوں کہ تمہیں اس وقت تک سب سے بڑے ہو نے کا لقب دوں ۔ جب تک کہ اس تمام عظیم الشان اور خو بصورت علاقے میںسے ایک ایک نوجوان ، ایک ایک قدر ااور گرانڈیل شخص وردی اور بیلچے سے مسلح ہوکر خاکسار تحریک میں شامل نہ ہوجائے یادرکھو ! مسلمانی اس میں نہیں کہ تم اسلام کی اس رسم کو پورا کرلو جو مولوی نے تمہیں خوش کرنے اور آرا م کرسیوں پر بٹھاکر جنت میں داخل کرنے کے لئے پیدا کرلی ہے ۔ ہم صحابہ کرام اور رسول ﷺ سے معاذ اﷲزیادہ لاڈلے نہیں کہ ان کو تمام عمر تکلیف اٹھانے کے بعد اسلام کا سچاعلمبردار سمجھا جائے اور ہمیں صرف چند آسان باتیں کرکے جنت کا حقداربنادیاجائے ۔ دینِ اسلام کی صحیح سے صحیح تعریف اگر چند الفاظ کے اندر ہوسکتی ہے تو یہ ہے کہ اسلام سپاہیانہ زندگی کا دوسرا نام ہے ۔ دینِ اسلام کے تمام شعائر ،اسلام کے تمام ظو اہر ، قرآن کا ایک ایک ھکم ، اس کا ہر امر و نہی،اس کے تمام نسک ، مسلمان کی موت ، مسلمان کی ھیات الغرض تمام وکمال دینِ خدا سی سپاہیانہ اور للہی زندگی کو مکمل کرنا ہے ، غور سے دیکھوکہی نماز اِسی پنج وقتہ تیاری ہے ، روزہ اِسی میدانِ جنگ میں بھوک کی برداشت کا پیش خیمہ ہے ، حج اسی الہی فوج کی مرکزیت کو قائم کرنا ہے ، زکوٰة اسی زندگی کے سازو سامان کی فراہمی کا دوسرا نام ہے ، کلمہ شہادت اسی خدا کے سپاہی ہونے کی بعینہ اسی طرح گو اہی ہے ، جس طرح کہ سڑک پر کھڑا ہو ا خاکی وردی میں ملبوس سپاہی انگریز کے بندہ ہونے کی عینی اور یقینی گواہی دے رہا ہے ۔ نہیں بلکہ مزید غور سے دیکھو تو یقین ہوجائے گا کہ قرآن میں اگر یہ لکھاہے کہ مسلمانو! اپنے وعدے پورے کرو ، اپنے امیر کی اطاعت کرو ، اپنے سلوک عمدہ کرو ، غیبت نہ کرو ، نیک گمانی کرو وغیرہ وغیرہ تو یہ حکم بھی بآخراسی لئے ہیں کہ مسلمان صحیح معنوں سچا اور ناقابلِ شکت سپاہی بن جائے ، الغرض دینِ اسلام کا نچوڑ صرف خدا کا سپاہی بننا ہے ، اسی سپا ہی بننے کا گر مُسلمان کی قرونِ اولےٰوالی سپاہیانہ نماز ہے ، سپاہیانہ حج ہے ،سپاہیانہ روزہ ہے ، سپاہیانہ زکوٰة ہے، نہیں بلکہ سپاہی والا کلمہ شہادت ہے، مولویانہ نماز ، مولویانہ حج ، مولویانہ روزہ ، مولویانہ زکوٰة ، مولویانہ کلمہ شہادت جو ہم آج جمائیاں لے لےکر ادا کرتے ہیں قرآن کی کسی آیت مین مذکورہ نہیں ، اسی نقطہ نظر سے لائل پور کے مسلمانو! تمہارے سپاہیانہ وجد کو دیکھکر میں چاہتا ہوں کہ مولوی کی اسلام سے تمام فریب کاریوں اور اس عنایت اللہ کے خلاف تمام چیخ پکار کو خیر باد کہہ کر تحریک میں شامل ہوجاؤ، تحریک بعینہ و بلفظہ اسلام ہے ،وہی اسلام جس پر چل کر قوموں کی دین و دنیا درست ہوسکتی ہے ،اس تحریک میں ایک لفظ کسی قوم کسی حکومت ، کسی طاقت ، کسی دوست ، کسی دشمن کے خلاف نہیں ، یہ صرف سپنے گھر کی درستی ہے ،اس کی بوسیدہ دیواروں کو پھر کھڑا کرنا ہے اپنی آخر ی نجات کی خاطر اپنی دنیا سنوارنا ہے ، خدمتِ خلق بلالحاظ مذہب و ملت ہے ، نفس کے بتوں کو تو ڑ کر پھر توحید کی طرف آنا ہے ، پھر خدا کا بندہ بننا ہے پھر رجوع اِلی اللہ ہے، وہ ہی دنیا سے دوستی اور نفس کے بتوں جنگ ہے ، ایسی پُر امن اور مرنجان مریخ حرکت میں شامل ہونا کسی پر گراں نہیں گذرسکتا ۔
خاکسار سپاہیوں اور مسلمانو! خاکسار تحریک پانچ برس سے خاموش طور پر جاری ہے ،اس میں کسی قوم سے چھیڑ نہیں ، ہمارا پانچ سا ل کا عمل صاف بتا رہا ہے کہ ہم حکومت کی کسی سیاست کی طرف توجہ نہیں کی ، ہم نے ایک لفظ ملکی سیاست کے متعلق اپنے اصولوں میں داخل نہیں کیا اگر کانگریس اس ملک میںانگریزی حکومت کی تمام احتیاطوں کے باوجود پچاس برس پھول پھل کر ملک کی سیاست پر قبضہ کرسکتی ہے اور آج وہی جھنڈا چھ بلکہ سات صوبوں میں لہرارہا ہے جس کو انگریز کسی زمانے میں دیکھنا بھی گوارا نہ کرسکتا تھا تو خاکسار وں کو بھی بدرجہ اولیٰ حق حاصل ہے ہے کہ وہ کھلے طور پر سیاسی بنیں اور کانگریس کی طرح عمل کرنے سے نہ شرمائیں ، لیکن ہم غیر سیاسی جماعت اس لئے نہیں کہ ہمیں سیاسی بن جانے میں کسی کا ڈر ہے ،ہماری تحریک کے بنیادی اصول مزہبی اور افعالی ہیں اور ہمارا منتہا قوم کی اندرونی تنظیم،اسکی قوت ِ عمل کا احیا ، دوسری قوموں سے روداری ، قرآن حکیم پر عمل ، خدمت عباد اور عبادتِ خدا ہے، یہ وہ اصول ہیں جن پر چل کر ہم اپنے زعم میں اپنی دین و انیا درست رکھ سکتے ہیں ۔ انگریزی یا کسی حکومت کو ادنی ٰ سا حق نہیں کہ ان اصولوں کے احیا میں مداخلت کرے ۔ اگر انگریز مولوی کی آڑ لے کر عافانہ تجاہل سے کہتا ہے کہ یہ باتیں دینِ اسلام میں داکل نہیں تو انگریز کو چاہیئے کہ مسلمانکی مذہبی کتا ب قرآن پھر پٹھے ، وہ کتا ب پھر دیکھے جس کو وہ اپنے منہی سے حکو مت کی مداخت سے آزاد کہہ چکا ہے حکومت اور بالخصوص حکومت ِ سرحد کو معلوم ہوبا چاہیئے کہ خاکسار قرآن پر عمل کرنے کےلئے اٹھا ہے قرآن سے باہر ہرگز نہیں جانا چاہتا ، خاکسارکی مسلمانی کی سند اسلام کی تیرہ سو برس کی پہلی تاریخ ہے مولوی کا ایک سوبرس کا جھوٹ پرگز نہیں ، خاکسار کے نزدیک قرآن خدا کی کتا ب ہے اور اگر خاکسار کو قرآن پر عمل کرنےسے روکنے کی کسی طاقت نے دل میں ٹھان لی ہے تو خاکسار کاپہلا فرض ہے کہ قرآن کو دشمنوں کے پنجے سے آزاد کرے ،اس صورت میں سوائے اسکے کہ ایک ایک خاکسار قرآن کو آزاد کرنے میں مرمٹے اور کوئی صورت نہیں ہوسکتی ۔
مولویوں ، پیروں اور تمام مسلمانوں کو کہونگا کہ تمہارا اسلام کی غلط تصویر ایک مدت سے پیش کرنا تمہارا فعل نہیں یہ صدیوں کی بداعمالی اور غلفت کا نتیجہ ہے ۔ یہ آباؤ اجداد کے گناہوں کا ورثہ ہے ،قرنوں کی و اماندگیوں کا مجموعہ ہے ، اس میں کسی ایک مولوی یا ایک پیر یا ایک پیشوا ئے دین کا تصور نہیں ، سب اُمت او پیشوا یان اُمت کا مجموعی قصور ہے ، اُمت کی بگڑی ہوئی ہوا کا قصور ہے اسی بناپر ہمیں کسی ایک مولوی سے وجہ ِپرخاش نہیں ، کسی ایک سے ذاتی عناد نہیں ، میں سب مولویوں کی خواہ انہوں نے مجھ پر کفر کے کے فتوے لگائے ہوں یکساں عزت کرتا ہوں سب وک اپنے سے کم گنہگار سمجھتا ہوں ، کسی خاکسار کو ان سے بدسلوکی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا سب کو سمجھتا ہوں کہ دین کی رہی سہی عما رت کچھ نہ کچھ ضرور تھا م رہے ہیں ۔ سب مجھے کافر کہیں لیکن مین سب کو مسلمان سمجھتا ہون ،ایسی حالت میں جکہ سرحد اور سندھ کی دو حکومتیں مسلمان وزیروں کی قیادت میں ہمارے قرآن سے الجمہ رہی ہیںمولویوں اور پیشوایانِ دین کا فرض ہے کہ وہ قرآن کی حفاظت میں ہم خاکساروں سے ہم آہنگ ہوجائیں ، قرآن کی آبروپر مرمٹیں، قرآن کے اسلامی دستور العمل ہونے کا باردگر اعلان کریں ، قرآن کے لئے کٹ مریں ج، قرآن کے لئے جئیں ، قرآن کو مسلمان کی آخری پناہ گاہ یقین کرکے تمام ہندوستان کو ان حکومتوں کے بالمقابل لے آئیں ، اگر ایک مسجد کے گرانے پر مسلمان مٹ سکتا ہے تو آؤ آج قرآن کے گرنے پر مرنٹ کر دیکھیں کہ کیا ہوتا ہے،کیا عجب ہے کہ اسی قرآن پر مر مٹنے میں مسلمانوں کی زندگی کا راز مضمر ہو!
میں نے حکومت سرحد کو کہہ دیا ہے کہ ۱۵ اکتوبر تک خاکساروں پر سے تمام پابندیاں اٹھالی جائیں، ان کو ہزاروں کی تعداد میں یکجا خدمتِ خلق کرنے کی اجازت دی جائے ، ان پر پندرہ سے زیادہ جمع نہ ہونے کی پابندی قطعاًاٹھادی جائے ، ہم نعرے خود نہیں لگاتے لیکن نعرے نہی لگانے کی پانبدی کرنا جبکہ تمام دنیا نعرے لگا سکتی ہے ہم پر بے وجہ تشدد اور انتہائی طور پر فضول ہے ۔اس پابندی کو ہٹادیا جائے ، ہم خود سیاسی نہیں بننا چاہتے لیکن ہمیں لینا کہ تم کبھی سیاسی نہ بنو درآنحالیکہ ہندوستان کی ہر انجمن جب چاہے سیاسی بن سکتی ہے ایک سب مذہبی فرائض آزادی سے ادا کرسکتی ہے ایک مجنونانہ ظلم ہے ، اس قید کو پٹا دیا جائے ، ہمین یہ کہنا دن کے وقت خاکسار وردی میں نہ آؤ سبب تظلم ہے اس وک دور کردیا جائے وغیرہ وغیرہ ۔ میں چاہتا ہوں کہ اگار حکومتِ سرحدنے پا بندیا ں ۱۵ اکتوبر سے پہلے پہلے نہ ہٹالیں تو تمام خاکسار اور غیر خاکسار مسلمان جن کو میرا پیغام کسی ذریعے سے پہنچ رہا ہے خاموش اور پرُامن طور پر صوبہ سرحد کے کسی سیک جگہ پر جس کا اعلان بعد میں کردوں گا خاکی وردی اور بیلچہ کے ساتھ حکومت کی زد سے بچ کر پہنچ جائیں میں وہاں حکومت ِ سرحد کو دعوت دوں گا کہ وہ قرآن اور اسلام کے متعلق اپنے غیر جانبدارانہ رویہ کا اعلان کریں اور اگر حکومت مسلمانوں کی کسی جماعت کے خدمتِ خلق یا ایک لباس میں باجماعت نماز ادا کرنے پر اعتراض کرتی ہے تو ہم سب مسلمان حکومت کی توپوں کے دہانوں کے آگے ہزاروں کی تعداد میں باجماعت نماز ادا کریں ، باجماعت خدمتِ عباد کریں ، باجماعت مارچ کریں ، باجماعت ایک صف میںہون ، باجماعت توپو ں کے آگے اپنے آپ کو خدا اور قرآن کے آگے مٹادیں !
یہ مرگ ِ ابنوہ یاد رکھوایک جشن ہوگا ، حکومت کو مسلمانوں کے قرآن پر استواری کا یقین کا ثبوت پھر مل جائے گا ۔ چند ہزار آدمی کٹ جائیں گے ، لیکن قرآن ایک ہزار برس تک پھر آزاد ہوجائے گا ۔
عنایت اللہ خان المشرقی
۱۴ اگست ۱۹۳۸ء

ارشادات علامہ المشرقی (Saying of Mashriqi)

تھدیہ الی اللہ عزوجل
میں سب سے بڑے حاکم‘ آسمانوں اور زمینوں کے خالق عزوجل کی خدمت گرامی میں اپنا ناچیز ہدیہ پیش کرتا ہوں۔ پروردگار!آپ کے حضورمیں ایک انوکھی چیز لایا ہوں ان چیزوں میں سے جو تو نے مجھے ارزانی فرمائیں۔ میرا دل اس خیال سے ہراساں ہے کہ میں تیرے پاس واپس آنے والا ہوں اور تو مجھ سے میرے اعمال کی نسبت باز پرس کرنے والا ہے ۔تو میری سعی وکوشش کو قبول فرما میرے تدبر میں صلاحیت پیدا کر اور میرے دل کو اس کی برکتوں سے استقلال اور ثبات سے بہرہ اندوزی عطا فرما ۔لوگوں کے دلوں کو اس کی طرف مائل کر دے تا کہ انہیں معلوم ہو جائے کہ یہ چیز تیری جناب سے عطا ہونے والی حقانیت ا ور صداقت کے تحت ہے اور اس کے زیراثر ان کے دل تیری اطاعت شعاریوں کا کلمہ پڑھنے لگیں۔پروردگار!تو اب بھی مسلمانوں کی اصلاح و درستی اور اپنے نور سے ان کی رہنمائی کا اسی طرح بندوبست فرما جیسا کہ تو اس سے پہلے ان کی ہدایت اور اصلاح کے سامان بہم پہنچاتا رہا ۔پروردگار! وہ ایک نادان قوم ہے پروردگار! تو نے مجھے خبر دے دی ہے کہ وہ جلد ہی ہلاکت سے دوچار ہونے والے ہیں پھر میں ہی ان کی مخلصی کے لئے تیرے نور کی ایک اہم اطلاع ان کے پاس لایا ہوں ۔پروردگار! انہیں اتحاد ودائتلاف کی نعمت سے مالا مال کر دے اور ان کے افتراق کو اتفاق سے بدل دے ا ور ان کو ان لوگوں کے سیدھے راستے پر چلا جو نہ تو تیرے غضب ا ور نارضامندی کا نشانہ بنے اور نہ گمراہی کی آلودگی سے ملوث ہوئے۔

(حضرت علامہ مشرقی )

محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
آستان نبوت پر خراج تحسین
کیاوہ سالار انبیائ اور ختم رسول محمد علیہ الصلوٰة والسلام جس کے آسمان شگاف علم وعمل کو دیکھ کر رحمت ایزدی کا موسلادھار مینہ روئے زمین کو ا بدا لآباد تک تر بتر کرتا رہے گا جس کے قانون بقاوفنا کی تبیین کو پا کر بروبحر اور شمس وقمر اس پر سلام بھیجتے رہیں گے جس کی قوت‘تغیر اور انقلاب کا اندازہ کر کے مس خام کو کندن بننے کی دائمی آرزو رہے گی کیا وہ سرور عالم فی الحقیقت ایک کنج نشین اور کملی پوش ایک بے علم امی ا ور نارازدان زاہد ایک نماز گداز متوکل اور فاقہ کش متقی ہی تھا جس نے ایک اقل قلیل مدت میں عرب کی ایک بے نام ونشان اور جمود زدہ قوم سے علم وعمل کے وہ آتشیں فوارے اکناف عالم میں رواں کئے کہ دنیا ہمیشہ تک ان کے کارناموں کو سن کر سردھنا کرے گی کیا یہ پیشوائے زمان ان کی لائی ہوئی تعلیم ان کی مہتمم بالشان فتوحات ان کے خیابان عمل کا اس قدر پھیلاﺅ ان کی عالم آرا تحریک کا اس قدر قیام ودوام بذات خود اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ بے قافلہ سالار فطرت کے محکمہ تدبیر میں قضاوقدر کی بست وکشاد کے لئے معبوث ہوئے ا ور ساکنان زمین پر وہ قلبی اور اجتماعی اثر‘ وہ ذوق یقین ‘وہ لطف اعتقاد اور وہ حرکت اور تموج پیدا کر گئے جس نے کاروان انسانیت کی تقدیریں بدل دیں؟

(حضرت علامہ مشرقی ؒ )

نوے کروڑ فرزندان توحید کے
پیشوائے اعظم‘متعلم خدا‘ختم الرسل
محمد عربی کا موجودہ مقام
ایسے عظیم انسان کے متعلق یہ پست نگاہی کہ وہ دنیا سے چل بسے اور ان کی دی ہوئی تعلیم تقویم پارینہ بن کر رہ گئی بڑی تنگ نظری ہے۔ چودہ سو برس کی انسانی تاریخ بزبان حال ثابت کر رہی ہے کہ خدائے عالمیان کا یہ قاصد فی الحقیقت ختم رسل تھا۔ کیوں کہ ان کے بعد کسی فردبشر کو جرات نہ ہو سکی کہ نبوت کا دعویٰ کرے۔ ایسے خاتم النیبین اور متمم حجت خدا شخص کے متعلق اس کی دنیاوی زندگی کے بعد یہ تخیل کہ وہ بھی اور مرنے والوں کی طرح مر گیا صریحاً بدگمانی ہے۔ یقین اور علم اگر کسی طرف منطقی طور پر رہنمائی کر سکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ یہ بندہ خدا اپنی زندگی کے تمام طوفانوں سے گذر کر دو کمان سے بھی قریب تر ہو چکا ہے اور فکان قاب قوسین کے مرتبے کے بعد ا و ادنیٰ کی منزل پر بیٹھا تماشہ کر رہا ہے کہ بنی نوع انسان نے اس کے لائے ہوئے قرآن پر کیا عمل کیا؟ اور ابھی اس پر عمل کرنے مےں کیا کسر باقی ہے!!!

(ماخوذ از:تکملہ سیرت النبی)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

اسلام۔۔ ایک مکمل ضابطہ حیات!
روس نے جو فرع اس وقت دنیا کے سامنے پیش کی ہے وہ ”اشتراکیت“ یعنی روٹی‘کپڑے اور گھر کی کسی قوم میں”مشترک“ طور پر تقسیم ہے”مساوی طور پر تقسیم نہیں یہ اشتراکیت دین اسلام کی تعلیم کا ایک جزو حقیر ہے۔ لیکن چونکہ روس نے اس کو پچھلے 35برس سے عملی جامہ پہنا کر دنیا میں اپنے اس اصول کی کماحقہ‘تشہیر کی ہے مزدوروں کا مظلوم طبقہ اس فرع کی طرف کھچا آر ہا ہے اور چونکہ مخلوق کی کشش صرف اصولوں کی طرف ہے اور اکثر کو معلوم نہیں کہ روس میں عملاً کیا ہو رہا ہے اور کہاں تک ایک فرد کی شخصی آزادی وہاں پر محفوظ ہے اس لئے اس وقت بالمقابل” جمہوری“ ملکوں کے جن کا ظاہر نصب العین افراد کی جمہوری رائے سے سلطنت قائم کرنا ہے روس کی چڑھ بنی ہے نہ جمہوری ملک کسی معنوں میں صحیح جمہوریت پر قائم ہیں نہ اشتراکی صحیح اشتراک پر لیکن دونوں گروہ اپنی اپنی ڈنکی بجا کر دنیا کو دو گروہوں میں تقسیم کر رہے ہیں تا کہ با لآخر ایک گروہ غالب ہو کر دوسرے کو تہس نہس کر دے۔ ان دونوں گروہوں کی تعلیم دین اسلام سے ماخوذ ہے بلکہ اس دین کی تعلیم کا ایک نہایت ناقص حصہ ہے۔ تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ اسلام میں جمہوریت اور اشتراکیت دونوں اس سے زیادہ اعلیٰ معیار پر قائم تھیں جو یہ دونوں گروہ پیش کر رہے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ تیرہ سو ستر برس گذر جانے کے باوجود اسلام میں زیادہ جمہوریت اور اشتراک موجود ہے اور زیادہ اعلیٰ پیمانے پر لائی جا سکتی ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ۱۹۵۲)

اسوہ رسول کی شہادت
جوں جوں اسلام کی تلاش میں پیچھے ہٹتے جاﺅ گے مسلمان کی سپاہیانہ زندگی دین اسلام کا سب سے بڑا جز نظر آئے گا مسلمان کے متعلق ہوگا کہ سر سے پاﺅں تک ہر وقت کسا رہتا تھا۔ تلوار اس کے زیب بدن رہتی۔ قرآن اس کی بغل میں ہوتا تھا۔ خدا کے سوا سب شے اس کے سامنے ہیچ ا ور ناقابل اطاعت تھی۔ کسی ماسوا سے لگاﺅ نہ تھا تمام مسلمانوں سے خداواسطے کی محبت تھی ۔ہر ایک پر نیک گمان تھا ‘مال‘ اولاد ‘ماں‘باپ‘زن وزر سے صرف اس قدر لگاﺅ رہا تھا کہ قوم کی ترقی کے راستے میں حائل نہ ہو نفس کو ادنیٰ سا آرام نہ دیتا تھا محنت اور مشقت کا عادی تھا ۔حیاءسے غیر اور غیر کے مال پر آنکھ نہ اٹھاتا تھا‘ اپنی جان کو اسلام کی حفاظت کے بالمقابل بے قدروقیمت سمجھتا تھا بادشاہت اور حکومت اس کی تھی اس لئے شاہ نظر اور شاہ کرم ہوا کرتا تھا نماز‘روزہ‘حج اور زکوٰة کو تمام دنیا سے جنگ کرنے کے اوزار سمجھتا تھا۔ تمام دنیاکی حکومت حاصل کرنا اس کے پیش نظر تھا یہ وہ سبق تھا جو ہادی اسلام علیہ التحیتہ والسلام اور اس کے لائے ہوئے قرآن نے مسلمان کو براہ راست دیا یہی خدائے عظیم کے آخری رسول کی تیئس برس کی مکی اور مدنی زندگی کا ماحصل تھا ۔یہی اسوہ رسول تھا یہی مذہب اور دین تھا اسی مذہب چلن اور اخلاق کے پید اکرنے کے لئے رسول خدا بھیجے گئے تھے ۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
آخری آو ازیں!
قرآن حکیم میں لکھا ہے کہ دنیا میں بدترین حیوان وہ قوم ہے جو سنا نہیں کرتی اور اکثر نبی جو دنیا میں آئے اسی دکھڑے کو روتے رہے کیوں کہ وہ صرف زوال یافتہ قوموں میں آئے اور تمام عمر اسی دھن میں لگے رہے اور با لآخر قوم کو اپنا پیغام بتا کر چھوڑا۔میں نبی نہیں ہوں اسی لئے قوم نے میری آواز نہ سنا۔ لیکن مجھے اطمینان ضرور ہے کہ جوں جوں قوم میری آواز کو درکار رہی ہے روز بروز اس کی حالت بد سے بدتر ہو رہی ہے اس لئے اتنا ضرور یاد رکھو کہ یہ آوازیں جو میری طرف سے آخری آوازوں کے طور پر آ رہی ہیں شدید غصے کی آوازیں ہیں اور تم نے پھر نہ سنا تو شدید تر سزائیں ضرور آئیں گی۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)
شاہراہ معراج وغلبہ
دنیا اسی قوم کو ملا کرتی ہے جو دنیا کی عاشق نہ ہو زندہ قومیں زندہ اس لئے ہیں کہ ان میں خدا کے تکلیف دہ حکموں کے سوا کسی شئے سے محبت نہیں ہوتی۔ ان میں مال ودولت فرزند وزن‘ جاہ وغرض کے بت اکثر نہیں ہوتے وہ صرف خدا کو مانتی ہیں خدا کے سوا کسی کے حکموں کو نہیں مانتی۔ قرآن نے صاف کہہ دیا تھا کہ مسلمانو! تمہارے مال اور اولاد صرف ایک فتنہ ہیں۔ ہم انہیں دے کر آزماتے ہیں کہ تم ان کی محبت میں کس قدر پھنستے ہو۔ ورنہ یاد رکھو! کہ ہم دنیا میں عروج اسی قوم کو دیں گے جو ان کی محکوم نہ ہو۔ اور میری محکوم‘ میری غلام اور میری تابع فرمان بن کر رہے!

(حضرت علامہ مشرقی ؒ )

قناعت
میرے پاس خدا کی جناب سے قناعت کے بڑے خزانے ہیں اور وہ زیادہ تر اس لئے کہ میں اور مسلمانوں کی عادت کے خلاف چار آنے خرچ نہیں کرتا جب تک کہ چھ آنے میری جیب میں نہ ہوں۔ اپنی چادر سے باہر تمام عمر کبھی پاﺅں نہیں پھیلائے کبھی کوئی بدمعاشی نہیں کی ایک پیسہ بچانے کے لئے ایک میل کا پیدل سفر بھی کر لیتا ہوں وقت پر اپنی روٹی آپ پکا لیتا ہوں اپنا جوتا گانٹھ لیتا ہوں کپڑے کو آپ پیوند لگاتا ہوں اسی لئے جزرس‘ کفایت شعار بلکہ کنجوس مشہور ہوں لیکن الحمد للہ کہ آج تک کسی کا محتاج نہیں ہوا۔ کسی سے قرض نہیں لیا کسی کا کچھ اپنے ذمے نہیں رکھا اپنے ناخنوں کی کمائی کے بغیر کسی کا کچھ نہیں کھایا۔ اگر اخبار نکال کر ہی روپیہ کمانا تھا تو دو ہزار روپیہ ماہوار کی ملازمت جس میں صرف چند گھنٹے دفتر جاتا تھا کیوں چھوڑتا میں نے خاکسار تحریک کے لئے اپنی زندگی محفوظ رکھی ہے اس لئے اس بوجھ کو جو میرے کندھوں پر مجبوراً پڑا ہے دیکھ کر لرز جاتا ہوں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
قومی شجاعت کاا ولین تقاضا
شجاعت کا ادنیٰ اور پہلا تقاضا یہ ہے کہ اسکے چاروں طرف قوت اور جلال کا پھریرا لہریں مار رہا ہو۔جس قوم میں شجاعت ہو ہوا کر غلامی اور عاجزی ہو وہ ننگ زمین ہے غلامی اور عاجزی کا باعث یہی ہے کہ بہادر لوگ بکھرے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے کا گلا کاٹ رہے ہیں۔ بہادر صرف قوم کی حفاظت کے لئے پیدا ہوا ہے۔ ہر باہر کے حملہ آور کو تہس نہس کر کے گھر کو مضبوط کرنے کے لئے پیدا ہو اہے بہادر کو سجتا نہیں کہ غیروں کے سوا کسی سے لڑے دشمن کے سوا کسی پر زور آزمائے میرے نزدیک بہادر کا صحیح کیف یہ ہے کہ سب قوم بہادر ہونے کی وجہ سے متحد ہو جائے اتحاد اس لئے ہو کہ شجاعت موجود ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

مشعل راہ
عالمگیر غلبہ چاہنے والی قوم کا ہر فرد خواہ وہ امیر ہو یا غریب بادشاہ ہو یا رعیت دن میں ایک دفعہ نہیں پانچ دفعہ ایک قطار میں کھڑا ہو کر فاطر زمین وآسمان کے آگے ایک مجاہد انسان کی قیادت میں اپنا ماتھا زمین پر رگڑے تا کہ امیر کی سب اکڑ دن میں پانچ دفعہ نکلتی رہے اور غریب کو حوصلہ ہو کہ امیر بھی اسی قطار میں کھڑا ہے۔ یہ اس لئے کہ امیر کا جمع کردہ سرمایہ انسانیت ہیئت اجتماعی میں خواہ وہ زمین کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک پھیلی ہوئی ہو کوئی غیر معمولی خلل پید انہ کر سکے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

اسلام اور ملت اسلامیہ کی عظمت رفتہ کی باز آفرینی
ہاں مسلمانو!قرن اول کے سچے اسلام کو ازسر نو پھر حاصل کرنے کے لئے قرآن عظیم پھر نئے سرے سے آسمانوں سے اتارنا پڑیگا جبرائیل کی وحی پھر ایک ایک دل میں نیا ہیجان اور ولولے پیدا کر کے رہے گی۔ ہاں خدا کی یہ آخری کتاب پھر تیئس برس میں دلوں پر آہستہ آہستہ نازل ہو گی۔ایک ایک آیت کی تفسیر پھر قلموں اورکتابوںسے نہیں بلکہ بدر وحنین کی معرکہ آرائیوں سے تکمیل پائے گی۔ غارحرا کی خلوتوں سے پھر حیات ابدی کی صدائیں سنائی دیں گی فاران کی چوٹیوں سے دلوں کے جھروکوں میں پھر خدا کا نور پھیلے گا دل پھر اسی طرح اچھل اچھل کر حلق کو آئیں گے۔تیرہ سو برس کے بعد اگر مسلمان پھر قرآن کی طرف لوٹنا چاہتا ہے تو اسے کہہ دو کہ
قرآن کی تفسیرخون کی ندیوں ‘ تڑپتی ہوئی لاشوں کشتوں کے پشتوں ‘خون آلود تلواروں اور کند بیلچوں میں چھپی ہے جب تک یہ سب پھر ظاہرنہ ہوں گے قرآن کو سمجھا نہ جا سکے گا۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

فطرت کے دس اصول
قوم کو اجتماعی طور پر غالب کرنے کے لئے فطرت کے حسب ذیل اصولوں پر انتہائی عمل ضروری ہے۔
(۱) عملی طور پر خدا کے حکموں کا ماننا خواہ وہ حکم الکتاب کے ہوں یا صحیفہ فطرت سے اخذ ہوں اور فرمانبرداری میں کسی دوسرے حاکم مثلاً نفس یا ذاتی خواہشات کے دیگر بت کو شریک نہ کرنا۔
(۲)قوم کا داخلی اتحاد(۳) اپنے امیر کی جو باہمی مشورے سے کام کرے کامل اطاعت(۴)وقت پر تلوار سے جہاد(۵) وقت پر مال سے جہاد(۶) ضرورت کے وقت ترک وطن اور ترک لذات (۷) صبراور استقلال سے ہر کام کو تکمیل تک پہنچانا(۸)صحیفہ فطرت سے انتہائی علم حاصل کرتے رہنا(۹) مکارم اخلاق کا بدرجہ اتم حاصل ہونا(۰۱) آخرت پر ایمان رکھنا۔
جو قوم جس شدت سے ان فطری اصولوں پر عامل رہے گی اسی شدت سے اس کا استحکام زمین پر ہو گا۔


(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

زندہ قوموں کی بنیادی خصوصیات
زندہ قوموں کا نظام اس روحانیت ا ور فتوے کا نام ہے جس کے باعث ان کے افراد اپنے قلب کی اندرونی آواز پر قاعدے اور سنت اللہ کے مطابق خود بخود چلتے ہیں۔ افراد کے اندر قانون کی نافرمانی کا ہول اور ضابطوں کی پابندی کا احترام خود بخود پیدا ہو جاتا ہے دلوں میں ذمہ داری کا حس‘ ذہنوں میں پابندی اصول کا احترام الغرض قومی حیا اور وجدان اس قدر جاری وساری ہوجاتے ہیں کہ تمام قوم کی قوم سردار کی شخصیت سے عملاً بے نیاز ہو جاتی ہے۔ سردار صرف حکم دینے کی مشین بن جاتا ہے۔ سردار برا ہو یا بھلا موجود ہو یا غیر موجود زندہ رہے یا قتل کر دیا جائے قوم پر اس کا لازماً کچھ اثر نہیں پڑتا۔ زندہ قوم کے دل زندہ ہو تے ہیں۔ ان سے اگر کوئی شئے عمل کراتی ہے تو وہ ضمیر کی آواز یا دوسرے الفاظ میں خدا کا خوف اور شرح صدر ہوا کرتا ہے زندہ قوموں کے افراد خوف خداسے براہ راست لگاﺅ پید اکرتے ہیں اوراپنے سردار کی شخصیت سے بے نیاز ہو جاتے ہیں۔
(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

انفرادی واجتماعی فوزو فلاح کا راستہ
اگر تم فوزو فلاح کے آ رزو مند ہو تو اپنے نشوونما دینے والے کی طرف رجوع کرو۔ اس خدا کی بارگاہ میں سرتسلیم خم کر دو جسکے قانون مکافات کی رو سے کسی قسم کی خارجی زندگی میں اس وقت تک کوئی انقلاب ممکن نہیں جب تک کہ اس کی داخلی زندگی سے اس انقلاب کے امنگیں نہ ابھریں(۱۱:۱۳) ارشاد خداوندی یہ ہے کہ ہمارے قانون نے جس قوم کی ہلاکت کا فیصلہ صادر کر دیا اس کے لئے سلامتی کی باز آفریئی ممکن نہیں(۹۵:۲۱) اس لئے اگر اپنے دعوےٰ ایمان میں سچے ہو تو ان تخریبی قوتوں (شعر کاءالجن) اور اپنے ان خداﺅں سے کلیتہً روگردانی اختیار کر لو جو تمہیں سعی وعمل سے منحرف کئے ہوئے ہیں اگر تم چاہتے ہو کہ اپنے نشوونما دینے والے کی بارگاہ میں حسن انجام کو پہنچو تو انفرادی واجتماعی طور پر اس کی بارگاہ سے متمسک ہو جاﺅ۔ خدا کے ہاں سے کسی کو بھی اس وقت تک فوزوفلاح میسر نہیں آتی تا آنکہ وہ اس دنیا میں اپنی قوم کی فلاح کا سامان پید انہیں کرتا اور جس نے اپنی قوم کو سربلند کیا وہ اپنی سیہ بختیوں میں نصرت خداوندی سے نوازا گیا۔

(تذکرہ ‘مجلد اول۔عربی افتتاحیہ۔ص97)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ )

جادئہ امتحان طلب
ہاں مسلمانو!تمہاری دو صدیوں کی زوال پذیر قوم میں خاکسار تحریک نے پہلی بار یہ احساس پیدا کیا ہے کہ خدا کی راہ میں جان ومال کی قربانی کس قدر ضروری ہے دو سو برس سے بھٹکے ہوئے آٹھ کروڑ مسلمانوں میں چند صداشخاص اس غرض سے میدان میں نکلے ہیں کہ جان دینے والے خدا کی بارگاہ میں جان حاضر کرنے کا اقرار کریں جان دینے کا ابتدائی معاہدہ خدائے جان آفریں سے باندھیں پہلی دفعہ قرآن حکیم کے اس حکم پر نگاہیں لگی ہیں کہ خدانے مومنوں سے ان کی پوری جان اور پورا مال جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے مسلمان پہلی دفعہ ہوش میں آیا ہے کہ مولوی کا مسلمان کے لئے ”جنت کے ٹھیکے“ کا مسئلہ غلط ہے۔ قرآن کی حکمت کا ملہ کے خلاف ہے۔ مکروفریب ہے۔ نفس سے دھوکہ ہے۔ تکلیف دہ عمل سے بچنے کا ایک بہانہ ہے۔ پہلی دفعہ معلوم ہوا ہے کہ امتحان طلب اور صبر آزما خدا جو اپنے بڑے سے بڑے دوست ابراہیم علیہ السلام سے بھی اشد شدید قربانی کا طالب ہوا جو اپنے بڑے سے بڑے حبیب اور ختم الرسل صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی تیئس برس کی زہرہ گداز تکالیف کے بغیر کامیاب کرنے سے باز رہا ایسے خدا سے جنت کی طلب کوئی آسان اور گھر کی بات نہیں ہمیں پہلی دفعہ جنت کی صحیح معنوں میں طلب اور پکار پید اہوئی ہے وہ جنت جسے مولوی اور ملا قرنوں سے بے دھڑک اس قدر سستے داموں بانٹتے چلے آرہے تھے کیوں کہ ان کا اپنا مال نہ تھا اس جنت کی قدر پہلی بار معلوم ہوئی ہے اس کی قیمت کا پہلی بار احساس ہوا ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

تمہاری کمزوری کا راز تمہارانفاق ہے!
اے مسلمانو!اکٹھے ہو جاﺅ فرقہ بندی چھوڑ دو۔ اپنے عقیدوں پر مضبوطی سے جمے رہو۔ یک دل اور یک جان ہو جاﺅ۔ سپاہیانہ قوتیں پیدا کرو۔ ایک حکم ا ور ایک سالار کے ماتحت ہو کر ایک عمل کرو۔ تمہاری کمزوری کا راز تمہارا نفاق ہے تمہاری خود رائی اور تکبر ہے۔ تمہاری غفلتیں اور سستیا ں ہیں۔ خدا کی غلامی کو چھوڑ کر اپنے نفسانی خواہشات کی غلامی ہے۔ تم خدا کا کہا نہیں مانتے اپنے نفس کا مانتے ہو۔ بیوی اور بچوں کا مانتے ہو باغیچوں اور مکانوں کامانتے ہو‘ اپنی دولت ا ور عزت کا مانتے ہو۔ یہ سب چیزیں تمہارے بت ہیں جن کو تم پوج رہے ہو۔ اگر آج ان کو چھوڑ کر خدائے ذوالجلال کا کہا مانو تو آج بیڑا پار ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
مجھے مشکلات سے عشق ہے
میری تمام زندگی بچپن سے تنگی‘ تکلیف اور عسر میں کٹی۔ میں نہایت آسودئہ حال گھر میں پیدا ہو کر بھی تکلیف اور رنج‘ محبت اور کلفت کا شیدائی رہا۔ دنیا کا کوئی آرام نہیں جو خدائے عزوجل نے مجھے میسر نہ کیا ہو لیکن اس آرام کو پیہم اور ضد سے چھوڑتا رہا۔ کوئی عیش نہیں جس پر میری دستر س نہ ہو سکتی تھی لیکن اس عیش سے یکسر روگرداں رہا۔ کوئی مرتبہ اور دنیاوی جاہ نہیں جو مجھے چشم زدن میں نہ مل سکتا تھا لیکن اس کو جان بوجھ کر پاﺅں سے ٹھکراتا رہا۔ مجھے دکھ اور تکلیف میں خدا سے قرب کا یقین رہا ہے اور اب رنج اٹھا اٹھا کر اس سے قریب تر ہونا چاہتا ہوں ۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

بڑھے چلو !بڑھے چلو!
مردانگی یہ ہے کہ منزل تک ضرور پہنچا جائے!!
یاد رکھو!اس کا رخانہ قدرت میں سکون موت ہے۔ جو بیٹھا وہ مر گیا جو چلتا رہا منزل مقصود تک پہنچ گیا۔ اب اتنی دیر تک چل چل کر ٹھہر جانا شیوہ دانش نہیں اب نہ پرانا آرام والا گھر نظر آتا ہے۔ نہ نئی عیش کی جانفزا منزل نہ واپس اس پرانے کھنڈر تک جا سکتے ہیں جہاں سے چلے تھے نہ نئی منزل تک پہنچنے کے چسکے کو چھوڑ سکتے ہیں صرف رہگذر پر سنسان کھڑے ہیں ۔ نہ پیچھے کچھ دکھائی دیتا ہے نہ آگے۔ جان کے سب لگے ہوئے روگ چھوڑ بیٹھے۔ رشتہ داروں سے منہ موڑا۔ بیوی بچے غرض نفس۔ سب سے دل برداشت ہوئے۔ خدا کی راہ میں تن تنہا نکلے۔ بتوں کو توڑا‘ خدا سے رشتہ جوڑا‘ وردی کسی‘ بدنام اور رسو ا ہوئے ملامتیں سہیں‘ طعنے جھیلے‘ ننگ وناموس کی چادر اتاری۔ اب کیا ہے جب وہ پہلی عقلیت کی شان نہ رہی تو مردانگی یہ ہے کہ منزل تک ضرور پہنچا جائے میں چاہتا ہوں کہ اس وقت ہم جو نہ گھر کے رہے نہ گھاٹ ہوش اور تدبر سے کام لیکر گھاٹ تک پہنچیں۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

کلید کامیابی
جب تک تمہارے بدن کی حرکتیں درست نہیں تمہارے اخلاق کا بلند ہو نا محال ہے۔ ان بدنی حرکتوں میں تمہاری آنکھ‘ کان‘ ٹانگ کی حرکتیں شامل ہیں۔ آنکھ کی صحیح حرکت یہ ہے کہ کسی غیر عورت پر تمہاری نظر نہ پڑے۔ کان کی صحیح حرکت یہ ہے کہ کسی بری بات اور غیبت کو نہ سنے‘ ٹانگ کی صحیح حرکت یہ ہے کہ کسی برے کام کے لئے نہ چلے۔ الغرض! جب تک تمہارے جسم کی حرکتیں سپاہیانہ قواعد میں درست نہ ہوں اور تمہارے جسم کی خواہشوں پر تمہارا پورا قابو نہ ہو تم کبھی بلند اخلاق کے مالک اور فاتح عالم نہیں بن سکتے یاد رکھو! یہ تمام کامیابی کی کلید ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
نظام
نظام کا تعلق شخصیت سے اکثر نہیں۔ یہ ضروری بلکہ صحیح نہیں کہ کسی جماعت کا نظام کسی خاص شخصیت کے باعث چلے اور جب وہ شخص موجود نہ ہو کام بگڑ جائے۔ زندہ قوموں میں نظام اس روحانیت اور تقوےٰ کا نام ہے جس کے باعث افراد اپنے قلوب کی اندرونی آواز پر قاعدے اور سنت اللہ کے مطابق خود بخود چلتے رہتے ہیں افراد کے اندر قانون کی نافرمانی کا ہول اور قاعدوں کی پابندی کا احترام خود بخود پید اہو جاتا ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

علم کی صحیح تعریف!
علم میرے نزدیک کتابوں کے پڑھنے اور امتحانوں میں شامل ہونے سے پیدا نہیں ہوتا‘ علم وہ یقین وایمان کا مرتبہ ہے جو آنکھوں کے براہ راست دیکھنے ‘کانوں کے براہ راست سننے اور قلب سلیم کی بلا واسطہ فہم وفراست سے پیدا ہوا ہو‘ گوش وا اور دیدئہ بینا والا شخص ہی صحیح معنوں میں عالم ہے باقی ازروئے ”قرآن“ اپنی پیٹھ پر کتابیں لادنے والے گدھے ہیں۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

”تذکرہ“
تذکرہ لکھنے کے بعد میں نے دس برس تک انتظار کیاکہ کہیں سے کوئی آہ نکلے جو نیستی کے خرمن کو یکسر آگ لگا کر رکھ دے۔ لیکن پورے دس برس واہ واہ ہی نکلتی رہی اور قوم تذکراتے تذکراتے سو گئی ۔ کئی برس کے انتظار اور سوچ کے بعد مجھ جیسے کند ذہن کو پتہ چلا کہ اگر بیمار کو لوریاں دیتے رہو گے تو نقاہت اور کمزوری کا اثر یہ ہو گا کہ وہ اور سوئے گا اس میں اٹھنے کی طاقت لوریاں دے کر کہاں آئے گی یہ تبھی اٹھے گا جب اسے اٹھنے کا ڈھنگ سکھاﺅ گے اپنے ہاتھوں سے اٹھاکر پاﺅں پر کھڑا کر دو۔ اس کو بیٹھنے نہ دو اور اگر اٹھنے کی طاقت کے باوجود مکر کرتا ہے اور توفیق نہ ہونے کا عذر تراشتا ہے تو حضرت عمرؓ کا درہ مار کر اٹھاﺅ اور خود مجنوں بن جاﺅ لوگ آپ اس مار کو سہہ لیں گے اور اٹھنا اور چلنا تو درکنار بھاگنا شروع کر دیں گے۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

ہماری پہلی جنگ اپنوں سے ہے
مشرقی اپنے قول میں ہرگز نہیں بدلا۔ اس نے روز اول سے” قول فیصل“ میں کہہ دیا تھا کہ غلبے کی منزل تک پہنچنے کے لئے ”ہماری پہلی جنگ اپنوں سے ہے“ قوم کو سب سے پہلے اپنوں نے ہی ذلیل کیا ہے۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام جنگیں صرف اپنوں سے تھیں اور ہماری جنگیں بھی اس وقت تک اپنوں سے رہیں گی جب تک کہ سب اپنے صحیح معنوں میں اپنے نہ بن جائیں!

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

ہمارا کردار صاف ہے!
ہم میں جرات اس لئے ہے ۔کہ ہمار اکردار صاف ہے ہم نے خدا گواہ ہے کبھی قوم سے فریب نہیں کیا ہمارے آدمیوں نے اپنے آپ کو تکلیف میں ڈالا اور قوم کی خدمت کی ہم نے جانیں دیں خون دیئے۔ گھر بار کو آگ لگا کر دوسروں کو آباد کیا قوم نے ہماری قدر نہ کی تو ہم قوم سے ناراض نہیں ہوئے بلکہ دل میں یہی کہتے رہے کہ ہم مٹ جائیں تو مٹ جائیں لیکن قوم کا بھلا ہو۔ مسلمانو! اس صاف کردار کے ہوتے ہوئے کس میں دلیری ہے کہ ہمیں فریبی ا ور دھوکہ باز کہے کس کو جرات ہے کہ ہمیں کہہ سکے کہ ہم اسٹیج پر اس لئے آئے ہیں کہ وزارتیں حاصل کریں اور وزارت حاصل کر کے لاکھوں اور کروڑوں روپیہ بنکوں میں جمع کریں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ )

طرز تعلیم ازسر نو مرتب کیا جائے
ملک کی عام جہالت کو دور کرنے کے لئے مسجدوں‘ مکتبوں ‘مدرسوں کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جائے تا کہ مغربی حلقوں کے ناقابل برداشت مصارف سے چھٹکارا ہو سکے اور طرز تعلیم کو اس طرح مرتب کیا جائے کہ وہ ایک پسماندہ ملک کی فوری ضروریات کو پورا کر سکے۔ ابتدائی تعلیم صرف نوشت وخواند معمولی حساب دانی پر محدود ہونی چاہیئے اور اس مقصد کے لئے اردو اور عربی رسم الخط عام طور پر استعمال کیا جائے۔ اس کے لئے مقامی استادوں کی حیثیت کو بلند کرنے کے لئے زور لگنا چاہیئے تا کہ وہ اپنے شاگردوں کے اخلاقی معیار کو عمدہ تلقین اور اعمال سے بلند کر سکیں۔

(جنوری۱۹۵۳)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ )

خاکسار تحریک کا آغاز
خاکسار تحریک ۱۹۳۰ءمیں اللہ کا نام لے کر شروع ہوئی اس وقت میں تنہا تھا اور اس بیابان کو دیکھ رہا تھا۔ جس میں مجھے چار وناچار کو دنا تھا ہر طرف ویرانہ ہی ویرانہ نظر آتا تھا اور کوئی میرا ہم سفر تو خیر ہم خیال بھی نہ تھا باپ اور ماں مجھ سے جدا ہو چکے تھے کہ میری غلطیوں میں ساتھ دیتے۔ بچے کم عمر تھے۔ کہ ان کی امداد حاصل کرتا۔ ایک رفیقہ حیات تھی۔ لیکن وہ بھی میری تنہائی سے پریشان رہتی کہ یہ سفر کیونکر کٹے گا۔ اسے مجھ سے جدا کرنیوالے کم نصیب بہت تھے ۔جو دن رات بہ دلائل کہتے تھے کہ اس نازونعمت عزت ا ور شہرت کے بعد جو مجھے حاصل ہے یہ فقیروں اورقلندوں کی چال جو میں نے اختیار کی ہے صرف دماغ کی خرابی ہے ۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ )

رہنماﺅں کا ربط باہمی
تاریخ کا ایک ایک ورق گواہ ہے۔ کہ اسلام بار بار سمٹتا اور پھر ابھرتا رہا اس نے بار بار لچک قبول کی لیکن اچھلا اور پہلے سے دو قدم آگے تھا مسلمانوں کے رہنما ﺅں اور ان کے بہترین دماغوں نے اس تیرہ سو برس کے اندر اسلام کی وہ وہ خدمتیں کیں کہ تاریخ کے مورخ حیران وششدر ہیں مسلمان جگہ بہ جگہ رکے لیکن پانی کی طرح چھوٹے چھوٹے سوراخوں سے گذر کر پھر دریا بنتے رہے جب اسلام کے اندر یہ لچک ‘ یہ روانی ‘یہ ابھار‘ یہ چڑھاﺅ تیرہ سو سال سے برابر چلا آرہا ہے۔ تو آج قوم کے سرداروں کی باہمی کشمکش کچھ خوب نہیں یہ اپنی تاریخ سے مذاق ہے۔جب سب کے دلوں میں تڑپ ایک ہے۔ جب قبلہ کا نام بلند کرنے کیلئے قبلہ نما کی بے چینی ایک ہے مقناطیس کی سوئی کی طرح سب کو یکسو ہو جانا چاہیئے رہنما الگ الگ رہیں تو ان انگاروں سے شعلے کیا پیدا ہو نگے انگاروں کے سر جوڑ دینا اور آسمان سے ہوا کا چلنا ہی بدبختی کے دن پھیر سکتا ہے۔ اسلئے میں تمام رہنماﺅں سے باادب کہو نگا کہ سپہ سالاری کے وہم چھوڑ کر سب کے سب سپاہی بن جاﺅ اور صلح کرلو۔تم سب مل کر اسقدر قوی ہو کہ اگر کسی طرح راہ نہ ملے تو ایک سوئی کے ناکے سے بھی دریا بہا سکتے ہو۔یاد رکھو!اسلام آج تک کسی سے عاجز اور ہیٹا نہیں ہوا۔ یہ کلنک کا ٹیکہ کہیں تمہارے حصہ میں نہ آ جائے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

ا بر رحمت کا انتظار اور یقین!
مجھے یقین ہے کہ تیرہ کروڑ ستاروں کا مالک خدا ہم سر پھروں کی اس تحریک کی طرف ضرور دیکھ رہا ہے۔ اس کی جابر اور قاہر نگاہ میں لطف ورحمت کی وہ جھلک ضرور ہے جو پل بھر میں میلوں تک خشک اور افسردہ زمینوں کو نہال کر دیتی ہے اس کی نگاہوں کی سطوت اور شوکت میں ایک عاطفت کی کرن بے شک ہے جو ہم بے نوا اور غریب خاکساروں پر پڑ رہی ہے۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ ان دیوانوں اور سرپھروں نے کچھ ایسا کام ضرور کیا ہے کہ اب ذوالجلال کی رحمت کے فرشتے کسی رحمت کے پروانے کے منتظر کھڑے ہیں۔ میرے نزدیک وہ کام یہ ہے کہ ہم گودڑیوں میں پلے ہوئے خاکسار خدا کے سوا کسی کے نہیں ہماری دوستی خدا کے لئے ہم نے اگر کوئی نیکی کی ہے تو صرف اپنے اللہ کو خوش کرنے کے لئے اور اگر ہم سے کوئی ناگوار بات ظہور میں آئی ہے تو اس لئے کہ امت کی کشتی کو بھنور سے نکال کر کسی نہ کسی دھکے سے‘ زور سے‘ جبرواکراہ سے چیخوں اور پکاروں سے پار لگا دیں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

خاکسار تحریک میں شمولیت کی شرطیں
خاکسار تحریک میں شامل ہونے کے لئے صرف خدا پر کامل یقین ایک اور آخری نبی محمد صلعم کا دلی اقرار اور روز قیامت پر سچے ایمان کی ضرورت ہے۔ اس سے زیاہ مسلمانی ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے نزدیک قرون اولیٰ کے مسلمان انہی تین چیزوں کو مضبوط پکڑ کر دنیا میں سر بلند ہو گئے تھے اور انہی تین پر عمل آج ہم پھر چاہتے ہیں۔ باقی چیزوں میں امت کے درمیان اختلاف اگر کچھ ہے تو پھولوں کے مختلف رنگوں کا اختلاف ہونا چاہیئے اس کو بنائے فساد بنا لینا ہمارے نزدیک قطعاً روا نہیں یہی وجہ ہے کہ خاکسار تحریک میں سیاسی اختلافات کے متعلق بحث وجدال بھی منع ہے ایک کانگریسی جو اپنے اصول کے مطابق حکومت وقت سے برسر پیکار ہے ایک حکومت کے ملازم افسر کے دوش بدوش کھڑا ہو سکتاہے اپنے عقیدے پر مضبوطی سے جما رہ سکتاہے لیکن ا س سیاست کو بزور کسی خاکسار سے نہیں منوا سکتاہم سیاست اور مذہب سے متعلق تمام بحث وجدال سے اسلئے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ کہ اس قسم کی خانہ جنگی قومی کمزوری کا باعث ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
خاکساری کا پیش نہاد
میں نے لفظ خاکسار عاضی طور پر اس لئے تجویز کیا ہے کہ مسلمان کا تکبر اور رعونت ہر وقت ٹوٹتی رہے۔ یہ تکبر اور رعونت نا انصافی کی جڑ ہے بیلچہ اس لئے رکھا ہے کہ ہر وقت غرور توڑتا رہے۔ وردی اس لئے رکھی ہے کہ سپاہی ہونے کا احساس قائم رہے۔ سپاہیانہ قواعد اس لئے ہیں کہ سب چست‘ فرمانبردار اور حساس رہیں۔ لیڈر بن کر کسی کو بھی لیڈری کا غرور نہ رہے۔ موٹے موٹے ا ور الگ الگ پتھر بن کر زمین پر جامد نہ رہیں بلکہ میدہ بن کر ہموار ہو کر اور پس کر ہوا میں اڑ یں نہ لفظ خاکسار‘نہ بیلچہ‘ نہ وردی‘ ہماری تحریک کے جزو ہیں۔ صحیح سپرٹ مسلمان کو پھر مسلمان بنانا ہے خواہ کسی طریقے سے ہو خاکسار کا لفظہمارے سرخ نشان پر اس لئے نہیں لکھا‘ نہ بیلچہ کی تصویر اس پر کھینچی گئی خاکسار کا لفظ فارسی لفظ ہے مذہبی لفظ نہیں۔ اب ہمارے سپاہی کا نام عوام نے” بیلچہ فوج“ رکھ لیا ہے۔ خاکسار بہت کم لوگ بولتے ہیں خدا جانے کل کو بندوق کندھوں پر دیکھ کر بندوق فوج نام رکھ دیں۔ مسلمان نے کہیں بھی ہم کو الگ مذہبی فرقہ نہیں سمجھا بدبخت مخالف ہم کو عقیدوں کی آڑ میں لا کر مذہبی فرقہ بنانے کی آرزو رکھتے ہیں لیکن یہاں عقیدوں کی بحث نہیں وہ کیا کر سکیں گے اس تحریک میں سب عقیدوں کے لوگ ہیں اور کوئی کسی کے عقیدے کو چھیڑ نہیں سکتا میں نے اس لئے اجتماع کے موقعوں کے سوا خاکی وردی بھی لازمی نہیں رکھی خدمت خلق کے موقع پر کہا ہے کہ خاکسار اپنے آپ کو صرف مسلمان کہا کریں خاکسار نہ کہیں تا کہ عوام یہ نہ کہیں کہ خاکی وردی والے خاکسار ہی خدمت خلق کیا کرتے ہیں عام مسلمان کے متعلق جذبہ پھیلے کہ وہ سچا خادم خلق ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

خاموشی طاقت کی علامت ہے!
خاکسارتحریک کی بنیاد خاموشی ہے۔ خاموش قوم ہی صحیح معنوںمیں طاقتور ہے۔ خاموشی طاقت کی پہلی اور آخری علامت ہے۔ فطرت کی تمام بڑی بڑی طاقتیں خاموش ہیں اور خاموشی سے عمل کر رہی ہیں یہی خاموش طاقتیں جب ٹکرانے پر آتی ہیں مخالف قوتوں کو پاش پاش کر دیتی ہیں۔ خاکسار تحریک کا پیش نہاد قوم کو خاموش کر دینا ہے اس خاموشی کے اندر قوم کی صدہا اخلاقی بیماریوں کا علاج موجود ہے اگر کسی قوم کے پاس اپنی بہتری کے اور وسائل موجود نہیں تو اس کا صرف خاموش ہو جانا ہی اس کو سربلند کر سکتاہے۔ مسلمانوں کے نابکار لیڈروں اور ناعاقبت اندیش ملاﺅں نے کئی سالوں سے مسلمان کے شیطانی جذبات کو بھڑ کا کر قوم کو اس قدر ناکارہ کر رکھا ہے کہ اب اس کے پاس نعروں‘ لفظوں ‘بحثوں‘ دماغی عیاشیوں اور ہنگامہ آرائیوں کے سوا کچھ باقی نہیں رہا کسی زمانے میں مسلمان نعرے اس وقت لگایا کرتے تھے جب کوئی قلعہ فتح کرنا ہو۔ آج نعرے محض نعروں کی خاطر بلند ہوتے ہیں اور ڈھول کا پول صاف نظر آتا ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

اکثریت یا خون؟
میں چاہتا ہوں کہ سیاست کی موجودہ شطرنج میں جو پچھلے تیس برس سے مختلف دو کانداروں میںکھیلی جارہی ہے۔ مسلمان پھر اس مہرے کو پکڑ لیں جس کی چال کے آگے تمام موجودہ سیاست مات ہو کر رہ جائے مسلمان کا خون گیارہ سو برس سے ہندوستان کی حفاظت کرتا آیا ہے اور اسوقت سے کرتا آیا ہے جب انگریزوں نے ابھی ہندوستان کا خواب بھی نہیں دیکھا تھا ہم آئندہ بھی بوقت ضرورت اپنا خون بے دریغ پیش کرتے رہیں گے لیکن اگر ہندوستان پر حکومت کرنا انگریز کے بس کاروگ نہیں رہا اور نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ مالی باغ کو چھوڑتے ہوئے اسے بلبلوں اور شہ بازوں کے سپرد کر دے تو اس فیصلہ کے وقت ہم انگریز کے سامنے دنیا کی کتاب سیاست کو کھولیں گے اور اسے بتائیں گے کہ دنیا پر حکومت کی تاریخ ہمیشہ خون کے حروف میں لکھی گئی۔ عینکوں‘ ڈگریوں‘ دھوتیوں‘ جڑے ہاتھوں کی سلاموں یا پولیس کی لاٹھیوں کی چوٹوں ا ور چرخوں سے نہیں لکھی گئی جس کا جی چاہے پڑھ کر دیکھ لے اور فیصلہ کر لے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

نشاة ثانیہ کا اعلان
ہم اعلان کرتے ہیں کہ تیرہ سو برس کی غلطیوں اور صدیوں کی خطائے کبیر کے بعد ہم نے پھر حقیقی سچے اور خدائی ‘ہاں آخری نبی کے آخری اسلام کو پا لیا ہے فاروق اعظم اور خالدؓ بن ولید کے اس دین کو پھر سمجھ لیا ہے جو بارہ برس میں چھتیس ہزار شہر ا ور قلعے فتح کیا کرتا تھا اس میں پنج وقتہ نمازیں اور روز ے بھی تھے۔ تراشیدہ لب مونچھیں اور خوبصورت داڑھیاں بھی تھیں۔ قیصر وکسریٰ کے ایوانوں میں اذانیں اور میدان میں نعرے بھی تھے۔ لیکن اس دین کا ماحصل دنیا میں غالبون اور اعلون بن کر رہنا تھا خدا سے رشتہ جوڑ کر اس کی زمین پر اس کانام بلند کرنا تھا ہاں اس دین کا مقصد غلامی اور عاجزی نہ تھی ذلت اور مسکنت نہ تھی ایک کی دوسرے سے لڑائی نہ تھی لفظوں اور عقیدوں پر فرقہ بندیاں نہ تھیں۔ الگ الگ بتوں کی پرستش نہ تھی فرقہ بازی کا شرک نہ تھا۔ صرف ایک خدا کی مسلسل اور پیہم غلامی تھی۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

پیام حیات
خاکسار ! تری راہ پھولوں کی سیج نہیں ایک بے حس اور مایوس قوم یقینا اس زندہ آواز کے خلاف یورش کرے گی۔ وقت کے بندے اور گداز عشق سے ناآشنا تجھے بیوقوف بھی کہیں گے۔ لیکن تاریخ عالم میں وہ کونسا وقت تھا جب باطل اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کر کے حق کے مقابلہ میں نہیں آیا؟ یہ جنگ شروع سے ہی چلی آرہی ہے ناکامی صرف اس وقت ہوتی ہے جب تجھے اپنی منزل کی صداقت کا یقین نہیں رہتا جب ترا عہد عہداستوار نہیں ہوتا جب ترا عشق عشق صادق کے مرتبے کو نہیں پہنچتا ورنہ مخالف طاقتیں تو ایمان کے لئے سامان چمک مہیا کرتی ہیں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

سپاہیانہ زندگی
کیا دین اسلام کے سچے عالم آراءہونے کا یہ کھلا ثبوت نہیں کہ جب سے انسان پید اہو اہے۔ فتح اسی قوم کی رہی ہے جس نے سب سے بہتر اور منظم تر سپاہیانہ زندگی اختیار کی خدا اسی قوم کے ساتھ رہا جس نے مجاہدانہ وطیرہ اختیار کیا ذل ومسکنت اس قوم پرلیس دی گئی جس کی جنگی طاقتیں مفقود ہو گئیں کیا دین اسلام اور سپاہیانہ زندگی کے ہم معنی ہونے کی یہ روشن دلیل نہیں کہ جب مسلمانوں نے سپاہیانہ زندگی چھوڑ دی۔ جب سے مذہب کو سپاہیانہ زندگی سے اور دین کو دنیا سے الگ کر دیا خدا مسلمانوں سے ناراض ہو گیا۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

تقاضائے ایمان کی نوبہ نومنزلیں
میں چاہتا ہوں کہ خاکسار سپاہی جس کے چھوٹے سے ایمان اور ادنیٰ سے یقین نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کو حیرت انگیز چمک عطا کر دی تھی۔ اس رحمت خدا کے نور سے اپنے ایمان کو اور صیقل کرے اس نے اگر راتوں کو آہوں اور دعاﺅں سے عرش عظیم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنوں کو پیٹ پر پتھر باندھ باندھ کر دنیاوی سفر کی منزلیں طے کی ہیں خاکسار سپاہی اب کیوں نہ ایمان کی بڑی سے بڑی منزلیں طے کرے۔ ایمان ایک نسبتی ا ور اضافی شے ہے۔ ایمان کی کوئی ابتداءاور انتہاءنہیں‘ ایمان ایک بحربیکراں اور پنہائے بے پایاں ہے۔ اس منزل کے مسافر کیلئے آسمانوں کی رفعت اور زمین کی وسعت کوئی شے نہیں ۔ بڑے سے بڑا عزم اور بلند سے بلند حوصلہ جو مرد مومن اپنے لئے تجویز کرتا ہے ۔اسلام کے محکمہ قضاو قدر میں ایک تل کی حیثیت رکھتا ہے مرد مومن کے سامنے پہاڑ‘ پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں۔سمندر اچھل کر خشک ہو جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کی قطاریں گاجر مولی کی طرح کٹ جاتی ہیں۔ بظاہر بیکس اور بے بس انسان ایمان کے خطر ناک ہتھیار سے مسلح ہو کر خدا کی خدائی اور زمین وآسمان کی حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے اور پھر حیران ہو جاتاہے کہ ابھی اور بلندیاں باقی ہیں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

تقاضائے ایمان کی نوبہ نومنزلیں
میں چاہتا ہوں کہ خاکسار سپاہی جس کے چھوٹے سے ایمان اور ادنیٰ سے یقین نے ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کو حیرت انگیز چمک عطا کر دی تھی۔ اس رحمت خدا کے نور سے اپنے ایمان کو اور صیقل کرے اس نے اگر راتوں کو آہوں اور دعاﺅں سے عرش عظیم کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دنوں کو پیٹ پر پتھر باندھ باندھ کر دنیاوی سفر کی منزلیں طے کی ہیں خاکسار سپاہی اب کیوں نہ ایمان کی بڑی سے بڑی منزلیں طے کرے۔ ایمان ایک نسبتی ا ور اضافی شے ہے۔ ایمان کی کوئی ابتداءاور انتہاءنہیں‘ ایمان ایک بحربیکراں اور پنہائے بے پایاں ہے۔ اس منزل کے مسافر کیلئے آسمانوں کی رفعت اور زمین کی وسعت کوئی شے نہیں ۔ بڑے سے بڑا عزم اور بلند سے بلند حوصلہ جو مرد مومن اپنے لئے تجویز کرتا ہے ۔اسلام کے محکمہ قضاو قدر میں ایک تل کی حیثیت رکھتا ہے مرد مومن کے سامنے پہاڑ‘ پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں۔سمندر اچھل کر خشک ہو جاتے ہیں۔ ہاتھیوں کی قطاریں گاجر مولی کی طرح کٹ جاتی ہیں۔ بظاہر بیکس اور بے بس انسان ایمان کے خطر ناک ہتھیار سے مسلح ہو کر خدا کی خدائی اور زمین وآسمان کی حکومت کو اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے اور پھر حیران ہو جاتاہے کہ ابھی اور بلندیاں باقی ہیں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
ہم کیا چاہتے ہیں؟
ہم تمام ناکارہ بڈھوں کی بے پناہ مایوسیوں کے باوجودیہ ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ حالات بدلے نہیں جا سکتے ہم اس پر تل چکے ہیں کہ نیا منظر‘ نیا جائزہ ‘بلکہ اپنے گرد وپیش کی اشیاءکا نیا متن پیش کریں۔ ہم اخلاق کی تعمیر کرتے ہیں۔ اندرونی طاقتوں کو بیدا رکرتے ہیں فطرت کی بنیادوں پر تعمیر کرتے ہیں۔ روایتوں‘ پچھلے گناہوں اور پرانے رواجوں پر نہیں۔ ہماری طاقت اوپر کے آسمان سے لائی ہوئی روحانی طاقت ہے ۔زمین کے سفلی حصے کے ماحول سے حاصل کی ہوئی مردہ اور نچڑی ہوئی طاقت نہیں۔ ہم اپنے آپ کو اس سفلی ماحول سے اسی لئے نکالنا چاہتے ہیں کہ ایک پرامن مفید مطلب ا ور جنت نشان دنیا کیتقلیدکریں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

دین کے بغیر دنیاوی ترقی ناممکن ہے!
اسلام جب اس دنیا میں آیا دین کو دنیا کے ساتھ لایا‘ نہیں دنیاہی کو قائم رکھنے کا دین لایا۔ دنیا کا دین میں مدغم ہونا اسلام تھا۔ دونوں کی موافقت ہر شے میں ظاہرتھی نہیں بلکہ سرور کائنات صلعم اس دین کو اپنے ساتھ لائے جو دنیامیں ہر دشمن پر غالب آ کر ہم کو مضبوط کر دے اور سب باقی ادیان داہیر پر چھا جائے اسی بناءپر نبی کریم اصلی اللہ علیہ وسلم اس دین کی تلقین کرتے رہے جو دنیا میں بلند ہونے کی خاطر تھا جس کا منتہٰی یہ تھا کہ دنیا کو مضبوطی سے پکڑا جائے اور اسی غرض سے الدنیا مزرعتہ الاخرة کہہ کہ گویا عملاً اور فعلاً یہ ثابت کر دیا کہ دنیاکو برقرار رکھنا ہی اصل دین ہے اور دین ہی دنیاکو برقرار رکھنے کا واحدذریعہ ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

منزل ہے کہاں تیری
خدا کے سپاہیو! خوب سوچ لو کہ تمہیں کیا کرنا ہے۔ تمہاری جنگ کن مخالف طاقتوں سے ہے تمہاری دشمن کون کون سی طاقتیں ہیں۔ تمہیں کس کس سے لڑنا ہے تمہارا جرنیل کس عالمگیر قوت کا مالک ہے غور کرو کہ اس قدر بڑے کمانڈر کے سپاہی کس قدر خطرناک ہونے چاہئیں ان کو فتح وظفر سے کس بلا کا عشق ہونا چاہیئے۔ ان کی قوت کے سامنے مشکلات اور رکاوٹوں کے پہاڑ کیونکر پانی کی طرح بہہ جانے چاہئیں اس خدائی فوج کے عصائے موسوی سے سمندر کس طرح ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں۔ اس کی لاٹھی کی ضرب سے خشک زمینوں میں پانی کے چشمے پھوٹ بہیں اس کے ید بیضا سے چاروں طرف اجالا ہو جائے گناہوں کی ظلمتیں چھٹ جائیں ایک بار پھر نوراسمٰوٰات والارض کی حکومت قائم ہو جائے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

سپاہی کا عظمت آفریں مقام
خاکسار سپاہیو! یاد رکھو! سپاہی کی شان اسلامی مردمی کی شان ہے قوم کے عروج اور جلال کی شان ہے گری ہوئی قوم کو بلند کر دینے کی شان ہے سپاہی جان دیتا ہے‘ رنج اور تکلیف سہتا ہے‘ کڑیاں جھیلتا ہے‘ لوگ سوتے ہیں اور وہ حفاظت کے لئے کھڑا ہے رعیت بے بس ہے اور وہ اپنے دست وبازو سے اس کا مددگار ہے قوم کو خطرے سے کچھ آگاہی نہیں ہوتی اور وہ ہر دم کان کھڑے رکھتا ہے رات کو اپنی نیند حرام کرتا ہے دن کو چین نہیں لیتا سر پر خاک ہے منہ پر گرد ہے‘ پاﺅں میں چھالے ہیں‘ بھوک اور تھکان ہے لیکن ہاں سپاہی کے سامنے روئے زمین کی حکومت ہے۔ قوم کی سرداری ہے۔ اس تختہ زمین پر تاج وتخت ہے۔ سپاہی کی سپاہ گری اس کو دنیا کی تمام تکلیفوں سے بے نیاز کر دیتی ہے۔ دنیا میں اس کو سر بلند اور سرفراز رکھتی ہے۔ یاد رکھو! جو سپاہی دنیا میں کھڑا ہے کسی نہ کسی قوم کی سر بلندی کے لئے کھڑا ہے۔ اپنی جان خدائے جان آفرین کے سپرد کر کے خدا کے سامنے سر خرو ہے۔ جان کے سب سے بڑے بت کو توڑ کر خدائے حق کی رحمت اور الفت کے جھنڈے تلے ہے جسم اورنفس کو ہلاک کر کے روح کی پرورش کر رہا ہے۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

دعوت اتحاد عمل
اب مسلمان کی غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ تمام غفلتیں تمام تسلیاں‘ تمام مہلتیں اور نفس کی تاویلیں چھوڑ کر ہم میں کود پڑے اور وہ بے پناہ کثرت پید اکر دے کہ مخالف بدحواس ہو جائیں۔ اپنی انگلیاں غصے میں کاٹ کاٹ کر لہو لہان کر دیں یا دیواروں سے ٹکرا کر مر جائیں بلکہ سب سے بہتر یہ مخالف کے تمام ہتھیار چھوڑ کر اور سینے کھول کر ہم میں آملیں۔ ہمارے اگر کوئی گناہ ہیں۔ فراخدلی سے معاف کر دیں ا ور سب کے سب اکٹھے ہو کر تحریک کو منزل تک کھینچ لے جائیں۔ یاد رکھو! کہ منزل تک پہنچنے کا وسیلہ تمام دنیاجہاں میں صرف ایک ہے اور وہ اتحاد ہے۔ جب تک کامل اتحاد عمل‘ کامل یگانگت ‘چال میں یکسانی ‘مارچ میں یک رنگی‘ لباس کی ایک وضع ‘حرکتوں میں ایک چلن ‘فکر میں وحدت‘ سب کا عملاً ایک خدا اور عملاً ایک رسول ایک قرآن‘ ایک دستورا لعمل پیدانہ ہو گا منزل کا قریب تر آنا محال ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

کانگریس مسئلہ خلافت کی طرح
” پاکستان“ کو اپنائے!
ایسی حالت میں کانگریس کے لئے ہندوستان کی آزادی حاصل کرنے کی صرف ایک راہ باقی رہ گئی ہے وہ یہ کہ پاکستان کے مسئلہ کو فرقہ وارانہ مسئلہ سمجھنا قطعاً چھوڑ دے۔ پاکستان کو انگریز سے بزور چھیننے کو یہ سمجھے کہ ہندوستان کی سر زمین کا ایک ٹکڑاآزاد کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کے مسئلے کو اسی طرح اپنائے جس طرح پر کہ ۱۹۱۹ءمیں کانگریس نے خلافت کے مسئلے کو اپنایا تھا۔ مسٹر گاندھی کھلے دل سے اور غیر مشروط طور پر اعلان کرے۔ کہ کانگریس اور ہندوستان کے تمام تیئس کروڑ ہندو پاکستان کو حاصل کرنے کے لئے مسلمانوں کے دوش بدوش اسی طرح پر انگریز سے لڑائی کریں گے جس طرح پر کہ خلافت کے زمانے میں انگریز سے لڑے تھے اگر کانگریس نے اس وقت یہ اعلان کر دیا تو یاد رکھو !کہ ہندوستان کی آزادی کا مسئلہ قطعی طور پر طے ہو گیا۔

(ماخوذ از ہفت روزہ الاصلاح لاہور 21جون 1946)
( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

قائداعظم کو پیش کش
مجھے یقین ہو چکا ہے کہ ہندوستان کی آزادی اس وقت تک تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جب تک پاکستان کو واضح الفاظ میں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ مسٹر جناح اگر پاکستان کے حصول کے لئے پور ی طرح مخلص ہیں تو میں نہایت کشادہ دلی سے ایک بار پھر انہیں غیر مشرو ط پر خاکسار تحریک کی خدمات پیش کرتا ہوں۔ اور اس راہ میں ان کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہوں میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ میری اس پیش کش میں کوئی بددیانتی نہیں۔ اگر مسٹر جناح متفق ہوں تو میں بغیر کسی بخل کے اس راہ میں پورا زور لگانے کو تیار ہوں ہر خاکسار اس راہ میں اپنی جان لڑا دیگا میں ہندوﺅں کو بھی یقین دلاتا ہوں کہ جب تک وہ مسلمانوں سے اتحادعمل نہیں کریں گے انہیں انگریز سے کچھ بھی نہ مل سکے گا۔

(وزارتی مشن کی 16مئی 1946ءکی تجاویز پر اخباری بیان)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
قرآن حکیم پر عملاً چلو اور کسی کی نقل نہ کرو
بادشاہان اسلام سے خطاب
اے مسلمانوں کے بادشاہو! اسلام کی اس بنیاد پر قائم ہو جاﺅ جس پر چل کر تمام قوموں کی زندگی ہے۔ یہ بنیاد وہ اصول ہیں جو قرآن کی آیتوں کی شہادت دے کر تمہارے سامنے پیش کئے گئے ہیں۔ تم ان اصولوں پر نہایت شدت سے عمل کر کے نصاریٰ کو جو تمہیں اس دنیا میں ہڑپ کر جانا چاہتے ہیں ازروئے آیات قرآن گردنیں اڑا دو‘ ان کی انگلیوں کے پور کاٹ دو‘ ان کو جو تمہارے جانی دشمن اور تمہیں آہستہ آہستہ اس اللہ کی زمین ے نکال رہے ہیں اپنے بے پناہ زور سے شکست دو یہ یاد رکھو کہ تم ان نصاریٰ کی محض ایک سطحی سی نقل کر کے یا ان جیسا لباس پہن کر اور وضع قطع اختیار کر کے فلاح نہیں پا سکتے تمہاری فلاح اس میں ہے کہ قرآن حکیم پر عملاً چلو ا ور کسی کی نقل نہ کرو۔ یہ تمہارے دشمن اس قرآن سے ہی اپنی فلاح کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں تمہاری غیرت کا تقاضا نہیں کہ تم ان کی شکلیں بناﺅ ‘ان کے سے کوٹ پتلون پہن کر پھر سمجھو کہ خدا ہم سے بھی راضی ہو جائے گا خدا کے نزدیک اگر یہ مومن ہیں تو اس لئے کہ وہ قرآن پر کچھ نہ کچھ عمل کر رہے ہیں اور ہم کچھ نہیں کرتے تم ان کو اپنے نزدیک ہرگز مومن نہ سمجھو اور ان کو ایسی شکست فاش دو کہ تم مومن بن جاﺅ اور یہ خدا اور انسان دونوں کے نزدیک کافر ہو جائیں۔

(مورخہ:۸جولائی۱۹۳۹)
( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

ہوشیار
پاکستان دائمی خطرے میں!
بیس برس پہلے میں نے مسلمانوں کو آواز دی تھی کہ سپاہی بن جاﺅ ورنہ تمہاری موت کے منصوبے دشمن کے گھروں میں تیار ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں نے بیس سال تک میری اس آواز کو نہ سنا اور نتیجہ یہ ہوا کہ ہندو اسی آواز کو اپنا کر بازی لے گئے مسلمان تیرہ سو برس کی تاریخ میں پہلی بار دنیا کی بزدل ترین قوم سے مقابلہ کئے بغیر میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے اور تمام مشرقی پنجاب چند دنوں میں خالی کر دیا۔ اب جب کہ یہ زمانہ گذر چکا ہے اور مسلمانوں کی اس شرمناک شکست نے ہندوﺅں کے حوصلے کئی گنا بلند کر دیئے ہیں کشمیر ‘جو نا گڑھ اور حیدرآباد کے واقعات نے عام مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ حکومت پاکستان کی کمزوری کو بھی رو زروشن کی طرح عیاں کر دیا ہے اور پاکستان کی سلطنت ایک ایسے نرغے میں پھنسی ہے جو اس حد تک خطرناک ہو سکتا ہے کہ ہم اپنی باقی زندگیاں اس دائمی خطرے میں گزار دیں۔

( حضرت علامہ مشرقی ؒ)

غلبہ اسلام
قرآن کے ہوش ربا علم کے بالمقابل مغربی قوموں کا دوسری قوموں پر زہرہ گداز غلبہ اور علم کے میدان میں ان کی حیرت انگیز ترقیاں میرے نزدیک ابھی تک ہیچ اس لئے ہیں کہ میں مغربی قوموں کو ابھی تک قرآن حکیم کے بتائے ہوئے علم کے پاسنگ تک بھی پہنچا ہوا نہیں دیکھتا مجھے یقین ہے کہ مغربی اقوام کا غلبہ اس لئے نا پائیدار غلبہ بلکہ منشائے ربی کے خلاف غلبہ ہے کہ اس میں انسانیت کی چاشنی موجود نہیں میں دھڑلے سے کہہ سکتا ہوں کہ مغربی اقوام کا علم بھی قرآن عظیم کے مفہوم علم سے ابھی تک کوسوں دور اس لئے ہے کہ اس میں اسلام کی روحانیت کی چاشنی ہرگز نہیں یہ دونوں مقام میں نے قرآن حکیم کی آیات میں خداکے ایک ایک کہے ہوئے لفظ کو پوری اہمیت دے کر مطالعہ کرنے کے بعد اختیار کئے ہیں اور اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ کیا عجب ہے کہ زمین کی نجات بالآخر پھر” مسلمان“ کے ہاتھ سے ہی ہو کر رہے ۔

(حدیث القرآن)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

نظام اسلامی
آپ سے رخصت ہوتے ہوئے میری آرزو ہے کہ پاکستان کے مسلمان اپنی بگڑی بنانے کے لئے سیاسی طور پر باخبر ہوں اس بگڑی کے بنانے کی واحد ترکیب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کے نعرے بازی سے ہٹ کر اسلام کے اس نظام کی طرف لوٹ آئیں جو چودہ سو برس کے عروج وزوال کے بعد بھی ایک زندہ قوت ہے اور سخت ترین منزلوں سے گذر کرہی دائم اور قائم چلا آرہا ہے۔ نئی آوازیں جو پاکستان میں اٹھ رہی ہیں نقالوں اور نادانوں کی آوازیں ہیں۔ مسلمانوں کی نجات پہلے بھی ہر دور میں اسلام سے ہوئی اور اب بھی اگر وہ زندگی پائیں گے تو اسلام اور صرف اسلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ کر۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

استحکام پاکستان کا راز
اس نازک اور تنگ وقت میں پاکستان کو بچانے کی واحد ترکیب یہ ہے کہ پاکستان کے بچے بچے کو فوجی اور جنگی بنا دیا جائے اور یہ راستہ اختیار کرنے سے قوم میں احساس فرض‘ ڈسپلن‘ محنت ومشقت‘ کفایت شعاری‘ اطاعت ‘مساوات راست گوئی ‘غیرت مندی اور فاتحانہ عظمت کے وہ تمام نشانات ابھر آئیں گے جو اس قوم کی دنیاوی ترقی کے لئے ازبس ضروری ہیں کسی دوسری ترکیب سے مسلمانوں جیسی زوال یافتہ قوم کو جس کے کریکٹر کاغالبحصہ گر چکا ہو تھوڑی سے تھوڑی مدت میں بلند کرنا عملاً محال ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی
رعیت کے غیر معمولی تقاضے
اگر غور سے دیکھو تو کسی ملک کی عام رعیت اپنی حکومت سے صرف معمولی روٹی‘ کپڑا‘ معمولی سر چھپانے کی جگہ ‘معمولی آزادی‘ معمولی بے فکری اور معمولی صحت جسمانی مانگتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں حکومت کرنے اور حکومت چلانے کیلئے صرف چند بڑے آدمی ہی ہر ملک میں ہوا کرتے ہیں اور جب تک عام رعیت خوش ہے کسی کو گلہ نہیں ہوتا اگر رعیت کوتن ڈھانکنے کے لئے معمولی کپڑوں‘ پیٹ بھرنے کے لئے معمولی روٹی اور اپنے گھر کی چھت کے نیچے معمولی سی آزادی اور بے فکری مل جائے تو رعیت کسی بڑے اور ترقی یافتہ ملک میں بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں مانگتی دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں بھی آزادی کے یہی معنی ہیں اور جہاں رعیت کو یہ چیزیں ملتی جائیں رعیت وہاں کی حکومت سے خوش ہو جاتی ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

آخری خواہش
میں قوم کو عمل کی مستقل منزل تک پہنچانے کے درپے ہوں اور مرنے سے پہلے خواہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے دنیا میں پھر غالب آنے کی خوش خبری سننا چاہتا ہوں۔ ”تذکرہ“ کی باقی جلدیں‘ قرآن کی مکمل تفسیر میرے قلم سے اس وقت نکلے گی جب اسلامی شوکت ا ور ابہت کا پھریرا ساری دنیا میں پھر لہرا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس پھریرے کو لہراتے ہوئے دیکھ کر مسلمان پکار اٹھیں کہ قرآن کی تفسیر تو مکمل ہو چکی۔ اب اس کے لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

مسلمانوں کی سربلندی کا راز
بلند سیاست یہ ہے۔ کہ مسلمانوں کی آپس میں لڑنے والی طاقتوں کو متحد کیا جائے۔ رہنماﺅں کو اکٹھا کیا جائے۔ محلہ وار تنظیم کی جائے شہر کو شہر اور صوبہ کو صوبہ سے ملا دیا جائے۔ عمل کرے والوں کو میدان میں نکلنے کی ترغیب دی جائے۔ مجاہدانہ قا بلیتیں بیدار کی جائیں۔ اسلامی نصب لعین کو بار باردہرایا جائے۔ ہمسایوں سے کامل رواداری پید اکی جائے۔ حکومت سے پورا تحمل ہو۔ اس کا غیر مساوی مقابلہ کچھ نہ کیا جائے رحمابینھم کاماحول پیدا کیا جائے تا کہ اشدءعلی الکفار بن سکیں۔ کمزور کے حوصلے عمل کرنے کے لئے بلند کئے جائیں۔ ا ور زورآور سے بلند تر۔ مسلمانوں کو اپنی پرانی تاریخ یاد دلائی جائے ان پر قرآن حکیم واضح کیا جائے ان کو حدیث کی حکمت سے آگاہ کیا جائے۔ قومی نقائص کی طرف توجہ دلائی جائے۔ دولت بڑھائی جائے‘ تجارت کے عملی سامان پیداکئے جائیں‘ آپس میں ایک دوسرے کی فرمانبرداری کا اخلاق پیدا کیا جائے سرکشی اور شیطانی جذبات مٹا دیئے جائیں۔ الغرض اجتماعی اور سیاسی غلبے کی ہوا پھر باندھ دی جائے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

رعیت کے غیر معمولی تقاضے
اگر غور سے دیکھو تو کسی ملک کی عام رعیت اپنی حکومت سے صرف معمولی روٹی‘ کپڑا‘ معمولی سر چھپانے کی جگہ ‘معمولی آزادی‘ معمولی بے فکری اور معمولی صحت جسمانی مانگتی ہے اس سے زیادہ کچھ نہیں حکومت کرنے اور حکومت چلانے کیلئے صرف چند بڑے آدمی ہی ہر ملک میں ہوا کرتے ہیں اور جب تک عام رعیت خوش ہے کسی کو گلہ نہیں ہوتا اگر رعیت کوتن ڈھانکنے کے لئے معمولی کپڑوں‘ پیٹ بھرنے کے لئے معمولی روٹی اور اپنے گھر کی چھت کے نیچے معمولی سی آزادی اور بے فکری مل جائے تو رعیت کسی بڑے اور ترقی یافتہ ملک میں بھی اس سے کچھ زیادہ نہیں مانگتی دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں بھی آزادی کے یہی معنی ہیں اور جہاں رعیت کو یہ چیزیں ملتی جائیں رعیت وہاں کی حکومت سے خوش ہو جاتی ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

آخری خواہش
میں قوم کو عمل کی مستقل منزل تک پہنچانے کے درپے ہوں اور مرنے سے پہلے خواہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو۔ اس کے دنیا میں پھر غالب آنے کی خوش خبری سننا چاہتا ہوں۔ ”تذکرہ“ کی باقی جلدیں‘ قرآن کی مکمل تفسیر میرے قلم سے اس وقت نکلے گی جب اسلامی شوکت ا ور ابہت کا پھریرا ساری دنیا میں پھر لہرا رہا ہو گا اور کیا عجب کہ اس پھریرے کو لہراتے ہوئے دیکھ کر مسلمان پکار اٹھیں کہ قرآن کی تفسیر تو مکمل ہو چکی۔ اب اس کے لکھنے کی کیا ضرورت ہے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

مسلمانوں کی سربلندی کا راز
بلند سیاست یہ ہے۔ کہ مسلمانوں کی آپس میں لڑنے والی طاقتوں کو متحد کیا جائے۔ رہنماﺅں کو اکٹھا کیا جائے۔ محلہ وار تنظیم کی جائے شہر کو شہر اور صوبہ کو صوبہ سے ملا دیا جائے۔ عمل کرے والوں کو میدان میں نکلنے کی ترغیب دی جائے۔ مجاہدانہ قا بلیتیں بیدار کی جائیں۔ اسلامی نصب لعین کو بار باردہرایا جائے۔ ہمسایوں سے کامل رواداری پید اکی جائے۔ حکومت سے پورا تحمل ہو۔ اس کا غیر مساوی مقابلہ کچھ نہ کیا جائے رحمابینھم کاماحول پیدا کیا جائے تا کہ اشدءعلی الکفار بن سکیں۔ کمزور کے حوصلے عمل کرنے کے لئے بلند کئے جائیں۔ ا ور زورآور سے بلند تر۔ مسلمانوں کو اپنی پرانی تاریخ یاد دلائی جائے ان پر قرآن حکیم واضح کیا جائے ان کو حدیث کی حکمت سے آگاہ کیا جائے۔ قومی نقائص کی طرف توجہ دلائی جائے۔ دولت بڑھائی جائے‘ تجارت کے عملی سامان پیداکئے جائیں‘ آپس میں ایک دوسرے کی فرمانبرداری کا اخلاق پیدا کیا جائے سرکشی اور شیطانی جذبات مٹا دیئے جائیں۔ الغرض اجتماعی اور سیاسی غلبے کی ہوا پھر باندھ دی جائے۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

سیاست کا کھیل
دنیا کی مکرکی تاریخ میں سیاست صرف اپنے نقطئہ نظر سے کامیاب حکومت کا نام ہے۔ سیاست کے سب چالباز اپنے حریف کی چال کو کم وبیش صاف طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن چونکہ سب چور ہوتے ہیں اور سب کا منشاءبے بس اور بے خبر رعیت کا کامیاب شکار کرنا ہوتا ہے اس لئے ہر چور اپنے حریف کی چال کو روائتی احترام کی نظر سے دیکھتاہے اور سیاست کی تمام کھیل کو سر مکثوم یعنی چھپا ہوا راز بنا دینا اپنی سیاسی شرافت سمجھتا ہے۔ اس نقطئہ نظر سے راعی کی رعایا کے خلاف ہمیشہ سے ایک سازش رہی ہے جس کا پورا انکشاف اس لئے نہیں ہو سکا کہ راعیوں کی ٹولی دنیا میں ایک مستقل گروہ رہا ہے جس کی سیاسی شرافت اور ”آداب جماعت“ اس کو اجازت نہیں دیتے ۔کہ وہ چوروں کی منڈلی کے راز فری میسنوں کی جماعت کی طرح فاش کر کے رکھ دے۔میں نہ چور ہوں نہ فری میسن مجھے کیونکہ عار ہو سکتا ہے کہ میں دنیا میں ہر جھوٹ کے پرخچے نہ اڑاﺅں اور اس ٹیڑھی عمارت کو تہہ وبالا نہ کردوں ۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

صلوٰة وعبادت وتوحید!
خدا شاہد ہے کہ میں نے صلوٰة کا صرف وہی حقیقی مفہوم ومقصود پایا جو قرن اول کے دور نبوی میں رائج تھا۔ میرے نزدیک توحید کا بھی وہی ایک حقیقی تصور ہے اور عبادت کے بھی وہی معانی جس کے صدقے میں انہیں اپنے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوا۔ خدا کی کتاب میں اول سے آخر تک مجھے ایک ہی حقیقت کبریٰ کی خبر ملی اور ارشاد خداوندی کے مطابق وہ حقیقت یہ تھی کہ رسول خدا جس ضابطہ ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجے گئے اس کا منشاءومقصود یہ تھا کہ تمام نظام ہائے باطل کی بساط کہن الٹ کر آخری دین کو غالب کیا جائے خواہ اس سے منکرین حق کتنی ہی کراہت محسوس کریں۔(۲۳-۹) کیا اس کے بعد بھی تم زاہد ہونے کے باوجود اپنے دشمنوں پر غالب آئے بغیر‘ قرآن کریم پر ایمان کا دعویٰ کر سکتے ہو؟ سو چو کہ کیا تمہاری صلوٰة نے کفار کی شکست کے سامان پیدا کئے؟ کیا تمہاری توحید روئے زمین پر تمہارا تسلط قائم کر سکی؟کیا تمہاری عبادت کے نتیجے میں اقوام عالم تمہاری امامت کے حضور سرنگوں ہوئیں؟ خود فریبی کے نشہ میں سرشار رہنے والو! طاعت خداوندی کا لازمی نتیجہ جنت ارضی کا انعام ہے۔ سوچو کہ کیا اہل ایمان ایسے ہوتے ہیں جیسے تم؟ کیا خدا کی عبادت اس کی صلوٰة اور توحید کے دعوے داروں کی کیفیت یہی ہوتی ہے جو تمہاری؟

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
قوموں کا زوال اور اس کا علاج
قومیں جب موت اور زوال کے چکر میں آجاتی ہیں تو کسی کو سوجھتا نہیں کہ بگاڑ کہاں ہے کونساپرزہ ڈھیلا ہے کیا معاملہ ہے۔ کہاں جھگڑا ہے‘ یہ کیونکر گرے‘ کس طرف چل کر عروج تھا‘ کیا کریں ‘کہاں جائیں‘ کہاں سر پھوڑیں! ادھر بیمار جسم کے صحیح علاج میں دیر ا ور فیس طلب اور مطلب پرست نہیں بلکہ نیک پرست اور بے غرض نیم حکیموں کے غلط نسخے طاقت کے زوال کو دوبالا کر دیتے ہیں اور مسئلہ لایخل ہوتا جاتا ہے۔ لیکن اگر کائنات فطرت کے ہر جسم کا زوال اس لئے ہے کہ اس کے جسم کے حصوں نے اپنا اپنا عمل چھوڑ دیا ہے۔ جگر اپنے فعل سے منکر ہے دل اپنی پہلی خوبی سے حرکت نہیں کرتا‘ دماغ کا ایکشن درست نہیں ہے۔ ہاتھوں میں اگلی سکت نہیں رہی بدن میں خون کا وہ دوران نہیں‘ پیروں میں وہ چستی نہیں وغیرہ وغیرہ تو قوم کے جسم کا زوال بھی یقیناً اور لازماً اسی وجہ سے ہے کہ اس قوم کے اندروہ پہلا عمل‘ وہ فعل‘ وہ حرکت‘ وہ ایکشن‘ وہ سکت‘ وہ دوران‘ وہ چستی نہیں رہی اگر گوشت پوست والے کسی جسم کے اندر زوال کی یہ علامت ہے کہ اس کے جسم میں عمل نہیں رہا تو یقینا یہی اس کی وجہ بھی ہے اور گوشت پوست والے جسم کو پھر تندرست کرنے کا علاج خواہ کچھ بھی ہو وہ علاج کسی کو سوجھے یا نہ سوجھے کسی بڑے سے بڑے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس اس مرض کی دوا ہو یا نہ ہو لیکن
ایک قوم کو پھر زندہ‘ پھر تندرست‘ پھر چالو‘ پھر طاقت ور‘ پھر غالب کرنے کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ اس میں پھر عمل اور پھر ایکشن پیدا
کر دیا جائے قوموں کے زوال کا سچا باعث عدم عمل ہے۔ یہی ان کے زوال کی علامت ہے‘ لیکن اس کا واحد اور تیر بہدف علاج بھی بعینہ یہ ہے کہ اس قوم میں عمل‘ فعل‘ حرکت‘ ایکشن‘ سکت ‘دوران اور چستی کے لوازمات پھر جمع کر دیئے جائیں پس اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے۔ تو قوم کو بلند کرنے کے لئے کسی نسخے یا علاج بلکہ کسی حکیم یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے قوم کا مرض خود ہی اس کے علاج کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور جو قوم مریض ہو کر علاج اور حکیم کی تلاش میں ٹامک ٹوئیے مارتی پھرتی ہے اس کو کہہ دو کہ تمہارا علاج تمہاری مرض کے ماتھے پر لکھا ہے۔ تم قوم کے ہر فرد میں ہمت ‘طاقت‘ چستی‘ ولولہ‘ حوصلہ‘ پیروں کی حرکت ہاتھوں اور جسموں کی حرکت جانوں کی حرکت ارادوں کی حرکت الغرض عمل پید اکرو پھر دیکھو قوم کیوں کر نہیں بنتی!

(ماخوذ ازقول فیصل)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

میری پیش گوئیاں۔۔۔ واقعات اور صحیح صورت حالات کے منطقی اور قطعی نتیجے ہوں
چھپائے مشرقی کیا تم نے اس کو دنیا ہے
خدا کا وہ ہے خدا ہی سے اس نے لینا ہے
میرے سامنے کوئی مقصد سوائے اس کے نہیں رہا کہ رواج‘ مصلحت‘ تقاضائے وقت یا کسی شے کے مناسب ہونے کے دباﺅ سے بلند تر ہو کر مجھے جو کچھ یقینی اور حسابی طور پر نظر آ رہا ہے بید ھڑک کہہ دوں میری ”پیش گوئیاں“ کسی رمال یا منجم کے سو فیصدی درست یا پچاس فی صدی غلط ڈھکو سلے نہ ہوں ۔ بلکہ واقعات اور صحیح صورت حالات کے منطقی ا ور قطعی نتیجے ہوں۔ جس سے صورت حالات کی قلعی کھلے اور ملک میں بیداری اور باخبری پیدا ہو میرا منشا ہمیشہ یہی رہا کہ اس پر فریب اور مکار دنیاکے رواج کوالٹ کر رکھ دو جہاں مکاری ہے اس کے بخیئے ادھیڑ دوں جوشے عرف عام میں کہنے کے لائق اس لئے نہیں کہ ایسی باتیں کہنے کی نہیں صاف کہوں جس بات کے متعلق ایک عام سمجھوتہ ہے کہ ہوا کرتی ہے اسکو نہ ہونے دوں جس کے متعلق ہمیشہ سے شف شف ہی ہوتی ہے اسکا ”شفتالو“ بے خطر بول دوں مذہب اسلام کے خراب ہونے کے متعلق جو دھڑکن کئی کرنوں سے صدہا دلوں میں لگی تھی اور کسی کو جرات نہ پڑتی تھی کہ کیونکر مولوی اور ملا کے عظیم الشان تانے بانے کو جو اس نے قرنوں کی محنت سے اسکے گرد بنا تھا تار تار کر کے رکھ دے میں نے بالآخر ”تذکرہ“ میں صرف بتیس برس کی عمر میں بے خوف وخطر گچھا باندھہ کر پھینک دی اور آج کوئی ماں کا پوت پید انہ ہو انہ ہو گا جو اس میری پیدا کی ہوئی بربادی پر حرف زنی کر سکے تو پھر ہندوستان کے چھوٹے سے ملک کی چھوٹی سی سیاست کے متعلق جو عالم ستان اور جہاں پناہ انگریز اس سیاست سے نابلد ملک میں چلا رہا ہے کون سی چیز مانع ہو سکتی ہے جو مجھے اس کا تار وپود بکھیرنے سے روک دے میں نے جب صدہا برس کے رواج قرنوں کے تقدس پشتوں کے آبائی عقیدوں صدیوں کے احترام مصلحت وقت تقاضائے حالات وغیرہ کی پرواہ نہیں اور خنجر کی نوک اور تلوار کی دھار پر ناچ کر حق کہنا قبول کیا تو اب دنیاوی سیاست کے مکاروں اور انسانی گروہوں کے چالباز شکاریوں کے ان ہتھکنڈوں کو ننگا کرنے میں جو چوروں کی پوری چنڈال چوکڑی پر آپس میں ایک دوسرے پر خوب عیاں ہیں مجھے کون سی چیز روک سکتی ہے؟

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

سیاسی اور اجتماعی غلبہ کا راز
اگر غائر نظر سے دیکھا جائے تو اس نتیجہ پر لامحالہ پہنچنا پڑتا ہے کہ قرآن کریم کا انسانی افراد کو ہر حکم اس کو جسمانی طور پر مضبوط اور ناقابل شکست بنانے کا حکم ہے ہر حکم کی لم یہ تھی کہ افراد کے اس پر عمل کرنے سے تمام جماعت میں محبت اور رواداری‘ اتفاق واتحاد‘ باہمی اتحاد عمل‘ امن وعدل‘ رحمت ا ور راحت ‘پاکیزگی اور صداقت‘ اعتماد اور سکون‘ مجاہدانہ طاقتیں اور شکست دینے والی قوتیں پیدا ہوں اور مذاہب کے حکموں کی مانند قرآن نے انسان کو کسی مافوق الفطرت پر یقین کرنے۔ کسی روحانی ریاضتوں کو اپنا شعار بنا لینے یا گوشہ نشین بن کر خدا کو پوجتے رہنے یا دنیا کو ترک کر کے کسی آخرت کی اقلیم کا دھیان کرتے رہنے کے احکام نہیں دیئے۔ قرآن صرف دنیاوی زندگی کی ٹھوس حقیقتوں کو پیش نظر رکھ کر انسان کو دنیا میں جسمانی اور ایمانی طور پر مضبوط بنانے کے درپے رہا۔ صرف آنکھ سے دیکھی ہوئی اور کان سے سنی ہوئی سچائیوں کو پیش نظر رکھ کر انسان کو ان اعمال کی تعلیم دیتا رہا ۔جو اس کے لئے اس دنیا میں مخالف قوتوں ‘رکاوٹوں اور مشکلات پر غالب آنے کا سامان پید اکریں ا ور اس دنیا کو ہی انسان کے لئے مفید ترین جو لانگاہ عمل ثابت کر کے صحیفہ فطرت کو زمین وآسمان کا سب سے بڑا‘ سب سے سچا اور عدیم المثال کا رنامہ ثابت کردیں انہی مختصر مگر لامتناہی طور پر مفید احکام نے سو دو سو مسلمانوں کی ابتدا با لآخر چند لاکھ کی تعداد کو چند کرنوں کے اندر اندر روئے زمین کے ایک بڑے سے بڑے حصے پر اجتماعی غلبہ عطا کر دیا تھا اور اگر آج بھی مسلمانوں کے چند صد افراد انہی حکام پر کماحقہ عمل کر کے اس طاقت کے مالک ہونے کے بعد سیاسی اور اجتماعی غلبہ کی ابتداءکر دیں تو وہ چند قرنوں کے اندر اندر عالمی غلبہ پھر حاصل کر سکتے ہیں۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
ایک انتباہ!
مسلمانوں میں ذات بات کا تصور نہ مٹا تو یہ امت بے انتہا ذلیل ہو جائے گی
مسلمانوں میں ہمیشہ کی عزت اس لئے نہیں رہی کہ وہ تاجر قوم نہیں رہے اور مفلس ہو کر ذلیل اخلاق کے مالک ہو گئے ۔ لو ہار ہونا یا تیلی ہونا کیا شرم ہے۔ آج جن قوموں کے پاس لوہا اور تیل ہے وہ دنیا میں آسمان پر اڑ رہی ہیں۔ مسلمان اتنا خسیس ہو گیا ہے کہ اس کو اپنی خوبیاں بھی برائیاں معلوم دیتی ہیں۔ وہ ہندو سے دشمنی تو کرتا ہے لیکن نہ صرف ذات پات کے معاملے میں بلکہ کئی ا ور ذلیل باتوں میں ہندو کی غلامانہ نقل کرتا ہے۔ اگر یہ ذات پات کا تصور مسلمانوں میں سے نہ مٹا تو اگلے بیس برس میں یہ امت بے انتہا ذلیل ہو جائے گی حتیٰ کہ سب سپین کے مسلمانوں کی طرح چوہڑے اور چمار بن جائیں گے۔ اب بھی ان کے بے کس اور عاجز ہونے میں کوئی بڑی کسر نہیں رہی۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

مارچ کی سالانہ تقریب پر
بانی خاکسار تحریک کا وضاحتی بیان
زوال یافتہ قوموں میں یاد گار دن محض رسمی طور پر یا ذہنی عیاشی اور تسکین قلب کے لئے منائے جاتے ہیں لیکن اگر قوم میں زندگی کی رمق باقی ہے تو ان رسمی تقاریب کو بھی مفید بنایا جا سکتا ہے۔ خاکسار تحریک کے منتشر کردہ سپاہیوں کا ایک ارمان ۱۹مارچ کے واقعہ ہائلہ کے شہید اءکی یاد گار منانا بھی ہے۔ جو سن انتشار یعنی ۱۹۴۷ءسے جاری ہے اس واقعہ سے اگر یہ سبق لیا جاتاکہ خاکسار سپاہی نے انگریز کا مخالف ہو کر ہندوستان کی آزادی کے لئے منظم طور پر جانیں دیں اور وہ آزادی اس لئے حاصل ہوئی کہ اس کی قیمت ادا کر دی گئی۔ تو یہ بدنصیب ملت اس آٹھ برس میں منظم طور پر جانیں دیکر اپنے نئے اور بدتر حاکموں سے بھی نجات پا سکتی تھی لیکن اس تقریب کو ابھی تک اس طرح سے منایا نہیں گیا اور نہ قوم کے سامنے باوجود اس کے کہ ہر گھر سے چیخیں اٹھ رہی ہیں جان دینے کا صحیح اور نتیجہ خیز ولولہ پیدا کیا گیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہی دستور تمام ملت اسلامیہ کا حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں ہے اگر قوم انسانی خون کی قیمت کو سمجھتی تو آج اس حالت میں کبھی نہ ہوتی۔ میرے نزدیک مسلمان پر لازم ہے کہ ظلم کو کسی حالت میں برداشت نہ کرے پچھلے آٹھ سال میں مسلمان نے سب سے پہلے ہندو کے بے پناہ اور تاریخی نسل کشی کے ظلم پھر ہندو حکمرانوں کے جونا گڑھ مناودر اور مانگرول پر قبضہ کے ظلم پھر حیدر آباد دکن اور برار پر حیرت انگیز غاصبانہ قبضہ کے ظلم اور پھر کشمیر کو بے حیائی سے چھیننے کے ظلم پھر مسلمانوں کے ہاتھوں پختونستان کے ڈھونگ رچانے کے ظلم ا ور سب سے آخری چھڈبیٹ کے علاقہ پر نہرو کے تازہ ترین وار کے ظلم کو جس احساس کمتری اور بے غیرتی سے برداشت کیا ہے بدن کے رونگھٹے کھڑے کر دیتا ہے ان حالات میں شہدائے قوم کے یاد گار دن منانا شہدا کے خون کی توہین ہے مجھے خطرہ ہے کہ خاکسار ان بے نتیجہ مراسم کے ادا کرتے کرتے کہیں ایک اور فرقہ نہ بن جائے جو مجھ سے عقیدت مندی کا اظہار کرتے کرتے خود مجھے دوزخ کا ایندھن نہ بنا دے اس بیان پر میں اعلان کرتا ہوں کہ اس موقع پر کشمیر کے سلسلے میں ہفتہ شہداءکے اندر تمام پاکستان میں بڑے پیمانے پر رضاکاروں کی بھرتی ہو اور اگر یہ نہ ہوئی تو آئندہ کے لئے اس سلسلہ کو بند کر دینے کا اعلان ناگزیر ہو جائے گا۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

تحریک خاکسار اور قیام پاکستان
خاکسار تحریک کے سامنے پہلے دن سے جبکہ وہ وجود میں آئی ایک ہی مقصد رہا اور وہ یہ کہ قوم کے لئے سیاسی اور اجتماعی غلبہ حاصل کرے۔ قوم کو اپنی قربانیوں اور عسکری طاقت سے بلند کرے۔ سر دھڑ کی بازی لگا دے اور ظلم دور کرے۔ اپنے آپ کو ہلاک کر کے قوم کو بنا دے آج سولہ برس کی بے پناہ قربانیوں کے بعد بھی خاکسار تحریک کے سامنے اس کے سوا کوئی اور مقصد نہیں کہ ان لکھو کھہا انسانی جانوں کی قربانی کے عوض میں جو انگریز کو فتح حاصل کرانے کے لئے ہندوستان کے غریب انسانوں نے دیں۔ ہندوستان کو آزادی حاصل ہو اور اس عالمگیر جنگ میں انگریز کی جرمنی اور جاپان پر فتح کو ہندوستان کی جنگ آزادی کی فتح بنا دی جائے۔ اگر ہندوستان کو اس وقت یہ میسر نہیں اور نصف کروڑ غریب بیکس بھوکے اورننگے انسانوں کی جانیں ضائع کرنے کے بعد بھی یہ دونوں سیاسی جماعتیں انگریزوں سے چند ممبری یا وزارت کی سیٹیں حاصل کر کے خان بہادر راج یا برلا اور برہمن راج پھر قائم کر رہی ہیں اور غریب کو ا ور غریب اور بھوکے کو اور بھوکا کرنا چاہتی ہیں تو خاکسار تحریک کے لئے کوئی اور سبیل نہیں رہی کہ اس بیمثال ظلم کو دور کرنے کے لئے ان کی راہ میں دیوار آہن کی طرح کھڑی ہو جائے ہر خاکسار جس کا روز اول کا منتہا دنیا میں بے پناہ انصاف اور عدل کی حکومت قائم کرنا ۔اس کے چوبیس اصول اور چودہ نکات میں خونی حروف سے لکھا ہے۔ اس مساوات اور انصاف کو قائم کرنے کے لئے اپنی جان پیش کرے۔ پاکستان کو وہ سر زمین سمجھ کر کہ اس میں صرف پاک اور انصاف پسند لوگوں کی بستیاں ہوں گی۔ اپنی روحانیت‘ اپنی قربانی‘ اپنے خون‘ اپنے پسینے‘ اپنے آنسوں اور مصیبتوں کے زور سے حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہو جائے پاکستان کے حاصل کرنے کو یہ سمجھ کر کہ اس کو دس کروڑ مسلمانوں کی مدد سے انگریز سے بزور چھیننا دراصل تمام ہندوستان کو انگریز کے پنجے سے چھڑانا ہے پاکستان کی جنگ کو تمام ہندوستان کی آزادی کی جنگ ثابت کر دے!

(الاصلاح٭ 21جون1946)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ)

رموز سلطنت
کسی علاقے کے حاکم کی خوبی اس میں ہے کہ حکومت اور نظام کا نفوذ اس علاقے کے ہر حصہ میں یکساں طور پر ہو۔ علاقے کے حاکم اپنی حکومت کو قائم کرنے کے لئے خود ہر جگہ بھاگ دوڑ نہیں کرتے وہ لاٹھی لئے ہوئے ہر جگہ خود نہیں پہنچتے ان کی حکومت کی استواری ان کے تقسیم کار میں ہے۔ جس کو وہ نہایت بلند نظری اور وسیع دلی سے کرتے ہیں۔ ان کی دشمنیاں اور دوستیاں شخصی اور ذاتی نہیں ہوتیں ۔ان کے سامنے صرف ایک ہی تخیل موجزن ہوتا ہے وہ یہ کہ تمام ملک کا انتظام موثر طریقے سے ہو کسی شخص کو جو آمادہ عمل ہے بیکار نہ رہنے دیا جائے ہر فرد سے اس کی حسب استطاعت اور حسب رضامندی پورا کام لیا جائے کسی متنفس کو لاطائل اور ناکارہ سمجھ کر ردنہ کیا جائے یاد رکھو! اس معمار کے لئے جو فی الحقیقت ایک عمدہ گھر بنانا چاہتا ہے۔ کوئی بڑی سے بڑی اور ٹیڑھی سے ٹیڑھی اینٹ بیکار نہیں۔ کوئی کنکر‘ کوئی روڑا‘ کوئی ناکارہ اور استعمال شدہ مصالحہ فی الحقیقت ناکارہ نہیں رحمت اور محبت کا معمار ہر روڑے کو کسی نہ کسی جگہ لگا دیتا ہے اس روڑے کی بدصورتی اور ناسازی کو اپنی محبت کے چونے اور گارے میں لپیٹ کر چھپا دیتا ہے۔ معمار کے لئے لازمی ہے کہ اس کی نگاہ سراسر رحمت اور رواداری کی نگاہ ہو۔
کائنات جہاں کے معمار اعظم تعالیٰ کی طرح اس کی نظر عاطفت ہر لولے اور لنگڑے ‘ہرا پاہج اور ناکارہ اور ہر گنا ہگار اور ستم زدہ پر ہو۔ اس کی دوستی مخصوص دوستی اور دشمنی مخصوص دشمنی نہ ہو۔ وہ” باہمیں مردمان ببائد ساخت “کے صحیح جذبے کو پیش نظر رکھ کر تعمیر شروع کر لے اور ہر قطع کے شخص سے بنائے رکھے ہرا یک سے امکانی تعاون اور سچائی کا سلوک کرے انگلستان کے ایک مشہور فلسفی نے فی الحقیقت ٹھیک کہا تھا کہ صدق وصفا سے عاری شخص ایک اینٹوں کاگھر بھی بنا نہیں سکتا ۔

(حضرت علامہ مشرقی ؒ)
---------------------------------------------------------Predictions-----------------------------------------------------------------
مغربی پاکستان کی سر زمین پر ایک قطرہ پانی کا نہ رہے گا
بھارت پاکستان کے تمام دریا روک دے گا
مسلمان بھائیو! میں فرضی واقعات بتا کرتمہیں اور پریشان نہیں کرنا چاہتا لیکن ایک بات ضرور واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ دنیا میں آج تک یہ فیصلہ نہیں ہوا کہ کسی قوم کو موت ٹھیک کس دن آئی وہ کونسا دن اور وقت تھا کہ اس نے اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کئے تم صاف دیکھ لو کہ پچھلے پانچ سال کی مصیبتیں تم پر کس طرح آہستہ آہستہ آئیں اور تم امیدوں کے بہشت میں ہی رہ رہ کر دن گزارتے گئے اور یہ مصیبتیں نامحسوس طور پر بڑھتی گئیں اور اب یہ حالت ہے کہ اگرآج آٹا دوسیر کی بجائے ڈھائی سیر ہو جائے تو تم میں سے ہر ایک فوراً کہہ دے گا کہ اب حالات بہتر ہو گئے ہیں حالانکہ تم وہ لوگ ہو جنہوں نے برسوں تک آٹا روپے کا پندرہ سیر بلکہ بیس سیر بھی کھایا ہو گا بعینہ اس طرح مصیبتیں نامحسوس طور پر آتی ہیں اور کوئی شخص ٹھیک وقت نہیں بتلا سکتا کہ فلاں شے کس دن شروع ہوئی اور اس دن کیوں محسوس نہیں ہوئی اس مثال کے دینے کے بعد میں تم پر واضح کرتا ہوں کہ کشمیر کے مسئلے کے کھٹائی میں پڑنے کے بعد بھی تم اس طرح امیدوںکے بہشت میں پڑے رہو گے ہندو آہستہ آہستہ تمہیں وقت دیتا رہے گا تا کہ کشمیر کے متعلق تمہارے جذبات اور ماند پڑ جائیں وہ تمہیں مختلف امیدیں دلا دلا کر سلانے کی کوشش کریگا کہ آخری جذبہ کشمیر کی جنگ کے متعلق ماند پڑ جائے خود حکومت نیند مےں مبتلا ہو گی اور کشمیر کے متعلق آئے دن کا غذی جھمیلوں کے باعث اپنی خواب میں مگن رہے گی۔ کہ کی نہ کسی دن تو یہ گتھی ضرور سلجھے گی پھر اس تمام کا ہلی کے بعد جس اثنا میں کہ ہندو اپنی پوری تیاری کرتا رہیگا ایک دن آئیگا جس میں ہندو نے اپنے تمام منصوبے 196کروڑ کے روپیہ سے تیار کر لئے ہوں گے اس دن جو پاکستان کیلئے قیامت کا دن ہو گا ہندو پھر آہستہ آہستہ اسی نامحسوس طور پر پاکستان کے تمام دریا روک دیگا تم اسی امیدوں کے بہشت میں پڑے پڑے انگڑائیاں لیتے رہو گے کہ خداخیر کرے گا خداخیرکرے کرے گا حتیٰ کہ مغربی پاکستان کی سر زمین پر ایک قطرہ پانی کا نہ رہیگا اور خدائے عظیم اپنے قرآن کی زبان میں پکار یگا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نااہل قوم کا قصہ پاک ہو گیا۔ مسلمانو! یہ قیامت بھی تمہیں کم محسوس ہو گی کیونکہ غافل قومیں بڑی دیر کے بعد محسوس کیا کرتی ہیں لیکن پانی کے بند ہونے کی قیامتوں کے بعد جو قیامتیں آنیوالی ہیں وہ ایسی ہیں کہ شائدان کی جوں تک تمہارے کانوں پر نہ رینگے وہ آزادی سلب ہونے کی قیامتیں اسی طرح کی قیامتیں ہو نگی جس طرح کہ آج ان کو حیدر آباد دکن کا نظام یا بھوپال کا نواب محسوس کر رہا ہے کسی ایک دن جس کی اطلاع تمہارے فرشتوں کو بھی نہ ہو گی ہندو کا ایک معمولی سا عہدیدار پاکستان میںآکر بیٹھ جائیگا جونا محسوس طور پر ہماری حکومت پر حکم چلائے گا پاکستان اس دن سے محض ایک ہندو کی ریاست کے طور پر ہو گی اور مزایہ ہے کہ کوئی شخص حتیٰ کہ پاکستان حکومت بھی محسوس نہ کرے گی کہ ہم ہندو ریاست بن چکے ہیں اب پاکستان میں ہندو کا راج ہے یہی سب کہیں گے کہ کچھ نہیں ہوا خدا خیر کریگا خدا خیر کریگا الغرض اسی تسلسل اورتر ا تر سے مریض میٹھی نیند سو جائے گا جو ہمیشہ تک ہوگی اور مزایہ کہ کوئی ایک شخص بھی نہ کہہ سکے گا کہ کس دن پاکستان محکوم بنا‘ کس دن اس کی آزادی سلب ہوئی‘ کس نے یہ جرم کیا تھا‘ کون قصور وار تھا قومیں جب مٹتی ہیں اسی آہستگی سے مٹتی ہیں اور اسی آہستگی کے باعث کہا گیا ہے کہ ”خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی“۔ مسلمان بھائیو! انہی خطروں کی بنا پر جو میں نے تمہیں واضح کر دئے ہیں اور تم سب گواہ رہو کہ میں نے ان کے واضح کرنے میں کوئی کسر اٹھانہیں رکھی میں تمہیں تنبیہ کرتا ہوں کہ ابھی اگلے دو تین ماہ تک وقت ہے کہ تم اپنی حکومت سے اس اتحادواتفاق کا مطالبہ کرو جس کی تجویز میں نے کی ہے فرداً فرداً اور جمعاً جمعاً حکومت پر واضح کر دو کہ نہیں علاج فوری اتحاد ہے‘ علاج کا مل اتحاد ہے‘ علاج سینوں کی کٹپوں کا دلوں سے نکال دینا ہے‘ علاج دلوں میں سے ایک دوسرے کے متعلق شک رفع کر کے ایک ہو جانا ہے۔

(۲۴اکتوبر۱۹۵۲)
(حضرت علامہ مشرقی ؒخطاب راولپنڈی)

ہندوستان کی حکومت پاکستان کےساتھ اسوقت تک
کھیلتی رہےگی جب تک کہ اسکا کچومر نہ نکل جائے
قیامت کے دن تک کشمیر تمہارے ہاتھ سے نکل جائے گا
مسلمانو! میں تمہیں نہایت وثوق سے متنبہ کر تا ہوں کہ جس دن نامحسوس طور پر اور کامل بدنیتی سے یو۔این۔او نے یہ خطر ناک فیصلہ صادر کر دیا اور پھر میں کہتا ہوں کہ یہ تمام بات اس ہوشیاری سے کی جائے گی کہ تمہیں محسوس بھی نہ ہو گی تو یقین جانو کہ اسی دن قیامت کے دن تک کشمیر تمہارے ہاتھ سے نکل جائیگا تم اسی امیدوں کے بہشت میں بیٹھے ہوئے ہو گے کہ کیا ہے باقی باتیں جلد طے ہو جائیں گی اور ہمارے سیاست دان کسی نہ کسی سمجھوتے پر ضرور پہنچ جائیں گے لیکن جہنم کے دروازے تم پر چوپٹ کھول دینے کی تیاری اس دن ہو جائے گی میں تمہیں پھر تیسری بارتبنیہ کرتا ہوں کہ جس طرح یہ پانچ سال صرف ٹال مٹول میں گذرے ہیں اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ ہوشیاری سے آئندہ تین چار مہینوں میں اس مسئلے کو جہنم واصل کر کے کشمیر کو ہمیشہ کے لئے دشمن کے سپرد کر دیا جائے گا پھر اس کے بعد میں پھر دوسری بارتم کو کہتا ہوں کہ تمہیں محسوس کرائے بغیر نئی امیدوں کا بہثت تمہارے سامنے لاکر رکھا جائے گا دوسری خبر جو اس بارے میں مجھے پہنچی ہے یہ ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان لڑائی کے خطرے کو اس چالاکی سے کم کیا جائے گا کہ پاکستان کی طرف سے ہندو کو معمولی سی لڑائی کا ہولناک نتائج سے آگاہ کر کے ان کے حوصلوں کو پست کرتے رہیں۔ گو یا جب لڑائی کا خطرہ ہی باقی نہ رہا تو ہندو کے لئے میدان کھلا رہ جائے گا کہ وہ بعینہ اس طرح جس طرح کہ ایک بلی چوہے کو منہ میں لے کر پھر اس سے کھیلتی رہتی ہے ہندوستان کی حکومت پاکستان کے ساتھ اس وقت تک کھیلتی رہے کہ اس کا کچومر نکل جائے۔
مسلمانو!جو لوگ ہمیں یہ کہتے ہیں اور جو امت یا ملت اس وقت چیخ چیخ کر ےہ کہہ رہی ہے کہ ہم سب کشمیر جا کر اپنی جانیں دینے کےلئے تیار ہیں وہ مجھے بتلائیں کہ اس کا ثبوت کیا ہے کہ پوری ملت تیار ہے ،کیا وہ ملت تیار سمجھی جا سکتی ہے جس میں بھائی سے بھائی،ہمسائے سے ہمسائے،مسلمان سے مسلمان،ایک سے ایک جدا ہو جو اپنے بہوﺅں،بہنوں،بیٹوں کو لاکھوں کی تعداد میں ہندو کے ہاتھ میں چھوڑ کر ۵۵ سال تک خاہوش بیھٹی ہواور کشمیر کے بارے میں جو ۵۵ سال سے ہندو کے مظالم جھیل کر اور اپنے عزیزوں کی بےوفائی پر صبر شکر کر کہ بیٹھی ہیں ادنیٰ سی آواز بلند نہ ہو ۔مجھے بتاﺅ کے کشمیرکی تیاری کی نشانیاں یہ ہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو کاٹ کاٹ کر کھارہا ہو ۔تمام دن جھوٹ،فریب،دغابازی،جھوٹی قسموں،لوٹ مار،زناکاری،شراب،سینما بازی میں گرفتار ہو۔کیا وہ ملت کشمیر تو خیر ادنیٰ سی جھونپڑی بھی فتح کر سکتی ہے؟ ،جس کے کسی فرد کے ادنیٰ قول پر اعتبار نہ ہو،جو ایک منٹ میں وعدہ کر کے دوسرے منٹ میں اس وعدے سے مکر جائے ؟تمہارے پاس بتاﺅ کےا گارنٹی اس امر کی ہے کہ وہ چند لوگ جو چیخ کر کہتے ہیں کہ ہاں کشمیر چلو،وعدے میں پکے ہیں ؟

(۲۳ستمبر۱۹۵۵٭جہانگیر پارک کراچی)
(حضرت علامہ مشرقی ؒ )