Pages

Time

Deen ko Samjhne Mein Insaan ki Fash Galatiyan - Alllama Mashriqi

دین خداکوسمجھنے میں انسان کی فاش غلطیاں

انسانوں کی آخری جنگ عالموں (سائنسدانوں) اور سیاست بازوں کے درمیان ہوگی

حضرت علامہ مشرقی

سب پیغمبران خدا وساطت سے بنی نوع پیرو بن کر یا ایک زبان میں کسی ایک کتاب وحی کا مقتدر ہو کر فرقہ بند بننا مقصود ِ خدا نہ تھا۔بلکہ اس قانون پر عمل کرنا اورسب پیغمبران خدا کو اس قانون کے ےکساں لانے والے سمجھنا لازمی تھا۔پیغمبر کسی ایک گروہ انسانی کے سرگروہ نہ تھے بلکہ صرف پیغام لانے والے تھے اور بس۔اصل شے خدا کا قانون ہے پیغمبر کی شخصیت نہیں۔

پیغمبر نہ نصرانی تھے،نہ یہودی نہ مجمدی ﷺ، نہ کوئی اور بلکہ مسلم“، یعنی خدا کے قانون کو تسلیم کرنے والے تھے۔نہ انہوں نے کوئی فرقہ بنایا۔

کتاب قانون خدا ہے جو مختلف زبانوں میں اس قوم کی تفہم کے لئے اترا۔اس سے زیادہ اس زبان کی کوئی خصوصیت نہیں۔

جو فرد یا قوم قانون خدا پر عامل ہے وہ ”مسلم“ہے ،اور خدا سے اس کو پورا اجر مل رہا ہے اور ملتا رہے گا۔

پیغمبر،رسول،بشیر،نذیر ہر قریہ اور امت میں آئے اور کسی قوم کو سزا نہیں ملتی جب تک کہ قانون خدا کی وضاحت اس پر نہ ہو۔

” کتاب “ یعنی قانون خدا وقتاً وقتاً اس عہد کی ضروریات کے مطابق ملتا رہا اوراس میں کمی پیشی ہوتی رہی۔

آخری قانون ”قرآن" ہے جو اس عہد میں نازل ہوا جبکہ انسان اپنے ابتدائی مراحل سے گذرکرانسانیت کے آخری مرحلوں تک پہنچ چکا ہے۔اس کے بعد کسی خاص یا زیادہ ترقی یافتہ قانون کی ضرورت نہیں رہی اور انسان کے وجود کے آخری مرحلوں تک یہی قانون کافی ہے اور رہے گا۔ گویا قرآن خدا کے قانون کا آخری ایڈیشن ہے۔

انسان میں مذہبی ،سےاسی،جغرافیائی یا کوئی اور فرقہ بندی پیدا کرنا غلط ہے۔وہ سب ایک امت ہیں کیونکہ ایک جنس سے ہیں اور ایک خدا کی پیدا کی ہوئی مخلوق ہیں۔اب جب کہ فرقہ بندی مذہبی،سےاسی اور جغرافیائی لحاظ سے پیدا ہو چکی ہے اورفسادبروبحرمیں نمودار ہو چکا ہے، ہر جماعت کا فرض ہے کہ وہ آپس میں کامل طور پر ”اخوت“سے رہے اور سب پر غالب آنے کی انتہائی سعی کرے۔اس دنےاپرکسی جماعت کے اندر داخلی فرقہ بندی پیدا کرنا ” شرک “ اور ظلم عظیم ہے۔

ہر جماعت اپنے دین پر مکمل طور پر کار بند رہ کر باقی تمام جماعتوں پر غالب آنے کی سعی بالا طاق کرے۔

اس زمین و آسمان کے اندر واحد حقیقت صرف صحیفہ فطرت ہے،اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں بلکہ اور جو شے ہے باطل اور بی حقیقت ہے۔اس حقیقت کو دریافت کرنے کی واحد ذریعہ انسان کا سمع، بصر اور قلب ہے۔جو شے ان تین ذرائع سے حاصل نہیں ہوتی وہ ظن اور باطل ہے۔

انسان کے سعی و عمل کی منتہا تلاش صحیفہ فطرت ہے۔اس تلاش سے وہ حقیقت تک پہنچ کر معرفتِ خدا تک پہنچ سکتاہے۔معرفت ِ خدا کی آخری منزل ملاقات خدا ہے۔جو صرف اسی صورت میں ہوسکے گی کہ انسان اپنے علم صحیفہ فطرت میں اس قدر مکمل ہو جا ئے کہ اس میں کدا کے اوصاف پیدا ہوں اور اس کی طاقتیں خدا کی طاقتوں کے لگ بھگ ہوں۔

انسان کی ترقی کا آخری مرحلہ اس کا خلیفہ دا بن کر مظہر خدا بننا ہے اور اس وقت شاید انسان ترقی کرتا کرتا اس مرحلے تک پہنچ جائے کہ وہ نطفہ منی کی مکروہ پیدائش سے بلند تر ہوجائے۔ لیکن یہ منزل ابھی انتہائی دور ہے کیونکہ ابھی تو انسان نے علم فطرت کی ابجد بھی دریافت نہیں کی اور وہ ابھی ایک ”مکھی" تک پیدا نہیں کرسکا۔

اگلی جنگ جو ہو گی وہ سائنسدانوں اور سیاسی اشخاص میں اس طرح ہو گی جس طرح کہ آج کل مزدور اور سرمایہ دار میں اس بنا پر ہو رہی ہے کہ مزدور کو سرمایہ دار کے ظلم کا تختہ مشق بنایا جا رہا ہے۔ حالانکہ مزدور تمام آسائش کا اصل بانی ہے۔ آگے چل کر سائنسدان بھی بیعانہ اسی بنا پر سےاسی اشخاص کے چنگل سے نکلنے کی پوری سعی کرے گا کہ وہ سیاستدان کا ” ادنی نوکر اور غلام ہے۔ حالانکہ جو کچھ طاقت دنیا کو حاصل ہوئی ہے وہ سائنسدان کی وجہ سے ہے۔

حضرت علامہ مشرقی

نوٹ:اس موضوع پر تفصیل سے علامہ مشرقی ؒ نے اپنے رسالہ”انسانی مسئلہ“میں وضاحت کی ہے۔



خطاب فیصل آباد۱۹۴۹۔۵۰


مسلمانوں کی کامیابی قرآن کے حکموں پر عمل کرنے سے ہو گی


مسلمانوں نے قرآن کے زور پرہندوستان فتح کیا اورپھر 1145 برس تک
 حکومت کی جبکہ انگریز صرف90برس حکومت کر کے چل بسا

مسلمان بھائیو! مسلمان اور بھائی کے لفظ ممکن ہے کہ میرے منہ سے رسمی طور پر تمہیں خطاب کرنے کی وجہ سے نکل گئے ہوں مگر اسلام لیگ کی اکتوبر 1947ءمیں بنیاد ڈالنے کی وجہ صرف یہی دو الفاظ تھے کہ” مسلمان بھائی بھائی ہیں“۔
اگر قرآن حکیم جس نے تم مسلمانوں کے باپ داداﺅں کو 1145 برس تک پورے ہندوستان کے بڑے بڑے حصے کی حکومت دی اور وہ لوگ کسی نہ کسی عنوان سے قرآن حکیم کو اپنا رہنما سمجھتے رہے آج بھی تمہارے دلوں کی گہرائیوں کے اندر تمہارا رہنما ہے اور تم سمجھتے ہو کہ تمہاری کامیابی قرآن کے حکموں پر عمل کرنے سے تھی ا ور ہو گی تو میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ قرآن میں ”انما المومنون اخوة“ کا حکم لکھا ہے۔ ان تین لفظوں کے اندر تمہاری بہتری کا پہاڑچھپا ہے۔ ان تین لفظوں کے سر سری طور پر معنی تو یہی ہیں کہ ”مسلمان بھائی بھائی ہیں“ اور عام لوگ جنہوں نے قرآن غور سے نہیں پڑھا یا قرآن کو اہمیت نہیں دیتے یہی کہیں گے کہ یہ آیت تو سب مسلمان جانتے ہیںاور اس کا آجکل کے ”ترقی یافتہ“ زمانے میں حوالہ دینا وہی پرانی مولوی کی بات کو دہرانا ہے لیکن تم اگر اس مسئلے پر ہی غور کرو کہ مسلمانوں نے کیوں 1145 برس تک ہندوستان پر حکومت کی اور انگریز کیوں صرف 190 برس تک رہ کر چلے گئے تو تمہیں معلوم ہو گا کہ انگریز کی حکومت کے اصولوں اور مسلمان کی حکومت کے اصولوں میں کوئی بڑا فرق ہو گا جو انگریز کو پورے دو سو برس تک بھی حکومت کا اہل نہ بنا سکا ادھر آج کل کے اپنی نگاہوں میں ترقی یافتہ مسلمان حکومت کے اصول خواہ کچھ ہی بنا لیں اور قرآن حکیم کی سیاست کو ناقابل توجہ ہی سمجھیں لیکن یہ بات تو بالکل مانی ہوئی ہے اور اس سے کوئی آج کل کا بڑے سے بڑا انگریزی رنگ کا مسلمان انکا رنہیں کرسکتا کہ ہمارے باپ دادا کے پاس نہ کوٹ نہ پتلون والی انگریزی سیاست تھی نہ انگریز اور روس کی کتابیں نہ امریکہ کی پولیٹیکل تھیور یاں نہ یورپ کے ازم نہ مغربی فلاسفروں اور پرفیسروں کی فلسفہ دانیاں۔ ان کے پاس تولے دیکر اگرکچھ تھا تو وہی مسلمانوں کے اپنے بنائے ہوئے اصول و ہی مسلمانوں کا آج کل کے جینٹلمینوں کی نگاہوں میں پرانا قرآن وہی مسلمانوں کے اپنے بنائے رسم ورواج اور اپنی وضع کی ہوئی معاشرت اس وقت مسلمان سیکھنے اور پڑھنے یورپ جاتے تھے نہ کسی مار کسی اور فرینکلن سے سبق لیا کرتے تھے وہ ہندوستان پر اسی قرآن کے زور سے چڑھ آئے اور اسی ایک قرآن کی تعلیم کو انہوں نے حاصل کر کے ہندوستان فتح کیا اسی کے زور پر 1145 سال تک حکومت کی اور جب ان کی کمزوریوں کا پیمانہ لبریز ہو گیا حکومت ان کے ہاتھ نکل گئی ۔
اس چھوٹی سی ا ور صاف بات کو بتلانے کے بعد بھی یورپ زدہ مسلمان جس کی تعلیم ماں کے پیٹ سے مغربی طریقے پر ہوئی ہے اور جو کسی دوسرے عنوان سے سوچ ہی نہیں سکتا مجھ جیسے یورپ کے تعلیم یافتہ مسلمان پر بھی جس نے قریباً دس برس یورپ میں گذارے اور سب انگریزی ڈگریوں کے ریکارڈ توڑے‘ کئی اعتراض کرے گا اور چاہے گا کہ مسلمانوں کی ہندوستان پر 1145 برس کی حکومت کو ایک ظالمانہ ‘شہنشاہانہ ‘بے اصولی‘ بے معنی‘ اتفاقی‘ ناترقی یافتہ‘ مذہبی‘ متعصب‘ غیر اور نہ جانے کیا کیا گردان کر مسلمانوں کے غلبے کے اس عظیم الشان زمانے کو چٹکیوں میں اڑا دے مگر میرا مقصد اس وقت ان نئی روشنی والوں سے بحث کرنا نہیں بلکہ عام مسلمانوں کو یہ جتلانا ہے کہ دیکھو! ان ہماری نگاہوں میں سیدھے سادے قرآنی مسلمانوں نے تو گیارہ سو برس تک ہندوستان کو سنبھالے رکھا اور پرلے درجے کی مکار اور متعصب ہندوقوم میں مسلمانوں کے خلاف ادنیٰ درجے کی بغاوت پیدا نہ ہوئی بلکہ 1857ءکی آخری جنگ تک بھی جبکہ مسلمانوں کی کوئی طاقت نہ رہی تھی ہندو مسلمانوں کے ساتھ انگریزوں کے خلاف لڑے لیکن کوٹ‘ پتلون والے گورے چٹے اور بڑی بڑی پولیٹیکل تھیوریوں پر چلنے والے انگریز صرف 190 برس حکومت کر کے چل بسے اس لئے قرآن میں ضرور کوئی ایسی باتیں لکھی ہونگی جن کے سامنے انگریز کی سیاست مٹی کے برا بر ہے اور نیز اس لئے اتنی بڑی سلطنت کونا مراداور بھگوڑ ابن کر چھوڑ گیا کہ اس کی سیاست نے دوسو برس کے اندر اندر تمام رعیت کوناراض کر دیا۔
پس مسلمانو! اگر تمہیں یہ سمجھ آگیا ہے کہ قرآن میں کچھ شے ضرور ہے تو آﺅ میں تمہیں بتلاﺅں کہ ”انما المومنون اخوة“ کے تین لفظوں کے یہ معنی بھی نہیں جو تم سمجھے بیٹھے ہو یعنی کہ مسلمان بھائی بھائی ہیں یہ ترجمہ صرف اٹکل بچو سرسری اور چلاﺅ ہے نتیجے کی بات اس سے پید انہیں ہوتی نہ اس ترجمے میں کوئی بڑی سیاست مسلمان کو نظر آسکتی ہے نہ اس ترجمے سے مسلمان کو کوئی بڑی اکساہٹ پیدا ہوتی ہے نہ قرآن کے ان تین لفظوں میں مسلمان کا ذکر ہے نہ یہ ترجمہ ان تین لفظوں کا دیانتدارانہ ترجمہ ہے نہ مسلمان ہندوستان میں 1145 برس تک اس طرح بھائی بھائی رہے جس طرح کہ آج اس ترجمے سے آج کل کے مسلمان سمجھتے ہیں اس آیت کے ٹکڑے میں انما کا لفظ سب سے پہلے ہے جس کے معنے صرف کے ہیں اور جس کا آپ کے ترجمے میں نام ونشان تک نہیں دوسرا لفظ مومنوں کا ہے مسلمان کا نہیں جس کے معنے ایمان والوں کی جماعت ہے قرآن کہتا ہے کہ صرف وہی لوگ ایمان والے قرار دیئے جا سکتے ہیں جو بھائی چارہ بن جائیں۔گو یا اگر تم بھائی چارہ نہیں بنے تو تم ایمان والے نہیں ہوبے ایمان ہو کافر ہو قرآن کے منکر ہو مسلمان نہیں ہو غالب نہیں رہ سکتے حکومت تمہاری نہیں رہ سکتی وغیرہ وغیرہ ۔
دیکھ لو جب تک مسلمان کو یہ ڈر رہا کہ ہم آپس میں بھائیوں کے گٹھ جوڑ میں رہیں وہ ہندوستان میں غالب رہے ۔جب یہ گٹھ جوڑ ڈھیلا پڑ گیا مغلوب ہو گئے۔
اگست 1947ءمیں جبکہ مسلمانوں کے دو ٹکڑے ہوگئے میں نے قرآن کے اس حکم کو سامنے رکھ کر اسلام لیگ کا نصب العین ہندوستان کے سوا پانچ کروڑ مسلمانوں کی حمایت اور حفاظت قرار دیا اکتوبر 1947ءمیں اسلام لیگ کی رسمی بنیاد ڈالی گئی اور اس وقت سے برابر یہ آواز مسلمانوں کے کانوں میں ڈالی جا رہی ہے تا کہ وہ قرآن حکیم کی سیاست کو سمجھیں وہ انما کے لفظ سے ڈر کر یہ سمجھیں کہ اگر ہم نے ا ن مسلمان بھائیوں کو وہی آزادی ہندو کے پنجے سے نہ دلائی جس میں ہم آج مست نظر آتے ہیں تو خدا کے نزدیک مسلمانی سے خارج ہیں۔ اب تک جو کچھ ان پچیس مہینوں میں پاکستان کے مسلمانوں نے اس بھائی چارہ کے متعلق کیا ہے یہ ہے کہ جونا گڑھ اور حیدرآباد کی دو بڑی ریاستوں پر ہندونے بلا روک ٹوک قبضہ کر لیا ہے۔ بھوپال‘ رامپور اور باقی 18 اور ریاستیں بے ڈکار ہضم کر لی گئیں اور پاکستانی بھائی ٹس سے مس نہ ہوئے ایک کروڑ کے قریب مسلمان نامحسوس طور پر ڈر کر پھر ہندو ہوگئے یا ہندو انہ رسم ورواج اختیار کر گئے قریباً پندرہ کروڑ سالانہ مالیت کی جاگیریں ہندو کے دست قدرت میں آگئی ہیں قریباً تین ہزار مسجد وں پر قفل لگے ہیں ہزارہا بلکہ لاکھ ہا مسلمانوں کے مکانات اور جائیدادوں پر ہندو کا قبضہ ہے ہندوستان کا ہر مسلمان اپنی روزانہ زندگی چو بیس گھنٹے کے جہنم میں گذار رہا ہے ادھر پندرہ لاکھ مسلمان 1947ءکے فسادات میں قتل ہوئے 85 لاکھ وہاں اور یہاں آکر برباد ہوئے قریبا ستر ہزار مسلمان عورتوں کی عصمت روزانہ برباد ہو رہی ہے ان میں سے اب تک صرف بارہ تیرہ ہزار واپس ہوئی ہیں ان کا بھی کوئی والی وارث نظر نہیں آتا اور بھی بیسیوں باتیں گنائی جا سکتی ہیں لیکن کیایہ بھائی چارہ ہے جو ہم نے ان پچیس مہینوں میں قائم کیا! بتاﺅ کہ تم لوگ ازروئے قرآن کس طرح دعویٰ کر سکتے ہو کہ تم مومن ہو۔
قرآن میں تو لکھاہے کہ مومن صرف وہ لوگ ہیں جو بھائی چارہ بنیں۔ کیا ان پچیس مہینوں میں بھائی چارہ بنانے کے کوئی عنوان کسی طرف سے ظاہر ہوئے ہیں۔ کوئی ادنیٰ سی ٹیس کسی جگہ لگ رہی ہے۔ کسی طرف سے کوئی کراہ نکل رہی ہے کوئی چیخ ہے جو اس عنوا ن سے ماری جا رہی ہے کہ ہم ان پانچ کروڑ تیئس لاکھ مسلمانوں کی فکر کریں۔ صرف ایک اسلام لیگ ہے جو دو سال سے جنگل میں آوازیں لگا رہی ہے بار بار حکومت اس کی آواز کو دبائے جارہی ہے۔ بے رحم پولیس درندوں کی طرح سر پرسوار ہے گھروں کی تلاشیاں لی جارہی ہیں۔ ڈرایا اور دھمکایا جا رہا ہے ہتھکڑیاں دکھلائی جارہی ہیں آرڈینینسوں پر آرڈنینس نافذ ہو رہے ہیں تا کہ کسی طرف سے بھائی چارہ کی کوئی آواز نہ نکل سکے۔
ہاں مہاجرین کی طرف سے کوئی بھائی چارہ پید انہ ہو‘ ہندوستانی مسلمانوں سے کوئی بھائی چارہ پید انہ ہو آپس میں کوئی بھائی چارہ نہ ہو۔آپس مےں کوئی بھائی چارہ نہ ہو۔سب مسلمان آپس میں پھٹے ہوئے ایک دوسرے پر شک کرنے والے ایک دوسرے کو ففتھ کالمنسٹ اور غدار سمجھنے والے الگ الگ ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجد بنانے والے بنے رہیں تا کہ آرام اور اطمینان کی نیند میں کسی طرف کوئی خدشہ باقی نہ رہے ۔
مسلمانو!بتلاﺅ کہ کیا یہ انگریزی طریقہ کی سیاست کہ رعیت کو ہمیشہ خوف اور دکھ میں دبائے رکھو، اس کی آواز کو نہ اٹھنے دو‘ اس کو ہردم بھوک اور ننگ میں مبتلا رکھ کر بے آواز کر دو اس کو اندر سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے اس کی جمہوری طاقت اور آزادی کو چھلنی چھلنی کر دو پاکستان یا ہندوستان پر پھر دوسری بار 1145 برس حکومت کرنے کی سیاست ہے، کیا ان لوگوں کی نقل کرنا جن کی اپنی سلطنت ڈیڑھ سو برس کی قلیل مدت میں ایک شکست بے آواز کی طرح نیست ونابود ہو گئی کوئی بڑا دانشمند انہ فعل ہے؟ کیا انگریزی سلطنت کے برباد اور کھنڈر ہو جانے کے بعد پھر اسی سلطنت کی غلط بنیادوں‘ غلط اصولوں‘ غلط رواجوں‘ غلط قانونوں‘ غلط معاشرت‘ غلط تعلیم پر اپنی حکومت کی بنیادیں رکھنا اور اس اسلام کی طرف نہ لوٹنا جس نے 1145 برس تک مسلمان کو حکومت دی۔ کوئی عقلمندوں کی بات ہے ۔
پاکستان کی حکومت ایک حد تک ہمیں اس چکر میں لاسکتی ہے کہ جہاں تک خارجی معاملات کا تعلق ہے اس پر لازم ہے کہ وہ یورپ امریکہ اور روس کی سیاسی چالوں کا مغربی طرز کی سیاسی چالوں سے ہی جواب دے ا ور اس میں قرآن حکیم کی پرانی یا اگر پرانی نہ سہی تو مذہبی سیاست کو دخل نہ دینے دے لیکن انصاف سے بتاﺅ کہ اپنی اسلامی ا ور ہم مذہب رعیت سے وہی انگریزی ہتھکنڈے استعمال کر کے رعیت کو پہلے سے دس گنا زیادہ سیاسی غلامی اور خوف میں رکھنے میں کونسی سیاسی مجبوری ہے مولوی مودودی پر تو خیر یہ الزام عائد کر دیا ہے کہ اس نے کشمیر کی جنگ کو جہاد نہ کہا تھا اور مسلمانوں کو اس میں شریک ہونے سے منع کیا تھا اگرچہ یہ دونوں الزام قطعاً غلط ہیں ۔ لیکن مجھے بتاﺅ کہ پیر مانکی جس نے نہایت آڑے وقتوں میں سرحد کا پورا صوبہ اپنا پورا زور لگا کر کانگریس کے خطر ناک پنجے سے آزاد کر کے اما نتاً ان لوگوں کو سپرد کیا تھا بتلاﺅ کہ پیر مانکی میں کونسی غداری آ گئی ہے کہ اب اس کو باری باری ہر جگہ سے ضلع بدر کیا جا رہا ہے، اس کی عوامی مسلم لیگ کے متعلق ریزولیوشن پاس کئے جا رہے ہیں کہ کوئی مسلم لیگی اس میں شامل نہیں ہو سکتااور یہ عوامی لیگ مسلم لیگ سے قطعاً الگ کوئی دوسری چیز ہے اور اصلی مسلم لیگ وہ ہے۔ جس میں ہم بہ نفس نفیس بلکہ ممدوٹ اور دولتانہ بھی شامل ہیں بدقسمت اور کج نصیب مہاجروں نے یہاں آکر کوئی صورت اپنی آواز نکالنے کی پیدا کی تھی اور وہ بھی اس وقت کہ انہیں یقین ہو گیا کہ پاکستان میں مہاجر اور انصار والی پرانی اسلامی بات نظر نہیں آتی اور سب حلوے مانڈے چند اوپر کے برخوردار انصاروں کے ہیں ہاں بتلاﺅ کہ اب ان صحیح معنوں میں پاکستان بنانے والے مہاجروں کی انجمنیں جو مشرقی پنجاب میں بڑے سرگرم مسلم لیگی شمار کئے جاتے تھے کیوں مسلم لیگ نے قرار دیا ہے کہ ان کا ممبر کوئی مسلم لیگی نہ بنے ‘نہیں یہ بھی چھوڑو‘ مغربی پنجاب کے ایک دور دراز ضلع کا ایک نو جوان سابق ایم ایل اے عبدالستار نیازی ٹھیٹھ مسلم لیگی اور غیر مہاجر ہو کر بھی ایک خلافت پاکستان مسلم لیگی گروپ اس نیت سے بناتا ہے کہ کچھ مذہبی اسلامی رنگ مسلم لیگ میں پیدا ہو کیوں اور کس مقصد سے مسلم لیگ نے یہ ریزولیوشن پاس کیا ہے کہ یہ مسلم لیگی گروپ بھی جو مختصر سا ہے اور اس سے بظاہر ادنیٰ خطرہ کسی مسلم لیگی کو نہیں ہو سکتا مسلم لیگ سے علیحدہ شے ہے اور اس کا ممبر کوئی مسلم لیگی نہیں ہو سکتا یہی صورت ایک دوسرے نوجوان سید سرورشاہ گیلانی کی ہے جو پاکستان میں کچھ نہ کچھ اسلامی رنگ چاہتا ہے کیا یہ سب مثالیں اس امر کی دلیل نہیں کہ آج جبکہ حکومت حاصل ہو گئی ہے مسلم لیگ کے معنی صرف چند اوپر کے خاص لوگ ہیں جن کی ملی بھگت یہ ہے کہ پاکستان کے پانچ کروڑ بیکس ا ور بے پر مسلمانوں کو سوائے اس چنڈ ال چوکڑی کے دوسری طرف جھکنے نہ دیا جائے نہیں بتلاﺅ کہ مسٹر حسین شہید سہروردی جو غیر تقسیم شدہ بنگال کے وزیراعظم بھی رہ چکے ہیں اور جس کے لگے کے دو اشخاص شاید تمام مرکزی حکومت میں نہ ہوں‘ کیوں ڈانواں ڈول اور یوسف بے کارواں ہو کر پھر رہا ہے؟ کیوں فیروز خان نون سے جو انگریزوں کی مرکزی حکومت میں ایگز یکٹو ممبر اپنی لیاقت باہمت سے بنے آج صرف ذیلیوں کا کام لیا جا رہا ہے کیوں بیگم تصدق حسین یا کئی اور دوسرے مسلم لیگی کو جو مسلم لیگ کی طرف سے کسی زمانے میں پیش پیش تھے کوئی قابل قدر نمایاں حیثیت نہیں رکھتے کیا یہ اس لئے نہیں کہ یہ سب لوگ کسی کی چتونوں کے اشارے پر چلے نہیں‘ یا ان کے متعلق ذلیل مخبری کسی طرف سے ہوئی اور غلط ہوئی تاریخ میں مسلمان حاکموں کی بیسیوں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں کہ بڑے بڑے جابر حکمرانوں نے اپنے دشمنوں تک کو معاف کیا ا ور اس تہ دل سے معافی کا نتیجہ یہ ہو اکہ ان کی سلطنتیں دس گنا زیادہ مضبوط ہو گئیں نہیں ان سب باتوں کو چھوڑ وا ور غور کرو کہ کیا ممدوٹ‘ دولتانہ‘ پیر الہٰی بخش‘ کھر وغیر ہم کئی اشخاص کو آج محض خدا اور اسلام کے واسطے ر سوا کیا جا رہا ہے کیا ا ن کی رسوائی فی الحقیقت اس لئے ہے کہ پاکستان میں عدل وانصاف کی حکومت قائم ہو۔
کیا تمام پاکستان میں صرف یہی چند لوگ بدمعاملہ یا رشوت خور تھے؟ اور ان کے سوا باقی سب لوگ فرشتے ہیں اور ان سے کوئی گناہ سرزدنہیں ہوا کیا کسی باوقار حکومت نے آج تک کسی اپنے ہاتھ سے مقرر کردہ وزیروں کو اس طرح بدنام ا ور رسوائے جہاں کیا؟ کیا وہ تمام خاموشی میں کسی اور بہانے سے برطرف نہ کئے جاسکتے تھے تا کہ حکومت کے وقار کو ٹھیس نہ لگے کیا یہ تمام کاروائیاں اس امر کا ثبوت نہیں کہ حکومت کے کارندے نہایت کم ظرف اور تھڑدلے ہیں۔ اپنے ذاتی مخالف کو طفلا نہ جذبے کے ماتحت کچلنا چاہتے ہیں۔کیا یہ تمام رسوائیاں اس امر کا صاف اظہار نہیں کرتیں کہ صرف شخصی انتقامی جذبہ موجزن ہے۔ اپنے نفس کے شیطان کو کسی طرح تسلی دینی ہے اور ہر بڑے چھوٹے ملازم افسر یا حاکم کو دائمی خوف وہراس میں رکھ کر یہ ماحول پیدا کرنا ہے۔ کہ رعیت میں سے کوئی بولا تو جھٹ آرڈیننس کا آرا اس کے سر پر چلے گا اور اگر بڑے افسروں میں سے کوئی بولا تو عدالت میں مجرم بنا کر اس کی عزت کا وہ ستیانا س کر دیا جائے گا ہ وہ پھر نہ اٹھ سکے گا۔
مسلمانو!بتلاﺅ کیا یہ سب عنوان مسلمانوں میں‘ عوام میں‘ خواص میں‘ رعیت میں‘ حکومت میں‘ یا خارجی اسلامی دنیا میں بھائی چارہ پیدا کرنے کے عنوان ہیں؟
مسلمانو!سو چو حکومت پاکستان ایک ادنیٰ سی حرکت قلم سے ہر غدار قوم کو جس کے متعلق یقین ہو چکا ہے یا جس پر بار بار شک گذرتا ہے‘ گرفتار کر کے اس کے متعلق من مانی کاروائی کر سکتی ہے اور ایسی کاروائی اگر لازمی طور پر خفیہ رہے تو زیادہ بہتر ہے کیونکہ ایسے بدکردار قوم کے متعلق اگر عام رعیت کو اطلاع نہ ملے تو اچھی ہے اس خاموش کاروائی سے رعیت عام طور پر سمجھتی ہے کہ ملک میں کوئی غدار موجود نہیں اور سب حکومت کے ہمدرد ہیں ۔جب حکومت کے پاس غداروں سے نبٹنے کے لئے یہ سامان ہر وقت موجود ہے اور اسلام بھی اس کی اجازت دیتا ہے کہ ہر یقینی غدار کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور جماعت کے بالمقابل فرد کی زندگی کو ترجیح نہ دی جائے تو پھر سمجھ نہیں آتا کہ شدومد سے علانیہ طور پر پبلک سیفٹی آرڈنینس یا ایکٹ جاری کر کے ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک رعیت کے ہر فرد میں خوف وہراس پیدا کر دینا کہ شاید یہ تین سال تک قید کی سزا کہیں مجھ کو ہی نہ مل جائے یا رعیت کے ہر فرد کے متعلق ہر دوسرے فرد کے دل میں شک پیدا کر دینا کہ کہیں یہ شخص غدار قوم ہی نہ ہوا اور اس کی صحبت میں بیٹھنا حکومت کی نگاہوں میں معیوب ہی نہ ہو ہاں سمجھ میں نہیں آتا کہ پبلک سیفٹی آرڈنینس کے اس ڈنکے کی چوٹ اعلان کرنے سے حکومت کا کیا مقصد ہے کیا یہ مقصد اس کے سوا کوئی اور ہو سکتا ہے کہ ملک کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک تمام رعیت کی آواز کچل دی جائے اس میں حکومت کی کسی بڑی سے بڑی بے ضابطگی اور بدکرداری کے خلاف آوازاٹھانے کی ہمت نہ رہے نہ رعیت اس خوف میں نہ دن کو چین سے رہے نہ رات کو آرام کر سکے‘ نہ حکومت کے کسی کارندے کے خلاف آواز اٹھے‘ آنے والے انتخابات کے متعلق رعیت اپنی آزاد انہ رائے نہ بنا سکے۔ ا ور اسی پبلک سیفٹی آرڈنینس کے افیونی زہر کو پلانے کے بعد وہی لوگ پھر انتخاب بلا مقابلہ جیتیں جن کے باعث پچھلے دوسال سے ہر پاکستانی مسلمان کی زندگی جہنم سے بدتر ہو چکی ہے۔ کیا اسلام کی تےرہ سو ساٹھ(اب سوا چودہ سو) برس کی تاریخ میں آزاد مسلمان کی زندگی کو اس سے بدتر لعنت کسی ملک میں بنایا گیا؟
کیا حضرت عمرکی چادر پر اعتراض کرنے والے مسلمان کی زندگی آج غلامی کے اس خطر ناک گڑھے میں نہیں گری کہ اس کو ہر آن اور ہر لمحہ اس کا خطرہ ہے کہ آنیوالے لمحہ میں اس کو ہتھکڑی نہ لگ جائے اور وہ اس قدر بے آس اورنامراد ہو کر نہ رہ جائے کہ عدالت تک کادروازہ بھی نہ کھٹکھٹا سکے؟
قرآن حکیم میں مومن کی تعریف لاخوف علیہم ولا ھم یحزنون لکھی ہے۔ کیا قصاب کی چھری کا ہر دم خوف اور دن رات غم آج پاکستان کے مسلمان کو بدترین حیوان نہیں بناتا ۔کیا پاکستان کے ان حکمرانوں کے پاس اس صریح ظلم کا جو وہ کر رہے ہیں ادنیٰ جواز بھی ہے؟
مسلمانو!ان حالات میں خدائے عظیم کے حکم کی کہ ایمان والے صرف وہ ہیں جو بھائی چارہ بن کر رہتے ہیں پہلی تعمیل میرے نزدیک صرف اس طرح ہو سکتی ہے کہ پاکستان کی تمام جماعتیں جوا سوقت مختلف ناموں سے چل رہی ہیں باہم مل کر ایک ہو جائیں ایک ہو جانے سے حکومت ان جماعتوں کو قانون کی زد میں لانے سے ڈرے گی جس بے باکی سے حکومت ان کے رہنما ﺅں پہ ہاتھ ڈال رہی ہے نہ ڈال سکے گی جس اطمینان سے سوچ رہی ہے کہ انتخاب بلا مقابلہ جیتے گی نہ جیت سکے گی صرف بہترین اور مناسب ترین اشخاص مقابلے کے لئے کھڑے ہوں گے اور اگر مسلمانوں کا آپس میں بھائی چارہ بن گیا تو کوئی صورت باقی نہیں رہتی کہ یہ بڑے لوگ پھرمنتخب ہو سکیں تم تو کہو گے کہ یہ دونوں” اگر“ یعنی سب جماعتیں آپس میں مل جائیں اور سب مسلمانوں کا بھائی چارہ بن جائے ایسے ہیں کہ ان کا واقعہ ہونا محال ہے ہاں بے شک اگر مسلمانوں کی بدقسمتی یہی ہے کہ اگست 1947ءکے انقلاب کے بعد انہیں ہوش نہیں آئی تو ضرور ہے کہ اور عذاب آنے والے ہیں۔ اور ان کا اس سے بدتر مصائب میں مبتلا ہونا یقینی امر ہے لیکن اگر مسلمان کو اس دو سال کے جہنم کے بعد ادنیٰ سی ہوش آچکی ہے اور اگر مسلمان اپنے لئے دینی اور دنیوی کوئی راہ نجات نہیں دیکھتا سوائے اس کے کہ متحد ہو جائے تو میرایقین ہے کہ مصیبت کے یہ سب بادل چھٹ جائیں گے اور ایک ایسی اسلامی سلطنت پیدا ہو سکتی ہے جس میں ہر گھر میں امن ‘آزادی‘ فکر آزادی‘ عمل‘ خوشحالی اور صحت ‘عسکری قوت‘ بیکاری سے نجات اور اطمینان قلب پیدا ہو اور پاکستان کے چپہ چپہ سے فی الحقیقت صدا نکلے کہ اس کا ہر شخص صحیح معنوں میں آزاد بے فکر اور خوشحال ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ جماعتوں کے اتحاد کی دو صورتیں اس وقت قابل عمل ہو سکت ہیں پہلی صورت یہ ہے کہ سب جماعتیں جو اس وقت پاکستان میں قائم ہو گئی ہیں اپنی اپنی شخصیت برقرار رکھ کر بعینہ ان اصولوں پر جن پر دنیا کی ساٹھ حکومتیں یو۔این۔او میں بیٹھ کر تمام دنیا کے مسئلوں کے فیصلے کر رہی ہیں اپنی ایک مشترک مجلس ”مجلس اسلام“ کے نام پر یا کسی اور نام سے قائم کریں ہر جماعت اپنے نمائندے اسی تناسب سے جو یو۔این۔ا و میں قائم ہے” مجلس اسلام“ میں بھیجے۔ اسی طریقے سے صدارت باری باری ہو۔ اسی طریقہ پر نمائندگی کی تعداد مقرر ہو۔ اسی طریقہ پر مختلف کمیٹیاں مختلف موضوعات پر بنیں اور پاکستان کے مختلف مشترک مسائل پر اپنے فیصلے عام مسلمانوں کے لئے جاری کریں ”مجلس اسلام“ کی اولین نصب العین آئندہ انتخابات میں جو ہر صوبے میں عنقریب ہوں گے مناسب ترین اشخاص کو انتخاب کے لئے تیار کرنا ہو ہر جماعت مجلس اسلام کے فیصلے مطابق اپنے امیدوار کھڑا کرے اور تمام جماعتوں کے ارکان بلکہ عام مسلمان ان امیدواروں کی مدد پر کھڑے ہو جائیں مجلس اسلام کو موثر اور شاندار طریقے پر چلانے کے لئے ہر جماعت مقررہ مالی مدد دے جیسا کہ یو۔این۔او کا وقار قائم رکھنے کے لئے تمام دنیا کی حکومتیں کر رہی ہیں وغیرہ وغیرہ۔
اس تجویز سے جو اسلام لیگ کی طرف سے پیش کی گئی ہے ہر جماعت کی شخصیت برقرار رہے گی ہر راہنما کا چودہر پن قائم رہے گا ہر مسلمانوں کا گروہ اپنے پسند یدہ گروہ اور ہر جماعت اپنے اپنے مخصوص نصب العین کو مدنظر رکھ کر بہ حیثیت جماعت اپنے حلقے میں کام کرتی رہے گی لیکن انتخابات یا مشترک مفاد کے میدان میں سب باقی جماعتوں کے ساتھ ایک پلیٹ فارم پر ہو گی وہ تمام قومی مسئلے جن کا تعلق عام مسلمانوں ہے اسی مجلس اسلام کے ذریعے سے حل ہوں گے اور مجلس اسلام کے تمام فیصلوں کا پابند ہر جماعت اور اس کے تمام ارکان لازمی طور پر ہوں گے ۔مسلمانو! اگر سوچو تو تمہیں واضح ہو جائے گا کہ مسلمانوں کے اس انتشار کی حالت میں ہر رہنما اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا کر اپنی لیڈری قائم رکھنا چاہتا ہے اس سے بہتر حل مسلمانوں کی نجات کا موجود نہیں۔

خان عبدالقیوم خان سواتی کی تجویز(سرخی)


انجمنوں اور جماعتوں کے اتحاد کا ایک حل خان عبدالقیوم صواتی ایم ۔ایل ۔اے صوبہ سرحد رکن عوامی مسلم لیگ نے پیش کیا ہے جو میرے نزدیک ایک معقول حل ہے اور اس پر اس کانفرنس میں غور وخوض کرنا ازبس ضروری ہے۔خان صواتی نے تجویز کی ہے کہ سردست صرف تین جماعتیں یعنی پیر مانکی شریف کی بنائی ہوئی عوامی مسلم لیگ ‘مولوی مودودی صاحب کی بنا کر وہ جماعت اسلامی ا ور اسلام لیگ اپنے آپ کو عوامی مسلم لیگ کے نام سے ایک دوسرے میں مدغم کردیں ان تمام جماعتوں کے پہلے صدر مولوی مودودی ہوں پیر مانکی سرحد میں بدستور صدر رہیں پنجاب میں اسلام لیگ کے صدر اور جنرل سیکرٹری اب عوامی مسلم لیگ کے صدر اور جنرل سیکرٹری ہوں میں بھی پنجاب میں بدستورکام کرتا رہاہوں جیسا کہ پہلے کر رہا تھا اور تینوں جماعتوں کی ہستی کو مٹا کر آئندہ سر گرمیاں عوامی مسلم لیگ کے نام سے ہوں جہاں تک” اسلام لیگ“ کے نام کا تعلق ہے میں اس جماعت سے پورے طور پر متفق ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اسلام لیگ کے ممبران اس سے متفق ہوں گے ہمارا مقصد روز اول سے مسلمانوں کا اتحاد رہا ہے اور جس طریقہ پر بھی مسلمان اکٹھے ہو جائیں ہمیں منظور ہے عوامی مسلم لیگ سرحد کے صدر پیر مانکی بھی جہاں تک میرا یقین ہے اس تجویز سے متفق ہونے چاہئیں کیونکہ تجویز اسی جماعت کے ایک رکن کے طرف سے پیش ہوئی ہے عوام مسلم لیگ کے نام سے بھی کسی جماعت کو عارنہ ہونی چاہئیے کیونکہ موجودہ مسلم لیگ کئی ایسی جماعتوں کو جن کے ساتھ مسلم لیگ کا نام لگاہے اپنے حلقے سے خارج کر چکی ہے اس عوامی مسلم لیگ میں وہ مسلم لیگی اصحاب بھی آسانی سے داخل ہو سکتے ہیں جو موجودہ مسلم لیگ سے بیزار ہیں اور جن کو امید باقی نہیں رہی کہ کسی اور طرح عوام کی نمائندگی حاصل ہو سکے اس تجویز کے دوسرے اہم حصے یہ ہیں۔
۱۔مسٹر حسین شہید سہروردی کو بطور سیکرٹری جنرل عوامی مسلم لیگ منتخب کیا جائے۔
۲۔مشرقی بنگال کے عوامی مسلم لیگ کے موجودہ عہدہ داروں کوتسلیم کر کے اس جماعتکا الحاق کر لیا جائے۔
۳۔سندھ اور بلوچستان میں” اسلام لیگ“ اور” جماعت اسلامی“ کی شا خوں کو بنا قرار دےکر عوامی مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی جائے۔
۴۔ پاکستانی ریاستوں میں علی ہذا القیاس عوامی مسلم لیگ کی شاخیں قائم کی جائیں وغیرہ وغیرہ۔
اس آڑے وقت میں کہ پانچ کروڑ پاکستانی مسلمانوں کی معاشی اور سیاسی حالت پتلی ہے اور وہ مسلم لیگ کے موجودہ نامناسب لیڈروں سے بیزار اور ان کی اندرونی خلفشاروں کی وجہ سے 1947ءکے انقلاب کے بعد ایک نئے ظلم کے نیچے پس رہے ہیں میرے نزدیک محترم صواتی کی تجویز بھی ایک نہایت” موثر انقلاب“ کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے ا ور اس کانفرنس میں شدومد سے غور ہونا چاہیے۔
اسلامی جماعت کے موجودہ امیر محترم عبدالجبار غازی سے جو گفتگوئیں اس وقت تک اس بارے میں ہوئی ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ خاص طور پر سرگرمی اور دلچسپی کی گفتگوئیں ہیں۔ اس جماعت کے کئی مقامی حضرات اس کانفرنس میں مجھے معلوم ہوا ہے کہ موجود ہیں اور وہ اس تجویز کے متعلق کانفرنس کے ماحول کا اندازہ لگا کر اپنے خیالات کا اظہار اپنے امیرسے کر کے اسلامی جماعت کو کسی مستقل راہ پر لاسکتے ہیں محترم عبدالجبار غازی اگرچہ مولانا مودودی کی غیر موجودگی میں اس امر کے مجاز نہ ہوں گے کہ کوئی بنیادی تبدیلی جماعت کے وجود کے متعلق پید اکر سکیں لیکن بہر نوع یہ امور طے ہو سکتے ہیں اور محترم غازی کا اظہار کہ اسلامی جماعت کے کچھ بنیادی اختلافات باقی دو جماعتوں سے ہیں بھی باہمی ربط وضبط سے فیصلہ پذیر ہو سکتا ہے بلکہ جب مولانا مودودی صاحب کو تمام پاکستان کی عوامی مسلم لیگ کا پہلا صدر بنایا جا رہا ہے اور میں اور پیر مانکی یہ عہدہ نہیں لیتے اور باقی دو جماعتیں مدغم ہورہی ہیں تو کسی بنیادی اختلاف کا سوال پیدا نہیں ہوتا تمام مالہ اور ماعلیہ کو مدنظر رکھ کر میری رائے اس معاملہ میں یہ ہے کہ اسلامی جماعت بھی باقی دونوں جماعتوں کی طرح حکومت کے تشدد کی شکار ہے اور وقت کا تقاضا یہ ہے کہ اختلافات اگر ٹھوس اختلافات بھی ہوں تو ان کو اس وقت مٹانے کی سعی کر کے تینوں جماعتوں کو ایک ہو جانا چاہیئے ۔
محتر م پیر مانکی شریف اور ان کے رفقا کو کئی تاریں اور خطوط لکھنے کے بعد جوشے حاصل ہوئی ہے یہ ہے کہ پیر مانکی اسلام لیگ اور اسلامی جماعت کو توڑ کر اسکی جگہ عوامی مسلم لیگ کا قیام چاہتے ہیں اور مولوی مودودی کی صدارت اور سہروردی صاحب کے سیکرٹری جنرل ہونے کی تجویز پر وہ فی الجملہ خاموش ہیں مجھے یقین نہیں کہ اس صورت میں بھی کہ یہ تینوں جماعتیں ایک دوسرے میں ختم ہو جائیں پاکستان مےں سیاسی حالت میں کوئی اہم انقلاب فوراً پید اہو گا۔ لیکن بہر نوع ہم تینوں شخصیتوں اور مسٹر شہید سہروردی اور مشرقی بنگال کی دوسری اہم شخصیتوں کے یکجا جمع ہو جانے سے پاکستان کے طول وعرض میں ایک ذہنی انقلاب ضرور پیدا ہو گا اور حکومت متاثر ہو گی کہ کیونکر اس مشترک ہیجان کا مقابلہ کیا جائے یا اگر عوامی مسلمانوں کی اس مشترک تحریک کا مقابلہ نہیں ہو سکتا۔ تو باہمی رضامندی کی کیا صورت نکالی جائے ضمناً ان تینوں جماعتوں کے مل جانے سے مسلم لیگی‘غیر مسلم لیگی اور مہاجرین کی مختلف انجمنوں کو جو ملک کے طول وعرض میں بکھری پڑی ہیں ترغیب ہو گی کہ وہ اپنا الحاق بھی عوامی مسلم لیگ سے کریں اس طرح پر بہت غالب ہے کہ اس ابتد کے بعد انتہا یہ ہو کہ ملک میں کوئی انجمن ایسی نہ رہے جس کا الحاق عوامی مسلم لیگ سے نہ ہو ا ور موجودہ مسلم لیگ کا میاب مقابلہ کرنے کے لئے عوامی مسلم لیگ کا بول بالا ہر جگہ ہو ا ور عوام الناس کی یہی جماعت واحد نمائندہ بن جائے الغرض جس نقطہ نظر سے اس تجویز کو دیکھا جائے اس میں عام مسلمانوں کی بھلائی ہے ا ور میں اس پر آمادہ ہوں کہ اگر یہ تجویز اس کانفرنس میں پاس ہو گئی اور مولوی مودودی اور پیرمانکی نے اس کو منظور کر لیا تو ا س کے سامنے مسلمانوں کے عام مفاد کی خاطر سر تسلیم خم کروں۔ یو ۔این ۔او کے طریق پر مسلمانوں کی مختلف انجمنوں کے اتحاد کی تجویز میں مجھے کچھ خرابیاں عملی نقطہ نظر سے معلوم دیتی ہیں کیونکہ اس صورت میں اگرچہ سیاسی اتحاد ضرور پیدا ہوسکتاہے مگر مختلف جماعتوں کی ہستیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ مولد ہو جاتی ہیں اور مسلمان ایک نظم ونسق میں پروئے نہیں جاتے ان کے مختلف لیڈر اپنی اپنی راہ پرلگے رہتے ہیں اور صرف انتخابات یا مشترک مفاد کے بارے میںا ن کا اتحاد” مجلس اسلام“ میں اگر ہوتا ہے جس میں ہر انجمن کی شمولیت اختیاری ہے جبری اور اجتباری یااظہاری نہیں ۔
مسلمانو! اس صورت میں کہ محترم صواتی کی یہ تجویز اس کانفرنس میں پاس ہو جائے یا دونوں متبادل تجویز یں پاس ہو جائیں تمہارے سامنے ایک اہم فرض ہے جو میں اس خطبے کے شروع میں تم پر واضح کر چکا ہوں مسلمان جب تک ایک بھائی چارہ نہیں بنتے وہ ازروئے قرآن کسی معنوں میں مومن نہیں بلکہ دائرہ ایمان اور حلقہ اسلام سے خارج ہیں تم سمجھ لو کہ قرآن حکیم کے اس حکم کے بعد ہم پر کیا بھاری ذمہ داری عائد ہے اور اگر ہمارا لگاﺅ کسی عنوان سے اس قرآن حکیم سے باقی ہے جس نے ہمیں ہندوستان پر 1145 برس حکومت کرنے کا سلیقہ دیا تھا تو ہمیں اس وقت کس قدر جدوجہد اس امر کی کرنی چاہیئے کہ مسلمانوں کی جماعتیں اس موقعہ پر متحد اور منظم بلکہ منضم ہو جائیں اس بنا پر اس کانفرنس میں ہر مسلمان کا فرض ہو جاتاہے کہ اس اتحاد کو جلد ازجلد قائم کرنے کے لئے اپنی طاقت کا آخری حربہ صرف کر دے یہ اسی طرح ہو سکتاہے کہ اس کانفرنس کے بعد ایک عام آواز مسلسل طور پر پاکستان کے کونے کونے سے اٹھے کہ سب جماعتیں ختم کر دی جائیں اور حکومت کی مسلم لیگ کے مقابلے میں صرف ایک جماعت یعنی ”عوام کی مسلم لیگ“ قائم ہو۔ انتخابات کا وقت چونکہ خطر ناک طور پر قریب آرہا ہے اور حکومت مغربی پنجاب کے منصوبے کو چونکہ پانچ ایڈوائزروں کے مقرر کر دینے کے بعد ابھی سے واضح ہو رہے ہیں پاکستان کی مرکزی حکومت کا سیفٹی آڑدنینس صاف اس امر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ رعیت کی آواز کو قطعی طور پر کچل دیا جائے گا۔ بلکہ کیا عجب ہے کہ حکومت کے بے پناہ وسائل کو مدنظر رکھ کر ایسے وسائل پیدا کر دئے جائیں۔ کہ ہرنشست پر موجودہ مسلم لیگ کا امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہو جائے اس لئے انتہائی طور پر ضروری ہے کہ آئندہ پندرہ دن کے اندر اندر اس کانفرنس میں اتفاق رائے سے منتخب ہوئی ہوئی ایک کمیٹی با قی جماعتوں یعنی عوامی مسلم لیگ صوبہ سرحد اور اسلامی جماعت کے کرتا دھرتا لوگوں سے ملاقات کر کے اپنا فیصلہ شائع کرے اور اگر یہ کمیٹی دونوں جماعتوں کے موجودہ سر داروں یعنی پیر مانکی شریف اور مولوی مودودی بوساطت مولانا عبدالجبار غازی سے ملکر اتحاد کی تجویز کے متعلق کامیاب ہو جاتی ہیں تو آئندہ ایک ماہ کے اندر اندر عوامی مسلم لیگ کی تنظیم مغربی پنجاب کے کونے کونے میں شروع ہو جائے تمام حلقہ جات میں جو الیکشن انکوائری کمیٹی نے مقرر کئے ہیں ”عوامی مسلم لیگ“ کے کارکن ابھی سے جائیں۔ اور ممبر وں کی بھرتی زور شور سے شروع کردیں اس مصالحت کمیٹی کے پانچ رکن بھی ابھی اس کانفرنس میں منتخب ہو جانے چاہئیں اور ان میں کوئی نام ایسا نہ ہو جس کا ذکر ا وپر ہوا۔ کمیٹی کے ممبر صاحب اثر اور مضبوط ارادے کے اشخاص ہونے چاہئیں اور چونکہ بھاگ دوڑ ضروری ہو گی اور نظام سے کام کرنے سے ہی عمدہ نتائج پیدا ہو سکتے ہیں اس لئے لازم ہے کہ ان صاحبان کے پاس کافی فرصت اور دولت ہو تاکہ اگلے پندرہ دن یعنی دسمبر کے پہلے ہفتہ تک یہ معاملہ طے ہوجائے۔
اس صورت میں کہ خدا نخواستہ ان تینوں جماعتوں کا اتحاد پید انہ ہو سکے مصالحت کمیٹی کو وسیع پیمانے پر اعلان کر دینا چاہئیے کہ فلاں معاملے کی وجہ سے یہ اتحاد نہیں ہو سکا اور اس میں فلاں جماعت یا شخص کا قصور ہے ایسی حالت میں سوائے اس کے چارہ نہیں کہ اسلام لیگ اپنی تنظیم قائم رکھے اور اپنے حلقہ اثر میں جہاں تک ممکن ہو ہندوستان کے پانچ کروڑ مسلمانوں کی حفاظت اور درمیانی صوبوں کے حصول کے متعلق اپنی جدوجہد کو تیز تر کر دے اور اس کے علاوہ آئندہ انتخابات میں اپنے امیدوار حتی الوسع ایسے کھڑے کرے جن کی کامیابی یقینی ہو۔
میں سمجھتا ہوں کہ مصالحت کمیٹی اسی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے کہ پانچوں اشخاص دھن کے پکے‘ صاحب اثر اور صاحب ثروت ہوں اور ان میں ایک سر بر آور وہ شخص ایسا ہو جو تینوں جماعتوں پر اپنا اثر ڈال سکے مسٹر حسین شہید سہروردی کے متعلق بھی معلوم ہوا ہے کہ وہ سیکرٹری جنرل کا عہدہ اسی صور ت میں قبول کریں گے کہ پیر مانکی اس نظام میں منسلک ہو جائے اور موجودہ مسلم لیگ سے بیزار ممبر بھی اس نظام کو قبول کریں۔
کانفرنس میں دیگر پیش کردہ تجاویز اور مقاصد پر تبصرہ کرنا بھی ممکن ہے کہ مفید نتائج برآمد کرے اور میں ان میں سے بعض کو اپنے نقطہ خیال سے واضح کرنا چاہتا ہوں۔ حکومت وقت نے ایک مدت سے مختلف ذرائع اور وسائل سے بے دینی کا ماحول پید اکر کے رعیت میں خدا اور رسول سے ایک دم بیگانگت پیدا کر دی ہے کوئی ادنیٰ علامت طول وعرض پاکستان میں اس قطع کی نظر نہیں آتی جس سے عام مسلمان پر واضح ہو کہ 15اگست 1947ء سے پاکستان میں اسلامی حکومت قائم ہے ۔ادنیٰ اشارہ اس شے کی طرف کہیں نہیں کہ مسلمان کو اسلام‘ خدا‘ رسول‘ دین‘ قرآن کے احکام کا پابند ہونا چاہئیے ہر شخص پر جو مسلمان ہے اب اسلام اور قرآن کی حد لگی ہے ہر فرد مرد اور عورت کا جائزہ لیا جا سکتاہے کہ آیا اس نے اسلام کے کسی بنیادی حکم کی علانیہ خلاف ورزی تو نہیں کی‘ بر خلاف اس کے انگریزی حکومت کے چلے جانے اور اسلامی حکومت کے آنے کے بعد مسلمان کی وہ ادنیٰ سی ضد بھی جو اس کو انگریز کے وقت مسلمان ہونے یا ہندو کے مقابلے میں مسلمان بنے رہنے کی تھی ختم ہو چکی ہے اور چونکہ سینما ‘بائیسکوپ‘ تماشے‘ رنگ رلیاں ‘شرانجوریاں‘ بے حیائیاں‘ بے حجابیاں جو انگریزوں کے وقت میں تھیں اسی طرح بدستور جاری ہیں بلکہ چونکہ ا وپر کے بڑے بڑے لوگ ان میں خود بے حجابانہ طور پر شامل ہوتے ہیں اور ان امور میں اسلام ا ور اس کے احکام کا ادنیٰ احترام قائم نہیں رہا اور نہ اس احترام کے قائم کرنے کے متعلق کوئی ادنیٰ حد موجودہ اسلامی حکومت کی طرف سے جو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی حکومت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے مقرر ہے اس لئے عام لوگ بداخلاقیوں میں انگریز کے وقت سے کئی گنازیادہ گرفتار ہو رہے ہیں۔ اور ان کو شہ مل گئی ہے کہ پاکستان کا مطلب یہی لا الہ الا اللہ تھا جو اب ہو رہا ہے۔ پاکستانی عورت اپنی بے حجابی اور خود نمائی میں اوپر کی عورتوں کو بھڑک دار لباس میں چلتا پھرتا اور مسکرانا لا الہ الا اللہ ہے۔ پاکستانی مرد ادنیٰ سے لے کر اعلیٰ تک جھوٹ‘ فریب ‘دغابازی‘ بدمعاملگی‘ رشوت خوری‘ کےنہ پروری وغیرہ وغیرہ پر بے دھڑک اس لئے چل رہا ہے کہ ادنیٰ سے لیکر اعلیٰ اشخاص تک سب اسی قماش کے ہیں قوم کی طاقت کی سب سے بڑی مضبوطی اس کے کیریکٹر اور اخلاق میں ہے اور اگر قوم کے افراد آزاد اسلامی سلطنت کے مالک ہو کر اس طرح مادر پدر آزاد ہو جائیں اور بدکردار یہ کے عمیق ترین گڑھے میں گر جائیں تو وہ سلطنت مادی اور جسمانی طور کس طرح مضبوط رہ سکتی ہے۔
 
دین اسلام سے برگشتگی

میرے نزدیک جس خطر ناک تیزی سے پاکستان کے باشندوں میں دین اسلام سے یہ برگشتگی بڑھ رہی ہے اس کے متعلق لازم ہے کہ دین اسلام کے علمبر دار ابھی سے اس کی تلافی میں لگ جائیں یہ طبقہ صرف علمائے دین کا ہو سکتا ہے۔
جو اس کام کو محض خدا کے واسطے کریں حکومت وقت چونکہ خود ایک بے دین حکومت ہے اور خدا اور رسول کے نام سے عار کرتی ہے اس لئے یہ توقع رکھنا کہ حکومت دینی عالموں کو اس بارے میں متعین کرے گی۔ یا ان کی مالی مدد کرے گی اب دو سال کے تجربہ کے بعد بیکار ہے۔ میں خود مولویوں اور علمائے دین کو جو اس بارے میں سچا احساس رکھتے ہیں مشورہ دونگا کہ خدا سے ڈر کر ہر شہراور علاقے میں کسی عنوان سے ایسے جتھے پید اکریں جو باہم مل کر پروگرام طے کریں اور نئے سرے سے عام مسلمان کو دین اسلام کے حکموں کے متعلق خبردار کریں اور ان کو خدا کی سزاﺅں سے آگاہ کریں۔ اور اگر عام مسلمان اعلیٰ طبقے کے مسلمانوں کے رویے کو دیکھ کر ان سے شہ پکڑتا ہے اور بدکاری اور فسق وفجور کی طرف جا رہا ہے تو قرآن اور اسلام کی سند پر حوصلہ اور جرات سے عوام کو آگاہ کریں کہ یہ لوگ اسلام کے بدکار لوگ ہیں ان کے پیچھے چلنا گناہ ہے۔ ان کی زندگی کے دن پورے ہونے والے ہیں مسلمانی تیرہ سوساٹھ(اب سواچودہ سو) برس سے دنیا میں قائم ہے اور اگر تم عام لوگ دین اسلام پر عمل کروگے تو دین اسلام کی حکومت قائم ہو کر رہے گی۔میں چاہتا ہوں کہ بڑے بڑے اور خدا ترس مولوی پاکستان کے طول وعرض میں اس معاملہ پر غور کر کے سیکرٹری اسلام لیگ فیروز پور روڈاچھرہ لاہور کو اطلاع دیں تا کہ ہم اس بارے میں ان کا مضبوط نظام قائم کر سکیں۔

کمیونزم کاخطرہ


اس بے دینی کا ایک شاخسانہ ملک میں کمیونزم کا سیلاب ہے جو نامحسوس طور پر اور آہستہ آہستہ ہر طرف سے امڈا آ رہا ہے دراصل علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے اس وقت تک جو طبقہ مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ شمار ہوتا ہے اس کا عام وطیرہ یہی رہا ہے کہ اس کو اسلام کی سختیوں مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰة، جہاد وغیرہ سے عام سبکدوشی بلکہ خاموش نفرت رہی ہے وہ اپنے اسلام کو صرف سرخ ٹوپی اور سیاہ پھندنے تک محدود رکھتے رہے ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان بلکہ ”محمڈن“ شمار کرتے رہے ہیں اسی طبقے سے مسلم لیگی لوگ نکلے اور سالہا سال تک منہ سے اسلام اسلام پکار کر مسلمان بنے رہے انگریزوں کے ہرفیشن کی اندھا دھند نقل کرنا ان کا شیوہ رہا اور جہاں ہندو انگریزوں کی یہی تعلیم حاصل کر کے حب الوطنی ، مذہبی تعصب، ہندو انہ روایات، ہندو انہ رہت، چہت ہندوانہ جذبات کے فلک الافلاک تک ایک ہزار سال سے غلام اور ہاتھ جوڑنے والی قوم ہو کر پہنچ گئے وہاں مسلمان ایک ہزار سال تک بادشاہی کرنے کے بعد پچیس تیس برس کے اندر اندر انگریزوں کی زبان، انگریزوں کی برائیوں بلکہ انگریزوں کی اسلام کے خلاف چالوں کے غلام ہو گئے اس غلامی کا نتیجہ خان بہادر ٹائپ کے اس مسلمان گروہ کی پیدائش ہیں جو سالہا سال تک انگریزوں کی غلامی کرتے کرتے اسلام کی جڑیں اکھاڑ تا رہا۔اسی خان بہادری نمونہ کے مسلمان غلامی کرتے کرتے رفتہ رفتہ سیاسی بن گئے اور 1906ءمیں جب کہ مسلم لیگ کی بنیاد ڈالی گئی ‘یہی مسلمان کانگریس کے مطالبات کے مقابلے میں اپنے اسلامی مطالبات انگریزی رنگ میں پیش کرنے کے لئے نکلے‘ الغرض اس طبقے میں جو مسلمانوں کا ایک نمایاں طبقہ تھا اور کوٹ‘ پتلون اور ہیٹ پہننے کی وجہ سے بڑا قابل عزت قرار دیا گیا خدا اور رسول سے بیگانگت کے آثار بڑی مدت سے ہیں اور چونکہ کمیونزم کی پہلی شرط یہ ہے کہ خدا اور مذہب سے انکار کر دیا جائے یہ کہنا کچھ بے جانہیں کہ رسمی طور پر روسی کمیونزم اگرچہ 1917ءمیں شروع ہوا اور کئی برس بعد دنیا کے دوسرے حصوں میں پھیلا لیکن ہندوستان میں یہ خان بہادری ٹائپ کا بوٹڈ‘ سوٹڈ‘ ہیٹ پہننے والا چھری کانٹے سے کھانے والا اور کموڈ پر بیٹھ کر کاغذ سے استنجا کرنے والا مسلمان اس وقت بھی کمیونسٹ تھا جبکہ دنیا میں کمیونزم کا نام ونشان بھی نہ تھا اور قوم نے چونکہ اس گروہ کو سردار تسلیم کر لیا اور انگریزوں سے تمام معاملے اسی گروہ کی وساطت سے ہوتے رہے اس لئے شدہ شدہ کمیونزم یعنی بے دینی اور اسلام سے بیگانگت کی طرف پہلا قدم دراصل انہی لوگوں کی وجہ سے قوم میں اٹھایا گیا آج اسی بے دینی ا ور بیگانگت کا نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے موجودہ ادبی اور اخباری لٹریچر میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک زیادہ تر مغربی اور یورپی رنگ غالب ہے پاکستان کے بہترین انگریز ی اردو اخبارت میں عام میلان تخیل غیر اسلامی بلکہ اکثر اوقات اسلام کی بنیادی تعلیم کے خلاف ہے اب اس مدت کے بعد صورت حال یہ بن گئی ہے کہ چند سالوں سے کئی اخبارات کی بنیاد پاکستان کے حصول کے دوران میں ڈالی گئی اور ان کو فروغ دیا گیا اب اسی بے دینی کا ایک شاخسانہ ترقی پسند مصنفین کا گروہ ہے جو ابھی ابھی جماعتی شکل میں سالہا سال سے ہے اس گروہ کی پرورش درپردہ پر حکومت کر رہی ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ جونامحسوس طور پرزہریلا اور چٹ پٹالٹر یچر یہ طائفہ اس سب سے بڑی اسلامی سلطنت کے اندر پھیلا رہا ہے دین اسلام کے تابوت پر آخری میخ بن کر رہے گا اگر دین اسلام کے علمبرداروں نے اس کو بروقت نہ روکا۔
اس بے دینی اور عام لامذہبیت کی وجہ سے موجودہ حکومت پاکستان میں یہ حیرت انگیز جرات ہو گئی ہے کہ نام نہاد دارالامان قادیان کے کامل طور پر خدائے قہاروجبار کے قہروغضب سے تہس نہس کے بعد قادیانیت کو نئے سرے سے فروغ پاکستان میں ہو پچھلے چالیس پچاس برس کے بلند بانگ اور اسلام برانداز دعووں کے بعد کہ قادیان کا مرزا غلام احمد خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے۔ غلام احمد نہیں بلکہ معاذ اللہ خود احمد ہے مسیح علیہ السلام نہیں بلکہ معاذ اللہ ان سے افضل ہے مہدی زمان ہے وغیرہ وقادیان کی کل کائنات کا برباد ہوجانا وہاں کے بنائے ہوئے منارہ مسیح‘ جنت البقیع‘ بہشتیمقبرہ اور نہ جانے اور کیا کیا خرافات پر عذاب الہٰی کا باوجود اس کے آنا کہ یہ قادیانی لوگ تمام عمر انگریزوں کے سچے وفادار رہے انہوں نے اسلام کی عسکری قوت اور جہاد کے مسئلے کو جو اسلام کی تمام سیاست اور مذہب کی جان تھا برباد کرنے اور اس طرح پر انگریزوں کو خوش رکھنے میں کوئی وقیقہ فروگذاشت نہیں کیا ہاں اس طرح پر عذاب الہٰی کا قادیان پر آنا اسی نبی کے خلیفہ کا قادیان کے دارالامان سے بیک بینی دوگوش نہایت بے حیائی سے بھاگ آنا کم ازکم پنجاب کے مسلمانوں کے لئے خدا کے زندہ ہونے کی ایک ناقابل انکار شہادت تھی اور میرا یقین ہے کہ اگر مسلمان سچ مچ مردہ اور خدائے لایزال کے صحیح معنوں میں منکر نہ ہوتے تو یہی ایک واقعہ جوان کے پڑوس میں ہوا تھا دین اسلام کو ہر مسلمان کے سینے میں پھر جگمگا دیتا لیکن مجھے اب اس بوڑھی عمر میںیقین ہوا ہے کہ قومیں جب مراکرتی ہیں تو ان کے حسیات اس حد تک مردہ ہو جاتے ہیں کہ وہ چاند اور سورج جیسی روشن دلیلوں کو نہیں دیکھ سکتیں ا ن کے دماع ماﺅف اور ذہن مفلوج ہو جاتے ہیں اور آسمان سے بھیجی ہوئی بڑی سے بڑی نشانیاں بھی ان کے اعضا کو تندرست نہیں کر سکتیں۔
بہر نوع یہ واقعہ آج ہماری ان آنکھوں کے سامنے نہایت امن وامان سے ہو رہا ہے کہ اس سرور کائنات اور ختم رسول علیہ الصلوٰة والسلام کا مذاق اڑانے والے گروہ کو دس ہزار ایکڑ زمین پانچ پیسہ فی مرلہ پر بیع کر دی گئی ہے۔ وہاں وہ اپنا عظیم الشان مرکز بجلی کی رفتار سے تیار کر رہے ہیں ریلوے اسٹیشن‘ ڈاکخانہ‘ تار گھر‘ ٹیلی فون‘صدہا مکان سڑکیں مدر سے وغیرہ بن چکے یا بن رہے ہیں پاکستان کی موجودہ حکومت کے قائم ہونے کے بعد قادیانی مرزائیوں کی سرکاری محکموں میں تعداد بلا مبالغہ دس گنا زیادہ بڑھ گئی ہے حتیٰ کہ اب کچھ عرصہ کے بعد پاکستان کی جابر اور مجاہدانہ افواج کا کمانڈران چیف بھی قادیانی ہو گا اور کیا عجب ہے کہ جب خدانخواستہ کوئی دشمن پاکستان پر چڑھ آئے تو یہ کمانڈران چیف بن لڑے یہ کہہ کر ہتھیارڈال دے کہ”حضرت مسیح موعود علیہ السلام“ نے فرمایا تھا کہ”میری امت میں جہاد حرام ہے“۔ مجھے دیانتدارانہ طور پر ڈر ہے کہ” قادیان کے ا س جھوٹے اورمفتری علی اللہ کی کا فر امت کو خدا کی غضب ناک بربادی کے بعد پھر آباد کرنے کے گناہ عظیم میں وہی عذاب الہٰی جو قادیان پر آیا تھا کہیں حکومت پاکستان بلکہ خاکم بدسن سلطنت خداداد پاکستان پر نہ آئے اور ان کو ایک لمحے کے اندر تہس نہس نہ کردے میرے یقین میں خدائے عظیم وہ قہار اور جبار خدا ہے کہ اس نے علی گڑھ اور قادیان دونوں کو تباہ وبرباد اس لئے کیاکہ دونوں کے بانیوں یعنی سید احمد اور غلام احمد نے دین اسلام کے بنیادی مسئلہ جہاد کو انگریزوں کو خوش کرنے کی خاطر منسوخ کرنے کی سعی کی تھی اور انگریزوں سے وفاداری کا وہ جذبہ پیدا کیاجس کی وجہ سے آج ہندوستان کے دس کروڑ مسلمانوں کے اندر دین اسلام کا وہ ولولہ‘ وہ ہیجان‘ وہ احساس‘ جو احمد کے نام کی ان دونوں شخصیتوں کے نمودار ہونے سے پہلے حضرت سید احمد بریلوی ؒاور حضرت اسماعیل شہید ؒکے زمانے میں جہاد بالسیف ا ور 57 18ءکے انقلاب کی صورت میں ہر مسلمان کے دل میں جوش مار رہا تھا قطعاً ماند پڑ گیا اور دین اسلام کا تخیل صرف ایک رسمی ا ور شخصی شے بن کر رہ گیا۔

مستقبل میں پاکستان کو مہاجرین اور انصار کے تفرقہ کا خطرہ ہے!

مسلمانو! بے دینی‘ کمیونزم اور قادیانیت کے خطرہ عظیم کے علاوہ ایک دوسرا عظیم الشان خطرہ جو اس وقت پاکستان کے مسلمانوں کو لاحق ہے مہاجر اور انصار کے تفرقہ کا خطرہ ہے اور اگر پاکستان کو صحیح معنوں میں مضبوط اور ناقابل شکست بنانا ہے تو مسلمانو! تم پر لازم ہے کہ اس کا صحیح حل ابھی سے تلاش کیا جائے اس سلسلے میں جو بات ابتدائی طور پر سوچنے والی یہ ہے کہ 75لاکھ کے قریب انسان مرد عورت بچے بوڑھے ایک ایسے انتشار اور پریشانی‘ قتل اور بربادی‘ خوف اور حزن‘ بیکسی اور نامرادی کی حالت میں اپنے عزیز گھروں کو چھوڑ کر آئے جس کی معمولی سی سمثال بھی قطعاً کسی اسلامی یا غیر اسلامی تاریخ میں موجود نہیں۔ یہ سب حالات اچانک واقع ہوئے جن کا مسلمانوں کو سان گمان نہ تھا اور نہ اس کے متعلق انگریزی یا پاکستانی حکومت کی طرف سے ادنیٰ تنبیہ ہوئی یا اس کو روکنے کے لئے ادنیٰ تیاری کی گئی ایسی جانکاہ حالت میں مغربی پنجاب کے مسلمانوں اور موجودہ پاکستانی حکومت کا نہ صرف اسلامی بلکہ اخلاقی فرض تھا کہ وہ مسلمانوں کی اس تعداد کثیر کو اپنی چھاتی سے جس طرح ممکن ہوتا لگاتی اور کوئی ممکن دقیقہ ان کے زہر گداز زخموں پر مرہم رکھنے میں فردگذاشت نہ کرتی‘ دین اسلام کے انصار نے ہجرت مکہ کے موقع پر جو کچھ مہاجرین سے کیا اس کی داستان اب بھی تاریخ میں سنہری حرفوں سے لکھی ہے انہوں نے ہر مہاجر کے ساتھ بھائی چارہ کا سلوک یہاں تک کیا کہ اسباب اور جائیداد اور سامان خوردو نوش کو نصفانصف کرنے کے علاوہ اپنی بیویاں تک نصفا نصف کردیں یہ سلوک بظاہر ایک افسانہ معلوم ہوتا ہے مگر خوف خدا ا ور اتقا کے اس زمانہ میں جبکہ سرورکائنات علیہ الصلوٰة والسلام کی بے مثال شخصیت بذات خود مسلمان میں موجود تھی مسلمانوں کے دلوں پر خدائے لم یزل کی ہستی کا اس حد تک مسلط ہو جانا قدرتی امر تھا لیکن دنیاکے اس سب سے بڑے پیغمبرﷺ کے بعد بھی مسلمانوں نے تیرہ سو برس تک اخوت اسلامی کا جوبے پناہ جذبہ اپنے بھائیوں کی مصیبت کے اوقات میں ظاہرکیا کچھ کم قابل رشک نہیں اسلامی اخوت ہمیشہ سے تاریخ میں ایک قابل تقلید شے رہی ہے اور دنیا کی ہر قوم اسکی مثالیں دے دے کر اپنی قوم کو شرماتی اور اکساتی رہی ہے پاکستان میں مشکل یہ آن پڑی ہے کہ مسلمانوں کی پچھلے ساٹھ ستر برس کی غلط رہنمائی ا ور نفس پرست اور خود غرض سطحی طور پر مسلمانوں کے نام لیوا اور نمائشی مسلمانوں کی لیڈر شپ نے جس کا خاکہ میں نے اوپر کھینچا ہے مسلمانوں کے اسلام سے وہ تمام چیزیں سلب کر دی ہیں جو کسی زمانے میں مسلمانوں کو ممتاز کرتی تھیں اور بے دینی اور اسلام فروشی کا ماحول جو پچھلے ساٹھ ستر برس میں مسلمانوں کے غلط رہنماﺅں نے پیدا کیا اس کا لازمی نتیجہ یہی ہونا چاہئیے تھا ۔کہ مسلمانوں میں اخوت‘ انسانی ہمدردی ‘عدل وانصاف اور باہمی رواداری کے وہ تمام جذبات فنا ہو جاتے جو دین اسلام کی تعلیم نے ہر مسلمان کے رگ وریشہ میں موجزن کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ان 75 لاکھ مہاجرین سے درندوں اور بھیڑیوں کا سلوک کیا گیا ہر مسلمان انصار نے بجائے اس کے وہ ہر مہاجر کو گلے لگاتا اپنا دشمن ‘ناخوش آئندہ اور ناخواندہ مہمان تصور کیا ۔پاکستان کی حکومت نے الگ درندوں اور بھیڑیوں کا سلوک کیا۔ہزاردو ہزار انسانوں نے جن کے منہ میں خدائے لایزال کا کلمہ اور محمد عربی کا نام تھا۔ جن کی قربانی ہی کی وجہ سے پاکستان کا وجود اس دنیا میں آیا تھا سڑکوں اور نالیوں پر بھوک ننگ ا ور سردی کی وجہ سے بلک بلک کر جان دے دی ایک معتبر اخبار کی خبر تھی کہ لاہور کے صرف ایک کیمپ میں ایک ہفتہ کے اندر اندر آٹھ ہزار مہاجرین کی لاشیں زمین پر ڈھیر ہوئیں اور پاکستان فاقستان بنکر سچ مچ مسلمان کا قبرستان بن گیا۔ اس قیامت کے زمانے کے بعد ان نام نہاد انصاروں نے مہاجرین سے وہ زیادتیاں اور حکومت پاکستان نے ان سے وہ بے مثال بدسلوکیاں کیں کہ تاریخ ان کی داستان لکھتے لکھتے پسینہ پسینہ ہو جاتی ہے ایسی حالت میں مسلمانو! بتاﺅ کہ تم کس طرح اپنے آپ کو انصار کا درجہ دے سکتے ہو یا ایک لمحے کے لئے کہہ سکتے ہو کہ ہم ان مہاجرین سے جو اس طرح بے نوا اور بے یار قہر خدا میں مبتلا ہو کر مہمان آئے ہیں افضل ہیں ؟نہیں !کیا اس واقعہ کے بعد کہ تم اور تمہارے پاکستانی حاکموں حتیٰ کہ ڈپٹی کمشنر وں تک نے ان بیچاری‘ بیکس مظلوم اور ستم رسید ہ عورتوں اور معصوم لڑکیوں کو جو سکھوں اور ہندوﺅں کے چنگل سے آزاد ہو کر آئیں پھر دوسری بار عصمت دری کی اور ان لڑکیوں کو بیچتے رہے کیا ان واقعات کے بعد تمہیں انصارتو کیا انسان ہونے کا خطاب بھی کوئی دے سکتاہے ؟ایسی حالت میں یہ کہنا کہ پاکستان میں انصار کا کوئی تفضیلی فرقہ ان معنوں میں ہے جن معنوں میں کہ ہجرت مکہ کے وقت مدینہ میں تھا حقیقت کا منہ چڑانا ہے۔ الغرض مغربی پاکستان کے مسلمانوں کا اس کارگذاری کے بعد جو انہوں نے پچھلے دوسال میں کی کسی طرح اپنے لئے کوئی برگزیدہ پوزیشن اختیار کرنا بے حیائی اور دیدہ دلیری کی حد ہے۔اور ماسوا اس کے کہ وہ اس بدکرداری کی جو انہوں نے مہاجرین سے کی خدائے قہار کی طرف سے سزا کے منتظر رہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کر کے جلد سے جلد اپنے خدا کو راضی کرنے کے لئے آٹھ آٹھ آنسو بہائیں ۔ اور کوئی پوزیشن ہو نہیں سکتی ۔
ادھر مہاجرین کے متعلق یہ گمان وغرور کرنا کہ وہ اسلامی معنوں میں مہاجر ہیں اور پاکستان کی تمام ہستی کا دارومدار صرف انہی کی وجہ سے ہے اتنا ہی غلط ہے دراصل مکہ کی مدینہ کی طرف ہجرت کی غرض وغایت ہی الگ تھی اور نبی پاک کے وقت کے مہاجرین کا یا دین اسلام کے کسی وقت کے مہاجرین کا نصب العین ہی ہمیشہ سے یہ ہے کہ وہ اپنے وطن کو اس مستقل غرض سے خیر باد کہے کہ وہاں جا کر تلوار سے جہاد کی تیاری کرے اور پھر اس وطن پر حملہ کرکے دشمنوں سے پاک کرے اس بناءپر اور چونکہ حکومت پاکستان نے اس دو سال کے اندر اندر مہاجرین کے تمام جنگی اور انتقامی جذبات کو کچل کر ان کو محض بیکس اور بے بس کر دیا ہے ہجرت کے اس اسلامی معیار کو پیش نظر کر 75لاکھ مشرقی پنجاب کے آئے ہوئے مسلمان کسی معنوں میں مہاجر ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مرتبہ جو ان کو دیا جا سکتا ہے وہ یہ ہو سکتاہے کہ وہ مصیبت زدہ مسلمان ہیں جن کی ہر طریقہ سے امداد ضروری ہے مہاجر اور انصار کے بلند القاب اور قرآنی خطابات انصافاً ان دونوں گروہوں کو نہیں دیئے جا سکتے ایسی حالت میں آپ لوگوںکا دو مستقل گروہوں میں بٹ کر پاکستان کو اپنی باہمی آویز شوں سے کمزور کر دینا قطعاً نا درست ہے۔
اس وقت جو پوزیشن حکومت پاکستان کی اس بارے میں ہونی چاہئیے یہ ہے کہ جلد سے جلد اور مزید وقت ضائع کئے بغیر مہاجر کو جس قدر اسکی جائیداد مشرقی پنجاب میں تباہ ہوئی اس کا صحیح اندازہ لگا کر ٹھیک اسی قیمت کی جائیداد مغربی پنجاب میں یا اور جگہ دے کر مہاجر کو مہاجر کی پوزیشن سے ہٹا کر معمولی مسلمان کی پوزیشن دے دینی چاہیے اگر حکومت پاکستان اس میں عذر کرتی ہے اور آئیں بائیں شائیں کر کے یہ بتلانا چاہتی ہے کہ صرف 6 ایکڑ زمین ایک خاندان کو مل سکتی ہے اور اس سے زیادہ زمین موجود نہیں تو یہ صریح بددیانتی اور بدنیتی ہے کیونکہ ہندو حکومت نے دعوے کیا ہے کہ ہندوﺅں کی جائیدادیں جو مغربی پنجاب اور جگہ چھوڑ آئے ہیں دس گناہ زیادہ ا ن جائیدادوں سے ہیں جو مسلمانوں نے ہندوستان میں چھوڑیں حکومت نے اس بیان کی حتما ًکوئی تردید نہیں کی اس لئے یہ بیان فی الجملہ درست ہے اور حکومت کے پاس پوری گنجائش ہے کہ وہ ایک ایک مہاجر خاندان کو پورا معاوضہ دے کر قطعی طور پر مطمئن کرے اور اس کے بعد اس کی کوئی پوزیشن کسی معنوں میں مہاجر کی نہ رہے جب مہاجر کی پوزیشن ختم ہو جائے گی تو پاکستان میں کوئی شخص یہ جرات نہ کر سکے گا کہ وہ ان کے بالمقابل انصار کا کوئی گروہ تیار کرے اور اس طرح مسلمانوں کے دونئے ٹکڑے کر کے اور ان کو آپس میں ٹکرا کر اپنی گدیوں کو مضبوط کرتا رہے۔ اسلام ایک جمہوری اور مساویانہ نظام چودہ سو تئیس برس سے ہے اس نظام میں ممکن ہے کہ بعض حالات کے ماتحت رکاوٹیں پیدا ہوئی ہوں اور یہ نظام صحیح طور پر برقرار نہ رہ سکا ہو اس میں ممکن ہے کچھ مدت کے لئے غلامی کے باعث فتور پیدا ہوا ہو۔
لیکن دین اسلام کا قرآن ایک غیر متبدل اور ناقابل بدل شے تھے اور چند برسوں کا غلط پروپےگنڈہ اسکی تعلیم کو ذہنوں سے نکال نہیں سکتا اس بنا پر پاکستان کی حکومت کو یاد رکھنا چاہئے کہ اگر آج اوپر کے چند موٹے موٹے آدمیوں کی کسی طرح چڑھ بنی ہے۔ اور جمہور کی آواز اس ظلم کے نیچے دب چکی ہے تو یہ نہ سمجھنا چاہئیے کہ یہ آواز دبی رہے گی اور ہم آسانی سے مسلمانوں کو نئے حالات کے مطابق بنا کر ان کی اندرونی اور اصلی آواز کو ہمیشہ کے لئے کچل دیں گے۔اسلام کی چٹان وہ مضبوط چٹان ہے کہ تاریخ عالم میں صدھا جابرانہ قوانین‘ جابر لوگوں نے نافذ کئے صدھا دفعہ مسلمان اس طوفان کے سامنے دبتے نظر آئے۔
ترکی جیسی دنیا د ار سلطنت خلافت کو مسترد کر دینے کے بعد پورے جتن کرتی رہی ہے کہ کسی طرح مسلمان مذہب کو چھوڑ دیں۔ اور سلطنت دنیاوی بن جائے نماز تک کو عربی زبان سے ہٹا کر ترکی زبان میں کیا۔ مسجدوں اور خانقاہوں سے مولویوں کے جھنڈ کے جھنڈ غائب کر کے مسلمان کو دنیاوی اور مجبور بنانے کی سعی کی گئی۔ لیکن اسلام دنیا میں وہ عجیب وغریب مذہب ہے کہ با لآخر قرآن ہی کی جیت ہوئی۔ اور ترکی جیسی دنیا دار سلطنت اب پھر مذہب اسلام کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اس بناءپر میں کہتا ہوں کہ پاکستانی حکومت کا یہ ا دعا کہ ہم اپنے ریڈیو پریس کے پراپیگنڈے سے مسلمانوں کو اپنی گون کا بنا لیں گے۔ مجذوب کی بڑ ہے اس سے پہلے کئی لوگوں نے اس راستے میں منہ کی کھائی اب بھی انشاءاللہ جو شخص اسلام کے اصولوں میں تبدیلی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ اور قرآن کی تفسیر کو اپنی مرضی کے مطابق بنا کر من بھاتا اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے۔ وہ یقیناً منہ کی کھائے گا۔ اور اسلام کا نظام بدیر یا بزود اپنی اصلی جگہ پر آکر رہے گا۔
پس مسلمانو! میں کہوں گا کہ جلدازجلد یعنی آئندہ دو سال کے اندر اندر ہر مہاجر کو اس کا پوراپورا نقصان مل جائے ایک ایک پیسہ کی جس کا نقصان اس کو 1947ءیا اسکے بعد کے واقعات سے ہوا تلافی پورے طور پر ہو جانی چاہئیے اور بعینہ اس وقت کہ اس کے نقصان کی پوری تلافی ہو جائے کسی مہاجر کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے آپ کو مہاجر کے لفظ سے یا د کرے وہ یاد رکھے کہ اس نے دین اسلام کے معنوں ہرگز کوئی ہجرت نہیں کی کوئی ادنیٰ فضلیت کا کام اس نے ہرگز نہیں کیا کوئی تلوار کی لڑائی اس نے ہندو اور سکھ کے ساتھ قابل ذکر طور پر نہیں لڑی بلکہ جہاں تک اسلام کا سخت ترین معیار مسلمان اور مومن کے متعلق قرآن حکیم میں موجود ہے۔ اور جس سخت معیار کے باعث مسلمان چشم زدن میں روئے زمین کے بادشاہ بن گئے تھے اس نے ہرگز پورا نہیں کیا مہاجر کو چاہئیے تھا کہ مشرقی پنجاب میں وہ بزدل اور بھگوڑ ے ہندو کے بالمقابل ڈٹ جاتا خون کی ندیاں دونوں طرف بہتیں اور وہ اپنی جگہ نہ چھوڑتا ایک ایک مسلمان دس دس کا فروں کو قتل کرتا اور اپنی تیرہ سو برس کی روایا ت کو سامنے رکھ کر کسی سے ہٹیانہ ہوتا اس صورت میں پاکستان کی حد ود کلکتہ اور مدراس تک وسیع ہو جاتیں اور وہ اس وقت درندہ صفت ہندو کے تمام ملک پر قابض ہوتا۔ جہاد کا میدان تو 15اگست 1947ءسے بہت پہلے گرم ہو چکا تھا۔ اگر مسلمان کو قرآن اور اسلام پر ادنیٰ ایمان ہوتا تو وہ مسلم لیگ سے قطع نظر خود اپنی حفاظت کا سامان مہینوں بلکہ برسوں پہلے کرتا۔ اگر اس کی آنکھ اندھی نہ ہوتی تو مسلم لیگ کا یہ دعویٰ کہ ہم تم کو پاکستان بغیر ایک قطرہ خون بہائے لیکر دیں گے مجذوب کی بڑسمجھتا ۔مسلمان چودہ سو تئیس برس سے ایک جنگی قوم تھی اور قرآن اور اسلام کی تعلیم حاصل کر رہی تھی۔
مسلم لیگ سے تو اس کا گٹھ جوڑ صرف چند برس پہلے ہوا تھا۔ ایسی حالت میں اس کو اپنی چودہ سو برس کی تعلیم پر غور کرنا چاہئیے تھا نہ یہ کہ مسلم لیگ کے بھروسوں میں آکر وہ کئی سوبرس کی تعلیم کو فراموش کر دیتا الغرض اب اگر مہاجراس شے کو جو اس نے پنجاب میں کی ہے اسلامی معنوں میں ہجرت سمجھتا ہے تو وہ سخت غلط فہمی میں مبتلا ہے ستر ہزار عورتوں کو دشمن انسانیت اور دنیا کی سب سے بڑی غیر انسانی قوم کے سپرد کر کے بھاگ آنا کوئی ہجرت نہیں۔ ہجرت کے متعلق قرآن حکیم میں ہے کہ اس کے کرنے والے اور پھر اس کے بعد خدا کی راہ میں جہاد کر کے اپنے کھوئے ہوئے گھروں کو حاصل کرنے والے سچے مومن اور اولئک ھم المومنون حقا کے مصداق ہیں اور ان کے لئے یقینی جنت ہے۔ ہجرت کی یہ شرائط طے نہیں ہوئیں ۔تو مہاجر کے ثواب کے امیدوار ہونا عبث ہے قرآن حکیم میں واضح الفاظ میں ہے کہ جس مسلمان نے میدان جنگ میں پیٹھ پھیری اس کے واسطے یقینی طور پر جہنم ہے پس قرآن کے ان صاف فیصلوں کے ہوتے ہوئے۔ مہاجر اور انصار کے لفظ پاکستان میں بے معنی ہیں اور یہ دین اسلام کا تمسخر اڑانا ہے۔
اسی مضبوطی سے مسلمانو! میں کہتا ہوں کہ حکومت پاکستان انصار سے سب زمینیں اور جائیدادیں فوراً اور لحاظ کئے بغیر چھین لے اور ایک حبہ بھر شے کسی کے پاس نہ رہے۔ جس انصار نے اگست کے انقلاب کے بعد منقولہ مال یا جائیداد میں بھی لوٹ مچائی ہے اور وہ تمام کروڑوں کا مال قطعی طور پر ضائع ہو گیا ہے وہ سب مال حبہ حبہ واپس لے اور اگر برباد ہو گیا ہے تو اس کا تاوا ن لے اگر حکومت پاکستان کو فی الحقیقت مضبوط بننا ہے اور اپنی گدیاں محکم بنانی ہیں۔ تو صرف اس احتساب سے جو میں نے بیان کیا ہے بڑی دیر تک مضبوط ہو سکتی ہے ورنہ اگر یہی ہڑبونگ قائم رہی تو مہاجر اور انصار کا مسئلہ ہی پاکستان میں اس قدر فتنہ انگیز ہو سکتاہے کہ برسوں اور صدیوں میں جا کر کہیں ختم نہیں ہو گا اور نت نئے فساد پید کرے گا۔
الغرض مسلمانو! اگلے دو سال یعنی اگست 1951ءتک مہاجرین اور انصار کے تمام تفرقے کو مٹ جانا چاہئیے سب مہاجروں کو پورا معاوضہ پائی پائی تک اور اپنی تقسیم شدہ جائیدادوں پر پورے حقوق ملکیت چوکی اور چارپائی تک حکومت کی طرف سے کسی احسان کے ظاہر کئے بغیر مل جانے چاہئیں۔ یاد رکھو ہندوﺅں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پر مہاجرین کا حق شیر مادر کا حق ہے حکومت پاکستان کا ادنےٰ حق بلکہ قانونی اور اخلاقی نقطہ نظر سے ا ن جائیدادوں پر ہرگز نہیں۔ اور جو حکومت کسی داﺅ پیچ سے اس کو اپنے باپ کی جائیداد سمجھتی ہے۔ وہ ظالم اور صریح طور پر بددیانت حکومت ہے۔ دنیاکے کسی قانون کی کوئی کھینچ تان ان جائیدادوں کو جو پبلک کی ہیں اپنی ملکیت قرار نہیں دے سکتی۔ اور جب قرآن حکیم میں صاف اور غیر مشروط حکم ہے۔ کہ اے مسلمانو! کافروں کو وہاں سے نکال دو جہاں سے انہوں نے تمہیں نکالا اور حکومت پاکستان مسلمانوں کو اپنے گھر واپس لینے میں بھی مہاجروں کی مدد نہیں کرتی تو میرے چھوٹے سے دماغ میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ وہ کس شرم وحیا سے ان جائندادوں پر قبضہ جمائے بےٹھی ہے جو ہندوﺅں کی ہیں اور جن کے با لمقابل کروڑوں روپیہ کی مسلمانوں کو جائیدادیں ہندو کے قبضہ میں ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں قرار داد مقاصد کے پاس ہوجانے کے بعد مہاجرین کا حق ہو جاتا ہے کہ وہ سب کے سب کسی ایک نظام کے ماتحت متحد اور متفق ہو کرحکومت پاکستان سے ایک موثر اور عظیم الشان مطالبہ کریں کہ یہ سب جائیدادیں جمہور اسلام کی ملکیت ہیں پاکستان کی حکومت کا ان پر ادنےٰ حق نہیں اگر یہ مطالبہ منظور نہ ہو تو قرآن حکیم کو سامنے رکھ کر اور قرار داد مقاصد کی خود عائد کر دہ پابندی کو بنا قرار دے کر بین الاقوامی عدالت میں یہ مقدمہ دائر کر دیا جائے کہ ان جائیدادوں کو حکومت پاکستان کے پنجے سے رہا کیا جائے اسلام لیگ مہاجرین کو اس بارے میں ہر ممکن مدد دے گی۔
مسلمانو! بعینہ جس استبداد اور بے اصولی سے حکومت پاکستان نے پبلک کی ان ایک سو پچاس کروڑ کی ذاتی جائیدادوں پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ اسی طرح اب مسلم لیگ نے مسلمانوں کی آنکھوں میں دھول ڈال کر اور لامذہب ہندو کی تقلید میں بندرکی طرح نقل کر کے تیرہ سو اڑسٹھ سال کے بعد اسلام کے غیر فانی نظام کے اندر ایک انوکھا اور سب سے نرالا سٹنٹ تیار کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ زمینداروں کی زمینوں اور جائیدادوں پر ہاتھ ڈال کر ان پر قبضہ کیا جائے اس مطلب کو حاصل کرنے کے لئے سب سے پہلے عام مسلمان کے منہ میں پے درپے ڈالا ہے۔ کہ یہ زمیندار غریبوں پر ظلم کرنے والے ہیں ۔انہوں نے غریب کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ لیا ہے یہ یہ ہیں‘ یہ وہ ہیں حالانکہ ابھی چار برس نہیں گذرے کہ انہی زمینداروں کو اپنے ساتھ گانٹھ کر مسلم لیگ والوں نے یہ تمام اقتدار حاصل کیا تھا زمینداروں تاجروں بلکہ رئیس التجاروں اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کا طبقہ دین اسلام میںچودہ سو برس سے برابر رہا ہے خود حضرت عثمانؓ اور اکثر صحابہ کرام بڑے ثروت کے مالک تھے اور خود رسول خدا صلعم اگر امیر الامرانہیں تو امیر ضرور تھے۔ دین اسلام نے آج تک اس طویل مدت میں اور ہر مسلمان کو پوری ابہت اور شکوت مال کے باوجودزکوٰة کے سوا مسلمان کو اپنی کمائی ہوئی جائیداد پر کسی طرح کی حد نہیں لگائی اور زکوٰة کا نظام وہ بے پناہ طور پر اشتمالی اور اشترا کی نظام ہے کہ اس کے سامنے یورپ کے تمام لینن اور مارکس طفل مکتب سے زیادہ وقت نہیں رکھتے۔
مسلمانو سنو! یورپ کے تمام ٹیکسوں کا انحصار آمدنی پر ہے لیکن اسلام نے یورپ کی تمام اقتصادی فہم وفراست کی پرکاہ پروانہ کر کے اسلامی ٹیکس کا حصہ آمدنی پر نہیں بلکہ بچت پر رکھا ہے جس کے معنی یہ ہیں کہ دنیا کا کوئی نظام ماسوائے اسلام کے نظام کے ایسا نہیں جو بچت یعنی سرمایہ داری کے پاﺅں پر کلہاڑی مارے اور ساتھ ہی اس سرمایہ دار کو پورے حقوق ملکیت بھی عطا ہوں میں نے ایک الگ رسالے میں جو اسلام لیگ کی طرف سے نکل رہا ہے ثابت کیا ہے کہ یہ نظام اس قدر بے رحم اور مساویانہ ہے کہ چالیس روپیہ کی بچت پر ایک روپیہ سالانہ زکوٰة کا ٹیکس بار بار لگنے سے 90 برس کی عمر میں اس شخص کے پاس اپنے کفن کی چادر کے سوا کچھ باقی نہیں رہتا اور اس شخص کو چاہئیے کہ اس عمر کے بعد وہ نہ جئے یا بالکل قبر میں پاﺅں لٹکا کر کود پڑے اور بھوکا رہ کر جان دے دے پس جب اسلام کے اندر ایسا سخت ترین نظام قائم ہے تو کسی حکومت کا جو دین اسلام کی ابجد سے ناواقف ہے۔ اسلامی سرمایہ داری پر کمیونزم کی تقلید میں حملہ کرنا سخت نااسلام شناسی اور دین اسلام کی جڑوں پرکلہاڑی مارنا ہے۔ مجھے بتاﺅ کہ جب زمینیں بڑے بڑے زمینداروں سے نکل کر چھوٹے چھوٹے چھ چھ ایکڑ والے مزار وں میں بٹ گئیں اور ان کے خون کا آخری قطرہ نچوڑنے کے لئے پٹواری اور نمبر دار سے لے کر تحصیلداروں اور ڈپٹی کمشنروں تک نے پاکستانی ظلم کئے تو انصاف سے بتاﺅ کہ زکوٰة جو اسلام کے پانچ رکنوں میں سے ایک بڑا رکن ہے کہاں رہے گی۔ کوئی شخص صاحب نصاب نہ رہ سکے گا زکوٰة سے درگذر کر کے پھر سو چو کہ اسلام کی وراثت کاقانون کہا ں رہے گا وراثت نہ ہونے اور تمام زمینوں کے حکومت کی جائیدادبن جانے کے باعث باپ کا بیٹے اور بیٹیوں سے کیا رشتہ رہے گا۔ خاوند کا بیوی سے کیا تعلق رہے گا اور اگر کہیں حکومت کی یہ تجویز ابتدائی ہے اور آہستہ آہستہ حکومت پاکستان نے مسلمانوں کی تمام ذاتی جائیدادوں کو قومی جائیدادیں بنا لیا اور یہ اوپر کے چند کھڑ پنیچ کروڑ ہاگنا زیادہ بڑے سرمایہ دار بن بیٹھے اور سب امیر اور غریب کو ایک سطح پر لاکر رکھ دیا تو رحم یعنی ماں کے پیٹ کے تمام رشتے منقطع ہو جائیں گے اور جیسا کہ اب روس میں ہے کوئی بیٹا اپنے باپ کو پہنچان نہ سکے گا۔ عورت ایک مشترک جائیداد ہو گی‘ جس سے چاہا اس نے نطفہ لے لیا اور چل دی۔مسلمانو! اس نظام کو صرف دل سے دھتکاردو کیونکہ اس خانے کا پتلا سراثابت ہوئی۔ اس کے اندر تمہاری دینی‘ دنیاوی‘ معاشرتی‘ اخلاقی اور ذہنی موت کا پورا سامان ہے۔
اسلام کے یہ بڑے بڑے چوہدری‘ بڑے بڑے سبز باغ اس سکیم کے ماتحت دکھلا رہے ہیں جن سے مقصد یہ ہے کہ عوامی مسلمان اس کو خود اپنی چاہت سے قبول کر لیں اور اسی مطلب کے لئے بڑے بڑے ذہین اور ہوشمند اشخاص کو ملکی خوشحالی کی افیون پلا کر اس کو اس تجویز کا موید بنایا جا رہا ہے۔ کہیں یہ کہا جا رہا ہے۔ کہ زمینوں کے اس طرح حکومت کی جائیداد بن جانے سے صنعتی ترقی ہو گی۔ زمینوں کی پیداوار کئی گنازیادہ ہو جائے گی۔کو اپرٹیو سسٹم پر زمینوں کی زراعت ہو گی‘ بیلوں اور بھینسوں کی جگہ ولایت سے منگوائے ہوئے ٹریکٹر زمینوں پر ہل چلائیں گے وغیرہ وغیرہ اگر وقت ہوتا تو میں آپ کو چشم زدن میں اور پورا حساب کر کے دو اور دو چار کی طرح ثابت کر دیتا کہ یہ تمام سبز باغ دہوکے کی ٹٹی ہیں اور یہ وہی سبز باغ ہے جو پاکستان کے حاصل کرنے کے وقت قوم کے سامنے رکھا گیا تھا کہ اس پاکستان کا مطلب ہی لا الہ الا اللہ ہے۔
مسلمانو!پاکستان کا لا الہ الا اللہ تو تم نے دیکھ لیا اب اپنی تمام قوت اس میں صرف کردو کہ یہ زرعی نظام نہ قائم ہوا گر یہ نظام قائم ہو گیا تو مختصر بات صرف یہ ہے کہ اس کے اندر غریب زمیندار کو کچل کر اس کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ نے کی تیاری ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں بڑے زمینداروں پر ہاتھ آسانی سے نہیں ڈالا جا سکتامغلیہ سلطنت کا تمام اقتدار انہی بڑے زمینداروں کی وجہ سے تھا اور انہی کے برتے پر وہ کئی سو برس ہندوستان پرحکومت کر سکی اب حکومت کا ارادہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے زمیندار بنا کر ان سے تگنامعاملہ وصول کرے۔ ان سے مفت آبیانہ کی تمام رعائتیں جو ان کو اب حاصل ہیں چھین کر ہر غریب کو پولیس اور نمبردار کا غلام بنائے رکھے تا کہ وہ رات دن روٹی کی فکر میں گھل گھل کر مر جائے اور کسی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائے۔ الغرض یہ تمام سکیم وہ عظیم الشان فریب اور گورکھ دھند ہے کہ اس میں مسلمان کی اقتصادی خوشحالی کی آخری موت ہے۔
میں اب رخصت ہوتا ہوں میری آرزو ہے کہ مسلمان سیاسی طور پر باخبر ہو کر اپنی بگڑی کو آپ بنائیں اس بگڑی کو بنانے کی واحد ترکیب یہ ہے کہ وہ اس نظام کو قبول کریں جو چودہ سو برس سے رائج ہے اور امتحان کی سخت ترین منزلوں سے گزر چکا ہے۔ کسی ایسے نظام کو قبول کرنا جو اس منزل تک پہنچا ہی نہیں کہ کوئی آزمائش قبول کرے سر تاسرنا دانی ہے مسلمانو! اس نادانی کو قبول نہ کرو کیونکہ تمہاری نجات پہلے بھی اسلام سے ہوئی تھی اور اب بھی اگر ہو گی تو اسلام اور صرف اسلام سے ہو گی ۔خدا تمہارے ساتھ ہو اور تمہارا نگہبان رہے۔

﴿علامہ محمد عنایت اللہ خان المشرقی﴾












 حضرت علامہ المشرقی
 مسئلہ کشمیر سے متعلق فکر انگیز انتباہ!

کشمیر آزادا نہ ہوا تو پانی کے قطرہ قطرہ کو ترس جا گے!

کشمیر کے پہاڑوں میں بڑی خاموشی سے پانچ دریاؤں کے رخ بدلے جارہے ہیں اور مغربی پاکستان کو سیراب کرنے والے ان دریاں کا پانی جے پور، جودھ پور اور جیسلمبر جیسے صدیوں کے بنجر علاقوں کو آباد کرنے پر منتقل کیا جارہا ہے میں نے اس سلسلے میں تعمیر ہونے والے ہیڈ ورکس کی پوری تفصیل منظر عام پر رکھ دی۔ میرا خیال تھا کہ یہ انکشاف پاکستان کے حکمرانوں کی نیندیں ھرام کردے گا میں یہ چیخ چیخ کر تھک گیا کہ آنکھیں کھولو اور پاکستان کو موت سے بچالو لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی الٹا میرے صور اسرافیل سے تنگ آکر مجھے میانوالی جیل خانے میں پہنچا دیا گیا۔ اگر مجھے جیل بھیجنے سے پاکستان کی جان بچ سکتی ہے، اگر میری نظر بندی سے بھارت کے منصوبے مٹی میں ملائےجا سکتے ہیں اگر میری قید سے یہ بھارتی سازش ناکام ہو سکتی ہے تو یہ ڈیڑھ سال کیا میں عمر بھر جیل کی کوٹھڑی قبول کرنے کو خوشی سے تیار ہوں لیکن حکومت کا یہ رد عمل تو صاف گواہ ہے کہ وہ ابھی تک اپنی میٹھی نیند میں خلل گوارا کنے کو تیار نہیں اور اس کی آنکھ اس دن کھلے گی جب سارا مغربی پاکستان ویران ہوچکا ہوگا۔ کروڑوں انسان پانی کے ایک ایک گھونٹ اور روٹی کے ایک ایک ٹکڑے کو ترس رہے ہوں گے لیکن یاد رکھو کہ اس دن جا گ اٹھنے سے اس قیامت کا ٹلنا ناممکن ہو جائے گا۔ اس لئے ابھی وقت ہے آنکھیں کھولو! دماغی عیاشی کے کھیل کو کچھ مدت کے لئے بھول جاؤ اور اس موت سے بچنے کا چارہ کرو جو دریاں کے رخ بدلنے سے پورا ملک میں جھومتی ہوئی بہاروں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ تم پانی کے ایک ایک قطرے کو ترس جا گے، تمہارے لہلہاتے ہوئے کھیت، بنجر زمینوں میں تبدیل ہو جائیں گے اور اس وقت تمہاری یہ علمی اور سیاسی بحثیں کچھ کام نہ دیں گی۔

خطاب جیکب آباد 04 مارچ 1954ء (حضرت علامہ المشرقی﴾

Akhuwat-e-Pakistan ki Tajweez



انماالمومنون اخوة(۱۰:۴۹)

مومن صرف وہ لوگ ہیں جو بھائی بھائی ہیں(القرآن)

اَخُوتّ پاکستان کی تجویز (حضرت علامہ مشرقی )

ضروری نوٹ:
بانی اسلام لیگ حضرت علامہ مشرقی نے تمامتر سیاسی ودینی جماعتوں پرمشتمل”اخوت پاکستان“ کے قیام کی وہ بے بہاتجویز۱۹۴۹۔۵۰ء میں پیش کی اور کراچی میں ایک عظیم الشان کانفرنس کے انعقادکی کوشش کی مگر”لیاقت حکومت“نے اسے روکنے اور ناکام بنانے کا ہر حربہ اختیارکیا۔ بالآخر۱۱جنوری۱۹۵۱ءکو انہیں گرفتار کر لیاگیااور وہ ڈیڑھ سال تک میانوالی جیل میں نظربند رہے۔ حضرت علامہ مشرقی نے اپنے پیغام میں حالات کا تجزیہ جس خوبصورت اندازمیں کیا ہے اسے پڑھنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگاکہ آج بھی ملک اس سے دوچارہے۔ اس پیغام پر لفظ بہ لفظ غور کریں کہ اگر اس پر عمل ہوجاتا توپاکستان سیاسی ومذہبی افراتفری،بداخلاقی اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے اور اپنا نصف حصہ(مشرقی پاکستان کی علیحدگی)ضائع کرنے کے آج ایک متحد،مضبوط اور غالب قوت ہوتا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت علامہ مشرقی کے اس فکرانگیز خطبات،مقالات اور پیغامات کو عوام الناس اور اعلےٰ حکام تک پہنچایاجائے تاکہ مستقبل میں دوبارہ غلطیاں سرزدنہ ہوں۔(ادارہ)

اسلام لیگ کا پیغام۱۹۴۷ءکی آخیر میں پاکستان کے حصول کے بعداحساس زیاں کا پیغام تھا۔قوم کو بتاناتھا کہ اگرچہ مسلمان اس وقت مسل لیگ کے ساتھ اندھا دھندلگ کرپاکستان کے حصول کی مستی میں مگن ہے اور کسی اصلیت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔مگراس نشے کے جلد اترنے کے بعد جب حقیقت طلوع ہوگی تو اسی شدت سے ہٹی گا جس شدت سے کہ اس وقت مسلم لیگ میں لگاہے۔ یہ ہٹ کر بکھرنے کا وقت آج آپہنچا ہے اور چونکہ یہ بکھرنا بھی بی ہوشی کا بکھرناہے۔ احساسِ زیاں (یعنی گھاٹے کو محسوس کرنا) اب تک نہیں ہوا۔

زوال یافتہ قوموں کا اتحاد بھی بے معنی ہے اور ان کا بکھرنااس سے زیادہ بے معنی۔ زوال شدہ قومیں چونکہ فکرنہیں رکھتیں اور ان کے دماغوں میں شعورکو دخل نہیں وہ ہرنقصان پرجمع اور ہر فائدے پر بکھرتی ہیں۔

مسلم لیگ سے (تین سال کے بعد) مسلمانوں کی عام نفرت ایک فائدہ مند شے تھی، شعوروالی قوم ہوتی تو اس عام نفرت سے فائدہ اٹھاکرمتحد ہوجاتی، اپنے نقصان کا جائزہ لیتی،نقصان کی تلافی کےلئے متحد ہوکر سوچتی، مگرنتیجہ چاروں طرف بکھراﺅ ہے۔ شکست کاانتشار ہے، ہرشخص ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھاہے اور اس پسماندہ قوم کو کسی نہ کسی گھاٹے پر جمع کر رہاہے۔

سوچو! مسلمان، خاکسارتحریک سے کیوں ہٹا کیونکہ اس میں قوم کا فائدہ تھا، مسلم لیگ پرکیوں جمع ہوا اس میں ذاتی فائدہ لیکن قوم کو نقصان تھا۔ اب مسلم لیگ سے ہٹ کرکیوں بکھررہا ہےکیونکہ اتحادمیں فائدہ ہے، لیکن نفس کو گھاٹاہے۔

زوال یافتہ قوموں کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہ قومی فائدے سے متنفراور قومی نقصان پرجمع ہوجاتی ہیں اور مزا یہ ہے کہ فائدہ ان کو نقصان نظرآتاہے اور نقصان کو فائدہ سمجھ لیتی ہیں۔ قسمت کا یہ گورکھ دھندہ اس قدر الجھاﺅ پیداکرنے والاہے کہ زوال یافتہ قوم کے دماغ کو ویران کردیتاہے، میلوں تک بیابان اور خرابیاں نظر آتی ہیں، جنگل کی وسعت دماغوں کو ماﺅف کردیتی ہے اور ذہنوں کو مفلوج کردیتی ہے، وہ اپنے چھوٹے سے دائرے میں جو کچھ فوری فائدہ دیکھ لیتے ہیں اس کی طرف الٹ پڑتے ہیں، قومی فائدے یا احساس کا سوال ہی ان کے دماغوں میں پیدا نہیں ہوتا۔

اسلام لیگ سے پہلے خاکسارتحریک نے قوم کو آواز دی کہ دیکھو! اس چھوٹے سے پاکستان کو انگریز سے مانگنے میں جو ناکامی ہے اور جس کے دوٹکڑے چودہ سو میل دور ہیں قوم کا گھاٹا ہے۔ خاکسارنے آوازدی کہ مسلمان کےلئے ہندوستان پاکستان ہے اور ہندوکا کوئی حق اس پر نہیں۔

مسلم لیگ والوں کے ساتھ لگنے میں گھٹا ہےکیونکہ یہ لوگ پچھلے سو برس کے آزمائے ہوئے ہیں اور قوم کے دشمن ہیں۔ جب پاکستان بن گیا تو اسلام لیگ نے آواز دی کہ پانچ کروڑ مسلمان ادھر رہ گئے ہیں یہ نہ بچے تو تم بھی نہیں بچ سکتے۔ اتنے میں مسلم لیگ ننگی ہوتی گئی اور ہر شخص چیخنے لگا مگر مسلمانوں نے اپنی غفلت پھر نہ چھوڑی، مسلم لیگ سے لگارہا۔ اب کہ صبر کا پیمانہ بھرگیاہے”بعداز خرابی بسیار“مسلمان مسلم لیگ سے ہٹ رہاہے لیکن ہٹ کر بکھررہاہے پھر ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہورہا ہے تاکہ اپنی قسمت پھر نہ بناسکے۔

اس ہڑبونگ میں جو پیداہورہی ہے ہم نے مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کو آواز دی کہ اکھٹے ہوجاﺅ، تم اکیلے اکیلے اس مسلم لیگ کی ڈائن سے نبٹ نہیں سکتے۔

نتیجہ وہی قومی فکر کا نہ ہونا ہے، بعینہ تمام قوم کی طرح اپنے ذاتی فائدے کو دیکھ رہاہے اور قوم کے فائدے کی طرف سے دماغ بے پرواہ ہے، زاویہ ہےکہ ہرلیڈریہ سمجھتاہےکہ میراکہا، میرامقصد، میرا نقطہ نظر، میرانصب العین کسی آسمانی کتاب کی طرح سچائی کا آخری لفظ ہے، اس میں ادنیٰ ردوبدل نہیں ہو سکتا، وغیرہ وغیرہ۔

مجھے ابھی ابھی کسی شخص نے بتلایاہے کہ دیکھو ”مساوات“میں جو الزام کسی زخم خوردہ شخص نے اسلامی جماعت پرلگایاتھاکہ اس جماعت کو لاکھوں روپیہ کسی دشمنِ اسلام حکومت یا مسلمان رئیس سے بطور مددمل رہاہے۔ اس کا جواب ان کے اخبار نے کیا لکھاہے؟جواب تو خیرملایانہ، پھسپھسا اور بی معنی تھا کہ چونکہ ہم اﷲکاکام کررہے ہیں اس لئے اﷲ ہمارے تھوڑے سے روپیہ میں برکت دے دیتاہے مگر میں نے کئی منٹ تک اس اخبارکو پہلی دفعہ دیکھا اور حیران ہوا کہ اس کی ایک ایک سطر کس خوبی سے مسلمان کو اسلام، خدا، رسول ﷺ، دین، قرآن، حدیث، نیکی اور نہ جانے اور کیا کیا واسطہ دےکر باقی سب مسلمانوں کو بی دین ثابت کرنے کی ترکیب کی ہے۔ بیوقوف مسلمان جو نہ قرآن جانتا ہے نہ قرآن جاننے والوں کا جانتا ہے کس گورکھ دھندے میں پھنساہے کہ پڑھا لکھا ہوکر اس سے نکل نہیں سکتا۔

ہم پچھلے کئی ماہ سے اس مقصد میں لگے تھے کہ کسی نہ کسی طرح جماعتوں کے لیڈروں کو ان کے اپنے مقاصد میں اپناکرایک زنجیرکی کڑیاں بنادیں اور وہ زنجیر لوہے کی طرح مضبوط ہوجائے۔ مگرابھی تک پریشان ہیں حالانکہ اس وقت پبلک سخت دکھی ہے اور چیخ رہی ہے۔ ادھرپارٹیوں کو ملانے کی سعی کریں ان میں سے چوہدری کوئی بن جائے، لیکن سب مضبوط اتحاد ہو، پارٹیاں اور ان کے چوہدری اسی طرح بنے رہیں لیکن چوہدری کا آپس میں گٹھ جوڑہو اور وہ چوہدری سب پارٹیوں کو حکم دیں مل کر دیں۔ لیکن قوم کا نقطعہ نظر ٹھیک وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔

ہم جانتے تھے کہ انگریزکے عذاب کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کے نئے عذاب سے مسلمانوں کو بچانے کےلئے سوائے ان لوگوں کے جو بیس برس کی تکلیف کے بعد ہم نے قوم کے کوڑے کرکٹ سے چھان چھان کر نکالے تھے اور کوئی شخص اپنی جان پر کھیلنے کےلئے نہیں نکلے گا۔ ہم جانتے تھے کے مسلم لیگ کے عذاب سے نکلنے کےلئے اسی طرح جان پرکھیلنے کی ضرورت ہے جس طرح کہ انگریزکے عذاب سے نکلنے کے وقت تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ قربانی ہمیں ہی دینی ہوگی لیکن سب قوم کے لیڈر متحدہوں گے اور ایک جماعت یعنی”اخوت پاکستان“بن گئی تو کیا مضائقہ ہے کہ جانیں ہمیں دینی پڑیں اور نام اخوت پاکستان کاہوجائے۔ الغرض اسلام لیگ کانفرنس کراچی میں کرنے کا راز یہ تھاجو میں نے بیان کیا۔

مسلم لیگ ادھرپانچ کروڑ مسلمانوں پر ظلم و ستم کررہی تھی،کانگریس اُدھر پانچ کروڑ مسلمانوں کو ستارہی تھی، یہ دس کروڑ قوم پرپورا عذاب قوم کو ہلکان کر رہا تھا۔ اس لئے مسلم لیگ کا گدیاں چھوڑدینا ہی قوم کو بچا سکتاتھا۔ مسلم لیگ کی جگہ اگر جری اور بہادر مسلمان اور جان پرکھیل جانے والے لوگ آگئے تو کانگریس کا ظلم بھی مٹ سکتاہے۔ نہروکادماغ بھی درست ہوسکتاہے،کشمیر بھی حاصل ہوسکتاہے۔