Pages

Time

صحیفہ فطرت کے مطالعہ کے اندر ہی خدا کے احکام موجود ہیں

صحیفہ فطرت کے مطالعہ کے اندر ہی خدا کے احکام موجود ہیں

فطرت کی اس عظیم الشان حقیقت کو اس بے گمان طور پر تصدیق کرنے کے بعد، دنیا کا یہ سب سے زیادہ منطقی طور پر صحیح مذہب اور انسان کا سچا لائحہ عمل انسان کو اس دنیا میں مستقل کام دینے اور خدا کی صحیح معرفت کرانے کے لئے بیگماں الفاظ میں اس صحیفہ فطرت میں سے خدائی احکام، الہی دستور العمل اور قوموں کی زندگی کا سچا لائحہ عمل تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان ترغیبوں میں اِنَّ (فی الحقیقت) اور لَ (ضرور) کی دو تاکیدیں ہر جگہ موجود ہیں اور صاف بتلایا ہے کہ صرف اس قوم کو جو عقل رکھتی ہے: (لقوم یعقلونo ) ، علم رکھتی ہے: (لقوم یعلمونo) ، یقین رکھتی ہے: (لقوم یوقنونo) ، فکر رکھتی ہے: (لقوم یتفکرونo) ، سننے کی قابلیت رکھتی ہے: (لقوم یسمعونo) نعمتوں کو صحیح استعمال کرنے کی اہلیت رکھتی ہے: (لقوم یشکرونo) عبرت حاصل کرنے کی استعداد رکھتی ہے: (لقوم یذکرونo) ، ایمان رکھتی ہے: (لقوم یومنون ) ، سعی و عمل رکھتی ہے: (لقوم یعمکونo) ، مستقل مزاج اور محنتی اور قدردان ہے: (لکل صبار شکورo) ، خدا نے قانون سے خوفزدہ ہے: (لقوم یتقونo ) ، وغیرہ وغیرہ، ہاں صرف اِن قوموں کے لئے صحیفہ فطرت کے فلاں فلاں مظاہر اور مناظر میں اپنی قسمت کو درست کرنے، صحیح راہ پر چلنے، فطرت کا علم حاصل کر کے ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچنے کیلئے بے شمار احکام (ایات)، لا تعداد اشارے (ایات)، بیگماں معجزات (ایات) اور راہ عمل موجود ہے!
یہ آیات جو قران حکیم میں تیس بلکہ اس سے بھی زیادہ مختلف موقعوں پر ہیروں اور موتیوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں، اُن کے علاوہ ہیں جن میں قران نے غیر فانی الفاظ میں زمین کی مخلوق کو صحیفہ فطرت کا مستقل علم اپنی طرف سے دیا ہے اور جو اس قدر حیران کن ہے کہ اس علم کا نام و نشان صفحہ زمین پر موجود نہ تھا جب کہ قران نازل ہوا۔ یہ بحث دراصل تذکرہ کی نویں جلد میں ہے اور ”علم القران“ کے عنوان سے ہے۔ اس کی ایک مختصر سی جھلک تذکرہ کی پہلی جلد میں مسئلہ ارتقاءکی بحث کے ضمن میں موجود ہے اور حدیث القران میں بھی اس کی ایک جھلک دکھلانے کی سعی کی جائے گی۔٭ لیکن قطع نظر قران حکیم کے اُس حِصّے سے جو علم قران ہے، قران حکیم کی ایک حیرت انگیز خصوصیت یہ حصہ ہے جس میں انسان کو فطرت کے مناظر کی طرف متوجہ کرنے اور ان سے احکام (ایات) حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان آیات میں جو شے قابل توجہ ہے یہ ہے کہ (۱) خطاب عام ہے اور ہر قوم کی طرف ہے اور دعویٰ ہے کہ جو قوم ان مناظر کی طرف توجہ کرے گی اس کو لامحالہ آیات ملیں گی۔ (۲) اُس قوم کے ساتھ ایک مخصوص لقب (مثلاً عقل، علم، یقین، فکر، سمع، شکر، تذکیر، ایمان، عمل، تقویٰ وغیرہ وغیرہ) لگا دیا ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ (۳) ہر آیت یا مجموعہ آیات میں مطالعہ فطرت کی کئی شقیں ایسی ہیں جن پر مستقل علوم مسلمانوں نے ایجاد کئے یا ان کے بعد اب مغرب میں ایجاد ہوئے (مثلاً: اسٹرانومی یعنی علم النجوم، میٹرالوجی یعنی علم الریاّح، بوٹنی یعنی علم النباتات وغیرہ وغیرہ)۔ لیکن کئی شقیں ایسی ہیں جن کی طرف انسان نے ابھی تک مطلق توجہ نہیں کی( مثلاً رات اور دن کا علم، آسمان سے برسے ہوئے پانی کا علم، شہد کا علم، اختلافِ رنگ کا علم، موت پر رُوح کے قبض ہونے کا علم، بسط و قبض رزق کا علم، نیند کا علم، وغیرہ وغیرہ) (۴) چونکہ انسان کا مقام اس زمین پر بمنزلہ خلیفة اللہ یعنی خدا کا قائم مقام بننا ہے، نیز چونکہ انسان کے متعلق خدائے عزّوجلّ کا اقرار ہے کہ اس میں میری روح بھر دی گئی ہے اس لئے لازم ہے کہ انسان سمیع اور بصیر ہونے کے علاوہ (جس کا ذکر اوپر آیات نمبر(۸) میں ہوا) باقی سب اوصافِ خدا حاصل کرنے کی سعی کرے جن میں سے ایک بڑا وصف یقیناً خلاق ہونا (یعنی زندہ شے پیدا کرنے کا وصف رکھنا) ہے۔ اس نازک معاملہ پر بحث مفصلہ ذیل آیات کے نقل کرنے کے بعد آئے گی، لیکن میں یہاں پر اس واقعہ کی طرف اشارہ پیش از وقت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے1918ء میں یعنی آج سے ۳۳ برس پہلے صوبہ سرحد کی ریاضی کی ایک علمی انجمن میں ایک معرکة الآرا تقریر کی تھی اور دلائل سے ثابت کیا تھا کہ دنیا کی موجودہ علمی ترقیاں جو پچھلے کئی ہزار برس میں ہوئیں اور جن کا نتیجہ موجودہ علم حساب اور علم طبیعات وغیرہ ہیں، بے حد ناقص اور نارسا اس لئے ہیں کہ ان سب کی بنیاد یونان کی مائی تھالوجی (علم الاوہام) کے منتہا یعنی نقطہ اور خط مستقیم اور دائرہ پر ہیں۔ حالانکہ نقطہ اور خط مستقیم اور دائرہ اگرچہ بادی النظر میں نہایت خوبصورت اور نصب العینی (آڈیو لوجیکل) وجود ہیں لیکن صحیفہ فطرت میں نہ نقطہ موجود ہے نہ دائرہ، نہ خطِ مستقیم، (جو دائرے کی ایک حالت ہے)۔ اسی مجلس میں جو حساب دانوں پر مشتمل تھی میں نے دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ حساب کی بنیاد ان تین غیر فطری چیزوں پر ہوئی اور انہی تین چیزوں کو غلطی سے، اور یونانیوں کی خوشامد کر کے، نصب العین (یعنی آئیڈیل) تسلیم کر لیا گیا، نتیجہ یہ ہے کہ تمام علم حساب اور متعلّقہ علوم انہی تین چیزوں کے گردا گرد گھومتے رہے اور ان تین چیزوں کے چکّر سے نہ نکل سکے۔ ایسی غلطی کا المناک نتیجہ یہ ہے کہ ہم اقلیدس سے جیومیٹری اور جیومیٹری سے علم جرّ ثقیل (مکینکس) اور جرّ ثقیل سے مشینوں اور انجنوں کی خلّاقی کی طرف چلے گئے کیونکہ تمام مشینوں اور انجنوں کی بنیاد نقطہ، دائرہ اور خط مستقیم ہیں۔ اب انسان نے اگرچہ تھوڑی بہت خلّاقی ضرور کی ہے اور وہ بڑی عجیب و غریب مشینیں بنا سکتا ہے لیکن وہ مشینیں محض بے جان ہیں اور بیرونی طاقت کے ذریعے صرف گھومنا یا چلنا جانتی ہیں لیکن زندگی کا تمام راز بالکل نایافتہ پڑا ہے۔ بلکہ انسان نے اس مضمون کو قطعاً ہاتھ نہیں لگایا۔ اس مجلس میں میرے اس حیرت انگیز انکشاف سے بڑی سنسنی پھیل گئی اور اس کی آواز یورپ اور امریکہ تک پہنچی۔ 1926ء میں جب کہ میں موتمر خلافت میں مدعو ہوا، ڈاکٹر دورونوف اور پروفیسر آئن سٹین سے یورپ میں میری طویل ملاقاتیں اسی مسئلے پر ہوئیں اور انہوں نے میرے اس موقف کو بے حد سراہا اور کہا کہ ”اگر آپ اس مسئلے کو سنجیدہ طور پر دنیا میں پیش کریں تو ایک انقلاب عظیم برپا ہو سکتا ہے“ بلکہ ”دنیا آپ کو ایک بڑا محسن ماننے کے لئے تیار ہو سکتی ہے۔“ مجھے ان دو عظیم الشان پروفیسروں کی حوصلہ دہی سے بڑا اطمینان ہوا کیونکہ یہ خود اس مسئلے پر بڑے پریشان تھے کہ انسان باوجود اس کے کہ اس نے علم میں اس قدر ترقی کی ہے ابھی تک اس قابل نہیں ہو سکا کہ زندگی کے مسئلے کے متعلق معمولی معلومات بھی حاصل کر سکے۔ میں نے ان کو اصلی وجہ بتائی کہ دراصل ہم یونان کے پُجاری ہیں، صحیفہ فطرت اور خدا کے پجاری نہیں۔ اگر ہم خدا کے پجاری ہوتے تو ضرور اس وقت تک ہم خالقبھی بن جاتے۔ چونکہ اس وقت تک تذکرہ لکھا جا چکا تھا میں نے ان کو قرانی حقائق کئی نشستوں میں بیان کئے اور ان آیات کی طرف توجہ دلائی۔ ڈاکٹر ورونوف چونکہ وہ مشہور شخص ہے٭ جو بندروں کے غدود انسانوں کے خُصیوں میں لگا کربوڑھوں کو جوان کرتا تھا، وہ قران حکیم کی ان آیتوں کو دیکھ کر انتہائی طور پر سرگرم ہو گیا۔ اسی کے ذریعے اور پروفیسر آئن سٹائن کے ذریعے سے مجھے کئی اعزازی سوسائیٹیوں کا فیلو منتخب کیا گیا اور قریب تھا کہ میں بھی دنیا میں ایک علمی انقلاب برپا کروں۔ ۱۹۲۶ء کے بعد چونکہ مسلمانوں کے حالات ہندوستان میں بے حد خراب ہو گئے تھے اور کانگریس کے مقابلے میں کوئی جماعت مسلمانوں کی موجود نہ تھی اس لئے مجھے تذکرہ لکھنے کے بعد مسلمانوں کی قومی زندگی کی طرف رجوع کرنا پڑا اور یہ تمام انقلابی سلسلہ ۱۹۳۰ء  میں میری ملازمت کے ختم ہونے کے بعد ختم ہو گیا۔ ۱۳۹۱ءمیں انٹرنیشنل کانگریس آف اورینٹلسٹس٭ نے مجھے تذکرہ کی تصریحات کرنے کیلئے مدعو کیا لیکن چونکہ خاکسار تحریک شروع ہو چکی تھی میں نے دو بیڑیوں میں ٹانگ اڑانا مناسب نہ خیال کر کے علمی تلاش و تجسس کو یکدم خیرباد کہہ دیا!

          اس کہانی سے مقصد یہ ہے کہ ابھی انسان خلّاقی کے ادنیٰ ترین مراحل بھی طے نہیں کر سکا۔ انسان کی تمام جستجو جو اس وقت تک صحیفہ فطرت کے سلسلے میں ہوئی ہے نہایت سطحی اور عارضی ہے اس تمام تفتیش کی بنیاد علم حساب اور اس سے متعلقہ علوم پر ہے جن کی اساس یونانی نقطہ، یونانی دائرہ اور یونانی خط مستقیم پر ہے۔ علم طب کی بنیاد بھی اسی لحاظ سے محض تجربہ پر ہے۔ اگر کوئی دوا بیمار کو دے کر فائدہ ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ تشریح الابدان اور جرّاحی میں بھی صرف چیڑ پھاڑ اور تجربہ ہے حتی کہ چیرنے پھاڑنے والے اوزار بھی وہ ہیں جو فطرت میں موجود نہیں۔ اس تمام فطرت سے ہٹنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم فطرت میں زندگی کے راز کو ابھی تک دریافت نہیں کر سکے یا ہماری دریافت کی حد صرف اس تک ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک بیجان یعنی صرف ایک گھومنے والی مشین بنا سکیں، لیکن اڑنے والی مکھی سے ہم کلیتہً بے خبر ہوں حتی کہ ہم کو یہ بھی علم نہ ہو کہ انسان یا حیوان کی پیدائش کا عنصر اوّل یعنی پروٹاپلزم جو ایک خورد بینی غرفہ (یعنی سیل) میں رہتا ہے، کیا شے ہے، اس کے اندر زندگی کیوں ہے، یہ زندگی کیونکر پیدا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بحث ایک بہت طویل اور انتہائی طور پر علمی بحث ہے اور اس کے کرنے کا یہ مقام نہیں لیکن یہ چند سطریں اس لئے یہاں پر لکھ دی گئی ہیں کہ قران حکیم کی آئیتوں پر جو اس بحث کے ضمن میں آرہی ہیں، مسلمان انتہائی غوروفکر کریں اور ان کو مشعل راہ بنا کر نئے علوم مستنبط کریں اور یونانیوں کے پجاری بننے کی بجائے خدا کے پجاری بنیں تاکہ اُن کو دنیا میں انتہائی سرفرازی حاصل ہو۔ اس سلسلے میں میں چاہتا ہوں کہ آنے والی مسلمان نسلوں کو حوصلہ دلانے کیلئے یہ اشارہ بھی دے جاؤں کہ خلاقی کے سلسلے میں بھی اَور انسانی علوم کی طرح آنے والے مسلمان ہی پہل کریں گے کیونکہ قران حکیم میں ایک نہایت معنی خیز آیت خلاقی کے بارے میں موجود ہے۔ یہ وہ آیت ہے جو میں نے مذکورہ بالا دو پروفیسروں کو مسلمان بنانے کی ترغیب میں پیش کی تھی اور جس کو دیکھ کر وہ خوب سوچ میں پڑ گئے تھے: یا ایھا الناس ضرب مثل فاستمعوالہط ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولواجتمعوا لہط وان یسلبھم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہط ضعف الطالب والمطلوبo ما قدرواللہ حق قدرہط ان اللہ لقوی عزیز﴿۱۰/۲۲ (ترجمہ۔ اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے غور سے سنو۔ تم جن انسانوں کو خدا سے قطع نظر کر کے پکارتے ہو وہ ہرگز مکھی نہ پیدا کر سکیں گے۔ خواہ سب کے سب اکٹھے بھی ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی شے چھین لے تو اس سے لے نہیں سکیں گے۔ طالب اور مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں۔ انہوں نے درحقیقت خدا کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں لگایا بے شک خدا بڑا ہی قوت والا اور عظمت والا ہے) ۔ ان آیات میں مجھے خدائے عظیم کی طرف سے اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بشرطیکہ اس نے خدا کی عظمت کا پورا اندازہ لگا لیا، ممکن ہے کہ خالق بھی بن سکے اور انشاءاللہ ضرور بن کر رہے گا۔
          مجھے کچھ رنج نہیں کہ مَیں نے کیوں اپنی توجہ علمی مشاغل کی طرف سے ہٹا کر قوم کو دی اور زندگی کے بہترین حصے میں کیوں مسلمان کی طرف لگا رہا، یا کیوں تذکرہ لکھا جس کی قوم نے قدر نہ کی، بہر نوع میں کافی سے زیادہ مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا۔

﴿علامہ عنایت اللہ خان المشرقی﴾
از حدیث القرآن صفحہ ۲۲ تا ۲۶ 

Allama Mashriqi's Letter to Scientists of the World

دُنیا کے عالموں (یعنی فطرت دانوں اور سائنسدانوں) کے نام میرا تاریخی مکتوب
مکتوب کی بنیاد قرآنی حقائق پر ہے انسان کی خدا سے ملاقات کا نصب العین!!
قرآن جیسی تصنیف کا انسان سے پیدا نہ ہو سکنے کا دعویٰ بھی انہیں حقائق کی وجہ سے ہے

          میں نے جون ۱۹۵۱ء میں یعنی آج سے سات برس پہلے جب کہ کمیونزم والوں کو آسمانوں پر مصنوعی سیّاروں کے اڑانے کا پورا خیال بھی شاید نہ آیا ہو ”مسئلہ انسانی“ (ہیومن پر ابلم) پر ایک بسیط مقالہ لکھ کر یورپ اور امریکہ کے مقتدر سائنسدانوں کے نام بھیجا۔ اس مقالہ کا تمام ماخذ قرآن حکیم تھا اور اس کا لبّ لباب بعد میں حدیث القرآن کے نام سے ۱۹۵۵ء میں شائع کیا گیا تھا۔ میں نے یہ مقالہ قرآن یا اسلام کا حوالہ دیئے بغیر اور صرف یورپ میں اپنے علمی امتیازات کے زور پر بھیجا اور دعویٰ کیا کہ صحیفہ فطرت کی تخلیق کا واحد مقصد یہ ہے کہ اشرف المخلوقات انسان جو اپنے سمع و بصر اور قلب کی وجہ سے اشرف الخلق ہے اس کو کامل طور پر مسخر کرے ورنہ کروڑوں برس سے کروڑ در کروڑ ستاروں اور سیّاروں کی ہولناک ویرانیاں جو آسمانی فضا میں ہیں فطرت کو ایک بے معنی اور فضول شے قرار دیتی ہیں۔ پھر لکھا کہ چونکہ انسانی اعضا سردست اس قطع کے نہیں کہ انسان ان کو لے کر کسی قریب سے قریب سما وی سیّارے یا کُرّے تک بھی پہنچ سکے اور نہ انسانی مشینوں نے ابھی تک وہ تیز رفتاری حاصل کی ہے کہ وہ انسان کو چشم زدن میں کسی قریب ترین کُرّے تک لے جا سکیں، اس لیے اس سازوسامان کے ساتھ جو انسان کے پاس اس وقت ہے فطرت کی تسخیر محال ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان نے جو طاقت اس وقت تک حاصل کی ہے وہ صرف بے جان مادہ کی خاصیّتوں کو دریافت کر کے حاصل کی ہے۔ زندگی کی ماہیت کو سمجھنے کی طرف اس کا خیال ابھی تک نہیں دوڑا بلکہ اس نے زندہ شے کے بنیادی تعمیری عنصر یعنی خلیّے کے مکین کو بھی ابھی تک دریافت نہیں کیا کہ وہ کن اشیا سے مرکب ہے جس کی وجہ سے اس خلیہ میں زندگی ہے۔ میرا دعویٰ تھا کہ جب تک انسان کسی زندہ شے کا خالق بن کر خدا کا مماثل نہیں بنتا اس سے تسخیر فطرت کی توقع محال ہے۔ دوئم یہ کہ انسان نے بے جان اشیا کی ماہیت یا خصائص کے دریافت کرنے کی بنیاد نصب العینی شرائط و احوال اور ان کی پیمائش و مساحت کی بنیاد بھی نصب العینی آلات یعنی نقطئہ، خط مستقیم اور دائرہ پر رکھی ہے۔ جن تینوں آلات کا وجود فطرت میں نہیں۔ جیومیٹری یعنی علم پیمائش کی تمام بنیاد ان غیر فطری آلات پر ہونے کے باعث انسان بے جان مادہ کے خصائص کی دریافت سے صرف مشینیں ہی بنا سکا ہے جو نقطئہ، خط مستقیم اور دائروں پر مبنی ہیں اور انہی تین چیزوں پر گھومتی یا چلتی ہےں لیکن ان کی کوئی مماثلت اور مشابہت فطرت کی کسی زندہ شے سے نہیں۔
سوئم میں نے کہا کہ سرمایہ یا مزدور انسانی ترقی کا بنیادی باعث نہیں بلکہ ترقی کا باعث وہ ایجادات ہیں جو صحیفہ فطرت کے عالم روز اوّل سے کرتے آئے ہیں اور جب تک یہ ایجادات موجود نہ ہوں سرمایہ اور مزدور دونوں بیکار ہیں۔ اس بنا پر روئے زمین کی حکومت ان سیاست دانوں کے ہاتھ میں نہیں ہونی چاہیے جنہوں نے روز اوّل سے بنی نوع انسان کو مذہب، رنگ، نسل، وطن وغیرہ وغیرہ کی بنیاد پر ٹکڑے ٹکڑے کر کے ان کو لا متناہی جنگوں میں آپس میں لڑایا ہے، درآں حالیکہ فطرت کی کسی نوع کے افراد اپنی نوع کے افراد کے ساتھ مقاتلے نہیں کرتے۔ ان بناں پر روئے زمین پر حکمران ہونے کا اہل صرف عالم فطرت یعنی سائنسدان اور موجد ہے جس کے بل بوتے پر روئے زمین کی تمام تر رونق اور قوّت ہے۔ سرمایہ دار حکومت کا اہل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس کا سرمایہ ایجاد کے موجود ہونے کے بغیر بے کار ہے ،نہ مزدور جس کے بازو اس وقت تک بیکار ہیں جب تک کہ سائنسدان اس کو اپنی ایجاد تیار کرنے کی ترکیب نہ سمجھائے۔ چہارم میں نے کہا کہ عالم فطرت کی قیادت ہی بنی نوع انسان کو ان کی آئے دن کی جنگوں سے نجات دلا سکتی ہے جن میں وہ ہزار ہا سالوں سے گرفتار ہے۔ اُسی کی حکومت گورے اور کالے، غریب اور امیر، مسلمان اور عیسائی کے امتیاز یا جغرافیائی، نسلی اور تمدنی اختلافات کو مٹا سکتی ہے۔ کیونکہ عالم فطرت صرف صحیفہ فطرت کی واحد حقیقت کا قائل ہے، کسی اور نظریے یا نصب العین کی سچائی کا قائل نہیں۔ اسی عالم فطرت کی حکومت تسخیر فطرت کے اہم ترین نصب العین کو سامنے رکھ کر اور روئے زمین کے انسانوں کی توجہ ان ادنیٰ نصب العینوں سے ہٹا کر تسخیر فطرت کے شریف ترین نصب العین کی طرف لگا سکتی ہے۔ پنجم میں نے کہا کہ مغربی طرز کی جمہوریت دُنیا کا سب سے بڑا فریب ہے جس کا نتیجہ ہر ملک میں سرمایہ دار کی حکومت کا قیام اور پھر سرمایہ کی حکومت کی وجہ سے بنی نوع انسان کو آئے دن کی ہولناک جنگوں میں مبتلا کرنا ہے۔ اگر مغربی جمہوریت سے فی الحقیقت عوام کی حکومت مراد ہوتی تو عوام الناس غریب چونکہ ہر ملک میں اسی(۰۸) فیصدی سے بھی زیادہ ہیں، اسّی(۰۸) ممبریاں غریب کی، پندرہ ممبریاں متوسّط الحال کی اور صرف پانچ ممبریاں سرمایہ دار کی ہوتیں اور کسی ملک میں سرمایہ دار کی حکومت کا تصوّر بھی نہ ہو سکتا تھا۔ اب اس عذاب عظیم سے دُنیا کو نجات دینے کی واحد ترکیب یہ ہے کہ ہر ملک میں آبادی کو تین حصّوں غریب، متوسّط اور سرمایہ دار میں تقسم کر کے ان کے برابر تعداد کے الگ تھلگ حلقے مقرر کر دیئے جائیں۔ اُدھر چونکہ عالم فطرت (جو اس وقت سرمایہ دار کے ایک غلام کے طور پر کام کر رہا ہے) قدرتی طور پر غریب کے حلقے میں آتا ہے، عوام کا اس کو اپنا نمائندہ منتخب کرنا تھوڑی سی تبلیغ و تلقین سے ہو سکتا ہے اور دُنیا کے ہر ملک میں اس کی حکومت آسانی سے قائم ہو سکتی ہے۔ ششم سائنسدان کی دُنیا پر حکومت تمام بنی نوع انسان کو برباد کن مشغلوں سے ہٹا کر صحیفہ فطرت کی تسخیر کی طرف یکسر متوجہ کر دے گی اور اس ترکیب سے ایجادات انتہائی تیزی سے شروع ہو جائیں گی بلکہ انسانی آبادی کی بے پناہ کثرت سے جو انسانی صحت کے متعلّق نئی نئی ایجادات معلوم ہونے کے باعث واقع ہو گی اور بطور نتیجہ وسائل زمین کے اسی طرح پر جلد از جلد ختم ہوتے جانے سے کشمکش حیات جس قدر زیادہ اور شدید ہو گی اسی قدر انسان کو زمین سے باہر کی زمینوں کی طرف مجبوراً رخ کرنا پڑے گا۔ پھر اس تگ و دو میں جو کرئہ ارض سے باہر کی زمینوں پر قبضہ کرنے کی وجہ سے پیدا ہو گی انسان اپنی بنائی ہوئی مشینوں یا اور ذرائع سے جو اُس وقت تک پیدا ہو چکے ہوں گے ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں آسمان کی طرف رخ کرتا جائے گا۔ ہزاروں اور لاکھوں انسان اس عظیم الشّان کوشش میں ضرور ہلاک ہوں گے لیکن کشمکش حیات کی شدّت کے باعث باہر کی نو آبادیات میں بسنے کے قابل بن جانے کے لیے اُس کے اعضا میں لا محالہ انقلاب اور ارتقا پیدا ہونا شروع ہو جائے گا۔ مثلاً ٹانگیں یا ہاتھ یا اور ایسے انسانی اعضا جو مشینی تگ و دو یا اور ذرائع کی وجہ سے بیکار ہو چکے ہوں گے رفتہ رفتہ ختم ہوتے جائیں گے حتیّٰ کہ جنسی شہوت بھی (جو فضائی تجربوں سے ثابت ہوا ہے کہ زمین سے اوپر چارمیل کی اونچائی پر ہی ختم ہو جاتی ہے) ختم ہو جائے گی اور انسان کی جنسی تفریق بالآخر معدوم ہو کر رہے گی۔ مرد اور عورت کا امتیاز ختم ہو جانے کے بعد انسان اپنا سلسلہ توالدو تناسل پھر اُسی طرح قائم کرے گا جس طرح کہ ادنےٰ ترین حیوانوں میں آفرنیش حیات کے ابتدائی زمانوں میں تھا، اور اُس کا تمام کائنات پر چھا جانے کا ولولہ یہ گوارا نہ کر سکے گا کہ وہ نو ماہ کے تکلیف دہ انتظار کے بعد پیدا ہو۔ پھر اس کی پیدائش ابتدائی حیوانی خلیّے کی طرح ایک لخت دو حصوں، پھر چار، پھر آٹھ حِصّوں میں تقسیم ہو جانے سے ہو گی حتیّٰ کہ وہ اس کثرت توالد سے تمام کائنات پر حاوی ہونے کی کوشش کرے گا اور یہ کوشش اس کے قادرِ کُل اور حاویکُلّ ہونے کی ابتدا ہوگی۔ الغرض تسخیر فطرت کی اس عظیم الشّان جدّوجہد میں جس میں اس کو ارب در ارب میلوں کی دوریوں تک چشم زدن میں پہنچنے اور پوری کائنات پر حاوی ہونے کے لیے اپنے گوشت پوست کے سب اعضا کو خیر باد کہنا پڑے گا کچھ عجب نہیں کہ ارتقا یافتہ انسان صرف رُوح ہی رُوح بن کر رہ جائے اور اس روحانی حالت میں وہ رفتہ رفتہ اس خلاق عظیم کا مماثل بنتا جائے جو اس کائنات کا باعث اوّل ہے۔ ہفتم انسانی ارتقا کی اس حالت میں کہ اس کی نسل تمام کائنات کے گوشے گوشے پر حاوی ہو گی اور انسان اپنے سمع و بصر اور ذہن کے ذریعے سے تمام کرئہ ہائے آسمانی پر قابض ہوگا، وہ اس کا اہل ہو گا کہ فاطر زمین و آسمان اس سے مساویانہ حیثیّت سے ملاقات کرے۔ انسان کی اپنے ربّ سے یہ ملاقات جس کو قرآن میں لقائے ربّ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے فی الحقیقت تخلیق کائنات کے مقصد کی تکمیل کے طور پر ہو گی۔ بالآخر اس روز کہ فاطر السّموات والارض کروڑوں اور اربوں برس کے ارتقا اور لاکھوں اور کروڑوں برس کی انسانی جدّوجہد کے بعد سلام علیکم طبتم (۹۳/۸) (یعنی تم پر سلام ہو تم نے جو کچھ کیا عمدہ کیا) کے الفاظ سے ہاتھ سے ہاتھ ملا کر انسان کا خیر مقدم کرے گا، وہ دہشت ناک، عبرت انگیز اور ہیجان خیز ملاقات ہو گی ؛ اس کی عظمت اور اُبّہت سے زمین و آسمان کا یہ کروڑوں برس پہلے کا بنایا ہوا کارخانہ ریزہ ریزہ ہو کر فنا ہو جائے گا۔ اس وقت بار گاہ الٰہی کے وہ ملائک جو اُس کے عرش کو کروڑوں برس سے تھامے ہوئے تھے، بزبانِ حال پکار اٹھیں گے کہ کائنات کی تخلیق کا مقصد پورا ہو چکا! وہ انسان جس کو قرآن نے نفخت فیہ من روحی(۵۱/۳،۸۳/۵)(یعنی میں نے انسان میں اپنی روح پھونک دی) کا مصداق قرار دیا تھا، اپنی نجات و نجاح کی آخری منزل تک پہنچ چکا !فطرت کا یہ عظیم الشّان کارخانہ اُسی کے امتحان و ابتلا کے لئے پیدا کیا گیا تھا، وہ اس امتحان میں پورا اُترا !کروڑوں اور اربوں برس کا یہ دہشت انگیز تجربہ کہ بے شعور اور بے سمع و بصر خوردبینی حیوانوں سے ارتقا کیا ہوا انسان آیا الاوّل اور الاخر،الظاہر اور الباطن العزیز الجبار المتکبر خدا تک پہنچ سکتا ہے، کامیاب ہو چکا! اب یہ دونوں روحیں آپس میں مل کر ابدا لاباد تک ایک ہو چکی ہیں اس لئے اب صحیفہ فطرت کے وجود کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی!!!


میرے اس تاریخی مقالے کی اشاعت کی وجہ سے علمی دُنیا میں بیمثال ہیجان

میرے اس تاریخی مقالے نے جو اس وقت تک دس ہزار سائنسدانوں سے زیادہ کے ہاتھوں میں پہنچ چکا ہے، جو تہلکہ علمی دُنیا کے اندر دو تین سال کے اندر مچا دیا ہے، ایسا ہے کہ اس کے نتائج ہر جگہ واضح طور پر متّرتب ہو رہے ہیں۔ علمی دُنیا میں ایک ذہنی اور کرداری ہیجان فی الحقیقت برپا ہو چکا ہے۔ یورپ کی سرمایہ دار حکومتیں اس حقیقت کو جو میں نے پیش کی ہے فی الحقیقت کمیونزم سے کئی درجہ بڑھ کر عظیم خطرہ اپنی حکومتوں کے لیے سمجھ رہی ہیں اور مسلسل کوشش میں ہےں کہ اس خط کی اشاعت کو روک دیا جائے۔ مذہب کا عظیم الشّان فریب جس کے بل پر دُنیا ہزاروں برس سے آئے دن کے مقاتلوں میں لگی ہے اور کوئی تدبیر اس جہنّم سے عہدہ بر آہو نے کی نظر نہ آتی تھی، میرے اس دعویٰ سے کہ خدا کا پیغام ایک بنی نوع انسان کی طرف ایک لاکھ پیغمبروں کی وساطت سے دیا ہوا بھی ایک ہی ہو سکتا تھا، باطل ہو چکا ہے۔ بڑے بڑے عظیم الشّان پروفیسر جنہوں نے انتہائی ولولے اور یقین سے مجھے اس خط کے شائع کرنے پر مبارک بادیں بھیجی ہیں، تخلیق کائنات کے مقصد کو پا کر آمادہ عمل ہو گئے ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے کمیونسٹوں کی سائنسی برتری نے میرے اس ملاحظے کو کہ سائنسدانوں کی حکومت قائم کرنے سے دُنیا کی بیشتر آبادی صحیفہ فطرت کو دریافت کرنے کی طرف تیزی سے مائل ہو گی صحیح ثابت کر دیا ہے اور امریکہ میں سائنس کی حکومت کی جگہ سرمایہ کی حکومت نے ہی اس کو میدان سائنس میں زک دی ہے۔ مذہب کے متعلّق میں نے جو موقف اس مقالے میں اختیار کیا یہ ہے کہ تمام مذاہب اس وقت مسخ شدہ صورت میں ہیں اور ان کو یکسر خیرباد کہہ دینا انسان کی آئندہ بہتری کے لیے لازمی امر ہے۔ انسان اپنی مجموعی احمقیت کی وجہ سے ابھی تک اس ابتدائی حقیقت تک بھی نہیں پہنچا کہ ایک بنی نوع انسان کو ایک خدا کی طرف سے ایک ہی پیغام مل سکتا تھا اس لیے مذاہب عالم کا وہ کچھ بن جانا جو وہ آج کل ہیں قطعاً غیر فطری ہے۔ انسان کا خدا کی طرف سے دیا ہوا ”مذہب“ صرف دین فطرت ہے اور اس کے سوا کسی دوسرے لائحہ عمل کو اختیار کرنا انسان کی ہلاکت کا باعث ہو گا۔ انسان ایک اُمّت اسی طرح پر ہیں جس طرح کہ ہر حیوانی نوع ایک اُمّت ہے۔ اور چونکہ کسی حیوانی نوع کے افراد آپس میں ایک دوسرے سے بر سر پیکار نہیں ہوتے اس لیے انسان کا آپس میں جنگ و جدال کرنا غیر فطری ہے!
          اس مقالہ کا استدلال ہمہ تن قرآن کی بتائی ہوئی حقیقتوں پر مبنی ہے اور یہی حقیقتیں جو قرآن نے مختلف سورتوں میں جستہ جستہ آشکارا کی ہیں، دراصل بنی نوع انسان کی طرف قرآن کا پیغام ہے۔ یہی وہ عظیم الشّان صداقتیں ہیں جو قرآن کی تیئس برس کی وحی میں رسول صلعم پر آشکارا ہوئیں اور اسی نقطہ نظر سے قرآن کا یہ دعویٰ کہ تم اس طرح کی کوئی دس سورتیں ہی گھڑی ہوئی لے آ قطعی ۱ طور پر قابل فہم ہو جاتا ہے۔ قرآن کا دعویٰ کہ اس سے پہاڑ لرز جاتے ہیں، بھی اسی حقیقت کا مظہر ہے کہ اس کتاب کے اندر وہ سچائیاں بیان کر دی گئی ہیں جو انسان کی آخری فلاح و نجات کے لیے کار آمد ہیں اور وہ اس قدر بلند سچائیاں ہیں کہ انسان اُن کو اسی وقت سمجھ سکے گا جب اس میں فطرت کو سمجھنے کا شعور پیدا ہوگا۔
          قرآن کا دعویٰ کہ جن واِنس کا کوئی طائفہ مل کر بھی اس کی دس آیتوں کے برابر نہیں بنا سکتا اس وجہ سے ہے کہ قرآن نے کہہ دیا ہے کہ وہ خدا کے علم کو ساتھ لے کر اترا ہے (فاعلموا انما انزل بعلم اللہ (۱۱/۲) دوسری جگہ کہا کہ اس قرآن کو اس نے اُتارا جو زمین و آسمان کا بھید جانتا ہے۔ (قل انزلہ الذی یعلم السرفی السمٰوت والارضط )۲۵/۱ اسی نقطہ نظر سے قرآن کو ”ذکر للعلمین: ﴿۱۲/۱۱ ، ۳۸/۵ کہا یعنی تمام کائنات کے لیے نصیحت ہے، ایک جگہ سورة یوسف میں اس کو تفصیل کل شیءہدی ورحمة لقوم یومنون ﴿۱۲/۱۲ اور دوسری جگہ سورة النحل میں تبیا نالکل شیء ﴿۱۲/۱۶کہا ہے یعنی اس میں ہر شے کی تفصیل ہے، جس سے ہر سلیم الذّھن شخص سمجھ سکتا ہے کہ اتنے بڑے دعوے کے حامل ہونے سے مراد سوائے اس کے نہیں کہ دُنیا میں جو شے انسان کے لیے سب سے زیادہ اہم ہو سکتی ہے اس کا حل قرآن میں موجود ہے۔ ایک جگہ اسی قرآن کو فصلنہ علی علم: ﴿۷/۶کہا یعنی جو کچھ اس میں تفصیل دی ہے وہ ازروئے علم دی گئی ہے۔ دوسری جگہ بعد ماجا ءک من العلم ٭:(۱۳/۵) یعنی اس علم کے بعد جو تیرے پاس آیا ہے کہہ کر تمام قرآن کو یقینی علم کا نام دیا ہے۔

قرنِ اوّل اور اس کے بعد سب اسلامی تقدّم قرآن کے سچے ہونے پر کامل یقین کی وجہ سے تھا

قرآن کے ان تمام دعاوی کو جو قریباً سب کے سب مکّہ میں نازل شدہ وحی کے دوران میں کئے گئے جب کہ رسول صلعم چاروں طرف کی شدید ترین مخالفت میں محض ایک بےکس اور بے بس انسان تھے، اگر متذکرہ صدر مقالے کے ماحول میں دیکھا جائے اور جائزہ لیا جائے کہ قرآن نے کیا کیا عظیم الشّان حقیقتیں بنی نوع انسان پر واضح کیں تو لا محالہ اس نتیجے پر پہنچنا پڑتا ہے کہ اُن مٹھی بھر مسلمانوں میں جو رسول خدا کے ساتھ مکّہ میں تھے، کس قدر بے پناہ یقین قرآن کے سچ ہونے کے متعلّق تھا کہ بالآخر انہی مسلمانوں نے مدینہ جا کر دین اسلام کے عالمی غلبہ کی بنیاد اپنی جانوں اور مالوں کو قربان کر کے ڈالی اور بالآخر اُس کو اُس عروج پر پہنچا دیا کہ مسلمان قرنوں اور صدیوں تک مظفر و منصور ہو ہو کر اِس عالمی غلبہ کو وسیع تر کرتے رہے۔ قرآن کے سچ ہونے کے متعلّق یہی بے پناہ یقین تھا جس کی وجہ سے عذاب اور ثواب، جنّت اور دوزخ اور پرانی قوموں عاد اورثمود وغیرہ کی ہلاکت کے قصّوں کے متعلّق بار بار دہرائی ہوئی آیتیں، جو آج کل کے مسلمانوں کے ذہن کو پریشان کر کے اُن کو قرآن سے برگشتہ کرتی رہتی ہیں ،قرن اوّل کے کمزور ایمان والے مسلمانوں کے دلوں کو مضبوط کر کے ان میں وہ عدیم المثال اور محیر العقول بہادریاں اور ولولے پیدا کرتی تھیں جن کی مثال تاریخ میں موجود نہیں۔ قرآن کے متن کا ایک کافی بڑا حِصّہ اس قطع کی آیتوں پر مشتمل ہے اور چونکہ آج کل کا رسمی مسلمان، اوّلاً قرآن کو بے یقینی اور شک کی نظر سے دیکھتا ہے، ثانیاً اس کو معلوم نہیں رہا کہ یہ آیتیں کس ماحول اور کس ضرورت کے ما تحت بار بار نازل ہوتی تھیں۔ثالثاً وہ ان بلند ترین سچائیوں کو جو قرآن میں بطور ”علم“ اور ”زمین اور آسمان کے بھید“ اور تمام کائنات کے لیے نصیحت“ اور ہر شے کی تفصیل“ کے طور پر پیش کی گئی ہیں، علی الحساب پڑھ کر اور ناقابل فہم سمجھ کر اُن سے گزر جاتا ہے اس لیے وہ قرآن سے کوئی مستقل اثر نہیں لیتا بلکہ ان آیتوں سے حرکت قبول کرنا تو درکنار، وہ اور بدظن ہو جاتا ہے۔ آج ہر رسمی مسلمان کی قرآن سے اس قدر بدظنّی ہے کہ وہ عذاب و ثواب اور جنت اور دوزخ اور پرانی قوموں کی ہلاکت کی سزائیں قرآن میں بار بار پڑھ کر اس زعم میں رہتا ہے کہ یہ سب کی سب ”عرب کے منافق مسلمانوں اور کافروں“ کے بارے میں نازل ہوئی تھیں، ان کا اطلاق آج کل کے ننانوے فیصدی رسمی مسلمانوں پر نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو دائرہ اسلام میں داخل ہو کر ”پختہ مسلمان“ بن چکے ہیں، اور اسی لئے قرآن قابلِ توجہ نہیں رہا کیونکہ اس میں ثواب و عذاب کے ایک ہی مضمون کو بار بار دہرایا گیا ہے اور اس میں کوئی شے ایسی نہیں جو ذہن میں انگیخت اور دلوں میں ہیجان پیدا کر سکے!

علامہ عنایت اللہ خان المشرقی
﴿از تکملہ جلد اول صفحہ ۵۰ تا ۵۷