Pages

Time

تمہید حدیث القرآن --- علامہ المشرقی

تمہید حدیث القرآن
            دین اسلام کو عِلم اور حقیقت (یعنی سائنس) کے بلند درجے تک پہنچانے کے لئے میری آواز جو قرون اولیٰ کے عملی اسلام کے بعد روئے زمین پر غالباً پہلی آواز تھی تذکرہ کی پہلی جلد تھی جو ۱۹۲۴ءمیں شائع ہوئی۔ اس جلد میں مَیں نے واضح کیا کہ قرآن حکیم (جو اپنے الفاظ کے لحاظ سے قطعی طور پر محفوظ ہے) اُمّتوں کے عروج و زوال کا ایک عالم آرا قانون ہے جو سب قوموں پر حاوی ہے اور پہلے مذاہب بھی اِسی قانون کے ابتدائی ٹکڑے تھے جو وقتاً فوقتاً خدا کی طرف سے انسانی شعور ٭کے مختلف مراحل میں انبیا کی وساطت سے بنی نوع انسان کو دئیے گئے۔ اس نقطہ نظر سے سب انبیاءکا پیغام ایک اور مسلسل تھا اور اس کا مقصد انسانی قوموں کو ان کے زمین پر قائم رہنے کا قانون بتدریج واضح کرنا تھا۔
یہ قانون تذکرہ کی پہلی جلد کے عربی اور اردو دیباچوں میں بالاجمال ظاہر کر دیا گیا تھا اور اس کا علمی ثبوت ناقابل انکار دلائل کے ساتھ بقیّہ جلدوں میں موجود ہے۔ قرآن حکیم کی تعلیم کا یہ حِصّہ ہر صاحب نظر کے لئے ایک حیرت انگیز انکشاف ہے جس کی قدرو قیمت ابھی تک انسان نے اس لئے نہیں سمجھی کہ مذہب کو آج تک انسان نے اِن معنوں میں نہیں لیا اور نہ قرآن حکیم کے بار بار دعاوی کے باوجود کہ ”خدا کی الکتٰب“ جو بھیجی گئی تھی ”عِلم“ تھی، خدا کے پیغام کو کسی قوم نے عِلم یعنی حقیقت اور سائینس سمجھا۔ اگر یہ ہو جاتا تو مذہب بھی اَور علوم فطرت کی طرح حقیقت کے بلند درجہ حاصل کر لیتا اور سب دنیا اسی ایک حقیقت پر باقی علوم کی طرح متفق ہو جاتی بلکہ مذہب کے متعلق فرقہ بندی اور تعصّب بھی قطعاً دور ہو جاتے۔ قرآن میں وما تفرقوا الا من بعد ما جآءھم العلم بغیا بینھم ط :( ۴۲/۲)کا محاکمہ ہے۔ یعنی ”انسان نے آپس میں بغاوت کر کے عِلم (اور حقیقت) کے آنے کے بعد بھی گروہ بنا لئے“ اور یہی تاکید بار بار ۴۵/۲، ۳/۲، ۱۰/۱۰ ، ۱۱/۱۰،۲۶/۲میں ہے لیکن سورۃ ہود میں حسب ذیل حیرت انگیز آیت تمام دنیا کے انسانوں کے ”ایک اُمّت“ ہونے اور اُن کی وحدت مذہب کے متعلق ہے جس میں صاف طور پر کہہ دیا ہے کہ بنی نوع انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا کہ ایک اُمّت بن کر رہے اور اگر ایسا نہیں ہو گا تو تمام مخلوقِ خدا سے جہنّم کو بھر دیا جائے گا۔
ولوشآءربک لجعل الناس امة واحدة ولا یزالون مختلفینoلا الا من رحم ربکط ولذالک خلقہمط وتمت کلمة ربک لاملئن جہنم من الجنة والناس اجمعینo : ( (۱۰/۱۱)
(ترجمہ: اور اگر خدا اپنی مرضی کے مطابق کرتا تو ضرور بنی نوع انسان کو ایک اُمّت بنا دیتا لیکن انسان (اپنی مرضی کے مالک ہو کر) ہمیشہ اختلاف ہی کرتے رہتے ہیں الاّ وہ لوگ جن پر خدا کی رحمت ہو اور اسی وحدت کے لئے خدا نے انسان کو پیدا کیا (اور اگر یہ نہ ہوا تو) تیرے خدا کا قول پورا ہو کر رہے گا کہ میں ضرور جہنم کو تمام جن و انس سے بھر کر رہونگا)
             ایک دوسری جگہ ہے:۔
ولوشآءاللہ لجعلکم امة واحدة ولکن یضل من یشآءویہدی من یشآءولتسئلن عما کنتم تعملونo:  (۱۶/۱۳)
(ترجمہ) اور اگر خدا اپنی مرضی کرتا تو ضرور تم کو ایک اُمّت بنا دیتا لیکن وہ جس کو مناسب سمجھتا ہے گمراہ کر دیتا ہے اور جس کو مناسب سمجھتا ہے ہدایت دیتا ہے اور تم ضرور اپنے عملوں کے متعلق پرسش کئے جا گے)۔
            الغرض اگر مذہب امتوں کے عروج و زوال کا قانون ہے تو مذکورہ بالا آیات سے ظاہر ہے کہ اس (عِلم) کو پورے طور پر سمجھنا کس قدر اہمّ شے ہے اور روئے زمین پر انسان کا ایک اُمّت ہو جانا اور مذہب کے بارے میں اختلاف نہ پیدا کرنا ازروئے قران کس قدر ناگزیر اور اس کا انجام کس قدر خوفناک ہے۔ آج اسی اختلافِ اقوام کے باعث جس قدر جلد جہنّم انسانوں سے بھرا جا رہا ہے ہر صاحب نظر پر واضح ہے اور اگر دنیا نے مذہب کو (عِلم) سمجھ کر سب قوموں کو ایک مذہب پر متحّد نہ کیا تو اس جہنّم کی آگ کا روز بروز تیز تر ہوتے جانا اٹل ہے۔
            لیکن وحدتِ اُمّت یا بالفاظ دیگر وحدتِ مذہب کا مسئلہ ایک بڑا کٹھن اور مشکل مسئلہ ہے جس کا حل زمین کی ترقی کے اس مرحلے میں قریباً نا ممکن نظر آتا ہے۔ قران کو قانون خدا ماننے والی اُمّت کا فرض سرِ دست اتنا ہے کہ اپنی امت کے اندر سب قسم کے تفرقے مٹا کر اسی طرح کی اُمّت بن جائے جیسی کہ قرونِ اولیٰ میں تھی اور اس کے بعد اپنی طاقت میں نمایاں ہو کر اتحّادِ عالم کی دعوت مسلسل طور پر تمام اقوام عالم کو دیتی رہے بلکہ تمام اقوام پر اپنی مادی قوت اور عمل کے زور سے (غالب) آکر رہے اور (لیظھرہ علی الدین کلہ) کی مصداق بن جائے، جس واحد غرض کے لئے آخری رسول بھیجے گئے تھے۔ ھو الذی ارسل رسولہ بالھدی ودین الحق لیظھرہ علی الدین کلہ : (۵/۹)۔ قرآن کی تعلیم کے اس حِصّہ کی تشریح (تذکرہ) کی چھ ابتدائی جلدوں میں ہے لیکن قران حکیم کی ”پوری کہانی“ اس قانونِ عروج و زوال کے علاوہ اَور شے بھی ہے اور وہ شے کائنات کی پیدائش کا آخری مقصد انسان پر واضح کرنا ہے تاکہ انسان اپنی دنیاوی ترقی کے آخری مرحلوں تک پہنچ سکے اور کائنات جہاں کی اس عظیم الشان چیستاں کا حلّ سامنے آجائے۔ قرآن عظیم کا پیغام ظاہر ہے کہ اس ہدایت کے بغیر مکمّل اور آخری نہیں ہو سکتا بلکہ یہی وہ پیغام ہے جو قران حکیم کی تعلیم کا جزوِ عظیم ہے جیسا کہ آگے چل کر واضح ہو جائے گا۔
            قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں پر قران حکیم کی تعلیم کا لبّ لباب اس قدر واضح اور منطقی طور پر روشن تھا کہ وہ قرنوں تک اِسی دُھن میں لگے رہے کہ خدا کی زمین کو خدا کے ماننے والوں سے پُر کر دیں۔ یہ ولولہ اس قدر دلوں میں گرمی پیدا کرنے والا تھا کہ غلبہ دین اور جہاد بالسّیف کے قرانی حکم کے بالمقابل انسانی جان کی قدرو قیمت نہ رہی تھی۔ اسی وحدت اُمّت ، جہاد بالسّیف، اطاعتِ امیر، اور ایمان بالاخرة کے یقین نے دین اسلام کو لمحوں کے اندر اندر روئے زمین پر غالب کر دیا اور قریب تھا کہ بنی نوع انسان کی روئے زمین پر پیدائش کا واحد مقصد بھی پورا ہو کر رہے۔ اُدھر قدم قدم پر قران حکیم کا صحیفہ فطرت کے بے مثال طلسم کی طرف توجّہ دلانا اور اسی فطرت کو واحدبرحق شے قرار دینا قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کو جوق در جوق (علم فطرت) کی طرف لے جا رہا تھا اور انہوں نے لمحوں کے اندر اندر دنیا میں صحیح اور یقینی عِلم کی بنیادیں ڈال دیں بلکہ دنیاوی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کے لئے کئی نئے عِلم ایجاد کئے۔ یہ دونوں منظر اگر کافی دیر تک اَور قائم رہتے تو عرب کے آخری نبی کی اُمت کے سَر ہی انسان کی نجات کا سہرا رہتا مگر بہت جلد مسلمانوں کی بے راہ روی اور مفّسرین اور عوام کی غلط بینی قران نے اس شرف کو مسلمانوں سے چھین لیا اور مغرب کی قومیں جو اُس وقت تک اہل عرب کی چار سو برس کی تدریس و تعلیم اور مسلمانوں کے عالم آرا غلبے اور حصولِ علم سے متاثر تھیں، قانون خدا کو مضبوط پکڑنے میں خود کامیاب ہو گئیں، اور قران حکیم کی جلالی اور جمالی تعلیم کے دونوں سرے مغرب نے مسلمانوں کے ہاتھ سے چھین لئے!
آج چونکہ قرنہا قرن کی بدعملی اور ناراہ بینی کے باعث صرف قران حکیم کی کتاب کے اوراق مسلمان کے پاس رہ گئے ہیں اور قران کا ماحول موجود نہیں رہا، مسلمان قران کے بارے میں عجب پریشان ہے۔ ایک طرف اس کے سامنے اسلاف کے حیران کن عملی اور علمی کارنامے اور دوسری طرف کتاب خدا کی عجیب و غریب ”پریشان خیالی“ بلکہ صحیفہ فطرت کی طرح کی ”بیکرانی“ ہے۔ ان دونوں باتوں پر مستزاد یہ کہ زمانہ زوال کے قرانِ حکیم کے متعلق ٹامک ٹوئیوں نے دین اسلام کی تصویر کو رنگ برنگ کر کے اس کی تمام اصلیّت مسخ کر دی ہے۔ یہ منظر اس قدر دلخراش ہے کہ مغربی اقوام کے بالمقابل جو قران کی تعلیم کا تمام لُبّ لباب اپنے وجود کے رگ ریشے میں صدیوں سے جاری و ساری کر چکے ہیں، اور حیران کن طور پر آگے بڑھ رہے ہیں، مسلمانوں کی ترقی کی کوئی گنجائش اس وقت تک باقی نہیں رہی جب تک کہ قران حکیم کی تعلیم کا تمام لُبّ لباب از سر نو چند لفظوں میں مسلمان کے سامنے پھر پیش نہ کیا جائے۔
            ”حدیث القران“ میں جس کے معنی ”قران کی بات“ ہے، میں نے قران کی تمام بات اس (نقطۃ نظر سے چند لفظوں میں کہہ دی ہے) اور تذکرہ کی ضخیم دس جلدوں سے جو چھ سات ہزار بڑے اور نہایت باریک لکھے ہوئے صفحوں پر مشتمل ہیں، مسلمانوں کو ایک حد تک بے نیاز کرنا چاہا ہے۔ مسلمانوں کی یہ فرمائش مجھ سے ایک بڑی مدّت سے تھی اور قید کی فرصت میں ہی میں نے اس کو پورا کرنا غنیمت سمجھا۔ میں نے ”حریم غیب“ ”دہ الباب“ اور ”ارمغانِ حکیم“ میں شعر زدہ اُمّت کے سامنے گا گا کر بالآخر اس چھوٹے سے باب میں اس کی توجہ اس نثر کی طرف اس لئے بھی دلائی ہے کہ وہ میرے کہے ہوئے کئی شعروں کے مفہوم کو سمجھ سکے لیکن اُمّت کے ہوشمند اور ناشعر زدہ حِصّے کو خطاب کرنا میری ان تصانیف کا اصلی مقصد ہے۔
            قران کے ہوشربا علم کے بالمقابل مغربی قوموں کا دوسری قوموں پر زہرہ گداز غلبہ اور علم کے میدان میں ان کی حیرت انگیز ترقیاں میرے نزدیک ابھی تک ہیچ اس لئے ہیں کہ میں مغربی قوموں کو ابھی تک قران حکیم کے بتائے ہوئے علم کے پاسنگ تک بھی پہنچا ہوا نہیں دیکھتا۔ مجھے یقین ہے کہ مغربی اقوام کا غلبہ اس لئے ناپائیدار غلبہ بلکہ منشائے ربّانی کے خلاف غلبہ ہے کہ اس میں انسانیت کی چاشنی موجود نہیں۔ میں دھڑلّے سے کہہ سکتا ہوں کہ مغربی اقوام کا عِلم بھی قران عظیم کے مفہوم عِلم سے ابھی تک کوسوں دور اس لئے ہے کہ اس میں اسلام کی روحانیّت کی چاشنی ہرگز نہیں۔ یہ دونوں مقام میں نے قران حکیم کی آیات میں خدا کے ایک ایک کہے ہوئے لفظ کو پوری اہمیّت دے کر مطالعہ کرنے کے بعد اختیار کئے ہیں اور اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ کیا عجب ہے کہ زمین کی نجات بالآخر پھر ”مسلمان“ کے ہاتھ سے ہی ہو کر رہے۔
            میں نے ”حدیث القران“ کو مختلف عنوانوں کے ماتحت تقسیم کیا ہے تاکہ ہر عنوان کے ماتحت قران حکیم کا مقام اس کے اپنے کہے ہوئے چند لفظوں میں واضح ہو جائے۔ چونکہ کسی بڑی تفصیل یا تشریح کی گنجائش نہیں رکھی، لازم ہے کہ حدیث القران کے مطالعے میں قران کے کہے ہوئے ایک ایک لفظ کو پوری اہمیت دی جائے اور مسلمان صرف ان لفظوں پر اور ان آیتوں کے مدّعا پر غور کرے۔ آیتوں پر غور کے بعد اس پورے عنوان پر غور کرے۔ پھر ایک عنوان کو دوسرے عنوان سے مربوط کرنے کی سعی کرے۔ پھر تمام عنوانوں کو یکجا سامنے رکھ کر قران حکیم کے پورے پروگرام پر غور کرے اور اس نتیجے پر پہنچے جس پر حدیث القران کے اخیر میں پہنچنے کی کوشش کی گئی ہے۔
            میں نے قران کی صرف دو سورتوں یعنی سورۃ سجدہ ۳۲ اور سورۃ جاثیہ ۴۵ کا مربوط ترجمہ حدیث القران میں پیش کیا ہے۔ مجھے حرص تھی کہ کئی سورتوں کا ترجمہ بالخصوص سورۃ بقرہ کا مربوط ترجمہ پیش کرتا اور اپنے دعوے کی دلیل میں تمام قران کو نہ صرف مربوط بلکہ قران کے متعلّق اسکے اپنے دعوے کو قطعاً ناقابلِ ردّ کر دیتا، لیکن پھر وہ ”مختصر بات“ نہ رہتی جو مدِّنظر تھی۔ یہ سورۃ بقرہ وہی ہے جس کا مطالعہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے آٹھ برس میں کیا تھا۔ اسی نقطہ نظر سے میں نے جو کچھ کہا نہایت سادہ الفاظ میں اور کہانی کے طور پر کہا کہ باتوں باتوں میں قران سمجھ میں آجائے۔ مقصد صرف اس قدر ہے کہ قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی ادنیٰ سی عملی اور علمی آگ پاکستان کے زوال یافتہ مسلمان میں پیدا ہو جائے اور وہ آگے بڑھنے کے قابل ہو۔ یہی امید ہے جو مجھے کھینچے لئے جا رہی ہے اور کیا عجب ہے کہ ایک گروہ یہاں یا کسی اَور اسلامی ملک میں پیدا ہو جائے۔
            حدیث القران کی تصنیف از اوّل تا آخر قید خانہ میں ہوئی۔ ۳۰ مئی ۱۹۵۱ءکو اُسے شروع کیا گیا اور دورانِ رمضان میں ہی ۱۹ جون ۱۹۵۱ءتک (یعنی کل ۲۰ دنوں میں) اس کا اکثر حِصّہ ختم ہو چکا تھا۔

۲۵ نومبر ۱۹۵۲ء                                                                             عنایت اللہ خاں المشرقی
تمہید حدیث القرآن صفحہ ۴ تا ۸