Pages

Time

عربی مقالہ افتتاحیہّ کسفُ منَ السماءِ“ آسمان کا ٹکڑا - علامہ المشرقی

ترجمہ عربی مقالہ افتتاحیہّ ” کسفُ منَ السماءِ“ آسمان کا ٹکڑا
مطبوعہ ”الاصلاح“۱۴ دسمبر۱۹۳۴ء
اے آجکل کے ”شریعت“ پر چل کر ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے والے مسلمانوں! اور اے آپس میں بنے ہوئے ”مومنو“ اور ”مسلمو“ جو اس ادّعا میں مگن ہو کہ سلف صالحین کی پیروی کررہے ہو، اُن کے قدموں پرچل کر رشد “اور ہدایت“ کے حامل ہو، اللہ کے بیٹے بنے بیٹھے ہو اور اس گمان میں ہو کہ دنیا جہاں کو چھوڑکرخدا کی دوستی تمہیں ہی میسرہے۔ نہ اُن نصاریٰ یہود اور ہنودوغیرہم کو جو اُس کے غضب میںآکرگمراہ ہوچکے ہیں! دیکھو تمہا ری دنیا خراب ہوگئی، تمہا رے ملک اجڑ گئے، تمہا ری بزرگی فنا ہوگئی۔ تمہاری دولت چل بسی، حکومت اور سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔ تمہاری روشنی اور بیداری کو اُچک لیا گیا، اس نے تم کو ایسا ہلاک کر مارا کہ اب صرف کہانیا ں رہ گئیں، تم ہلاکت کے گڑ ھے میں گرگئے اور تمہا رے نقش و اثر زائل ہوچکے، دنیا میں بیکار عضو، اور مجلس میں بند گلے بن کر رہ گئے۔ اب موت اور نیند سے بے حس ہو اور کسی طرف تمہا ری چیخ کی شنوائی نہیں۔ کیا تم اس گما ن میں ہو کہ تم ان خدا کے بندوں کی جو تم سے پہلے گزر چکے پیروی “کررہے ہو کیا تم اُن کی تقلید کے دعویدار ہو! حالانکہ ہم کو حرف بحرف اُن بندگان ِخدا کا حال معلوم ہے جو تم سے پہلے ہو گزرے۔ تاریخ کے صفحات اُن کے اعمال اور حسن وجمال سے پر ہیں، دنیا تمامتر اُن کی تھی، علم ور نوراُن کا تھا، جاہ وجلال اُن کا تھا، وہ اپنی صائب رائے کے باعث دنیا جہاں کے دشمنوں سے بے خوف وخطر تھے، ہر بربادی اور ہلاکت سے اپنے آپ کو بچاکر رکھتے تھے، وہ عظیم الشان سلطنتو ں پر حکمران تھے۔ قدرت کے عجائبات اور اور کا ئنا ت فطرت کے اکثر سازوسامان اُن کے دست ِ قدرت میں تھے، وہ اُن سے نفع طلب کرتے تھے اور لوگوں کو نفع پر دیتے تھے تاریخ بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ انھوں نے اس سطح زمین پر ڈنکے کی چوٹ کہا کہ بتاؤ ”آج سلطنت کس کی ہے“ غلبہ اور وقار کس کا ہے۔ حمیت قومی اور حمایت کس قوم کی ہے؟ وہ فرمابرداری اور عمل کے مجسمے تھے، صرف کہہ دینے اور خیالی پلاؤ پکانے سے نفرت کرتے تھے۔ ان کے ایمان کی تصدیق اُن کے سراپا عمل اور اطاعت سے تھی خدا کے حکموں کی تاویلیں کر کے مکر نہیں کرتے تھے۔ وہ فرما نبردار اور اطاعت گزار دل کے ساتھ اکی طرف آتے تھے۔ دوزخ کی آگ سے لرزجاتے تھے، اکی راہ میں وہ جہا د کرتے تھے جو کرنے کا حق ہے۔ اُس کے قانون کو اپنی طاقت کی حد تک پکڑے رکھتے تھے۔ اسے ان کی بستگی، خوشدلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ تھی، ان کے زھرہ گداز اور روح فرساعمل کے باوجود اُن کے خوش بخوش چہرے اس بات کی زندہ شہادت تھے کی خدا نےصرف اُن کے لئے دین میں کوئی تنگی نہ رکھی تھی۔ وہ اُس کے دیئے ہوئے انعاموں کو لپک لپک کر پکڑے تھے اور مفیدِقوم کاموں کی طرف بڑھ بڑھ کر قدم مارتے تھے۔ مستقبل کی طرف اُن کی آنکھ لگی تھی اور درجوں کی بلندی کے لئے قبلہ نماکی تڑپ اُن کے دل میں تھی۔ ہاں! غلبہ اور سلطنت کا نورُ ان کے آگے دوڑرہا تھا“ ﴿قرآن۔ اور بادشاہت کی دلہن غلاموں اور لونڈیوں کی طرح اُن کا پیچھاکرتی تھی! تو دیکھ لو کہ اس دُلہن کو غلام اسی قوم نے بنایا جو آپس میں رحمدل ﴿رحماءُ بینھم اور کافروں پر بڑے سخت، ﴿رَاَشدّاءُ علےَ الکفار تھے۔ ﴿قرآن حکیم اور یہ سچے ّمسلمان ہونے کی برکت تھی ورنہ”اگر تم تمام زمین کے خزانے خرچ کر ڈالتے تو ان کے دلوں میں یگانگت پیدانہ ہوتی۔ وہ ایک حاکم یعنی اکے صحیح معنوں میں غلام بن گئے تھے اور اسی آقاکے خوف کے باعث اُن کے دل جڑ گئے﴿قرآن حکیم۔
ہاں اے آجکل کے رسمی مسلمانو! مجھے بتلاؤ کہ کیا آج تم سب پر غالب ہو اور پھر کہ تم بتلاؤکہ کیا تم مومن ہو؟ تمہا رے پہلے مسلمانوں کے ساتھ جو ہر دم آگے بڑھ رہے تھے کیا جوڑ اور رشتہ ہے؟ نہ تم اسُ طرف جا رہے جدھر وہ جارہے تھے، نہ اسُ طرح لپکتے ہو جیسے وہ لپکتے تھے۔ تم زمین پر آگے کہاں بڑھ رہے ہو، کھڑے معلوم ہوتے ہو، نہیں بلکہ نیچے کی طرف گررہے ہو، اور کسی طرف اگر تمہارے بڑھنے کے عنوان ہیں تو اس دردناک عذاب کی طرف جو تمہارے لئے مقرر ہوچکا ہے۔ یا د رکھو کہ آگے بڑھنے والے ہی میدان مارتے ہیں، وہی ہیں جو خداکے منظور ِنظر ہیں، اور صرف وہی مومن ہیں، جب تم بڑھتے نہیں تو لامحالہ غیر تم سے بازی لے جاتے ہیں۔ دنیا تمہاری خر اب ہوچکی ہے تو یاد رکھو کہ آخرت میں بھی تمہاری رسوائی اور خواری ہے۔ تم راہِ راست سے بھٹک گئے بلکہ خود آنکھیں بند کرلیں اور اب اس طرف آنے کی سکت نہیںرہی۔ تم نے اسُ سبق کو بھلا دیا جو کبھی تم کو خوب یاد تھا پس خدا بھی تم تمہیں بھول گیا۔ اوردنیا سے ملیا میٹ نسیًامنسیًا کردیا ۔ ہاں تم خدائے جبار سے بگڑے، پھر خدابھی تم سے بگڑ بیٹھاحالانکہ اسُ نے کہہ دیا تھا کہ ”مومنوں کو فتح دینا میرے ذمے ہے“۔ پھر اس سبق کو بھولنے اور نافرمانی کے بعد تم نے اُورغضب کیا کہ اپنے دل کو ڈھارس دینے کےلئے دینِ اسلام کوجو سراسرعمل اور اطاعت تھا لفظوں اور عقیدوں اور قولوں اور نظریوں کی شکل دیدی۔ اسکے عملوں، اس کی مشکلوں، اسکے فعلوں اور کاموں سے پینٹھ موڑ لی، اور صرف عقیدے رکھنے والے، کلموں کے بولنے والے، بک بک کرنے والے، بول بول کر آسمان کو سر پر اٹھانےوالے ”مومن “بن گئے۔ پھر کیا تھا کہ خدا کے کلام کوجس طرح بھی جی میں آیا توڑ موڑ لیا۔ جو مطلب چاہا پیدا کرلیا، دین سے سب تنگیاں اور مشکلیں نکال پھینک دیں، آہستہ آہستہ ایک تشریح سے دوسری تشریح کی طرف لے گئے اور ان سب باتوں کو جو دین کے اندر سراپا عمل بن کر اور تکلیف میں رہ کر حاصل ہوتی تھیں چھوڑدیا۔ اب کیا تھا ، خدا کے حکم کو مخول سمجھنے لگے، دین کو کھیل بنالیا، اسُ کے معنیٰ اور مطلب بدل دیئے۔ ذراذراسی باتوں کو جو آسان نظر آتی تھیں بڑا کردکھایا، بڑی باتوں پر جن پر عمل مشکل تھا جا ن بوجھ کر اور مکر سے ہضم کرگئے اب لگے” دین میں غلوُکرنے، قرآن کے بعض حصوں کو مانتے اور بعض جو تکلیف دہ تھے درِ پردہ انکار کرتے“ ﴿قرآن حکیم اور ساتھ ساتھ مومنوں سے کہتے جاتے تھے کہ ہم سب کو ”مانتے “ہیں۔ ہم اس کے حرف حرف کے ”قائل“ ہیں۔ پھر تم نے یہودیوں کی طرح قرآن کو ”مختلف “پرچوں پر لکھ لیا، جس کاغذ میں مطلب کی بات تھی اس کو خوب شوق سے ظاہر کرتے، جس میں طبیعت کے خلاف بات تھی اُس کو چھپاتے“﴿قرآن حکیم اور یہ اس لئے کہ اپنے نفس کو دھوکہ دو اور خدا کو اس طرح اپنا بناسکو۔ تو اے آج کے مسلمانو جو اس دھوکہ میں ہو کہ ہم ”ایمان “ والے اور” مومن “ ہیں۔ تم اپنے مونہوں سے وہ بات کیوں کہتے ہو جس کی دل شہادت نہیں دیتا اور کیونکر منہ سے عقیدہ رکھتے ہو جو کرتے نہیں۔ یاد رکھو کہ ”کہنا اور پھر اس کے مطابق نہ کرنا گناہِ کبیرہ ہے“ ﴿قرآن حکیم۔ ہاں تم نے مکر کیا لیکن ادھر اااپنی چال چل رہا تھا اور اچال چلنے والوں کے بالمقابل بہترین چال چلنے والا ہے ﴿قرآن حکیم۔ ”تم سے پہلے بھی لوگوں نے خدا سے اسی طرح کے مکر کئے تو انے ان کی دیوار جڑ سے اکھاڑ پھینکی، پھر اوپر سے ان پر چھت آگری اور اُس طرف سے اُن کو عذاب آیا جس طرف سے اُنکو سان گمان بھی نہ تھا “﴿قرآن حکیم۔ کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ صرف منہ سے ایمان ایمان کہہ کر چھوڑ دیئے جاؤگے اور تمہا را کوئی امتحان نہ لیا جائے گا۔ یا د رکھو کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو خدا نے آزمائش کے بغیر نہ چھوڑا تھا اور یہ اس لئے تھا کہ خد ا جھوٹوں اور زبانی جمع خرچ کرنیوالوں کو سچوں اور عمل سے اپنے قول کی تصدیق کرنے والوں سے الگ کردے “﴿قرآن حکیم ۔ اور یاد رکھو کہ لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اپر ایمان لے آئے اور روزِ قیامت کی سزا سے ڈرگئے لیکن وہ ہرگز مومن نہیں ﴿قرآن حکیم۔”کیا تم نے سمجھ لیا کہ خدا کو منہ سے مان کر جنت میں جا داخل ہوگے حالانکہ ابھی تک تو خدا نے دیکھا ہی نہیں کہ تم میںسے کو ن تلوار کے ساتھ لڑائی کرکے استقلال کے ساتھ دشمن کو شکست دیتے ہیں“ ﴿قرآن حکیم۔ تو اے مسلمانو! ان تمام قرآنی اور نصی شہادتوں کے بعد صاف ظاہر ہے کہ تم اپنی مصیبتوں کو رفع کرنے کےلئے استقلال سے کو ئی لڑائی نہیں لڑتے بلکہ آنکھوں سے تک رہے ہو، جہاد نہیں کرتے بلکہ جم کر بیٹھے ہو، باتیں کرتے ہو اورکام نہیں کرتے، اپنے انتہائی مکر اور حیلہ بازی سے اس بات کی گواہیاں قرآن سے ڈھونڈتے پھرتے ہو کہ قرآن نے تمہیں ”دنیا “ کی طرف توجہ کرنے سے منع کیا ہے، اس کی زیب و زینت سے نفرت دلائی ہے اور تم تو آخرت “کے خواہاں ہو دنیا کو کیوں ڈھونڈو۔ تو اے کم عقلو! مجھے یہ بتلاؤ کہ اگر تم یہاں اس دنیا میں سب سے گھاٹے میں رہے تو آخرت میں تمہیں کیا مل سکتا ہے؟ یا د رکھو تم نے دنیا سے نفرت کاسفید جھوٹ اُس وقت ایجاد کیا جب دُنیا خودبخود تمہاری غفلتوں کے باعث تم کو چھوڑ گئی جب تمہارے تحریف کردہ دین نے تمہاری کچھ بھلائی نہ کی، جب خدا نے تمہیں بدحال کردیا، تمہارے گناہوں پر پردہ پوشی چھوڑدی۔ پھر تم نے قرآن کی ایک ایک آیت کے کئی ٹکڑے کئے۔﴿(قرآن عظیم۔ اور اس کے مضامین کو الگ الگ کرکے مکر اور دہوکے کی کئی باتیں اپنی طرف سے گھڑلیں۔ اُس کے فقروں کو اپنے نفس کی تسلی کےلئے”ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ رکھ دیا ﴿قرآن عظیم۔ اور ریا کرکر کے خدا کے کلام کو غیر مفید بنادیا۔ پھر تم نے اپنے معاملے کے آپس میں حصے کر لئے اور اب ہر فرقہ اُس ٹکڑے میں جو اسُ کے پاس ہے مست ہے۔“ ﴿قرآن حکیم۔ بھلایہ تو بتلاؤ کہ یہی دنیا ہمارے پہلے مسلمانوں پر کیوں عاشق تھی اور وہ کیوں عاشقوں کی طرح اس کو ہر ملک میں تلوار ہاتھ میں لے کر ڈھونڈتے پھرتے تھے؟ کیوں دنیا انُ کی طرف جھکی اور وہ عاشقوں کی طرح اُس سے کیوں گتھم گتھاہوگئے؟ جو اب دو کہ رسول خدا کو ہدایت اوردین دے کر کس غرض، کس مطلب، کس مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا؟ کیا یہ نہ تھا کہ ”اسِ دین کو تما م دنیا کے دینوں پر غالب کردے خواہ کا فروں کو براہی کیوں نہ لگے“ ﴿قرآن حکیم۔ اچھا یہ بتلاؤ کہ قرآن میں کس غرض کےلئے کافروں سے تلوار کی لڑائی کا حکم تھا؟ روپیہ اور جانو ں سے جہاد کرنے کاکیا مقصدتھا؟ وطن کو چھوڑ کر ہجرت کی ترغیب دینے سے کیا منشاتھا؟ ماہِ رمضان میں بھوکا رکھنے سے خداکو کیا فائدہ تھا؟ تم کو پنج وقتہ مسجد میں جمع کرنے سے خداکی کیا بگڑی بنتی تھی؟ تما م دنیا کے مسلمانوں کو سال میں ایک جگہ حج کرانے سے اکا کیا سنورتاتھا؟ زکوٰةکو ایک جگہ بیت المال میں جمع کرنے سے زمین وآسمان کے مالک خداکا کیا فائدہ تھا؟ تمہیں آپس میں اکٹھے رہنے یک دل اور یک جان بننے کی کیوں تلقین کی تھی؟ تمہیں اپنے سردار کی فرمابرداری پر کیوں باربار زور دیا تھا؟ تمہیں کیوں کہاتھا کہ خدا کے قانون کو مضبوطی سے پکڑے رہو؟ کیوں کہا تھا کہ شیطان کے کہے پرنہ چلو؟ انصاف سے بتاؤ کہ کیا ان تمام حکموں کی غرض سوائے اس کے کچھ اور ہوسکتی تھی کہ خدا تم ہی کو اس دنیا کے اندر غالب کرکے بادشاہ بنانا چاہتا تھااور چاہتا تھا کہ تمہاری جماعت کے دشمن شکست کھاجائیں۔ اچھا غور کرو کہ تمہا رے پہلے خلیفوں یعنی خلفائے راشدینکا دن رات کیا وطیرہ تھا تمہارے شروع شروع کے بادشاہ شب روز کیا کیاکرتے تھے؟ تمہارے تلوارو ں اور تیروں سے لیس جہا د کرنے والے سپاہی کس طرح ہردم ڈٹے کھڑے تھے؟ تمہا ری فوجیں اور گھو ڑوں کی چھاؤنیاں کہاں کہاں پہنچی ہوئیں تھیں؟ جاؤ تاریخ پڑھو۔ کیا ان تما م کی غرض سوائے اِس کے کچھ اَور تھی کہ تمہاری دُنیابھی درست ہو اور یہ کہ تم اس کے بعد ”زمین پر بے خوف خطر پھرو“ ﴿قرآن عظیم۔ اِس دنیا ہی کے اندر گھاٹے میں نہ رہو اور دنیا میں سرخروئی کے بعد تم کو آخرت میں سرخروئی حاصل ہو! تواے مسلمانو ! کیا اس روشن اور نور دینے والی کتاب ﴿قرآن حکیم کی تما م آئتیں کسی اور قوم کے لئے تھیں اور تم کو ان پر عمل کرنے کی کچھ تکلیف نہ دی گئی تھی؟ اچھا تم لاڈلوں کے لئے اب صرف یہ رہ گیا ہے کہ کلمہ شہادت کے چار لفظوں کو پڑھ لیا کرو، شرعی داڑھیاں حجام سے بنوالو، پیچدار بڑے بڑے پگڑ باندھ کر مسلمان بنے رہو اور جنت کا انتظار کرو۔ خوب! تم انتظار کرو میں بھی دیکھ لو ں گا کہ تمہیں جنت کیسے مل جاتی ہے۔

خوب ! قرون ِ اولیٰ کے مسلمانوں کے لئے خد ا کی طرف سے بیٹیاں“ تھیں اور تمہارے لئے بیٹے؟ خوب! تمہیں بغیر تکلیف کے جنت اور ان کے لئے جانکاہ تکلیفیں جب تک اس دنیا میں تھے اور سراسر مصیبت، رنج اور گھاٹا؟“ انہیں کہہ دو کیا میں تمہیں صاف بتاؤں کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنی بدکاری کی پاداش میں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہیں گے۔ وُہ لوگ ہیں جن کی کوشش اس دنیامیں ناکام رہی۔ جن کی مستیوں اور آرام جان نے اُن کی دنیا تباہ کردی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہم جو کچھ کررہے ہیں خوب کررہے۔ یاد رکھو کہ یہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے حکموں کے کافر ہوگئے، روز قیامت کو اپنی بدکاریوں کی جوابدہی سے منکر ہوگئے۔ پھر انُ کے تمام باقی عمل بھی ضائع ہوگئے اور ہم قیامت کے دن اُن کی پرکاہ جتنی پرواہ نہ کریں گے۔ انُ کی سزا اسِ کفر کے بدلے جہنم ّ ہے کیونکہ انہوں نے میرے حکموں اور میرے پیغمبروں کو مخول سمجھا ﴿قرآن عظیم۔ تو اے مسلمانو وہ مکر جو لومڑی نے ان انگوروں سے کیا تھا جن تک اس کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے تھے، تم کیوں کرتے ہو! وہ انگوروں کو کہتی تھی کہ کھٹے ہیں اور تم دنیا کومردار کہتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اس کی چٹکی کے برابر پرواہ نہیں کرتے۔ کیا یہاں اس دنیا میں روزِآخرت کے حاکم کے سوا کوئی اورحاکم حکومت کررہا ہے، اور کیا اس عذاب کو جو تم پر ہے خداکے سوا کوئی اور بھیج رہا ہے۔ پس کیوں اس دین کی توڑمروڑ کرتے ہو۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے خود ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جاتے ہو! آؤ آج سے قرآن پر عمل شروع کردو پھر دیکھو خداکی رحمت کیا رنگ لاتی ہے۔
﴿عنایت اخان المشرقی
﴿14دسمبر1934






مقالہ اسلام کی عسکری زندگی - علامہ المشرقی


مقالہ اسلام کی عسکری زندگی
قوموں کا زوال و جمود

مسلمانو ! تم پچھلے کم از کم تین سو برس سے بھولتے گئے ہوکہ اسلام کی فاتحانہ زندگی کی بنیاد کیا تھی؟ تم نے بھلا دیا کہ اسلام کیا تھا اور کیوں دنیا میں غالب تھا ؟اٹھارویں صدی کے شرو ع میں تمہاری ہوا ہندوستان میں اکھڑی لیکن تم نے نہیں سمجھاکہ تمہارے بارہ سو برس پہلے کے اسلام سے کیا چیز گم ہوگئی ؟ قومیں جب گرنے لگتی ہیں تو ان کے افراد پر اسی قطع کی بیہوشی طاری ہوجاتی ہے ۔ گرنے والے سمجھتے ہیں کہ اُبھرے ہوئے ہیں ۔ مرض الموت کا مریض بھی صحتیاب ہونے کی آس لگائے رکھتا ہے ۔ مرض  اس کے جسم کے ڈھنچر کو کھائے جاتا ہے ۔ لیکن اُمیدبندھی رہتی ہے کہ حکیم کی دوا اِس کا مقابلہ کرلے گی ۔ لیکن گرتی ہوئی قوم کا اپنے مرض سے باخبر ہونا تو درکنار، وہ صحت اور طاقت کے نشہ میں سرشار ہوتی ہے۔ اُسے دوا اور علاج کی نہیں سوجھتی، وہ سمجھتی ہے کہ اُس کا صفحہ ہستی سے مٹ جانا ناممکن ہے۔ اُسکا مقابلہ کوئی خدائی طاقت نہیں کرسکتی۔ اِسکی ہرچال اور ہر چلن ٹھیک ہے۔ رُوما کی عالم آراسلطنت کا زوال اُس روز سے شروع ہُوا، جب روما کے شہر اور روما کی سلطنت کو" غیرفانی" قرار دیا گیا۔ جب روما کے رہنے والے اپنی طاقت کے نشے میں بیہوش ہونے لگے، جب طاقت کااحساس غرور اور دھوکہ میں تبدیل ہوگیا! ہاں مرض الموت کے مریض کی آس درست اس لئے ہے کہ وہ اپنے مرض کا مقابلہ حکیم، علاج اور دوا سے کررہا ہے۔ لیکن گرتی ہوئی قوم کی آس ایک نرا دھوکہ اور محض فریب ہے۔ کیونکہ اس کو اپنے مرض کی مطلق خبرنہیں، وہ اپنے مرض کو آسان سمجھ رہی ہے۔ حکیم اورعلاج کی پروا نہیں کرتی اور دوا کی روک ٹوک کے بغیر ہلاکت کے جہنم کی طرف اپنے ہاتھوں گھسِٹ رہی ہے!

اِصلاح یافتہ اور دُرست ہونے کے فریب نے مسلمانو! تم کو تین سو برس تک مدہوش رکھا۔ تم نے اِس اثنا میں کچھ اپنے حالت کی طرف نہ دیکھا کہ کیا سے کیا بنتے گئے؟ کچھ اپنے نفس کا جائزہ نہ لیا کہ کیاکیاورغلاتا رہا؟ بالاآخر جب سلطنت کا زوال اٹل ہوگیا اور قضاوقدر کے کارکنوں نے ہندوستان کی بادشاہت کا انعام تم سے مکمل طور پر چھین لیا تو تمہیں اپنی اصلاح محسوس ہوئی۔ پہلی آواز آنے لگی کہ مسلمانو! "درست "ہوجاؤ "اپنی چال" اور"اپنا چلن" ٹھیک کرلو۔ اپنا اسلام درست کرو "پکے مسلمان بن جاؤٔ۔ خدا تمہارے رویے سے ناراض ہے اس کو پھر راضی کرنے کی تدابیر اختیا ر کرو۔ خداکا مسلمان سے بہتری کا وعدہ ہے"۔

مصلحین کی غلط تدابیر

لیکن اس سو برس کی مدہوشی اور خواب ِغفلت نے آہستہ آہستہ تمہارا باوا آدم اِس قدر بدل دیا کہ تمہیں اورتمہارے مصلحوں کو تمہاری اگلی مسلمانی کی تصویر کچھ یاد نہ رہی تھی ۔اس وقت تک کچھ معلوم نہ رہا تھا کہ "درسُت" ہونا کیا شے ہے پکے مسلمان ہونا بننے کے کیا معنی ٰ ہیں ۔  "اسلام کو درست" کرنے کا مطلب کیا ہے ۔مسلمان میں اُس وقت تک یہ تخیل مٹ چکا تھا کہ دنیا میں غالب بن کررہنا ہی اسلام ہے ۔اسلام صرف چند رسوم کا مجموعہ رہ گیا تھا ۔ سعی وعمل کی جگہ قسمت اور تقدیر نے لے لی ۔ اتحاد وعمل کی ہو ا اُکھڑچکی تھی ۔ جہدووعمل توکل کے غلط مفہوم سے بدل چکا تھا ۔غلامی کی زنجیروں نے بلند نظری مفقود کردی تھی ۔ نماز ، حج ، زکوٰۃ ، سب عالم انگیز اعمال اجتماعی اور سیاسی سطح سے گر کر انفرادی اور شخصی اعمال بن چکے تھے ۔ دین اور سیاست کے میدان الگ الگ ہوچکے تھے ۔ مولوی اور "عالم دین" نے سلطنت کو مسلمان کے ہاتھ سے چھنتی دیکھ کر اپنے زعم میں مذہب کو بربادی سے بچانے کے لئے دلوں میں غلط ڈال دیاتھا کہ "دنیا " یعنی سلطنت مُردار شے ہے۔ اور اس کا طالب کتا ہے۔ عیش کوشی اور تغافل ، بزدلی،اور نامرادی ، بے خبری اور جہالت نے مسلمانوں کی بودوباش ، شکل وشباہت بلکہ وضع قطع میں وہ عظیم الشان انقلاب پیدا کردیا تھا کہ مُسلمان کے پاس تلوار بلکہ کسی لازمۂ طاقت کا ہونا ،اس کی مذہبی آن کے خلاف سمجھا جاتاتھا۔الغرض اس دگرگوں حالت میں قومی مصلح جو ق د رجوق نمودار ہوئے ۔امت کے حکیم تاریخ خوان ضرور ہوں گے ، مگر تاریخ دان ہرگز نہیں تھے انگریز کی چالوں سے ناواقف ، انگریز کی زبان سے نابلد ، انگریز کے چلن اور طبیعت سے بے خبر المختصر نہ دوا کے ماہر ،نہ زہر سے آشنا نہ مریض کے نباض ، نہ مرض کی خبر ۔ انہوں اُمتِ اسلام کو پہلی بلندی پر پہنچانے کیلئے کئی علاج تجویز کئے ۔ کسی نے دعاؤں اور عقیدوں کو درست رکھنے پر زور دیا کسی نے دین اسلام کے متعلق بحثوں ، مناظروں ، فرقہ بندیوں اورآپس میں کفر کے فتوں کو عروج حاصل کرنے کا باعث سمجھا ۔ کسی نے کہا کہ مسلمان کو پہلے عروج پر پہنچانے کے لئے سکولوں اور کالجوں کی تعلیم ضروری ہے۔ کسی نے نظام پیدا کرنے کی عبث خواہش میں انجمن سازی تجویز کی ۔ کئی ایک قوم کی مستقل مرثیہ خوانی میں لگ گئے کہ قوم کے جذبات ابھریں ۔ کئی ایک نے چندہ جمع کرنا زوال ِ قوم کا علاج سمجھا ۔ ایک طبقہ عورتوں میں اسکول کی تعلیم نہ ہونے کو باعث ِ زوال سمجھتا رہا۔کچھ رہنما، انگریزی ملازمتوں کے حصول کو کامیابی کی کلید  بتاتے رہے ۔ کچھ انگریزی طرز ِ معاش اختیا ر کرنے کے دل دادہ ہوگئے ۔ کچھ اصلاح رسوم میں مشغول ہوگئے الغرض سلطنت کے زوال کے بعد قوم کو عروج تک پہنچانے کی تجویزیں اس قدر نارسا اور پھسپھسی تھیں ، کہ قوم آج تک غلبہ کی کسی منزل تک پھر نہ پہنچ سکی۔ ہندوستانی مسلمانو ں کا زوال آج دو سو برس کی اسلام فراموشی اور تقریباًسو برس کی غلط تدبیروں کے بعد اس قدر درد ناک اورمکمل ہوچکا ہے کہ اب حکیموں اور چارہ گروں سے مؤدبانہ طور پر طور پر رخصت ہوکر مریض کو خود اُس اصل اور نبوی اسلام کی طرف رجوع ہونے کی ضرورت ہے جس نے ۲۳ برس کے اندر اندر عرب جیسی اُجڈ اور کفر ونفاق سے بھری قو م کو دنیا کے بڑے حصے پر غالب آنے کا اہل بنادیا تھا۔

مسلمانوں کی اصلاح مذہب کی طرف رجوع سے ہے

مسلمانو ! ہادی اسلام کا قول ہے کہ آگے چل کر اسلام کی گری ہوئی امت انہی باتوں پر عمل کرکے پھر ابھر سکے گی ، جن پر چل کر میرے وقت کے لوگ ابھرے تھے ۔ یہ حدیث اس امر کی تسکین ہے کہ مسلمان کا علاج صرف اسلام ہے ۔قرونٰ اولیٰ کے کافر وں نے جب تک کفر نہ چھوڑا اُبھر نہ سکے ۔ اور جب تک آج کے مسلمان کفر چھوڑ کر پھر اسلام اختیار نہ کریں گے، اُبھر نہ سکیںگے لیکن بڑا جھگڑا اس بات پر ہے کہ اس " پھر اسلام اختیا ر کرنے کے معنیٰ کیا ہیں؟ آ ج کا مسلمان کلمۂ شہادت، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور عبدالرحمان ہوتے ہوئے اس بات سے انکاری ہے کہ وہ اپنے کفر کے باعث گررہا ہے۔ اُس کو آج کا کافرِاسلام کہنا اُس کے تن بدن میں آگ لگادیتا ہے اُس کو معلوم نہیں رہا کہ تین سو برس پہلے اسلام کے اِن پانچ رکنوں کا رنگ اور تھا اور اِنکی باندھی ہوئی ہوا اور تھی۔ اُ س کلمۂ شہادت میں خدا کے خدا ہونے کی گواہی ہردم اور صاف نظر آتی تھی۔ اُس نماز، اُس روزے، اُس حج، اُس زکوٰۃ میں مسلمانوں کی شیرازہ بندی اور اجتماعی قوت کو ایک نظام میں لانے کی وہ عظیم الشان طاقت عیاں تھی کہ کالجوں اور اسکولوں، انجمنوں اور مرثیہ وانیوں، چندوں اور عقائد پر فرقہ بندیوں، بحثوں اور مناظروں کے نہ ہوتے ہوئے مسلمان ہندوستان کی وسیع سلطنت کے مالک تھے۔  اُس عظیم الشان حکو مت کے ہر شعبے کو حسنِ تد بیر اور خوبی ٔ انتظام سے خود سنبھالتے تھے۔ آج کا مسلمان اگر ایک انجمن ایک کالج ایک سکول، ایک عقیدہ، ایک بحث کو سنبھالنے اور اپنے پسند کردہ ایک علاج کوبروئے کارلانے کے قابل نہیں رہا تو اِس کی وجہ یہ ہے کہ وُہ تین سو برس پہلے کے اسلام کی صحیح تصویر کوجو ہندوستان میں نظر آتی تھی بھول چکا ہے!

دین اسلام سپاھیانہ زندگی کے مترادف ہے

مسلمانو ! اگر تم اپنی آنکھ سے پٹی ہٹاکرغورکرو تو سمجھ سکتے ہوکہ ہمارے باپ دادا نے اگر دُنیا میں ایک ہزار برس تک دھڑلے سے بادشاہت کی، اگر ہمارے آباؤاجداد نے ہزاروں میل سے آکر ہندوستان کی سلطنت پر کئی حملوں کے بعد قبضہ کیا۔ اگر قرونٰ اولیٰ کے مسلمانوں نے ۱۲ برس میں ۳۶ ہزار شہر اور قلعے فتح کئے۔ ا گردینِ اِسلام کے پہلے دعویدار بلاناغہ ایک دن میں نونو شہر اور قلعے فتح کیا کرتے تھے ، تو اُس اسلام اور آج کے اسلام میں زمین وآسمان کا فرق ہوگا۔ غور کرو کہ کیا سلطنتوں کو فتح کرنا ہاتھوں اور پیروں کے بے پناہ اور متواتر عمل کے بغیر ہوسکتا ہے؟ کیا بہادری، بے خوفی، آپس میں کامل محبت، سردار کی مکمل فرمابرداری، تلوار چلانے کے ہنر میں کمال ہزاروں میل کے پیدل سفربرداشت کرنے کی قابلیت، بھوک اور پیاس پر صبر، میدان ِجنگ میں مارنے اور مرنے کی تمنا ، الغرض مکمل سپاھیانہ قابلیت حاصل کئے بغیر ہمارے باپ دادا چھوٹے سے چھوٹا قلعہ فتح کرسکتے تھے؟ کیا اُس زمانہ کے مسلمانوں کو ادنیٰ سی فرصت بھی کسی عقیدے پر بحث کرنے یا کسی انجمن اور اسکول بنانے کے لئے ملتی تھی؟ کیا عرب جب تک دنیا کو زیر نگیں کرتے رہے کسی کالج یا سکول یا یونیورسٹی سے پڑھ پڑھ کر فتح کرتے رہے؟ کیا یہ سب کے سب سپاہی جنہوں نے دنیا کی حکومتیں زیرو زبر کردیں، پانچ نمازیں نہیں پڑھتے تھے؟ تیس روزے نہیں رکھتے تھے؟ حج کو نہیں جاتے تھے، زکوٰۃ ادا نہیں کرتے، کیا اِن کو اپنی روزی کی فکر نہیں تھی،کیا ان کی تجارتیںنہ ہوتی تھیں ،کیا وُہ سب کے سب بیوی ،بچے ،باپ بھائی، عزیز اقارب نہ رکھتے تھے، کیا ان کی" مجبوریاں "اور مصروفیتں نہ ہوتی تھیں ۔کیا اِن سب فرائض کے ادا کرلینے کے بعد اُن کا دِن رات کا عمل یہ نہ تھا کہ تلوار ہاتھ میں لے کر زمین پر قبضہ کریں ۔کیا خاوند سے بیوی کی اِس طرح کی محبت ہوتی تھی جو آج کل ہے۔ کیا بیٹا اِسطرح باپ کو گلے لگائے رکھتا تھا ، جیساکہ آج ہر گھر میں ہے۔کیا مسلمانوں کی کروڑوں روپیہ کی تجا رتیں اُن کو اِس طرح نا کارہ اور اپاہج کردیتی تھیں، جس طرح کہ آجکل ایک چھوٹی سی دکان مسلمان کو کردیتی ہے۔کیا مسلمانوں کی اپنی لاکھوں روپیہ کی جائیدا اُس کے اعضاء کو اِس طرح شل کر دیتی جس طرح کہ ایک بوریے کی محبت آج اوسط مسلمان کو کردیتی ہے، نہیں کیا اُس وقت کے مسلمان نماز، روزہ، حج، زکوٰاۃ ادا کرنے بعد اپنے اسلام پر اسی طرح  مطمعین اور مغروُر (یعنی دھوکہ کھائے ہوئے) تھے جس طرح آجکل کے مسلمان ہیں۔ نہیں کیا اِسی نماز، روزہ، حج زکوٰ ۃ، کا عملی نتیجہ سپاہیانہ زندگی نہ تھا۔ کیا نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اسی سپاہیانہ زندگی کو پیدا کرنے کے اوزار نہ تھے۔ کیا ہر مسلمان نماز پڑھنے کے بعد یہ نہ سمجھتا تھا کہ خدا مسلمانو ں کو ایک صف میں کھڑا کرکے سپاہی بناناچاہتا ہے۔ اپنے آگے جھکا کر غیر سے باغی کرنا کرنا چاہتا ہے۔ اپنا سجدہ کراکر بیوی اور بچوں ، مکانوں اور باغیچوں بوریوں اور چیتھڑوں کے آگے سجدہ کرانا نہیں چاہتا، نماز میں یکساں حرکتیں کراکر سب کو یک عمل اور متحد کرنا چاہتا ہے۔ کیا روزہ رکھ کر مسلمان اُس وقت نہ سمجھتا تھا کہ یہ روزہ رکھنے کی عادت کسی قلعہ کو فتح کرنے کے دن کام آئے گی۔ زکوٰۃ دینے کے وقت یہ نہ جانتا تھا کہ یہ روپیہ تلواریں اور توپوں پر خرچ ہوگا۔ حج جاتے وقت یہ نہ جانتا تھا کہ دُنیا کے تمام مسلمانوں کی کانفرنس پر عام مسلمانوں کی کسی بگڑی بنانے، مسلمانوں کی عالمگیر شوکت کا اندازہ کرنے، یاکفرکیخلاف کسی بڑی سازش میں شریک ہونے کیلئے جارہاہوں۔ حضرت امام مالک کے والد اٹھارہ برس تلوار لے کر گھر سے کئی سو میل دور اسلام کی لڑائیاں لڑتے رہے۔ مالک رخصت کے وقت کوئی دس بارہ برس کے ہوں گے۔ اِس اٹھارہ برس کی مدت میں ماں کی تربیت اور تعلیم نے حضرت کو بغداد کا قاضی القضاد کردیا۔اٹھارہ برس کے بعد اِس کے مجاہد والد نے گھر پہنچنے سے پہلے جمعہ کی نماز بغداد کی جامع مسجد میں پڑھی۔ قا ضی القضاد کا جلال دیکھا کہ ہزاروں آدمیوں کا مجمع اُس کے گرد دم بخود بیٹھا تھا، لیکن خبر نہ تھی مالک اُس کا بیٹا ہے۔ نماز ادا کرکے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ بیوی نے اٹھارہ برس تک خاوند کو نہ دیکھاتھا۔ اِس لئے دروازے کی درز سے نہ پہچان سکی بالآخرخاوند نے کئی ایک پتے دے کر بیوی کو دروازہ کھولنے پر راضی کیا۔ کچھ دیر کے بعد پوچھاکہ مالک کہاں ہے۔ ماں نے فخر یہ جواب دیا کہ نماز جمعہ ادا نہیں کی اور اپنے قاضی القضاد بیٹے کے جلال کو دیکھ کر نہیں آئے۔ باپ یہ سن کر شُشدر رہ گیا۔ واپس مسجد میں گیا اور جب گھنٹوں کے بعد لوگوں کا ہجوم کم ہوا تو رعب وجلال سے خوف کھاتے ہوئے بیٹے سے بلغلگیر ہوا،اور دونوں آبدیدہ ہوگئے!

اسلام کا پہلانقشہ

مسلمانو! اِس ایک خاندان کی زندگی پر غور کرو کہ مسلمان کسی زمانے میں کیا تھے ؟ سوچو کہ باپ کو اِسکے سو ِا دُھن نہ تھی کہ اپنی زندگی تلوار کے جہاد میں صرف کرے ۔ماں ایسی حوصلہ مند تھی کہ خاوند کی غیر حاضری کو اٹھارہ برس تک محسوس نہ کیا ۔اِس پائے اِس درجے اور دھڑلے کی عورت تھی کہ بیٹے کوبہترین مقام پرپہنچا دیا ۔باپ کو اسلام کے مقابلہ میں بیٹے کی کچھ پرواہ نہ تھی۔ ماں کی عظمت اُس کی عفِت اور پاک دامنی اُس کی اولاد کے متعلق فرض شناسی ،اُس کا خاوند کی غیر حاضری میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا ،اُس کا خاوند کی راہ میں روک نہ ہونا ،بیٹے کا باپ کی غیر حاضری میںماں کے حکم کے تابع رہنا ۔الغرض ایک ہزار سال پہلے کے اسلام کی ایک تصویر اس چھوٹے سے قصے سے عیا ں ہے۔باپ کا عمل، ماں کا عمل ، بیٹے کا عمل ، سب کچھ اِس چھوٹی سی تصویر سے ظاہر ہے ۔ آج یہ افسانہ اس لئے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کا تخیل بگڑچکا ہے ۔ مسلمانی کی تصویر کسی کو یاد نہیں رہی ۔ مسلمانی آج اس میں ہے کہ باپ ،ماں ،بیٹا ، سب کے سب ایک دوسرے کی نامناسب محبت میں پھنس کر تمام اعضاءکو شل کردیں ۔قوم کے لئے کوئی مفید کام نہ کرسکے، سب کے سب "مُردار " دنیاکے پیچھے کتوں کی طرح لگ جائیں تاکہ سلطنت ، حکومت اور غلبے کا آخری نشان مٹ جائے۔"دنیا " فی الحقیقت مُردار ہے ، کیونکہ اس کا طلب کرنے والا بے کار ہو ہو کرمُردہ ہو جاتا ہے ۔ قو م کو مُردہ کردیتا ہے ۔ مسلمان آج دنیا کا طالب اس قدر ہے کہ ایک چیتھڑے اور بوریے کی محبت ، بیوی اور بچے کا ایک چھوٹا سا عذر ، نفس کا ایک ادنیٰ سا" بہانہ" ،اُسکے تمام اعضاءکو حرکت سے روک دیتا ہے ۔ مسلمان کو دنیا کی سلطنت آج اس لئے نہیں ملتی کہ وہ دنیا کا طالب بے حد ہے ۔ چو بیس گھنٹے اِس "مُردار" کی طلب میں ہے، دنیا اسی قوم کو ملتی ہے جو دنیا کی عاشق نہ ہو ۔ زندہ قومیںزندہ اس لئے ہیں کہ اُن میں خد اکے تکلیف دِہ حکموں کے سوا کسی شے کی محبت نہیں ہوتی ۔اِن میں مال ودولت ، فرزند وزن ، جاہ وغرض کے بُت اکثر نہیں ہوتے۔ وُہ صرف خدا کو "مانتی ہیں۔ خدا کے سوا کسی کے حکموں کو نہیں مانتیں۔ قرآن نے صاف کہہ دیا تھا کہ مسلمانو! تمہارے مال اور اولاد صرف ایک فتنہ ہے۔ ہم انہیں دیکر آزماتے ہیں کہ تم اِن کی محبت میں کس قدر پھنستے ہو۔ ورنہ یادرکھو کہ ہم دنیا میں عروج اُسی قوم کو دیں گے جو اِن کی محکو م نہ ہو۔ میری محکوم، میری غلام، اور میری تابع فرمان بنکررہے!

قرون اُولیٰ میں مسلمانوں کی سپاہیانہ زندگی

         لغرض جوں جوں اسلام کی تلاش میں پیچھے ہٹتے جاؤگے، مسلمان کی سپاہیانہ زندگی دینِ اسلام کا سب سے بڑا جزو نظر آئے گا ۔ مسلمان کے متعلق معلوم ہوگا کہ سر سے پاؤں تک ہر وقت کسارہتاتھا۔ تلوار اس کے زیب تن رہتی تھی ۔قرآن اس کی بغل میں ہوتا تھا۔ خدا کے سوا سب شے اس کے سامنے ہیچ اور ناقابل ِاطاعت تھی، کسی ماسوا سے لگاؤ نہ تھا ، تمام مسلمانو ں سے خداواسطے کی محبت تھی۔ ہر ایک پر نیک گمان تھا ۔ مال، اولاد، ماں، باپ، زن وزرسے صرف اِس لئے لگاؤ رہا تھا کہ قوم کی ترقی کے راستے میں حائل نہ ہوں۔ نفس کو ادنیٰ سا آرام نہ دیتا تھا۔ محنت اور مُشقت کا عادی تھا۔ حیا سے غیر اور غیر کے مال پر آنکھ نہ اٹھاتا تھا، اپنی جان کو اسلام کی حفاظت کے بالمقابل  بے قدراور قیمت سمجھتا تھا۔ بادشاہت اور حکومت اُس کی تھی۔ اس لئے شاہ نظر اور شاہ کرم ہُو ا کرتا تھا۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج کو تمام دنیا سے جنگ کرنے کا اوزار سمجھتا تھا، تمام دنیا کی حکومت حاصل کرنا اسکے پیش نظر تھا۔ یہ سبق تھا جو ہادی اسلام اور اس کے لائے ہوئے قرآن نے مسلمان کو براہ راست دیا۔ یہی خدائے عظیم کے آخری رسول کی ۲۳ برس کی مکی اور مدنی اور زندگی کا ماحصل تھا۔ یہی اُسوۂ رسول تھا۔ یہی مذہب اور دین تھا۔ اِسی مذہب، چلن اور اخلاق کے پیدا کرنے کے لئے رسولؐ بھیجے گئے تھے ۔ قرآن نے صاف اور غیر مشکوک الفاظ میں اعلان کردیا تھا کہ رسول  ؐ کو ہدایت اور دین ِ حق دے کر صرف اس غرض وغایت کے لئے بھیجا گیا کہ اس دین کو تمام دنیا کے دینوں پر غالب کردے ۔خواہ یہ روئے زمین پر چھاجانا کافروں کو بُراکیوں نہ لگے۔

ھُوالؑذِی ارُسل رسُولہ' بالھُدیٰ ودِینِ الحؑقِ لِیُظھِرہ علی الدِؑیُن کُلِؑہ ولوُکرہ الُمشرِکُون

کیا قرآن کریم کی اس نصریح کے بعد دین ِاسلام کی ماہیت کے متعلق کوئی شک باقی رہ سکتاہے؟

قرآن کی صحیح تعلیم

اگر یوم میلادِ النبی کودُنیا کے آخری پیغمبر کی سیرت پر کوئی غور و خوض نتیجہ خیز ہوسکتا ہے تو مسلمانو! اِس امر پر غو ر کرو کہ اس پیغمبر کی تعلیم کیا تھی ؟ اس کا لایا ہوا مذہب کیا تھا ؟ مذہب سے ہر انسان کی تمام زندگی کا لگاؤ ہے ۔ ہندو ، سکھ ، عیسائی ، پارسی ،بدُھ وغیرہ وغیرہ سب اسی اُلجھن اور معمے میں اپنی زندگی گزارہے ہیں کہ اُن کا مذہب سچا ہے ۔ سب کے سب فرضی اطمینان میں ہیں کہ جو کچھ کررہے ہیں ٹھیک کررہے ہیں۔ لیکن مسلمان تمہارا پیغمبرکی سیرت کا ایک ایک لفظ واضح ہے تمہارے پیغمبرکا چھوٹے سے چھوٹا عمل تاریخ کے اوراق پر صاف لکھا ہے ۔ تمہارے سامنے قرون ِ اولیٰ کے مسلمانوں کی عملی زندگی روشن حروف میں لکھی ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبرکے وصال کے بعد تمام دنیا میں چھاگئے تھے۔ ان کا منتہا کئی سو برس تک یہی رہا کہ دُنیا کی تمام اقوام پر غالب آجائیں۔ تمہارے قرآن کے ایک ایک ورق پر صاف لکھاہے کہ "مومن وہی ہے جو اپنامال اور اپنی جان جہاد بالسیف کرنے کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ تمہا رے قرآن میں جنت حاصل کرنے کی صاف شرط دشمن سے میدان جنگ میں لڑنا لکھی ہے۔ تمہارے پیغمبرؐ نے اپنی زندگی میں دشمنوں سے کئی غزوے کئے ۔ اِن غزووں میںوہ بذاتِ خود خود شریک ہوئے۔ میدانِ جنگ میں خود سب سے آگے رہتے۔ قرآن کریم نے میدان ِ جنگ میں شریک نہ ہونے اور عذر کرنے والوں کو جہنم کی دھمکیاں دیں۔ ایمان والوں کی تعریف صاف الفاظ میں کردی کہ میدانِ جنگ میں لڑنے کو مومنوں کے ایمان کا کافی ثبوت قرار دیا ہے''کفی اُالمؤمِنین اُلِقتال'۔ تین چوتھائی کے قریب قرآن جہاد بالسیف اور فتح وظفر کے مذاکروں سے پر ہے۔ تمہا رے نبیؐ کا قول ہے کہ میدانِ جنگ میں ایک رات بسر کرنا ستر برس کی عبادت کے برابر ہے۔ کیا قرآن وحدیث اور تاریخ اسلام کی ان صریح شہادتوں کے بعد تم اپنے مذہب کو معمہ سمجھتے ہو۔ دینِ اسلام کے متعلق دلوں میں شک پیدا کرتے ہو کہ وہ کیا تھا ۔ مذہب کے متعلق اختلاف رائے کرکے فرقہ بندیاں پیدا کرتے ہو؟ مذہب سے انسان کی دلچسپی صرف اِس لئے ہے کہ ِاس پر چل کر موت کے بعد جنت ملے اور جہنم کی آگ سے نجات ہو۔ جب قرآن کے اندر صاف لکھا ہے کہ جنت اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ میدانِ جنگ میں جانیں دو، اور جہنم اُس بدبخت کے لئے ہے جو میدانِ جنگ میں جانے سے عذر کرتا رہا تو کیا پھر مذہبِ اِسلام سپاہیانہ زندگی اختیار کرنے اور اُس کو تمام عمر نباہنے کے سوا کچھ اور ہوسکتا ہے؟ کیا دینِ اسلام کے سچے اور عالم آرا ہو نے کا یہ کھلا ثبوت نہیں کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے، فتح اُسی قوم کی رہی جس نے سب سے بہتر اور اور منظم تر سپاہیانہ زندگی اختیار کی۔ خدا اُسی قوم کے ساتھ رہا جس نے مجاہدانہ وطیرہ اختیار کیا ذلت اور مسکنت اُسی قوم پر لیس دی گئی جس کی جنگی طاقتیں مفقود ہوگئیں۔ کیا دینِ اسلام اور سپاہیانہ زندگی کے معنیٰ ہونے کی یہ روشن دلیل نہیں کہ جب مسلمانوں نے سپاہیانہ زندگی چھوڑدی، جب سے مذہب کو سپاہیانہ زندگی سے اور دین کو دنیا سے الگ کردیا، خدا مسلمانوں سے ناراض ہوگیا۔ خدا نے بیدریغ مسلمانوںسے سلطنتیں چھین چھین کر دوسری جنگی قوموں کے سپرد کردیں۔ کیا اِس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سپاہیانہ  زندگی کا چھوڑ دنیا دینِ اسلام کو چھوڑ دینے کے مترادف ہے؟"

مولویوں کی تحریف دین

         مسلمانو ! بصیرت کی آنکھیں کھولو ! تمہارے پیشوا یانِ دین نے کئی برس سے صحیح اسلام کو مشکل سمجھ کرآسان اسلام اپنی طرف سے گھڑ کرلیا ہے !اب اس مذہب پر چل کر نہ کوئی دُنیوی ثواب مل سکتا ہے ، نہ اُخری نجات ۔تمہا رے قرآن کا ایک ایک ورق جہاد اور عمل سے پُر ہے۔ سورتوں کی سورتیں ہیں جن میں قتال اور میدانِ جنگ میں پیٹھ نہ پھیرنے کی ترغیب دی گئی ہے ۔ مومنوں کے متعلق کہا ہے کہ "جنت کے بدلے ان کی جان اور ان کا مال خرید لیاہے۔ تو کیا ان الہیٰ تصریحات کے بعد مولویوں کے "مومن" کی تعریف تمہارے دل کو تسلی دے سکتی ہے ؟ کیا اللہ کے اپنے کلام کے ہوتے ہوئے خدا روز قیامت کو مولویو ں کی سند پر تمہیں مومن قرار دے سکتا ہے؟ کیا یہ سند اُس روزِ جزا وسزا کو کوئی کام آسکتی؟ رسول خدا خود اپنی بیٹی کو تنبیہہ کرتا ہے کہ" روز جزا کو میری شفاعت پر بھروسہ نہ کرنا۔ اپنے متعلق قرآن میں کہتا ہےکہ مجھے یہ معلوم نہیں کہ روزِ جزا کو میرے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟" اور تم مولوی کی غلط سند پر کہ اسلام چند مسائل شرعی وضع وقطع، عقیدو ں، قولوں یا حد سے حد چند عبادتو ں کا مجموعہ ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو۔ یاد رکھو کہ اگر مذہب اختیا ر کرنے کا مدعا روزِ آخرت کو نجات ہے تو تم ان آسان اور حسبِ پسند باتو ں کے کرلینے سے خدا کی نظروں میں مسلمان نہیں بن سکتے، روزِآخرت کو اس کرتوت پر کچھ نہیں مل سکتا ۔ تم صحابۂ کرام سے زیادہ خد اکے لاڈلے نہیں ہو۔ غروہ ٔ اُحد میںجب بعض صحابہ نے کمزوری دِکھلائی اور مورچہ چھوڑ کر چلتے بنے تو خدا نے قرآن میں اِس سختی سے دھتکارا کہ اِس دھتکار کو یا د کرکے برسو ں تک حضرت عمر روتے رہے۔ جب خود خود صحابۂ کرام بلکہ رسولِ خدا کو احکام ٹالنے کی مجال نہیں تو تم اور تمہارے مولوی کس باغ کی مولی ہیں کہ اپنی سند سے قرآن میں تحریف پیدا کردیں۔ اپنے عقائد وضع کرکے عقیدوں پر لفظی طور پر قائم رہنے کو اسلام سمجھیں۔ یادرکھو کہ تمام قرآن کے طول وعرض میں "عقیدے " کا لفظ کہیں موجود نہیں، نہ اِس کا کوئی مشتق موجود ہے۔ قرآن میں صرف ایمان اور عمل صالح کے الفاظ ہیں اور جو معنی ٰ اِن الفاظ کے ہوسکتے ہیں ایک دنیا جانتی۔

قرونِ اُولیٰ کا مشکل اسلام

مسلمانو!یو م میلاد النبی کو دین اسلام سمجھنے کی تقریب بناؤٔ۔ نبیؐ کی ولادت کی سالگرہ کا مطلب یہ ہے کہ نبیؐ کو سمجھو ، نبیؐ نے ۲۳ برس تکلیفیں جھیل جھیل کر جو کچھ عرب کی کافر اور منافق قوم میں پیداکردیا تھا اس کو نہ بھولو ۔ نبیؐ نے آٹھ برس مسلسل کوشش کے بعد صرف چالیس مرد اور پندرہ عورتیں مسلمان کی تھیں اِسکو نہ بھولو۔ گیارہ برس کی شبانہ روز محنت سے صرف چند مسلمان مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے تیا ر تھے ۔ اِسکو نہ بھولو ۔ نبیؐ نے تمام عمر رنج اور تکلیف میں کاٹ کر صرف چار یا ر پیداکئے تھے ۔ اِسکو نہ بھولو نبیؐ کی مدت ا لعمر کی تکلیفوں اور زہرگداز محنتوں کے باوجود ان کی وفات کے عین بعد ہی سارا عرب نبیؐ سے برگشتہ اور دین اسلام سے مرتد ہوگیا تھا۔  اِسکونہ بھولو، جب دنیا کے سب سے بڑے انسانؐ کی تعلیم کو دنیا نے اس مشکل سے مانا اور اِس شکل سے اختیا ر کیا، توکیا دینِ اسلام ہمارے ملاوں کی بنائی ہوئی کوئی آسان چیز ہوسکتی ہے؟ کیا ہندوستان کے آٹھ کروڑ یادنیا کے ساٹھ کروڑ مسلمان صرف مسلمان کے گھرپیدا ہوکرمسلمان بن سکتے ہیں؟ دینِ اسلام یہ تھا کہ مسلمانوں کا جابراورتندخوجرنیل عمر مدینہ میں امیر المؤمنین ہے۔ امیر المؤمنین ہونے کے باوجود کھجور کے درخت کے نیچے سخت تپش میں کھجور کی چٹائی پر بیٹھا ہے۔ جسم پر لیٹنے کے باعث بدھیاں پڑی ہیں ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے چیتھڑوں کے پر تلوں میں حمائل کی ہوئی تلواریں اور کندتیروں سے مدینہ سے ڈیڑھ ہزار میل دُور، دارا وجمشید اور کیقباد کی سلطنت پر حملہ کیا ہواہے۔ روزانہ اُونٹنی سوار قاصد اور برق رفتار گھوڑوں کے شہسوار مخبر فاروق اعظم کے حضور میں میدانِ جنگ کی خبریں اور فوجو ں کی تقسیم کے احکام لینے کیلئے پہنچتے ہیں ۔ نقشۂِ جنگ زمین پر پڑا ہے ۔ عمر نماز ظہر کے بعد اِس فکر میں ہے کہ شاہِ ایران یزد جرد کو ہتھکڑی لگانے کے لئے فلاں بیس ہزارفوج کس طرف سے روانہ کی جائے۔ قاصد امیر المومنین کے جلال کے سامنے دم بخود حکم کا منتظر کھڑا ہے۔ عمر ڈیڑھ ہزار میل دور بیٹھے حکم دیتاہے کہ بیس ہزار کے فلاں دستے کوفلاں فلاں راستے سے فلاں مقام پر منتقل کرکے ہلہ بول دیا جائے۔"غور کا مقام ہے کہ یہ حکم پہنچتا ہے اورکالے کوسوں دوراِس حکم کی تعمیل اِس طرح ہوتی ہے کہ گویا عمر میدانِ جنگ میں کھڑا گھوررہا ہے۔ دین اسلام یہ تھا کہ اسی جنگ کے دوران میں قاصد نے اطلاع دی کہ مسلمانوں کے سالارِ اعظم سعد ابنِ وقاص نے ملاقاتیوں کے ہجوم سے گھبرا کر یا شاید اپنے وقار کو زیادہ کرنے کے لئے کچی ڈیوڑھی بنالی ہے تاکہ لوگ اس میں آکرملاقات کے لئے انتظارکریں ۔ ایک خبر تھی کہ سعد ؓکے بدن پر ریشمی کُرتا نظر آتاہے۔ فاروق اعظم کا چہرہ ان خبروں کو سن کر تمتمااُٹھتا ہے عین وسط جنگ میں(اوردر انحالیکہ ایران ابھی مکمل طور پر فتح نہیں ہوا تھا ) قاصد کو حکم ملا کہ سعدکی گردن میں اس کا عمامہ ڈال کر مدینہ حاضر کرو! میرے چھوٹے سے دماغ میں کئی برس تک نہ سعد کا جرم ، نہ عمر کا حکم، اس کی سزا کی نوعیت سمجھ میں آئی۔ میں سٹ پٹاتا رہا کہ الہیٰ ! اس چھوٹے سے جرم پر اتنے بڑے جرنیل کو یہ توہین آمیز سزا عین اس وقت جب کہ ایران میں مسلمانو ں کی ایک لاکھ بیس ہزار فوج موجود تھی اور ادنیٰ سی سختی بھی دو ہزار میل دور فاروق اعظم سے تمام مسلمانوں کی بغاوت کا پیش خیمہ ہوسکتی تھی۔ کئی برس کی سوچ بچار کے بعد اس ہوش رُبانتیجہ پر پہنچا کہ اِس وقت کا مسلمان، مسلمان تھا۔ پنجاب اور ہندوستان کے فتنہ ساز اور ناکارہ مسلمان نہ تھا۔ مسلمانوں میں نظام خدا کو پیشِ نظر رکھ کر پیدا ہوا تھا۔ مسلمان کا خدا اور صرف خدا حاکم تھا۔عمر اور سعدحاکم نہ تھے عمر اگر حکم دیتا تھا تو خدا کے لئے اور سعدتعمیل کرتا توخداکے لئے، مسلمان اگر دم بخود رہتے تھے تو اللہ کی رسی کو پکڑ کر۔ جب تک اسلام کے موجودہ تخیل کو دماغ سے قطعًا علیحدہ نہ کیا واقعہ قطعًا سمجھ میں نہ آیا۔ الغرض دین اسلام یہ تھا اور اس شا ن سے صفحہ ٔ وجود پر چمکا کہ دماغ کی آنکھوں کو چکاچوند کر گیا !

دین اسلام اور اطاعتِ امیر

مولوی تمہیں یہ کہکر ٹال دیتا ہے کہ یہ سب اگلے وقتوں کی کہانیا ں ہیں اور معاذاللہ صحا بہ کرام  کی ہم پلگی کا دعویٰ کیسے ہوسکتا ہے مسلمانوں ! سوچو اگر نبیؐ کریم کا لایا ہُوا مذہب یہ کچھ نہ تھا اور نرے چند عقیدے رکھ کر اور مسئلے مسائل پڑھ کر جان کاچھٹکارا ہوسکتا تھا توصحابہِ کرام کو کیا پڑی تھی کہ اِس مشکل مذہب پر چلیں۔ سعدکو کیا پڑی تھی کہ بے چون وچرا اپنے امیرکاحکم مانتا۔ ایک لاکھ بیس ہزار فوج کو کیا پڑی مجبوری تھی کہ فاروق اعظم کا حکم دم بخود سنتی اور اپنے جرنیل کی انتہائی رسوائی اِس معمولی جرم پر گوارا کرتی کہ اُس نے ریشمی کرتہ پہن لیا ہے۔ آج عام مسلمان صرف پانچ نمازیں پڑھ کر اور شرعی ڈاڑھی رکھ کر تمام باقی مسلمانوں سے بپھرا پھرتا ہے اور کسی دوسرے شخص کے اسلام کو خاطر میں نہیں لاتا۔ صرف چند سطحی باتیں کرکے باقی سارے قرآن پر عمل کرنا ضروُری نہیں سمجھتا۔ سوچو کہ اُس وقت کے سب مسلمان نمازیں بھی پڑھتے تھے پھر کیا اشد شدید مجبوری تھی کہ سب کے سب عمرکے حکم کو سنکر لرز گئے، کیا نفس پتلا کردیا تھا کہ سعد نے اتنے رُسوا کن حکم کے آگے گردن جھکادی۔ حضرت عمرکے خالد بن ولید کو عین میدانِ جنگ میں معزول کرنے کا واقعہ مشہور تاریخی واقعہ ہے۔ مسلمانوں کے سالارِ اعظم خالد بن ولید کو (خد اکی رحمت ہو اُس پر) کیا مجبوری تھی کہ میدان ِجنگ سرکرلینے کے فوراً بعد یہ اپنی کمان ابوعبیدہ کودے دی۔ خود سپاہیوں کی قطار میں شامل ہوگیا۔ اپنے نفس کو خدا اور اسلام کی خاطر اس قدر پتلا کردیا کہ آج دنیا اس تہور اور شجاعت پر دنگ ہے۔ نہیں صاف نتیجہ یہ کہ اُس وقت امیر کی کامل اطاعت دین اسلام کا سب سے ضروری حصہ سمجھاجاتا تھا۔ دین اسلام کا دوسرا نام تھا، ہر مسلمان کی گھُٹی میں رسولِؐ خدا کی ۲۳برس کی تعلیم نے یہ بات ڈال دی تھی کہ اگر مسلمان بننا چاہتے ہو تو جو حکم ملے کرو، بہر حال خاموش رہو۔ نظام میں فساد پیدا نہ کرو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ سب اِس لئے ہیں کہ تم میں یہ بلنداخلاق پیدا ہوجائے!

خاکسار تحریک میں عملی مشکلات !!

آج جبکہ خاکسار تحریک چار برس سے جاری ہے میں دربدر ایک ایک محلہ میں پھر رہا ہوں، ایک ایک تیس مار خان کے پاؤں کے نیچے اپنا سر رکھ کر اس کو آمادہ کرتا ہوں کہ خدااور رسو لؐ کے واسطے مسلمانوں کی قطار اپنے محلے میں کھڑی کرو۔ وہ میری منتوں کو دیکھ کر کچھ دیر کے لئے کھڑا ہوجاتاہے۔ جب تک منتیں کرتاہوں کھڑا رہتا ہے۔ جب کسی اورطرف چلا جاتا ہوں ناراض ہوجاتا ہے۔ اس سعی میں لگارہتا ہے کہ جھوٹ سچ میرا کوئی عیب نکال کر میرا منہ کالا کرے اور جماعت سے نکل کر چلتا بنے۔ خاکسار تحریک میں ، میں طبعًا یہ چاہتا ہوں کہ سعد اور خالد ( خواہ ادنیٰ درجہ کے ہی ہوں) پیداہوں۔ اس لئے بعض پرانے گرم وسرد دیدہ سالاروں پر کچھ سختی کرنے کا ارادہ کرتا ہوں، اِدھرمیری سختی ہوئی اور اُدھر یہ سالار اور خاکسار واویلا مچادیتے ہیں اور شرمناک الزام مجھ پر لگاکر میرا منہ کالا کرتے ہیں۔ لاہور کے ایک پرانے سالار نے ابھی ابھی مجھ پر وہ شرمناک اور نرِا جھوٹا الزام لگایا اور اُ س کی وہ تشہیر کی کہ میں اس کے موجدِ فساد نفس کی داد دئیے بغیر نہ رہ سکا۔ یہ ِاس لئے کہ اس سالار کو نماز کے وقت کی پابندی کے لئے سختی سے کہا گیا تھا۔ الغرض یہ مسلمان کا اخلاق اور آج کل کا اسلام ہے۔ خاکسار تحریک میں کئی برس منجھ کر بھی ابھی ہمارے سالار نہیں سمجھے کہ اسلام کیا ہے۔ مجھ میں حوصلہ اس لئے ہے کہ:

"باد ہمیں مردماں بیاید ساخت"

کو پیش نظر رکھ کر چلاجا رہا ہوں ۔ خدا تیئس برس نہ سہی پچاس برس کے بعد کچھ نہ کچھ بناکر رہے گا۔


قرآن کا اصلی اور نبوی ؐاسلام

الغرض مسلمانو ! اگر اس دنیا میں اپنی گذشتہ عظمت اور بادشاہت کو پھر لینا چاہتے ہو۔ اگر آگے چل کر روزِقیا مت کو کسی قسم کے ادنیٰ ثواب کے منتظر ہو تو قرآن کو خود دیکھ کر نئے سرے سے مسلمان بنو۔ قرآن خوش قسمتی سے وہ کتاب ہے جس کا آج تک ایک حرف نہیں بدلا معمولی سا اردو ترجمہ لو جس پر کسی مولوی یا ملا کسی مفسر یا محدث کی کوئی حاشیہ آرائی نہ ہو۔ صرف اس بات کو مدِنظر رکھو کہ قرآن حکموں کی کتاب ہے، عقیدوں اور مناظروں کی کتاب نہیں۔ اِس کا ہر حکم اللہ کی طرف سے ہے۔ اس لئے ہر حکم دُوسرے ہر حکم کے برابر ہے۔ اس میں صرف نماز اور روزے، حج اور زکوٰۃ ہی حکم ہی نہیں، بلکہ بہت سے اور ایسے حکم ہیں جو ان سے بدرجہا ضروری ہیں۔ اس میں بیسیوں احکام ایسے ہیں جن کے نہ کرنے کی سزا جہنم ہے۔ جن کے کرنے کی جزا جنت ہے۔ جتنی سخت سزا ہے، اتنا ہی ضروری حکم ہے۔ اور اُس جرم سے اُتنا ہی بچتے رہنا صحیح مسلمانی ہے۔ تمہیں قرآن کے مطالعہ سے معلوم ہوجائے گا کہ اس میں نہ کسی ڈاڑھی کا ذِکر ہے، نہ لمبی ڈاڑھی کا، نہ چھوٹی ڈاڑھی کا، نہ مونچھوں کے تراشنے کا، نہ ڈھیلے اور استنجا کا، نہ ٹخنوں کے اوپر پاجاموں کا، نہ تہمد کا، نہ گیارھویں شریف، نہ مردے پر قرآن پڑھنے کا، نہ مولوی کو کفن کی چادر دینے کا، نہ شب برات کےحلوےکا، نہ عاشورے کی حلیم کا، نہ عید کی روٹیوں اور سویوں کا! اس میں جہاد میں جم کر لڑنے کی جزا جنت لکھی ہے۔ اللہ کی راہ میں جان لڑا دینے کی جزاجنت ہے۔ آپس میں محبت اور اتحاد عمل کی جزا جنت ہے۔ اسلام کی خاطر ترکِ وطن اور ہجرت کرنے جزا جنت ہے۔ خداکے سوا کسی غیر اللہ کے محکوم نہ بننے (یعنی شرک نہ کرنے)کی سزا جنت ہے۔ اپنے امیر کی کامل فرمانبرداری کی جزا جنت ہے۔ دنیا میں غالب اور سردار بن کر رہنے کی جزا جنت ہے۔ دین میں فرقہ بندی اور نفاق پیدا کرنے کی سزا جہنم ہے۔ نفاق پیدا کرنے والوں کے متعلق لکھا ہے کہ جہنم کے سب سے نچلے درجہ میں ہوں گے۔ میدانِ جنگ سے بھاگ جانے والے اور پیٹھ پھیرنے والوں کی سزا جہنم ہے، میدانِ جنگ میں جانے کے متعلق عذر کرنے والوں کی سزا جہنم ہے۔ جنگ کے وقت گرمی سردی کا عذر کرنے والوں کی سزا جہنم ہے۔ جنت کے متعلق صاف لکھا ہے کہ صرف ان لوگو ں کو مل سکتی ہے جو جہاد بالسیف کرتے ہیں۔ اپنے امیر کی نافرمانی کرنے والوں کر نے والوں کی سزا جہنم لکھی ہے۔ امیر کے حکم کونہ سننے والی قوم کو بدترین حیوان لکھا ہے۔ شرک کرنے والوں کی سزا جہنم ہے علم والوں کی جزا جنت ہے۔ جا ہلوں کی سزا جہنم لکھی ہے۔ جو یوم آخرت پر یقین کرکے نیک عمل نہ کریں اُن کی سزا جہنم ہے۔ جنت اور جہنم انتہا ئی جزا یا انتہائی سزا ہے۔ کم درجے کے جرموں یا نیکیوں کی سزائیں اور انعام اِن مذکورہ بالا سزاؤں یاجزاؤں سے زیادہ حیرت انگیز ہیں مثلاً زنا کی سزا صرف سو کوڑے لکھی ہے۔ شراب پینے کی سزا کچھ نہیں لکھی، صرف لکھا ہے کہ اس سے بچتے رہو۔ یہ شیطانی گندگی ہے۔ اِس کا گناہ اِس کے نفع سے زیادہ ہے۔ جو شخص کبھی کبھی نماز قضا کردے اس کی سزا نہیں جو حج نہ کرے اس کے متعلق کچھ نہیں لکھا۔ جو مال حرا م کھائے اُس کو کبیرہ گناہ کا مرتکب کہا ہے۔ گویا اُس کے لئے جہنم ہے۔ مالِ یتیم کھانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ گویا یتیم خانے چلانے والے پیشہ ور لوگوں کے لئے جہنم ہے۔ چندہ خور لیڈروں اور کونسلوں کی شِہ دے کر قوم سے پیسہ بٹورنے والے حرام خوروں کی سزا جہنم ہے۔ مال حرام کھانے والوں کی سزا جہنم ہے۔ گویا انجمنیں چلانے والے پیشہ وروں کی سزا بھی جہنم ہے۔ کہہ کر پھر نہ کرنے والے کو گناہ کبیرہ کا مرتکب کہا ہے۔ اس کی سزا بھی جہنم ہے۔ الغرض قرآن میں جس طرف بھی نظر کرو گے مولویانہ اسلام ہرگز نہ پاؤٔ گے۔ صرف عملی اسلام پاؤٔ گے۔ قومی اور اجتماعی گناہوں کی سزا جہنم پاؤٔ گے، شخصی اور انفرادی گناہوں کی سزا ہلکی پاؤٔگے، میدانِ جنگ میں بزدلی سے بھاگنے کی سزا شدید پاؤٔ گے۔ امیر کی نافرمانی پر خدا کو بڑ اناراض اور بے حد انتقا م لینے والا پاؤٔگے۔ قرآن میں یہ لکھا پاؤٔ گے کہ جس قوم نے قرآن کے ایک حصہ پر عمل کیا اور دُوسرے حصے سے بھاگی اس کی سزا اس دنیا میں رسوائی اور آگے چل کر جہنم ہوگی۔ یہ اس لئے کہ خدا کے سب حکم یکسا ں طور پر ضروری ہیں۔ زنا سے بچنا، شراب نہ پینا، نماز پڑھتے رہنا بھی اس قدر ضروری ہے جس قدرکہ میدانِ جنگ میں بہادری سے لڑنا خوا ہ ان چھوٹے چھوٹے جرموں کی سزا تھوڑی ہو! الغرض قرآن کو اول سے آخر تک بچشمِ خود دیکھو گے اور کسی مولوی یا ملا سے نہ پوچھو گے کہ اسلام کیا ہے تو مسلمانو! تم کو صاف نظر آئے گا کہ اسلام صرف اور صرف سپاہیانہ زندگی کا دوسرا نام ہے!اس مذہب کو پیش نظر رکھ کر سب کے سب خاکسار تحریک میں شامل ہوجاؤٔ۔ پھر دیکھو تمہاری دینوی اور اخروی نجات کیونکر ہوتی ہے۔

﴿علامہ عنایت اللہ خان المشرقی
10 مئی 1936ء