Pages

Time

فریضہ جہاد



فریضہ جہاد

دین پر روک ہے اور پوری سیہ کاری ہے
یہ جو کہتے ہیں کہ فوجوں کی جو تیاری ہے
دین اسلام میں ہر فرد پہ ہے فرضِ جہاد
جو کرے عذر، منافق ہے بڑا ناری ہے
زندہ ملکوں کا بھی شیوہ ہے یہی جنگ کے وقت
بات قرآں کی کہو اِن کو تو بیزاری ہے
حکم کا رنگ ہے اک، صوم ہو وہ، یا ہو قِتال
لکھ“دیا ماتھے پہ مومن کے، یہ اجباری ہے
کیا بچائیں گے کرائے کے سپاہی دیں کو
ہاں مگر اپنے بچا کی یہ عیاری ہے
عام ہے حکم خذُوا حذر مسلماں کے لئے
جو سپاہی نہ بنے قوم وہ ناکاری ہے
حکم قوموں کی فنا کا بھی یہی قرآں میں
مومن اکثر نہ رہیں جب، تو فنا طاری ہے
خیز! صیدِ کہنِ دام نوِ دجل و فریب
تیری قسمت پہ اَڑا وقت نیا جاری ہے
پھاڑ دے زور سے سب مکرو دغل کے پردے
حکمِ قرآں کے سوا کہہ دے تو انکاری ہے
دیکھ یہ وقت ہے دُنیا میں اُبھر آنے کا
یہ گنوایا تو ہمیشہ کے لئے زاری ہے
دیکھ اس قہر میں اک پہلوئے انعام بھی ہے
آج اگر زور سے لے لے، تری ہشیاری ہے
بامن آکندہ بہ بیں حرفِ سر عرشِ بریں
”جز بہ قرآں نتواں شد مدَدِ اھلِ زمیں

﴿علامہ مشرقی ۸ مارچ  ۱۹۵۱