Pages

Time

اُمِّی کے لفظ کی قرآنی تشریح - علامہ المشرقیؒ


اُمِّی کے لفظ کی قرآنی تشریح
(علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ )

        جو لغو اور مضحکہ انگیز غلطی مسلمان مفسّروں نے اُمّی کے لفظ کی تشریح میں کی ہے کہ اُمییّن سے مراد ’’ان پڑھ عرب‘‘اور النّبی الْاُمّی سے مراد ’’ان پڑھ رسولؐ‘‘ہے شرمناک ہے اور مسلمانوں کی پستی فکر کی روشن دلیل ہے۔ قرآن میں حسب ذیل آیات اس کی صریح تردید میں ہیں:۔
(۱)      والذی بعث فی الامیین رسولؐا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین: (۲۲/۱) اگر رسولؐ ’’ان پڑھ‘‘تھا تو وہ کس طرح خدا کی آیات پڑھتا (یتلُوا) تھا اور کس طرح ان کو الکتٰب کا علم دیتا (یعلُمھم) تھا۔ اس آیت سے تو ثابت ہے کہ رسولؐ بڑا پڑھا ہوا اور بڑا عالم تھا۔
(۲)     اُمّیّون کا لفظ قرآن میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے تمیز کرنے کے لئے آیا ہے یعنی وہ عرب لوگ ہیں جن پر اس سے پہلے کوئی کتاب نہ اُتری تھی۔ جیسا کہ وقل للذین اتوا الکتٰب والامیین ء اسلمتم فان اسلموا فقدھتدوا (۳/۱۰)یعنی اے محمدّؐ!  ن لوگوں سے جنہیں (اس سے پہلے) الکتٰب دی گئی تھی نیز اُن اُمّیّوں سے جنہیں کوئی کتاب اس سے پہلے الکتٰب دی گئی تھی نیز اُن اُمّیّوں سے (جنہیں کوئی کتاب اس سے پہلے بھیجی نہ گئی تھی) پوچھو کہ کیا تم (سولہ برس تک جو قرآن تم پر میری طرف سے آیا ہے (اس پر) ایمان لے آئے ہو۔ تو اگر یہ ہاں کہہ دیں تو بے شک ہدایت پا گئے۔ یہاں صاف طور پر اہل کتاب کے مقابلے میں اُمیّین کا لفظ آیا ہے اور مقصد دونوں گروہوں کو ہدایت کی طرف بُلانا ہے کیونکہ اہل کتاب بھی اُن کے پاس الکتٰب ہونے کے باوجود گمراہ ہو گئے تھے۔ سورۂ اٰل عمران کی یہ وحی بعثت کے سولہ برس کے بعد نازل ہوئی تھی۔
(۳)      سورۂ بقرہ میں اسی نقطہ نظر سے اہل کتاب کے متعلق کہا: و منھم اُمیّون لا یعلمون الکتٰب الا امانی وان ھم الا یظنون: (۲/۹) یعنی ان یہود و نصاریٰ میں سے (جن کو کتاب دی گئی تھی اور وہ اس کتاب کی تعلیم بھول گئے) ایسے لوگ بھی ہیں جو اُمیّوں (یعنی اہل عرب کی طرح جن پر کوئی کتاب اب تک نازل نہ ہوئی) کتاب کا علم نہیں رکھتے (اور اس میں کورے ہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو) سوائے (اس کے کہ ان کی کتاب ان کی) آرزوئوں (اور خواہشات نفسانی کو پورا کرتی ہے کچھ نہیں جانتے) اور وہ صرف گمانوں میں (بھٹک رہے) ہیں۔ گویا کہا کہ اہل کتاب اسی طرح کے اپنی کتاب سے بے علم ہو گئے ہیں جس طرح کہ عرب قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تھے۔ اور اسی لئے اُن کی حیثیت اہل عرب سے بڑھ کر نہیں……ان سب آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ النّبی الاُمّی سے مراد کتاب سے بے بہرہ اہل عرب کا رسولؐ تھا، نہ کہ اَن پڑھ رسولؐ۔ مسلمانوں کو شرم آنی چاہیے کہ انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے صاحب علم رسولؐ پر یہ افتراءباندھا۔ کتابِ خدا کو قرآن حکیم میں جا بجا علم کہا گیا ہے اور اسی لئے اہل عرب کو اُمّی کہا کہ وہ رسولؐ کے آنے سے پہلے کتاب سے بے بہرہ تھے۔

(علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ )
(اقتباس تکملہ سیرت النبیﷺ)
(جلد دوئم صفحہ نمبر ۴۷۲ تا ۴۷۳)
سن ۱۹۶۰ء شام ۴ بجے

علامہ المشرقی ؒ کی تعلیمی اور دنیاوی قابلیت

حضرت علامہ محمد عنایت اللہ خان المشرقیؒ
تاریخ و مقامِ پیدائش: ۲۵ اگست ۱۸۸۸ء (امرتسر)
تاریخ و مقامِ وفات: ۲۷ اگست ۱۹۶۳ء (لاہور)
-------------------------------------------------------
پنجاب یونیورسٹی سے محض اٹھارہ برس کی چھوٹی عمر میں ایم اے (ریاضی) میں اوّل پوزیشن حاصل کی اور جن کا ۱۹۰۶ءکا قائم کردہ ریکارڈ ابھی تک کو ئی طالب علم نہ توڑ سکا۔ایم اے (کیمبرج۱۹۰۷ء) بی ایس سی، بی ای، بی او ایل، ایف آر ایس ا ے (۱۹۲۳) ایف جی ایس (پیرس) ایف ایس اے (پیرس) ایف پی ایچ آئی، آئی ای ایس (مستعفی۱۹۳۰) رینگلرسکالر، فائونڈیشن سکالر، بیچلر سکالر (کرائسٹ کالج کیمبرج) چار (اوّل درجے وغیرہ کے )ٹرائی پوس (حساب، فزکس، مکینیکل فزکس، عربی و فارسی) پنجاب اور کیمبرج یونیورسٹی کے ریکارڈ توڑے۔ ایک ریاست کے وزیراعظم کی پیشکش (۱۹۱۳)، حکومتِ ہند محکمۂ تعلیم کا اوّل انڈر سیکرٹری (۱۹۱۶)، پرنسپل اسلامیہ کالج و سنٹرل ٹریننگ کالج، پشاور (۱۹۱۷)، سفارت کی پیشکش (۱۹۲۰)، سَر کے خطاب کی پیشکش (۱۹۲۱)، فیلو آف رائل سوسائٹی آف آرٹس (۱۹۲۳)، ممبر دہلی یونیورسٹی بورڈ (۱۹۲۳)، فیلو آف جغرافیکل سوسائٹی (پیرس)، صدر میتھ میٹیکل سوسائٹی۔
مصنّف تذکرہ (۱۹۲۴ء)، تذکرہ پر نوبل انعام کی پیشکش جسے مصنّف نے ٹھکرا دیا۔ (۱۹۲۵ء) مندوبِ اعلیٰ مؤتمر خلافت قاہرہ (۱۹۲۶ء)، علامہ مشرقی کا خطاب (۱۹۲۶ء)، خاکسار تحریک کا قیام (۱۹۳۰ء)، ممبر انٹرنیشنل کالج کانگریس آف اورینٹلسٹس (لایڈن ۱۹۳۰ء)، مندوب فلسطین عالمی کانفرنس، صدر ورلڈ فیتھس کانفرنس (۱۹۳۷ء)، گولڈ میڈلسٹ ورلڈ سوسائٹی آف اسلام ، ۱۹ مارچ کو انگریز سامراج سے ٹکرائو (۱۹۴۰ء)، آئینِ مشرقی (۱۹۴۵)، قیام پاکستان کے بعد مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان دس لاکھ انسانوں کی تبادلۂ آبادی کی تجویز (۱۹۴۷ء)، اسلام لیگ کا قیام (۱۹۴۸ء)، ۹۵ فیصد غریبوں کو ۵ فیصد امیروں اور جاگیرداروں کے استحصال سے بچانے کیلئے طبقاتی طریقِ انتخاب کا فارمولا (۱۹۵۱ء)، مصنف حدیث القرآن (۱۹۵۱ء)، مسئلہ تسخیرِ کائنات اور انجامِ کائنات پر دُنیا بھر کے بیس ہزار سائنسدانوں کے نام تاریخی خط بعنوان’’انسانی مسئلہ‘‘(۱۹۵۵ء)۔
( ۷۱۔۱۹۷۰ء) میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش جانے کی پیشنگوئی کے علاوہ دریائوں کے رُخ موڑ نے اور دریائوں کا ڈیم تعمیر کرنے کی بھارتی سازش کا انکشاف۔ مقبوضہ کشمیر کے مسئلہ کو کھٹائی میں ڈالنے اور مسئلہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ میں بھیجنے کی شدید مخالفت پر خطاب (منٹو پارک، لاہور ۱۹۵۶ء)۔ کشمیر کو بزور شمشیر حاصل کرنے کیلئے سرحدوں پر ’’جہاد کیمپ‘‘(۱۹۵۷ء)۔

تصانیف علامہ مشرقیؒ
 تذکرہ (اوّل،دوم، سوم) خریطہ۔ قولِ فیصل۔ اشارات۔ مقالات (اوّل، دو) ۔مولوی کا غلط مذہب۔ خطاب مصر (اُردو، عربی)۔ حدیث القرآن ۔  انسانی مسئلہ۔ تکملہ ( اوّل، دوم)، حریم غیب۔ دہ الباب۔ ارمغانِ حکیم وغیرہ

تین کام...چوراہا ۔۔۔۔ حسن نثار


مورخہ ۱۶، اکتوبر ۲۰۱۳ء روزنامہ جنگ لاہور - (چوراہا)

عید کی چھٹیوں میں قصائی ڈھونڈنے، گوشت بانٹنے اور کھانے، قبرستان جانے، ٹی وی دیکھنے اور جی بھر کر سونے کے علاوہ میری خصوصی فرمائش پر مندرجہ ذیل تین کام ضرورکریں۔ پہلا یہ کہ 15اکتوبر بروز منگل شائع ہونے والا، صاحب فکر ڈاکٹر بابر اعوان کا کالم دوبارہ پڑھیں جس کا عنوان ہے........’’اگلا افغانستان‘‘،یاد رہے یہ ان تحریروں میں سے ہرگز نہیں ہے جن کے درمیان سے آدمی تیز ہوا کی طرح گزر جاتا ہے۔ اسے آہستہ آہستہ رک رک کر پڑھئیے جیسے سیانے ہر نوالہ اچھی طرح چبا چبا کر کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے اس کالم کو تب تک بار بار پڑھیئے جب تک اس کی سطور کے ساتھ ساتھ بین السطور بھی آپ کو ٹھیک سے سمجھ نہ آجائے اور جب آجائے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ شیئر بھی کیجئے تاکہ سندرہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
عید کی چھٹیوں میں دوسرا کام یہ کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی پوری کوشش کریں کہ موجودہ حکومت عوام سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے اور مزید یہ کہ اس بھیانک انتقام کی آخری قسط کیسی ہوگی۔ یہاں ضمناً یہ بھی بتاتا چلوں کہ بچپن سے لے کر اب تک آپ جسے’’ڈراکیولا‘‘پڑھتے آئے ہیں وہ غلط تھا۔ مجھے بھی اس ادھیڑ عمری میں پہنچ کر علم ہوا کہ اصل لفظ’’ڈراکیولا‘‘نہیں بلکہ’’ڈار کیولا‘‘ہے اور یہ کوئی افسانوی نہیں حقیقی کردار ہے۔
اب رہ گیا تیسرا کام تووہ ہے علامہ عنایت اللہ مشرقی کی ایک تحریر کے چند اقتباسات پر غور کرنا جو علامہ صاحب نے1924ء میں لکھی تھی۔ یاد رہے کہ عالم اسلام نے گزشتہ چند صدیوں میں گنتی کے جو چند جنیئس پیدا کئے علامہ مشرقی ان میں سے ایک ہیں۔ تقریباً 86برس قبل اس عالی دماغ نے لکھا تھا۔’’مسلمانان عالم گزشتہ دو صدیوں سے ایک مسلسل انحطاط کے گرداب میں مبتلا ہیں۔اس تنزل کی سرعت اور ہبوط کی تیز رفتاری جس قدر خوفناک ہے اسی قدر وہ جمود اور احساس کا فقدان درد انگیز ہے جومسلمانوں کو مکمل طمانیت اور سکون دل کے ساتھ قطعی ہلاکت اور یقینی موت کی طرف لے جارہا ہے۔ملت کے ہر فرد میں وہ قوائے ظاہری و باطنی مفقود ہوچکے ہیں جو تمدن کی جان ہوتے ہیں۔ وہ جذبات آہنی جن کی زد بنیاد اقوام کو کپکپادیتی ہے،نرم پڑچکے ہیں۔ قوم کا ایک ایک متنفس انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بیکار ہوگیا ہے۔ حسیات دینی کا اہم اور مفید تر حصہ زائل اور امتیازات دنیوی کی تحصیل میں مسلمانوں کا تعطل ضرب المثل ہوگیا ہے۔ قوت ارادی اور قدرت اقدام عمل، تنظیم جماعت اور تقسیم کار، قوائے عاملہ کا اتحاد، استقلال اور استمداد باہمی کا دستور العمل، انقباد کا جذبہ مشترک ا ور سیادت و قیادت کا ملکہ سلیم جن کے التزام کے بغیر اقوام تو کیا..........افراد بھی چھوٹے سے چھوٹا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکتے، محض چند مہمل کلمات رہ گئے ہیں جو حقیقت سے بے بہرہ اور معانی سے ناآشنا ہیں۔ اس حالت میں تعجب نہیں اگر حصول مراد کو ہر کوشش میں مسلمانوں کو بالآخر ناکامی کا سامنا ہوتا ہو، ہر تدبیر جو وہ اپنی بہتری کی امید میں عمل میں لائیں، نامرادی سے بدل جاتی ہو۔ذہنی انتشار اور جماعتی تفریق و اشتات کا ہولناک عفریت ان کی قوت عمل کو بے اثر کردیتا ہو اور حرماں نصیبی ان کے کمزور اخلاق پر غلبہ پاکر ان کے جذبہ ایمان کو کچل دیتی ہو۔
میں ایک مدت سے اس دردناک نظارے کو باکراہ تمام دیکھ رہا ہوں۔ گزشتہ سو سال کے تاریخی شواہد اور سیاسی نامہ اعمال کی روح فرسا سرگزشت نے ثابت کردیا ہے کہ امت حاضرہ اب اخلاقی تنزل کے ان انتہائی مدارج تک پہنچ چکی ہے جہاں اس کا کوئی فعل، کوئی عمل روئے زمین کے کسی حصہ پر صلاحیت سے تکمیل کو نہیں پہنچتا‘‘۔
پھر لکھتے ہیں۔’’معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر صدیوں کی مزمن بیماری نے مریض کے ہر عضو کو مضمحل اور ہر جوڑ کو درد آمود کردیا ہے۔ اعضاء کی پیہم شکست اور طاقت کے مسلسل ز وال نے خوفناک علامات پیدا کردی ہیں۔ دل، دماغ اور جگر سب کے سب مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ سلامتی اور بقا کی چند آخری گھڑیاں ہلاکت و فنا کے مہیب دیو سے قطعی اور فیصلہ کن مجادلہ کرنے کو ہیں‘‘۔
فنا کی لازوال حقیقت کے سامنے کسی باطل اور فاسد ہستی کی کچھ وقعت نہیں، وہ مٹ کررہے گی اور تمام کوشش جو اس کو فروغ دینے کے لئے اخیر وقت میں کی جائیں گی، بیکار ثابت ہوں گی‘‘۔
’’مغرب آج دین فطرت کے چار یا پانچ اصولوں پر عمل کررہا ہے اور فطرت کے خزانہ عامرہ سے بے مثال امن حاصل کررہا ہے۔ مسلمانوں کا ایک پر بھی عمل نہیں اس لئے جلد مٹ رہے ہیں۔ آج ان کے کسی گروہ میں نہ توحید باقی ہے نہ اتحاد نہ قابل ذکر امید نہ ایمان بالآخرۃ ہے نہ مکارم اخلاق نہ خوف عذاب نہ طمع ثواب نہ شوق اصلاح ہے نہ ذوق ایمان‘‘قارئین! علامہ مشرقی کی اس تحریر کو اگر ڈاکٹر بابر اعوان کے کالم سے کراس کرکے اس کے نتیجہ پر غور کریں گے تو لوڈ شیڈنگ ختم ہو نہ ہو، آپ کا باطن ضرور روشن ہوجائے گا۔ باقی رہ گیا زندہ رہنا تو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ زندہ تو ریڈانڈینز بھی ہیں اور غور فرمائیے اس تاریخی المیہ پر کہ ہم کن حالات سے دو چار ہیں اور ہماری لیڈر شپ کا لیول کیا ہے؟
:
(نوٹ:  ڈاکٹر بابر اعوان کےجسکالم کا ذکر حسن نثار صاحب نے کیا ہے اُس کالم کو پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں): 
:
http://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=10-15-2013/Lahore/images/10_09.gif
: حسن نثار صاحب کے کالم کا عکس ؛


نوٹ :یہ ہی کالم روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ پر دیکھنے یا پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں۔
:





شرک کی تشریح ازروئے قرآن از علامہ المشرقیؒ


شرک کی تشریح ازروئے قرآن از علامہ المشرقیؒ

'شرک کی تشریح میں نے بشیر احمد قریشی صاحب کی کتاب [شاہراہ عمل] فکر علامہ المشرقی ؒ سے لی ہے بشیر احمد قریشی صاحب نے یہ کتاب علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کی مختلف تصانیف کو سامنے رکھ کر مرتب کی ہے اور بہت سارے اہم ٹاپکس تذکرہ میں سے حدیث القرآن میں سے اور تکملہ میں سے لئے گئے ہیں۔ ایک پڑھنے والی بک ہے۔





سورہ الفاتحہ کے الفاظ کا صحیح مفہوم از علامہ المشرقی ؒ


سورہ الفاتحہ کے الفاظ کا صحیح مفہوم از علامہ المشرقی ؒ
سورہ الفاتحہ قرآن حکیم کی پہلی سورت ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے چوتھے سال کے آخر میں یہ سورت نازل ہوئی اس کا مضمون قریباً ہر مسلمان جانتا ہے لیکن مفہوم یہ ہے کہ؛
(شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے)، سب جہانوں کا پروردگار قابل صد ستائش ہے، (بڑا مہربان نہایت رحم والا)، وہ روز جزا و سزا کا مالک ہے، اے پروردگار  ! ( اگرچہ ہم آج اس سورت کو ہر نماز میں پڑھتے ہیں اور جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تیری عبادت کر رہے ہیں لیکن اقرار کرتے ہیں کہ ) ہم تیری ہی ملازمت کریں گے،( اور چوبیس گھنٹے تیرا حکم ہی مانے گے) اور تجھی سے مدد مانگیں گے تو ہم کو اس سیدھی راہ پر لے جا، جس راہ پر چل کر تو اپنے بندوں کو ( بادشاہت کا ) انعام دیتا ہے ان لوگوں کی راہ پر نہ لے جا جن پر تیرا غضب نازل ہوا نہ گمراہوں کی راہ پر لے جا۔
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ١ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ٢ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ٣  مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ ٤ إِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ ٥ ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ ٦ صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ ٱلۡمَغۡضُوبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
(سورة الفاتحة,١-٧)
سورہ الفاتحہ کا مقصد مسلمانوں کے سامنے بادشاہت اور غلبے کا نصب العین پیش کرنا تھا۔
اس سورت سے مقصد مسلمانوں کے آگے بادشاہت، سلطنت اور غلبے کا نصب العین رکھنا تھا اور غالب یہ ہے کہ یہ سورت ۴ نبوی کے اخیر میں نازل ہوئی۔ اگرچہ عام مسلمان اس سورت کو ۴ نبوی کے شروع میں رکھتے ہیں۔ اس وقت تک مسلمانوں کو [ نماز ]پڑھنے کا کوئی باقاعدہ حکم نہ ہوا تھا۔ نہ [عبادت خدا] کا وہ تخیل جو آج کل مسلمانوں میں کئی صدیوں سے رائج ہے کہ وہ خدا کی [ پرستش] کرتے ہیں یا خدا کو پوجتے ہیں ان ایام میں تھا۔ اس وقت رسولِ خدا ﷺ کے چند ساتھی صرف خدا کے سامنے اس کے بھیجے حکموں کی پوری تعمیل کے علاوہ کھڑے ہو کر کچھ جھکا سا کرتے تھے اور کوئی [رکوع] اور [سجود] یا [قومہ] اور [قعدہ] مقرر نہ ہوئے تھے۔ موجودہ نماز کے متعلق عام طور پر مروی ہے کہ ۲۷ رجب ۱۰ نبوی کو یعنی سورہ  الفاتحہ کے نزول کے ۶ سال بعد جبکہ رسول ﷺ امِ حانی  کے گھر فروکش تھے حضرت جبرئیل آئے اُس وقت پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم ہوا لیکن ظہر عصر اور عشاء کی چار چار رکعتیں ۱ ہجری میں یعنی دس سال بعد فرض کی گئی۔ اس بنا پر سورہ الفاتحہ میں إِيَّاكَ نَعۡبُدُ کے یہ معنی لے لینا کہ ہم تیری ہی [عبادت] کرتے ہیں تجھے ہی کو [پوجتے] ہیں یا تیری ہی [نماز] پڑھتے ہیں انتہائی طور پر لُغو اور مضحکہ انگیز ہے کیونکہ نمازی جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ [خدا] ہی کی [عبادت]  کرتا ہے اور کسی دوسرے بت کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لئے ایسا اقرار نماز کے اندر فضول ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ سورت نماز کے فرض ہونے سے دس برس پہلے نازل ہوئی اُس وقت إِيَّاكَ نَعۡبُدُ کے معنی جو اس وقت کے مسلمان لیتے تھے صرف یہ تھے کہ اے خدا ! ہم تیرے ہی بندے بنے گے اور تیری ہی ملازمت یعنی نوکری اختیار کریں گے اور چوبیس گھنٹے ایک ملازم کی طرح تیرے ہی حکموں کی تعمیل کریں گے اس کے سوا کسی رسمی [عبادت] کا تخیل اُس وقت مسلمانوں میں ہرگز نہ تھا۔ یہ ہی خدا کا عملی طور پر [نوکر] بن جانا اور پھر ملازم ہو کر خدا کے بتائے ہوئے کام دن رات کرتے رہنا اُن دنوں میں [مسلمان] بن جانے کے مترادف تھا۔ ان دنوں میں  مسلمانوں کو سخت ترین اذیتیں کافروں کی طرف سے دی جا رہی تھیں۔ خدا نے مسلمانوں کو پہلے پہل بار بار یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کا سبق دیا تھا تاکہ آپس میں رحمدلی پیدا ہو پھر مال کے دینے میں بخل نہ کرنے کا سبق دیا تاکہ ان میں قربانی مال کا جذبہ پیدا ہو، پھر کافروں کو عذاب اور سزا سے بار بار ڈرایا، پھر  سورہ مزمل میں دیر تک خدا کے حضور کھڑا رہنے سے منع کیا اور پہلی بار اشارہ کیا کہ اصل مقصد مسلمانوں کو کافروں کے قتال کے لئے تیار کرنا ہے، پھر زنا سے بچنے، امانتوں میں بدنیتی نہ کرنا، سچی شہادت دینا، وعدوں اور اقراروں کو بہر قیمت پورا کرنا وغیرہ کا اخلاق سکھلایا تاکہ مسلمان بلند کردار کے مالک ہوں اور وہ آگے چل کر بادشاہت زمین کے اہل ہوں۔ پھر دو تین بار خوبصورت عورتوں کے ملنے کا ذکر کیا تاکہ میدان جنگ سے قیدی عورتوں کو پکڑ لانے کی تیاری پیدا ہوں۔ پھر کہا کہ ان عورتوں کو بیویاں بنانے کا حق ہے جن پر تمہارے دونوں ہاتھوں کے زور نے قبضہ کیا ہو [ ما ملکت ایمانکم] گویا میدان جنگ سے لائی گئی ہوں۔ پھر کہا کہ ہلاکت ان لوگوں پر جو کم تولتے ہیں اور گاہک کو دھوکہ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ الغرض مکمل اور طاقتور مسلمان بننے کی اس تدریجی تعلیم کے بعد سورہ الفاتحہ میں یہ سبق دیا کہ اسلام کا صراط مستقیم وہ رستہ ہے جس پر چل کر بادشاہت زمین ملتی ہے اور مسلمان کو کہا کہ خدا سے اس صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کر۔ دس برس بعد یہی سورہ الفاتحہ نماز میں داخل کر دی گئی، گویا مسلمان کو کہا گیا کہ خدا کے آگے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جا، اسی طرح کہ کوئی سوالی کسی غنی سے کچھ مانگتا ہے ہاتھ باندھ کر مانگ، پھر اس بادشاہت کے لینے کی تڑپ میں اپنے گھٹنوں پر جھک جا، پھر اللہ کے پاؤں پڑنے کے لئے زمین پر اسی طرح سجدہ کر جس طرح کہ ایک فقیر بھیک لینے کے لئے کبھی دولت مند کے آگے جھکتا ہے، کبھی گھٹنوں کے بل ہو جاتا ہے، پھر اس کے پاؤں پڑ جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ الغرض سورہ الفاتحہ مسلمانوں کی بادشاہت زمین حاصل کرنے کا پہلا سبق تھا جو دیا گیا اور یہی قرآن کا بتایا ہوا صراط مستقیم تھا! [فتدبر]
تکملہ جلد اول (سیرت النبیﷺ)
(صفحہ نمبر ۱۶۱ تا ۱۶۴)
علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ