Pages

Time

فِیْ ُصْبح خَامِسَۃ نوَ قُرْب مِنْہُ بِلْیَقِیْنِ - منظر کی تشریح جیل میں نبی ﷺ کو خواب میں دیکھنے کے بعد ایک اہم واقعہ - علامہ المشرقیؒ


فِیْ ُصْبح خَامِسَۃ   نوَ قُرْب مِنْہُ بِلْیَقِیْنِ
منظر کی تشریح

خواب کا واقعہ ۴ فروری کی شب کو ہوا۔ دوسرا منظر جو پورے ہوش میں تھا ۶ فروری کی رات کو بارہ بجے کے قریب ہوا۔ ’’جانب شرق کی دیوار پر یہ الفاظ بعینہٖ اسی طرح روشن تھے:۔

فِیْ ُصْبح خَامِسَۃ      نوَ قُرْب مِنْہُ بِلْیَقِیْنِ
                  1342                1365
پوری عبادت جو تذکرہ کے افتتاحیہ کے صفحہ ۱۴۰پر ہے درج ذیل ہے:۔
وما انا من نبی او عالم اومن ولی او فقیرا وکبیرولکن اخبرنی ربی انکم لھا لکون فی صبح خامسۃ اواقرب منہ بالیقین (ترجمہ) اور میں کوئی نبی نہیں ہوں، نہ ولی، نہ کوئی فقیر نہ کبیر لیکن میرے رب نے مجھے خبر دی ہے کہ تم ضرور ہلاک ہونیوالے ہو صبح خامسۃ کو یا اس سے زیادہ قریب وقت پریقینی طور پر۔
تذکرہ دس جلدوں میں شائع ہونا تھا، اور پہلی جلد ۱۹۲۴؁ء میں شائع ہوئی۔ اُس وقت تک کچھ جلدیں تیار ہو چکی تھیں لیکن شائع صرف پہلی جلد ہوئی۔ مجھے معلوم نہیں میں نے کیوں صبح خامسۃ کے الفاظ لکھے لیکن میں نے پورے ہوش میں لکھے تھے۔
یہ الفاظ جہاں تک مجھے یاد ہے حماسہ کے ایک مشہور عربی شعر میں واقع ہوئے ہیں، کیا عجب ہے کہ اُس وقت یہ شعر میرے ذہن میں ہو، یا راکبا ان الاثیل مظنۃ                  فی صبح خامسۃوانت موفق
بہر نوع صدہا استفسارات کا جو میری تصنیف کے شائع ہونیکے بعد مجھ سے ہوئے ہیں نے التزاماً یہی جواب دیا کہ مجھے صبح خامسۃ کا مفہوم خودمعلوم نہیں، نہ میں نے ان کے بعد اس کا کہوج لگانے کی سعی کی۔ میں صرف سزا کے واقع ہونے کو یقینی سمجھتا تھا کیونکہ وہ میرا حسابی اندازہ تھا، سزا کب آئیگی۔ اس کو اہمیّت نہ دیتا تھا کیونکہ میں یقین کرتا تھا کہ اس کا علم خدا کے سوا کسی کو نہیں، بعض اصحاب نے مجھے لکھا کہ حروف ابجد کی رُو سے اُنہوں نے نے صبح خامسۃ کے متعلق دریافت کرنے کی سعی کی لیکن انہیں کچھ حاصل نہ ہوا۔٭ میں نے بھی کبھی اسطرف سعی نہ کی تھی۔ میرا عقیدہ ہی ان پر نہ تھا۔
   ۶ فروری ۱۹۵۱؁ء کے بعد مسلسل سوچتا رہا کہ اس منظر کی عبارت اور اعداد کا کیا مطلب ہو سکتا ہے لیکن فرطِ جوش میں انتہائی کوشش کے باوجود ذہن کسی طرف بھی منتقل نہیں ہوا، نہ اس طرف کہ ۱۳۴۲ اور ۱۳۶۵ کے اعداد سنہ ہجری کے میں۔ اور اس پر مجھے سخت تعجب ہے۔
   ۲۷ مارچ کی صبح کے آٹھ بجے جب کہ کھانا کھا رہا تھا یکدم ذہن میں آیا کہ ۱۳۴۲ کہیں تذکرہ کی اشاعت کا ہجری سن نہ ہو۔ یہ فوراً درست ثابت ہوا، میں خوشی کے مارے اچھلتا تھا کہ تذکرہ کی اشاعت کے سنہ کی اہمیّت خدائے عزّوجل کے ہاں ہے۔ اب یقین ہو گیا کہ ۱۳۶۵ کے اعداد بھی سنہ ہجری ہیں، اگرچہ یہ اعداد منظر میں سیاہ رنگ کے تھے جس کی میں کوئی توجیہ نہ کر سکتا تھا۔ فوراً معلوم ہو گیا کہ ۱۳۶۵ کا عیسوی سن ۱۹۴۷ یعنی بنائے پاکستان کا سنہ ہے اب بڑی دِقّت پیش ہوئی کہ ان دونوں تاریخوں کا کیا لگائو آپس میں ہے، ایک روشن کیوں تھی دوسری تاریک کیوں!
   ۲۷ مارچ کو بھی کچھ دیر تک اَور سوچنے کے بعد مجھے کھٹکا کہ ان دونوں سنوں میں فرق ۲۳ برس کا ہے جو نبی صلعم کی مدّت رسالت کا ہے!
   میرے بدن میں ایک کپکپی پیدا ہوئی لیکن آگے کچھ نہ سوچ سکا اور معاملہ کو ایک وہم سمجھ کر ذہن سے رخصت کر دیا۔
   اُسی دن پھر ذہن میں آیا کہ ہو نہ ہو ۱۳۶۵ کا اشارہ اُس عذاب کی طرف ہے جو ۱۹۴۷؁ء کے اگست میں اور اس کے بعد مسلمانوں پر مشرقی پنجاب میں آیا اور جس میں کم و بیش ایک کروڑ انسان برباد ہوئے اور اسی وجہ سے ان اعداد کا رنگ سیاہ تھا!
   ۵اپریل کو اسی تخیل کے سلسلے میں کہ ۲۳ برس کا فرق نبی صلعم کی مدت رسالت کا فرق ہے، ذہن میں آیا کہ پاکستان کی سلطنت کا انعام بھی فتح مکّہ کے انعام کے مماثل سمجھا جا سکتا ہے، اس لئے سزا کے تخیل کو کیوں نمایاں کیا جائے، لیکن صبح خامسۃ کی سطر کے تعزیری رنگ نے اس خیال کی اہمیّت کم کر دی۔ نیز اس لئے کہ فتح مکّہ
حضور صلعم کے وصال سے دو برس قبل واقع ہوئی تھی۔ بہرنوع اس تخیّل نے ذہنی تسلّی نہ دی اور میں برابر سوچتا رہا بلکہ خواب کے فرمان کے مطابق اپنے کام میں لگا رہا۔
     ۵ مئی ۱۹۵۱؁ء (مطابق ۲۸، رجب ۱۳۷۰؁ھ) کو ٹھیک پونے نو بجے صبح کے مجھے یکایک طلوع ہوا کہ ۶ فروری کے منظر میں جس پر
           فی صبح خامسۃ                   او قرب منہ بلیقین
      ۹۰   ۱۰۰   ۱۱۵۱                     ۷   ۳۰۲    ۹۵   ۲۰۲
                ۱۳۴۱                                             ۶۰۶ = ۱۹۴۷
مجھے ادنیٰ سا شک نہ تھا لیکن اُس کا مقصد سمجھنے سے ابھی تک قاصر تھا، خامسۃ کے الفاظ کے نیچے ن کا ظاہر کرنا خالی ازعلّت نہیں ہو سکتا۔ اُس وقت بھی کھانا کھا رہا تھا! پانچ منٹ بعد پھر خیال ہوا کہ اقرب کا الف اور بالیقین کا الف دونوں دیوار پر غائب تھے اور یہ تینوں ’’بے قاعدگیاں‘‘ ضرور کچھ معنی رکھتی ہیں، یہ نقص میں نے اُس وقت بھی اپنی آنکھ سے کئی مرتبہ دیکھے تھے، ٹھیک نو بجے جب کہ قید خانہ کا گھنٹہ بج رہا تھا یک لخت ذہن میں آیا کہ ابجد کے حساب سے ان حروف کو جمع کر کے دیکھا جائے۔دو تین منٹ کے اندر اندر میری حیرانی کی کوئی حد نہ رہی کہ سطر مذکور کے حروف کو (ن کے پچاس عدد ملا کر) اور دو الف نکال کر ۱۹۴۷ کے اعداد نکلتے ہیں٭ کم از کم پانچ منٹ تک میں بُت بنا رہا اور حیرانی اتنی تھی کہ میرا دل (جس کو کوئی بیماری نہیں) زور زور سے دھڑکنے لگا۔ میں نے اس واقعہ کی اہمیّت کو کم کرنے کے لئے دل میں کہا کہ یہ ایک محض اتفاقی امر ہے۔ اس سے زیادہ کیا ہو سکتا ہے۔ بلکہ کچھ دیر بعد ۱۹۴۷ء کے اعداد سے تھوڑی نفرت بھی ہو گئی، کیونکہ یہ سن عیسوی تھا۔ مجھے ضد تھی کہ اگر حساب ابجد کچھ شے ہوتا تو اس سطر کے اعداد کو جمع کرنے سے سزا کی تاریخ ۱۳۶۵ نکلتی نہ کہ ۱۹۴۷۔ لیکن بہ حیثیت مجموعی مجھے ۶ فروری کے واقعہ پر بے حد حسابی یقین ہو گیا اور اس کا ولولہ اس قدر میرے سینے میں بلند ہوا کہ میں نے نہایت خشوع و خضوع سے شکرانہ کے نفل فوراً ادا کئے اور جو کچھ ستائیس برس پہلے اس سطر میں لکھا گیا اس کے متعلق زیادہ یقین ہوا کہ اس سزا کا اشارہ بیشک ۱۹۴۷ء کی سزا کے متعلق ہی ہو سکتا ہے بالخصوص اس لئے کہ جب تک ن کے پچاس عدد جمع، اور دو الفوں کے دو عدد منفی نہ کئے جائیں۔ ۱۹۴۷ء کا عدد نہیں بنتا۔ اسی وقت میں نے دشنۂ غیب کے دو بند(صفحہ ۴۵ تا ۴۸) جو ۲۰ مارچ سے اس نیّت سے چھوڑے ہوئے تھے کہ جب تک یہ منظر مجھے سمجھ نہ آجائے میں اس واقعہ کو قلمبندہی نہ کروں تین بجے تک پورے کر دئیے اور ۶ مئی کے دس بجے تک آخری بند (صفحہ ۴۹۔ ۵۰) پورا کر دیا!
اب مجھے روز افزوں یقین ہوتا گیا کہ منظر کی سطر کا بیشتر حِصّہ سمجھ چکا ہوں لیکن عیسوی سن کے متعلق دل میں کھٹک ضرور موجود تھی۔ ۱۹ مئی کو پانچ بجے شام کے حضرت امام کاظمؓ کی دعا جو انہوں نے قید خانے میں کی تھی اتفاقاً مل گئی اور میں اس کو دیر تک نماز کے بعد پڑھتا رہا۔ ۲۱ مئی کو (ٹھیک یاد نہیں رہا کہ کتنے بجے لیکن غالباً رات کو لیٹے لیٹے) میرے ذہن میں بحث ہوئی کہ صبح خامسۃ کی ترکیب ہی ازروئے قواعد مشتبہ ہے اور جب تک خامسۃ سے پہلے کوئی مؤنث معدودو مقدّر نہ سمجھا جائے، اس مرکب کے کوئی معنی ہی نہیں ہو سکتے۔ یہ احساس دہند لا سا ہوا اور اس سے زیادہ کوئی بحث ۲۱ مئی کو نہ ہوئی۔
۲۲مئی کو یہ تخیّل ذہن میں گونجتا رہا لیکن اسی دن (وقت یاد نہیں رہا لیکن غالباً چار بجے عصر کے بعد) یک لخت ذہن میں آیا کہ صبح خامسۃ سے مراد صبح عشرۃ خامسۃ ہی ہو سکتی ہے! یہ تخیّل بڑا نور افروز تھا۔ جلد جلد ایک دو گھنٹہ کے اندر ہی فیصلہ کر لیا کہ صبح خامسۃ سے مراد پانچویں دِھاکے، کی صُبح ، یعنی اس کا شروع ہے اور پانچواں دھاکا، پچاس کا عدد ہے اسکی صُبح (یعنی اسکا شروع) ۱۹۵۰ یا ۱۹۵۱
یا اسی قسم کا عدد ہو سکتا ہے۔ تھوڑے سے مزید غور کے بعد اواقرب منہ بالیقین کے الفاظ سامنے آئے یعنی سزا پانچویں دِھاکے کے شروع میں آئیگی یا یقینی طور پر اس سے ذرا ادھر۔‘‘ گویا معاً ذہن میں آیا کہ چونکہ سزا ۱۹۴۷؁ء میں آئی اور ۴۷ کا عدد پچاس سےذرا اِدھر ہے اس لئے نہ صرف ابجد کے حساب سے بلکہ میری سطر کے لفظوں سے بھی بالکل واضح ہے کہ سزا عیسوی سن کے حساب سے ۱۹۵۰؁ء سے ذرا اِدھر واقع ہو گی مزید سوچ بچار کے بعد یہ بھی واضح ہو گیا کہ عیسوی سن کا ظاہر کرنا لازمی امر تھا کیونکہ ہمارے ہاں کے عوام کو ہجری سن کے متعلق ادنیْ واقفیت نہیں رہی اور اسی عیسوی سن کی نسبت سے پانچواں دِھاکہ کہا گیا ورنہ اگر ہجری سن ہوتا تو سزا چونکہ ۱۳۶۵؁ھ یعنی ساتویں دِھاکے کے قریب پڑتی تھی اس لئے خامسۃ کی بجائے مسابعۃ کے الفاظ ہوتے۔
۲۲ مئی ۱۹۵۱؁ء کے اس واقعہ کے بعد میرے ذہن کو کافی تسلّی ہے کہ سزا کے الفاظ جو میں نے ۲۷ برس پہلے تذکرہ میں لکھے تھے خدائے بے ہمتا نے مجھ سے ٹھیک لکھوائے اور وہ حرف بحرف پورے ہوئے۔
اس عجیب و غریب واقع کی تشریح میں نے خدا کو حاضر ناظر سمجھ کر من و عن بیان کر دی ہے لیکن جو کچھ ہوا اسکا فیصلہ خدا پر چھوڑتا ہوں۔ نہ اس واقعہ سے پہلے، نہ اسکے بعد، نہ آگے چل کر مجھے دعویٰ ہے کہ میں کوئی ولی ہوں نہ فقیر یا معاذ اللہ نبی بلکہ سختی سے مُصر ہوں کہ میں خدا کا فرمانبردار بندہ بھی نہیں ہوں۔ اس لئے جو شخص مجھے اس واقعہ کے بعد کوئی خدا رسیدہ شخص تصور کریگا وہ اس گناہ کا آپ ذمہ دار ہو گا۔ میں نے جو کچھ واقعہ قید کے دوران میں ہوا دیانتداری سے بیان کر دیا ہے میرے اس بیان سے یہ نتیجہ بھی اخذ نہ کر لیا جائے کہ میں جو کچھ آگے چل کر کہونگا وہ بھی درست ہو گا۔ میرے نزدیک غیب کا علم سوائے خدا کے کسی بشیر کو نہیں۔
اس سلسلے میں ایک اَور بات لائق بیان ہے کہ ’’فی صبح خامسۃ‘‘کے حرف کے اعداد (نیچے کے ن کے ساتھ) ۱۳۴۱ بنتے ہیں اور حیرت ہے کہ یہی وہ ہجری سن تھا جس میں یہ الفاظ لکھے گئے یعنی ۱۹۲۲؁ء میں جب کہ تذکرہ کا عربی حصہ لکھا جا رہا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ یہ کس غرض سے ہے لیکن یہ انکشاف دلچسپ ضرور ہے۔
اب چونکہ اس میری سطر کو کافی اہمیّت حاصل ہو گئی ہے، اواقرب منہ بالیقین کے الفاظ سے میرے نزدیک یہ نتیجہ بھی نکل سکتا ہے کہ مسلمانوں کو صرف ۱۹۴۷؁ء کی سزا ملنے سے ممکن ہے کہ سزا ختم نہ ہوئی ہو،بلکہ کیا عجب ہے کہ وہ سزا ۱۹۵۰؁ء کے بعد بھی ملے (جیسا کہ اب تک ہندوستان کے مسلمانوں کو مل رہی ہے) کیونکہ یہ بعد کے سن بھی اقرب کے دائرے میں آسکتے ہیں۔
(عنایت اللہ خاں المشرقی)
اگست ۱۹۵۱ء وقت ساڑھے تین بجے)
(حریم ِ غیب صفحہ نمبر ۵۵ تا ۵۸)



Photo Album Allama Mashriqi (r.a)

Allama Mashriqi with Spade (Black & White)Allama Mashriqi with Spade (Color+Frame)Allama at Cambridge 1912 (B-W) RetouchedAllama Mashriqi Pencil SketchAllama at Cambridge 1912Allama Mashriqi at Cambridge
Allama Mashriqi sitting B-WAllama Mashriqi Sitting ColorAllama with Spade[New]Allama Mashriqi at Quetta CampAllama Mashriqi Old Ageعلامہ المشرقی کا خاکساری انداز
Allama Speech at Badshahi MosqueAllama Speech at Badshahi Mosque 01Human Problem Allama MashriqiAllama Mashriqi with Mohd. Jinnahعلامہ المشرقیAllama Mashriqi With Khan Akram Khan Brother of Gen. Ayub Khan
Allama Sketch 1Allama Mashriqi With Sikandar Hiyat Khan (CM Punjab)Allama Mashriqi With Jaish02Allama Mashriqi With Jaish01Allama Mashriqi sitting on chair (Large)Allama Mashriqi standing outside the Karole Bagh Camp 1939, Dehli, India 01
Photo Album Allama Mashriqi (r.a), a set on Flickr

اس فوٹو ابلم میں جو کہ علامہ المشرقی کی تصاویر پر مبنی ہے یہ تمام تصاویر بہت نایاب اور خاکسارتحریک اور علامہ عنایت اللہ خان المشرقی کی جدوجہد سے وابستہ ہے اس ابلم میں کچھ ایسی تصاویر بھی ہیں جن کو ایڈٹ کرکے پھر تیار کیا گیاہے نوٹ یہ تمام تصاویر مرکز اعلیٰ خاکسارتحریک اچھرہ لاہور کے ریکارڈ روم سے لی گئی ہیں۔ اور ان کو تیار کرنے میں ضیغم المشرقی کی بے پناہ کاوش شامل ہے۔