Pages

Time

انسانی عمل کا منتہا اتحاد عالم، تسخیر کائنات اوربالآخر ملاقاتِ خدا ہے!! - علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

انسانی عمل کا منتہا اتحاد عالم، تسخیر کائنات اوربالآخر ملاقاتِ خدا ہے!!
اقتباس تذکرہ جلد دوم  -  از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

خدائے لم یزل کے مطلق طور پر برحق ہونے اور اس کے بعد صحیفہ فطرت اور روز قیامت کے عارضی طور پر برحق ہونے کی اس بحث و تمحیص کے بعد جو اوپر گزر چکی ، عیاں ہو جاتا ہے کہ دین اسلام میں انسانی سعی و عمل کی جو لانگاہ کس قدر وسیع ہے۔ انسان کے لئے خدا تک پہنچنے کا وسیلہ کس قدر انوکھا اوراس کا میدان عمل کس قدر بیکراں ہے۔ ملاقات خدا کے مقام منیع تک پہنچنے کے لئے پہلا مرحلہ انسان کی بکھری ہوئی اور انتشار زدہ نوع کو غلبہ کے زور سے ایک کر دینا ہے تاکہ پوری نوع صحیفہ فطرت کی مکمل تسخیر میں لگ جائے اور رنگ ، نسل، قوم، سرمایہ داری، مذہب، وطن، جغرافیائی حدود وغیرہ کی پیدا کی ہوئی تفریقیں باقی نہ رہیں۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا کی ’’عبادت ‘‘ کا صحیح مفہوم واضح کیا گیا، اعمال عاجلہ اور اعمال آخرۃ کی لِم واضح کی گئی، شرک کا صحیح مقصد و اشگاف کر دیاگیا، الصلوۃ، الزکوۃ، صیام، حج وغیرہ موسوم شعائر اسلام کی حکمت کی توضیح کی گئی اور بتایا گیا کہ ان کی فرضیت سے مقصود چار دانگ عالم میں ایک ایسی مستعد اور چاق و چوبند جماعت پیدا کرنا ہے جو روئے زمین پر غالب آکر بلکہ خون سے ہولی کھیل کر بنی نوع انسان کو ایک کردے تاکہ سب سے پہلے ان میں باہمی جنگ و جدال کامہلک اورخانہ برانداز عارضہ باقی نہ رہے۔ وہ جماعت بذاتِ خود اس بلند اخلاق اور بلند کردار کی مالک ہو کہ دنیا کی سب قومیں اس میں شامل ہونے پر ادنیٰ اعتراض نہ کرسکیں۔ اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر ایماندار اور عابد خدا متنفس کے متعلق کتب علیکم القتال (۲:۲۱۶) اور فیقتلون ویقتلون قف(۹:۱۱۱) کی حکمت عملی کی وضاحت کی گئی کہ وہی جماعت روئے زمین پر چھا کر بنی نوع انسان کو ایک امت کر سکتی ہے جس میں قتال بالسیف کرنے کی فضیلت بدرجہ اتم موجود ہو۔ نری اللہ اللہ کرنے والی یا رام رام جپنے والی جماعت اس بلند مقصد تک نہیں پہنح سکتی۔ ادھر دنیا کومحض شیطان کار ابلیس کی جادو گری بتلا کر خدا کے ملازم کو نرے اس دھندے میں پھنسا دینا کہ تم خواہشات نفسانی کی فریب دہی سے بچ کر صرف ’’ نیک کاموں‘‘ میں لگے رہو، نرے رحم کرنے والے، محبت کرنے والے، خیرات کرنے والے، تسبیح پھیرنے والے وغیرہ وغیرہ بن جائو اور اس دنیا کو مُردار سمجھ کر اس سے متنفر رہو۔ یہی وہ مہلک لور گمراہ کن تعلیم تھی جس سے خدا کے پیدا کئے ہوئے عظیم الشان صحیفہ فطرت کی صریح توہین ہوئی تھی اور تسخیر کائنات کا اصلی مقصد قطعی طور پر باطل ہو جاتا تھا اس لئے ازروئے اسلام قطعی طور پر واضح کردیا کہ دنیا میں (خدا کے بعد) صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وہ صحیفہ فطرت ہے۔ اس کی ہر شے راہ راست پر چل رہی ہے۔ یہ تمام صحیفہ فطرت صرف انسان کی بہتری اور ہدایت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اورا نسان کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ اس کی ہر شے کے طرز عمل سے ہدایتیں اور اشارے لے کر اس پر غالب آئے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں اور ان دونوں کے درمیان ہے اس پر اپنا جسمانی قبضہ کرتا جائے تاکہ بالآخر کروڑ در کروڑ آسمانی کروں پر جو فضائے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور ویران پڑے ہیں اس کا قبضہ ہوتا جائے اور اشرف الخلق انسان کی فضیلت باقی تمام مخلوق پر عیاں ہوتی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انسان اپنے ارتقائے اعضا کے باعث اس سے بہتر نوع اسی طرح بنتا جائے جسطرح کہ اس نے ادنی حیوانوں سے لاکھوں برس میں ارتقا کرتے کرتے موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے۔ الغرض پچھلی تمام بحثوں کا لب لباب یہ ہے جو بیان ہوا اور یہی وہ دستور العمل تھا جس پر چل کر مسلمان قرون اولیٰ میں فاتح عالم بن گئے تھے! فتدبر۔

اقتباس تذکرہ جلد دوم صفحہ 155 تا 157 از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

انسانی عمل کا منتہا اتحاد عالم، تسخیر کائنات اوربالآخر ملاقاتِ خدا ہے!! - علامہ المشرقی


انسانی عمل کا منتہا اتحاد عالم، تسخیر کائنات اوربالآخر ملاقاتِ خدا ہے!!
اقتباس تذکرہ جلد دوم  -  از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

خدائے لم یزل کے مطلق طور پر برحق ہونے اور اس کے بعد صحیفہ فطرت اور روز قیامت کے عارضی طور پر برحق ہونے کی اس بحث و تمحیص کے بعد جو اوپر گزر چکی ، عیاں ہو جاتا ہے کہ دین اسلام میں انسانی سعی و عمل کی جو لانگاہ کس قدر وسیع ہے۔ انسان کے لئے خدا تک پہنچنے کا وسیلہ کس قدر انوکھا اوراس کا میدان عمل کس قدر بیکراں ہے۔ ملاقات خدا کے مقام منیع تک پہنچنے کے لئے پہلا مرحلہ انسان کی بکھری ہوئی اور انتشار زدہ نوع کو غلبہ کے زور سے ایک کر دینا ہے تاکہ پوری نوع صحیفہ فطرت کی مکمل تسخیر میں لگ جائے اور رنگ ، نسل، قوم، سرمایہ داری، مذہب، وطن، جغرافیائی حدود وغیرہ کی پیدا کی ہوئی تفریقیں باقی نہ رہیں۔ اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے خدا کی ’’عبادت ‘‘ کا صحیح مفہوم واضح کیا گیا، اعمال عاجلہ اور اعمال آخرۃ کی لِم واضح کی گئی، شرک کا صحیح مقصد و اشگاف کر دیاگیا، الصلوۃ، الزکوۃ، صیام، حج وغیرہ موسوم شعائر اسلام کی حکمت کی توضیح کی گئی اور بتایا گیا کہ ان کی فرضیت سے مقصود چار دانگ عالم میں ایک ایسی مستعد اور چاق و چوبند جماعت پیدا کرنا ہے جو روئے زمین پر غالب آکر بلکہ خون سے ہولی کھیل کر بنی نوع انسان کو ایک کردے تاکہ سب سے پہلے ان میں باہمی جنگ و جدال کامہلک اورخانہ برانداز عارضہ باقی نہ رہے۔ وہ جماعت بذاتِ خود اس بلند اخلاق اور بلند کردار کی مالک ہو کہ دنیا کی سب قومیں اس میں شامل ہونے پر ادنیٰ اعتراض نہ کرسکیں۔ اسی مقصد کو پیش نظر رکھ کر ایماندار اور عابد خدا متنفس کے متعلق کتب علیکم القتال (۲:۲۱۶) اور فیقتلون ویقتلون قف(۹:۱۱۱) کی حکمت عملی کی وضاحت کی گئی کہ وہی جماعت روئے زمین پر چھا کر بنی نوع انسان کو ایک امت کر سکتی ہے جس میں قتال بالسیف کرنے کی فضیلت بدرجہ اتم موجود ہو۔ نری اللہ اللہ کرنے والی یا رام رام جپنے والی جماعت اس بلند مقصد تک نہیں پہنح سکتی۔ ادھر دنیا کومحض شیطان کار ابلیس کی جادو گری بتلا کر خدا کے ملازم کو نرے اس دھندے میں پھنسا دینا کہ تم خواہشات نفسانی کی فریب دہی سے بچ کر صرف ’’ نیک کاموں‘‘ میں لگے رہو، نرے رحم کرنے والے، محبت کرنے والے، خیرات کرنے والے، تسبیح پھیرنے والے وغیرہ وغیرہ بن جائو اور اس دنیا کو مُردار سمجھ کر اس سے متنفر رہو۔ یہی وہ مہلک لور گمراہ کن تعلیم تھی جس سے خدا کے پیدا کئے ہوئے عظیم الشان صحیفہ فطرت کی صریح توہین ہوئی تھی اور تسخیر کائنات کا اصلی مقصد قطعی طور پر باطل ہو جاتا تھا اس لئے ازروئے اسلام قطعی طور پر واضح کردیا کہ دنیا میں (خدا کے بعد) صرف ایک ہی حقیقت ہے اور وہ صحیفہ فطرت ہے۔ اس کی ہر شے راہ راست پر چل رہی ہے۔ یہ تمام صحیفہ فطرت صرف انسان کی بہتری اور ہدایت کے لئے پیدا کیا گیا ہے اورا نسان کا پہلا اور آخری فرض یہ ہے کہ اس کی ہر شے کے طرز عمل سے ہدایتیں اور اشارے لے کر اس پر غالب آئے اور جو کچھ آسمانوں اور زمین میں اور ان دونوں کے درمیان ہے اس پر اپنا جسمانی قبضہ کرتا جائے تاکہ بالآخر کروڑ در کروڑ آسمانی کروں پر جو فضائے عالم میں پھیلے ہوئے ہیں اور ویران پڑے ہیں اس کا قبضہ ہوتا جائے اور اشرف الخلق انسان کی فضیلت باقی تمام مخلوق پر عیاں ہوتی جائے۔ ساتھ ہی ساتھ انسان اپنے ارتقائے اعضا کے باعث اس سے بہتر نوع اسی طرح بنتا جائے جسطرح کہ اس نے ادنی حیوانوں سے لاکھوں برس میں ارتقا کرتے کرتے موجودہ شکل و صورت اختیار کی ہے۔ الغرض پچھلی تمام بحثوں کا لب لباب یہ ہے جو بیان ہوا اور یہی وہ دستور العمل تھا جس پر چل کر مسلمان قرون اولیٰ میں فاتح عالم بن گئے تھے! فتدبر۔

اقتباس تذکرہ جلد دوم صفحہ 155 تا 157 از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ



عالمی غلبہ کا نصب العین انسانی تاریخ میں اسلام نے پہلی بار پیدا کیا - علامہ المشرقیؒ

عالمی غلبہ کا نصب العین انسانی تاریخ میں اسلام نے پہلی بار پیدا کیا۔
تکملہ (سیرت النبی ﷺ)  از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

          عالمی غلبہ کا نصب العین جو قرآن نے لیظھرہ علی الدین کلۃ: (۹/۵،۶۱/۱)کے الفاظ میں پیش کیا تھا، اُس کی بنا اس فطری حقیقت پر تھی کہ تمام بنی نوع انسان اُسی طرح ٭ ایک اُمّت ہیں جس طرح پر کہ فطرت کی کوئی حیوانی نوعِ ایک اُمّت ہے جو اپنی نوع کے افراد کے مابین خلاف و جدال پیدا نہیں کرتی۔ قرآن کا پیغام یہ تھا کہ انسان نے جو اختلافات مذہب، رنگ، نسل وغیرہ کے بہانے سے آپس میں پیدا کر لیے ہیں وہ خدا کی مشیّت اور منشا کے خلاف ہیں۔ انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ اُمّتِ واحدہ بن کر رہے۔ صرف رحمت خدا ہی بکھرے ہوئے انسان کو متّحد
 کر سکتی ہے اور اگر یہ نہ ہوا تو خدا کا یہ قول پورا ہو کر رہے گا کہ میں تمام جِنّ واِنس سے جہنم کو بھر دوں گا۔ قرآن کا یہ پیغام حسب ذیل الفاظ میں تھا۔
:
ولوشاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفینoالا من رحم ربکط ولذلک خلقھمط وتمت کلمۃ ربک لا مئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعینo(۱۱/۱۰)

ترجمہ :اور اگر خدا اپنی مرضی کے مطابق کرتا تو ضرور بنی نوع انسان کو ایک اُمّت بنا دیتا لیکن انسان (اپنی مرضی کے مالک ہو کر) اختلاف کرتے ہی رہتے ہیں اِلّا وہ لوگ جن پر خدا کی رحمت ہو اور خدا نے تو انسان کو اُمّت واحدہ بننے کے لیے ہی پیدا کیا تھا۔ (لیکن اگر یہ نہ ہوا تو) تیرے خدا کا قول پورا ہو کر رہے گا کہ میں ضرور جہنّم کو تمام جِنّ واِنس سے بھر کر رہوں گا۔
:
          اس حقیقت کی بنا پر قرآن کا دعویٰ تھا کہ رسولؐ کو ہدایت اور سچا دین دے کر صرف اس واحد غرض کے لیے بھیجا گیا کہ وہ رسولؐ روئے زمین کے تمام دینوں، مختلف راستوں، علیحدہ علیحدہ مذہبوں، اور مسلکوں کو جو مختلف انبیا کو علیحدہ علیحدہ گروہوں کے رہنما ماننے کی وجہ سے یا رنگ و نسل وغیرہ کے اختلاف کے باعث پیدا ہو گئے ہیں، یکسر مٹا کر بنی نوع انسان کو ایک اُمّت واحدہ بنا دے ٭خواہ یہ بات خدا کے قانون کے منکروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔
          الغرض یہ وہ عظیم الشّان اور چونکا دینے والا نصب العین تھا جس کو حاصل کرنے کا دعویٰ انسان کی پیدائش کے ہزاروں سال بعد رسول صلعم نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار کیا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر کے تئیس برس صرف کر دئے۔ مٹھی بھر مسلمانوں کی جمعیّت جس کے ساتھ رسول صلعم نے بعثت کے چودہویں سال مدینہ کی طرف ہجرت کی اس نصب العین کی علم بردار تھی اور بظاہر یہ امر از بس مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا کہ کیونکر یہ کم و بیش ایک سو انسانوں کی جماعت اس عظیم مقصد کو حاصل کر کے دُنیا میں سرخرو ہو سکے گی لیکن یہ اُس کمالِ ایمان و یقین کا کرشمہ ہے کہ رسولؐ نے اپنی زندگی میں ہی اور صرف دس برس کے اندر اندر عالمی غلبہ کے امکانات انہی چند صد یا چند ہزار افراد کی قوت ایمانی سے اس قدر روشن کر دیئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

تکملہ (سیرت النبی ﷺ) جلد اول صفحہ نمبر ۴۵ تا ۴۶
از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ