Pages

Time

’’آسمان کا ٹکڑا‘‘ - مطبوعہ ’’ الاصلاح‘‘ 14دسمبر 1934ء از علامہ المشرقیؒ


ترجمہ عربی مقالہ افتاحیہ کسف من السّماء
’’آسمان کا ٹکڑا‘‘
مطبوعہ ’’الاصلاح‘‘
14دسمبر 1934ء   مطابق   6رمضان 1353ھ
            اے آج کل کے ’’شریعت ‘‘پر چل کر ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے والے مسلمانو!    اور اے آپس میں بنے ہوئے ’’ مومنو‘‘ اور ’’مسلمو ‘‘جو اس ادّعا میں مگن ہو کہ سلف صالحین کی پیروی کر رہے ہو، ان کے قدمون پر چل کر ’’رشد‘‘ اور ’’ھدایت‘‘کے حامل ہو، اللہ کے بیٹے بنے بیٹھے ہو اور اس گمان میں ہو کہ دنیا جہان کو چھوڑ کر خدا کی دوستی تمہیں ہی میسر ہے۔ نہ ان نصاریٰ یہود اور ہنود و غیر ہم کو جواس کے غضب میں آکر گمراہ ہو چکے ہیں! دیکھو تمہاری دنیا خراب ہو گئی، تمہارے ملک اجڑگئے ، تمہاری عظمت اور بزرگی فنا ہو گئی ، تمہاری دولت چل بسی، حکومت اور سلطنت کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے ، اللہ تمہاری روشنی اور بیداری کو اچک کر لے گیا، اس نے تم کو ایسا ہلاک کر مارا کہ اب صرف کہانیاں رہ گئیں، تم ہلاکت کے گڑہے میں گر گئے اور تمہارے نقش و اثر زائل ہو چکے ، دنیا میں بیکار عضو، اور مجلس میں بند گلے بن کر رہ گئے۔ اب موت اور نیند سے بے حس ہو اور کسی طرف تمہاری چیخ کی شنوائی نہیں ۔ کیا تم اس گمان میں ہو کہ تم ان خدا کے بندوں کی جو تم سے پہلے گزر چکے ’’پیروی‘‘کر رہے ہو،کیا تم ان کی ’’تقلید ‘‘ کے دعویدار ہو! حالانکہ ہم کو حرف بحرف ان بندگان خدا کا حال معلوم ہے جو تم سے پہلے ہو گزرے ۔ تاریخ کے صفحات ان کے اعمال اور حسن احوال سے پر ہیں، دنیا تما متر ان کی تھی، علم اورنور ان کا تھا، جاہ و جلال ان کا تھا، وہ اپنی صائب رائے کے باعث دنیا جہان کے دشمنوں سے بے خوف و خطر تھے ، ہر بربادی اور ہلاکت سے اپنے آپ کو بچا کر رکھتے تھے ، وہ عظیم الشان سلطنتوں پر حکمران تھے ، قدرت کے عجائبات اور کائنات فطرت کے اکثر سازوسامان ان کے دست قدرت میں تھے، قدرت کے عجائبات اورکائنات فطرت کے اکثر سازوسامان ان کے دست قدرت میں تھے، وہ ان سے نفع طلب کرتے تھے اور لوگوں کو نفع پردیتے تھے ۔ تاریخ بآواز بلند کہہ رہی ہے کہ انہوں نے اس سطھ زمین پر ڈنکے کی چوٹ کہا کہ بتائو’’ آج سلطنت کس کی ہے‘‘، غلبہ اور وقار کس کا ہے ، حمیّت قومی اور حمایت قوم کس کی ہے؟ وہ فرمان برداری اور عمل کے مجسمے تھے ، صرف کہہ دینے اور خیالی پلائو پکانے سے نفرت کرتے تھے۔ ان کے ایمان کی تصدیق ان کے سراپا عمل اور اطاعت سے تھی ، خدا کے حکموں کی تاویلیں کر کر کے مکر نہیں کرتے تھے ، وہ فرمانبردار اور اطاعت گزار دل کے ساتھ اللہ کی طرف آتے تھے ، دوزخ کی آگ سے لرز جاتے تھے ، اللہ کی راہ میں وہ جہاد کرتے تھے جو کرنے کا حق ہے، اس کے قانون کو اپنی طاقت کی حد تک پکڑے رکھتے تھے ، اللہ سے ان کی بستگی خوشدلی اور کشادہ پیشانی کے ساتھ تھی ، ان کے زھرہ گداز اور روح فرسا عمل کے باوجود ان کے خوش بخوش چہرے اس بات کی زندہ شہادت تھے کہ خدا نے صرف ان کے لئے دین میں کوئی تنگی نہ رکھی تھی۔ وہ اس کے دیئے ہوئے انعاموں کو لپک لپک کر پکڑتے تھے، اور مفید قوم کاموں کی طرف بڑ ھ بڑھ کر قدم مارتےتھے۔ مستقبل کی طرف ان کی آنکھ لگی تھی ، اور درجوں کی بلندی کے لئے قبلہ نما کی تڑپ ان کے دل میں تھی۔ ہاں ! ’’غلبہ اور سلطنت کا نور ان کے آگے آگے درڑ رہا تھا ‘‘ (قرآن حکیم) اور بادشاہت کی دلہن غلاموں اور لونڈیوں کی طرح ان کا پیچھا کرتی تھی!  تو دیکھ لو کہ اس دلہن کو غلام اسی قوم نے بنایا جو آپس میں رحمدل ، (رحماء بینھم) اور کافروں پر بڑے سخت ،(اشدّا ء علی الکفّار ) تھے (قرآن حکیم )اور یہ ان کے سچے مسلمان ہونے کی برکت تھی ورنہ ’’اگر تم تمام زمین کے خزانے خرچ کر ڈالتے تو ان کے دلوں میں یگانگت پیدا نہ ہوتی، وہ ایک حاکم یعنی اللہ کے صحیح معنوں میں غلام بن گئے ، اور اسی آقا کے خوف کے باعث ان کے دل جڑ گئے ‘‘ (قرآن حکیم )
          ہاں اے آجکل کے رسمی اور سطحی مسلمانو! مجھے بتلائوکہ کیا آج تم سب پر غالب  (الاعلون  ) ہوا ور پھر بتلائو کہ کیا تم مومن ہو؟ تمہارا پہلے مسلمانوں کے ساتھ جو ہر دم آگے بڑھ رہے تھے کیا جوڑ اور کیا رشتہ ہے؟نہ تم اس طرف جا رہے ہو جدھر وہ جا رہے تھے ، نہ اس طرح لپکتے ہو جیسے وہ لپکتے تھے ۔ تم زمین پر آگے کہاں بڑھ رہے ہو۔ کھڑے معلوم ہوتے ہو، نہیں بلکہ نیچے کی طرف گر رہے ہو، اور کسی طرف اگر تمہارے بڑھنے کے عنوان ہیں تو اس دردناک عذاب کی طرف جو تمہارے لئے مقرر ہو چکا ہے۔ یاد رکھو کہ آگے بڑھنے والے ہی میدان مارتے ہیں (السّٰبقون السّٰبقون )، وہی ہیں جوخدا کے منظور نظر ہیں، اور صرف وہی مومن ہیں ۔ جب تم بڑھتے نہیں تو لا محالہ غیر تم سے بازی لے جاتے ہیں۔ دنیا تمہاری خراب ہو چکی ہے تو یاد رکھو کہ آخرت میں بھی تمہاری رسوائی اور خواری ہے۔ تم راہ راست سے بھٹک گئے بلکہ خود آنکھیں بند کر لیں اور اب اس طرف آنے کی سکت نہیں رہی،تم نے اس سبق کو بھلا دیا جو کبھی تم کو خوب یاد تھا پس خدا بھی تم کو بھول گیا اور دنیا سے ملیامیٹ نسیاً منسیاًکر دیا۔ ہاں ! تم خدائے جبّار سے بگڑے ،پھر خدا بھی تم سے بگڑ بیٹھا حالانکہ اس نے کہ دیا تھا کہ ’’ مومنوں کوفتح دینا میرے ذمّے ہے ‘‘ (قرآن حکیم)پھر اس سبق کو بھولنے اور نافرمانی کے بعد تم نے اورغضب کیا کہ اپنے دل کو ڈھارس دینے کیلئے دین اسلام کو جو سرا سر عمل اور اطاعت تھا لفظوں اور کلموں اور عقیدوں اور قولوں اور نظریوں کی شکل دے دی۔ اس کے عملوں، اسکی مشکلوں، اس کے فعلوں اور کاموں سے پیٹھ موڑلی، اوسر صرف ’’عقیدے‘‘ رکھنے والے، کلموں کے بولنے والے، بک بک کرنے والے، بول بول کر آسمان کو سر پر اٹھانے والے ’’مومن ‘‘ بن گئے ۔ پھر کیا تھا خدا کی کلام کو جس طرح بھی جی میں آیا توڑ موڑ لیا، جو مط لب چاہا پیدا کر لیا،دین سے سب تنگیاں اور مشکلیں نکال پھینک دیں، آہستہ آہستہ ایک تشریح سے دوسری تشریح کی طرف لے گئے اور ان سب باتوں کو جو دین کے اندر سراپا عمل بن کر اور تکلیف میں رہ کر حاصل ہوتی تھیں چھوڑ دیا۔ اب کیا تھا، خدا کے حکم کو مخول سمجھنے لگے ، دین کو کھیل بنا لیا، اسکے معنے اور مطلب بدل دیئے ۔ ذرا ذرا سی باتوں کو جو آسان نظر آتی تھیں بڑ ا کر دکھایا، بڑی باتوں کو جن پر عمل مشکل تھا جان بوجھ کر اور مکر سے ہضم کر گئے ، اب لگے دین میں غلو کرنے ، قرآن کے بعض حصوں کو مانتے اور بعض جو تکلیف دہ تھے در پردہ انکار کرتے ‘‘(قرآن حکیم)اور ساتھ ساتھ مومنوں سے کہتے جاتے تھے کہ ہم سب کو ’’مانتے ‘‘ہیں ، ہم اس کے حرف حرف کے ’’قائل‘‘ ہیںپھر تم نے یہودیوں کی طرح قرآن کو ’’مختلف پرچوں پر لکھ لیا، جس کاغذ میں مطلب کی بات تھی اس کو خوب شوق سے ظاہر کرتے ، جس میں طبیعت کے خلاف تھی اس کو چھپاتے ‘‘ (قرآن حکیم)اور یہ اس لئے کہ اپنے نفس کو دھوکہ دو اور خدا کو اس طرح اپنا بنا سکو ۔
          تو اے آج کے مسلمانوں جواس دھوکہ میں ہو کہ ہم ’’ایمان ‘‘ والے ’’مومن ‘‘ ہیں تم اپنے مونہوں سے وہ بات کیوں کہتے ہو جس کی دل شہادت نہیں دیتا اور کیونکر منہ سے وہ عقیدہ رکھتے ہو جو کرتے نہیں ۔ یا د رکھو کہ ’’ کہنا اور پھر اس کے مطابق نہ کرنا گناہ کبیرہ ہے ‘‘ (قرآن حکیم)ہاں تم نے مکر کیا لیکن ادھر ’’ اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ چال چلنے والوں کے بالمقابل بہترین چال چلنے والا ہے ‘‘ (قرآن حکیم)۔ ’’ تم سے پہلے بھی لوگوں نے خدا سے اسی طرح کے مکر کئے تو اللہ نے ان کی دیوار جڑ سے اکھاڑ پھینکی، پھر اوپر سے ان پر چھت آگری اور اس طرف سے ان کو عذاب آیا جس طرف سے ان کو سان گمان نہ تھا ‘‘ (قرآن حکیم)کیا تم نے سمجھ لیا ہے کہ صرف منہ سے ایمان ایمان کہہ کر چھوڑ دیئے جائو گے اور تمہار ا کوئی امتحان نہ لیا جائیگا ۔ یا د رکھو کہ تم سے پہلے کے لوگوں کو خدانے آزمائش کے بغیر نہ چھوڑا تھا اور یہ اس لئے تھا کہ خداجھوٹوں اور زبانی جمع خرچ کرنے والوں کو سچوں اور عمل سے اپنے قول کی تصدیق کرنے والوں سے الگ کر دے ‘‘ (قرآن حکیم)اور یاد رکھو کہ ’’ لوگوں میں بہت سے ایسے ہیں جو منہ سے کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اور روز قیامت کی سزا سے ڈر گئے لیکن وہ ہر گز مومن نہیں ‘‘ (قرآن حکیم)’’ کیا تم نے سمجھ لیا کہ خدا کو منہ سے ما ن کر جنت میں جا داخل ہو گے حالانکہ ابھی تک تو خدانے دیکھا ہی نہیں کہ تم میں کون تلوار کے ساتھ لڑائی کر کے استقلال کے ساتھ دشمن کو شکست دیتے ہیں ‘‘ (قرآن حکیم)تو اے مسلمانو! ان تمام قرانی اور نصی شہادتوں کے بعد صاف ظاہر ہے کہ تم اپنی مصیبتوں کو رفع کرنے کے لئے استقلال سے کوئی لڑائی نہیں لڑتے بلکہ صرف آنکھون سے تک رہے ہو، جہاد نہیں کرتے بلکہ جم کر بیٹھے ہو، باتیں کرتے ہو اور کام نہیں کرتے ،ا پنے انتہائی مکر اور حیلہ بازی سے اس بات کی گواھیاں قرآن سے ڈھونڈتے پھرتے ہو کہ قرآن نے تو تمہیں ’’دنیا ‘‘ کی طرف توجہ کرنے سے منع کیا ہے، اس کی زیب و زینت سے نفرت دلائی ہے اورتم تو ’’ آخرت ‘‘ کے خواہا ں ہو دنیا کو کیوں ڈھونڈو۔ تو اے کم عقلو! مجھے یہ بتلائو کہ اگر تم یہاں اس دنیا میں سب سے گھاٹے میں رہے تو آخرت میں تمہیں کیا مل سکتا ہے ؟ یا د رکھو تم نے دنیا سے نفرت کا سفید جھوٹ اس وقت ایجاد کیا تھا جب دنیا خود بخود تمہاری غفلتوں کے باعث تم کو چھوڑ گئی، جب تمہارے تحریف کردہ دین نے تمہاری کچھ بھلائی نہ کی، جب خدا نے تمہیں بد حال کر دیا، تمہارے گناہوں پر پردہ پوشی چھوڑ دی۔ پھر تم نے قرآن کی ایک ایک آیت کے کئی ٹکڑے کئے ‘‘ (قرآن عظیم) اور اس کے مضامین کو الگ الگ کر کے مکر اور دھوکے کی کئی باتیں اپنی طرف سے گھڑ لیں، اس کے فقروں کو اپنے نفس کی تسلی کے لئے ’’ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ پر رکھ دیا‘‘ (قرآن عظیم)اور ریا کر کے خدا کے کلام کو غیر مفید بنا دیا ۔پھر ’’ تم نے اپنے معاملے کے آپس میں حصے کرلئے اور اب ہر فرقہ اس  ٹکڑے میں جو اس کے پاس ہے مست ہے ‘‘(قرآن حکیم)بھلا یہ تو بتلائو کہ یہی دنیا ہمارے پہلے مسلمانوںپر کیوں عاشق تھی اور وہ کیوں عاشقوں کی طرح اس کو ہر ملک میں تلوار ہاتھ میں لیکر ڈھونڈتے پھرتے تھے ؟ کیوں دنیا ان کی طرف جھکی اور وہ عاشقوں کیطرح اس سے کیوں گتھم گتھا ہو گئے ؟ جواب دو کہ رسول ؐ خدا کو ہدایت اور دین دے کر کس غرض ، کس مطلب ، کس مقصد کے لئے بھیجا گیا تھا؟ کیا یہ نہ تھا ’’ کہ اس دین کو تما م دنیا کے دینوں پر غالب کر دے خواہ کافروں کو برا ہی کیوں نہ لگے ‘ ‘(قرآن حکیم)اچھا یہ بتلائو کہ قرآن میں کس غرض کے لئے کافروں سے تلوار کی لڑائی کا حکم تھا ؟ روپیہ اور جانوں سے جہاد کرنے کا کیا مقصد تھا ؟وطن کو چھوڑ کرھجرت کی ترغیب دینے سے کیا منشا تھا ؟ ماہ رمضان میں بھوکا رکھنے سے خدا کو کیا فائدہ تھا ؟ تم کو پنج وقتہ مسجد میں جمع کرنے سے خدا کی کیا بگڑی بنتی تھی؟ تمام دنیا کے مسلمانوںسال میں ایک جگہ حج کرانے سے اللہ کا کیا سنورتا تھا ؟ زکوٰۃ کو ایک جگہ بیت المال میں جمع کرنے سے زمین و آسمان کے مالک خدا کا کیا فائدہ تھا؟ تمہیں آپس میں اکٹھے رہنے یک دل اور یک جان بننے کی کیوں تلقین کی تھی ؟ تمہیں اپنے سردار کی فرمانبراداری پر کیوں بار بار زور دیا تھا؟ تمہیں کیوں کہا تھا کہ خدا کے قانوں کو مضبوط پکڑے رہو؟ کیوں کہا تھا کہ شیطان کے کہنے پر نہ چلو؟ انصاف سے بتائو کہ کیا ان تمام حکموں کی غرض سوائے اس کے کچھ اور ہو سکتی تھی کہ خدا تم ہی کو اس دنیا کے اند ر غالب کر کے بادشاہ بنانا چاہتا تھا اور چاہتا تھا کہ تمہاری جماعت کے دشمن شکست کھا جائیں ۔ اچھا غور کرو کہ تمہارے پہلے خلیفوں یعنی خلفائے راشدین ؓ کا دن رات کا کیا وطیرہ تھا؟ تمہارے شروع شروع کے بادشاہ شب و روز کیا کرتے تھے ؟ تمہارے تلواروں اور تیروں سے لیس جہاد کرنیوالے سپاہی کس طرح ہر دم ڈٹے کھڑے تھے ؟ تمہاری فوجیں اور گھوڑوں کی چھائونیان کہاں کہاں پہنچی تھیں ؟ جائو تاریخ پڑھو۔ کای ان تمام کی غرض سوائے اس کے کچھ اور تھی کہ تمہاری دنیا بھی درست ہو اور یہ کہ تم اس کے بعد ’’ زمین پر بے خوف و خطر پھرو‘‘ (قرآن حکیم)اس دنیا ہی کے اند ر گھاٹے میں نہ رہو اور دنیا میں سر خروئی کے بعد تم کو آخرت میں سر خروئی حاصل ہو! تو اے مسلمانو ! کیا آج تمہارے لئے تمام دین منسوخ ہو چکا ہے ؟ کیا اس روشن اور نور دینے والی کتاب (قرآن )کی تمام آئتین کسی اور قوم کے لئے تھیں اورتم کو ان پر عمل کرنے کی کچھ تکلیف نہ دی گئی تھی؟ اچھاتم لاڈلوں کے لئے اب صر ف یہ رہ گیا ہے کہ کلمہ شہادت کے چار لفظوں کو پڑھ لیا کرو، شرعی ڈاڑھیاں حجام سے بنوا لو ، پیچدار بڑے بڑے پگڑ باندھ کر مسلمان بنے رہو، اور جنت کی انتظار کرو۔ خوب ! تم انتظار کرو میں بھی دیکھ لوں گاکہ تمہیں جنت کیسے مل جاتی ہے ۔
          خوب ! قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے لئے خدا کی طرف سے ’’ بیٹیاں ‘‘ تھیں اور تمہارے لئے ’’ بیٹے ‘‘؟ خوب ! تمہیں بغیرتکلیف کے جنت ، اور ان کے واسطے جانکاہ تکلیفیں جب تک اس دنیا میں تھے اور سر ا سر مصیبت ، رنج اور گھاٹا؟ ’’ انہیں کہہ دو کیا میں تمہیں صاف بتائوں کہ وہ کون لوگ ہیں جو اپنی بد کاری کی پاداش میں سب سے زیادہ گھاٹے میں رہیں گے ۔وہ وہ لوگ ہیں جن کی کوشش اس دنیا میں ناکام رہی ۔ جن کی مستیوں اور آرام جان نے ان کی دنیا تباہ کر دی اور وہ یہی سمجھتے رہے کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں خوب کر رہے ہیں ۔ یاد رکھو کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے حکمون کے کافر ہو گئے ، روز قیامت کو اپنی بد کاریوں کی جواب دہی سے منکر ہو گئے ۔ پھر ان کے تمام باقی عمل بھی ضائع ہو گئے اور ہم قیامت کے دن ان کی پرکاہ جتنی پروا نہ کریں گے ۔ا ن کی سزا اس کفر کے بدلے جہنم ہے کیونکہ انہوں نے میرے حکموں اور میرے پیغامبروں کو مخول سمجھا ‘‘(قرآن حکیم)تواے مسلمانو! وہ مکر جو لومڑی نے ان انگوروں سے کیا تھا جن تک اس کے ہاتھ نہیں پہنچ سکتے تھے تم کیوں کرتے ہو! وہ انگوروں کو کہتی تھی کہ کھٹے ہیں اور تم دنیا کو مردار کہتے ہو اور کہتے ہو کہ ہم اس کی چٹکی کے برابر پرواہ نہیں کرتے ۔ کیا یہاں اس دنیا میں روز آخرت کے حاکم کے سوا کوئی اور حاکم حکم کر رہا ہے ، اور کیا اس عذاب کو جو تم پر ہے خدا کے سوا کوئی اور بھیج رہا ہے ۔ پس کیوں اس دین کی توڑ مروڑ کرتے ہو۔ قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے خود ٹکڑے ٹکڑے ہوئے جاتے ہو! آئو آج سے قرآن پر عمل شروع کردو پھر دیکھو خدا کی رحمت کیا رنگ لاتی ہے۔
یکم رمضان 1353ھ
   عنایت اللہ خان المشرقیؒ