Pages

Time

قرآن کو سمجھنے کیلئے بلندیٔ نگاہ کیا ہو! ....... از علامہ المشرقیؒ


قرآن کو سمجھنے کیلئے بلندیٔ نگاہ کیا ہو!   ....... از علامہ المشرقیؒ

قرآن پاک مخاطب ہے تمام بنی نوانسان سے تو پس قرآن سے صحیح نتائج اخذ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ؛
1.    ہر آیت کے متعلق اس کے مفہوم سمجھنے کا زاویۂ نگاہ بلند ہو۔
2.    قرآن کے الفاظ کو اُن کے اُس وقت کے مفہوم اور معنوں میں دیکھا جائے جب کہ قرآن نازل ہوا تھا، جو معنی اب رسم و رواج کے باعث ’’مُلائی‘‘بن چکے ہیں نہ لئے جائیں۔
3.    کسی لفظ کے معنی کی شرح خود قرآن سے لی جائے اِلا یہ کہ وہ لفظ کسی دوسری جگہ موجود نہ ہو اور اُس صورت میں مجبوراً لُغت سے کام لیا جا سکتا ہے۔
4.    مختلف جگہوں پر ایک ہی مضمون کی آیتوں کو سامنے رکھ کر اور مقابلہ کر کے مفہوم تلاش کیا جائے۔
5.    قرآن کے ہر حصّے کویکساں طور پر ضروری اور واجب العمل سمجھا جائے خواہ وہ سردست سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔
6.    اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ سینکڑوں یا ہزاروں برس کے واقعات کو چند لفظوں میں بیان کرنے میں، یا پوری کائنات کی کسی حقیقت کو ایک قاعدے کے تحت لانے میں کس قدر دقّت ہے اور اُن چند لفظوں سے ہی پوری حقیقت پر حاوی ہونے کی سعی کی جائے۔
7.    سب سے ضروری یہ امر کہ یقین اس بات کا ہو کہ قرآن کے الفاظ زمین و آسمان کے پیدا کرنے والے خدا کے الفاظ ہیں، اس لئے اگر اُن کا صحیح مفہوم معلوم ہوگیا تو بنی نوع انسان کے لئے مفید ہو گا۔
8.    قرآن کو غرض صرف رسمی مسلمانوں سے نہیں سب نوع انسان سے ہے۔
9.    اگر قرآن کہتا ہے کہ زمین کے وارث صالح لوگ ہیں تو جو قومیں زمین کی اس وقت وارث ہیں اسی نسبت سے جس قدر وہ وارث ہیں صالح ہیں یا اگر قران کہتا ہے کہ کافر کو ہمیشہ شکست اور مومن کو ہمیشہ فتح ہے تو جس قوم کو شکست مل رہی ہے وہ کافر اور جس کو فتح ہو رہی ہے وہ اسی نسبت سے مومن ہے، گویا قرآن کا تعلق صرف مسلمانوں کی موجودہ مِلّت سے نہیں، سب سے ہے اور سب قرآن کی مخاطب ہیں۔ 

ان تصریحات کے بعد جو باتیں قرآن کے متعلق سمجھنے والی ہیں وہ یہ ہیں:۔ 

 قرآن کوئی ’’مذہبی‘‘کتاب مسلمانوں کی نہیں جس سے انسانوں کے اُس فرقہ کے مذہبی نشان اور شعائر (مثلاً ڈاڑھی رکھنا یا تہمد پہننا، یا تسبیح ہاتھ میںرکھنا وغیرہ وغیرہ) معلوم ہوتے ہیں جس کا نام ’’مسلمان‘‘ہے بلکہ وہ تمام بنی نوع انسان کیلئے خدا کاقانون ہے۔ قرآن انکار کرتا ہے کہ ابراہیم یہودی تھا یا نصرانی بلکہ وہ خالص ’’مسلم‘‘ تھا یعنی خدا کے حکموں کو ماننے والا) اسی طرح قرآن میں مُسلم وہ قوم ہے جو حکموں کو عملاً مانتی ہے عقیدۃً قرآن کو ماننے والی قوم قرآن کے نزدیک کچھ نہیں، پیغمبر کوئی فرقہ بنانے نہ آئے تھے، نہ رسُول خدا صلعم نے کوئی گروہ ’’مسلمان‘‘بنایا۔
 قرآن میں کئی جگہ لقوم یعملون، لقوم یتقون، لقوم یسمعون، لقوم یومنون وغیرہ وغیرہ، کے الفاظ ہیں اس لئے قرآن کا خطاب انسان کی ہر اُس قوم کی طرف ہے جو عمل کرے، علم حاصل کرے، ڈرے، سُنے، ایمان لائے وغیرہ وغیرہ، مسلمان قوم کی کوئی تخصیص نہیں۔

(علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ)
’’حدیث القرآن‘‘صفحہ نمبر ۲۷۹ تا ۲۸۰سے اقتباس