Pages

Time

Biography of Allama Mashriqi by Lietunant Colonal Dr. M. Ayub Khan

علامہ مشرقیؒ
(۲۵اگست ۱۸۸۸ء۔۔۔۔۔۔۲۷اگست ۱۹۶۳)
آپ کتنی زندگی چایتے تھے
میں اتنی زندگی چاہتا ہوں کہ مسلمانوں کی فوجیں دہلی لال قلعہ میں داخل ہو رہی ہوں اور میرا جنازہ جا رہا ہو ۔
لیفٹیننٹ کرنل (ریٹائرڈ) ڈاکٹر محمد ایوب خان

حضرت علامہ مشرقی ؒ۲۵اگست۱۸۸۸ء کو ایک صاحب ثروت شخص عطا محمد خاں کے گھر امر تسر شہر میں پیدا ہوئے ۔ آپ کا خاندان علمی خاندان تھا اور آباؤ اجداد مغلو ں اور سکھوں کے زمانے میں بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے تھے ۔ آپ کا نام عنایت اللہ خان رکھا گیا ۔

۱۹۰۷ءمیں اٹھارہ سال کی عمر میں آپ نے ایم اے ریاضی کا امتحان پاس کیا اور نہ صرف اول آئے بلکہ سابقہ ریکارڈ توڑ دیئے ۔ اس کے بعد آپ کے والد نے اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ کو انگلینڈ بھیج دیا اور آپ پانچ سال تک کیمبرج یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے۔ وہاں آپ نے ریاضی فزکس انجینئرنگ اور عربی فارسی کے امتحانات امتیازی سندوں کے ساتھ پاس کئے آپ اقوام عالم میں پہلے شخص تھے جس نے چار مضامین میں ٹرائی پوزحاصل کئے ۔

۱۹۱۳ءکے اوائل میں آپ وطن واپس آئے ۔ آپ کو بڑی بڑی ملازمتوں کی پیش کش ہوئی مگر آپ نے تعلیم کو پسند کیا اور اسلامیہ گورنمنٹ کالج پشاور میں وائس پر نسپل مقرر ہوئے ۔ بہت جلد آپ کو پرنسپل کے عہدے پر ترقی دے دی گئی ۔ ۱۹۱۶ءمیں آپ کو گورنمنٹ آف انڈیا میں بلا لیا گیا اور وہاں آپ تین سال تک رہے۔ انگریزی حکومت نے آپ کو ہونہار دیکھ کر اپنے مقاصد کے لیے ڈھالنا چاہا لیکن آپ کو باغی پا کر پشاور واپس بھیج دیا ۔

واپسی پر قوم کو زوال یافتہ پا کر اور آپ کے اپنے الفاظ میں ”ایک مولوی کی بے معنی لسانی کو دیکھ کر“ آپ نے قرآن حکیم کی تفسیر علمی انداز میں لکھنے کا فیصلہ کیا اور ڈھائی سالوں میں چھ جلدیں لکھ د یں ۔ پہلی جلد ۱۹۲۴ءمیں شائع ہوئی۔ طباعت کی مشکلات کو دیکھ کر آپ نے پہلی جلد کے عربی افتتاحیہ اور اردو دیباچہ میں اپنے پیغام کا لب لباب دے دیا ۔ اور وہ یہ تھا کہ ازروئے قرآن قوموں کے عروج و بقا ءکے مندرجہ ذیل دس اصول ہیں :

۱۔توحید فی العمل۔ ۲۔ اتحاد امت۔ ۳۔ اطاعت امیر۔ ۴۔ جہاد بالسیف۔ ۵۔جہاد بالمال۔۶۔ ہجرت۔۷۔ مکارم اخلاق۔ ۸۔ سعی فی العمل۔ ۹۔ علم۔ ۱۰۔ایمان بالآخرت ۔

ان اصولوں کو پڑھنے کے بعد مذہب اور قوم کے بارے میں چودہ طبق روشن ہو جاتے ہیں ۔ کئی مذہبی محرروں نے ان کی روشنی میں مضامین لکھ کر اپنا نام پیدا کیا ۔

جنگ عظیم (۱۹۱۴۔۱۸ء)میں ترکی کو شکست ہوئی اور اس کی سلطنت پر یورپ کا قبضہ ہو گیا ۔ مصطفےٰ کمال پاشا نے مشکل سےجنگ عظیم (۱۹۱۴۔۱۸ء)میں ترکی کو شکست ہوئی اور اس کی سلطنت پر یورپ کا قبضہ ہو گیا ۔ مصطفےٰ کمال پاشا نے مشکل سے اور چار سال کی مزید جدوجہد کے بعد ترکی کو غلامی سے بچایا ۔ اس نے خلافت کو بے معنی پا کر ۱۹۲۴ءمیں اسے مسترد کر دیا ۔ مگر خلافت رسسمی ہی سہی وہ امت کی یک جہتی کا مظہر تھی ۔ اس کے حق میں ہندوستانی مسلمانوں میں کافی چیخ و پکار ہوئی ۔ اور ۱۹۲۶ءمیں مصر میں اس کی بحالی کے لیے خلافت کانفرنس منعقد ہوئی ۔ تذکرہ کی شہرت کی وجہ سے حضرت علامہ مشرقی ؒ کو بھی وہاں مدعو کیا گیا ۔ آپ نے اپنے خطاب میں رسمی خلافت بنانے کی مخالفت کی ۔ آپ نے کہا کہ خلیفہ اور امیر ایک شے ہے اور امیر کی اطاعت امت پر فرض ہے ۔ کسی کمزور اور بے بس بادشاہ کو خلیفہ بنانے میں خطرہ ہے کہ اغیار اس پر دبؤ ڈال کر امت کو نقصان پہنچائیں گے۔ فور ی عمل کے طور پر آپ نے چار تجاویز پیش کیں ۔

۱۔ کانفرنس مستقل حیثیت اختیار کرے ۔
۲۔ پوری دنیا میں امت کی ہر محلے میں دینی مرکز قائم کرکے امت کی تربیت کی جائے ۔
۳۔ اخراجات پورے کرنے کے لیے فنڈ قائم کیا جائے۔
۴۔مسلمانوں کو فرقہ بندی سے بلند ہو کر صرف مسلمان بننے کی تلقین کی جائے ۔

اس کے بعد آپ نے مسلمان سربراہان حکومت کو بذریعہ خطوط اس طرف توجہ دلائی مگر نتیجہ کچھ نہ نکلا اور چند سالوں میں کانفرنس اور خلافت کا خیال خواب ہو گیا ۔

تذکرہ کی اشاعت سے حضرت علامہؒ توقع کرتے تھے کہ کچھ مسلمان عمل کے لیے نکلیں گے مگر کوئی نہ نکلا با لآخر آپ نے قوم کی تنظیم و تربیت کا بیڑا خود اٹھایا اور ۱۹۱۳ءمیں ملازمت چھوڑ کر لاہور سے خاکسار تحریک شروع کرنے کا پروگرام بنایا ۔ آپ اچھرہ میں کرائے کے مکان میں مقیم ہوئے اور سب سے پہلی کتاب اشارات شائع کی۔ اس میں مسلمانوں کو ان کی خوابیدہ خوبیوں کا پتہ دے کر تحریک میں شامل ہونے کے لیے کہا اور دعوت دی کہ ہر گؤں اور محلہ میں مسلمان ایک سالار کے حکم کے ماتحت منظم ہو جائیں اپنی اصلاح کریں دوسروں کی خدمت کریں عسکری جذبہ پیدا کرنے کے لیے اپنے کپڑے خاکی رنگ میں رنگ لیں اور شام کو قواعد کریں چونکہ تلوار بلکہ بڑا چاقو رکھنے کی اجازت بھی نہیں تھی بیلچے کو بطور ہتھیار اٹھائیں ۔ کبھی کبھی کیمپ لگا کر کفرواسلام کی مصنوعی جنگ لڑیں وغیرہ ۔ مگر سو سال کی غلامی نے مسلمانوں پر یہ اثر ڈالا تھا کہ وہ با بوبنے کر سیوں پر بیٹھ کرباتیں کرنے اور جلسے کرنے کو عزت سمجھتے تھے مگر سڑک پر نکل کر صفوں میں مارچ کرنا ان کے لیے باعث ننگ تھا۔ چنانچہ پہلی جماعت کو ایک گؤں (پانڈو کی ضلع لاہور ) میں لے جا کر قواعد سکھائے گئے ۔ تین سال تک حضرت علامہؒ نے خاموشی سے اور بغیر کسی اخبار یا چرچے کے نوجوانوں کو منظم کرنے کی کوشش کی حتیٰ کہ ایک دن بمبئی کے ایک ہندو انگریزی ہفتہ وار پرچے میں خاکساروں کی تصویر شائع ہوئی جس کے نیچے لکھا تھا۔Under the shadow of night ( یعنی رات کے سائے میں ) پھر حضرت علامہؒ نے کہا کہ اب تو راز کھل گیا ہے اب اخبار جاری کیا جائے چنانچہ ۲۴نومبر ۱۹۳۴ءسے ہفتہ وار ” الاصلاح“جاری کیا گیا اور تحریک پورے ہندوستان میں پھیل گئی ۔

تحریک کے شروع میں ہی اعلان کےا گیا کہ حضرت علامہ ؒ دس سال تک قوم کو آزمائیں گے ۔ دس سال کے بعد دہلی میں مرکزی اجتماع ہوگا ۔ اگر وہاں تین لاکھ جان پر کھیلنے والے جمع ہوگئے تو تحریک کو منزل پر پہنچا دیا جائے گا ورنہ منتشر کر دیا جائے گا ۔

شروع شروع میں حضرت علامہؒ کشمیری بازار لاہور میں نوجوانوں کو پریڈ سکھانے جاتے تھے ۔ ان کے بار بار پوچھنے پر آپ نے کہا کہ یورپ بے پناہ جنگ کی تیاری میں لگاہے اس لیے جنگ ضرور ہوگی ۔ نتیجے میں برطانیہ کو ہندوستان چھوڑنا پڑے گا ۔ اس وقت وہ قوم ہندوستان پر حکمران ہوگی جو زیادہ طاقتور ہوگی۔ میں مسلمانوں میں وہ طاقت پیدا کرنے کا سامان کر رہا ہوں ۔تحریک کا کام مذہبی آزادی کے قانون کے ماتحت اور خدمت خلق کے لیے سکاؤٹوں کی مانند کیا جاتا تھا تا کہ انگریز کو ہاتھ ڈالنے کا موقع نہ ملے ۔ پھر بھی انگریز نے صوبہ سرحد میں خاص پاپندیاں لگا دیں جو بڑی کو شش سے ہٹوائی گئیں ۔

انگریز نے صرف مانگنے کی سیاست کی اجازت دی تھی اور کانگریس اور مسلم لیگ صرف مانگا کرتی تھیں ۔ گاندھی کے افریقہ سے واپس آنے پر ہندؤں نے عدم تشد دکی پالیسی شروع کی یعنی مار کھؤ قید ہو جاؤ اور مطالبہ جاری رکھو مسلمانوں نے یہ بھی نہ کیا ۔ ۱۹۳۰ءمیں لندن کی کانفرنس میں محمد علی جوہر نے کہا کہ وہ آزادی لے کر جائیں گے یا واپس نہیں جائیں گے ۔تقدیر الٰہی سے وہ وہیں فوت ہو گئے اور مسجد اقصیٰ کے پہلو میں دفن ہوئے ۔مگر انہیں آزادی کی توقع بطور بخشش ہی تھی۔

خاکسار تحریک کا طریقہ اور تھا ۔ قانون وقت کے پابند رہو، اپنی اصلاح کرو، دوسروں کی خدمت کرو، خدا کا کھؤ اور اسی کا گؤ، اللہ کی راہ میں مال و جان بلکہ فرزند وزن قربان کرنے کی ہمت پیدا کرو مرکزی اجتماع کے لیے تیار رہو وغیرہ ۔ انگریز حیرت سے تحریک کو دیکھ رہا تھا مگر اس پر ہاتھ ڈالنے کا بہانہ نہیں پاتا تھا ۔ سب سے پہلے اس نے علمائے سوءکو تحریک کے پیچھے لگا دیا ۔

مشرقی ؒ کے عقائد خراب ہیں وہ کافر ہے اس لیے سب خاکسار کافرہیں وہ زن طلاق ہیں وغیرہ حتیٰ کہ ہزارہ کے ایک مولوی کے بھڑ کانے پر اکوڑہ خٹک میں چند خاکساروں کو حالت نماز میں شہید کیا گیا ۔ ہر جگہ خاکساروں کے خلاف جلسے شروع کر دئیے گئے ۔ حضرت علامہؒ نے ”مولوی کا غلط مذہب“کے نام سے کئی پمفلٹ شائع کر کے اس حملے کو روکا۔ افسوس کہ مسلمان اس عسکری تحریک کی اہمیت کو سمجھنے سے بالعموم قاصر رہے ۔ کہا جاتا تھا کہ دیوار پر سر ماریں تو اپنا سر ہی پھوڑیں گے انگریز کا مقابلہ کون کر سکتا ہے ؟ سو سال کی غلامی نے قوم کو بزدل بنا دیا تھا ۔ بہر حال تحریک ترقی کی منزلیں طے کرتی رہی ۔

جنوری۱۹۳۹ء میں دہلی میں آخری اجتماع کا اعلان کر دیا گیا ۔ ان ہی دنوں لکھنو میں شیعہ سنی محاذ گرم ہو گیا ۔ پنجاب سے جتھے جانے شروع ہوئے کسی نے حضرت علامہؒ کی توجہ دلائی آپ نے صلح کے لیے خاکساروں کے جتھے بھےجے اور صلح ہوگئی آ پ خود بھی گئے یوپی کی ہندو حکومت نے بلاوجہ انہیں گرفتار بھی کیا مگر پھر چھوڑ دیا ۔ اس عمل نے خاکسار تحریک کو پوری قوم میں ہر دلعزیز کر دیا ۔ اور نوجوان ہر جگہ پر یڈ کرتے نظر آنے لگے۔

ستمبر ۱۹۳۹ءمیں یورپ میں جنگ شروع ہوگئی ۔ حضرت علامہ ؒاسی لمحے کے منتظر تھے مگر تقدیر کو کچھ اور ہی منظور تھا ۔ ہندواور مسلمان جو مغلوں کے زمانے سے یکجان چلے آتے تھے انگریز کی لڑؤاور حکومت کرو پالیسی کے ماتحت ایک دوسرے کے جانی دشمن بن چکے تھے ادھر مغربی جمہوریت کے نظریہ نے اکثریت کی حکومت کا تخیل پیدا کیا اور مسلمانوں کے دلوں میں یہ خوف پیدا ہوا کہ چونکہ متحدہ ہندوستان میں ہندو اکثریت میں ہوں گے اس لیے حکومت ان کی ہوگی ۔ اس ڈرنے تقسیم ہند اور پاکستان کا نظر یہ پیدا کیا اور مسلمان اس پر ڈٹ گئے بالخصوص اس لیے کہ اس پر انگریز بھی راضی ہو سکتا تھا ۔ مگر مشرقی ؒکے چھین کے لیں گے کے نظریے کے لیے کوئی طاقت انہیں نظر نہیں آتی تھی ۔ اس وقت آج کی طرح کے منظر کہ کمزور ظالموں کے خلاف بر سر پیکار ہو سکتے ہیں کہیں نظر نہیں آتے تھے نہ گوریلا لڑائی کا کسی کو علم تھا ۔ بہر حال حضرت علامہؒ کا فارمولا جو انہوں نے کثیر تعداد میں ایک پمفلٹ بعنوان ” اکثریت یا خون “ شائع کر کے دیا یہ تھا کہ

حکومت اس قوم کا حق ہے جو خون بہائے اور ہندوستان کی حفاظت کے لیے پچھلے ڈیڑھ سو سال میں ایک ہند وکے مقابلے میں ۱۶۵ مسلمانوں نے خون بہایا ۔ انگریز کو اگر اب جانا ہے تو حکومت مسلمانوں کے سپرد کر کے جائے ۔

حضرت علامہؒ کا مقصد مسلمانوں کو اس بات کی طرف متوجہ کرنا تھا کہ انگریز کے جانے پر خون کی ہولی کھیل کر ہندوستان پر قبضہ کر لیں ۔ مگر انگریز کو یہ کیسے منظور ہو سکتا تھا ۔ اس نے اس پمفلٹ کو ضبط کر لیا اور پھر پنجاب میں جو تحریک کی طاقت کا مرکز تھا فرقہ وارانہ فساد کے عذر سے تحریک پر پابندی لگا دی ۔ تھوڑا عرصہ پہلے انگریز نے ہندوؤں سکھوں اور بعض مولویوں اور پیروں کو بھی آمادہ کیا کہ اس قسم کی مصنوعی جماعتیں بنائیں تاکہ انگریز کا عذر پورا ہو ۔

حضرت علامہ مشرقی ؒ نے مرکز کو بچانے کے لیے اسے دہلی منتقل کیا اور احتجاج کے لیے دس ہزار خاکساروں کو لاہور جمع ہونے کا حکم دیا ۔ وائسر ائے سے ملنا چاہا تو اس نے عذر کیا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے وہ دخل نہیں دے سکتا ۔ قائداعظم جناح سے کہا کہ اپنے وزیر اعظم سر سکندر حیات کو کہو کہ مسلمان ہو کر یہ پابندی نہ لگائے انہوں نے کہا کہ آپ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔

۲۰ فروری کو قائداعظم نے وائسر ائے سے ملاقات کی اور۳۲مارچ ۱۹۴۰ءکو مسلم لیگ کا کل ہند جلسہ ہونا قرار پایا ۔ صرف چار دن پہلے ۱۹ مارچ کو انگریز کی سازش سے خاکساروں نے احتجاج میں پریڈ کی ۔ ان پر گولیوں کی بو چھاڑ کی گئی اور حضرت علامہؒ کو دور مدراس میں قید کر دیا گیا ۔ ۲۳ مارچ کو مسلم لیگ کا جلسہ حسب معمول دھوم دھڑکے سے ہوا جس میں تقسیم ہند کا ریزولیوشن پاس کیا گیا ۔ عام لوگوں میں یہ بات پھیلادی گئی کہ مشرقی آدمی مروا دیتا ہے۔ مسلم لیگ صرف نوٹ اور ووٹ سے پاکستان حاصل کر لے گی چنانچہ پوری قوم کا رخ ادھر پھر گیا ۔

حضرت علامہ مشرقی ؒ ۱۹۴۶ء میں رہا ہوئے اور مدراس میں پابند کر دیئے گئے ۔ دہلی پر بزور قبضہ کرنے کا کھیل ختم ہو چکا تھا ۔

چھٹے اسیر تو بدلا ہوا زمانہ تھا
نہ گل تھا نہ چمن تھا نہ آشیانہ تھا

آزادی ہندکے لیے ان کی کو شش اب یہ تھی کہ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے دو مسلمہ لیڈروں مہاتما گاندھی اور قائداعظم محمد علی جناح کو بذریعہ خطوط اور وفود اس طرف متوجہ کیا کہ وہ انگریز کے سامنے متحدہ مطالبہ پیش کریں تا کہ انتقال حکومت پر امن ہو اور ہندو اور مسلمان آپس میں پہلے کی طرح صلح آشتی سے رہ سکیں۔ لیکن یہ دونوں لیڈرٹس سے مس نہ ہوتے تھے ۔

۱۹۴۲ءمیں ہی ایک انگریز وزیر سر سٹیفورڈ کر پس ہندوستان سے جنگ میں امداد لینے کے لیے آیا لیکن ناکام ہوا ۔ واپس جا کر اس نے بیان دیا کہ میں کئی ہزار میل چل کر گیا مگر ہندوستان کے لیڈر آپس میں بات کرنے کو تیار نہ تھے ۔ حضرت علامہؒ کے نزدیک کر پس اس بیان سے امریکہ کو یہ بتا رہا تھا کہ ہندوستان آزادی کا نااہل ہے تم ہمیں مدددو ۔ جنگ کے بعد یہ علاقہ تمہارا ہو گا۔

۱۹۴۳ء میں گاندھی نے ”ہندوستان چھوڑ دو“ کی یک طرفہ تحریک شروع کر دی۔ حضرت علامہؒ نے گاندھی کو لکھا کہ مسلم لیگ کو ملائے بغیر تم کامیاب نہیں ہو سکتے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ ۱۹۴۴ءمیں گاندھی وغیرہ رہا ہوئے اور حضرت علامہ ؒ نے گاندھی جناح ملاقات کی از سر نو کوشش کر دی اور دبؤ ڈالنے کیلئے بمبئی اور گاندھی کے گؤں واردھا میں خاکسار کیمپ قائم کئے۔ بالآخر دونوں دو ہفتوں تک آپس میں ملاقی رہے مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے۔ گاندھی نے کہا کہ وہ ہندوستان کی تقسیم کو تسلیم کرتا ہے مگر ہندوؤں اور مسلمانوں کو دو قومیں تسلیم نہیں کرتا۔ عین اس وقت ایک شخض نے غالباً انگریز کی سازش سے قائداعظم پر حملہ کر دیا۔ کہا گیا کہ وہ خاکسار ہے۔ اس کا خاکسار ہونا ثابت نہ ہوا مگر اس عمل نے مسلم لیگ اور خاکسار تحریک میں دشمنی ڈال دی۔ جو بے پناہ بربادی تقسیم کے وقت پنجاب میں ہوئی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقابلے کے لئے مسلمانوں کی کوئی عسکری جماعت میدان میں نہتھی۔

اس کے بعد حضرت علامہؒ نے وائسرائے کو خط لکھ کر پوچھا کہ ہندوستان کی آزادی کی شرائط کیا ہیں۔ اس نے کہا کہ ہندوستان کو افراتفری کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔ سب سے پہلے آئین بنانا ہو گا۔ چنانچہ حضرت علامہؒ نے آئین بنانے کا تہیہ کر لیا اور نو ماہ کی مدت میں تن تنہا ایک بے مثال آئین لکھا جس میں متحدہ ہندوستان اور پاکستان کے دو متضاد مطالبوں کو سمو دیا۔ (وہ ایک قابل قدر دستاویز ہے اور پاکستان کی حکومت کو اس کا مطالعہ کرکے اپنی کلیں سیدھی کرنی چاہئیں۔

جنگ ختم ہوئی تو انگریز نے انتخابات اور ۱۹۴۸ءتک ہندوستا ن کو آزادی دینے کا اعلان کر دیا اور آزاد اسلامی مملکت کے تخیل نے مسلم لیگ کو سب مسلمانوں کے ووٹ دلا دیئے حتیٰ کہ ان مسلمانوں نے بھی ووٹ دیئے جنہیں ہندوستان میں ہی رہنا تھا۔ پھر انگریز وفد آئے تاکہ آزادی کا مسئلہ حل کریں۔و ہ ہندوستان کو پر امن اور لوگوں کو بطور پڑوسی چھوڑنا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا مفاد اسی میں تھا کہ یہ لوگ لڑتے رہیں اور وہ اپنا سامان بیچتے رہیں۔ ”مشرقی آئین“ نے صلح کی صورت پیدا کر دی تھی۔ اس سے ملے جلے انگریزی فارمولے کو قائد اعظم نے تسلیم بھی کر لیا مگر نہرو کے غلط بیان نے انہیں برافروختہ کر دیا اور وہ پھر تقسیم ہند پراڑ گئے۔

انگریز نے یہ دیکھ کر کہ کہیں ہندوستانی ”مشرقیآئین“ پر متحد نہ ہو جائیں ۱۹۴۸ءکی بجائے ۱۹۴۷ءمیں ہی بغیرآئین رخصت ہونے کا اعلان کر دیا۔ ہندوستانی لیڈروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر حضرت علامہ مشرقی ؒ نے اپنے اخبار میں لکھا کہ ”میں اس اعلان میں دس لاکھ انسانوں کا قتل عام دیکھ رہاہو ں“ اور بعد میں کہا کہ ”میں ایک کروڑ کی بربادی دیکھ رہا ہوں۔“
کانگریس اور مسلم لیگ تقسیم پر راضی ہو گئے لیکن حد بندی کہاں ہو گی اس کی تفصیل دونوں نے طے نہیں کی تھی اور نہ مسلم لیگ نے کوئی خاکہ پیش کیا تھا۔ چنانچہ انگریزوں نے ایک جج ریڈ کلف مقرر کیا ۔ اس کی مدد یا مشورے کیلئے دونوں طرف سے نمائندے مقرر ہوئے لیکن انہیں کسی مشورے میں شامل نہیں کیا گیا اور آخری وقت یعنی تاریخ آزادی کے تین دن بعد ۱۸ اگست کو حدود کا اعلان ہوا۔ ریڈ کلف اور مؤنٹ بیٹن نے مسلمانوں کی حق تلفی کرتے ہوئے بھارت کو کشمیر کا رستہ دینے کیلئے پٹھان کوٹ کا ضلع اسے دے دیا ااسی طرح مسلم اکثریت کی ۷۱ تحصیلیں بھارت کو دے دیں۔ مشرق میں صرف ڈیلٹا مسلمانوں کو ملا۔ ہندو مسلم لڑائی کے نتیجے میں جو تقسیم سے پہلے شروع ہو چکی تھی پورا مشرقی پنجاب مسلمانوں سے خالی ہو گیا۔ بھارت نے سری نگر میں اپنی فوج اتار کر کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ پاکستان پٹھانوں کو لے کر تین بنجر ضلعوں میں ڈھول بجاتا رہا۔

ان حالات میں حضرت علا مہ مشرقی ؒ نے دہلی میں آخری اجتماع کا حکم دیا۔ بظاہر خاکسار تحریک منتشر کر دی گئی لیکن دراصل زیر زمین کی گئی اور انہیں دہلی پر قبضے کا حکم دیا گیا مگر چند بچے کچھے خاکساروں میں جب مسلمان پنجاب سے پناہ کیلئے پاکستان بھاگ رہے تھے یہ دم خم کہاں تھا کہ کچھ حاصل کر سکتے۔ وہ وہاں قید ہوئے۔ جیل میں ان پر گولی بھی چلائی گئی اور تحریک کا معاملہ ختم ہو گیا۔

۱۹۴۸ءمیں حضرت علامہ مشرقی ؒ نے سیاسی رنگ میں ”اسلام لیگ“ کھڑی کی۔ اس کا نصب العین یہ تھا کہ چونکہ ہندوستان میں ہندوؤں کی تعداد مسلمانوں سے صرف دو گنا تھی باقی آٹھ کروڑ اچھوت اور دوسری اقوام تھیں اور اس کے باوجود انگریز نے انہیں سات گنا ٹکڑا دے دیا ہے اس لئے مشرقی پاکستان ا ور مغربی پاکستان کے درمیانی علاقے پاکستان کو دیئے جائیں۔ نہرو نے اس پر احتجاج کیا اور وزیر اعظم پاکستان نے اسلام لیگ کو خلاف قانون قرار دے دیا۔ ۱۹۵۰ءمیں پنجاب میں الیکشن کا اعلان ہوا۔ حضرت علامہ مشرقی ؒ نے انتخاب میں حصہ لینے کا اعلان کیا اور انہیں ڈیڑھ سال کیلئے میانوالی جیل میں قید کر دیا گیا۔حضرت علامہ مشرقی ؒ تقسیم کے حق میں نہیں تھے کیونکہ اس طرح مسلمان تین حصوں میں تقسیم ہو کر کمزور ہوتے تھے اور وہ بہرحال ایک ہزار سال سے ہندوؤں کے ساتھ رہ رہے تھے (اور اب بھی بھارت میں رہ رہے ہیں) اور سب سے بڑی بات یہ کہ ان کے خیال میں انگریز کے جانے کے بعد ہندوؤں مسلمانوں میں لڑائی لازمی تھی اور مسلمان غالب ہو جائیں گے۔ تقسیم سے یہ ممکن نہ ہوا۔

پاکستان بننے کے بعد انہوں نے حکومت سے ہر طرح سے تعاون کیا لیکن حکومت انگریز کے پرانے وفاداروں کی تھی اس لئے وہ انہیں قبول نہیں کرتے تھے حتیٰ کہ وفات سے چند ماہ پہلے بیماری کی حالت میں بھی انہیں قید کیا گیا۔

۱۹۵۷ءمیں انہوں نے ہندوستان چلو تحریک چلائی۔ وہ دراصل مسلمانوں کو کسی نہ کسی طرح متحرک رکھنا چاہتے تھے۔ اکتوبر میں انہیں راولپنڈی میں قید کر دیا گیا۔ ۱۹۵۸ءمیں مارشل لاءلگ گیا اور مارشل لاءنے پارٹیوں پر پابندی لگا دی۔

چند ماہ بعد ڈاکٹر خان صاحب کے قتل کے الزام میں انہیں قید کر لیا گیا تھا۔۷۰ برس کی عمر میں انہیں ہتھکڑی لگا دی گئی اور ۸\۸ فٹ کوٹھری میں محبوس کیا گیا۔ (شاید وہ پھانسی پانے والوں کی ”چکی“ تھی) ان پر جرم ثابت نہ ہوا اور نومبر میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی سے پہلے مارشل لاءلگ چکا تھا۔ رہائی کے بعد کسی نے مارشل لاءکے متعلق پوچھا تو کہا ”انہوں نے فوج کو حکومت کا چسکا لگا دیا ہے۔“

جب پابندیاں اٹھیں تو انہوں نے خاکسار تحریک کو دوبارہ کھڑا کرنے کی اجازت دے دی۔بالآخر ۲۷ اگست ۱۹۶۳ءبوقت نو بجے شب انہوں نے جان خالق حقیقی کے سپرد کر دی۔

ذاتی زندگی

حضرت علامہ مشرقی ؒ آسودہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور آرام دہ زندگی کے خوگر تھے۔ جب انہوں نے تحریک شروع کی تو اپنے آپ کو عام آدمی کی سطح پر لے آئے۔ اچھرہ میں جو اس وقت ایک گؤں تھا کرائے کا مکان لیا۔ کاربند کر دی اور عام آدمی کی طرح سائیکل ، تانگے اور منی بس پر سفر کرنے لگے۔ گھر میں کوئی نوکر نہ تھا۔ مدتوں پنکھا نہ لگوایا کہ عام آدمی کے گھر پنکھا نہیں۔ سردی اور گرمی میں خاکی قمیض پاجامے میں ملبوس رہے۔ خاکساروں کے ساتھ مارچ کرتے اور غلطی پر درے کھاتے۔ تھرڈ کلاس میں سفر کرتے۔ کوئٹہ پہنچے تو کار میں بیٹھنے کی بجاے چھ میل دور کیمپ میں پیدل مارچ کرتے ہوئے گئے۔مدراس میں مذاہب عالم کانفرنس کی صدارت کے لئے بلائے گئے تو پنجاب میں دوروں میں مصروف رہنے کے باوجود تھرڈ کلاس میں سفر کرتے ہوئے عین وقت پر کانفرنس ہال میں داخل ہو گئے۔ کھانا معمولی ہوٹلوں میں اور پلیٹ فارم کی ریڑھی سے کھانے میں عار نہ سمجھتے۔ دیسی برتنوں میں کھانا کھاتے۔ بیماری میں بھارت کے کیلے کھانے سے انکار کر دیا۔ ہسپتال میں گئے تو جنرل وارڈ میں داخل ہو گئے۔ (آخری بے ہوشی میں گھر والے سپیشل وارڈ میں اپنی مرضی سے لے گئے تھے۔)

بہت بارعب شخص تھے۔ لوگ ان سے ڈرتے تھے بلکہ انہیں ہندوستانی ہٹلر کہتے تھے۔ بڑے بڑے لوگوں کا ذکر اس طرح کرتے جیسے وہ کیڑے مکوڑے ہوں۔ وہ صرف سیاسی لیڈر نہ تھے بلکہ ریفارمر تھے، مصلح قوم تھے بغیر لاگ لپیٹ کے سچائی کی بات کرتے تھے۔ ان کی بعض باتوں کو سن کر تعجب ہوتا تھا مگر دیکھا تو وہ قرآن میں لکھی ہیں۔ اسی طرح ان کے بعض عمل غلط معلوم ہوتے تھے لیکن دیکھا تو وہ سول خدا کے طریقے پر عمل کر رہے ہیں۔ میانوالی جیل میں انہوں نے تین کتابیں حریم غیب، دہ الباب اور ارمغان حکیم شاعری میں اور ایک نثر کی کتاب ”حدیث القرآن“ لکھی جس میں قرآن حکیم کی تعلیم کا خلاصہ اس طور سے بیان کر دیا کہ کچھ کہنے کو نہ رہا۔ راولپنڈی کی قید میں انہوں نے آخری کتاب ”تکملہ “ لکھی جس میں رسول خدا کی زندگی اور قرآن کا نزول باہم دکھا کر حقیقتوں سے پردہ چاک کر دیا۔ راقم نے جو کچھ مذہب کے متعلق سمجھا ان کی تعلیم سے ہی سمجھا لیکن ان سے ملنے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ وہ جن جان جوکھوں میں ڈالتے تھے ان کی مجھ میں ہمت نہ تھی اور تعلیم اور پھر فوج کی نوکری نے ان سے دور ہی رکھا۔

ایک دو ملاقاتوں میں میں نے چند باتیں پوچھیں۔ ان کا ذکر مفید رہے گا۔
میں نے کہا ”آپ اتنے مشکل مضمون بیان کرتے ہیں لیکن آپ کے گردو پیش ان پڑھ لوگ نظر آتے ہیں وہ کیا سمجھتے ہوں گے؟“
”عرب کے بدؤں نے قرآن کو کیسے سمجھا تھا“؟ انہوں نے جوابی سوال کیا۔
میں نے کہا ”معلوم نہیں۔“
کہنے لگے ”قرآن فطرت کو بیان کرتا ہے۔ ان پڑھ فطرت کو دیکھتے ہیں اس لیے بدو قرآن کو سمجھتے تھے۔میں بھی فطرت کو بیان کرتا ہوں، ان پڑھ سمجھ جاتے ہیں ۔ آپ منطق میں چلے جاتے ہیں، نہیں سمجھتے۔“
میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ ”آپ کہتے ہیں کہ اسلام ایک تحریک تھا: اس کا کیا مطلب ہے؟“ کہنے لگے ”کیا کریں گے پوچھ کر؟ آپ کے بال بچے تو ہو جائیں گے اور ان کا پیٹ پالیں۔“
زندگی میں اکثر لوگ ان کے مخالف رہے مگر ان کا جنازہ بڑا شاندار نکلا اور بہت لوگوں نے تعریف کی۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کسی زمانے میں مخالفت کی تھی مگر اس نے کہا ”آج تاریخ کا ایک باب ختم ہو گیا۔“ اس کے برعکس اپنے رسالے میں انہوں نے ان کی وفات کا کوئی ذکر تک نہ کیا۔

حضرت علامہ ؒ کی دانش” تذکرہ “ میں آپ نے قوموں کے عروج و زوال کے اصول بیان کئے مگر وہ نظریاتی بات تھی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ وہ سالہا سال پہلے موجودہ قوموں کے زوال اور عروج کو سمجھتے تھے اور اگر ان کی اس تنبیہہ کو مان لیا جاتا کہ گاندھی اور جناح مل کر آزادی ہند کا مسئلہ پیش کریں تو وہ بر بادی جو ۱۹۴۷ءمیں ہوئی نہ ہوتی اور دفاع پر ان گنت اخراجات بھی نہ ہوتے اور دونوں قومیں خوشحال ہوتیں۔ ان کی بصیرت کے ثبوت میں ہم ان کی قبل از آزادی تقاریر کے چند اقتباسات پیش کرتے ہیں۔

انگریز کی جگہ امریکہ (علامہ مشرقی ؒ)

انگریز نے مارچ ۱۹۴۲ءمیں جبکہ سنگاپور فتح ہو چکا تھا، انگریزوں کی حالت بہت پتلی تھی اور جاپان ہندوستان کی طرف بڑھ رہا تھا اپنے ایک وزیر (کرپس) کو ہندوستان بھیجا جس نے یہ پیشکش کی اگر تم ہندوستانی ہمیں جاپان کے خلاف مدد دو گے تو ہم لڑائی کے فوراً بعد ہندوستان کی آزادی اس شرط پر دیں گے کہ تم ایک ایسا آئین تیار کرو جس پر ہندوستان کی قومی زندگی کے بڑے بڑے عنصر متفق ہوں۔ اس وقت میں مدراس میںنظر بند تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے مدراس سے چیخنا شروع کیا کہ اے ہندوستان کے چوہدریو اس نازک وقت کو پہچانو، انگریز اس وقت نہایت خطرہ میں ہے اور اس آڑے وقت میں تمہاری مدد کا خواہاں ہے، مجھے یقین ہے کہ انگریز کبھی لڑائیہار نہیں سکتا، انگریز کا ایک ایک بچہ کٹ مرے گا لیکن لڑائی ہارنا اس کے پروگرام بلکہ اس کی لغت میں نہیں۔ اس لئے ہوش میں ؤ اور متفقہ مطالبہ ایک کاغذ پر لکھ کر دو کہ ہم سب گاندھی، جناح، سادر کر صرف ایک مطالبہ متفقہ طور پر کرپس سے کرتے ہیں کہ ”ہندوستان ہمارا ہے، ہم سب کے سب ہندوستان کے دعویدار ہیں۔“ میں نے کہا کہ کرپس کا اس وقت آنا ایک بڑا فریب ہے۔ کرپس اس لیے بھیجا گیا ہے کہ امریکہ کی فوج کو ہندوستان بھیجنے پر اکسایا جائے۔ امریکہ چار مہینے سے جاپان کے خلاف سست بیٹھا ہے۔ جاپان ہندوستان پر چڑھائی کر رہا ہے اور امریکہ جو مہاجن کے طور پر انگریز کو چودہ ملین پونڈ قرض دے رہا ہے اس لئے فوجی مدد دینے سے اکتاتا ہے کیونکہ اس کو یقین نہیں آتا کہ ہندوستان انگریزوں کی جائیداد ہے۔ انگریز کا کرپس کے بھیجنے سے یہ مطلب ہے کہ امریکہ کو یقین دلایا جائے کہ ہندوستان کو آزادی کا وعدہ انگریز کی طر ف سے اس لئے محض ڈھونگ ہے کیونکہ ہندوستان کے لوگ آپس میں لڑ رہے ہیں ایک گروہ دوسرے گروہ کا جانی دشمن ہے ۔۔۔۔۔۔ نہ کسی پارٹی کی خواہش ہے کہ دوسری پارٹی سے سمجھوتہ کرے نہ کسی جماعت کو فکر ہے کہ ہندوستان آزاد ہو!

آل پارٹیز کانفرنس ۱۷اپریل ۱۹۴۶ءمنعقدہ وکٹری ہوٹل دہلی

جی ایم سید اور حضرت علامہ مشرقی ؒ کے درمیان مکالمہ
جی ایم سید: آپ کا آج کے سٹیٹمنٹ میں پاکستان کے متعلق بیان دینا کہ جناح کا پاکستان مطالبہ آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے تشریح طلب ہے۔
علامہ مشرقی ؒ: میں آزاد پاکستان کا حامی ہوں۔ آزاد پاکستان سے میری مراد ہندوستان کا وہ حصہ ہے جو مسلمان دیگر اقوام کے ساتھ انگریز کے خلاف مشترکہ محاذ پیش کرکے اس سے بزور چھین لیں۔ جناح کا پاکستان ہندو کو خوفزدہ کرکے اور انگریزوں کی فوجیں سرحد پر رکھ کر قائم ہو گا وہ غلام پاکستان ہو گا اور صرف چھ کروڑ مسلمانوں کی حفاظت انگریز اب امریکہ کی تلوار سے کر سکے گا۔ آزاد پاکستان کا تخیل یہ ہے کہ انگریز کے خلاف آزادی کی آنے والی جنگ میں مسلمانوں کی کوشش کے تناسب سے ان کا علیحدہ حصہ باہمی سمجھوتے سے مقرر اسی طرح ہو گا جس طرح دو چور مال چوری کرنے سے پہلے آپس میں صلح صفائی اور محبت سے حصہ مقرر کر لیتے ہیں۔ کامیاب چوری کے بعد وہ صلح صفائی سے اپنے اپنے حصے بانٹ لیتے ہیں اور آئندہ بھی دوست بنے رہنے اور ایک دوسرے کی مصیبت میں مدد کرنے کا اقرار کرتے ہیں۔ یہ حالت جناح کے پاکستان سے بالکل مختلف ہے۔ مسٹر جناح پاکستان انگریزوں سے بطور خیرات مانگتا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ سلطنتیں مخالف سے بنوک سنگین یا بزور تلوار چھینی جاتی ہیں۔ جناح صرف چھ کروڑ (تقسیم پنجاب و بنگال کے بعد چار کروڑ) مسلمانوں کو محفوظ کرنا چاہتا ہے۔ ان چھ کروڑ کی حفاظت بھی غیر مسلموں کی مضبوط اقلیتوںکے مقابلے میں بہت ہی مشکوک ہے۔ وہ باقی چار کروڑ مسلم اقلیتوں کو جو ہندوستان کے صوبوں میں ہوں گی جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے۔ وہ ایک بے رحم اور بے تعلق وکیل ہے جو ”پاکستان کا بادشاہ“ بن جانے کی فیس لے کر مقدمہ جیتنا چاہتا ہے خواہ اس میں موکل کا ایک بازو کٹ جائے یا اس کی تمام جائیداد لٹ جائے۔“
”آزاد پاکستان میں سب دس کروڑ مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت ہو گی۔ دونوں چور جنہوں نے مل کر انگریز سے ہندوستان چھینا ہو گا اپنا اپنا حصہ محبت اور پریم سے آپس میں تقسیم کریں گے اور ہندو کو حصہ دینے میں ہر گز عذر نہ ہو گا اور وہ پاکستان ہندو خوداپنے ہاتھ سے بنائے گا۔ ہندوؤں سے مل کر حاصل ہو گا ”اصلی“ سچا اور آزاد پاکستان ہو گا۔ انگریز کا بنایا ہوا پاکستان ایک جہنم ہو گا جس میں ہندو اور مسلمان ہر وقت آپس میں لڑتے رہیں گے تاکہ انگریز کی حکومت ہندوستان میں ہمیشہ رہے اور نہ ہندو مسلمان کو آزادی مل سکے۔ آزاد پاکستان میں صرف چھ کروڑ نہیں بلکہ پورے دس کروڑ مسلمانوں کے مفادات کی حفاظت ہو گی۔ دونوں قومیں آزاد ہوں گی اور انگریز حسرت سے دور کھڑا دیکھ رہا ہو گا کہ ان کمبخت دو چوروں نے مجھ سے ہندوستان بزور چھین لیا۔ افسوس کہ یہ کیوں آپس میں اکٹھے ہو گئے تھے“۔
جی ایم سید: ”ہندو پاکستان کو نہیں مانتے تو پھر کیسے ہوتا۔“
علامہ مشرقیؒ: ”میں نے چوروں کی مثال اسی لئے دی ہے۔ ہندو بغیر مسلمان کے آزادی نہیں لے سکتا۔ اس لئے اگرو ہ پاکستان نہ مانے گا تو آزادی بھی نہ لے گا۔“

صحیح سیاست (علامہ مشرقی ؒ)

کسی سیاسی لیڈر کو ملک کا سربراہ بنانا خلاف اصول ہے۔ اس سے پر امن حکومت قائم نہیں ہو سکتی وہ اپنے خصوصی اختیارات کی بنا پر اور اپنی پارٹی کے اختیارات کی وجہ سے کسی دوسری پارٹی کو اپنے اقتدار کے دوران ملک میں موثر رہنے ہی نہ دے گا۔

سیاسی لیڈروں کو حکومت چلانے کا کوئی تجربہ نہیں ہوتا اس لئے سیاسی لیڈر کو ملک کا انتظامی سربراہ بنانے سے تصنع اوقات کے سوا کچھ حاصل نہ ہو گا۔ وہ ملک کی اقتصادی ، تعلیمی، زرعی، تجارتی انتظامیہ کا کوئی تجربہ نہ رکھنے کی وجہ سے کوئی مفید کام سر انجام نہ دے گا۔ ایسے افراد کو صوبوں یا مرکز میں قیادت سونپنا مجرمانہ حرکت ہے۔ وہ اپنا تمام وقت صرف سکیمیں بنانے میں اور اپنی پارٹی کو مضبوط بنانے پر صرف کر دے گا۔

غیر سیاسی سربراہ مملکت جہاں تمام قلمدان وزراء کو بانٹ دے گا وہاں بنیادی حقوق کا قلم اس کے پاس ہو گا اور کسی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پرا سے ویٹو کے اختیارات حاصل ہوں گے۔ اس نقطہ نظر سے وہ بنیادی حقوق کا کسٹوڈین ہو گا۔ بنیادی حقوق کا محض اعلان مذاق ہے جب تک ان کی حفاظت کی موثر مشینری موجود نہ ہو۔ اسمبلی میں جماعتی بنیاد پر متناسب وزارت ہو گی جو تمام سیاسی پارٹیوں کی اسمبلی میں پوزیشن کی شرح سے ہو گی ایسی حکومت نہ مخلوط ہو گی جو بہت کمزور ہوتی ہے، نہ ایک پارٹی کی ہو گی جو پارٹی ڈکٹیٹر شپ پیدا کرتی ہے۔ (ماخوذ از مجوزہ آئین مشرقی ؒ ۱۹۴۶ئ)

امریکہ کا عالمگیر غلبہ
(علامہ مشرقی ؒ کا خطاب ۔۔۔۔ ۱۱ اگست ۱۹۴۱ئ)

پانچ ہزار برس کی انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ مغربی قوموں نے مشرقی قوموں کو اپنے زیر فرمان کیا، ان پر مغربی تہذیب ، مغربی تمدن، مغربی کلچر کا اثر ڈال کر ہندوستان میں ایشیا کی حیثیت کو غلامانہ بنا دیا، اسی ایشیا اور ہندوستان پر غلبہ کی وجہ سے مغربی قوموں نے دنیا کے باقی حّصوں مثلاً افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ پر قبضہ کیا۔ اسی دنیا کی حکومت میں ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل کرنے اور ہندوستان پر قبضہ کرنے کے لئے پچھلے تیس پینتیس برس کے اندر دو بڑی اور عالمگیر جنگیں ہوئیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان دو لڑائیوں کا نتیجہآج یہ ہے کہ جرمنی، جاپان، اٹلی تین بڑی عظیم سلطنتیں ایک بے مثال طور پر دہشتناک ٹکرؤ کے بعد ملیا میٹ ہو چکی ہیں۔ روس کی بدنصیب سلطنت جس کو باقی دنیا کے ٹکڑے کرنے اور آپس میں تقسیم کرنے میں کوئی بڑا حصہ نہیں ملا ابھی باقی ہے۔ امریکہ کی سلطنت جو فی الحقیقت انگریزی سلطنت کی کسی زمانے میں ایک شاخ تھی دونوں جنگوں میں ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل کرنے کے بعد ایک شاہی قوم بن کر پہلی دفعہ نمودار ہوئی ہے۔ فرانس کی شاہی سلطنت کا آفتاب کچھ پہلی ۱۹۴۱ءکی عالمگیر جنگ میں غروب ہو ا تھا لیکن اس آخری جنگ میں قطعا ًغروب ہو چکا ہے ۔ اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ دنیا پر حکومت کرنے کی دعویدار تین قومیں ہیں ۔ سب سے پہلی دعویدار انگریز قوم ہے جس کے قبضے میں دنیا کے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے ہیں اور جس کوفی الحقیقت دنیا کی عملی طور پر مالک کہا جاسکتا ہے لیکن اس قوم کے پاس دولت کے خزانے اور دنیا پر قبضہ قائم رکھنے کی علمی یعنی سائیٹیفک (Scientific ) طاقت نہیں ۔ دوسری قوم امریکہ ہے جس کے پاس دنیا کی دولت کے خزانے اور ایٹم بم ہے لیکن دنیا کے کسی حصہ پر اس کا قبضہ نہیں ۔ تیسری قوم بے نصیب روس ہے جس کی جغرافیائی پوزیشن خراب ہے جس کے پاس سمندر اور ساحل نہیں دولت اور علم نہیں کسی زرخیز ملک پر قبضہ نہیں اور جوا نگلستان اور امریکہ کی نظروں میں کم و بیش ایک ”ایشیائی اور وحشی قوم“ ہے ۔ جس کا دنیا پر حکومت کرنے کا دعویٰ دار ہونا ان دونوں کو برالگتا ہے انگلستان اور امریکہ کی دونوں قوموں میں ایک بڑی اتفاق پیدا کرنے والی طاقت ان کی مشترک زبان ہے لیکن چونکہ انگلستان قرضدار ہے اور امریکہ قرض خواہ ان تمام رعایتوں کے ہونے کے باوجود ان کے ابھی تک آپس میں مل کر ایک ہو جانے کی کوئی صورت نہیں بلکہ امریکہ اس بات کا خواہشمند ہے کہ کینیڈا کو کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ ملا کر دنیا میں انگلستان کے نمونہ پر ایک عظیم سلطنت کی بنیاد ڈالے اور مفلس اور نادہندہ انگلستان کو کچل کر رکھ دے ۔

(حضرت علامہ مشرقیؒ)
بیاد حضرت علامہ محمد عنایت اللہ خان المشرقیؒ
٭٭٭٭