Pages

Time

Akhuwat-e-Pakistan ki Tajweez



انماالمومنون اخوة(۱۰:۴۹)

مومن صرف وہ لوگ ہیں جو بھائی بھائی ہیں(القرآن)

اَخُوتّ پاکستان کی تجویز (حضرت علامہ مشرقی )

ضروری نوٹ:
بانی اسلام لیگ حضرت علامہ مشرقی نے تمامتر سیاسی ودینی جماعتوں پرمشتمل”اخوت پاکستان“ کے قیام کی وہ بے بہاتجویز۱۹۴۹۔۵۰ء میں پیش کی اور کراچی میں ایک عظیم الشان کانفرنس کے انعقادکی کوشش کی مگر”لیاقت حکومت“نے اسے روکنے اور ناکام بنانے کا ہر حربہ اختیارکیا۔ بالآخر۱۱جنوری۱۹۵۱ءکو انہیں گرفتار کر لیاگیااور وہ ڈیڑھ سال تک میانوالی جیل میں نظربند رہے۔ حضرت علامہ مشرقی نے اپنے پیغام میں حالات کا تجزیہ جس خوبصورت اندازمیں کیا ہے اسے پڑھنے کے بعد آپ کو محسوس ہوگاکہ آج بھی ملک اس سے دوچارہے۔ اس پیغام پر لفظ بہ لفظ غور کریں کہ اگر اس پر عمل ہوجاتا توپاکستان سیاسی ومذہبی افراتفری،بداخلاقی اور معاشی بدحالی کا شکار ہونے اور اپنا نصف حصہ(مشرقی پاکستان کی علیحدگی)ضائع کرنے کے آج ایک متحد،مضبوط اور غالب قوت ہوتا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت علامہ مشرقی کے اس فکرانگیز خطبات،مقالات اور پیغامات کو عوام الناس اور اعلےٰ حکام تک پہنچایاجائے تاکہ مستقبل میں دوبارہ غلطیاں سرزدنہ ہوں۔(ادارہ)

اسلام لیگ کا پیغام۱۹۴۷ءکی آخیر میں پاکستان کے حصول کے بعداحساس زیاں کا پیغام تھا۔قوم کو بتاناتھا کہ اگرچہ مسلمان اس وقت مسل لیگ کے ساتھ اندھا دھندلگ کرپاکستان کے حصول کی مستی میں مگن ہے اور کسی اصلیت کی طرف متوجہ نہیں ہوتا۔مگراس نشے کے جلد اترنے کے بعد جب حقیقت طلوع ہوگی تو اسی شدت سے ہٹی گا جس شدت سے کہ اس وقت مسلم لیگ میں لگاہے۔ یہ ہٹ کر بکھرنے کا وقت آج آپہنچا ہے اور چونکہ یہ بکھرنا بھی بی ہوشی کا بکھرناہے۔ احساسِ زیاں (یعنی گھاٹے کو محسوس کرنا) اب تک نہیں ہوا۔

زوال یافتہ قوموں کا اتحاد بھی بے معنی ہے اور ان کا بکھرنااس سے زیادہ بے معنی۔ زوال شدہ قومیں چونکہ فکرنہیں رکھتیں اور ان کے دماغوں میں شعورکو دخل نہیں وہ ہرنقصان پرجمع اور ہر فائدے پر بکھرتی ہیں۔

مسلم لیگ سے (تین سال کے بعد) مسلمانوں کی عام نفرت ایک فائدہ مند شے تھی، شعوروالی قوم ہوتی تو اس عام نفرت سے فائدہ اٹھاکرمتحد ہوجاتی، اپنے نقصان کا جائزہ لیتی،نقصان کی تلافی کےلئے متحد ہوکر سوچتی، مگرنتیجہ چاروں طرف بکھراﺅ ہے۔ شکست کاانتشار ہے، ہرشخص ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنائے بیٹھاہے اور اس پسماندہ قوم کو کسی نہ کسی گھاٹے پر جمع کر رہاہے۔

سوچو! مسلمان، خاکسارتحریک سے کیوں ہٹا کیونکہ اس میں قوم کا فائدہ تھا، مسلم لیگ پرکیوں جمع ہوا اس میں ذاتی فائدہ لیکن قوم کو نقصان تھا۔ اب مسلم لیگ سے ہٹ کرکیوں بکھررہا ہےکیونکہ اتحادمیں فائدہ ہے، لیکن نفس کو گھاٹاہے۔

زوال یافتہ قوموں کی یہ بدنصیبی ہے کہ وہ قومی فائدے سے متنفراور قومی نقصان پرجمع ہوجاتی ہیں اور مزا یہ ہے کہ فائدہ ان کو نقصان نظرآتاہے اور نقصان کو فائدہ سمجھ لیتی ہیں۔ قسمت کا یہ گورکھ دھندہ اس قدر الجھاﺅ پیداکرنے والاہے کہ زوال یافتہ قوم کے دماغ کو ویران کردیتاہے، میلوں تک بیابان اور خرابیاں نظر آتی ہیں، جنگل کی وسعت دماغوں کو ماﺅف کردیتی ہے اور ذہنوں کو مفلوج کردیتی ہے، وہ اپنے چھوٹے سے دائرے میں جو کچھ فوری فائدہ دیکھ لیتے ہیں اس کی طرف الٹ پڑتے ہیں، قومی فائدے یا احساس کا سوال ہی ان کے دماغوں میں پیدا نہیں ہوتا۔

اسلام لیگ سے پہلے خاکسارتحریک نے قوم کو آواز دی کہ دیکھو! اس چھوٹے سے پاکستان کو انگریز سے مانگنے میں جو ناکامی ہے اور جس کے دوٹکڑے چودہ سو میل دور ہیں قوم کا گھاٹا ہے۔ خاکسارنے آوازدی کہ مسلمان کےلئے ہندوستان پاکستان ہے اور ہندوکا کوئی حق اس پر نہیں۔

مسلم لیگ والوں کے ساتھ لگنے میں گھٹا ہےکیونکہ یہ لوگ پچھلے سو برس کے آزمائے ہوئے ہیں اور قوم کے دشمن ہیں۔ جب پاکستان بن گیا تو اسلام لیگ نے آواز دی کہ پانچ کروڑ مسلمان ادھر رہ گئے ہیں یہ نہ بچے تو تم بھی نہیں بچ سکتے۔ اتنے میں مسلم لیگ ننگی ہوتی گئی اور ہر شخص چیخنے لگا مگر مسلمانوں نے اپنی غفلت پھر نہ چھوڑی، مسلم لیگ سے لگارہا۔ اب کہ صبر کا پیمانہ بھرگیاہے”بعداز خرابی بسیار“مسلمان مسلم لیگ سے ہٹ رہاہے لیکن ہٹ کر بکھررہاہے پھر ٹکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہورہا ہے تاکہ اپنی قسمت پھر نہ بناسکے۔

اس ہڑبونگ میں جو پیداہورہی ہے ہم نے مختلف پارٹیوں کے لیڈروں کو آواز دی کہ اکھٹے ہوجاﺅ، تم اکیلے اکیلے اس مسلم لیگ کی ڈائن سے نبٹ نہیں سکتے۔

نتیجہ وہی قومی فکر کا نہ ہونا ہے، بعینہ تمام قوم کی طرح اپنے ذاتی فائدے کو دیکھ رہاہے اور قوم کے فائدے کی طرف سے دماغ بے پرواہ ہے، زاویہ ہےکہ ہرلیڈریہ سمجھتاہےکہ میراکہا، میرامقصد، میرا نقطہ نظر، میرانصب العین کسی آسمانی کتاب کی طرح سچائی کا آخری لفظ ہے، اس میں ادنیٰ ردوبدل نہیں ہو سکتا، وغیرہ وغیرہ۔

مجھے ابھی ابھی کسی شخص نے بتلایاہے کہ دیکھو ”مساوات“میں جو الزام کسی زخم خوردہ شخص نے اسلامی جماعت پرلگایاتھاکہ اس جماعت کو لاکھوں روپیہ کسی دشمنِ اسلام حکومت یا مسلمان رئیس سے بطور مددمل رہاہے۔ اس کا جواب ان کے اخبار نے کیا لکھاہے؟جواب تو خیرملایانہ، پھسپھسا اور بی معنی تھا کہ چونکہ ہم اﷲکاکام کررہے ہیں اس لئے اﷲ ہمارے تھوڑے سے روپیہ میں برکت دے دیتاہے مگر میں نے کئی منٹ تک اس اخبارکو پہلی دفعہ دیکھا اور حیران ہوا کہ اس کی ایک ایک سطر کس خوبی سے مسلمان کو اسلام، خدا، رسول ﷺ، دین، قرآن، حدیث، نیکی اور نہ جانے اور کیا کیا واسطہ دےکر باقی سب مسلمانوں کو بی دین ثابت کرنے کی ترکیب کی ہے۔ بیوقوف مسلمان جو نہ قرآن جانتا ہے نہ قرآن جاننے والوں کا جانتا ہے کس گورکھ دھندے میں پھنساہے کہ پڑھا لکھا ہوکر اس سے نکل نہیں سکتا۔

ہم پچھلے کئی ماہ سے اس مقصد میں لگے تھے کہ کسی نہ کسی طرح جماعتوں کے لیڈروں کو ان کے اپنے مقاصد میں اپناکرایک زنجیرکی کڑیاں بنادیں اور وہ زنجیر لوہے کی طرح مضبوط ہوجائے۔ مگرابھی تک پریشان ہیں حالانکہ اس وقت پبلک سخت دکھی ہے اور چیخ رہی ہے۔ ادھرپارٹیوں کو ملانے کی سعی کریں ان میں سے چوہدری کوئی بن جائے، لیکن سب مضبوط اتحاد ہو، پارٹیاں اور ان کے چوہدری اسی طرح بنے رہیں لیکن چوہدری کا آپس میں گٹھ جوڑہو اور وہ چوہدری سب پارٹیوں کو حکم دیں مل کر دیں۔ لیکن قوم کا نقطعہ نظر ٹھیک وہیں ہے جہاں پہلے تھا۔

ہم جانتے تھے کہ انگریزکے عذاب کے بعد مسلم لیگ اور کانگریس کے نئے عذاب سے مسلمانوں کو بچانے کےلئے سوائے ان لوگوں کے جو بیس برس کی تکلیف کے بعد ہم نے قوم کے کوڑے کرکٹ سے چھان چھان کر نکالے تھے اور کوئی شخص اپنی جان پر کھیلنے کےلئے نہیں نکلے گا۔ ہم جانتے تھے کے مسلم لیگ کے عذاب سے نکلنے کےلئے اسی طرح جان پرکھیلنے کی ضرورت ہے جس طرح کہ انگریزکے عذاب سے نکلنے کے وقت تھی۔ ہم سمجھتے تھے کہ قربانی ہمیں ہی دینی ہوگی لیکن سب قوم کے لیڈر متحدہوں گے اور ایک جماعت یعنی”اخوت پاکستان“بن گئی تو کیا مضائقہ ہے کہ جانیں ہمیں دینی پڑیں اور نام اخوت پاکستان کاہوجائے۔ الغرض اسلام لیگ کانفرنس کراچی میں کرنے کا راز یہ تھاجو میں نے بیان کیا۔

مسلم لیگ ادھرپانچ کروڑ مسلمانوں پر ظلم و ستم کررہی تھی،کانگریس اُدھر پانچ کروڑ مسلمانوں کو ستارہی تھی، یہ دس کروڑ قوم پرپورا عذاب قوم کو ہلکان کر رہا تھا۔ اس لئے مسلم لیگ کا گدیاں چھوڑدینا ہی قوم کو بچا سکتاتھا۔ مسلم لیگ کی جگہ اگر جری اور بہادر مسلمان اور جان پرکھیل جانے والے لوگ آگئے تو کانگریس کا ظلم بھی مٹ سکتاہے۔ نہروکادماغ بھی درست ہوسکتاہے،کشمیر بھی حاصل ہوسکتاہے۔