Pages

Time

حصولِ کشمیر کے لئے دس لاکھ آدمیوں کی قربانی بھی مہنگا سودا نہیں! علامہ المشرقی

 حصولِ کشمیر کے لئے دس لاکھ آدمیوں کی قربانی بھی مہنگا سودا نہیں!
کشمیر کا مسئلہ اس لئے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ کشمیر پر ہندو کے قبضے سے سیاسی طور پر پاکستان کی سلطنت انتہائی خطرے میں ہے!

جلال پور جٹاں جلسہ عام سے 13th جنوری 1956 کو بانی خاکسارتحریک حضرت علامہ مشرقی کا حقیقت افروز خطاب!

پاکستان کے مسلمان بھائیو!جلال پور جٹاں جیسے قصبے میں ایک بڑے پیمانے پر کانفرنس کا انعقاد اور اس انعقاد کے لئے ہمارے اسلام لیگ کے کارکنوں کا غیر معمولی جوش و خروش اس امر کی دلیل ہے کہ آٹھ سال کی بدکاری اور زوال کے بعد بھی پاکستان کے جسم کے بعض ٹکڑے غیر معمولی طور پر صحت مند ہیں اور ان ٹکڑوں کی زندگی کے باعث ہی پاکستان کے باقی جسم میں بھی جان پھر آسکتی ہے۔ گجرات کے ضلع کا یہ حصہ ایک بڑی مدت سے خاکسار تحریک اور تحریک کے منتشر کر دینے کے بعد اسلام لیگ کے کارکنوں کا مسکن غیر معمولی طور پر رہا ہے اور مجھے وہ وقت یاد ہے جبکہ درجنوں کارکن اور پبلک کی بہت بڑی تعداد جریدہ الاصلاح کے مطا لعہ میں سرگرم رہتے تھے۔ اس تمام اثنا میں جلال پور جٹاں کے قصبے نے کسی اور حرکت کو قبول نہیں کیا اور لوگوں کا عزم اور استقلال سے کسی ایک سچائی کو قبول کر لینا اور پھر کسی دوسری طرف نہ دیکھنا قوم کو یہ راہ دکھلا سکتا ہے کہ زندگی کا راز صرف کسی ایک ڈگر پر چلنا ہے ، قوم اسی وقت مضبوط ہو سکتی ہے کہ ذہنوں کا تخیل کسی ایک راہ پر لگ جائے جھکنے اور تسلیم کرنے کی ایک دہلیز ہو ، مانگنے اور حاصل کرنے کی ایک سرکار اور ایک دروازہ ہو ، اور محبت ہو تو ایک سے ہو، ماتھوں کو رگڑنا ہو تو ایک آسمان پر ہو، لگاوٹ اور عشق ہو تو ایک محبوب سے ہو اور وصال کی زندگی یا ہجر کی موت ہو تو اسی ایک کو آرزو میں ہو۔32 برس(1924ئ) پہلے میں نے خریطہ میں اپنی بچپن کی شاعری کو شائع کرتے ہوئے ایک شعر کہا تھا جب کہ میں بہ مشکل پندرہ برس کا تھا۔

اے مشرقی درے بطلب ازسر نیاز
باز ایں مگر کہ بندئہ سرکار آں دریم

          مسلمانو! مسلمانوں کی پہلی تین صدیوں کی زندگی بعینہ اس طرح کی تھی جس کا میں نے ذکر کیا ۔ مسلمان کا خدا ایک، رسول ایک اور قرآن ایک تھا ۔ جب تک یہ تینوں ایک، ایک رہے مسلمان بے پناہ طور پر بڑھتے گئے۔دھن اور تگ و دو صرف ایک مقصد کی طرف جارہے تھے۔ فطرت جس کی اپنی بنیاد صرف ایک پر ہے مسلمانوں کو عروج کے نئے درجے دیتی رہی۔ خدا کے عالم آرا قانون نے اس ایکے کا وہ عظیم الشان بدلہ دیا کہ ایک دنیا مسلمانوں کے اس تقدم پر آج تک دنگ ہے۔ مورخ جب انسانی تاریخ کے اس حصے پر آتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ مٹھی بھر انسانوں نے دنیا میں کیا تہلکہ مچادیا، کس طرح روئے زمین پر سیہ کاری اور بے راہ روی کا تختہ الٹ دیا، کس عنوان سے زمین کی بے پناہ سجاوٹ کی بدیوں کو کس طرح جڑ سے اکھاڑ دیا، نیکیوں کا رواج کیونکر غارت ہو گیا شیطان جو دلوں اور سینوں پر قبضہ جمائے بیٹھا تھا۔ کیونکر دم دبا کر بھاگا وغیرہ وغیرہ مسلمانو! میں آج پھر تمہیں کئی صدیوں کے بعد خدا کا یہ قانون بتانے آیا ہوں کہ اگر اس دنیا میں اگر اس آسمان کے نیچے اور اس زمین پر ہوتے ہوئے کوئی شے پنپ سکتی ہے، کسی اجڑی ہوئی کھیتی کو پھر ہرا کیا جا سکتا ہے۔ کسی بے حقیقت اور کمزور جسم کو پھر تنو مند اور استوار کرنے کی آرزو ہے تو یاد رکھو کہ اس خدا کی بنائی ہوئی فطرت کے ہر رگ و ریشے پر یک اور صرف ایک کا لفظ لکھا ہوا ہے۔ تنومندی اور عروج کے اسی قانون کے باعث خدا ایک ہے، خدا کا رسول ایک ہے، خدا کا پیغام ایک ہے، خدا کی کتاب ایک ہے مسلمانو! دین اسلام کا فلسفہ اس قدر مضبوط اور نا قابل رد فلسفہ تھا کہ خدا کو ایک بتلانے کے بعد قرآن نے پوری ضد سے کہا کہ نہیں صرف خدا ہی ایک نہیں بلکہ تمام خدا کے بھیجے ہوئے رسول ایک ہیں، وہ صرف ایک ہی پیغام خدا لائے، ایک ہی راہ دکھائی ان کے آنے کا مقصد ایک تھا وہ ایک ہی الکتاب لائے۔ قرآن کیالکتاب بھی وہی کہتی ہے جو پہلے نبیوں کی الکتاب کہتی تھی جو کچھ اس میں ہے وہی پہلے صحیفوں میں تھا جس نے نبی اورنبی میں فرق کیا یا ایک کو مانا اور دوسرے کو نہ مانا وہی سچا کافر ہے۔ اور وہی دین اسلام سے خارج ہے۔ دیکھ لو کہ اگر آج دنیا جہنم کے کنارے آلگی ہے اور ایٹم بم کا منظر پیدا ہو چکا ہے۔ تو اس لئے کہ ہر ملک کا خدا الگ رسول الگ پیغام الگ ہے اور مسلمانوں کے اندر جہنم بھی اسی باعث ہے، الغرض اگر غور سے دیکھو تو ایک ہونے کا قانون زمین کی ایک ایک شے کے ماتھے پر لکھا ہے، آسمان کے ایک ایک ستارے اور سیارے کی چال میں لکھا ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے مکانوں کے درو دیوار پر لکھا ہے۔بد قسمت قوم جس نے اس ایکے کو چھوڑ دیا اس کے دس ہزار کمروں کے ریزوں پر ٹوٹے ہوئے حرفوں میں لکھا ہے، خوش نصیب ملت جو آسمانوں پر اڑ رہی ہے اور زمین پر ہنس ہنس کر دوڑ رہی ہے اس کے خوش نصیب مردوں اور عورتوں ، بچوں اور بوڑھوں کی پیشانیوں پر سرخ اور سنہرے ، مضبوط اور نستعلیق الفاظ میں لکھا ہے۔ خدا کا ایک ہونا اور پھر بندوں کا اس کی وجہ سے ایک ہو جانا کوئی مذہب کا عقیدہ یا جوتشی منتر نہیں جو ملاّ یا پنڈت تم کو سکھلا سکھلا کر اپنی ہنڈیا گرم رکھتا ہے وہ ایک کائنات گیر اور عالم آرا قانون ہے جس سے کسی ادنیٰ سے ادنیٰ اور بڑی سے بڑی شے کو مفر نہیں، جس سے کسی سلامتی کی آرزو کرنے والی مخلوق کو چارہ نہیں،جس کے ایک قانون کے غلبے کے سامنے سورج کا زمین سے تیرہ لاکھ گنا بڑا آگ سے بھرا ہوا اور پچاس ہزار میل اونچے شعلے نکالنے والا آسمانی کرہ بھی چیونٹی کی طرح عاجز اور لاچار اور دم بخود ہے جس کے ہوتے ہوئے لاکھوں برس کی مدت سے ہزاروں میل لمبے دریا چپ چاپ اور بغیر کسی عذر کے چل رہے ہیں اور ایک لمحہ کے لئے اس کے دبا کی وجہ سے پھر نہیں سکتے۔ جس وحدت کے ہوتے ہوئے زمین و آسمان کو یہ حیران کن کارخانہ،حیران کن مضبوطی اور یک جہتی سے چل رہا ہے وغیرہ وغیرہ اسی ایکے کے ثبوت تک خدا نے قرآن عظیم میں کہہ دیا تھا کہ اگر میرے سوا کوئی اور خدا اس دنیا میں ہوتا تو میں اپنی فوجیں فوراً لا کر اس خدا کو پچھاڑ کر رہتا اور دنیا کا ایک ایک ذرہ اور ریزہ بگڑ بگڑ کر پاش پاش ہو جاتا مسلمانوں کی شعروں کی ماری امت کو نیند سے پھر جگانے اور جھنجوڑ کر اٹھا دینے کے مقصد سے میں نے جیل کی تنگ و تاریک کو ٹھری میں جسم کے بے انتہا دکھ لیکن روح کی بے انتہا خوشی اور سکون میں حسب ذیل شعر”ارمغان حکیم“میں نہ معلوم اس بد نصیب قوم کو کیا بنا دینے کی توقع میں کہے تھے:
سب کوئی ہے ماندہ تب قمر ید اللھی
فرصت کبھی نہ شمس کو گردش سے یاں ملی
تو بھی نوائے زمزمہءکائنات بن
مہلت کہاں روانی سے دریا کو پل ہوئی
ہاں تو بھی غازہءرخ سیمیں غدار ہو
ہر شے ہے محوِ زینتِ ونگار سرمدی!
          ہاں تو میں مسلمانو!یہ چاہتا ہوں کہ جس کائنات کا ایک ایک ذرہ خدا کا مطیع ہے اور اسی فرمانبرداری کے باعث دنیا کی ہر شے خوبصورت اور سہانی معلوم دیتی ہے۔ اسی طرح تم بھی خدا کو ایک سمجھ کر اس کی کائنات کو ایک یقین کر کے اس کے قانون کو ایک اور اٹل جان کر ایک ہو جا اور پھر ایک ہو کر قدرت کو خوبصورت پری کے چہرے کا غازہ اس لئے بن جا کہ دنیا کی ہر شے ہماری آنکھوں کے سامنے اپنا اپنا کام پورے طور پر کرکے فطرت کو خوبصورت بنا رہی ہے۔ خدا کا یہ ایک ہو جانے کا قانون اس قدر حاوی اس قدر عالم آرا، اس قدر عام ، اس قدر اٹل، اس قدر بے لحاظ اور بے حیا ہے کہ نیکی اور اچھی باتیں کرنا تو ایک طرف رہا اگر دس چور بھی کسی بڑے سے بڑے معاملے میں ایک ہو جائیں تو خدا ئے بے نیاز کا قانون اس قدر فراخ دل اورفیاض ہے کہ ان دس چوروں کو لوٹ کا مال فوراً دلا دیتا ہے اور جب تک ان چوروں میں پھوٹ نہیں پڑتی ان کی مدد کرتا جاتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ چوروں کا ٹولہ ہمیشہ سے ہی چند دن کا مہمان رہا ہے۔ مگر خدا کی فیاضی کی شان اس قدر عجیب و غریب ہے کہ اس کی سلطنت کو کبھی تبدیلی اور زوال نہیں ۔انہی آٹھ سالوں میں دیکھ لومسلم لیگ میں بڑے آدمیوں کی ٹولی نے کیا کچھ نہیں کیا اور کیا دھاندلی مچی رہی خدا ساتھ رہا اور اب جب کہ اس ٹولی میں پھوٹ پڑ چکی ہے خدا کس قدر جلد ان سے الگ ہو کر بہتری کے سامان کچھ نہ کچھ ضرور پیدا کر رہا ہے بشرطیکہ مسلمان قوم پھر سنبھالا لے لے اور ایک ہو جائے۔
          مسلمانو! ملت کے اتحاد اور قانون خدا کے ایک اور اٹل ہونے کی یہ آواز اس چھوٹے سے قصبے سے اس لئے اٹھا رہا ہوں کہ جلال پور جٹاں والوں نے نسبتاًاور مرکزوں کے ساتھ ساتھ اتحاد کا بہتر منظر پیدا کیا ہے اس وقت قوم کے سامنے اور کئی دل دکھا دینے والے مسئلوں کے ساتھ ساتھ سب سے بڑا مسئلہ کشمیر کو حاصل کرنے کا ہے۔ کشمیر کو حاصل کرنے کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ اس لئے نہیں کہ ہم پاکستانی چالیس لاکھ کشمیریوں کی غلامی دیکھ کر ان کے غم میں مرے جارہے ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ ایک پرلے درجے کی مکاری ہے کہ جس قوم کے گھر گھر سے بھوک ننگ اور بیماری سے اپنی چیخیں نکل رہی ہوں، وہ اپنے دور کے بھائیوں کے غم میں مر رہی ہو اور اس غم کو اپنا سب سے بڑاغم کہتی ہے میں دنیا میں کسی ادنیٰ درجے کے فریب اور مکر کو بھی ۔۔۔۔اور روسیاہی کی جان سمجھتا ہوں اس لئے میری نگاہ میں کتنی بڑی مکاری ہے کہ ہندوستان کے 51/4کروڑمسلمان بھائیوں کی چیخوں اور کراہوں کے متعلق جو دھڑا دھڑ کھو کھورا پار سے ادھر اپنی سب عزت اور غیرت لٹوا کر آٹھ سال سے آرہے ہیں ادنیٰ آواز پاکستان کی حکومت یا رعیت کی طرف سے تو نہ اٹھے اور کشمیر کے صرف چالیس لاکھ مسلمانوں کے متعلق چیخ چیخ کر آٹھ سال سے کہا جائے کہ ہم ان کے واسطے مر رہے ہیں ۔نہر و اس مکاری کو دیکھ کر مسکر ا رہا ہے اور خوب جانتاہے کہ یہ بات کیوں مسلمانوں سے کہلوائی جا رہی ہے۔ کشمیر کا مسئلہ صاف الفاظ میں اس لئے ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ اولاً مغربی پاکستان کے تمام بڑے دریاں کے ناکے کشمیر میں ہیں اور ہندو بے پناہ دولت ان ناکوں کے پانیوں کو ضد سے روکنے اورا پنے ملک کو سیراب کرنے میںظالمانہ طور پر صرف کررہا ہے ۔ دوئم کشمیر پر ہند و کے قبضے سے سیاسی طور پر پاکستان کی سلطنت انتہائی خطرے میں ہے ۔ اور اگر کشمیر ہمارا نہ ہوا تو ہندو ستان اور روس دو دشمنوں کے باعث(خاکم بدہن)مٹ کر رہے گی۔میرے نزدیک پاکستان کی حکومت کی کمال ناسیاست دانی ہے کہ کشمیرکے مسلئے کی اہمیت کوالٹے طور پر اور ٹیڑھے پن سے واضع کیا جائے کہ ایک بھوکی ننگی اور بیمارقوم کو جس کو خدا بھی یاد نہیں رہا ۔ دین اسلام کی اپیل کرنا جذبوں کو زیادہ ابھارے گا ۔ میرے چھوٹے سے دماغ میں یہ بھی آتا ہے کہ پاکستان کی حکومت سیدھی بات کہنے کی بجائے الٹی بات اس لئے بھی کہتی ہے کہ کشمیر حاصل کرنے اور دریاں کے ناکے کھل جانے کے بعد حکومت پر لازم ہوجائے گا ۔ وہ گندم کو دو روپیہ من کر دیں جیسا کہ انگریز کے زمانے میں تھی کیونکہ اس وقت پنجاب ہی سارے ہندوستان کے اناج کا گودام سمجھا جاتا تھا نہیں بلکہ میرے نزدیک اگر کشمیر پاکستان کو مل گیا اور دریاں کے ناکے ہمارے ہاتھ میں ہوئے تو گندم کا دو روپیہ من سے بھی سستا کر دکھانا حکومت کے لیے اس لئے لازمی ہو کر رہے گا کہ اب پنجاب کا اناج صرف پاکستان تک پہنچتا ہے۔ آٹھ برس کا تجربہ تو ہمیںیہی بتا رہا ہے کہ حکومت اناج کو مصنوعی طور پر مہنگا رکھ رکھ کر اپنی سیاسی اغراض کی بنا پر اور زمینداروں کے ووٹ کو اپنے قابو میں رکھنے کے لئے زمینداروں کو موٹا اور کاشتکاروں کو بھوکا کر رہی ہے۔ کیونکہ ان کی نگاہوں میں اس صریح رشوت کے بغیر حکومت کی گدیاں چاردن تک قائم نہیں رہ سکتیں۔ وہ زمیندار جن کے حجروں میں انگریز کے وقت میں مہمان کو چائے پلانے کے لئے چار آنے کا چمچہ تک نہیں ہوتا تھا اور انگریز اس قدر انصاف والا حکمران تھا کہ وہ رعیت کی خوشحالی کی خاطر زمیندارکو اس قدر دبا کر رکھتا تھاکہ بڑے سے بڑے زمیندار کے گھر خاک چھنا کرتی تھی۔
          وہ زمیندار آج چالیس چالیس ہزار کی موٹر میں اڑتا پھر رہا ہے اور ہنسی کی بات ہے کہ ان کی جہالت کی حد یہ ہے کہ زمیندار جب اپنی موٹر خرید نے لاہور کی ٹھنڈی سڑک کے کسی کارخانے میں جاتا ہے تو حقہ اٹھانے والے کاشتکار کو آواز دے کر کہتا ہے کہ ارے نتھو ذرا حقہ اندر ٹکا کر دیکھ تو لو کہ حقہ موٹر کی چھت کے نیچے ٹھیک بھی آتا ہے یا نہیں۔ الغرض حکومت کا منشا نظر نہیں آتا کہ رعیت کی بھوک کی چیخوں کو کم کرے۔ننگی رعیت کو کپڑا سستے داموں پر دے یا ہسپتالوں میں بیماریاں کم کرے۔ اسی لئے کشمیر کے مسئلے کو بھی الٹے طور بیان کیا جاتا ہے۔کہ ہم چالیس لاکھ کشمیری بھائیوں کی غلامی میں گھل رہے ہیں اور مزا یہ ہے کہ آٹھ برس کی حکومت کے بعد آزاد کشمیر کے علاقہ میں بھی ہر کشمیری بھائی اسی طرح بھوک ننگ اور بیماری میں بلکہ اس سے بہت زیادہ چیخ رہا ہے جس طرح کہ پاکستان کی بد نصیب رعیت ہو رہی ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانو! تمہیں ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ کشمیر ہماری زندگی کی شہ رگ ہے اور اگر یہ شہ رگ ہندو کے ہاتھ میں رہی تو ہماری جان کی خیر ہر گز نہیں کشمیر کو حاصل کرنے میں ہمارے 10 لاکھ آدمی بھی قربان ہو جائےں تو یہ سودا ہر گز مہنگا نہیں کشمیر کو حاصل کرنے کے بغیر ہمارے لاکھوں آدمی بستروں پر بھوک ننگ اور بیماری کی وجہ سے مر رہے ہیں تو کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے اگر یہی بستروں پر پڑے ہوئے لوگ نہرو کی گولیوں سے ہلاک ہو گئے تو مجھے بتلا کونسا بڑا نقصان ہو گا۔ میرے بس میں ہوتا تو میں تم کو یہ کھیل کھیل کر دکھلاتا لیکن حکومت ان لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو زمیندار اور سوداگر کو بے انتہا دولت مند اور رعیت کو بے انتہا غریب بنانے کی بازی کھیل رہے ہیں۔ میں سالہا سال سے برابر حاکموں کو پکار رہا ہوں کہ تمام لچ پنے اور (انگریزی نہیں) پاکستانی طریقے چھوڑ کر کالجوں، مدرسوں، ہسپتالوں بادشاہوں کے استقبالوں یا ٹی پارٹیوں اور ڈنروں وزیروں کی بڑی بڑی تنخواہوں اور تنخواہوں سے دُگنا الانسوں اور شاہ خرچیوں کو کچھ مدت کے لئے ملتوی کر کے سب سے پہلے گندم کو سستاکرو، گندم کے سستا کر دینے سے ہر دوسری شے کی قیمت لازماً گر جائے گی اور لپ سٹک بھی جو تمہاری عورتوں کے ہونٹ سرخ کرنے میں کام آتی ہے تین روپیہ سے گرکر چھ آنے کو ملے گی، نہیں بلکہ اس ترکیب سے تمہاری اور زیادہ عورتیں ہونٹ سرخ کر لیا کرنیگی گندم کے سستا کرنے سے رعیت کا پیٹ بھرا ہو گا تو ہسپتالوں کے بنانے کی ضرورت نہ رہے گی، بھوکے بچوں کو مدرسوں میں داخل کرنا کیا بھلا لگتا ہے۔ پہلے بچوں کو پیٹ بھر کر کھانا دو۔ میں سالوں سے چیخ رہا ہوں کہ گندم سستی ہو جائے گی تو فریب، دھوکہ، چوری، جھوٹ ، زنا، آوارگی، بدمعاشی، کم تولنا، بلیک وغیرہ وغیرہ خود بخود کم ہو جائیں گے۔ نہیں میں کہتا ہوں کہ گندم کے سستے ہونے سے مسلمان کو خدا پھر یاد آجائے گا۔ نمازیں زیادہ پڑھی جائیں گی مسجدیں زیادہ آباد ہوں گی وغیرہ وغیرہ۔
          نہیں نہیں سالہا سال سے میں حکومت سے کہتا ہوں کہ گندم کے سستا ہونے سے رعیت کے دلوں سے تمہاری سلامتی کی دعائیں خود بخود اٹھیں گی اور تمہاری گدیاں جو ہر آئے دن بدلتی رہتی ہیں مضبوط ہوتی جائیں گی اور تم خود اطمینان کا سانس لو گے، تمہاری اپنی بہتری ہو گی لیکن حکومت ہے کہ ٹس سے مس نہیں ہوتی اور مجھے نہایت عزت اور احترام سے (لیکن دل میں دیوانہ اور ملاّ سمجھ کر)ٹال دیتی ہے۔ میرے نزدیک مسلمانو! تم جس قدر اس کھیل میں جو تمہارے سامنے آٹھ سال سے ہو رہا ہے گہرے جا گے تو نتیجہ ایک ہی پر پہنچو گے، وہ یہ کہ پاکستان کی حکومت کی مشین ہی کچھ ایسی ٹیڑھی اور انگریز کی حکومت سے بدرجہا زیادہ بدنیت روز اول سے ہی ہے کہ اس میں ہر شخص اونچے سے اونچے حاکم سے لے کر ادنیٰ سے ادنیٰ چپڑاسی تک صرف اپنے فوری فائدے میں لگا ہے اور اس ملک کو لوٹ کا مال سمجھ رہا ہے۔ اسی لئے حالات بہتر اس وقت تک نہیں ہو سکتے بلکہ کشمیر بھی اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ سب حاکموں کی نیت درست نہ ہو۔ ایک دو اونچے درجے کے حاکم اگر نیک نیت بھی ہوں تو کام نہیں بن سکتا کیونکہ اوپر کے حاکموں کی نیت نیک ہوتے ہوئے نیچے کے حاکم اپنا نفع ختم ہوتا ہوا دیکھ کر تمام کھیل مداری کے کرتب کی طرح بگاڑ دیتے ہیں اور پھر کسی کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ کس نے کھیل بگاڑا ۔ ابھی ابھی میں نے اخبارات میں پڑھا ہے کہ وزیر اعظم محمد علی اور مشیر امور کشمیر شیخ دین محمد کی کشمیر کے بارے میں نیتیں نیک ہونے کے باوجود بلکہ گورنر جنرل سکندر مرزا کے اصلاح پاکستان کے ولولہ انگیز ارادوں کے ہوتے ہوئے نچلے درجے کے حاکم ان کی تجویزوں میں روڑے اٹکارہے ہیں اور پاکستان کی بگڑی بننے نہیں دیتے۔ یہ وہ افسوسناک منظر ہے جس کی وجہ سے میرے نزدیک اس بگڑے ہوئے آوے کو درست کرنا اس وقت ہو سکتا ہے جب کہ خدا کی رحمت کی بارش پاکستان کی قسمت کو بدلنے کے لئے تیار ہو جائے اور کسی صورت میں ہر گز نہیں ادھر پاکستان کی قسمت صرف اسی وقت بدل سکتی ہے جس وقت (جیساکہ میں پچھلے چار مہینوں سے برابر چیخ رہا ہوں) پاکستان کا ایک ایک فرد، بوڑھا ، بچہ، مرد، عورت بڑے سے بڑا حاکم چھوٹے سے چھوٹا کلرک، وزیر، کبیر ، زمیندار، تاجر امیر غریب آج سے اپنے خدا سے عہد کر لے کہ میں اپنی قسمت کو بدلنے اور کشمیر کو حاصل کرنے کے سلسلے میں جھوٹ بولنا، فریب کرنا ، خیانت کرنا، بلیک کرنا، کم تولنا، رشوت لینا، زنا کرنا، شراب پینا، چوری کرنا، سینما جانا،دشمنیاں کرنا وغیرہ وغیرہ سب گناہ چھوڑ تا ہوں اور کم از کم آئندہ چھ ماہ کے لئے خدا کا بندہ بن کر رہوں گا۔
          مسلمانو!ان حالات میں تمہارے لئے کشمیر کے حاصل کرنے کی راہ صاف ہے۔تم اس امر سے قطع نظر کہ حکومت کی نیت تمہارے حق میں کیا ہے کشمیر کو خالصتاً پاکستان کی حفاظت اور اپنے پیٹ کے رزق کا مسئلہ سمجھ کر کشمیر کے لئے قربانیا ں اور انتہائی قربانیاں کرنے کا ارادہ پیدا کر لو۔ اس وقت عورتوں ، بچوں اور ساٹھ برس سے اوپر کے بوڑھوں کو چھوڑ کر کوئی ایک شخص رہ جائے جو بطور رضا کار اپنے آپ کو پیش نہ کرے۔ اسلام لیگ والوں کو مرکز کی طرف سے حکم مل چکا ہے کہ وہ ہر مرکز میں برسر بازار بھرتی کے دفتر کھولیں۔ اور جس جگہ یہ دفتر نہ کھلا اس کے صدروں کو سزائیں نافذ ہونگی۔ اس لئے ہر شحص بطور رضا کار اپنا نام اور پورا پتہ درج رجسٹر کرائے،سالانہ داخلہ دے،رضا کار کا عہد نامہ پر کرے کہ اسلام لیگ کے مقامی صدر کا حکم ہر حالت میںمانوں گا۔ ہفتہ میں ایک دفعہ دو گھنٹوں کے لئے ٹرےننگ لو نگا وقت کا پورا پابند رہوں گا۔ اب کشمیر کی وجہ سے مقامی صدروں کا نظام بھی بدل دیا گیا ہے۔ ناظم اعلیٰ رضا کاران اسلام لیگ کے عارضی عہدے کو دو ماہ کے بعد ہی منسوخ اس لئے کر دیا گیا ہے کہ مسلمان کو اگر ادنیٰ بہانہ بھی بد نظمی اور فساد کا مل جائے تو وہ اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔ اس ناظم نے اپنے نفس کو موٹا کرنے کی خاطر ایسے بیہودہ احکام دیئے جس سے ہر جگہ فساد مچ گیا۔ اب رضا کار ہر جگہ مقامی صدر کے پورے طور پر تابع رہیں گے۔ وہی نافرمانی کی سزائیں دے گا۔ اور مرکز کی ادنیٰ سی نافرمانی کرنے پر وہ خوداسی طرح مرکز کی طرف سے سزا کھائے گا۔اس طرح پھر اسلام لیگ اور رضا کار دونوں کا نظام مضبوط ہو جائےں گے اور مقامی صدر بطور سالار حلقہ ہو گا جس کے نیچے اس علاقہ کے سالاران محلہ کام کریں گے۔ سالاران محلہ اپنے علاقہ میں رضا کاروں کو روزانہ پندرہ منٹ کے لئے جمع کرکے دیکھ سکتے ہیں کہ وہ اس کا حکم مانتے ہیں یا نہیں لیکن پندرہ منٹ یا آدھ گھنٹے سے زیادہ دیرتک ان کا وقت نہیں لے سکتے مقامی صدر ایک ہفتہ میں صرف دو گھنٹے رضا کاروں کو باوردی مارچ کراسکتا ہے زیادہ نہیں تاکہ ہر قسم کے رضا کار خوشی خوشی اس اجتماع میں شریک ہوں ۔ مقامی صدربیلچہ بھی جاری نہیں کراسکتا ۔ کیونکہ بیلچہ بھی تشدد کا ہتھیار بن سکتا ہے اور رضا کاروں کو روحانی حالت سردست اس قدر بلند نہیں ہو سکتی جس قدر کہ خاکسار تحریک میں تھی۔ مرکز کے حکم پر تمام پاکستان کا اجتماع مختلف مقاموں یا ایک مقام پر ہو سکتا ہے۔ نظام کو مضبوط کرنے کے لئے مقامی صدر کو ہر معمولی سی مرکز کی حکم عدولی کی سزا کھانے کے لئے تیار رہنا چاہئے تاکہ کشمیر کو حاصل کرنے کا سلسلہ اگر شروع ہو گیا تو پھر پیچھے قدم نہ ہٹے اور سری نگر پہنچ کر ہی دم لیا جائے۔
          مسلمانو! میرے نزدیک اگر جیسا کہ میں نے کہا ہے پاکستان کے طول و عرض میں ہر جگہ زور شور سے رضا کاروں کی بھرتی شروع ہو گئی اور مقامی صدروں نے رضا کاروں کے نظام کو لوہے کی طرح مضبوط کردیا تو میرا حسابی اندازہ ہے کہ اسلام لیگ کے رضا کار پنڈت نہرو کے گوامیں بھیجے ہوئے رضا کاروں سے دس گنا زیادہ مضبوط عزم کے مالک ہوں گے اور چونکہ مسلمان کی جان خدا کے کاموں میں ہمیشہ سے بے قیمت رہی ہے پنڈت نہرو کو جسارت نہ ہو سکے گی کہ وہ ہمارے رضا کار پر بے پناہ گولیاں چلائے۔ اس کے اپنے رضا کار تو دو تین سو قتل ہو کر بھی کچھ کر نہ سکے اور تحریک کو بند کرنا پڑا لیکن مسلمان رضا کاروں کا ایک سو کا قتل بھی تمام کشمیر اور باقی دنیا میں تہلکہ مچا دے گا اور بشرطیکہ قیادت عمدہ ہوئی ایک لاکھ رضا کاروں ہی کاکشمیر پر حملہ ہندو کے حواس باختہ کردے گا اور دس پندرہ لاکھ رضا کاروں کے پہنچنے کی نوبت ہی نہ آئے گی۔ ابھی ابھی مرکز کے سیکرٹری جنرل امین الدین صحرائی نے تجویز پیش کی ہے کہ کراچی سے ایک سو رضا کاروں کا ایک پیدل دستہ پشاور تک مارچ کرے ۔تاکہ پاکستان میں بھرتی کا سلسلہ عام ہو جائے۔ اس تجویز پر غور کیا جا رہا ہے اور حکومت سے اس بارے میں اسلام لیگ کے مطالبے پیش کئے جارہے ہیں حکومیتں ہمیشہ معشوقوں کی طرح ناز و نخرے کیا کرتی ہیں۔ اس لئے معلوم نہیں کہ اسلام لیگ کی تجویزوں کا حشر بالآخر کیا ہو ۔ لیکن آل پارٹیز کانفرنس کے ریزولےوشن میں چونکہ طے ہو چکا ہے کہ حکومت ان تمام سرگرمیوں کی جو ملت کشمیر کے حصول کے بارے میں اندرون ملک میں جاری ہوں پوری تائید کرے بلکہ ان کی حوصلہ افزائی انتہائی حد تک کرے اس لئے ہمیں امید نہیں کہ حکومت بڑی دیر تک اسلام لیگ کی سرگرمیوں سے بے اعتنائی اختیار کرسکتی ہے ورنہ وہ بے قدرو قیمت ہو جائے گی اور عوام الناس کی نظر میں گر کر اپنی گدیاں اور کمزور کردے گی ۔اس بنا پر مسلمان پورے عزم سے رضا کاری کی تحریک میں شامل ہوں۔ رضا کار پوری روحانیت اور ارادے سے اپنا وقت دےں اور انتہائی قربانیوں کے لئے تیار ہو جائیں۔ میرے نزدیک اسلام لیگ کے سوا کسی دوسری جماعت میں طاقت نہیں کہ وہ اس بلند پائے کے رضا کار پیدا کر سکے جو کہ اسلام لیگ کے بے مزد کارکن پیدا کرسکتے ہیں ۔اس لئے میں یہی مشورہ دوں گا کہ سب لوگ اسلام لیگ ہی کے رضاکار بنیں ویسے دوسری سات آٹھ جماعتوں کے کرتا دھرتاں نے کراچی کی عظیم الشان اسلام لیگ کنونشن میں ہی جو ستمبر کے آخر میں ہوئی تھی ۔اس امر کا علانیہ اقرار کر لیا کہ وہ کشمیر کے بارے میں اسلام لیگ کے ساتھ ہمہ تن ہوں گے اسلام لیگ کو صرف تازہ رضا کاروں کی بھرتی کا کام سپرد کر دینے سے یہ فائدہ بھی ہو گا کہ تمام رضا کار پاکستان کا ایک ہی نظام ہو گااور نظاموں کے مختلف ہونے سے کوئی گڑ بڑ نہ مچے گی، اسلام لیگ کشمیر پر رضا کاروں کے حملے کے طے ہو جانے کے وقت اپنا نظام حکومت کو بھی سپرد کرنے کے لئے تیار ہو گی تاکہ حکومت کو رضا کاروں کے نظام کے پاکستان گیر ہو جانے کے بعد بھی ہمارے متعلق کوئی بدگمانی پیدا نہ ہو کہ ہم کشمیر فتح کر لینے کے بعد ان سے ان کی گدیاں بھی چھین لیں گے۔ یہ اس لئے کہ اسلام لیگ کا منشا صرف کشمیر کو حاصل کرنا ہے۔ بری یا اچھی اپنی اسلامی حکومت کو کسی خطرے میں ڈالنا ہمارا منشا نہیں۔
          مسلمانو! رضا کاروں کی بھرتی کے متعلق ان سرسری ملاخطات کے بعد سب سے بڑا مسئلہ کشمیر پر رضا کاروں کے حملے کو کامیابی کی حد تک پہنچانا ہے اور اس مسئلہ کی جان یہ ہے کہ ہر رضا کار کشمیر کے مسئلے کو روحانی مسئلہ سمجھ کر اپنے سالار محلہ اور مرکز کے دیئے ہوئے حکموں کی پوری اطاعت کرے اور اس اطاعت میں اپنے نفس کو موٹا کرنے کی خاطر ادنیٰ سی حکم عدولی کو روا نہ رکھے۔ کامیابی تمہارے قدم اسی وقت چوم سکتی ہے کہ دشمن پر تمہارے بے پناہ نظام کی دھاک بیٹھ جائے اور کسی بڑی سے بڑی قربانی کے بعد تمہاری صفوں کے اندر انتشار پیدا نہ ہو۔یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ رضا کار اپنے آپ کو صرف خدا کا سپاہی سمجھے رضا کاروں کے سالار صرف خوف خدا سے کام کریں اور ہر حکم کو جو وہ اپنے رضا کارروں کو دیں صرف اسی حد تک دیں جس حد تک مرکز ان کو اس حکم کی اجازت دیتا ہے۔ مرکز کے افسروں میں بھی صرف اور صرف خدا موجزن ہو رہا ہو اور کوئی کام محض نمائش کی وجہ سے نہ کیا جائے ۔ جس کا کوئی مستقل نتیجہ بعد میں نہ نکلے۔ مسلمان چونکہ بھوکی قوم ہے اس لئے رضا کاروں پر ان کی طاقت برداشت سے زیادہ بوجھ ڈالنا بھی نظام کو خراب کرنا ہے اور اگرچہ میں اس وقت دوسرے کاموں میں بے حد مصروف ہوں اور اسلام لیگ کو زیادہ وقت نہیں دے سکتا لیکن کشمیر کے سلسلے میں میں نے عزم کر لیا ہے کہ اس اختیار کی رو سے جو اسلام لیگ کے عام اجلاس میں مجھے میری مرضی کے بغیر دیا گیا ہے میں اس امر کی نگرانی کروں کہ مرکز کے کوئی کارکن کسی بات میں حد سے زیادہ تجاوز نہ کریں تاکہ رضاکاروں کا نظام مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جائے۔ ادھر رضا کاروں کو لوہے کی طرح مضبوط کرنے کی ایک شق یہ بھی ہے کہ ان قربانیوں کے سلسلے میں جو وہ کرتے جائیں حکومت اور پبلک دونوں سے مالی امداد حاصل کی جائے تا کہ رضا کاروں کے اپنے گھروں میں اطمینان ہو روپیہ کا یہ مسئلہ اس قدر ٹیڑھا ہے کہ اگر یہ صحیح اصولوں پر حل نہ کیا گیا تو بڑا فساد پیدا ہونے کا امکان ہے اور کیا عجب ہے کہ یہی روپیہ کا معاملہ بالآخر ہماری کمزوری کا باعث ہو ۔ اس کا ابتدائی علاج میں نے یہ تجویز کیا ہے کہ سب مالی مدد جو کسی رضا کار کو دی جائے درپردہ ہو ۔ تاکہ خدا کے سپاہی کا وقار قائم رہے۔ وہ اس وقت ہو جب کہ وہ محاذ کشمیر پر پڑاہو اور کسی رضا کار کو اجازت نہ ہو کہ وہ روپیہ کے لین دین کے متعلق کوئی گفتگو ما سوائے مرکزی افسروں کے کرسکے اور اگر وہ اس کا چرچا کسی الفاظ میں یا کنایوں اور اشاروں سے بھی کرے تو اس کو درد ناک سزادی جائے۔
          مسلمانو!خدا کے کاموں میں کسی اجرت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور خدا کے سپاہی کی اجرت دراصل صرف خدا کے پاس ہے اس لئے ایک مقدس نصب العین میں جیسا کہ کشمیر کا ہے مالی مدد کے کم یا زیادہ ہونے کا سوال ہی اس سپاہی کی حیثیت کو گرا دیتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ ایسے معاملوں میںگرا ہو ا مسلمان تو الگ رہا فرشتوں کے قدم بھی پھسل جاتے ہیں۔ ان سب مشکلوں کا آسان علاج میں نے رضا کاروں کا کامل طور پر خاموش ہونا تجویز کیا ہے وہ خاکسار تحریک کا ایک اہم خاصا تھا اور جس نے اس تحریک کو دنیا کی نگاہوں میں چار چاند لگادیئے تھے۔ اس معاملے کے متعلق زیادہ اطمینان دلانے کے لئے میں اتنا کہوں گا کہ اگر کسی مرکز کے افسر کے متعلق مجھے یقین ہو گیا کہ اس نے رضا کاروں کو محاذکشمیر کے وقت مالی مدد پہنچانے میں کسی قسم کی رعایت یا بد دیانتی کی ہے تو میرا فرض ہو گا کہ اس افسر کو یک قلم بغیر کسی عذرسنے ہوئے علیحدہ کر دینے کا حق رکھوں بشرطیکہ اسلام لیگ کونسلروں کے عام اجلاس میں اس معاملے کو پھر دوسری بار اپنی مرضی سے اور میری غیر حاضری میں طے کرے ۔ یہ کام اگرچہ میرے لئے ایک عذاب کے برابر ہو گا لیکن کشمیر کی خاطر میں اس کو اپنے کندھوں پر لینے کے لئے تیار ہوں ادھر اگر اسلام لیگ کسی دوسرے شخص کو اس کام پر مقرر کرے تو یہ بھی میرے لئے باعث اطمینان ہوگا۔
          مسلمانو! رضاکاروں کے ذریعے سے کشمیر کو حاصل کرنے کے سلسلے میں کئی درجن تجویزیں ایسی ہیں جن کا عوام الناس سے سروکار نہیں، وہ علیحدگی میں بیٹھ کر سوچنے کی تجویزیں ہیں اور عوام الناس پران کا ظاہر کر دینا ملک کے مفاد کے منافی ہے۔ البتہ اس موقع پر اس امر کا اظہار ضروری ہے کہ کشمیر کا مسئلہ چونکہ پوری قوم کا مسئلہ ہے کسی ایک جماعت کا مسئلہ نہیں اس لئے لازمی ہے کہ اندرونی تجویزوں کو اطمینان بخش طور پر حل کرنے کے لئے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو دعوت دی جائے کہ وہ حصول کشمیر کو کامیابی کی منزل تک پہنچانے کے لئے اپنے اپنے ایک یا دو یا زیادہ نمائندوں کو اجازت دیں کہ وہ ان اجلاسوں میں شامل ہوں جن میں یہ تجاویز پیش کی جائیںاس مطلب کے حصول کے لئے گفتگو میں ہر سیاسی بلکہ غیر سیاسی جماعتوں سے ابھی سے رابطے شروع ہو جانے چاہئیں اور حصول کشمیر کے متعلق کوئی اہم تجویز اسلام لیگ کا مرکز پاس نہ کرے جب تک کہ سب باقی جماعتوں سے مشورہ نہ لیا جائے اور ان کی مہر تصدیق اس تجویز پر نہ ہو۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس کے بغیر کشمیر کے حصول کا مسئلہ اطمینان خاطر سے طے نہیں ہو سکتا ۔ چھوٹی چھوٹی تجاویز خود اسلام لیگ کا مرکزی دفتر آپس میں بیٹھ کر طے کرسکتا ہے۔ لیکن کوئی اہم تجویز ایسی نہ ہو جس کے متعلق سب ملک کی جماعتوں کے نمائندوں سے مشورہ نہ لیا جائے۔
          مسلمانو!مری ہوئی یا مرنے والی قومیں اپنی بہتری کی باتیں سنا نہیں کرتیں اور نہ ایک کان میں ڈال کر دوسرے کان سے نکال دیا کرتی ہیں۔
          قرآن حکیم مےں اےسے لوگوں کو بدترےن حےوان شرالدواب کہا ہے جو الذےنالاسمعون ےعنی نہ سننے کے مجرم ہےں موت کے کنارے پر آئے ہوئے لوگ اس لئے نہےں سنتے کہ وہ غفلت مےں گرفتا ر ہوتے ہےںنصےحتےں سننے کے لئے تماشے کے طور پرآ جاتے ہے اور جب کام کرنا اور نصیحتوں پر عمل کرنا ان کو دو بھر معلوم ہوتا ہے تو سنائی ہوئی آواز کو کانوں سے نکال کر پھر غافل ہوجاتے ہیں ۔ جلال پور جٹاں جیسے قصبہ میں میرا ایک بڑی مدت کے بعد آکر لوگوں کو موت کی نیند سے جگانا مجھے اس لئے امید افزا معلوم دیتا ہے کہ یہاں کے لوگ نسبتاً زیادہ جاگے ہوئے ہیں ۔ اور نصیحت کو کچھ نہ کچھ زیادہ قبول کرتے ہیں اس بناپرمجھے امید ہے کہ اگر یہاں پر چند بیدار لوگوں کی وجہ سے اس پروگرام پر عمل شروع ہوگیا ہے جو میں نے بنایا ہے تو کیا عجب ہے کہ اس قصبہ کی وجہ سے تمام گجرات جاگ اٹھے اور پھر اسی طرح یہ آگ لگتے لگتے اور جگہوں پر پھیلے اس وقت کشمیر کا حاصل کرنا غافل اور گناہ گار قوم میں دوضدوں کی وجہ سے حرکت پیدا کرسکتا ہے ۔ ایک ضد تو یہ ہے کہ نہروصاحب وزیر اعظم ہند نے گوا کے علاقے کو حاصل کرنے کے لئے اپنے رضاکار ستیہ گرہ کرنے کے لئے پرتگیزوں کے علاقے میں بھےجے اور اس کے علاقے کو حاصل کرنے میں صریح طور پر ناکام رہا اور رسواہوا ۔ہندورضاکاروں نے پرتگیزوں کی گولیاں چلتی ہوئی دیکھیں تو وہ دم دباکر واپس لوٹے اور پنڈت نہرونے بھی ٹیڑھے عنوان دیکھ کر تحریک بند کردی ۔پاکستان کے ہنگامی مسلمانوں میں اس واقعہ سے ہنگامی ضد پیدا ہوسکتی ہے کہ ہم پنڈت نہروکی رضاکاروں کی تحریک کشمیر میں کامیاب کرکے دکھلادیں گے ۔ کیوںکہ ہم تو گولیوں کی وجہ سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہم تو اگر بستر پر نہ مرے تو کشمیر کے میدانوں میں مر کر دکھلادیں گے اور سری نگر سے ادھر دم نہ لیں گے ۔ دوسری ضد جو مسلمان مےں اس وقت کافی طور پیدا ہو سکتی ہے ۔ روس کے وزیراعظم بلگانن کی ہندوستان میں پہنچ کر بے وجہ بکواس ہے جو اس نے راہ چلتے پاکستان کو خواہ مخواہ چھےڑنے کےلئے کی اور بے معنی طور پر کہا کہ کشمیر ہندوستان کی سلطنت کا ایک حصہ ہے ۔ یہ ضد بھی اس وقت نہ صرف ادھر کے مسلمانوں کے اداروں کو پختہ کر سکتے ہیں بلکہ کشمیر کے 40 لاکھ مسلمانوں کے تن بدن میں آگ لگاسکتی ہے ۔ ضدیں اگرچہ لامحالہ شیطانی جذبہ سے ہوا کرتی ہیں ۔ لیکن ایک ہی قوم اور حکومت میں جن کو کشمیر چالیس لاکھ انسانوں کے مسلمان ہونے کا جذبہ آٹھ برس تک کشمیر کو پرولینے کے لئے آمادہ نہ کر سکا یا اسی قوم اور حکومت میں جن کو کشمیر میں ہمارے تمام دریاں کے ناکے واقع ہونے اور ہندوکا اس میں بھوکوں مار دینے کا غصہ تو آٹھ سال تک ابھار نہ سکا میرے نزدیک یہ دونوں ضدیں اگر کافی طور پر پیدا کردی گئیں اور مسلمان کو ہندواور روس کے خلاف اسی طرح کافی طور پر ابھاراگیا تھا تو”لے کے رہیں گے پاکستان“کی جگہ لے کے رہیں گے سب کشمیر کا نعرہ اسی طرح کامیاب ہوسکتا ہے جس طرح کہ پاکستان کے وقت کے زوال یافتہ مسلمان میں ہوا تھا ۔
          ضرورت ایک عام ہیجان کی ہے اور یہ تماشا اس وقت کہ حکومت بھی مسئلہ کشمیر موثر طور پر اٹھانے کی فکر میں ہے بھوکے ننگے اور تنگ گذران عوام الناس میں بہت جلد پیدا ہوسکتا ہے ۔بشرطیکہ قوم کے من چلے نوجوان اس شیطانی جذبے کو شیطان کا ر قوم پیدا کرنے کے لئے اٹھ جائیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے وقت میں کہ پاکستان پر مصیبت کے پہا ڑ چاروں طرف سے آگھرے ہیں اور کشمیر کے مسئلے کے سوا کئی اور سیاسی مسئلے ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
          عوام الناس کے عام اٹھان کی بیحد ضرورت ہے۔ کشمیر کے متعلق رضا کاروںکی بھرتی زور شور سے کرنا اس اٹھان کو زیادہ طاقتور کر سکتا ہے۔ اور چونکہ کشمیر کے مسئلے کو پھر شروع کر نا زیادہ اسلام لیگ کی وجہ سے ہوا ہے۔ اسلام لیگ کے کارکن ہی اس اٹھان کو زیادہ تر فروغ دے سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں میں یہ بھی اعلان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اسلام لیگ کے کارکن اگر میرا مشورہ ہر اہم کام کے شروع کرنے میں ضروری سمجھتے ہیں تو میں نے سیکر ٹری جنرل اسلام لیگ صاحبان اور دوسرے کارکنوں کو یہ رائے دے دی ہے کہ اس مسئلے کو کامیاب طور پر اٹھانے کے لئے قوم کے ہنگامی حالات کو مد نظر رکھ کر اسلام لیگ کے طول و عرض میں سیاسی لہجے کی اطلاعوں اور فرمائشوں یا درخواستوں کی بجائے فوجی احکام اور فوجی قانون جاری کیا جائے۔اس تجویز کی تفصیل یہ ہے کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے علاقہ کے صدر سے لیکر بڑے سے بڑے مرکزی افسر تک ہر شخص کشمیر کی بھر تی کے سلسلے یا عام نظام کو درست کرنے کے لئے تحریری ہدایتوں میں اطلاعیں دینے یا درخواستیں کر کے اپنی بات منوانے کی بجائے احکام نافذ کرے جو ماتحت افسر اس حکم کی من و عن اور بلا چوں و چرا نہیں مانتا یا سننے میں غفلت کرتا ہے اس کو مناسب سزا دی جائے تاکہ اسلام لیگ کا سیاسی نظام قطعی طور پر مضبوط ہو جائے اور اس کاوہی رنگ ہو جو کسی زمانے میں خاکسار تحریک کا تھا اس طریقے سے رضا کاروں کا نظام بھی انتہائی طور پر مضبوط ہو جائے گا اور وہ خطرہ جو نظام کے ڈھیلے ڈھالے ہونے کے باعث کشمیر کو حاصل کرنے کے بارے میں لاحق ہو سکتا ہے ختم ہو جائے گا۔ افسران ماتحت کو جب کوئی حکم افسران بالا سے پہنچے گا۔ وہ اس کو ایک فوجی حکم سمجھ کر اس کی تعمیل کرے گا اور مرضی کی اطاعت جو ہمارے ملکوں کی اکثر سیاسی جماعتوں میں ہوتی ہے۔ ناپید ہو جائے گی سالاران محلہ کے ماتحت رضا کار بھی اپنے سالار کو فوجی افسر سمجھ کر اس کا حکم مانیں گے اور ہر علاقے کا صدر سیکریڑی اور دوسرے اہلکار اسلام لیگ کو ہنگامی حالات کے ماتحت ایک فوجی تنظیم سمجھیں گے۔ اس مطلب کو پورے طور حاصل کرنے کے لئے میری سمجھ میں ضروری ہے کہ آئندہ انتخابات میں جو اسلام لیگ کے عہدہ داروں کے ہوں صرف وہی لوگ ہر علاقے میں کلیدی عہدوں پر منتخب کئے جائیں۔ جن کی ذہنیت فوجی ہو یعنی جو حکم دینا جانتے ہوں، منوانا جانتے ہوں اور سب سے زیادہ اہم یہ کہ حکم ماننا جانتے ہوں۔
          جلال پور کے مسلمانو!اس تمام تمہید اور تشریح کے بعد آخری کلام یہ ہے کہ کشمیر کی تحریک کا صحیح معنوں میں سلسلہ اسی قصبے سے شروع ہو جانا چاہئے یہی قصبہ اپنے زورِ عمل سے رضا کاروں کی بھرتی اس طاقت سے شرو ع کرے کہ گردا گرد کے ہر گاں میں کشمیر کے رضا کار ٹرےننگ حاصل کرتے نظر آئیں۔ رضاکاروں کی بھرتی اس نظام سے شروع ہو کر اس کا چرچا اخباروں میں ہو ، مختلف جگہوں پر جلوس نکلیں، کشمیر کو لینے کے لئے نعرے بلند ہوں۔ ہر شخص اپنے وقت کا کم ازکم ایک گھنٹہ روزانہ کشمیر کی تحریک کے سلسلے میں خرچ کرے۔ ہر محلے سے چند رضا کار روزانہ قطاروں میں چل کر دوسرے محلوں میں زندگی پیدا کریں اور نئے رضا کار بھرتی کریں۔ محلے کے سالار پندرہ بیس منٹ تک روزانہ مارچ کرائیں۔ ہر علاقے میں ہفتہ وار پبلک جلسے لوگوں کو کشمیر حاصل کرنے کی مشکلات بتلانے کے بارے میں ہوں۔ ماہانہ بڑے پبلک جلسے منعقد کئے جائےں۔ نافرمانی کی سزاں کا سلسلہ اخبارات تک پہنچے تاکہ عوام الناس میں نظام کا احساس پیدا ہو۔ اس امر کا احساس پیدا ہو کہ اسلام لیگ کے رضا کار جب اور جس وقت بھی کشمیر کو حاصل کرنے کے لئے آمادہ ہوئے تو ان میں ادنیٰ کمزوری نہ ہو گی بلکہ ہر شخص اپنے مقرر کردہ فرض کو آخری دم تک نبھائےگااور دشمن سے آخری خندق تک لڑ کر کشمیر کو حاصل کریگا یہ اتحاد اور تنظیم اگر تم مسلمانوں میں پیدا ہو گئی تو یاد رکھو کہ یہ وہی تنظیم ہے جو کسی وقت قرون اولیٰ کے مسلمانوں میں بدرجہ اتم موجود تھی۔ اس وقت کے مسلمان اپنے امیر کے حکم کے سامنے جانیں قربان کر دیتے تھے۔ اور مصرکے مشہور عیسائی جرجی زیدان نے اپنے ایک ناول میں جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کے حیرت انگیز ایمان کے متعلق ہے لکھا تھا کہ قرونِ اولیٰ کا مسلمان اس حیرت انگیز ایمان کا علمبردار تھا کہ اگر کسی حکم کی تعمیل کے سلسلے میں اس کو اپنی منگیتربھی اتفاق سے مل جاتی تھی اور وہ اپنے ہونے والے خاوند کورو رو کر کہتی تھی کہ کچھ دیر کے لئے ٹھہر جا اپنے امیر کا حکم دو گھنٹے کے لئے ملتوی کر دو تو وہ ہونے والا خاوند اس منگیتر کوکہا کرتا تھا کہ:
”کیا تو میری عاقبت کو خراب کرنے آئی ہے میں تم کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوں لیکن اپنے امیر کے حکم کو ملتوی نہیں کر سکتا“۔
          الغرض مسلمانو ! ہےر پھر کر اگر کوئی بات مسلمانوں کو پھر ایک مضبوط قوم بنانے کی ہے تو وہ ہے جس کا ذکر میں نے اس خطاب کے شروع میں کیا تھا وہ یہ کہ مسلمانو! اپنا خدا ایک ، رسول ایک اور قرآن ایک پھر کر دو صحیفہ فطرت کی بنیاد صرف ایک پر ہے، ایکے پر ہے، اتفاق اور اتحاد پر ہے۔ اسی ایکے سے تمہارے مردہ جسموں میں نئی روح آئے گی، اسی سے تمہاری بدیاں کافور کی طرح اڑ جائیں گی، اسی سے شیطان جو تمہارے دلوں اور سینوں پر قبضہ جمائے بیٹھا ہے دم دبا کر بھاگ جائے گا۔ ایمان کی یہی متحرک صورت تمہارے آگے کشمیر کے حاصل کرنے کا عظیم الشان ڈرامہ کامیاب کرکے دکھائے گی اور اتحاد اتفاق اور بے غرضانہ عمل کی یہی صورت با لٓاخر تمہاری تما م مشکلوں کو آسان کرکے رہے گی۔اب میں تم سے رخصت ہوتا ہوں اور تم کو خدا حافظ کہتا ہوں۔

13 جنوری1956ء عنایت اللہ خان المشرقی۔
بشکریہ : جدید کشمیر مطبوعہ26 جنوری1956ئ