Pages

Time

مسلمان کی بگڑی از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ


67۔ مسلمان کی بگڑی

 کہتا ہوں تعّمد سے میں سو(۱۰۰) باتوں کی اک بات
اِس قوم کے اچھے نظر آتے نہیں دن رات
مستی میں گناہوں کی ملی اُن کو جو”شاہی
وہ ہے کہ غلامی غلاماں کو کرے مات
ویسے تو یہ کہتے تھے کہ ہم ”لے کے رہینگے ٭
پر ”لے کے رہی“ اُن کو گناہوں کی مکافات
بدلہ وہ لیا باتوں ہی باتوں میں خدا نے
ڈر ہے کہیں کہہ دوں نہ اُسے مصدرِ آفات
آنکھوں میں پڑی دُھول وُہ سب ان کے بڑونکی
کچھ کر نہ سکے دفعِ بلّیات و اذیّات
ہندو تھا بہت شوخ کہ سب جیت لی بازی
یاں ہار پہ کھائے ہوئے قسمیں تھے یہ ھیہات
مشکل ہے یہ اب، گھر کے نہ ہیں گھاٹ کے کُتّے
اپنوں نے بنائے میرے اس شکل کے اوقات
اس پر بھی جو بس کرتے تو آخر یہ تو ہوتا
رَل مِل کے یہیں پر ہی بنا لیتے کوئی بات
آپس میں اکٹھے ہوں جو دو(۲) دل بھی تو دُکھ میں
جاتے ہیں بدل سارے غراخانے(ماتم خانہ۱۲) کے حالات
پَر ان کے بڑوں کو تو وہ چسکاہے ”شہی“ کا
اپنوں پہ ہی حاکم ہیں بصد فخر و مباہات
کہتے ہیں کہ چلتا نہیں ہندو پہ جو کچھ زور
مُسلم کے لئے کیوں نہ بنیں مرگِ مفاجات
کیا حق ہے کہ آزاد مسلماں ہو یہاں پر
ہم کو تو ملا ملک یہ تھا تحفۂ خدمات

القصّہ مسلماں کی وہ بگڑی ہے کہ اللہ!
تو دافع آفات ہے، تو قاضیٔ حاجات!
اب ننگ ہے اور بھوک ہے چیخیں ہیں کراہیں
آزادی مسلم“ کی ذرا چکّھو تو لذّات!

کہتا ہوں سزا ہے یہ تمہارے عَمَلوں کی
اور تم میں ذرا بھی تو نہیں توبہِ مَافَات
مَرتے تھے جو تم ان پہ تو مر مر کے مٹو اور
معشوق کی ہوتی ہیں یہی کچھ تو کرامات
چیخیں ہیں وہ گھر گھر میں کہ اللہ! تیرا قہر
ظالم کی بڑھی جاتی ہیں اندھیر کی مدّات
اخلاق اُدھر گِر وہ چکے ہیں کہ اماں ہے
اک میں نہ اخوّت نہ مواسات و مساوات
کٹ کر جو خدا سے ہے پھٹا اپنوں سے ہر اک
شیطاں سے بڑھی جاتی ہے دن رات مواخات
شاہی“ یہ ملی کیا کہ مَلی مُنہ پہ سیاہی
اللہ! ترے بندوں پہ لعنت کی یہ برسات
جس قوم کے اے مشرقی اپنے ہوں پرائے
اُس قوم کی ہے موت سے آخر کو ملاقات

 اقتباس حریم ِ غیب (صفحہ ۲۵۵ تا ۲۵۷)
علامہ عنایت اللہ خان المشرقی
۱۸ مئی ۱۹۵۱ء
٭ پاکستان بننے سے پہلے مسلمان کا نعرہ ”لے کے رہیں گےپاکستان“ تھا۔