Pages

Time

مقالہ افتتاحیہ ”رہ قلندر“ مطبوعہ ” الاصلاح“ یکم مارچ ۱۹۳۵ء


مقالہ افتتاحیہ
رہ قلندر
مطبوعہ ” الاصلاح
یکم مارچ ۱۹۳۵ء مطابق ۲۴ذیقعد ۱۳۵۳ھ
ضمارہ قلندر سزد اربمن نمائی
کہ دراز ودور دیدم رہ عشق وپار سائی
۲۲ فروری کے مقالہ افتتاحیہ میں جو ”جرعہ رندان“کے عنوان سے میرے قلم سے تھا، میں نے عیاں کر دیا تھا کہ اگر مسلمانوں کا لندن اور شملہ کے انگلش میڈ عقیدوں والا طبقہ ہمارے اس درویشی گھونٹ کو پینے میں کراہت اور نفرت کا اظہار کر رہا ہے جس کو آج ہم قرنوں کے بعد پھر پیش کر کے پکار رہے ہیں کہ ”آنکھیں میچ کرچڑھا جاﺅ اور لطف دیکھو،“اگر آج ہماری اس فقیرانہ جڑی بوٹی اور قلندر انہ ٹوٹکے کو جو بڑی بڑی بد صورت اور مٹی کی دوریوں میں گھٹ گھٹ کر تقسیم ہو رہا ہے، مسلمانوں کا وجہ پسند اور فیشن ایبل ”مہذب“اور ”متنور“یورپ زدہ اور فریب خوردہ طبقہ حقارت اور انکار سے دیکھ رہا ہے اور ہم کو اس کے بدلے اس چمکدار اور خوش رنگ بوتل کا سرخ اور مقطر زہر دکھا رہا ہے جس پر نیند اور امن، جمہود اور سکون مکر اور فریب ، جھوٹی پارسائی اور جھوٹے عشق ، موت اور شکست کا لیبل لگا ہے، تو آج یہ طبقہ خوب جان لے کہ ہمیں اس صاف اور مروق زہر کی ہر گز پروا نہیں! ہم خاکسار اگر بیلچہ کے ذلیل اور شرمندہ کن ہتھیار کو اٹھا کر دیوانہ وار اور قلندر وش گھروں سے نکلے ہیں اور پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ”مسلمانو! اس کو پکڑو، اور نجات پاﺅ، “اس کے اندر تمہاری از سرنو حیات کا سچاراز ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے پچھلے تمام کرم فرماﺅں کو پورے ستر برس کی رو رو کر چارہ فرمائیوں اور اپنے بیدار دشمنوں کی پچھلے سو برس کی خواب آوراور موت بخش دواﺅں کے بعد اب کسی کے دم فریب میں نہیں آسکتے۔ مسلمان آج اپنا علاج خود تجویز کرنے کے لئے اٹھا ہے! اس کو اب کسی معالج یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں رہی۔ سب ڈاکٹروں اور سرجنون، سب چارہ فرماﺅن اور معالجوں، سب رہنماﺅں اور واعظوں، سب رشتہ داروں اور عزیزوں، سب مردہ شوﺅں او قل آعوذیوں، سب ریش بردار ملاﺅں اور مولویوں کو شکریہ کے بعد ”اذن عام“ہے کہ رخصت ہو جائیں! جنازہ نکل چکا ہے، نماز جنازہ پڑھائی جا چکی ہے مردہ دفن ہو چکا ہے، اس پرمٹی ڈالی جا چکی ہے، مکاری کے پھول اور فریب کے آنسو بہائے جا چکے ہیں۔ اب مردے کا کام ہے کہ اس تمام بد معاشی کے بعد قبر سے نکل کر خود باہر کھڑا ہو جائے اور اپنے گھر کی راہ لے!
یاد رکھو خدا، رسول، اسلام، ایمان، قرآن دین کچھ نہیں بدلا، تم مسلمان بدل چکے ہو، تمہارے د ل اور جگر بدل چکے ہیں، ذہن اوردماغ بدل چکے ہیں، تخیل خیال اور اعمال بدل چکے ہیں، حسرتیں اور ارمان، احساس اور حسیات بدل چکے ہیں، نصب العین بدل چکے ہیں، گھٹنوں میں دردرس چکا ہے، پیر وہ اگلے پیر نہیں رہے، ہاتھ شل ہوگئے ہیں، ذہنوں میں ویرانیاں اور دماغوں میں خرابے بس چکے ہیں نیتیں اور ارادے مر چکے نہیں، مارے جا چکے ہیں۔ ہاں تم بدلے نہیں، بدلائے جاچکے ہو ۔ کسی ”نامعلوم“اور زبردست دشمن نے، کسی چالاک اور ہوشیار مخالف نے، کسی ابلہ فریب اور عیار نے، کسی جانی روگ لگانے والے عدو نے تمہیں وہ نا محسوس افیون، وہ تریاق کے رنگ کا زھر وہ سلوپائیزن Slow Poison شکر میں لپٹی ہو ئی گولیوں میں لا کر دیا ہے، کہ تم تیرہ سو برس کے دین کو، تیرہ سو برس کی تندرستی اور صحت کو، تیرہ سو برس کے سرخ چہروں اور بلند نظروں کو، تیرہ سو برس کے پھر تیلے بدنوں اور مضطرب جسموں کو پچاس برس کے اندر اندر اس دشمن کی ادنیٰ ادا پر قربان کر چکے ہو!
مغربی تہذیب کا زہر اور اسکے اثرات
اس دشمن نے ”تہذیب تہذیب “کاخاموش ہنگامہ تمہارے دلوں میں پیدا کر کے، رعب قوت اور جلال سلطنت کے عجز خیز ماحول میں، وہ دوستی نما خصومت، وہ سار قانہ عیاری، وہ مصالحانہ دخل، وہ پیس فل پینی ٹیریشن Peaceful Penetration تمہارے ذہنوں کے اندر کیا ہے کہ تم اپنے دماغ کی پوری حکومت اس گھر کی بھیدی کے سپرد کر بیٹھے ہو۔ اب ایکشن اور عملوالصّلحٰت کی جگہ تمہارے ہاں انجمنیں ہیں، انجمنوں کے ”جلسے“اور”ریزولیوشن“ہیں،جلسوں میں جا کر تقریروں کا سماع اور مقرروں کا ناچ ہے، جذاک اللہ اور نعرئہ تکبیر کے جملے کا جمع کرنا اورپھر ”حساب دوستاں در دل“ہے، بے حساب جمع اوربے ڈکارہضم ہے، اب ایمان کی بجائے صرف کرسیوں پر بیٹھ کر کتاب کا مطالعہ ہے، کسی بک ڈپو سے کسی ”مولانا“کی نئی تصنیف کی فرمائش ہے، کسی مذہبی رسالے کی باقاعدہ ”تلاوت“ہے کسی یتیم خانے کو آٹھ آنے ماہوار کا منی آرڈر ہے، یا حد سے حدیہ دعویٰ ہے کہ فلاں تفسیر دوبار ”دیکھ“چکا ہوں، ”خوب لکھی ہے“،  ”کمال کر دیا ہے“، ”پڑھنے کی چیز ہے“، ”ایمان افروز ہے“، روح افزا ہے، میرے کتب خانے میں اس کی سب جلدیں موجود ہیں !
مسلمانوں کا غلط” جہاد قلم
اگر ”ایمان“کے اس درجے اور ”عشق و پارسائی“کے اس مقام سے کوئی شخص تم میں آگے بڑھا ہے تو پھر اس نے”جہاد قلم“اپنے ذمہ لیاہے، والقلم وما یسطرون کی آسمانی وحی کو توڑ مڑوڑ کر اپنے نفس کو دھوکہ دیا ہے، پھر فریب نفس اور شیطنت کے اس ابلیسی عمل سے مسلمانوں کی تیرہ سو برس پرانی حسیات اور روایات کا قتل عام اس طریقے پراپنی نوک قلم سے کیا ہے کہ کام ہو رہا ہے کہ شملہ کی چوٹیوں پر وائسریگل لاج کے اندر بیٹھا ہوا خاموش انگریز بھی مطمئن اور خوش بخوش ہے کہ ”ٹھیک کام ہو رہا ہے “ہماری تبلیغ و تہذیب، ہماری تعلیمی حکمت عملی ،ہماری ایجوکیشنل پالیسی عمدہ کام کر رہی ہے، ہمارے کالجوں کے پیدا کئے ہوئے مسلمان مذہب، ایمان، اسلام، قرآن، خدا، رسول کو حسب مطلب ٹھیک سمجھ رہے ہیں! انگریز خوش ہے کہ خود مسلمان پچھلے پچاس برس سے دفتر کے دفتر اپنی ملت کی بنا کو بگاڑنے کے لئے لکھ رہا ہے، خوش ہے کہ اس کی سلطنت کو خود مسلمان مضبوط کر رہے ہیں، مطمئن ہے کہ عروس حکومت کا پچھلا بے غیرت خاوند خود دلال ہے! اپنے قلم سے لکھ رہا ہے کہ اسلام کے معنی غیر کے مطیع اورمحکموم بن کر رہنا ہے، اسلام کا مطلب بہر نوع امن پسندی ہے، اسلام کے قرآن میں اولی الامرمنکم کا یہ مفہوم ہے کہ انگریز کو منکم سمجھو، اسلام کے قرآن میں جہاد کی آیتیں اب منسوخ ہو چکی ہیں ، اسلام کو تلوار سے کچھ سروکار نہیں ، اسلام کے تمام جنگ مدافعانہ تھے، طارق کو سپین والوں نے مکہ اور مدینہ میں آکر چھیڑا ہو گا، ہندوستان کے مہاراجوں نے عرب میں آکر محمد بن قاسم کو تنگ کیا ہو گا، مسلمان کو دنیا اور روئے زمین کی بادشاہت اتفاقاً مل گئی تھی ، مسلمان کو دنیا سے کیا سروکارہے ! ۔
دین اسلام کی منقلب صورت
ادھر ہو شیار اورعیارعیسائی مشزی نے جو یورپ کی ابلیسی مستعمرانہ پولیسی کا مقدمہ الجیش ہمیشہ سے رہا ہے، سادہ لوح مسلمان کوچھیڑ دیا کہ  ”ایلو !اسلام میں بڑا نقص یہ ہے کہ وہ بزدر شمشیر پھیلا ،“ادھر انگریزی حکومت کا ایک نا انگریز دان اور ناانگریزی دان علمبردار سر سید احمد خان علیہ الرحمتہ اپنے سادہ پن میں جھٹ قلم دوات لے کر بیٹھ گیا اور اپنے خاموش کن زور قلم سے ثابت کر گیا کہ مسلمان کا ہر غزوہ ، ہر جنگ ، ہر ایک جہاد، ہر ایک حملہ ، ہندوستان کے سترہ محمودی حملے ، سندھ پرقاسمیؓ چڑھائی، فرانس میں طارقی ؓ فتوحات، ایران، مصر، افریقہ، روم ، آسٹریا سب پر بے پناہ یورشیں صرف اس لئے تھیں کہ اس وقت کے غریب اور یتیم ،بے بس اور بے کس مسلمانوں کو اس دنیا کی زمین پر ”نماز پڑھنے“کے لئے جگہ نہ ملتی تھی ، ماہ رمضان میں کفار مسلمانوں کو سحری کھانے نہ دیتے تھے ، کلمہ شہادت کے بولنے کے لئے زبان بندی کردی تھی ، حج کے فریضے کو اد ا کرنے کے وقت راہ چلنے نہ دیتے تھے، اس لئے بیچارے نہتے تسبیح خوان مسلمانوں نے اپنا ”دین بچانے کی خاطر“ان سلطنتوں پر مجبوراً چڑھائی کی ،قرآن میں صاف لا اکراہ فی الدّین (دین میں کوئی مجبوری نہ ہے ) لکھا ہے ۔ مسلمان کو تلوار سے بھلا کیا کام ہے، مسلمان، اسلام، سلم، امن صلح ایک شے ہیں، حدیث میں لکھا ہے اگر تم پر ایک حبشی بھی حکمران کردیا جائے، اس کی اطاعت کرو۔ جب اسلام کے اندر ایک کلونٹے اور بد صورت حبشی کی اطاعت واجب ہے، توان گورے چٹے، یورپ کے خوبصورت نیلی آنکھون والے نوجوانوں کی غلامی کیوں نہ عین فرض ہو! دنیا میں اگر اسلام پھیلا تو مسلمانوں کی تسبیحیں اذانیں دیکھ کر پھیلا، عیسائی مشزیوں کا اتہام کہ ہم نے کبھی تلوار پکڑی تھی سر اسر غلط ہے۔
علمائے وقت کی انتہائی دور بینی
قلم کے اس ہلاکت انگیز جہاد اورسر سید احمد اور اس کے رفقاءکی اس نکتہ شناسی نے ہندوستان میں اسلام کا رہا سہا رنگ چشم زدن میں بدل دیا! ادھر انگریز نے جو غدر کے بعد اپنے ہمدردچراغ لے کرڈہونڈھ رہا تھا، حکومت کے ان بے دام دوستوں سے مصافحے کرنے شروع کئے، گورے گورے ہاتھ بڑھا کر اور ہولے سے دبا دبا کر عقیدت اور ارادت کی بجلیاں یکسربدن میں دوڑا دیں اور شہ دیدی کہ ”کالج “بناﺅ ۔ ان دنوں انگریزی نہ جاننے والے مسلمان اپنے گورے معشوقوں کے الفاظ کو غلط سلط بولنا اور خواہ مخواہ ان کو اپنی”سپیچوں“Speechمیں داخل کرنا داخل فیشن سمجھتے تھے اس فیشن پر حالی اورنذیر احمدجیسے جلیل القدر مسلمان مر مٹے تھے ۔ ”کالج کے نام کوسن کر سید احمد خان کی رگ تفرنج پھڑک اٹھی، وہ اسلام کی تیرہ سو برس کی تربیت کو بھول گیا، تیرہ سو برس کی آن اور خود داری کو بھول گیا، تیرہ سو برس کی بادشاہت اور وجاہت کو بھول گیا، تیرہ سوبرس کی غیرت اسلامی اور عزت نفس کو بھول گیا! اسوقت ہوشمند علمائے دین اوردقیقہ رس مذہبی رہنما پکار پکار کر کہتے رہے کہ انگریزی پڑھنا کفر ہے، مسلمان انگریزی پڑھ کر نیم انگریز بن جائیں گے، ان کے عقیدے نیم انگیزی عقیدے ہو جائیں گے، ان کی تہذیب اور رہائش، ان کا لباس اور”کلچر “سب نیم انگریزی ہو گا، نقاط نظر انگریزی ہو نگے، وہ سوچیں گے تو انگریز کے نقطئہ نظر سے، اور مسلمان ہو نگے تو صرف اس کے اعلا کے لئے۔ انہون نے پکار پکار کر کہا کہ خدا کا آخر ی رسول ” الناس علی دین ملوکھم “ترجمہ ۔ رعیت کا بالآخر وہی مذہب اور چلن ہو جاتا ہے جو اسکے بادشاہوں کا ہوتا ہے(حدیث) کے الفاظ کہہ گیا ہے، اس لئے نبی کا احترام کرو، من تشبّہ بقومِ فھو منہم ترجمہ۔ جس قوم نے کسی دوسری قوم کی مشابہت اختیار کی وہ بالآخر انہی کی ہوگئی(حدیث) کی حدیث مشہور ہے، اس لئے رسول کی عزت کرو، لا یتخذوالمومنون الکفرین اولیا ءمن دون المومنین ۔ ترجمہ مومن لوگ، مومنون کو چھوڑ کر کسی کافر قوم کے لوگوں کے ساتھ اتحاد عمل نہیں کرتے، نہ اس کے سات دوستی کرتے ہیں۔ (قران) قرآن میں صاف لکھا ہے، اس لئے خدا کا خوف کرو، مگرسیداحمد خان نے اپنی دھن میں ایک نہ مانی، دور بین مولویوں اورعلمائے دین کی نہ مانی، لسان العصر اکبر کی نہ مانی، زبان خلق کی جسکو نقارئہ خدا کہتے ہیں نہ مانی، اورعلمائے وقت سے جن کے ذہنوں میں بے شک اس وقت وحی خدا اور جلوہ طور کی روشنی موجود تھی، بے پناہ لڑائی کی، اپنا سارا زور انکے خلاف تقریروں میں صر ف کر دیا، تمام شمالی ہندوستان میں ایک طرف سے دوسری طرف تک ”کالج“کا شور مچ گیا ۔ لوگ کالج کا ذکر کرنا نماز روزے اور ذکر خدا سے بہتر سمجھنے لگے ۔ کالج کے اہتمام میں سید کا والہانہ ہر طرف کچکول گدائی ہاتھ میں لئے پھرنا سونے پر سہاگے کا کام دے گیا۔ الغرض سلطنت کو پھر حاصل کرنے کا نصب العین آنکھون سے یک دم اچک لیا گیا، ان کو ابھی اپنی شکست کی ہوش بھی نہ آئی تھی کہ غلامی کا درس پڑھنے لگے، ادھر حالی نے مسدس کا گناہ عظیم لکھ کر یاس وقنوط کی لہر مردل میں دوڑادی! اقل قلیل مدت میں اسلام سے محبت، تقریروں اورجلسوں، شعروں اور گیتوں، ریزولیوشنوں اورمودبانہ گذارشوں، جہاد سے بے رخی، ہندو سے علیحٰدگی، کانگریس سے نفرت، ہر طرف،”امن اور توکل“الغرج ” عشق وپارسائی“کے درجے تک پہنچ گئی۔ ان حالات میں فرعون مصر سریر آئے سلطنت ہوا! سید احمد خان اور اس کے کئی یورپ زدہ ساتھی وزیر ومشیر بنے، اور کالج کے ذریعے سے ابنائے قوم کو”درست“کرنا شروع کای ۔ لسان العصر اکبر کہہ گیا ہے۔
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو”کالج “کی نہ سوجھی
کامیابی جنوں میں ہے، ہوشمندی میں نہیں!
کیا روسیاہی اور غیر نوازی کے ان کافرانہ اور خودکش اعمال کے بعد جو متواتر پچھلے پچاس برس سے ہورہے ہیں مسلمان کے پاس وقت باقی ہے کہ وہ آج دین اسلام کی طرف پھر رجوع ہو جانے کے سوا کسی اور طرف رخ کرے؟ کیا آج صحیح راہ یہ نہیں کہ قلندرون اور مجذوبوں کیطرح اپنی گزشتہ عظمت کے ماتم میں سر فروش بن کر نکلے، پہلے سینہ پیٹ کر اپنے آپ کولہو لہان کرے، پاگلوں کی طرح لوگوں کو کہتا پھر ے کہ آﺅ اکھٹے ہو جاﺅ، پرانے قصور جانےدو، اگلی تقصیریں معاف کرو، گلے مل جاﺅ، تمھاری آپس کی جدائی نے برے دن دکھائے ہیں! کہتا پھرے کہ وہ قوم جو ماں کے پیٹ سے بادشاہ بن کرنکلی تھی، جس کو خدا نے بادشاہت اور صرف بادشاہت کے لئے پیدا کیا تھا، جس کا ایمان بادشاہت تھا، جس کا اسلام غلبے اور سلطنت کا دوسرا نام تھا، جو اعلون ہونے کے بغیر مومن نہ رہ سکتی تھی، جس کا دین مشرکوں اور کافروں کو اس قدر تہس نہس کرنا تھا کہ روئے زمین پر ایک کافر باقی نہ رہے ( حتی یکون الّذین کلہ للہ ) جس نے چھتیس ہزار شہراور ، قلعے بارہ برس میں ، ہاں، تین ہزار شہر بارہ مہینوں میں ، ہاں نو شہر ایک ایک دن میں ، اپنی تلوار کے زور اور سنگینوں کی نوک سے فتح کئے تھے ، اس قوم کے آج وہ الٹے دن آئے ہیں کہ اس کو رات کے وقت سوکھی روٹی نصیب نہیں ، اس کے گھروں میں چیتھڑے اور بوریے تک نہیں، ان کی عورتیں آج (حاکم بدہن ) رات کو اپنے بچوں کو روٹی کھلانے کے لئے غیر کے گھروں میں با کراہ تمام جا کر عصمت فروشی کر رہی ہیں، ان کے مردوں کے چہروں پر طوق عاجزی کی لعنت برس رہی ہے، ان کے چہرے سیاہ اور مسخ ہو چکے ہیں، یوم ابیضّت وجوہ و اسوّدت وجوہ۔ ترجمہ۔ (ایک دن کسی قوم کے چہرے سیاہ ہونگے اور کسی کے سفید) کاسماں صاف بندھ چکا ہے، کونوقرادةًخاسیئن ۔ترجمہ۔ (ذلیل بندر بن جاﺅ کہ یہی تمہاری سزا ہے) کا منظر عین سامنے ہے! کیا آج قلندری کی راہ کے سوا کوئی اور راہ باقی ہے؟ کیا زوال اسلام کے زمانے کا شاعر حافظ تم سب سے زیادہ ہو شیار، تم سب سے زیادہ ایجوکیٹڈ، تم سب سے زیادہ ” بی اے، ایم اے “، تم سب سے زیادہ سخن شناس اور نکتہ دان، تم سب سے زیادہ”مہذب “تم سب سے زیادہ نبض شناس وقت نہ تھا جو دو جملوں کے اندرزوال کے بعد ترقی کا راز تمہارے سامنے کھول کر رکھ گیا ہے۔
دررہ منزل لیلے کہ خطر ہاست بہ جان
شرط اول قدم آنست کہ مجنوں باشی
انصاف کرو کیا آج تفسیریں پڑھنے کی عیاشیوں اور کتاب بینی کی بدمعاشیوں سے تمہار سو برس کا پیچ در پیچ عقدہ کھل سکتا ہے، کیا اس ناخن تدبیر سے تمہاری برسوں کی گتھی سلجھ سکتی ہے کیا ”جنون “کی بیماری کو اختیار کر لینے کے سوا کوئی تمہارا علاج بھی ہے؟ میں نے تذکرہ لکھنے کے بعد پورے دس برس انتظار کیا کہ کہیں سے کوئی آہ نکلے جو نیستی کے خرمن کو یکسر آگ لگا کر رکھ دے۔ پور ے دس برس واہ واہ ہی نکلتی رہی اور اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ قوم”تذکراتے تذکراتے “سو گئی! کئی برس کے انتظار اورسوچ کے بعد مجھ جیسے کند ذہن کو پتہ لگا کہ اگر بیمار کو لوریاں دیتے رہو گے تو نقاہت اور کمزوری کا اثر یہ ہو گا کہ وہ اور سوئیگا، اس میں اٹھنے کی طاقت لوریاں دے دے کر کہاں آئے گیا، وہ تبھی اٹھے گا جب اس کو اٹھنے کا ڈھنگ سکھاﺅ، نہیں اٹھا دو، پاﺅں پر اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر کھڑا کر دو، وہ بیٹھنے لگے پھر کھڑا کر دو، اس کو بیٹھنے نہ دو، اگر اٹھنے کی طاقت کے باوجود مکر کرتا ہے اور توفیق نہ ہونے کا عذر کرتا ہے تو حضرت عمر ؓ کا درہ مارکر اٹھاﺅ اور خود مجنوں بن جاﺅ، لوگ آپ کی اس مار کو سہہ لیں گے اور اٹھنا اور چلنا تور در کنار بھاگیں گے! میں اگر تفسیروں اور کتابوں کو قوم کا علاج سمجھتا تو اس میں مجھے فائدہ تھا، میرےپاس تذکرہ کی دوسری جلد کی فرمائشیں اتنی پڑی ہیں کہ اگر دوسری جلد نکالوں تو ایک سال کے اندر اندر پندرہ ہزار تذکرہ بک سکتا ہے اور ایک لاکھ چالیس ہزار روپیہ آسکتا ہے، میری باقی پانچ جلدوں کے صرف مسودے کا ایک شخص مجھے سوا لاکھ روپے(نوٹ : یہ لاکھوں کی باتیں ۱۹۳۵ ء میں ہورہی ہے) اصرار سے دیتا تھا اور کہتا تھا کہ آپ طبع ہوتے وقت صرف اس کی نگرانی کریں باقی سب میرا خرچ ہو گا۔ یہ سب دماغی عیاشیوں کے نتیجے ہیں اور میرے آئندہ پروگرام کے خلاف، میں اگلے دس برس کے اندر مسلمان کو عمل کی مستقل منزل پر پہنچانے کے در پے ہوں اور مرنے سے پہلے (خواہ وہ بستر مرگ پر ہی کیوں نہ ہو) مسلمانوں کے پھر غالب آجانے کی خوشخبری سننا چاہتا ہوں۔
تذکرہ کی باقی جلدیں، قرآن کی مکمل تفسیر میرے ہاتھ سے اس وقت نکلے گی جب اسلامی شوکت اور اُبہت کا پھریر ا دنیا میں پھر لہرا رہا ہو گا اور کیا عجب ہے کہ مسلمان اسوقت اسی پھریرے کو لہراتے دیکھ کر کہیں کہ قرآن کی مکمل تفسیر ہو چکی، اب اس کے لکھنے کی کیا ضرورت ہے!
میرے ہاتھ سے ایسی تفسیر کا لکھا جانا اس وقت میری انتہائی خوش قسمتی کا باعث ہو گا۔ کتابت کے فتنے کو مسلمانون میں پھر کھڑا کرنا یا ایک گری ہوئی قوم کو اور گر جانے کا لقمہ دینا عین خلاف مصلحت ہے۔ اس وقت اگر کوئی راہ سامنے ہے تو یہی قلندری راہ یہ ہے کہ:
”اے مسلمانو! اپنے محلوں میں جماعتیں پیدا کرو، ان کے سردار بنو، قوم کی سب اونچ نیچ برابر کر دو۔تذکرہ کی چوتھی جلد سے آئندہ میں اپنا باب ”فتنہ کتابت “کسی آئندہ پرچے میں پیش کرونگا۔
                                                                                   
حضرت علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ
مطبوعہ ” الاصلاح
یکم مارچ ۱۹۳۵ء مطابق ۲۴ذیقعد ۱۳۵۳ھ
(مقالات جلد اول صفحہ نمبر ۶۰ تا ۶۴)