Pages

Time

سورہ الفاتحہ کے الفاظ کا صحیح مفہوم از علامہ المشرقی ؒ


سورہ الفاتحہ کے الفاظ کا صحیح مفہوم از علامہ المشرقی ؒ
سورہ الفاتحہ قرآن حکیم کی پہلی سورت ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے چوتھے سال کے آخر میں یہ سورت نازل ہوئی اس کا مضمون قریباً ہر مسلمان جانتا ہے لیکن مفہوم یہ ہے کہ؛
(شروع الله کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے)، سب جہانوں کا پروردگار قابل صد ستائش ہے، (بڑا مہربان نہایت رحم والا)، وہ روز جزا و سزا کا مالک ہے، اے پروردگار  ! ( اگرچہ ہم آج اس سورت کو ہر نماز میں پڑھتے ہیں اور جاہل لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم تیری عبادت کر رہے ہیں لیکن اقرار کرتے ہیں کہ ) ہم تیری ہی ملازمت کریں گے،( اور چوبیس گھنٹے تیرا حکم ہی مانے گے) اور تجھی سے مدد مانگیں گے تو ہم کو اس سیدھی راہ پر لے جا، جس راہ پر چل کر تو اپنے بندوں کو ( بادشاہت کا ) انعام دیتا ہے ان لوگوں کی راہ پر نہ لے جا جن پر تیرا غضب نازل ہوا نہ گمراہوں کی راہ پر لے جا۔
بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ١ ٱلۡحَمۡدُ لِلَّهِ رَبِّ ٱلۡعَٰلَمِينَ ٢ ٱلرَّحۡمَٰنِ ٱلرَّحِيمِ ٣  مَٰلِكِ يَوۡمِ ٱلدِّينِ ٤ إِيَّاكَ نَعۡبُدُ وَإِيَّاكَ نَسۡتَعِينُ ٥ ٱهۡدِنَا ٱلصِّرَٰطَ ٱلۡمُسۡتَقِيمَ ٦ صِرَٰطَ ٱلَّذِينَ أَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ ٱلۡمَغۡضُوبِ عَلَيۡهِمۡ وَلَا ٱلضَّآلِّينَ ٧
(سورة الفاتحة,١-٧)
سورہ الفاتحہ کا مقصد مسلمانوں کے سامنے بادشاہت اور غلبے کا نصب العین پیش کرنا تھا۔
اس سورت سے مقصد مسلمانوں کے آگے بادشاہت، سلطنت اور غلبے کا نصب العین رکھنا تھا اور غالب یہ ہے کہ یہ سورت ۴ نبوی کے اخیر میں نازل ہوئی۔ اگرچہ عام مسلمان اس سورت کو ۴ نبوی کے شروع میں رکھتے ہیں۔ اس وقت تک مسلمانوں کو [ نماز ]پڑھنے کا کوئی باقاعدہ حکم نہ ہوا تھا۔ نہ [عبادت خدا] کا وہ تخیل جو آج کل مسلمانوں میں کئی صدیوں سے رائج ہے کہ وہ خدا کی [ پرستش] کرتے ہیں یا خدا کو پوجتے ہیں ان ایام میں تھا۔ اس وقت رسولِ خدا ﷺ کے چند ساتھی صرف خدا کے سامنے اس کے بھیجے حکموں کی پوری تعمیل کے علاوہ کھڑے ہو کر کچھ جھکا سا کرتے تھے اور کوئی [رکوع] اور [سجود] یا [قومہ] اور [قعدہ] مقرر نہ ہوئے تھے۔ موجودہ نماز کے متعلق عام طور پر مروی ہے کہ ۲۷ رجب ۱۰ نبوی کو یعنی سورہ  الفاتحہ کے نزول کے ۶ سال بعد جبکہ رسول ﷺ امِ حانی  کے گھر فروکش تھے حضرت جبرئیل آئے اُس وقت پانچ نمازیں پڑھنے کا حکم ہوا لیکن ظہر عصر اور عشاء کی چار چار رکعتیں ۱ ہجری میں یعنی دس سال بعد فرض کی گئی۔ اس بنا پر سورہ الفاتحہ میں إِيَّاكَ نَعۡبُدُ کے یہ معنی لے لینا کہ ہم تیری ہی [عبادت] کرتے ہیں تجھے ہی کو [پوجتے] ہیں یا تیری ہی [نماز] پڑھتے ہیں انتہائی طور پر لُغو اور مضحکہ انگیز ہے کیونکہ نمازی جب نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ [خدا] ہی کی [عبادت]  کرتا ہے اور کسی دوسرے بت کی نماز نہیں پڑھ سکتا۔ اس لئے ایسا اقرار نماز کے اندر فضول ہے۔ اصل یہ ہے کہ یہ سورت نماز کے فرض ہونے سے دس برس پہلے نازل ہوئی اُس وقت إِيَّاكَ نَعۡبُدُ کے معنی جو اس وقت کے مسلمان لیتے تھے صرف یہ تھے کہ اے خدا ! ہم تیرے ہی بندے بنے گے اور تیری ہی ملازمت یعنی نوکری اختیار کریں گے اور چوبیس گھنٹے ایک ملازم کی طرح تیرے ہی حکموں کی تعمیل کریں گے اس کے سوا کسی رسمی [عبادت] کا تخیل اُس وقت مسلمانوں میں ہرگز نہ تھا۔ یہ ہی خدا کا عملی طور پر [نوکر] بن جانا اور پھر ملازم ہو کر خدا کے بتائے ہوئے کام دن رات کرتے رہنا اُن دنوں میں [مسلمان] بن جانے کے مترادف تھا۔ ان دنوں میں  مسلمانوں کو سخت ترین اذیتیں کافروں کی طرف سے دی جا رہی تھیں۔ خدا نے مسلمانوں کو پہلے پہل بار بار یتیموں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کا سبق دیا تھا تاکہ آپس میں رحمدلی پیدا ہو پھر مال کے دینے میں بخل نہ کرنے کا سبق دیا تاکہ ان میں قربانی مال کا جذبہ پیدا ہو، پھر کافروں کو عذاب اور سزا سے بار بار ڈرایا، پھر  سورہ مزمل میں دیر تک خدا کے حضور کھڑا رہنے سے منع کیا اور پہلی بار اشارہ کیا کہ اصل مقصد مسلمانوں کو کافروں کے قتال کے لئے تیار کرنا ہے، پھر زنا سے بچنے، امانتوں میں بدنیتی نہ کرنا، سچی شہادت دینا، وعدوں اور اقراروں کو بہر قیمت پورا کرنا وغیرہ کا اخلاق سکھلایا تاکہ مسلمان بلند کردار کے مالک ہوں اور وہ آگے چل کر بادشاہت زمین کے اہل ہوں۔ پھر دو تین بار خوبصورت عورتوں کے ملنے کا ذکر کیا تاکہ میدان جنگ سے قیدی عورتوں کو پکڑ لانے کی تیاری پیدا ہوں۔ پھر کہا کہ ان عورتوں کو بیویاں بنانے کا حق ہے جن پر تمہارے دونوں ہاتھوں کے زور نے قبضہ کیا ہو [ ما ملکت ایمانکم] گویا میدان جنگ سے لائی گئی ہوں۔ پھر کہا کہ ہلاکت ان لوگوں پر جو کم تولتے ہیں اور گاہک کو دھوکہ دیتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔ الغرض مکمل اور طاقتور مسلمان بننے کی اس تدریجی تعلیم کے بعد سورہ الفاتحہ میں یہ سبق دیا کہ اسلام کا صراط مستقیم وہ رستہ ہے جس پر چل کر بادشاہت زمین ملتی ہے اور مسلمان کو کہا کہ خدا سے اس صراط مستقیم پر چلنے کی درخواست کر۔ دس برس بعد یہی سورہ الفاتحہ نماز میں داخل کر دی گئی، گویا مسلمان کو کہا گیا کہ خدا کے آگے دونوں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہو جا، اسی طرح کہ کوئی سوالی کسی غنی سے کچھ مانگتا ہے ہاتھ باندھ کر مانگ، پھر اس بادشاہت کے لینے کی تڑپ میں اپنے گھٹنوں پر جھک جا، پھر اللہ کے پاؤں پڑنے کے لئے زمین پر اسی طرح سجدہ کر جس طرح کہ ایک فقیر بھیک لینے کے لئے کبھی دولت مند کے آگے جھکتا ہے، کبھی گھٹنوں کے بل ہو جاتا ہے، پھر اس کے پاؤں پڑ جاتا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ الغرض سورہ الفاتحہ مسلمانوں کی بادشاہت زمین حاصل کرنے کا پہلا سبق تھا جو دیا گیا اور یہی قرآن کا بتایا ہوا صراط مستقیم تھا! [فتدبر]
تکملہ جلد اول (سیرت النبیﷺ)
(صفحہ نمبر ۱۶۱ تا ۱۶۴)
علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ