Pages

Time

اُمِّی کے لفظ کی قرآنی تشریح - علامہ المشرقیؒ


اُمِّی کے لفظ کی قرآنی تشریح
(علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ )

        جو لغو اور مضحکہ انگیز غلطی مسلمان مفسّروں نے اُمّی کے لفظ کی تشریح میں کی ہے کہ اُمییّن سے مراد ’’ان پڑھ عرب‘‘اور النّبی الْاُمّی سے مراد ’’ان پڑھ رسولؐ‘‘ہے شرمناک ہے اور مسلمانوں کی پستی فکر کی روشن دلیل ہے۔ قرآن میں حسب ذیل آیات اس کی صریح تردید میں ہیں:۔
(۱)      والذی بعث فی الامیین رسولؐا منھم یتلوا علیھم ایتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتٰب والحکمۃ وان کانوا من قبل لفی ضلل مبین: (۲۲/۱) اگر رسولؐ ’’ان پڑھ‘‘تھا تو وہ کس طرح خدا کی آیات پڑھتا (یتلُوا) تھا اور کس طرح ان کو الکتٰب کا علم دیتا (یعلُمھم) تھا۔ اس آیت سے تو ثابت ہے کہ رسولؐ بڑا پڑھا ہوا اور بڑا عالم تھا۔
(۲)     اُمّیّون کا لفظ قرآن میں اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) سے تمیز کرنے کے لئے آیا ہے یعنی وہ عرب لوگ ہیں جن پر اس سے پہلے کوئی کتاب نہ اُتری تھی۔ جیسا کہ وقل للذین اتوا الکتٰب والامیین ء اسلمتم فان اسلموا فقدھتدوا (۳/۱۰)یعنی اے محمدّؐ!  ن لوگوں سے جنہیں (اس سے پہلے) الکتٰب دی گئی تھی نیز اُن اُمّیّوں سے جنہیں کوئی کتاب اس سے پہلے الکتٰب دی گئی تھی نیز اُن اُمّیّوں سے (جنہیں کوئی کتاب اس سے پہلے بھیجی نہ گئی تھی) پوچھو کہ کیا تم (سولہ برس تک جو قرآن تم پر میری طرف سے آیا ہے (اس پر) ایمان لے آئے ہو۔ تو اگر یہ ہاں کہہ دیں تو بے شک ہدایت پا گئے۔ یہاں صاف طور پر اہل کتاب کے مقابلے میں اُمیّین کا لفظ آیا ہے اور مقصد دونوں گروہوں کو ہدایت کی طرف بُلانا ہے کیونکہ اہل کتاب بھی اُن کے پاس الکتٰب ہونے کے باوجود گمراہ ہو گئے تھے۔ سورۂ اٰل عمران کی یہ وحی بعثت کے سولہ برس کے بعد نازل ہوئی تھی۔
(۳)      سورۂ بقرہ میں اسی نقطہ نظر سے اہل کتاب کے متعلق کہا: و منھم اُمیّون لا یعلمون الکتٰب الا امانی وان ھم الا یظنون: (۲/۹) یعنی ان یہود و نصاریٰ میں سے (جن کو کتاب دی گئی تھی اور وہ اس کتاب کی تعلیم بھول گئے) ایسے لوگ بھی ہیں جو اُمیّوں (یعنی اہل عرب کی طرح جن پر کوئی کتاب اب تک نازل نہ ہوئی) کتاب کا علم نہیں رکھتے (اور اس میں کورے ہیں اور اگر جانتے بھی ہیں تو) سوائے (اس کے کہ ان کی کتاب ان کی) آرزوئوں (اور خواہشات نفسانی کو پورا کرتی ہے کچھ نہیں جانتے) اور وہ صرف گمانوں میں (بھٹک رہے) ہیں۔ گویا کہا کہ اہل کتاب اسی طرح کے اپنی کتاب سے بے علم ہو گئے ہیں جس طرح کہ عرب قرآن کے نازل ہونے سے پہلے تھے۔ اور اسی لئے اُن کی حیثیت اہل عرب سے بڑھ کر نہیں……ان سب آیات سے واضح ہو جاتا ہے کہ النّبی الاُمّی سے مراد کتاب سے بے بہرہ اہل عرب کا رسولؐ تھا، نہ کہ اَن پڑھ رسولؐ۔ مسلمانوں کو شرم آنی چاہیے کہ انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے صاحب علم رسولؐ پر یہ افتراءباندھا۔ کتابِ خدا کو قرآن حکیم میں جا بجا علم کہا گیا ہے اور اسی لئے اہل عرب کو اُمّی کہا کہ وہ رسولؐ کے آنے سے پہلے کتاب سے بے بہرہ تھے۔

(علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ )
(اقتباس تکملہ سیرت النبیﷺ)
(جلد دوئم صفحہ نمبر ۴۷۲ تا ۴۷۳)
سن ۱۹۶۰ء شام ۴ بجے