Pages

Time

تین کام...چوراہا ۔۔۔۔ حسن نثار


مورخہ ۱۶، اکتوبر ۲۰۱۳ء روزنامہ جنگ لاہور - (چوراہا)

عید کی چھٹیوں میں قصائی ڈھونڈنے، گوشت بانٹنے اور کھانے، قبرستان جانے، ٹی وی دیکھنے اور جی بھر کر سونے کے علاوہ میری خصوصی فرمائش پر مندرجہ ذیل تین کام ضرورکریں۔ پہلا یہ کہ 15اکتوبر بروز منگل شائع ہونے والا، صاحب فکر ڈاکٹر بابر اعوان کا کالم دوبارہ پڑھیں جس کا عنوان ہے........’’اگلا افغانستان‘‘،یاد رہے یہ ان تحریروں میں سے ہرگز نہیں ہے جن کے درمیان سے آدمی تیز ہوا کی طرح گزر جاتا ہے۔ اسے آہستہ آہستہ رک رک کر پڑھئیے جیسے سیانے ہر نوالہ اچھی طرح چبا چبا کر کھاتے ہیں۔ ڈاکٹر بابر اعوان کے اس کالم کو تب تک بار بار پڑھیئے جب تک اس کی سطور کے ساتھ ساتھ بین السطور بھی آپ کو ٹھیک سے سمجھ نہ آجائے اور جب آجائے تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگوں کے ساتھ شیئر بھی کیجئے تاکہ سندرہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔
عید کی چھٹیوں میں دوسرا کام یہ کہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی پوری کوشش کریں کہ موجودہ حکومت عوام سے کس بات کا انتقام لے رہی ہے اور مزید یہ کہ اس بھیانک انتقام کی آخری قسط کیسی ہوگی۔ یہاں ضمناً یہ بھی بتاتا چلوں کہ بچپن سے لے کر اب تک آپ جسے’’ڈراکیولا‘‘پڑھتے آئے ہیں وہ غلط تھا۔ مجھے بھی اس ادھیڑ عمری میں پہنچ کر علم ہوا کہ اصل لفظ’’ڈراکیولا‘‘نہیں بلکہ’’ڈار کیولا‘‘ہے اور یہ کوئی افسانوی نہیں حقیقی کردار ہے۔
اب رہ گیا تیسرا کام تووہ ہے علامہ عنایت اللہ مشرقی کی ایک تحریر کے چند اقتباسات پر غور کرنا جو علامہ صاحب نے1924ء میں لکھی تھی۔ یاد رہے کہ عالم اسلام نے گزشتہ چند صدیوں میں گنتی کے جو چند جنیئس پیدا کئے علامہ مشرقی ان میں سے ایک ہیں۔ تقریباً 86برس قبل اس عالی دماغ نے لکھا تھا۔’’مسلمانان عالم گزشتہ دو صدیوں سے ایک مسلسل انحطاط کے گرداب میں مبتلا ہیں۔اس تنزل کی سرعت اور ہبوط کی تیز رفتاری جس قدر خوفناک ہے اسی قدر وہ جمود اور احساس کا فقدان درد انگیز ہے جومسلمانوں کو مکمل طمانیت اور سکون دل کے ساتھ قطعی ہلاکت اور یقینی موت کی طرف لے جارہا ہے۔ملت کے ہر فرد میں وہ قوائے ظاہری و باطنی مفقود ہوچکے ہیں جو تمدن کی جان ہوتے ہیں۔ وہ جذبات آہنی جن کی زد بنیاد اقوام کو کپکپادیتی ہے،نرم پڑچکے ہیں۔ قوم کا ایک ایک متنفس انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے بیکار ہوگیا ہے۔ حسیات دینی کا اہم اور مفید تر حصہ زائل اور امتیازات دنیوی کی تحصیل میں مسلمانوں کا تعطل ضرب المثل ہوگیا ہے۔ قوت ارادی اور قدرت اقدام عمل، تنظیم جماعت اور تقسیم کار، قوائے عاملہ کا اتحاد، استقلال اور استمداد باہمی کا دستور العمل، انقباد کا جذبہ مشترک ا ور سیادت و قیادت کا ملکہ سلیم جن کے التزام کے بغیر اقوام تو کیا..........افراد بھی چھوٹے سے چھوٹا کام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچا سکتے، محض چند مہمل کلمات رہ گئے ہیں جو حقیقت سے بے بہرہ اور معانی سے ناآشنا ہیں۔ اس حالت میں تعجب نہیں اگر حصول مراد کو ہر کوشش میں مسلمانوں کو بالآخر ناکامی کا سامنا ہوتا ہو، ہر تدبیر جو وہ اپنی بہتری کی امید میں عمل میں لائیں، نامرادی سے بدل جاتی ہو۔ذہنی انتشار اور جماعتی تفریق و اشتات کا ہولناک عفریت ان کی قوت عمل کو بے اثر کردیتا ہو اور حرماں نصیبی ان کے کمزور اخلاق پر غلبہ پاکر ان کے جذبہ ایمان کو کچل دیتی ہو۔
میں ایک مدت سے اس دردناک نظارے کو باکراہ تمام دیکھ رہا ہوں۔ گزشتہ سو سال کے تاریخی شواہد اور سیاسی نامہ اعمال کی روح فرسا سرگزشت نے ثابت کردیا ہے کہ امت حاضرہ اب اخلاقی تنزل کے ان انتہائی مدارج تک پہنچ چکی ہے جہاں اس کا کوئی فعل، کوئی عمل روئے زمین کے کسی حصہ پر صلاحیت سے تکمیل کو نہیں پہنچتا‘‘۔
پھر لکھتے ہیں۔’’معلوم ہوتا ہے کہ بالآخر صدیوں کی مزمن بیماری نے مریض کے ہر عضو کو مضمحل اور ہر جوڑ کو درد آمود کردیا ہے۔ اعضاء کی پیہم شکست اور طاقت کے مسلسل ز وال نے خوفناک علامات پیدا کردی ہیں۔ دل، دماغ اور جگر سب کے سب مرض کی لپیٹ میں آچکے ہیں۔ سلامتی اور بقا کی چند آخری گھڑیاں ہلاکت و فنا کے مہیب دیو سے قطعی اور فیصلہ کن مجادلہ کرنے کو ہیں‘‘۔
فنا کی لازوال حقیقت کے سامنے کسی باطل اور فاسد ہستی کی کچھ وقعت نہیں، وہ مٹ کررہے گی اور تمام کوشش جو اس کو فروغ دینے کے لئے اخیر وقت میں کی جائیں گی، بیکار ثابت ہوں گی‘‘۔
’’مغرب آج دین فطرت کے چار یا پانچ اصولوں پر عمل کررہا ہے اور فطرت کے خزانہ عامرہ سے بے مثال امن حاصل کررہا ہے۔ مسلمانوں کا ایک پر بھی عمل نہیں اس لئے جلد مٹ رہے ہیں۔ آج ان کے کسی گروہ میں نہ توحید باقی ہے نہ اتحاد نہ قابل ذکر امید نہ ایمان بالآخرۃ ہے نہ مکارم اخلاق نہ خوف عذاب نہ طمع ثواب نہ شوق اصلاح ہے نہ ذوق ایمان‘‘قارئین! علامہ مشرقی کی اس تحریر کو اگر ڈاکٹر بابر اعوان کے کالم سے کراس کرکے اس کے نتیجہ پر غور کریں گے تو لوڈ شیڈنگ ختم ہو نہ ہو، آپ کا باطن ضرور روشن ہوجائے گا۔ باقی رہ گیا زندہ رہنا تو میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ زندہ تو ریڈانڈینز بھی ہیں اور غور فرمائیے اس تاریخی المیہ پر کہ ہم کن حالات سے دو چار ہیں اور ہماری لیڈر شپ کا لیول کیا ہے؟
:
(نوٹ:  ڈاکٹر بابر اعوان کےجسکالم کا ذکر حسن نثار صاحب نے کیا ہے اُس کالم کو پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں): 
:
http://e.jang.com.pk/pic.asp?npic=10-15-2013/Lahore/images/10_09.gif
: حسن نثار صاحب کے کالم کا عکس ؛


نوٹ :یہ ہی کالم روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ پر دیکھنے یا پڑھنے کے لئے نیچے لنک پر کلک کریں۔
: