Pages

Time

عالمی غلبہ کا نصب العین انسانی تاریخ میں اسلام نے پہلی بار پیدا کیا - علامہ المشرقیؒ

عالمی غلبہ کا نصب العین انسانی تاریخ میں اسلام نے پہلی بار پیدا کیا۔
تکملہ (سیرت النبی ﷺ)  از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

          عالمی غلبہ کا نصب العین جو قرآن نے لیظھرہ علی الدین کلۃ: (۹/۵،۶۱/۱)کے الفاظ میں پیش کیا تھا، اُس کی بنا اس فطری حقیقت پر تھی کہ تمام بنی نوع انسان اُسی طرح ٭ ایک اُمّت ہیں جس طرح پر کہ فطرت کی کوئی حیوانی نوعِ ایک اُمّت ہے جو اپنی نوع کے افراد کے مابین خلاف و جدال پیدا نہیں کرتی۔ قرآن کا پیغام یہ تھا کہ انسان نے جو اختلافات مذہب، رنگ، نسل وغیرہ کے بہانے سے آپس میں پیدا کر لیے ہیں وہ خدا کی مشیّت اور منشا کے خلاف ہیں۔ انسان کو پیدا ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ وہ اُمّتِ واحدہ بن کر رہے۔ صرف رحمت خدا ہی بکھرے ہوئے انسان کو متّحد
 کر سکتی ہے اور اگر یہ نہ ہوا تو خدا کا یہ قول پورا ہو کر رہے گا کہ میں تمام جِنّ واِنس سے جہنم کو بھر دوں گا۔ قرآن کا یہ پیغام حسب ذیل الفاظ میں تھا۔
:
ولوشاء ربک لجعل الناس امۃ واحدۃ ولا یزالون مختلفینoالا من رحم ربکط ولذلک خلقھمط وتمت کلمۃ ربک لا مئن جھنم من الجنۃ والناس اجمعینo(۱۱/۱۰)

ترجمہ :اور اگر خدا اپنی مرضی کے مطابق کرتا تو ضرور بنی نوع انسان کو ایک اُمّت بنا دیتا لیکن انسان (اپنی مرضی کے مالک ہو کر) اختلاف کرتے ہی رہتے ہیں اِلّا وہ لوگ جن پر خدا کی رحمت ہو اور خدا نے تو انسان کو اُمّت واحدہ بننے کے لیے ہی پیدا کیا تھا۔ (لیکن اگر یہ نہ ہوا تو) تیرے خدا کا قول پورا ہو کر رہے گا کہ میں ضرور جہنّم کو تمام جِنّ واِنس سے بھر کر رہوں گا۔
:
          اس حقیقت کی بنا پر قرآن کا دعویٰ تھا کہ رسولؐ کو ہدایت اور سچا دین دے کر صرف اس واحد غرض کے لیے بھیجا گیا کہ وہ رسولؐ روئے زمین کے تمام دینوں، مختلف راستوں، علیحدہ علیحدہ مذہبوں، اور مسلکوں کو جو مختلف انبیا کو علیحدہ علیحدہ گروہوں کے رہنما ماننے کی وجہ سے یا رنگ و نسل وغیرہ کے اختلاف کے باعث پیدا ہو گئے ہیں، یکسر مٹا کر بنی نوع انسان کو ایک اُمّت واحدہ بنا دے ٭خواہ یہ بات خدا کے قانون کے منکروں کو ناگوار ہی کیوں نہ ہو۔
          الغرض یہ وہ عظیم الشّان اور چونکا دینے والا نصب العین تھا جس کو حاصل کرنے کا دعویٰ انسان کی پیدائش کے ہزاروں سال بعد رسول صلعم نے بنی نوع انسان کی تاریخ میں پہلی بار کیا اور اس کو حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر کے تئیس برس صرف کر دئے۔ مٹھی بھر مسلمانوں کی جمعیّت جس کے ساتھ رسول صلعم نے بعثت کے چودہویں سال مدینہ کی طرف ہجرت کی اس نصب العین کی علم بردار تھی اور بظاہر یہ امر از بس مضحکہ خیز معلوم ہوتا تھا کہ کیونکر یہ کم و بیش ایک سو انسانوں کی جماعت اس عظیم مقصد کو حاصل کر کے دُنیا میں سرخرو ہو سکے گی لیکن یہ اُس کمالِ ایمان و یقین کا کرشمہ ہے کہ رسولؐ نے اپنی زندگی میں ہی اور صرف دس برس کے اندر اندر عالمی غلبہ کے امکانات انہی چند صد یا چند ہزار افراد کی قوت ایمانی سے اس قدر روشن کر دیئے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

تکملہ (سیرت النبی ﷺ) جلد اول صفحہ نمبر ۴۵ تا ۴۶
از علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ