Pages

Time

زکوٰۃ کی تعریف - علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒ

زکوٰۃ کا حُکْم جو دین اسلام نے ہر صاحب نصاب پر فرض کیا ہے اوراس سے غفلت کرنے والے مسلمان کو مشرک کے خوفناک لفظ سے یاد کر کے اس کو بخشش کا قطعی طور پر نا اہل قرار دیا ہے، دنیا کے ان انتہائی طور پر نتیجہ خیز احکام میں سے ہے جن کی مثال قطعی طور پر کسی مذہب، کسی دین یا کسی حکومت کے احکام میں موجود نہیں۔
قرآن حکیم میں ہے:
وویل للمشرکینoلا الذین لا یؤتون الزکوٰۃ وھم بالاٰخرۃ ھم کافرونo:  ۴۱/۱۔
(ترجمہ:۔ اور مشرکین پر حیف ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جو زکوٰۃ نہیں دیتے اور وہی ہیں جو آخرت کے بھی منکر ہیں)۔
 زکوٰۃ کے قطعی طور پر بے مثال حُکْم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دنیا کی تمام متنوّر اور متمدّن حکومتیں اپنی حکومتوں کو چلانے کے لئے صدہا قسم کے ٹیکس لگاتی ہیں اور ہر ٹیکس کے متعلق کوئی نہ کوئی توجیہ ضرور دی جاتی ہے کہ فلاں ٹیکس کے لگانے کی یہ ضرورت ہے، لیکن ہر حکومت کا ٹیکس جس شے پر ایک دفعہ لگ جائے تو وہ شے اگلے سال اُس ٹیکس سے آزاد لازماً ہو جاتی ہے۔ مثلاً ایک شخص نے دس ہزار روپیہ اس سال کمایا، اس پر حکومت ٹیکس لگائے گی لیکن اگلے سال موجودہ سال کی کمائی پر کوئی ٹیکس پھر نہ ہو گا بلکہ اگلے سال کی کمائی پر ہو گا۔ گویا ہر حکومت کا ٹیکس کسی شخص کے خالص ’’نفع‘‘پر ہے جو اس کو کسی ایک سال میں حاصل ہوا۔ اگر وہ اس نفع کو ہر سال اپنی جیب میں ڈالتا جائے تو ٹیکس صرف ایک دفعہ لگے گا۔ اور وہ ہمیشہ کے لئے اس نفع پر ٹیکس دینے سے آزاد ہو گیا گویا اگر وہ پچاس سال تک نفع کماتا رہے تو اس مدّت میں وہ خاصہ سرمایہ دار بن سکتا ہے۔ صرف اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جس نے تمام دنیا کی حکومتوں سے انوکھا حُکْم دیا ہے وہ یہ کہ اگر اس نفع میں سے جو اس نے اس سال کمایا، اس شخص نے کچھ خرچ نہیں کیا اور اگلے سال بھی اس شخص کے پاس اِس سال کا کمایا ہوا نفع موجود ہے تو اگلے سال پچھلے سال کے کمائے ہوئے نفع کی بچت پر پھر ٹیکس لگے گا یعنی پھر دوسرے سال بھی اس کو پچھلے سال کے نفع کی زکوٰۃ دینی پڑے گی۔ گویا زکوٰۃ آمدنی پر نہیں بلکہ بچت پر ہے اور جب تک کسی شخص کے پاس کوئی بچت ہے وہ ڈھائی فیصدی سالانہ حکومت کو بطور زکوٰۃدیتا جائے گا۔ اس حساب سے اگر کسی شخص کے پاس اپنی تمام ضروریات پوری کرنے کے بعد ایک سو روپیہ باقی ہے تو وہ نہ صرف اس سال ڈھائی روپیہ حکومت کو بلکہ ہر سال ڈھائی ڈھائی روپیہ حکومت کو دیتا جائے گا۔ یہاں تک کہ چالیس سال میں اس کے پاس ایک پائی بچت نہ رہے گی اور وہ تمام عمر کبھی سرمایہ دار نہ بن سکے گا۔
اوپر کی تشریح سے بالکل واضح ہے کہ دین اسلام نے زکوٰۃ کے ذریعے سے سرمایہ داری کی جڑ کاٹ کر رکھ دی ہے اور زکوٰۃ کے احکام کی مکمّل تعمیل کر کے کوئی شخص کسی ملک میں سرمایہ دار نہیں بن سکتا۔ قرآن حکیم میں ہے:
ان اللہ اشتریٰ من المومنین انفسھم واموالھم بان لھم الجنۃط یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون ویقتلون قف : ۹/۱۴۔
ترجمہ:۔ اللہ نے مومنوں سے آخرت کے بدلے ان کی پوری جان اور پورا مال خرید لیا ہے وہ اللہ کی راہ میں قتال کرتے ہیں۔ پھر قتل کرتے ہیں اور قتل ہوتے ہیں۔
گویا اسلام کی بنا ہی بدن کے نقصان اور مال کے نقصان پر ہے۔
زکوٰۃ کے باربار ہر سال بچت پر لگنے سے ظاہر ہے کہ اسلام کے مدّعی کے پاس عمر کے اسّی (۸۰) یا نوے (۹۰) سال گذارنے پر کفن کے لئے کپڑا بھی نہیں رہ سکتا۔ کیونکہ ہر سو روپیہ جو اس نے کسی ایک سال میں بچایا ہے چالیس برس کے اندر اندر اسلامی حکومت کے خزانے میں پورے کا پورا چلا جائے گا اور عمر بڑھنے پر اس کی سالانہ بچت بھی کم ہوتی جائے گی حتیٰ کہ بچپن یا ساٹھ برس کے بعد سے ہی وہ اپنا گذارہ صرف اپنی پچھلی بچت سے کر سکے گا۔ مصنّف نے ۱۹۵۰؁ء میں ایک مستقل مضمون اس موضوع پر حسابی نقطہ نظر سے نہایت محنت سے لکھا تھا جو پاکستان کی ’’اسلامی حکومت‘‘نے مصنف کے گھر کی تلاشی کے وقت ضِدّ سے ضائع کر دیا۔ الغرض ظاہر ہے کہ کمیونزم کا فریب اس اسلامی نظام کا کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ قران حکیم میں سونے چاندی جمع کر کے رکھنے والوں کیلئے ’’دردناک عذاب‘‘کے الفاظ لکھے ہیں: والذین یکنزون الذھب والفضۃ ولا ینفقونہا فی سبیل اللہ فبشرھم بعذاب الیمoلا: (۹/۵(
علامہ المشرقیؒ کے شعری مجموعہ ’’دہ الباب ‘‘سے اقتباس صفحہ نمبر ۲۱۳ تا ۲۱۵