اشعار علامہ المشرقی
٭ میری حکمت رہے گی چل کے، ہر گوشے میں دنیا کے
مگر رُک رُک کے سمجھے گا بشر، آخر پناہ یے ہے۔
٭ اب تو خود مہدی، خود منصور، خود چنگیز ہے
پھونک دے ، تیر ا عمل ہی انقلاب انگیز ہے۔
٭سمجھ لو وقت پر ، ورنہ ہے پچھتانے سے کیا حاصل
کہو گے ، گیا تھا مشرقی بھی، کس تعمّد سے
زوالِ قوم جس سرعت سے ہوگا ، آپ دیکھوگے
بچایا تم نے ملت کونہ ، گر اُس موت کی زَد سے۔
٭یے جہاں اَلَم’ سَرا ہے، اسے یَک قلم بدل دو
یے کراھیں ختم کردو، یہ خزانِ غَم بدل دو۔
شب و روز یُو ں رہیں گے جو، وَبالِ جان یے دُکھڑے
تو کچھ اور دُکھ اُٹھاکر، یے رَہِ غم بدل دو۔
٭ہو کیا علاج ہی اُس قوم کا، جو یے چاہے
کہ خود کشی میں ہم اپنی مثال ہو جائیں۔
٭ابھی تو خامشی ہے، وسوسے ہیں، مُسکراھٹ ہے
بھڑک اُٹھے گی دنیا، بات جب میری سمجھ آئی۔
٭روٹی تو شئے نہیں کُچھ، یے غریب کو ہے دہوکہ
ہو غریب کی حکومت ، اِس کی ہَوا چلا دو
سرمایہ دار کا تو سیدھا ، علاج اِک ہے
حلقے غریب کے سب ، اس سے الگ ہٹادو۔
٭نہ مجھے ہے فکرِ شُہرت، نہ غمِ وسیلہ جُوئی
میں سچائیاں سجاکر سرِ راہ ، تک رہا ہوں۔
٭یے زمیں کی بہتری ہے، تن من ہر اِک لگادو
دنیا کے بیکسوں کو، تد بیرِ حق سُنادو۔
٭ قُرآں زمیں کا یہ ہے، جُھک جاﺅ اس کے آگے
باطل جہاں کہیں ہے، سَب قہِر سے مِٹادو۔
٭رُخصت کر و یے سب علم، اُٹھو نئے سِرے سے
فِطرت کا حل نکالو، فِطرت کی چیستاں سے ۔
٭ بتایا تھا، ہُوا سِراب نہ گر کشمیر، ناممکن
کہ اس کے بعد ہو جائے قلمدان کی سیاست سے
بتایا تھا، جو ہِندُو کا رہا کشمیر پر قبضہ
گدائے بے نوا ہو جائیں گے، پانی کی قلت سے۔
٭ نِری جو باتیں ہوں ، مِلت کی بہتری کیا ہے
کِراہے غم سے جو قوم، اُس کی سَروری کیا ہے۔
٭پُنہنچی نہیں، پُنہنچادے کوئی خبر، کہ اللہ !
چیخوں میں ہیں کٹتے، تیرے بَندوں کے شبُ روز۔
٭ مشرقی کو کیا دیا ، اِس قوم نے اِنعامِ عشق
اس سے بہتر تو رہے، غدار ہی اور بے ہُنر۔
٭ سُنو! ملت کی لِم ، مل بیٹھنا ہے
بِکھر جاﺅگے تو، پوری اَبتری ہے۔
٭نہ قوم اُس کی، نہ رنگ و نسل ۔ خدا کی انجمن کوئی نہیں ہے ۔
مسلمان کا خُدا ، جب ہر جگہ ہے۔ تو مُسلم کا وطن کو ئی نہیں ہے۔
٭ خاکسارِ اعظم تیرا غم، غمِ اعظم رہا
ایک عالم میں بَپا، ہنگامہءماتم رہا۔
٭ خاکساروں کو، پیامِ جُراَت و ہمت ہے یہ
بے نواﺅں کو، نویدِ عظمت و شوکت ہے یے۔
٭ تُو نہیں لیکن تیرا پیغام، ہر محفل میں ہے
تو ہماری روح میں ہے، تو ہمارے دل میں ہے۔
٭ تُجھ پے اے لاکھوں رحمتیں نازل ہوں ، اے مردِ خُدا
اے شہیدِ قوم، تُو جب تک جِیا، غازی رہا۔
٭ اب نِیستاں سے یہ ہی، اِک نَوا باقی ہے
نہ سُنی یہ بھی، تو پھر، تیری سزا باقی ہے۔
٭ ہر فرد پہ ہے ، فرض جہاد۔ جو کرے عُذرمُنافق ہے بڑا ناری ہے۔
٭ یہ کارگاہِ جہاں ہے، مسلسل ایک جِہاد۔ نہیں رہا ہے کسی زندہ شئے کو اس سے مَفر
جو قوم اس سے ہَٹی ہے، مٹادیا ہے اُسے۔ سمجھ کے صُفحہءہستی سے ناقص و اَبتر۔
٭ذرا گُنبذِ شاہی مسجد سے پُو چھو۔ گواہی دیں گے مینار اُونچے اُونچے۔
لَہُو سے شہیدوں کے سینچا ہے جن کو۔ بنیں گے شہر سایہ دار اُونچے اُونچے۔
شہنشاہی مسجد کے مینار روئے۔ گَلے مل کے ٹبی کے بازار روئے۔
گریں بِجلیاں گُلشنِ مُصطفیٰ پر۔ تو داتا کی نگری کے اَشجار روئے۔
٭ جُبہ و دستارپہنے سوچتے رہ گئے۔ مُفتیانِ دین مُصلحت کُشیوں کے تاجدار
وقت آیا دین پر تو کَٹ مَرے میدان میں۔ کرگئے خاموش توپوں کے دِھانے خاکسار
٭ مئے ناب حِجازی اب کیا ہے۔ جھلک کیا دے جو مینا مغربی ہے۔
میں جُھک جاتا ہوں ہر سچ کے مُقابل۔ کے یہ معراج قُربِ َسرمدی ہے۔
٭ جس قوم کے اے مشرقی اپنے ہوں پرائے
اس قوم کی ہے موت سے آخر کو ملاقات
مشرقی کو کیا دیا ، اِس قوم نے اِنعامِ عشق
اس سے بہتر تو رہے، غدار ہی اور بے ہُنر۔
٭ اٹھو! کہ قہر رب میں ابھی ہو سکے ہے وقفہ
سب عالموں کو یکجا کرو، و ہ جو چار سو ہیں
ہو غریب کی حکومت ، فرماں روا ہوں عالم
اور سب طرف سدا دو کہ زمین کی آبرو ہیں!
٭ توحید سے دل ہوتے ہیں بندوں کے نیک
تفریق کے دَر پر تو کبھی سر کو نہ ٹیک
جو فرقے ہیں قوم کے گو یا بُت ہیں
رَب ایک تو ہو کام بھی اِک قوم بھی ایک
رہنمائی
شہرت بذاتِ خود پائیدار نہیں ہوسکتی جب تک نتائج پائیدار نہ ہوں ۔ سردار بننے میںاور رہنمائی کرنے میں اگر کچھ رغبت ہے تو اس لئے کہ قوم طاقتور بن جائے۔ اس کی قوتیں ایک مرکز پر ہوں اس میں مقابلہ اور لڑائی کی طاقت پیدا ہو، طاقت سے آزادی اور آزادی سے بادشاہت حاصل ہو۔
خاکسار
خاکسارتحریک کا پہلا اور آخری مقصد تیرہ سو برس کے بعد خدا اور اسلام کے سپاہی بنانا ہے۔ بڑے اور چھوٹے مسلمانوں کو ایک قطار میں لاکر سپاہی بنانا ہے اور ہر ایک کے ہاتھ میں خدمت، عاجزی، مساوات، مزدوری اور محنت کا ہتھیار دے کر خاکسار سپاہی بنانا ہے۔
عبادت کا نتیجہ
اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لازمی اور منتقی نتیجہ بادشاہت زمین ہے بلکہ جو قوم بھی زمین کی وارث ہے یا وارث بننے کی کوشش کررہی ہے وہ اِن الا رض پر تھا۔ عبادی الصالحون کے خدائی قول کے مطابق صحیح معنوں عابد اور ملازم ہے۔ (نسیان)
مسلمان تیرہ سو برس کی غیرت اسلامی اور عزت و نفس کو بھول گیا ہے ، کبھی مسلمانوں نے 36 ہزار شہر اور قلعے بارہ برس میں تین ہزار شہر بارہ مہینوں میں اور نو نو شہر ایک دن میں فتح کئے تھے۔
تمہاری جانبازی کی شان یے ہے کہ 19مارچ کی جانبازی کے اُس مظاہرے سے جان دینے کے کیف کو سمجھو، جان پر کھیل جانے کی لِم کو سجھو۔ سمجھو کہ جانیں کس طرح اور کیوں دی جاتی ہیں ، سوچو کہ زندہ قوموں کے کروڑ در کروڑ افراد میدانِ جنگ میں گاجر مولی کی طرح کیو ں کٹ جاتے ہیں۔
ہاں مسلمانو! تمھاری دو صدیو ں کی زوال پذیر قوم میں خاکسار تحریک نے پہلی بار یے احساس پید کیا ہے کہ اللہ کی راہ میں جان و مال کی قربانی کس قدر ضروری ہے۔ پہلی دفعہ قرآنِ حکیم کے اس حکم پر نگاہیں لگی ہیں کہ اللہ نے مومنوں سے ان کی پوری جان اور پورا مال جنت کے بدلے میں خرید لیا ہے۔