Pages

Time

علامہ المشرقیؒ کاعید الضحٰی کے موقع پرمسلمانانِ عالم کے لئے ایک فکر انگیز انتباہ۔


علامہ عنایت اللہ خان المشرقیؒکا 
عید الضحٰی کے موقع پرمسلمانانِ عالم کے لئے ایک فکر انگیز انتباہ۔

         مسلمانوں! اپنے دشمن کے بلمقابل جہاں تک تمہاری طاقت کی حد ہے قوت کے سامان تیار رکھو، گھوڑوں کی چھاؤنیوں کی اہمیت کو مسلمان دل نشین کرنے کے لئے خدائے عزوجل نے قرآن حکیم میں گھوڑوں اور اُن کے قدموں ٹاپوں کی قسمیں کھائیں ہیں، داغے ہوئے گھوڑوں کا شدومد سے ذکر کیا ہے، ہزارہا مسلمان ہر علاقے میں آج اس گئے گزرے زمانے میں بھی ہر سال قربانی کے دُنبوں اور بکروں کی پرورش اس محبت سے کرتے ہیں کہ بعض اوقات علقل اس    غُلُوؐفی الدین پر دنگ رہ جاتی ہے ۔ان دنبوں کو روز نہلاتے ہیں، ان کی مالشیں کرتے ہیں، ان کو زیور پہناتے ہیں، ان کے اوڑھنے اور دوشالے تیار کرنے ہیں، ان پر رنگ دار بیل بوٹے بناتے ہیں۔ قرآن حکیم میں ان دُنبوں کو اس طرح موٹا کرنے اور سجانے کا کہیں ذکر نہیں۔ نہ خدا کو ضرورت تھی کہ قربانی کے بکرے کے لئے جو چند منٹ میں جان دیکر بیکار ہوجاتا ہے اس قدر اہتمام کرنے کی ضرورت سمجھتا۔ اُسنے بلکہ صاف الفاظ قرآن حکیم میں کہدیا تھاکہ مجھے تمہارے بکروں کے خون اور گوشت نہیں پہنچتے۔ اگر کچھ پہنچتا ہے تو تمہار تقویٰ اور قانونِ خدا کا خوف پہنچتا ہے۔ لیکن ہمارے نفس پرست مذہبی اجاراداروں کو چربی دار گوشت اور تر گوشت کی ضرورت ہر وقت تھی۔ وہ اپنے آپ کو اور اپنی ذریت کو پشتوں تک تر نوالے دینا چاہتا تھا۔ اس نے سمجھا کہ جب تک قربانی کو دُنبون کو قیامت کے دن پلصراط کے گھوڑے بناکر جنت کے سبزباغ نہ دکھائے جائیں گے، اُمت کے دُنبے کبھی موٹے نہ ہوسکیں گے۔ الغرض پلصراط کی روایت پیدا کردی گئی۔ فوجی گھوڑے اور چاؤنیاں اُس کے کسی کام کی نہ تھی، وہ اگر قرآن میں إذکورہ بالاآیت کو ظاہر کرتا تو اپنے لئےہمیشہ کی مصبیت مول لیتا۔ اُسے ہمیشہ کے لئے سپاہی بنناپڑتا۔ اُس نے قرآن کے حکم کو اپنے نفس کے آرام کے لئے زہر حلال سے بدتر سمجھ کر پاؤں سے ٹھکرادیا اور خدائے عظیم کے عظیم الشان حکم کو پرکا کے برابر وقعت نہ دی۔ صد افسوس کہ اب چودہ سو سال کے بعد بھی اُمت کے دُنبے اور بکرے خوب موٹے ہیں اور اُمت کے گھوڑے بھوکے رہ رہ کر ہلاک ہوچکے۔
مطبوعہِ الاصلاح ۴ ستمبر۱۹۳۶