Pages

Time

Allama Mashriqi's 1st Speech on Moulvi ka Ghalat Mazhub (25th Sept.1936)

مسلمانو! لاہور کا یہ عظیم الشان کیمپ جو خاکسار تحریک کے ایک عمر رسیدہ اور کمزور مگر بے حد مخلص اور فعال سردار سالار مندوب حکیم میراں بخش کے سعی و عمل کا ایک شاندار مظاہرہ ہے۔ اپنی نوعیت میں تحریک کی تاریخ میں ایک بے مثال کیمپ ہے۔ اس نیک منش سردار نے اخلاص اور استقلال کے کوہ پاش ہتھیاروں سے خس و خاشاک اور راکھ کے ایک بڑے ڈھیرمیں سے یہ عمارت کھڑی کی ہے، بےحسی اور جمود، رنج و حسد، نامردی اور نامرادی، شیطانیت اور بدکاری، فسق وفجور کے ایک ناپیدا کنار ماحول میں سے سعی و عمل، بیداری اور زندگی،ہوش وعقل کا وہ ہوشربا سماں باندھا ہے کہ آنکھ اس کو دیکھ کر مست ہے۔
مسلمانو !تم لاہور کو  پنجاب کا ایک طرح سے  ہندوستان کا مرکز سمجھ کر خوش ہو، خوش ہو کہ مغربی کلچر اور مشرقی ادب یعنی  تہذیب  اور تمدن کی اکثر شعاعیں یہیں سے پھیل رہی ہیں، خوش ہو کہ جو نئی شے اٹھتی ہے لاہور اور لاہور کے پنجاب سے اٹھتی ہے، مطمئن ہو کہ خاکسار تحریک کا مرکز بھی یہی بڑا شہر ہے، تحریک کے خوشنما پودے کو پانی یہیں سے دیا جا رہا ہے۔ جس خاکسار سپاہی کو دیکھو اس کی نظر لاہور کی طرف ہے، مگر کیا تم نے اس مصنوعی مستی اور خوشی میں کبھی اس بات کی طرف نظر کی ہے کہ یہ شہرتمہارے پنجاب کی صدہا سالوں کی اسلامی اور قومی، اجتماعی اور عصبی روایات کا مقبرہ بن چکا ہے، تمام ذ ہنی اور اخلاقی موتیں سب کی سب اسی مرکز سے نکل رہی ہیں۔  ہمت اور عمل کی سب پستیاں اسی نقطہ پر آکر ختم ہوتی ہیں، سب ظلمتوں اور اندھیروں کا سرچشمہ یہی سیاہ نقطہ ہے، کیا یہ درست نہیں کہ مسلمان کی پچھلی ڈیڑھ سوبرس کی دین اور مذہبی موت کا سامان اسی دارالخلافہ سے پیدا ہوا؟ یہ حقیقت نہیں کہ دشمن طاقتوں کی تمامتر نگاہیں اسی شہر کے باشندوں کی قوتوں کو بکھیرنے میں مصروف ہیں؟ فرقہ بندی، ذاتیات،  کینہ، حسد، کمینہ پن، بددیانتی، جھوٹ، ریا، خوشامد، قوم فروشی، اسلام کشی الغرض سرزمین ہند میں مکارم اخلاق کا بڑا لحدستان لاہور ہے۔ حکومت کی حکمت عملی نے یہاں قومی غیرت اور وجد ان کے حس کو اس قدر بیخ و بنیاد سے فنا کر دیا ہے کہ اب اسے پنجاب بلکہ  ہندوستان  پر حکومت کرنے کی فکر باقی نہیں رہی۔ مجھے خاکسار تحریک کا مرکز لاہور اس لئے بنانا  پڑا کہ بدگمان اور ہوشمند حکومت کی نگاہیں اورشہروں کے علاقوں سے کم لاہور پر ہیں، حکومت مطمئن ہے کہ لاہور کا دم غنیمت ہے، جب تک لاہور سلامت ہے ہندوستان میں کچھ ہونا محال ہے۔ ۱۹۲۸ء میں کانگریس نے بدشگونی سے  آزادی  کا  علم  لاہور  میں لہرایا  اور یہی  لاہور  کی بے حسی کانگریس  اور  کانگریس  کے  رہنما کی  موت  کا  باعث ہوئی!

خاکسارتحریک کامرکزقرآن اوراسلام ہے!

لیکن خاکسار تحریک کا اندازِعمل اور ہے۔ خاکسار تحریک ہندوستان کے طول وعرض میں اس لئے پھیلی کہ لاہور اس کا مرکز ہے۔ وہ  اس لیے پھیل رہی ہے کہ خاکسار تحریک کوفی الحقیقت کسی جغرافیائی مرکز کی ضرورت نہیں۔ تحریک کا مرکز خدا اور قرآن ہے،اس لئے خدا پر نظر رکھنے کے لئے کسی لاہور کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں۔ میں یہاں پرعمداً  اس لئے بیٹھا ہوں کہ ہر حقیقت کو فتح مند کرنے کے لئے مکے کے کفر کی ضرورت  ہے اور  مکہ والا کفر  لاہور میں ضرورت سے زیادہ ہے! یہاں ہر شخص  مادر پدر  آزاد ہے کسی  کے  ناک میں  ادنیٰ  سی نکیل نہیں، سب شتر بے مہار کی طرح منہ اٹھائے جدھر چاہتے ہیں چلے جاتے ہیں اور ہر شخص خوبی  اس  میں  دیکھتا ہے کہ وہ کسی نوع  کا  سردار  بنے  خود  پابند  نہ ہو اور باقی سب اس کے تابع فرمان  ہوں۔ لیڈری، صحافت، ادب، شاعری، بدکاری، نااتفاقی، نفاق، مالِ قوم کا کھانا، حرام  خوری  الغرض  تمام زمانہ  جاہلیت  کی برائیوں  کا  سردار  یہ شہر ہے  اور یہیں سے یہ برائیاں بہ حصہ رسدی اور شہروں میں تقسیم ہوتی ہیں۔  خاکسار تحریک کی خوبی اس میں ہے کہ اسی کفر گڑھ سے رشد و ہدایت  کی  آواز  اٹھے اور سب  ہندوستان  پر چھا  جائے۔
ایسے برے  ماحول میں جیسا کہ یہ شہر ہے  لازم ہے کہ تحریک کے سردار بھی برے پیدا ہوئے ہوں۔ اس خصوصیت کا تلخ تجربہ پچھلے چار سال میں ہوا ہے۔ایک دیانتدار، تجربہ کار، معاملہ فہم، اسلام دوست،  مذہب شناس، باعلم سردار اب تک پیدا نہیں ہوا  جو  لاہور کو خوبی سے سنبھال سکے۔ حکیم میراں بخش سالار  مندوب  لاہور نے پچھلے چار  سال  میں پہلی دفعہ تحریک کو ساٹھ برس کی عمر میں اپنے ناتواں مگر مستقل مزاج  اور  بردباد  کندھوں  پر  اٹھا کر  ثابت  کر دیا  ہے  کہ اس  کفرستان  ہند  میں حضرت ابوبکر اور حضرت عثمان کی خصلتوں کے انسان موجود ہیں۔

علم میرے نزدیک کتابوں کے پڑھنے اور امتحانوں میں شامل ہونے سے پیدا نہیں ہوتا!

چار سال سے یہ مخلص حکیم اسی دھن میں لگا ہے، اپنی کمزور مگر پردرد آواز برابر اٹھا رہا ہے، کوئی سنے یا نہ سنے یہ کہہ رہا ہے، اس آواز کا اثر اب ظاہر ہوا ہے، حکیم کی آواز سب پہلے نوجوان صورت سرداروں کی آوازسے زیادہ موثر ثابت ہو رہی ہے۔ علم میرے نزدیک کتابوں کے پڑھنے اور امتحانوں میں شامل ہونے سے پیدا نہیں ہوتا، علم وہ یقین وایمان کا مرتبہ ہے جو آنکھوں کے براہ راست دیکھنے، کانوں کے براہ راست سننے اور قلب سلیم کی بلا واسطہ فہم وفراست سے پیدا ہوا ہو،گوش وا اور دیدئہ بینا والا شخص ہی صحیح معنوں میں عالم ہے، باقی از روئے قرآن اپنی پیٹھ پر کتابیں لادنے والے گدھے ہیں۔ علم کی یہ قرآنی تعریف آج خاکسار تحریک کےعملی میدان میں اس قدر صحیح اور تیربہدف ثابت ہوئی ہے کہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ نوجوان اور خوبصورت گدھے اس تحریک میں آئے اور دم دبا کر بھاگے، کسی ایک شخص کو اپنے ”علم“کے اندھیرے سے متاثر نہ کر سکے، لاہور میں کم از کم دس بی۔اے، ایم۔ اے، یونیورسٹی کے تعلیم یافتہ، کوٹ پتلون والے، ہیٹ پوش جینٹلمینوں نے تحریک کو سنبھالنے کی کوشش کی، اپنے ناکارہ پن کا اثر میرے سیدھے سادے اور نتائج کا حساب لینے والے دماغ پر ڈالنے کی سعی بڑی چرب زبانی اور لفاظی سے کرتے رہے۔  لاہور سے باہر بھی دور دور یہی حال رہا سعی وعمل کا میدان با لآخر اگر مارا تو انہی مغربی تعلیم سے کم متاثر لوگوں نے جو بعض اوقات لکھنا پڑھنا بھی نہ جانتے تھے۔مگرصحیح معنوں میں عالم، صحیح معنوں میں ہوش وشعور کے مالک تھے۔ میرے نزدیک مولوی کو عربی کی صرف ونحوزیادہ پڑھا دو تو وہ بے علم ہو جاتا ہے۔ اسی وقت اس کے سینے سے قرآنی علم کا نور یکسر مفقود ہو جاتا ہے۔ بےعملی اور بے حسی،تکبر اور حسد، بددیانتی اور دین فروشی، نکتہ چینی اور ہمہ دانی اس کا شعار بن جاتے ہیں۔ اسی نقطہ نظر سے دنیا کا رہبر اعظم علیہ الصلوٰة والسلام ”اُمی“ تھا اور اس کے ”اُمی“ ہونے کا فخرخود خدا اور امت کو ہے۔ ہر لیڈر کے لئے کسی نہ کسی معنوں میں ”اُمی“ ہونا ضروری ہے۔  وہی لیڈر کامیاب اور با اثر ہے جو اپنے کتابی اور سطحی علم کو بے ضرورت استعمال نہیں کرتا،اپنے اکتسابی علم کی ڈینگ نہیں مارتا، حس مشترک (یعنی کامن سینس)سے بڑا کام لیتا ہے، اگربہت پڑھا ہوا ہے۔ ان پڑھ اور انجان بن کر حقیقت کی تہ تک پہنچتا ہے،معاملات کو سیدھی سادی نظر سے دیکھتا ہے،بال کی کھال نہیں اتارتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں خاکسار تحریک جہاں جہاں کامیابی سے چل رہی ہے انہی ”اُمی“ اور ہوشمند ذی علم اور صاحب فراست لوگوں کے اثر سے چل رہی ہے۔ حدیث شریف میں مخالف اسلام کو کہا ہے کہ، ”مومن کی فراست سے بچتے رہو“۔ مسلمان کی فراست کسی زمانے میں یہ تھی کہ وہ کسی کالج یا یونیورسٹی میں پڑھے بغیر دنیا پر حکومت کرنے کا اہل تھا، آنکھ کان اور ذہن سے ہی معاملات کو اس قدر جانچتا تھا کہ اس کو کتابی علم کی ضرورت نہ رہتی تھی۔  یہی وجہ تھی کہ اس کے علم وعمل میں انبیاء کے علم وعمل کا سااثر تھا۔  یہی وجہ تھی کہ حدیث میں امت کے علماءکو بنی اسرائیل کے انبیاء سے تشبیہ دی ہے۔ نبیوں نے اپنی امتوں کی قسمتیں بدل دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں لکھا ہے کہ علم کی طلب کے لئے اگر چین تک جانا پڑے تو جاؤ۔ یہ کیوں نہ لکھا کہ چین سے کتابیں منگوالو۔ مقصود یہ تھا کہ علم کان، آنکھ اور ذہن کے براہ راست استعمال سے حاصل ہوتا ہے، مسلمان دنیا کا سفر کرتا رہے گا تو سب کچھ آنکھ سے دیکھے گا، کان سے سنے گا، چین تک پہنچ کر خودبخود اس کی نظر وسیع ہو جائے گی۔ قرآن میں خدا نے سیروسیاحت کرنے والوں کوایمان والوں کی فہرست میں داخل کیا ہے، علم والوں کا درجہ جنت لکھا ہے۔ حدیث میں "اُمی" نبی کے عالم امتیوں کو انبیائے بنی اسرائیل کا مثیل کہا ہے۔ بعض مسلمانوں کا اجتہادہے کہ رسول خدا صلعم کو علم کا معراج اسی مسجد حرام سے مسجد اقصی تک کی سیروسیاحت کے ضمن میں حاصل ہوا تھا۔  اسی تجارتی کاروبار کے سلسلے میں ان کو ”خدا کی آئتیں“ دکھلا دی گئی تھیں۔"لنریہ من ایتنا" کا سماں اسی وقت باندھ دیا تھا۔"علمہ   شد ید القویٰ" کی تصویر اسی مشاہدے نے پیدا کر دی تھی۔  اگر آج علم یہی بی۔اے اور ایم ۔اے پاس کرنا ہوتا تو خاکسار تحریک کے کامیاب سردار سب بی۔اے اور ایم۔اے ہوتے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ بڑی جماعت انہی لوگوں نے پیدا کی جن کی نظروسیع ہے، جنہیں مشکلات کا پورا اندازہ ہے، مشکلات پر قابو پانے کا صحیح تفہم ہے، جن میں تحریک کی غرض وغایت سمجھنے کی سوچ ہے، جن میں دین اسلام کا سچا اور بے لوث درد ہے، جو پبلک کی نبض خوب جانتے ہیں، جو مستقل مزاجی سے لگے ہیں، جن کو علم ہے کہ اوروں نے بویا اور ہم نے کھایا، ہم بوئیں گے اور دوسرے کھائیں گے، جن میں دنیا کے معاملات دیکھ کر صبر وتحمل پیدا ہو گیا ہے۔ بات بات پر بک بک کر اپنا کتابی علم ظاہر کرنے والے، سست رفتار اور باوقار کارخانہ قدرت سے قدم قدم پر الجھنے والے بے وقوفوں، کام نہ کرنے والے اور نتائج کی انتظار میں بے چین ہو جانے والے سفلوں اور کتابی گدھوں کو کیا خبر کہ قوم کی لیڈری کیا ہے۔ اگر کتاب کے کاغذی میدانوں پر نظر کے کاغذی گھوڑے دوڑا کر کوئی قوم بن سکتی ہے تو انگریز بڑا بیوقوف تھا کہ لاکھوں روپے کے کالج اور ہزاروں روپیہ ماہوار تنخواہ کے پروفیسر اس قوم کو عالم اور بنی اسرائیل کے انبیاءبنانے کے لئے تیار کرتا! بڑا بیوقوف تھا جو اپنے ہاتھوں اپنی سلطنت کی آپ خود کشی کرتا۔  خاکسار تحریک اپنے سرداروں کا امتحان لے کر پھر کئی قرنوں کے بعد ثابت کر رہی ہے کہ جاہلیت اور جہالت دراصل کیا شے ہے اور علم کس حقیقت کبریٰ کانام ہے۔

مولوی کااسلام غلط ہے!

لاہور کی مشکلات کی حقیقت کھول دینے کے بعد اے مسلمانو!اس مرکزی شہرکے کیمپ میں میں تمہیں ایک اور تلخ حقیقت واضح کرنا چاہتا ہوں۔  میں چاہتا ہوں کہ پانچ لفظوں کے اندر اندر تمہیں واضح کر دوں کہ خاکسار تحریک کیا ہے۔ تم ان پانچ لفظوں کو یاد کر کے روئے عالم پر پھیلا دو۔ ان پانچ لفظوں کو زندہ باد اور مردہ باد کی طرح اپنا تکیہ کلام بنا لو ور اگر اس کے بعد کوئی تمہیں چلتے چلتے پوچھ لے کہ بھائی یہ خاکسار کیاکر رہے ہیں؟ توتم ان کو جواب دے سکو۔ میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ خاکسار ہندوستان میں صرف اس لئے اٹھے ہیں کہ مولوی کا اسلام غلط ہے! خاکسار نے خوش قسمتی سے کئی سال بعد قرآن کو خود کھولا ہے دینی اور دنیاوی پیشواؤں کے رنگ ڈھنگ مدت تک دیکھ کر کئی مجبوریوں کے بعد قرآن کو خود پڑھنے کا تہیہ کیا ہے اور اسی قرآن کو براہ راست پڑھنے کا نتیجہ خاکسار سپاہی کا وجود ہے۔  خاکسار نے اپنی آنکھ سے دیکھا اور اپنے کانوں سے سنا ہے کہ خدا کی مسلمانوں پر بھیجی ہوئی آخری کتاب میں آجکل کے مولوی کے بنائے ہوئے اسلام کا ایک حرف موجود نہیں، نہ اس میں ایک مسجد کی صف کا دوسری مسجد کی صف سے مقابلہ کرنے والی نماز لکھی ہے۔  ہاں اس مسجد کو جہنم کے گڑھے میں پہنچانے والی مسجد لکھا ہے جو مسلمانوں میں تفرقہ ڈال رہی ہو۔  اس مسجد کو نبی کریمﷺ کے حکم سے آگ لگا دینے کا سنا ہے، نہ قرآن میں لکھا ہے کہ لوگو!سنی اور وہابی،شیعہ اور حنفی، اہلحدیث اوراہل قرآن بن کر ایک دوسرے کو کاٹ کھاؤ۔  نہ لکھا ہے کہ مولویوں کے گردجمع ہو کر ان کی دکانداری اور روزی کو فروغ دو، نہ لکھا ہے کہ زکواة کوالگ الگ مولووں اور فقیروں پر تقسیم کر دو، نہ لکھا ہے کہ رمضان میں غزوہ بدر میں شامل ہونا تو الگ تمام دن روزے کے”منہ میں ہونے کا“ماتم کرو، نہ لکھا ہے کہ حج اس وقت کرو جب تمام عمر نو سو چوہے کھا کر خوب سفید ریش اور سیاہ دل بن جاؤ، نہ لکھا ہے کہ روزی کمانے کے لئے قرآن بتلانے کی قیمت لیاکرو، نہ لکھا ہے کہ مولوی گھرگھررات کے باسی ٹکڑے جمع کرتا پھرے، نہ لکھا ہے کہ وہ فتویٰ لکھ کر امت کے مسلمانوں کو کافر بنائے، نہ لکھا ہے کہ قربانی کے دنبوں کو خوب موٹاکرو اور میدان جنگ کے گھوڑوں کو ہلاک کر دو، نہ لکھا ہے کہ دنبوں پر چڑھ کرپل صراط پرسے (جس کی ادبی ترکیب بھی غلط ہے) گزرنا ہے، نہ لکھا ہے کہ پگڑیاں یوں پہننی ہیں، تہمدیوں باندھنی ہے، مونچھیں یوں کٹوانی ہیں، ڈاڑہی یوں درست رکھنی ہے۔ اگرمولوی کہتا ہے کہ مونچھیں اور ڈاڑھی حدیث شریف میں ہیں توبھی یہ باتیں حدیث شریف کا ہزارواں بلکہ لاکھواں حصہ ہیں۔ مسلمان اگر مسلمان ہے تو اس کے نزدیک سب سے پہلے قرآن ہے حدیث بعد میں آتی ہے، جب تک ہم پہلے قرآن پر عمل نہ کریں گے حدیث پر کیونکر عمل ہو سکے گا۔ حدیث قرآن کی تشریح ہے، قرآن کا تتمہ ہے اگر فی الحقیقت قرآن کا تتمہ کوئی شے ہو سکتی ہے۔ قرآن کے متعلق قرآن میں لکھا ہے کہ وہ آسان ہے، حدیث کے متعلق حدیث اور صحیح حدیث میں رسول خدا صلعم کا قول درج ہے کہ:

میری طرف سے سوائے قرآن کے کچھ مت لکھو، کیونکہ پہلی امتیں لکھنے سے ہی گمراہ ہوئیں“۔

اس حدیث شریف کا منشاءکچھ ہی کیوں نہ ہو لیکن اس قدر کم از کم ثابت ہے کہ قرآن آسان ہے اور حدیث میں مشکلات اور پیچیدگیاں ہیں۔  الغرض ہم آسان اور براہ راست آسمان سے بھیجی ہوئی کتاب کو کیوں چھوڑ دیں کیوں نہ پہلا سبق اسی سے لیں، کیوں دس جماعتیں پاس کرنے سے پہلے بی۔اے اور ایم۔اے بننے کی لاحاصل کوشش کریں۔ جسے قرآن نہیں آتا وہ حدیث کیا سمجھے گا۔ جو فرقہ بندی کے جہنم اور روزانہ سر پھٹول کی برائیوں کو نہیں سمجھا وہ تمام مسلمانوں کی ایک قطع کی ڈاڑھی ایک وضع کی پوشاک ایک رنگ اور ایک روغن کی عظیم الشان حکمت کیا سمجھے گا۔جسے دل صاف،چہرہ فراخ، کپڑے پاک،گمان نیک "رحماءبینھم" ہونے کا شیوہ نہیں آتا وہ حدیث شریف کے مطابق استنجاکے وقت، ڈھیلوں کو صحیح طور پر آر پار کر کے کیا کرے گا، جسے اسلام کی ابجد نہیں آتی وہ رسولﷺ خدا کے منہ سے نکلے ہوئے عظیم الشان اور دقیق المطالب آخری مسئلے اور آخری وصیتیں کیا سمجھ سکے گا، جو درختوں کو نہیں دیکھ سکتا وہ جنگل کو کیا دیکھے گا، حدیث کو قرآن سے پہلے رکھنے کی مثال گاڑی کو گھوڑے کے آگے جوتنے کا بیہودہ عمل ہے نہ گاڑی چلے گی نہ گھوڑا حرکت کر سکے گا!
الغرض آجکل کے مولوی کا اسلام تحقیقا ًغلط ہے، سرتاپا غلط ہے، سرتاسرغلط ہے، مولوی کی غریبی اس کی غریبی کی وجہ سے کم علمی اور اس کی کم علمی کی وجہ سے کم نگاہی اس کو قرآن اور حدیث جیسی عالم انگیز اور ہوشربا کتابوں کے مفہوم کو سمجھنے نہیں دیتی۔ وہ اگر دنیامیں چل پھر کر دیکھتا اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر دین فطرت کو سمجھنے کے لئے اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کا مطالعہ کرتا، خداکی زمین پر چل کر آنکھیں کھلی اور کان کھڑے رکھتا، دیکھتا کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے، کون کون قومیں خدا سے انعام حاصل کر رہی ہیں، کون کون اس کے عذاب میں کراہ رہی ہیں،کس کا قرآن پر صحیح عمل ہے،کس کا قانون خدا سے صحیح نحراف ہے،کن معنوں میں قرآن "ذ کر للعلمین" ہے، کیوں اس کو ہر انسانی امت کا دستور العمل کہا ہے، کیوں کہا گیا ہے کہ”اسلام کے سوا کوئی دین خدا کو منظور نہیں“، کیوں کہا گیا کہ، ”بس اللہ کے نزدیک دین صرف ایک ہی ہے اور وہ اسلام ہے“۔ کیوں کہا گیا ہے کہ”یاد رکھو!جب شکست کھائیں گے”کافر“ہی کھائیں گے، اسلام پر چلنے والے کبھی پیٹھ نہیں دکھاسکتے، وہی مظفر اور وہی منصور ہیں“وہی "اعلون" ہیں۔ یہ اللہ کا اٹل قانون ہے جو محمدﷺ کی ولادت اور دین اسلام کے جنم سے پہلے کا ہے اور اس اٹل قانون میں آئندہ بھی کوئی تبدیلی ہرگز نہ ہوگی۔  ہاں! اگر مولوی دنیا میں چل پھر کر اسلام کو،قرآن کو، حدیث کو، تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کرتا تو آج وہ مسلمانوں کے سامنے اس سے بدرجہا بہتر دستور العمل پیش کرتا! مولوی قرآن بلکہ حدیث سے اس لئے بیگانہ ہے کہ قرآن کے قانون کی عظیم الشان عمارت اور حدیث کے دقیق اور باریک مسئلے اس کی چھوٹی نظروں میں سما نہیں سکتے۔  وہ قرآن کے صرف ایک چھوٹے سے ٹکڑے کو دیکھ کر اسی پر لٹو ہو جاتا ہے جہاں ایک لمبی سی آیت آجاتی ہے اور اس کے مفہوم کو اول سے آخر تک نباہ نہیں سکتا وہاں اس آیت کو اور ٹکڑے ٹکڑے کرکے "الذین جعلواالقرآن عصنین اورفتقطعوا امرھم بینھم زبراً"  کامصداق بنتا ہے۔  نو اندہوں کی حکایت مشہور حکایت ہے اندھے جب تمام ہاتھی کو سر سے پاؤں تک نہ دیکھ سکے اس کے حصوں کو ہاتھ سے ٹٹولنے لگے جس کا ہاتھ جسم پر پڑا اس نے کہا ضرور دیوار ہے، جس نے ٹانگوں پر ہاتھ مارا کہا ضرور ستون ہے،جس کے ہاتھ میں کان آگئے کہا ضرور پنکھا ہے، ایک اندھا بھی اس کو ہاتھی نہ کہہ سکا۔  یہی وجہ ہے کہ اس بے دماغی کے ماحول میں آج مولوی کی دی ہوئی تعلیم سب غلط ہے، اس کا بھک منگا امام ہونا غلط ہے، اس کا حجرہ کے اندر مقید ہونا غلط ہے، اس کا ہتھیار کے بغیر ہونا غلط ہے، اس کا اسلام کی عسکری زندگی بھول جانا غلط ہے، اس کا جہاد بالسیف سے بھاگنا غلط ہے، اس کا غلبے اور حکومت کے نصب العین سے منہ موڑنا غلط ہے، اس کا قرآن کا محض درس دینے کی خاطر درس دینا غلط ہے، اس کا کفار سے موالات رکھنے کی تعلیم دینا غلط ہے، اس کا غیرمسلم کے ہاں عزت کی تلاش کرنا غلط ہے،اس کی فرقہ بندی قطعا ًغلط ہے، اس کی آپس میں سرپھٹول صریحاً غلط ہے، اس کی نماز کی فرقہ بندانہ تعلیم غلط ہے، اس کا روزے کو صرف مقدس سمجھ کر رکھنا اور اس کا منتہا نہ سمجھنا غلط ہے، اس کی نماز،اس کا روزہ، اس کا حج، اس کی زکواة سب اصولاً اور معناً غلط ہیں، وہ ان سب انیٹوں کو جوڑ کر اسلام کی عمارت تعمیر نہیں کر سکتا، اس کا ذہن اسقدر رسا، اسقدر صاحب تدبیر، اسقدر نتیجہ خیز نہیں رہا کہ اسلام کے ان پانچ رکنوں کے اوپر غلبہ اور حکومت کے عظیم الشان گنبد کی تعمیر کر سکے، اس کو یاد نہیں رہا کہ رکنوں اور ستونوں کی تعمیر چھت ڈالنے اور عمارت کھڑی کرنے کے لئے ہوا کرتی ہے، نرے رکنوں کا کھڑا کر دیناکچھ شے نہیں، صرف رکنوں کا کھڑا رہ جانا عمارت کی بربادی کی نشانیاں ہیں نہ وہ رکن جن پر چھت کا بوجھ نہ پڑے کسی معنوں میں رکن کہے جا سکتے ہیں۔ حدیث نے اسلام کے پانچ رکن گنا کر اشارہ کر دیا تھا کہ مسلمان کے دنیا میں غلبہ اور حکومت کی بنیاد ان پانچ ستونوں پر ہے۔ مولوی کو چاہیے تھا کہ اس انتہائی طور پر مشکل حدیث کو سمجھتا، لیکن بھوک اور ننگ میں روٹی کے سوا سوجھتاہی کیا ہے، مولوی نے نماز، روزہ، حج، زکواة،کلمہ شہادت سب کو اپنی روٹی کا سامان بنا لیاہے، جس جس طریقے سے نماز کے ذریعے سے اس کی روٹیاں برقرار رہ سکتی تھیں اسی طریقے کی نماز بنالی، رمضان میں جو ممکن سامان کھانے پینے کا مل سکتا تھادین کی آڑ میں پیدا کر لیا، زکواة کی بیخ اکھاڑ کر اس کو اپنی نفسانی خواہشات کے ماتحت کر لیا، حج کی صورت اس قدر مسخ کر دی کہ اس سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہو سکے اور فرقہ بندی کی راہ میں حائل نہ ہو، کلمہ شہادت کو ایک رسمی عقیدے کی صورت دے دی کہ لوگ مولوی اور پیر کے گرد جمع رہیں اور خدا کی عملاً گواہی دینے کی مشکلات پیدا نہ ہوں۔ اب یہ دین اسلام کے پانچوں ستون کسی بوسیدہ عمارت کے کھنڈروں کی طرح نرے ستون ہی ستون رہ گئے ہیں ان پر عمارت کا نام ونشان تک باقی نہیں رہا!
اسی حساب سے کہ مولوی اور پیر، پیشہ ورامام اور مسجدی ملا کا اسلام غلط ہے آجکل کے پیشہ ورلیڈر کا اسلام بھی غلط ہے۔ پیشہ ورلیڈر آج بعینہ اور ہو بہو اپنے دینی پیشوا اور مولوی کی پیروی کر رہا ہے۔ مولوی نے اگردین کی آڑ میں روٹیوں کا انتظام کر رکھا ہے تو وہ قوم کی آڑ لے کر چندہ طلب کر رہا ہے۔  مولوی اگر دینی اور مذہبی فرقہ بندی پیدا کر کے اپنے گرد روٹی دینے والوں کا ہجوم برقرار رکھ رہا ہے تو پیشہ ور لیڈر سیاسی فرقہ بندی برقرار رکھ کر چندہ دینے والوں کا ہجوم پیدا کر رہا ہے۔  مولوی نے اگر دین اسلام کے منتہا اور سلطنت اور حکومت کے نصب العین کو دلوں سے محو کر دیا ہے تو پیشہ ور لیڈر بھی ہندوستان کی آزادی کے خواب کو پرکاہ سے زیادہ وقعت نہیں دیتا۔  اس کو ہندوستان کی آزادی ایک تمسخر اور مخول سے زیادہ نظر نہیں آتی لیکن وہ قوم قوم کہہ کر آزادی کا راگ الاپنا اپنے پیٹ کے لئے نہایت مفید سمجھتا ہے۔ بہتر درجہ کے پیشہ ور لیڈر بھی اس ہولناک بددیانتی سے خالی نہیں کسی کو کونسل کی امیدواری ہے، کوئی گورنری کے عہدے یا اقل قلیل وزارت کے سرور میں پیٹ پر ہاتھ پھیر رہا ہے، کسی کے پیش نظر حکومت کے ارکان سے تقرب اور پھر کچھ ہاتھ رنگنا ہے، کوئی قوم قوم کی ادبی آواز کو سرکار کے ہاں سے خطاب حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھ رہا ہے۔ سب لیڈر مولویوں اور پیروں کی طرح آپس میں سب دست وگریبان ہیں لیکن سب اس دعوے پرمتفق ہیں کہ دین اسلام کی خدمت کر رہے ہیں۔  اب کچھ مدت سے ایک نئے رنگ کا پیشوا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر کی صورت میں جلوہ آرا ہے، ایک طرف سے دیکھو تو دین کا پیشوا نظرآتا ہے، قرآن حکیم کی آئتیں بڑے شدومد سے پڑھتا ہے اور دوسری طرف سے دیکھو تو اس کو ہندوستان کی آزادی کی دھن لگی ہے وہ اسی دھن کو پورا کرنے کے لئے کونسل کی ممبری مانگتا ہے!جب پہلے پہل دنیا میں موٹریں چلیں حیوانات مثلا ًگائے، بیل،گھوڑے ان کو دیکھ کر بے تحاشا بھاگتے تھے، کتے بے دھڑک بھونکتے تھے، ان کا خیال تھا کہ کوئی نئی قسم کا حیوان ہے جس کا منہ گینڈے کا اور گول چکر لگانے والی ٹانگیں ہیں، ان کو خوف تھا کہ یہ حیوان کہیں مضر ثابت نہ ہو۔ مسلمانوں کی قوم اس قدر ناعاقبت اندیش ہے کہ ان دوغلے لیڈروں سے اتنا بھی نہیں ڈری جتنا کہ گائے اور گھوڑے موٹروں کی آمد سے مدت تک بھاگتے رہے!
الغرض خاکسار تحریک کا منتہا اس امر کا پھر کئی قرنوں کے بعد اعلان کرنا ہے کہ مولوی، پیر، ملا، مولانا، مجدد، میرزا، چندہ خور لیڈر، پیشہ ور رہنما سب کاپچھلے سو سال کا اسلام غلط ہے۔اسلام وہی ہے جو سرور کائنات علیہ التحیتہ والسلام آسمان سے قرن اول میں لائے اور جو بین الدفتین قرآن میں حرف بحرف موجو ہے۔اس اسلام میں ہر فرد کو جانی اور مالی تکلیف،ہرشخص کو اپنی اغراض کا فنا کرنا اور قوم کی اغراض کو بنانا،ہرمسلمان کی بیوی، بچے، مال وجان، زرزمین، جاہ وحشم کےبتوں سے علیحدگی، ترک وطن، ترک اولاد، ترک مال الغرض ہر وقت تکلیف ہی تکلیف ہے، اپنے آپ کو اور اپنے نفس کو دکھ دے کر قوم کو بنانا ہے،  سب سے توڑ کر خدائے واحد سے پھر رشتہ جوڑتا ہے، اس تحریک کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ جو داخل ہوگا اس میں فرقہ بندی نہ رہے گی۔ کیونکہ جب غرضیں اور ذاتی فائدے نہ رہے تو کسی کو کیا غرض کہ اپنے مسلمان بھائی سے الجھے، جس کو رسولﷺ خدا کی رفع یدین والی ادا پسند ہے وہ رفع یدین کرے گا، جس کو آمین زور سے نہ کہنا بھلا لگے گا وہ زور سے نہ کہے گا۔ مولوی اور پیر کہتا ہے کہ جب مسلمان میں یہ اخوت اورایثار، یہ خدمت خلق کر کر کے روحانیت، یہ آپس کا مکمل اور بے غرض اتحاد، یہ رسولﷺ خدا سے سچی محبت اور اس کے حکم پر سچا عمل، یہ خدا کی راہ میں جان و مال دینا، یہ جنگی اور سپاہیانہ قابلیت، یہ قلعوں کو فتح کرنے کا زور اور ایک آواز پر سب کا تیار ہو جانا پیدا ہو گیا،جب لاکھوں مسلمان مختلف فرقوں کے معتقد ایک صف میں چست اور تیار نظر آئے تو ہمیں روٹیاں کون دے گا؟ ہمارا چوہدرپن کون مانے گا، ہمیں فتواؤں کے لئے کون پوچھے گا؟ ابھی تو ہم آپ رب بنے بیٹھے ہیں، مرد اور عورتیں سب ہمارے پاؤں چومتے ہیں، ہمارے آگے سجدہ کرنا اور ہمیں مولانا (یعنی ہمارا رب) کہناروا کر رکھا ہے، کہیں سجدہ تحریمی ہے، کہیں تصورشیخ ہے، عورتوں میں سے حسب ضرورت جو چاہیں استعمال میں لاسکتے ہیں، زمینیں اور جائیدادیں ہماری ہیں۔ الغرض زن زر زمین اللہ کے فضل سے سب کچھ ہے لیکن جب اللہ سےمسلمانوں نےلولگائی اور ماسوا کو چھوڑدیا جب بیٹے سےباپ کی محبت ہی نہ ہوئی اورتعویذکی ضرورت باقی نہ رہی جب کفر کے فتوے نہ رہے تو ہماری کیا گت بنے گی، ”ہم کس نمی پر سدکہ بھیا کون ہو“کے مصداق بن جائیں گے۔
یہ عنایت اللہ المشرقی عجب آسمانی آفت اور زمینی مصیبت ہے۔ کئی سو برس کی تکلیف کے بعد ہم نے آہستہ آہستہ کئی قرنوں میں تکلیف دہ اسلام پر خاموشی اور حکمت عملی سے پردے ڈالے تھے، بڑے گول مول طریقوں اور حیلوں سے دین کو کئی صدیوں میں چھپایا تھا، بڑی مشکل کے بعد مدرسوں اور مسجدوں میں قرآن کی جگہ حدیث اور صرف نحو رکھ کر آسانی کی صورتیں پیدا کی تھیں۔ اب اس کافر، ملحد، زندیق نے پھر قرآن کھولا ہے، قرآن کے کھولنے سے تو ہماری قلعی صاف کھل جائے گی، سب مکرو فریب کے بخیئے ادھڑ جائیں گے۔ بس صرف ایک خالق اور ایک مخلوق رہ جائیں گے۔ پھر ہم کہاں ہوں گے،مخلوق کی قطار میں کھڑا ہونا ہماری شان کے خلاف ہے۔قرآن سے ہٹا کر ہم لوگوں کو صرف نحو اور مسئلہ مسائل کی کتابوں تک لے آئے تھے۔ابھی پانچوں انگلیاں گھی میں ہو رہی تھیں کہ اس کافر نے خاکسار تحریک شروع کر دی۔
مسلمانو! مولوی اور پیر اور ملا کے رونے کی وجہ یہ ہے، مجھے کافر اور ملحد کہنے میں یہ راز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سب کی ملی بھگت ہے، پشاور سے راس کماری تک سب اللہ کے چوروں کی آپس میں دوستی ہے، ادھر ہندوستان کے بڑے بڑے مولویوں کی دشمنان اسلام سے ساز باز ہے، ہرمسجدکاامام نہ سہی اکثر مسجدوں کے اماموں کے متعلق مشہور ہے کہ خفیہ رپورٹر ہیں۔ مولویوں کی انجمنیں حکام وقت کے ایما سے قائم ہیں۔  دین اسلام کا پیشوا اس قدر اخلاقا ًگرگیاہے کہ چندٹکوں کی خاطرقرآن کی تفسیرانگریز سے پوچھتا ہے۔ انگریز ان کو نہایت حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے کیونکہ کوئی بہادر اور بلند نظر قوم غدار قوم کو عمدہ نظر سے دیکھ نہیں سکتی۔  پہلوان صرف پہلوان ہی کو عزت سے دیکھ سکتا ہے۔  میرا کسی مولوی سے کوئی ذاتی حساب نہیں۔ میں سب کی فرداً اور شخصاً عزت کرتا ہوں۔ مسلمانوں کے خلاف ہونا ہمارے اصول میں داخل نہیں۔ میری جنگ مولوی کے مذہبی تخیل سے ہے، مولوی کی ذات سے ہرگز نہیں۔  میں لکھ چکا ہوں کہ اگر یہ مولوی نہ ہوتے تو دین اسلام کی یہ ظاہری صورت بھی کبھی کی مٹ گئی ہوتی، لیکن مولوی اور ملا کو ہم خاکسار دین اسلام کے پہلے رنگ میں لانا چاہتے ہیں۔ مولوی کا جمود اور غلط عمل ہماری قومی بنیادیں اکھیڑ رہا ہے۔ ہم قریب ہیں کہ اس کے ظلم کے بوجھ سے پس جائیں اس لئے ہم مولوی کی غلامی کا جوا اتار کر پھینک رہے ہیں۔ مولوی کے پاس تحریک کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی اوزار باقی نہیں رہا۔ سوائے اس کے کہ وہ جا بجا کہتا پھرے کہ میرے عقائد خراب ہیں۔ اس لئے لوگو مشرقی کے پیچھے نہ لگو۔ میں نے اپنی تصانیف میں کسی عقیدے کے متعلق ایک حرف کبھی نہیں کہا، نہ کہوں گا لیکن میں اعلان کر چکا ہوں اور پھر کرتا ہوں کہ میرا عقیدہ ہے کہ خدا ایک اور لاشریک ہے، محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں، اسلام کی بنیاد پنج ارکان کلمہ شہادت، صوم وصلواة، حج، زکواة پرہے۔ روز آخرت پر میرا ایمان ہے، پہلی کتابوں اور فرشتوں پر ایمان ہے، باقی جس عقیدے پر تمام مولوی متفق ہو جائیں وہ میرا عقیدہ ہے۔ ان صاف اعلانوں کے بعد جو شخص میرا عقیدہ صحیح ہونے میں شک کرے اس کے اسلام پر آپ شک ہو سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مولوی کا یہ آخری اوچھا ہتھیار بھی بے کار ہوکر رہے گا۔ اس کی میرے خلاف نشر و تبلیغ دو دو پیسوں کے چیتھڑوں اور رسالوں سے ہو رہی ہے۔ ان چیتھڑوں کے بالمقابل تذکرہ، اشارات، قول فیصل اور الاصلاح کی عظیم الشان تصانیف ہیں جو چار دانگ عالم میں پہنچ چکی ہیں گویا ان کا مقابلہ کرنا چاند پر تھوکنا ہے ۔ اس وقت اگر کوئی صورت مصالحت کی ہے تو یہ کہ سب مولوی اور ملا، پیر اور فقیر قرآن حکیم کو پھر کھول لیں۔ ہمیں جو اس میں لکھا ہے، حرف بحرف منظور ہے، لیکن اگر قرآن کو پھر کھولنا منظور نہیں تو اب قوم کی یہ حالت ہے کہ قوم اپنی راہ آپ لے کر رہے گی۔ مولوی کی سلامتی اس میں ہے کہ ہو اکے ساتھ موافق ہو کر چلے۔  اب علم و عقل کا زمانہ ہے۔  وہ زمانہ گزر گیا جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔
اس تمام ناگوار مگر ضروری تشریح کے بعد اے مسلمانو!تمہیں معلوم ہو گیا ہوگا کہ”خاکسار تحریک“کا ہونا کیوں ضروری ہے۔ ہم مسلمان مدت تک سمجھتے رہے کہ مولوی ہمیں ٹھیک دین بتاتا ہے، صرف ہمارے اس دین کو ماننے میں کسر ہے، اس غفلت میں کئی قرن گذر گئے لیکن حالت بدسے بدتر ہو گئی۔ سلطنت کے جانے کے بعد ہماری نا اتفاقی و گناہ گاری کی وجہ سے ہماری زمینیں، ہمارے گھر، ہماری تجارتیں، ہماری دولت، ہماری دنیاوی وجاہتیں سب چھن گئیں۔ ایک مدت تک ہم عجب مخمصے میں پڑے رہے۔ مولوی اور مرشد پر ہمارا اندھا دھند اعتقاد تھا۔ ہم جو وہ کہتا کرتے، سرپھٹول کی طرف ہمیں لے جاتا ہم سرپھٹول کرتے، بحثوں اور مناظروں سے خون کی ندیاں بہا دیں۔ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کا خون کرتے رہے۔ ایک ایک عقیدے اور قرآن و حدیث کے ایک ایک لفظ پربال کی کھال ہم نکالتے رہے۔  اب یہ حالت تھی کہ زمین پر کھڑا ہونا ہمارے لئے محال ہو گیا۔ سب طرف آہیں اور کراہیں، سب طرف غربت و افلاس،باپ بیٹے سے الگ، ایک کا ایک دشمن، ایک دوسرے کا گلا کاٹنے کو تیار، اس حالت میں تجارت کہاں رہ سکتی تھی، گھرکہاں کھڑے رہ سکتے تھے، روٹی پسینے بہانے کے باوجود کہاں مل سکتی تھی، زور آور اور متحدہ قومیں سب کچھ چھین کرلے گئیں، لے دے کر صنعت و حرفت یا دن بھر کی مزدوری رہ گئی تھی، دوسری قوموں نے یہ دیکھ کر کہ مسلمان کمزور ہیں وہ بھی چند برسوں کے اندر چھین لی۔  اب مسلمان محض فاقہ مست ہے روٹی کی خاطر (خاکم بدہن) اپنی عفت اور عصمت بیچ رہا ہے اس لاچار حالت میں ہم نے قرآن کھولا اور اب معلوم ہوا کہ مولوی کا بنایا ہوا تمام اسلام سرتاپا غلط ہے۔
خاکسار تحریک میں خاکسار کو کہا گیا ہے کہ اے مسلمانو! ایک ہو جاؤ، ایک دوسرے سے سچا اور اصلی اتحاد کر لو۔ تم سب ایک خدا اور ایک رسولﷺ کے نام لیوا ہو اس لئے بھائی بھائی بن جاؤ، فرقہ بندیاں چھوڑ دو، عقیدوں کی وجہ سے آپس میں لڑمرکراپنی قوتوں کو کمزور نہ کرو۔ بندھی ہوئی ہوا نہ بگاڑو،اپنے اپنے عقیدوں پرمضبوطی سے قائم رہو، عقیدوں کے متعلق بحث نہ کرو۔ جب دشمن قوم تم پر حملہ کرتی ہے وہ حنفیوں کو نہیں کہتی کہ اے حنفیو! الگ ہو جاؤ، ہم وہابیوں پر حملہ کرنے آئے ہیں، وہ سب مسلمانوں کو مسلمان اور محمدﷺ کا نام لیوا سمجھ کر حملہ کرتی ہے۔ وہ اگر دشمن ہے تو تمام مسلمان قوم کی دشمن ہے۔ اس لئے تم بھی اس کے حملوں کو روکنے کی خاطر صرف مسلمان بن جاؤ  ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی عملی مدد کرے،  تاکہ اس کے مال اور اس کی تجارت میں ترقی ہو۔ خاکسار جہاں تک ممکن ہو صرف خاکسار سے سودا لے تاکہ بھائی چارہ پیدا ہو اور تجارت بڑھانے کی خاطر ہی مسلمان ایک لڑی میں پروئے جائیں۔ سب مخلوق خدا کی بے مزد خدمت کرو تاکہ تم میں روحانیت پیدا ہو۔  سب غیر قوموں سے روا داری رکھو تاکہ وسیع اخلاق کے مالک بنو اور تم "تخلقواباخلاق اللہ " کی حدیث شریف کے عامل بنو۔ سپاہیانہ زندگی اختیار کروتاکہ تم قرآنی تعلیم کے مطابق سچے مسلمان بن جاؤ  خدا کی راہ میں جان و مال دینے کے لئے ہر وقت تیاررہو تاکہ وہی قرون اولیٰ والا ایثار تم میں پیدا ہو۔  مال و اولاد، جاہ وحشم، زن و فرزند، نفس اور آرام جان کے سب بتوں کو توڑ دو، تاکہ تم میں سچی توحید اور خدا کی صحیح عبادت پیدا ہو۔ ماسواءکے محکوم نہ بنو،نفس پر قابو پاؤ تاکہ شرک کے گناہ عظیم سے نجات پاؤ اپنے مقرر کردہ امیر کی بے چون و چرا اطاعت کرو تاکہ ایک لڑی میں پروئے جاؤ۔ تمہاری آواز ایک ہو، ایک آواز پر سب کے سب جمع ہو جائیں۔ الغرض تمہاری قوت ہو، تمہارا اتحاد ہو، تمہارا غلبہ ہو، تم پھر صالح ہو کر وارث زمین بن جاؤ۔ یہ وہ سچی اور اصلی قرآنی تعلیم ہے جس کے باعث مسلمان قرون اولیٰ میں تمام دنیا کے مالک بن گئے تھے۔ مسلمانو! انصاف سے کہو کہ اس تعلیم میں کونسی شے ہے جس پر دنیا کے کسی مولوی کو اعتراض ہو سکتا ہے، اس تعلیم سے کس طرح کسی مسلمان کے عقیدے خراب ہو سکتے ہیں؟ تخیل کی بری سے بری پرواز کیا کسی شخص سے یہ کہلانے کی جرات کر سکتی ہے کہ یہ تعلیم غلط ہے یہ تعلیم قرآنی نہیں؟ یہ وہی تعلیم نہیں جس پر عمل کر کے مسلمان کو دنیا میں سرخروئی اور آخرت میں نجات کا وعدہ تھا؟ مسلمانو! خاکسار تحریک میں کوئی چندہ نہیں،کسی مسلمان کے عقیدے سے بحث نہیں، نہ ہم نے کسی خاکسار کو کسی عقیدے کے اچھے یا برے ہونے کے متعلق کچھ کہاہے، نہ کہیں گے۔  ہم صرف سپاہیوں کی ایک لمبی اور زبردست قطار پیدا کر رہے ہیں۔ جس میں چھوٹے، بڑے، امیراورغریب، عالم وجاہل سب میں برابری ہے۔ ہم مسلمان قوم کو خدمت خلق کے ذریعے سے روحانی قوم اور سپاہیانہ زندگی کے ذریعہ سے جنگی قوم بنا رہے ہیں۔ کیا روحانی اور جنگی بننا گناہ ہے، کیا قرون اولی کے مسلمان روحانی اور جنگی دونوں نہ تھے؟ کیا رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری عمر روحانیت اور جنگ دونوں میں نہ کٹی؟  کیا صحابہ کرام کا بعینہ یہی طرز عمل نہ تھا؟ کیا ان کے بعدان تابعین مسلمانوں نے کئی صدیوں تک اسی روحانیت اور جنگی قابلیت کے زور پر دنیا فتح نہ کی؟  کیا چست بننا گناہ ہے؟ کیا امیر اور غریب میں برابری پیدا کرنا گناہ ہے؟ کیا قوم سے چندہ نہ لینا اور اپنی جان کا آپ خرچ اٹھانا گناہ ہے؟ کیا جب ہتھیار میسر نہیں اور تلوار خریدنے کی طاقت نہیں توبیلچہ کا خدمت خلق کا اوزار اپنے پاس رکھنا گناہ ہے؟ کیا یہ برا ہے کہ مسلمان سپاہی بن جائیں؟ کیا یہ برا ہے کہ سب کے سب منظم ہوں؟ کیا برا ہے کہ اس کے بعد مسجد شہید گنج کا ناگوار واقعہ پھر نہ ہو سکے؟ کیا برا ہے کہ اسلام کی حفاظت کے لئے ہر وقت ایک جتھاجان دینے کے لیے تیار ہو؟ کیا برا ہے ہم خدمت خلق کر کے سب قوموں کے دل موہ لیں؟ کیا برا ہے کہ ہندو کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ہم اپنی جان پر مصیبت اس لئے لیں کہ ہندو بھی ہمارے ہی خدا کی مخلوق ہے اور وہ اس کو ہم سے بہتر روزی دے رہا ہے۔ مسلمانو! خاکسار برے نہیں، مولوی ہماری تحریک کی مخالفت اس لئے کرتے ہیں کہ وہ آپ برے ہیں۔ لیکن خاکسار سپاہیو! میں ایک ضروری بات تم پر روز روشن کی طرح واضح کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ کہ میری اس تمام تقریر کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اگر پیشہ ور مولوی یا پیر یا ملا یا لیڈر برے ہیں اور ہمارے اس نیک کام میں روڑا اٹکا کر ثابت کر رہے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں اور حق بات کی مخالفت ازل سے چلی آئی ہے اس لئے تم بھی ان سے برے بن جاؤ۔ تم ان سے برا سلوک کرو۔ تم ان کے مخالف بن جاؤ اور مسلمان قوم کے اندر ایک اور ٹکراؤ پیدا کرو۔ یاد رکھو! کہ خاکسارکا پہلا اصول یہ ہے کہ کسی مسلمان کے خلاف نہ ہو۔ تم ان تمام مسلمانوں کی دل سے عزت کرو۔ جہاں جہاں یہ لوگ موجود ہیں ان کو خلوص دل سے سلامیاں دو۔ اس نیت سے سلامیاں دو کہ تمہارا بلند اخلاق، تمہارا رفیع حوصلہ، تمہاری صاف دلی، تمہاری اسلام دوستی، تمہاری سچی مسلمانی ان کے دلوں پر گہرا اثر کرے۔ اس نیت سے سلامیاں نہ دو کہ یہ سمجھیں کہ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں۔ دلوں سے سب کدورتیں اور کےنے نکال دو، اس ارادے سے ان کی عزت کرو کہ بالآخر ان کو تحریک میں داخل کرنا ہے۔ یاد رکھو!ہزار ہا مولویوں اور پیروں، ملاؤں اور پیشواؤں کے دل ہماری اس تحریک سے متاثر ہو چکے ہیں، وہ دل سے چاہتے ہیں کہ اس تحریک میں علانیہ شامل ہو جائیں صرف ان کی”غلط خودداری“ انہیں منع کر رہی ہے۔اب معاملہ بالکل نزدیک ہے، فتح عنقریب ہے، یہ سب کے سب لوگ تحریک میں داخل ہو کر رہیں گے، صدہا داخل ہو چکے ہیں اور مولویت کا لباس اتار کر خدا کے سچے سپاہی بن گئے ہیں، صدہا کنارے پر کھڑے دیکھ رہے ہیں، ادھر آنا چاہتے ہیں مگر حوصلہ نہیں پڑتا۔ یہ سب منظر صرف اس لئے پیدا ہوا ہے کہ خاکساروں کو ہمیشہ مولویوں اور پیروں اور لیڈروں سے انتہائی حسن سلوک کرنے کی تعلیم دی گئی ۔ ان لوگوں نے منبر پر کھڑے ہو ہو کر مجھ پر نہایت فحش الزامات لگائے۔مجھے نہایت نازیبا گالیاں نکالیں، مجھے انتہائی طور پر رسوا کرنے کی کوشش کی اور کر رہے ہیں۔ مگر جس کو خدا ذلیل نہ کرنا چاہے اس کو انسان کب ذلیل کر سکتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تم ان سے عمدہ سلوک کرنے میں نمونہ بن جاؤ۔ ان کی بے پناہ خدمت کرو۔ ان کی اپنے دل کی گہرائیوں سے عزت کرو۔ ان کے بتلائے ہوئے دین کو غلط سمجھو لیکن اس خیال سے کہ یہ غلط تعلیم دینا صرف انہی کا گناہ نہیں، کئی پشتوں سے دین اسلام کے خوشنما چہرے پر پردے پڑے چلے آ رہے ہیں اور یہ مجبور ہیں۔  ان سے عمدہ سلوک کرو گے تو یاد رکھو کہ فتح کی منزل بالکل قریب ہے۔  آخری بات جو میں اس کیمپ میں واضح کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ خاکسار تحریک، نیا اورٹھیٹھ خالص اور بےداغ مذہب اسلام ہے، اس کے سوا کوئی مذہب ”مذہب اسلام“ نہیں۔ اگر اس تحریک کو مذہب اسلام سمجھ کر اختیار کرو گے تو فتح یقینی ہے۔ کھیل سمجھ کر یا عنایت اللہ کی بنائی ہوئی تحریک سمجھ کر اختیار کرو گے تو فتح کی منزل دور ہو جائے گی۔  اگر شک ہے تو قرآن کھول کر خود دیکھ لو کہ مذہب اسلام کیا ہے اور کیا عمل چاہتا ہے۔
 (مورخہ:۲۵ ستمبر۱۹۳۶ء)
(علامہ محمدعنایت اللہ خان المشرقی)