Pages

Time

Allama Mashriqi's 2nd Speech on Moulvi ka Ghalat Mazhub (29th Nov.1936)


سیالکوٹ کے خاکسار سپاہیو اور مسلمانو! تمہارا دستکار شہر پنجاب کی سرزمین میں ممتاز شہر ہے اور تمہارے ضلع کے باشندے کام کرنے والے مشہور ہیں۔ میں تمہیں اس شاندار کیمپ پر جو تمہارے مخلص، خاموش اور بیدار مغز سردار محترم فیروز الدین سالار اعلیٰ کی کامیاب کوشش کا نتیجہ ہے،عمل کے صحیح معنی بتاناچاہتا ہوں۔ تمہارے دلوں میں ڈالنا چاہتا ہوں کہ از روئے قرآن واسلام صحیح عمل کیا ہے، غلط عمل کسے کہتے ہیں؟ وہ کیا شے ہے جس کو کرنے سے خدا کی جناب سے اچھا عوض ملتا ہے، کیا شے ہے جس کو کرنے کے باوجود خدا کے ہاں سے کچھ نہیں ملتا۔ تم نے قرآن حکیم میں پڑھا ہوگا کہ، ”خدا عمل کرنے والے کو عمدہ مزدوری دیتا ہے "نعم اجرالعالمین" کے الفاظ ضرور سنے ہوں گے۔ اسی طرح قرآن میں لکھا سنا ہوگا کہ، "انسان کو صرف وہی کچھ ملتا ہے جس کے واسطے وہ بھاگ دوڑ اورکوشش کرے“۔ایک دوسری جگہ لکھا دیکھا ہوگاکہ، ”جو کوئی بھی ایک ذرہ بھرکے برابر عمدہ عمل کرے گا، اس عمدہ عمل کا انجام دیکھ لے گا“۔ قرآن حکیم میں جا بجا "واللہ بصیربما تعملون اورلتنظرکیف تعملون"کے الفاظ ہیں جن سے مراد ہے کہ خدا نہایت غور سے دیکھ رہا ہے جو کچھ تم کر رہے ہو۔  اللہ فرماتا ہے کہ، ”تمہیں زمین کا بادشاہ بنایاکہ ہم دیکھیں تم کیا عمل کرتے ہو“۔ قرآن کریم کے قریبا ہر ورق پر"امنواوعملوالصٰلحٰت"کے الفاظ لکھے ہیں اور اس کے معنی ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنا یقین پختہ کر لیا اور مناسب عمل کیا۔  الغرض میں تمہیں اس کیمپ میں کئی قرنوں کے بعدپھربتلانا چاہتا ہوں کہ ازروئے اسلام عمل کیا شے ہے،کس قطع کے عمل سے خدا کے ہاں سے جزا ملتی ہے اور کس طرح کا عمل ہے جس کا لازمی نتیجہ خدا کی سزا ہے!
مسجد کا مولوی اور ملا جو بے چارہ اپنے تنگ و تاریک حجرے میں روٹی کے غم میں پھنسا ہے اور جس کے داؤ                اور جال میں تم مسلمان کم از کم ایک سو سال سے پھنسے بیٹھے ہو، قرآن کی عظیم الشان کتاب کو جو کوہ طور بلکہ کوہ ہمالیہ سے بڑی اور بھاری کتاب ہے کچھ نہیں سمجھتا، گھرگھراوردردرکے ٹکڑے کی فکرمیں اسے کچھ نہیں سوجھتا کہ وہ کیا عمل تھا جس نے مسلمانوں کو تیئس برس کے اندر اندر تمام عرب کا بادشاہ بنا دیا تھا۔ کچھ نہیں سوجھتا کہ قرون اولیٰ کے مسلمانوں نے کیونکرسلطنتوں کے تختے الٹ دیئے۔ کیونکر ایک صدی کے اندر اندرمسلمان چارہزارمیل چل کر جھٹ سپین اور فرانس تک جا پہنچے، کیاعمل تھاکہ طارق ؓنے تین ہزار میل گھرسے دورسمندرسے پہاڑ پرچڑھ کر کشتیاں جلادیں، کیا عمل تھا کہ ایک طرف مکہ سے پندرہ سو میل مشرق میں پہنچ کر مسلمانوں نے کند تلواروں سے ہاتھیوں کی ٹانگیں کاٹیں اور قطار توڑ کر سندھ کو ملتان تک سر کر لیا۔  ملا بے چارہ قسمت کا مارا روٹی کے فکر میں صرف اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کو دیکھ سکتا ہے، اس کی نظر کی دوڑ صرف اپنے حجرے کے صحن تک ہے، جو پہاڑوں سے بڑے اورسمندروں سے زیادہ عظیم الشان قرآن کو کیا دیکھ سکے، وہ اپنے باسی ٹکڑوں کی پریشانی اور اندھیرے میں اس عظیم الشان اور حیرت انگیز رسول کی عظمت کو کیا جان سکے۔ جس کی بابت زمین و آسمان کے بنانے والے خدا نے کہا تھا کہ، ”میں اور میرے فرشتے اس کی حکمت کو دیکھ کر اس پرہردم تحسین و آفرین کے نعرے اور درودبھیج رہے ہیں“۔ اس فقیدالمجدانسان کوکیا جانے جس کی بزرگی کا اندازہ لگا کرکسی ہوش والے انسان نے ”بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر“ کے الفاظ لکھ دیئے تھے۔ اتنے بڑے رسول کا اندازہ ایک بھوکا اور پریشان،کم نگاہ اور کم فہم ملا کیا لگا سکتا ہے؟ مولوی قرآن میں"اقیموالصلوا ة"کے الفاظ دےکھتا ہے۔ اس کی بلا جانے کہ اس قیام صلواةکے الفاظ میں امت کی بہتری کاکیا پہاڑ چھپا ہے۔ وہ اپنی روزی کی خاطر صرف اپنی مسجد کو بھری ہوئی اورباقی سب مسجدوں کو خالی دیکھنا چاہتا ہے۔ اس لئے کہتا پھرتا ہے کہ عقیدے درست رکھ کر نماز پڑھو۔ جو ان کے پیچھے نہیں پڑھتا، اس کو جھٹ کافر بنا دیتا ہے،جو اس کے قابو نہیں آتا ناری اور جہنمی بن جاتا ہے! اتنے بڑے رسول کو جس کے ادنیٰ امیتوں نے کسرٰی اور فرعون کی سلطنتوں کو پامال کر دیا تھا سیالکوٹ یا لاہور کی گلی کا ملا کیا سمجھے۔ اس کی نظر رسول کریم کے دل و دماغ اور جگر تک کیا پہنچے اس ہوش اور ادراک کے ناپیدا کنار سمندر تک کہاں پہنچے جس کے سیلاب نے امتوں کی سوکھی ہوئی کھیتیاں آنکھ کی جھپک میں نہال کر دی تھیں۔ ملا اور مولوی کی نظر صرف اس نبی کی ڈاڑھی اور مونچھوں، مسواک اور تہمد یا عمرمیں ایک دفعہ کھائے ہوئے حلوے تک پہنچتی ہے۔ ملا کے نزدیک بس یہی چیزیں درست رکھنا اسلام کے عمل ہیں ۔ ا مت کے ایک ایک آدمی سے پوچھو سب لوگ یہی قرآن کا عمل بتائیں گے ۔  یہی قرآن کا بتلایا ہوا دین کہیں گے۔  رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی تمام عمر تسبیح ہاتھ میں نہیں لی تھی لیکن اس کا آج کل کا امتی اس تسبیح کو دین اسلام کا عمل کہے گا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسجد کو آگ لگا دی تھی جس میں سے نفاق اور فرقہ بندی کی بو آنے لگی تھی۔ لیکن مولوی کے نزدیک ایک ایک گلی کے اندر پانچ جمعے علیحدہ علیحدہ پڑھانا عمل ہے، بڑی مسجد کے ہوتے ہوئے اہل حدیث اور اہل قرآن کی چھوٹی چھوٹی مسجدیں بنوانا عمل ہے، مولوی کا الگ الگ روٹی کے سامان پیدا کرنا عمل ہے، ڈاڑھی ایک خاص وضع قطع کی رکھ کرتنخواہ انگریز سے لینا اور تنخواہ لے کر الحمد اللہ کہنا عمل ہے، دیو بندیوں اور بریلویوں میں سرپھٹول کے سامان پیداکرناعمل ہے، اپنے فرقے کے سوا باقی سب کو کافر کہنا عمل ہے، نہیں سیالکوٹ کے اہل حدیثوں کو ملتان کے اہل حدیثوں سے علیحدہ رکھنا عمل ہے،مسلمانو!  کسی مولوی کے وعظ، کسی دینی مناظرے، کسی مذہبی رسالے کو اٹھا کر دیکھو ان کے ایک ایک حرف اور لفظ کے اندر یہی سرپھٹول عمل نظر آئے گی۔ تم ان درندوں سے جو تمہاری امت کو چیرپھاڑکرٹکڑے ٹکڑے کر رہے ہیں اور چیلوں اور گدھوں کی طرح ہر دم مردار کی تاک میں لگے ہیں عمل کے معنی کیا سمجھو گے عمل کے اسلامی معنی اگر سمجھنا چاہتے ہو تو جاؤ مصطفی کمال کو دیکھو کہ کیا کر رہا ہے، امان اللہ کو دیکھو کہ اس نے کیا کیا تھا، رضا شاہ پہلوی کو دیکھو کس دھن میں لگا ہے، ابن سعود اور عبد الکریم کو دیکھو کیا کر چکے ہیں۔ بھوکے ملا کو اگر اتنا بھی پوچھو گے کہ دو اور دو کتنے ہوتے ہیں تو وہ بے چارہ یہی کہے گا کہ چار روٹیاں ہواکرتی ہیں۔
مولویوں اور پیروں سے ہٹ کر یہی حال تمہارے اور رہنماؤں اور پیشہ ور لیڈروں کا ہے۔  دیکھ لو آج کونسلوں میں جانا اور پارلیمنٹری بورڈ بنانا اسلامی عمل ہے، کل تک انہی کونسلوں کا بائیکاٹ کرنا انگریز کی ملازمتوں سے استعفیٰ دینا اور گھر بار بیچ کر افغانستان میں ہجرت کر جانا اسلامی عمل تھا، کل تک قرآن کا فتویٰ تھاکہ انگریز کی نوکری، انگریزسے ادنیٰ تعاون، انگریزسے لین دین حرام ہے۔ آج قرآن کا فتویٰ ہے کہ کونسلوں میں جانے کے بغیر مسجد واگذار نہیں ہو سکتی! کل تک کشمیر کو واگذار کرنا اسلامی عمل تھا، آج تیس ہزارانسانوں کو جیل بھیجنے بلکہ تیس ہزار خاندانوں کو برباد کرنے کے بعدکشمیر میں اغیار کا دخل دلاکرخاموش ہوجانا اسلامی عمل ہے۔ کل تک خلافت کے قیام کے لئے پچھتر لاکھ روپیہ جمع کرنا اسلامی عمل تھا۔ آج اس پچھترلاکھ کو ضائع کر کے خلافت کا نام تک نہ لینا اسلامی عمل ہے۔ مسلمانو!اگر غورسے دیکھو توکچھ دال میں کالا کالاکہیں ضرور ہے۔ اتنا دن رات کا فرق قرآن کے بتائے ہوئے عملوں میں نہیں ہو سکتا۔ اسلام صبح کوکچھ اورشام کوکچھ اورکہہ نہیں سکتا ضرورہے کہ یا ہمارے پیشوا قرآن سے محض بے خبرہیں یا قرآن اور اسلام اور تم سے اور معاذ اللہ تمہارے خدا سے محض کھیل رہے ہیں۔
مسلمانو! اگرعمل کی قرآنی تعریف چاہتے ہو تو وہ صاف اورغیرمشکوک ہے۔ قرون اولیٰ کے مسلمان اسلامی عمل کرتے تھے۔ اس کانتیجہ صاف تھاکہ چند برسوں کے اندر اندردنیاکے مالک بن گئے "نعم اجرالعاملین" کی سند اس دنیا میں ہی مل گئی۔ جنگ بدرمیں صرف تین سوتیرہ نے عمدہ عمل کیا، نتیجہ صاف مل گیاکہ عظیم الشان لشکرپرفتح ہوئی اور دشمن کی بیخ اکھڑگئی۔ جنگ احدمیں مسلمانوں نے امیرکے حکم کے خلاف مورچہ چھوڑدیا نتیجہ صاف نکلاکہ خدا نے شکست دی، لشکرمیں بھاگڑمچ گئی۔  آسمان سے وحی آئی کہ تم بزدل اور ظالم ہو، خالص ایمان والے نہیں ہو، موت کی تمنائیں یونہی کرتے تھے، جنت کے حقداریونہی بنتے تھے، جنت میدان میں فتح حاصل کرنے کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اگر ایمان والے بنوگے تو "اعلون" بن سکتے ہو ورنہ ہمارا قاعدہ تویہی ہے کہ کبھی فتح ادھر اور کبھی ادھرجس کا پلہ بھاری دیکھا اس کو فتح دے دی "تلک الایام نداولھا بین الناس" مقصودمسلمانوں پر واضح کرنا تھا کہ خدا صرف سعی کو دیکھتا ہے۔ "ان لیس الانسان الاماسعیاس"کے پیش نظر ہر دم ہے۔ خود رسول کے ہوتے ہوئے امت کو شکست اس لئے دی کہ مسلمان رسول کی موجودگی کاغلط اندازہ نہ کریں، اسلام کے قانون اور دین فطرت کو غلط نہ سمجھیں۔  مسلمانو! اسلامی عمل یہ ہے کہ قرآن نے صاف سورة محمد میں اعلان کر دیا تھا کہ، ”جن لوگوں نے پختہ یقین رکھ کر مناسب عمل کیا اور قرآن کے قانون کے مطابق چلے ان کی دنیا درست ہوگئی“۔ "والذین امنوا وعملوالصلحٰت    وامنوا بما   انزل علی محمد وھو الحق من ربھم کفرعنھم سیاتھم   واصلح بالھم"۔ جنہوں نے قرآن کا عمل سے اقرار کیا اور اپنی مدد آپ کی ان کے قدم مضبوط ہوں گے۔ جنہوں نے انکار کیا ان کو اس دنیا میں پھٹکار ہے اور ان کے عمل اکارت گئے "یایھا الذین امنوا ان تنصر اللہ ینصرکم و یثبت اقدامکم والذین کفرو افتعسا و اضل اعمالھم"۔ الغرض قرآن کاقانون صاف ہے جو کرو گے سو بھروگے، جو بیجو گے سو کاٹو گے، خدا کے نزدیک سب مخلوق برابر ہے، کوئی لاڈلی اور چہیتی نہیں کسی کی رعائت نہیں۔ خدا ازروئے قرآن خودہروقت اور ہر آن کسی نہ کسی کام میں مصروف ہے "کل یوم ھوفی شان" کا مصداق ہے۔ بیکار اور معطل خدا نہیں،کبھی تھکتا نہیں، اس کو کبھی اونگھ یا نیند نہیں آتی، اس لئے خدا انسان سے بھی کام کا طالب ہے، انتھک کوشش مانگتا ہے شبانہ روز عمل چاہتا ہے۔ "تتجافی جنوبھم عن المضا  جع  یدعون ربھم خوفا وطعماً" کہہ کر مسلمان کو اپنے بستروں پر بھی چین نہیں لینے دیتا، رات کو جی بھر کے سونے کی مہلت نہیں دیتا، ہر وقت امت کو ہلاک اور مغضوب خدا بن جانے کا خوف اور بادشاہت اور "انعمت علیھم" بن جانے کی طمع دلا کر پابہ رکاب رکھناچاہتا ہے۔ پانچ وقت روزانہ نماز پڑھ کر چست و چالاک ایک صف میں کھڑے ہونے والے سپاہی، سیدھی قطاروں والے بہادر، سینے تنے ہوئے،  مساوات کے رنگ میں رنگے ہوئے، ایک امیرکے مطیع، ایک آواز پریکساں حرکت کرنے والے، قواعد دان اور وقت کے پابند، خدا کے حضور میں پانچ وقت اپنی اطاعت کا اقرار کرنے والے، مٹی پرماتھا رگڑنے والے خاکسار، زمین پر انکساری سے چلنے والے بندے "وعباد الرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا واذاخاطبھم الجھلون قالو اسلما"۔ لیکن خدا کے قانون پر نہ چلنے والے جاہلوں اور کافروں سے تن کر چلنے والے مسلمان پیدا کرنا چاہتا ہے۔ ہر سال روزے رکھوا کر میدان میں مہینوں اور برسوں بھوکے لڑنے والے سپاہی، ہر برس حج کروا کر ایک مرکز پر جمع ہونے اور تمام دنیا کو خوفزدہ کر دینے والے سپاہی، کلمہ شہادت پڑھوا کر اللہ کے سب سے بڑے جرنیل ہونے کی گواہی دینے والے سپاہی پیدا کرنا چاہتا ہے۔ الغرض قرآن کا عمل صاف ہاتھوں اور پیروں کا عمل ہے، جنگی اور فوجی عمل ہے، خداکابندہ بن کر دنیا پر حکمران ہونے کا عمل ہے، اللہ کا سپاہی بن کر زمین پر غالب ہونے کا عمل ہے"فان حزب اللہ ھم الغالبون"زمین کے وارث بن کر صالح بلکہ اصلح بن جانے کا عمل ہے، خدا کے بندے اور مطیع قانون بن کر بادشاہ زمیں بن جانے کا عمل ہے "ان الارض یرثھا عبادی الصٰلحون" خدا کی یاد اور بڑے جرنیل کاکھٹکا دل میں رکھ کر میدان جنگ میں ثابت قدم رہنے اور توپ سے لڑ کر کامیاب ہونے کا عمل ہے "یایھا الذین امنوا اذا لقیتم فیة فاثبتوا واذکرو اللہ کثیرا لعلکم تفلحون"۔ قرآن کا عمل قرآن کے طول و عرض میں کسی جگہ بھی رہبانیت اور گوشہ نشینی کا عمل نہیں، کسی جگہ بھی تسبیحوں اور چلوں، پھونکوں اور تعویذوں، ذکروں اور تصویروں، مراقبوں اور خوابوں، دویاؤں اورغیب دانیوں، مکروں اورفریبوں، گنڈوں، درودوں، نوشتوں کا عمل نہیں۔ مسلمانوں کے فریب کار ملاؤں،بھوکے اور دغا باز مولویوں اور چالاک اور دکاندار پیروں نے مسلمان کو دنیا میں ناکارہ اور ان کے اپنے مطلب کا آدمی بنانے کے لئے عمل کے معنی بھی گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ جپنا بنالیا ہے تاکہ مسلمان سپاہیانہ زندگی سے ہٹ کر ان کے جال میں پھنسا رہے۔ تمام دن نماز اور نفل پڑھناعمل بنالیا ہے تاکہ مسلمان مسجد کے بے کار اور نابکار مولوی کے ساتھ لو لگائے رکھے۔ مولوی کی روٹی سلامت رہے۔ مولوی اس کو بے کار کر کے اپنے کام کا بنائے رکھے۔مولوی اس کو دنیاوی کامیابی کی شہ دے کروردپڑھنے کے لئے دیتا ہے تاکہ ورد پڑھنے والا بار بار مولوی کے ساتھ لگا رہے، بار بار مولوی کی بندگی کرے، بار بار مولوی کو اپنا رب بنائے "اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ وما امرو لیعبدو اللہ مخلصین لہ الدین"۔
الغرض مسلمانو! مولوی اورپیرکی یہ عمل کی تعریف ازروئے قرآن قطعاً غلط ہے۔ نماز، نفل، ورد، ذکر، تسبیح، دعا ازروئے قرآن کسی معنوں میں عمل نہیں۔ نمازصرف مسلمانوں کی دنیا میں ایک ناقابل شکست اورعالمگیر جماعت پیدا کرنے کا ہتھیارہے۔ اگر اس اوزار کو تیز کرنے کے بعد تم نے اس اوزار سے ایک زبردست سپاہیانہ جماعت نہیں بنائی تو وہ اوزار بے کار ہے نماز بغیر جماعت کے کچھ شے نہیں،"لا صلوٰة الا باالجماعة" صاف حدیث میں ہے۔ اگر نماز پڑھنے سے مسلمانوں کی ایک دنیا کو فتح کرنے والی جماعت پیدا نہیں ہوئی تو وہ نماز اور کچھ بھی ہو لیکن خدا کے ہاں صلوا ة نہیں "اقیموالصلوٰة" پر عمل نہیں، ملا اور پیر اگر تمہیں اپنی مسجدکے اندرباقی اورمسلمانوں سے الگ ہو کر نماز پڑھنے پر زور دیتا ہے اور اس بار بار زور دینے کی وجہ سے تمہیں بکری کے لیلے کی طرح نیک نظر آتا ہے تو صرف اس لئے کہ وہ لومڑی کا مکر کر کے اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے،اپنی روٹیوں کی سلامتی کے فکر میں ہے۔اس کا صاف اور کھلا ثبوت یہ ہے کہ جب تم اس کی مسجد میں نماز پڑھنا چھوڑ دو اور کسی دوسرے مولوی کا دامن پکڑو وہ فوراً تمہیں بد عقیدہ اور ملحد کہہ دیتا ہے، ہر پگڑ دار مولوی دوسرے پگڑ دار مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا اور اس کا مقتدی بننا اپنی بے عزتی سمجھتا ہے، ان مولویوں نے اپنی اپنی روٹیاں اور باسی ٹکڑے برقرار رکھنے کے لئے سال بھر میں صرف دو دفعہ کی عید کی نمازیں بھی الگ الگ کر لی ہیں،ہفتہ میں صرف ایک دفعہ کے جمعے بھی الگ الگ کر لئے ہیں،ذرا ذرا سی بات پر عقیدے بنا کر ٹولیاں الگ بنالی ہیں،عقیدے کا ڈھونگ اس قدر رچایا ہے کہ اب اس بات پر بھی عقیدہ ہے کہ فلاں نماز میں کتنی سنتیں اور کتنے نفل پڑھنے چاہئیں،نماز میں سجدے کے وقت پہلے گھٹنے زمین پر لگنے چاہئیں یا ہاتھ،انگشت شہادت اٹھنی چاہئے یا نہیں،رفع یدین ہونا چاہے یانہیں،آمین زور سے ہو یا آہستہ، سورہ فاتحہ منہ میں پڑھی جائے یا نہیں۔مسلمانو!اگر غور سے دیکھو تو مولوی کے یہ کرتب صرف تمہاری جماعت کو توڑنے کے کرتب ہیں،صرف تمہیں”اقیموالصلوٰةسے ہٹانے کے کرتب ہیں،صرف تمہاری جماعتی طاقت کو ریزہ ریزہ کر کے اپنی دکان سجانے کے ڈھنگ ہیں۔یادرکھو! نماز سے مقصود صرف خدا کے دربار میں حاضری ہے،صرف اس بات کا بندے سے اقرار ہے کہ میں صبح کے وقت بھی مطیع اور فرمانبردار تھا اور ظہر اور عصر کے وقت بھی مطیع ہوں،صرف اس بات کا اقرار ہے کہ ہم سب اکٹھے ہیں، مساوی ہیں،ایک امیر کے حکم پر حرکتیں کرتے ہیں،تیرے حضور میں حاضری دینے آئے ہیں،ہم سب کو جلد سے جلد اور سیدھے سے سیدھے راستے اس منزل تک پہنچا جس منزل پر تیری نعمتیں اور تیرے انعام (ہاں تیرے دنیاوی انعام)ملتے ہیں اس ٹیڑھے راستے پر نہ لے جا جس پر چل کر تو غضب میں آتا ہے،ذلت اور مسکنت دیتا ہے اجتماعی غریبی اور غلامی دیتا ہے،"ضربت علیھم الذلتہ والمسکنة وباءبغضب من اللہ" کا مصداق بنادیتا ہے۔الغرض نماز کا واحد "مقصد اھدناالصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیر المغضوب علیھم  ولاالضالین" کی دعا خدا کے حضور میں بار بار کرنا ہے تاکہ مسلمان ایک بڑی اور عالمگیر،ناقابل شکست اور غالب جماعت بنے رہیں۔
مسلمانو!انصاف سے کہو اور غور سے فیصلہ کرو کہ اس نماز کے پنج وقتہ اقرار میں اگر کسی مسلمان نے جوش میں آکر انگشت شہادت اٹھا دی تو کونسا غضب ہو گیا،اگر نہ اٹھائی توکون سا بڑا جرم سرزد ہوا،اگربندگی کے ولولے میں اونچی آواز سے آمین کہہ دی تو نماز میں کیا فتور ہوا اور اگر نہ کہی تو کونسا بڑا قصور ہوا،اگر چار نفل زیادہ پڑھ لئے توکیا ہوا اور اگر بیس کی جگہ دس تراویح پڑھ لیں توکیا ہوگیا،یہ باتیں اس درجہ کی گناہ کی باتیں ہیں کہ ان کی بناءپر مسلمان اپنی ساٹھ کروڑ(اب ڈیڑھ ارب) کی جماعت کو ٹکڑے کر کے اپنی تیرہ سو برس کی محنت سے بنائی ہوئی سلطنتیں تباہ کر دے،اپنے ملک ویران کر دے،اپنی بادشاہت کو غلامی سے بدل دے،انگریز کی جوتیاں کھانی قبول کرے،اپنی تجارتیں تباہ کرے،ہندوؤں کی قوم سے ہیٹا ہو،جوئیں اور چیتھڑے لے،آہیں اور کراہیں مول لے ساٹھ کروڑ فرقوں میں تقسیم ہو جائے۔مسلمانو!مولوی اگر سچا ہے تو کیوں جھوٹ بولنے والے نمازیوں کو مسجد سے نہیں نکالتا،کیوں زنا کرنے والوں کو بد عقیدہ کہہ کر اپنی مسجد سے الگ نہیں کرتا،کیوں صرف سچوں اور نیکوں اور دیانتداروں کا الگ فرقہ نہیں بناتا،کیوں صرف رفع یدین والوں کا فرقہ بناتا ہے؟کیا جھوٹ بولنا، زنا کرنا،فریب کرنا بدعقیدگی نہیں؟کیا قرآن میں صاف ان کے خلاف حکم نہیں،کیا رفع یدین اور انگشت شہادت کا ذکر تک قرآن میں ہے؟ مسلمانو! ان مولویوں کے بنائے ہوئے دین کے بخیئے ادھیڑ کر دیکھو تو تمہیں پیاز کی طرح چھلکا ہی چھلکا نظر آئے گا۔ کہیں اصلی قرآن اور اصلی حدیث نظر نہ آئے گی کہیں اصلی دین اور اصلی اسلام کا نشان تک نہ ہوگا۔ سب اپنی تن پروری اور حلوے مانڈے کی غرض ہوگی، سب بے رحمی اور کمال بے دردی سے امت کو ٹکڑے کرنا ہوگا۔ سب اپنی پیچدار پگڑی کی حفاظت ہوگی،سب مکر اور فریب ہوگا،خدا سے دھوکہ ہوگا۔رسول سے مکر ہوگا، رسول کی چٹکی کے برابر وقعت نہ ہوگی، سب کسی دوسرے مولوی کو زک دینا ہوگا، سب اپنی کبریائی کو بنانا ہوگا، سب اپنے پکوان کو خوش ذائقہ کرنا ہوگا،جو مولوی ایک شہر میں عید کے دن عیدگاہ کے مولوی کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا وہ مولوی باغی اسلام ہے، اس کی سزا از روئے اسلام موت ہے،جو مولوی ایک شہر میں جمعہ کے دن جامع مسجد کے مولوی کے پیچھے اپنے تمام محلے کے نمازیوں کو لے کر نماز ادا نہیں کرتا وہ منکر اسلام ہے اور اس پر شرع کی آخری حد ہے۔ مصطفی کمال نے اگر ان سب کی بیخ اپنی سلطنت میں اکھاڑ دی تو اس کی وجہ یہی تھی۔ امان اللہ خان اگر ان کو ہلاک کرنا چاہتا تھا تو اس لئے کہ یہ لوگ مسلمانوں کی قوت میں ہارج تھے، سلطنت کی قوت نہ بننے دیتے تھے۔ قرآن اور حدیث کے صحیح معنوں میں منکر تھے، خدا اور رسول کے منکر تھے،خدا اور رسول قرآن اور حدیث مسلمانوں کو دنیا میں غالب کرنا چاہتی ہے۔ یہ مسلمانوں کے طفیل مسلمانوں کے خون پر پلنا چاہتے ہیں۔ مجھے ایک مسجد کے خطیب نے جو تمہارے ہی شہر کا امام تھا باقرار صالح کہا کہ میں جب تک امام رہا میرے دل میں نماز پڑھانا صرف روٹیاں اکٹھا کرنے کا سامان تھا، میرے دل میں نماز کی کوئی وقعت نہ تھی، کوئی خدا کا ڈر نہ تھا، ہم سب بری باتیں مسجد میں بیٹھ کر کرتے تھے اور ذرا نہ جھجکتے تھے۔ ایک دوسرے بڑے مچھندرمولوی کے متعلق جواب ہندوستان کے مسلمانوں کا بڑا لیڈربنا پھرتا ہے، جہلم کے ایک شخص نے قبلہ رو ہوکر اور قرآن ہاتھ میں لے کر کہا کہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے اس کو اپنے میزبان کے مکان میں ایک نہایت برا فعل اس وقت کرتے دیکھا جب کہ کئی ہزار مسلمان نصف میل دور اس کی تقریر کے انتظار میں مر رہے تھے۔ میں بائےسکل پر ان کو بلانے کے لئے آیا اوریہ نظارہ تھا۔ مولوی جی مجھے دیکھ کر ساتھ کی مسجد میں بھاگ گئے اپنے آپ کو صاف کیا پھر ڈاڑھی پر ہاتھ پھیر کر آدھمکے اور قرآن اس قدر بولا کہ لوگوں کی چیخیں نکل گئیں!
مسلمانو! میرا مقصد سب مولویوں کو برا کہنا نہیں، نہ اپنے آپ کو اچھا کہنا ہے میں بھی برا ہوں اور کیا عجب کہ روزِقیامت کو ان سب سے زیادہ پکڑا جاؤں لیکن غرض یہ ہے کہ مولوی کا الگ نمازوں پر زور دے کر امت کے ٹکڑے ٹکڑے کرنا اور نماز کے مقصد کو باطل کر دینا نیک نیتی سے نہیں یہ لوگ اب مسلمانوں کے دلوں میں یہ ڈال کر کہ نماز کا پڑھ لینا ہی صرف عمل ہے اوراس کا اجر روزِقیامت ہی کو ملے گا۔  مسلمانوں کو ہاتھ پاؤں کے عمل سے بے کار کر رہے ہیں۔ اب ایک نیک بخت مسلمان صرف پانچ نمازیں پڑھ کر باقی سب عمل سے غافل ہے۔ وہ مسلمان جو کسی زمانے میں پانچ نمازوں کو (عمل نہیں بلکہ)قوت حاصل کرنے کا بے پناہ ہتھیار سمجھ کر تمام دن ہاتھ پاؤں کے عمل اور سپاہیانہ زندگی میں مصروف رہتا تھا اور اسی ہاتھ پاؤں کے عمل کے باعث دنیا پرحکومت کرتا تھا آج کل شل ہو چکا ہے۔  اس کے سامنے رسمی نماز کے سوا کوئی مقصد نہیں رہا، عام مسلمان بھی جو نماز نہیں پڑھتا یہی سمجھتا ہے کہ ہماری بے عملی یہی نماز نہ پڑھنا ہے۔ اگر ہم سب آج کل کے مولوی کی طرح نمازی ہو گئے تو خدا چھپر پھاڑ کر سلطنت دے گا۔  اوپر سے بادشاہت خود بخود برسے گی کیونکہ خدا اس لئے ناراض ہے کہ ہم اس کو سجدے نہیں کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ عام مسلمان صرف نماز پر زور دیتے ہیں "اقیموالصلوٰة" اور قیام جماعت پر کوئی زور نہیں دیتا۔ کوئی اس بات پر زور نہیں دیتا کہ مسلمانو! سب ایک ہو کر نماز پڑھو،  سب جمعوں کو ایک کردو تاکہ قیام جماعت اور قیام صلواة کی کوئی صورت پیدا ہو،قوت کی صورت پیدا ہو،پھر اس قیام جماعت کے بعد ہاتھ پاؤں کا عمل پیدا ہو۔ سپاہیانہ زندگی پیدا ہو، قلعوں کو سر کرنے کا عمل پیدا ہو۔ مسلمانو! یاد رکھو جب تک قوم میں ہاتھ پاؤں کا عمل پیدا نہ ہو گا، الگ الگ مسجدوں میں جدا جدا نمازیں کچھ پیدا نہیں کر سکتیں۔  انگریزوں کو دیکھ لو ان میں قیام جماعت موجود ہے ان کی نماز تمہیں نظربھی نہیں آتی لیکن خدا کی بخشش کا بے پناہ ہاتھ ان کو دنیا پر غالب کر رہا ہے۔
سیالکوٹ کے مسلمانو اور خاکسار سپاہیو! میں تمہیں عمل کے صحیح اسلامی مفہوم سے اس لئے آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ تم ایک دستکار اور پیشہ ور شہر کے باشندے ہو، تم روزانہ ہاتھ پاؤں کا کام کرتے ہو اور خوب سمجھ سکتے ہو کہ جب تک ہاتھ پاؤں کے دن بھر کے کام سے شام کے وقت کوئی چیز تیار نہ کر لو رات کو مزدوری نہیں ملتی۔ نرے سارا دن اوزاروں کو تیز کرتے رہنے سے شام کو مالک سے اجرت مانگنا مخول معلوم ہوتاہے۔ اسی حساب سے تم تیس ہزار آدمیوں کا پچھلی کشمیر کی تحریک میں جیلوں میں چلے جانا اور پھر کچھ نہ بنا سکنا ایک بے فائدہ عمل تھا۔  تم تیس ہزار جوش میں اپنے پیشہ ور لیڈروں کے کہنے پر چلے گئے اور پھر کچھ نہ بنا۔  یہ امر تمہارے لئے عبرت کا باعث ہوناچاہیے۔ تم اس لئے کچھ نہ بنا سکے کیونکہ تم جماعت نہ تھے۔ صرف ایک ہنگامے میں علی الحساب شریک ہو گئے۔ اگر تم تیس ہزار بھیڑہونے کی بجائے تیس ہزار کی ایک جماعت ہوتے، کسی نظام کے ماتحت ہوتے، کسی مولوی یا لیڈر یا امیرکے حکم تلے ہوتے، عمل کی صحیح تعریف جانتے، ایک مضبوط رشتے میں جکڑے ہوتے تو تم تیس ہزار بہادر ایک کشمیر کیا تمام ہندوستان کو سرکرنے کے قابل ہوتے۔ مجھے تمہاری نادانی پر افسوس ہے کہ دستکار اور پیشہ ور ہو کر تم نے بے فائدہ عمل کیا۔  اب ہوش کے کانوں سے سنو کہ تمہارے سامنے صرف یہ خاکسار تحریک ہے جس میں قیام جماعت کا راز ہے۔ صرف اسی تحریک کے اندر نظام ہے، صرف اسی کے اندر ہاتھ پاؤں کا عمل ہے، صرف اسی کے اندر نقدا نقد مزدوری ہے، صرف اسی تحریک کے اندر داخل ہونے سے تمہاری بگڑی بن سکتی ہے۔ تم ان آنکھوں سے دیکھ لو کہ تحریک میں کیا طاقت نظر آرہی ہے ہر شخص سپاہی بن رہا ہے، سپاہیوں کی قوت پیدا کر رہا ہے، نظام میں جکڑا ہوا ہے، ایک رسی سے بندھا ہے۔تم تیس ہزارکشمیر جاکرکچھ نہ کرسکے اس لئے کہ سب علیحدہ علیحدہ تھے۔  مولویوں کی نمازوں کی طرح الگ الگ نمازیں پڑھتے تھے۔  راکھ کے ڈھیر کی طرح ہوا تمہیں اڑا کر لے گئی اور کچھ نہ بنا۔  ہوش سے سنو قرآن میں صاف لکھا ہے کہ کافروں کے عمل راکھ کے ڈھیر کی طرح ہوا کرتے ہیں۔ ہوا اور تیز آندھی اس راکھ کو اڑا لے جاتی ہے اور بکھیر دیتی ہے اس راکھ کے ڈھیر سے کوئی طاقت حاصل نہیں ہوتی  "مثل  الذین  کفرو ا بربھم  اعما لھم  کبار ا شدت  بہ  الریح" دیکھ لو قرآن کس قدر صاف لفظوں میں کہتا ہے کہ بکھرنے والی جماعت کافروں کی جماعت ہے۔ قرآن حکیم میں کافروں کی تعریف"تحسبھم جمیعا وقلوبھم  شتیٰ"کی گئی ہے یعنی باہر سے ایک نظر آتے ہیں لیکن ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں۔"لا یقدرون مما کسبوا علی شئی" والی جماعت خدا والوں کی جماعت نہیں۔ تم چونکہ نقد مزدروی روزانہ لیتے ہو سمجھ لو کہ کیوں تیس ہزار کے کشمیر جانے سے نقد مزدوری نہ ملی۔  چونکہ تم نے کوئی عمل نظام اور انتظام سے نہ کیا تھا کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ سب عمل اور محنت راکھ کاڈھیر بن گئی سب "لواشرکوا لحبطت اعمالھم" کے تحت میں آگئے۔  یاد رکھو! کہ شرک اور فرقہ بندی ایک شے ہے، شرک اور بدنظمی ایک شے ہے، اب تمہارے سامنے ایک نظام پیدا کرنے والی تحریک ہے۔ تم کو صاف بتلا دیا ہے کہ اسلامی عمل صرف ہاتھ پاؤں کا عمل ہے، تم صاف دیکھ رہے ہو کہ خاکسار تحریک ہی صرف ہاتھ پاؤں کا عمل پیدا کر رہی ہے اس لئے اگر بگڑی کو بنانا اور جلد مزدوری حاصل کرنی ہے تو سب کے سب خاکسار تحریک میں شامل ہو جاؤ، تیس ہزار شامل ہو جاؤ گے اور نظام بنا لوگے تو یاد رکھو کہ جلد بیڑا پار ہے۔

( مورخہ: ۲۹ نومبر۱۹۳۶ء )
علامہ محمدعنایت اللہ خان المشرقی