Pages

Time

Allama Mashriqi's 3rd Speech on Moulvi ka Ghalat Mazhub (10th Aug.1936)


مسلمانو! گجرات کے اس عظیم الشان کیمپ میں جو ہماری پچھلی چار سال کی تاریخ میں خاکسار سپاہیوں کا ایک بے مثال اجتماع ہے اور جس کی کامیابی کا سہرا تمہارے شہر کے نیک نیت سالار اکبر محترم میاں محمد شریف کے سر ہے میں چاہتا ہوں کہ تمہیں بے چین کر دوں۔  تمہارے اطمینان کہ الحمدللہ تم مسلمان ہو، الحمدللہ مسلمان کے گھر پیدا ہوئے ہو، خدائے واحد کے نام لیوا ہو، جنت کے حقدار ہو، اللہ کے لاڈلے ہو، تم پر دوزخ کی آگ حرام ہے وغیرہ وغیرہ ۔  ہاں تمہارے اطمینان کو مشکوک کر کے تمہیں سچا اور کھرا اسلام بتاؤں۔ تم یہاں سے اٹھو تو پریشان ہوکر اٹھو، گھر واپس جاؤ تولڑ کھڑا لڑکھڑا کر چلو۔ تم پچھلے تین سو برس سے ذلیل و رسوا ہوتے گئے ہو،اس لئے کہ تم تسلیوں میں مبتلا ہو۔ آرام کے کونے بنابنا کر مزے سے بیٹھے ہو، تم نے، تمہارے دماغ نے، تمہاری کند ضمیر کی آواز نے، تمہارے نفس نے، تمہارے ذہنی اور دینی پیشواؤں نے کئی قرنوں سے کسی ایسے خطرناک فکر اور سمجھوتے میں پرورش کی ہے کہ اب آنکھیں ہو ہوا کر اس پتلی حالت پر راضی ہو۔ الحمدللہ اس لئے کہتے ہو کہ آرام کی کوئی راہ پیدا ہو، خدا کا شکر کرتے ہو کہ کچھ کام نہ کرنا پڑے۔ شکر ادا کر کر کے خدا کو دھوکہ دینا چاہتے ہو، کہ تمہاری بے محل خوشامد اسے بھلی لگے اور تم سے کسی عمل کا امیدوار نہ ہو۔ تم خدا کو سمجھاؤ کہ اگرچہ وہ سب کچھ چھین کر لے گیا ہے اور غیروں کو دیتا جاتا ہے، مگر چھین جانے کا غم توالگ رہا ہم تو سرے سے کچھ مانگتے ہی نہیں جو باقی ہے وہ بھی لے لے پھربھی راضی ہیں۔ اگر غور سے دیکھو تو یہ اطمینان اور تسلیاں تمہارے کام چورنفس کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ تمہارے دماغوں کا کھلا قصور ہے، ورنہ کوئی ہوشمندشخص اس گھاٹے کے بعدجس میں تم ہو، شکر گذار ہونا تو درکنار ایک لمحے کے لئے چین سے نہیں بیٹھ سکتا ۔
مسلمانو! تمہارے قرن اولیٰ کے باپ داداؤں کے متعلق قرآن میں لکھا تھا کہ، ”خدا ان سے راضی ہو گیا اور وہ خدا سے راضی ہو گئے "رضی اللہ عنھم و رضواعنہ" راضی ہونے کا دستور بھی یہی ہے کہ دونوں طرف رضا مندی ہو،راضی ناموں میں جو تم دنیاوی عدالتوں میں کرتے پھرتے ہو طرفین راضی ہوا کرتے ہیں، دونوں طرف سے پسندیدگی ہوا کرتی ہے۔ آج خدا تم سے سب کچھ چھین چھین کر ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔تمہیں باربارکئی قرنوں سے متنبہ کر رہا ہے کہ، ”میں مسلمانوں کے رویے سے خوش نہیں ہوں“۔ مگر تم ہو کہ خدا کے اس چھیننے پر راضی ہو۔  نہیں بلکہ خود راضی ہو کر نفس کو دھوکا دینا چاہتے ہو کہ اس طرح خدا بھی خوش ہو جائے گا۔ اپنے نفس کے لئے ”الحمدللہ“ کہہ کر آرام تلاش کر رہے ہو کہ سہل چھٹکارا ہو جائے اور کچھ نہ کرنا پڑے۔ یہ عجب ستم ظریفی ہے کہ خدا شدت سے ناراض ہو، درد ناک سزائیں دے رہا ہو،سلطنتوں کے تختے الٹ چکا ہو، گھر سے بے گھر کر رہا ہو، بھوک اور ننگ دے رہا ہو، تجارت، دولت، عزت سب کچھ تباہ کر چکا ہو، ہر مسلمان خوف میں گھرا ہو، بھوک سے عاجزآچکا ہو اور تم چھیننے والے سے یہ امید رکھو کہ وہ لفظوں کی خوشامد سے سزا دینے سے باز آئے۔ اگر غور سے دیکھو تو"رضی اللہ عنہم ورضواعنہ"  کا صاف مطلب یہ تھا کہ خدا قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے کام سے راضی ہو گیا اور قرون اولیٰ کے مسلمان خدا کے انعام سے راضی ہو گئے۔ ایک طرف کام تھا، دوسری طرف انعام۔ جب تک کام ہوتا رہا انعام ملتا رہا۔ راضی دونوں طرف تھے۔ خدا کام لیتا تھا، مسلمان انعام لیتے تھے، میرے چھوٹے سے دماغ میں نہیں آتا کہ تمہاری یک طرفہ رضامندی آج مسخرہ پن اور فریب نہیں تواورکیا ہے۔
مسلمانو!غور سے سنو خدا نے قرآن میں کہا تھا کہ اے مسلمانوں وقت آئے گا جب تم پر تمہارے اپنے کرتوتوں کے باعث غلامی کی بھوک، دشمن کے خوف، دولت میں گھاٹے، تجارت میں نقصان، کمی تعداد، قحط الرجال الغرض اجتماعی ذلت اور مسکنت کا امتحان نازل ہوگا۔ ایسے آڑے وقت میں ہم آزمائیں گے کہ تم کیا کرتے ہو، دیکھیں گے کہ تم کیا علاج تجویز کر تے ہو "ولنبلونکم بشی من الخوف رالجوع ونقص من الاموال ولانفس والثمرات"۔
قرآن نے دوسری جگہ صاف کہہ دیا تھا کہ خدا اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا جب کوئی مصیبت آتی ہے بندوں کے اپنے ہی کئے سے آتی ہے "اما اصابکم من مصیبة فمن انفسکم"۔ الغرض قرآن عظیم نے مسلمانوں کو تنبیہ کر دی تھی کہ ذلت اور مسکنت کا وقت آنے والا ہے اور اس وقت تمہارا امتحان ہوگا اسی آیت کے عین ساتھ ہی اس امتحان میں پاس ہونے کا علاج "وبشر الصٰبرین اذا اصابتھم مصیبتہً قالوا انا للہ و انا الیہ راجعون" کے الفاظ میں لکھ دیا تھا۔ اعلان کر دیا تھا کہ اس مستقل مزاج قوم کو خوشخبری دے دو جو مصیبت کے آنے کے وقت پکار اٹھتی ہے کہ ہم تو دراصل خدا کے ہی ہیں اور اس خدا کے احکام کی طرف پھر رجوع کرکے خدا کو راضی کر لیں گے۔ ان آیتوں کا مقصد یہ تھا کہ مصیبت اس وقت آئے گی جب قانون خدا کی طرف لوٹ آؤ گے جب پھر خدا کا کہنا ماننے لگو گے، جب پھر اس کے احکام پر عمل شروع کر دو گے، جب پھر روٹھے ہوئے اور ناراض خدا کو اپنے عمل سے منالو گے۔ آج تمہاری مکاری اور تن آسانی نے اس عظیم الشان آیت کے معنوں کو توڑ مروڑ کر یہ معنی پیدا کر لئے ہیں کہ اے مسلمانو! خدا تمہارا دوست تو ہر حالت میں رہے گاکیونکہ تم ہی دنیا میں اس کے نام لیوا ہو، لیکن کبھی کبھی تم میں سے کسی کو ذاتی طور پر بھوک اور خوف یامالی نقصان یا رشتہ داروں کی موت کی خفیف آزمائش میں ڈال کر معشوقوں کی طرح تھوڑا سا دکھ دیا کرے گا، تم اس معشوقانہ آزمائش کو دیکھ کر صبر اور تحمل سے چپ چاپ بیٹھے رہا کرو۔ دوست کے دکھ دینے پر”الحمدللہ“پڑھتے رہا کرو اور ساتھ ساتھ"انا للہ وانا الیہ راجعون" کا منتر دھردیا کرو۔ خدا اس تعویذ کے پڑھ لینے کے بعد تمہیں خود بخود کشائش کرے گا۔ میں تمہیں صرف اس ایک آیت کی زندہ مثال دے کر بتلانا چاہتا ہوں کہ تم اور تمہارے مولویوں نے قرآن حکیم کے معنوں کو کس بددیانتی اور دیدہ دلیری سے بدل دیا ہے۔عمل سے بھاگنے کے لئے کیا حیرت انگیز معنوی تحریف کلام خدا میں پیدا کر دی ہے۔آج ہرشخص کسی مسلمان کی انفرادی موت یا ذاتی نقصان "انا للہ وانا الیہ راجعون"کے الفاظ کس تسلی سے دہراتا ہے، کس تسلی سے ان کا دہرانا مذہبی فرض سمجھتا ہے،کس اطمینان سے سمجھتا ہے "انا للہ وانا الیہ راجعون" کا پڑھ دینا ثواب ہے۔ کیا غیروں کو سجھاتا ہے کہ مذہب اسلام چھومنتروں کا مجموعہ ہے، چند کلمے پڑھ لئے خدا کو راضی کر لیا، خدا لاکھ مصیبت ڈالے، گھروں کے گھر برباد کر دے،سلطنتوں کے تختے الٹ دے مگر اس کو صرف اس کی (معاذ اللہ)معشوقانہ ادا سمجھ کر چپ چاپ بیٹھا رہے۔ ”الحمدللہ“کے لفظ بار بار دہرا دیئے گویا معشوق جوتے مارے اور تم اس کی ادا کو بے وجہ ناز اور تقاضائے حسن سمجھ کر خوش بخوش جوتیاں کھاتے رہو۔ سمجھو کہ جوتیاں مخول میں مار رہا ہے ورنہ ویسے تو دل میں راضی ہے۔ انصاف کرو قرآن کے فرضی معنوں سے جو تم نے اپنی کام چوری کے باعث اپنی طرف سے گھڑ لئے ہیں تمہاری کس مشکل کا حل ہو سکتا ہے؟ انصاف کرو کہ ادھر کروڑوں ستاروں اور آسمان و زمین کے مالک خدا پر افترا باندھ کر اس کو اپنا معشوق بنائے رہو، اس کو اتنا محتاج اورچھچھورا سمجھو کہ تم سے صرف تمہارے نام لینے پر خوش ہو جائے اور ادھر اس سے یہ توقع کرتے رہو کہ وہ تمہاری مشکلوں کو گھر بیٹھے آسان کرتا رہے۔ مسلمانو! غور کرو کہ اس دجل و فریب کو ادنیٰ سے ادنیٰ آقا بھی کیونکر منظور کر سکتا ہے۔
گجرات قرآن دانوں کا گھر ہے، پنجاب کے زندہ دلوں کا مسکن ہے، اس شہر کو اسلام فہمی کا مرکز سمجھا جاتا ہے، اس لئے قرآن میں معنوی تحریف کی ایک اور حیرت انگیز مثال بیان کرتا ہوں۔ مسلمانو! تم جانتے ہو کہ دنیا میں تمہاری سب سے جلد اونچا چڑھ جانے کی وجہ تمہاری توحید تھی۔ وہ شے جس نے تمہیں جلداز جلد دنیا کی تمام نعمتوں کا مالک کر دیا تھا۔ تمہارا خدا کو خدا ماننا تھا، تم نے اگر چھتیس ہزار قلعے اور شہر بارہ برس میں سرکرلئے تھے تو اس خدا کے زورپرکئے تھے اس حیرت انگیزحرکت اور عمل کا راز قرآن کے صرف دو جملوں "اعبد اللہ" اور "لا تشرک بی شیئاً" میں تھا۔جن کا ترجمہ آج تمہارے مولوی اور دین کے پیشوایوں کرتے ہیں کہ،”اللہ کی عبادت کرو اور شرک نہ کرو“۔ عبادت کرو کے معنی یوں سمجھائے گئے ہیں کہ پانچ نمازوں اور روزہ، حج کے علاوہ کونوں میں بیٹھ بیٹھ کرتسبیحیں چلایاکرو، چلے ہوں، ماتھوں پر رگڑ رگڑ کر محراب پیدا کرو، ڈاڑھی کی خاص وضع قطع ہو،ٹخنوں سے اوپر پاجامہ ہو، مولوی کو کفن کی چادر ضرور ملے، عید کے روز سویاں ضرور ہوں، شب برات کو حلوہ ضرور ہو وغیرہ وغیرہ۔شرک نہ کرو کی تشریح یوں کر دی ہے کہ ہندوؤں کی دیویوں کے آگے ماتھا ٹیکنا شرک ہے، اس لئے الحمدللہ مسلمان شرک نہیں کرتے، قبروں کی پرستش یا پیروں کو سجدہ کرنا یا اپنی عورتوں کو پیروں کی خدمت کے لئے بھیجنا، خیر یہ معمولی باتیں ہیں”شرک خفی“ ہوسکتا ہے، اصل شے”شرک جلی“سے بچتے رہنا ہے، خدا ان باتوں سے ناراض نہیں ہوتا کیونکہ خدا اپنے نام لیواؤں سے کیونکر ناخوش ہو جائےگا۔ مولوی کہتا ہے کہ یہ کرو گے تو خدا فضل کرے گا، تمام سلطنتیں انگریزوں سے چھین کر ہم عبادت گذاروں کو دے گا، انہیں تو بادشاہت اس لئے دی ہے کہ یہ دنیا مردار کے پیچھے لگے رہیں۔ مجھے سردار عبدالعزیز خان گورنر ہرات نے بارہ برس گزرے کہا کہ امان اللہ خان نے اپنے عہد سلطنت میں مسجدوں کے لئے گھڑیاں تجویزکیں کہ نماز وقت پر ہواکرے۔ ملابگڑ بیٹھے۔ ایک ہرات کے ملا نے فتویٰ دیاکہ گھڑیوں کی بدعت رائج کرنے والا امان اللہ خان اور گھڑیوں کو تقسیم کرنے ولا جنرل نادر خان دونوں کافر ہیں۔ نادرخان اس فتوے سے طیش میں آگیا اور حکم دیا کہ ملا کو توپ کے آگے اڑا دیا جائے۔ سردار عبد العزیز خان کہنے لگے کہ اگر ہم کئی سردار اس وقت حاضر ہو کر جرنیل نادر خان کے غصے کو ٹھنڈا نہ کرتے اور ٹیلی فون کے ذریعے سے اس حکم کو منسوخ نہ کراتے تو غریب ملا کے توپ سے اڑائے جانے میں دو منٹ کی کسر رہ گئی تھی غریب صرف ٹیلی فون کی برکت سے بچ گیا۔ مولوی کہتا ہے کہ جب مسلمان یوں عبادت گزار ہو گئے توفضل خدا سے انگریز بھاگ جائیں گے اور ان کے ساتھ گھڑی اور ٹیلی فون بھی ختم کر دی جائے گی۔  مسلمان آج عبادت اور شرک کی اس مولویانہ تشریح سے بڑا باغی ہے، وہ سوچتا ہے کہ اس عبادت سے اور اس شرک کے نہ کرنے سے بھلا قلعے کیونکر فتح ہوں گے، انگریز کیونکر بمبئی کی راہ سے بھاگیں گے، ٹیلی فون اور گھڑی کو تو وہ اپنی آنکھوں سے کام کرتے ہوئے دیکھ رہا ہے، گھڑی کو اگرچہ مسلمانوں نے ایجاد کیا تھا لیکن گھڑی کو انگریزی ایجاد سمجھ کر اس کا معتقد ہے، لیکن مولوی کی عبادت کی تشریح پر اس کا اعتقاد کچھ نہیں جمتا۔ وہ خود مولوی کو دیکھتا ہے کہ عبادت گذار ہو کر روٹی کے لئے مارا مارا پھرتا ہے، مشرک نہ ہو کر بھی اس کی بگڑی نہیں بنتی۔ وہ ان آنکھوں سے دیکھتا ہے کہ مشرک انگریز ہندوستان پر سلطنت کر رہے ہیں لیکن مسلمان ہے کہ ایک مسجد شہید گنج کو بھی واگذار نہیں کرا سکتا۔ وہ صاف دیکھتا ہے کہ مشرک ہندو کے محلات آسمان سے باتیں کر رہے ہیں، لیکن مسلمان کو سفید زمین پر پناہ نصیب نہیں۔ اس تمام تخیل کا نتیجہ یہ ہے کہ آج مسلمان چلے اورتسبیحیں تو خیر خداکی پانچ نمازوں اور روزہ،حج سے بھی باغی ہو رہا ہے۔ اسلام کی سچائی کا دل سے منکر ہے، قرآن اس کی سمجھ سے باہر ہو چکا ہے، ایمان کی معمولی خاصیتوں کو بھی خیر باد کہہ رہا ہے، یہ سب اس لئے کہ عبادت کے نتیجوں اور شرک کے نقصانوں کو موٹراورٹیلی فون کی طرح آنکھوں کے سامنے صاف نہیں دیکھتا۔
مسلمانو! "اعبد واللہ" کے الفاظ کا منشا یہ تھا کہ اے لوگو! اللہ کے غلام بن جاؤ، اللہ نے جو حکم دیئے ہیں چوبیس گھنٹے ان کو مانو، چوبیس گھنٹے اس کی فرمانبرداری میں لگے رہو جو اخلاق کی تصویر قرآن نے پیش کی ہے، چوبیس گھنٹے اس پر کاربندرہو۔ جس طرح ایک عبدیعنی غلام اپنی مرضی کو آقا کے حکموں کے بالمقابل بالکل فنا کر دیتا ہے اپنے آرام یا نفس کی خواہشوں کی اس کے حکم کے سامنے پروا نہیں کرتا اسی طرح تم اللہ کی غلامی اختیار کرو اس کی بندگی اور قید سے ایک لمحہ باہر نہ ہو قرآن میں حکم ہے کہ میدان جنگ سے پیٹھ نہ پھیرو اس لئے اس کی عبادت اور غلامی یہ ہے کہ کٹ مرو مگر میدان سے نہ بھاگو قرآن میں حکم ہے کہ فرقہ بندی نہ کرو اصلی عبادت یہ ہے کہ سب کے سب ساٹھ کروڑ مسلمان سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک صف بن کر رہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ نماز پڑھو، روزے رکھو، حج کرو، زکواة دو، مال یتیم نہ کھاؤ، اپنوں پر رحم کرو، وعدہ وفا کرو، سچے بنو، غیبت نہ کرووغیرہ وغیرہ بیسیوں احکام ہیں۔ اصلی عبادت یہ ہے کہ ان حکموں پر چوبیس گھنٹے غلاموں اور بندوں کی طرح عمل کیا جائے نہ یہ کہ صرف نماز اور تسبیح کو عبادت سمجھا جائے اور باقی سب احکام کی پرکاہ کے برابر پرواہ نہ ہو۔ صاف دیکھ لو کہ اس عبادت سے کس قدر جلد تمام دنیا کی بادشاہت مل سکتی ہے کس قدر جلد "یرسل السماءعلیکم مد رارًویزدکم قوة الٰی قوتکم" کی پیش گوئی پوری ہو سکتی ہے۔
الغرض عبادت کے قرآنی معنی غلام بننا ہے۔ مسلمان جب تک اللہ کے غلام بنے رہے دنیا کی سب نعمتیں ان کو ارزانی ہوئیں۔ جب اس مشکل غلامی کو چھوڑ کر آسان پانچ منٹ کی نماز کو عبادت بنالیا خدا بگڑ گیا۔ اسلامی قوت کا شیرازہ اس اخلاق پر بندھا تھا جو قرآن میں درج تھا، جب مسلمان اس اخلاق کے عامل نہ رہے شیرازہ بکھر گیا۔ ادھر انگریزوں اور ہندوؤں نے خدا کی عملی غلامی اختیار کر لی خدا انگریز اور ہندو کا طرف دار ہو گیا انگریز، ہندواورمسلمان سب خدا کی مخلوق ہیں، سب پر اللہ کا فیض عام جاری ہے، وہ سب کو ایک آنکھ سے دیکھتا ہے، وہ رب العالمین ہے۔ پس یاد رکھو! جو اس کا بندہ بن گیا خدا اس کا ہو گیا۔ "لاتشریک بی شیاء"کے الفاظ میں بھی وہی راز تھا اور ویسی ہی بددیانتی ان الفاظ کے ساتھ کی گئی۔  خدائے عالم آرا نے مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ اے مسلمانو! میرے ساتھ کسی شے کو (غور کرو شے کا لفظ ہے صرف بتوں اور پتھروں کے الفاظ نہیں) شریک نہ کرو۔ اس کا مطلب صاف تھا کہ میرے سوا کسی شے کے حکم کو نہ مانو۔  ماں، باپ، بیوی، اولاد، فرزند، جاہ، دولت، باغیچوں، مکانوں الغرض کسی ماسوا کے کسی حکم کو میرے حکم کے ساتھ شریک نہ کرو۔  یہ اشیاء وہ سچے بت ہیں جو انسان کے ساتھ چوبیس گھنٹے لگے رہتے ہیں اور خدا کے تکلیف دہ حکموں سے ورغلاتے رہتے ہیں۔ یہ اشیاءسب میری ہی عطا کردہ ہیں اس لئے میرا ہی حکم غالب ہونا چاہئیے "لایشریک فی حکمہ احدا" کے الفاظ میں بھی یہی غیرت تھی اور مطلب یہ تھا کہ خدا اس قدر غیور اور توانا ہے کہ اپنے حکم کے ساتھ کسی دوسرے کے حکم کو شریک کرنا گوارا نہیں کرتا۔ "وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون" کے الفاظ میں بھی یہی حکمت تھی اور منشا یہ تھا کہ میں نے دنیا کے جن و انس کو پیدا ہی نہیں کیا مگر اس فطرت پر کہ وہ میرے غلام بنے رہیں۔  یعنی جب تک میرا حکم مانتے رہیں گے دنیا میں سر بلند رہیں گے۔  جب ماسوا کا حکم مانا برباد ہو جائیں گے۔ یہ اس لئے کہ ماں، باپ، بیوی، بچے، زر، زن، زمین کا حکم ماننے سے تمام قومی قوتیں مفقود ہو جاتی ہیں۔ ہرشخص اپنے اپنے بت کی پرستش میں لگا رہتا ہے۔ قوم، ملک اور جماعت کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کرسکتا۔ سب لوگ الگ الگ ہو جاتے ہیں اور قومی عصبیت کا نشان تک نہیں رہتا۔
مولوی نے آج اس "لا تشرک بی شیاء"  کے مشکل ترین حکم کو پتھر کے بتوں کا آسان شرک (یعنی لا تشرک بی ضنما وحجرا)بنا کر پوری ساٹھ کروڑ امت (اب ڈیڑھ ارب) کو شرک کے گناہ سے قطعاً مبرا کر دیا ہے۔  اب کسی مسلمان کو وہم تک نہیں گذرتا کہ وہ خدا کو کسی زمینی خدا کے ساتھ شریک ہر دم اور ہر لحظہ کر رہا ہے۔  اس کو معلوم نہیں رہا کہ وہ چوبیس گھنٹے ماسوا کا حکم مان کر اور صرف پانچ منٹ زمین پر سجدہ کر کے دراصل خدا کے اس بڑے سے بڑے گناہ کا مرتکب ہو رہا ہے جس کے متعلق خدا نے قرآن میں کہا کہ سب گناہوں کو بخش دوں گا مگر شرک کو قطعاً نہ بخشوں گا۔  آج یہی وجہ ہے کہ مسلمان کم از کم اس دنیا میں بخشا نہیں جاتا لیکن دوسری قومیں بخشی جا رہی ہیں۔ دوسروں پر خدا کی نعمتوں کا لگاتار مینہ برس رہا ہے۔  دوسروں کو خدا سلطنتیں بخش رہا ہے لیکن مسلمانوں سے سلطنتیں چھین رہا ہے۔  اگر مسلمانوں کے ساتھ دنیا میں خدا کی بخشش کا یہ حال ہے تو دیکھ لو کہ آگے چل کر کیا حشر ہوگا۔
اس تمام توضیح سے گجرات کے مسلمانو! میرا یہ مطلب ہے کہ ہمارے پیشوایان دین نے کئی قرنوں سے قرآن حکیم پر وہ خطرناک پردے ڈال دیئے ہیں اور ان پردوں پر اس ضد سے اڑے ہیں کہ اب قرآن کی اس تشریح میں جو ان کے پاس ہے مسلمانوں کی صاف ہلاکت ہے۔  مولوی اس لئے اڑا ہے کہ اس کو قرآن کی صحیح تشریح اس کی اپنی روزی کی صاف موت نظر آرہی ہے۔  اگر وہ قرآن کو کھول کر صاف بتلائے تو اس میں اس کی اپنی دکانداری کی قبر ہے۔ وہ اگر مسلمانوں کو ماسوا سے ہٹائے تو اپنے دن رات کے تین سو ساٹھ بتوں کی پرستش کیونکر کر سکتا ہے۔  مجھے ایک بہت بڑے مولوی اور ایک مذہبی فرقے کے مشہور لیڈر نے نہایت شوخ چشمی سے ابھی تھوڑی مدت ہوئی کہا کہ تم قرآن اور اسلام کو بے حد ننگا کر کے دکھاتے ہو اس قدر صحیح اسلام بتانے میں تمہاری جان کو خطرہ ہے انگریز اس کو برداشت نہ کر سکیں گے تمہارے لئے بہتر ہے کہ تم اپنے مضامین کو شائع کرنے سے پہلے میرے پاس بھیج دیا کرو تاکہ میں اس کو اشاعت کے قابل بنا سکوں۔
مسلمانو! اگر اس پگڑ باندھے ہوئے مولوی کا نام تمہیں بتا دیتا تو تم حیران ہو جاتے اور میری کہانی کو کبھی یقین نہ کرتے۔ اس طرح کچھ مدت ہوئی نواب بہادر یار جنگ نے حیدر آباد دکن میں مجھے ایک خط مسلمانوں کے ایک بہت بڑے کتب فروش رہنما کا دیا یہ خط نواب بہادر کی اس دعوت کے جواب میں تھا کہ خاکسار تحریک میں شامل ہو جاؤ۔
محترم رہنما نے نہایت دیدہ دلیری اور بے حیائی سے نواب موصوف کو لکھا کہ تمہارا مہدوی فرقہ میں ہی جو چار سو سال سے کام کر رہا ہے رہنا درست ہے تمہیں خاکسار تحریک میں شامل ہو کر کیا فائدہ ہو گا۔  مجھے بھی علیحدہ ہی کام کرنے دیجئے۔  ایک اور ہندوستان کے باہر کے پگڑدار مولوی سے جو ہر دم اتحاد اتحاد کا ڈھونگ رچاتا ہے جب تحریک میں شامل ہو کر کام کرنے کے لئے کہا گیا تو کئی ہفتوں تک دعوت دینے والوں کو نرے دھوکے میں رکھا۔  جب بیلچہ اور وردی پہننے کا وقت آیا تو مکر گیا۔  اب صاف مخالف ہے بلکہ خاکساروں کو ورغلا کر اپنے فرقے میں شامل کر رہا ہے۔  ان بیانات کو شاید معاندانہ اور مخالفانہ سمجھا جائے یا مولوی سے کسی ذاتی مخالفت کی تمہید یقین کی جائے۔ میں مولویوں اور علمائے دین کا دشمن نہیں ہوں مجھے ان سے کوئی ذاتی کاوش نہیں میں صرف ان کے بگڑے ہوئے مذہبی تخیل اور کم نظری کا دشمن ہوں اور مسلمان کی ذہنیت کو جلد از جلد بدلنا چاہتا ہوں۔ مسلمانو اگر قرآن کو صفحہ زمین پر آج پھر عملاً دیکھنا چاہتے ہو تو قرآن کی صحیح مگر دھندلی سی تصویر خاکسار تحریک ہے۔
یہ تصویر اسلام کے سچے اورمخلص کارکنوں مثلاً تمہارے شہر کے سالار اکبر محترم محمد شریف کی شبانہ روز سعی سے روز بروز بہتر اور تیز تر ہو رہی ہے۔ ہم خاکسار کے متعلق قرون اولیٰ کے ادنی ترین مسلمان کے برابر ہونے کا دعوے نہیں کرتے لیکن ہمارا دعویٰ ہے کہ خاکسار سپاہی آج اس وقت،ہاں اس روحانیت اور مذہب کے فقدان کے زمانے میں اپنے خلوص، اپنی خدمت خلق، اپنی محبت، اپنی نافرقہ بندی، اپنی سپاہیانہ قابلیت، اپنی انسانی ہمدردی، اپنی اطاعت امیر، اپنے نظم و نسق، اپنی انتظامی قابلیت، اپنی لیڈرانہ استعداد، اپنے خدا سے لگاؤ، اپنی سچی بت شکنی، اپنی اصلی توحید کے باعث اور مسلمانوں سے ہزار درجے بہتر مسلمان بن رہا ہے۔ وہ بے چارا غریب ہو یا امیر صف میں کھڑا ہے۔ اس میں غرور نہیں اس میں آرام جان کا بت نہیں اس کو دھوپ میں کھڑا کر دو کھڑا ہے، زمین پر بٹھا دو بیٹھا ہے، اس کے سامنے مسلمان عملاً برابر ہیں، اس کی کسی مسلمان سے عداوت نہیں، وہ اپنے اپنے عقیدے پر مضبوطی سے جما ہے لیکن باایں ہمہ اس کو کسی دوسرے فرقے کے مسلمان سے عناد نہیں، وہ دوسروں کے آرام کی خاطر فرہاد کوہ کن سا عمل کر تے ہیں، دوسروں کو فائدہ پہنچانے کی خاطر جان پر کھیل جاتا ہے، تمام ہندوستان میں پشاور سے راس کماری اور لاہور سے رنگوں تک ایک ہواہے۔ خاکساروں کی یکساں روحانیت ہے۔ ابھی ابھی پشاور کے سلیم بہادر اور بشیر احمد صدیقی نے، لاہور کے فیروز بہادر اور صدیق بہادر نے، موہڑہ وینس کے ایک اولیا صفت خاکسار محمد خان نے، کوہاٹ کے خاکسار جمعہ خان اور ان کے علاوہ بیسیوں خاکساروں نے وہ زہرہ گداز خدمتیں کی ہیں کہ ہم ان پر فخر کر سکتے ہیں۔ یہ سب مسلمان قرآن کے زندہ اشتہار ہیں، قرآن پر زندہ یقین رکھتے ہیں، قرآن کے نفع مند ہونے کے قائل ہیں، ٹیلی فون، موٹر، وائرلیس اور انجن سے زیادہ اس کے ہونے کے قائل ہیں، ہم یقین رکھتے ہیں کہ مسلمان کی نجات عمل میں ہے، قرآن کو چومنے میں نہیں۔ قرآن حکیم پر عمل کی تصویر جو تم آج اس کیمپ میں دیکھ رہے ہو اور جو صرف ایک نیک نیت سردار کے عمل کا نتیجہ ہے روز بروز زیادہ موثر ہوتی جائے گی، روز بروز منزل مقصود نزدیک تر ہوتی جائے گی، روز بروز خدا متوجہ ہوتا جائے گا بشرطیکہ تم سب کے سب اس تحریک میں شامل ہو تے جاؤ۔ تمام شخصیتوں کو فنا کر دو، نہ دیکھو کہ تمہارا اس وقت سردار کون ہے، کس جاہ کا مالک ہے، عنایت اللہ کی شخصیت کو فنا کر دو، محمد شریف کی شخصیت کو نہ دیکھو صرف یہ دیکھو کہ مسلمانوں کی ایک قطار بن رہی ہے، دائم اور قائم قطار بن رہی ہے، نتیجہ خیز بن رہی ہے، منزل تک پہنچانے والی قطار بن رہی ہے، ہنگامی مجلسوں اور بلند بانگ انجمنوں کی جو تالاب کے کھمبوں، مشروم کی طرح الیکشن اور شہید گنج کے مسئلوں پر اٹھ رہی ہے آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو ان بانیان قوم کا بارود ختم ہو چکا ہے۔
ان کے اندر ہمارے ادنیٰ سے سپاہی کی رہنمائی کی قابلیت نہیں، ان میں ہمارے چھوٹے سے چھوٹے خاکسار جتنی طاقت تحمل و برداشت نہیں، یہ سب مٹ جائیں گے اور خاکسار تحریک رہے گی کیونکر بے غرض اور بغیر چندہ کے چل رہی ہے، کیونکہ خدا کے سچے اور مخلص بندوں کا اجتماع ہے، نہ کونسل میں جگہ لینے کی غرض ہے، نہ مسجد شہید گنج کو آڑ بنا کر فائدہ حاصل کرنے کا مدعا ہو،تمہیں خواہ تم بڑی عمر کے ہو یا چھوٹی عمر کے امیر ہو یا غریب عالم ہویا جاہل اس تحریک میں شامل ہونے کا حجاب نہ ہونا چاہئے ۔ یاد رکھو! کہ قرون اولیٰ میں محمد بن قاسم جو ہندوستان آکر سندھ فتح کر گیا سترہ برس کا نوجوان تھا۔ اسکے نیچے کم و بیش بیس ہزار فوج تھی،اس بیس ہزار فوج میں کیا تم خیال کر سکتے ہو کہ سب کے سب سترہ برس سے چھوٹے تھے، کیا سب کے سب محمد بن قاسم سے کم تجربہ کار تھے؟ نہیں! مساوات اور عشق دونوں میں آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں، کوئی نہیں دیکھتا کہ کون سردار ہے،کس عمر کا ہے، کس قابلیت اور وجاہت کا مالک ہے، فاروق اعظم جب اپنے غلام کو اونٹنی پر سوار کر کے یروشلم میں فاتحانہ حیثیت سے داخل ہوئے مساوات کے نشے میں سرشار تھے وہ نہ دیکھ سکتے تھے کہ غلام سوار ہے اور امیر المومنین پیادہ پا ان کو اس عشق میں کچھ سوجھتا نہ تھا۔ اس لئے مسلمانو! سب کے سب شامل ہو جاؤ۔ مسلمانوں کی ایک قطار پھر بنا دو، نہ دیکھو کہ یہ تحریک گناہ گار اور روسیاہ عنایت اللہ کی ہے یا نیک بخت اور کارکن محمد شریف کی ۔ صرف دیکھو کہ خدا کی تحریک ہے۔  مسجد شہید گنج کے دکھڑوں سے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے آزاد کرانے کی تحریک ہے۔ مسجد شہید گنج کا زخم یاد رکھو ہم خاکساروں کو بھی اس طرح لگا ہے ہم اسے کبھی نہ بھولیں گے ہم نے اس مسجد کے سلسلے میں عظیم الشان قربانیاں کی ہیں۔
ہمارے چار خاکسار گولی کھا کر شہید ہوئے، ہم نے ڈھائی سواسیران قید کو عدالت میں جا کر رہا کرایا، تین سو زخمیوں کی مرہم پٹی کی، بیسیوں مردوں کو دفن کیا۔ لاہور میں مارشل لاءکے زمانے میں علانیہ مسجدوں میں نماز پڑھتے رہے۔ امیر ملت بنانے کا تخیل مسلمانوں میں پیدا کیا۔ پیروں کی پیری کی حقیقت کو واضح کیا۔ الغرض جو کچھ کیا خدا کے لئے کیا کسی پر احسان دھر کر نہیں کیا۔  اب بھی اس مسجد کے بارے میں جو ہو سکے گا کریں گے۔ جب کوئی موقعہ مفید نظر آئے گا میدان میں کود پڑیں گے۔ لیکن سعی لاحاصل کرنا اور ناحق سرکٹوانا ہمارے پروگرام میں داخل نہیں۔ مسجد کو آڑ بنا کر اپنے لئے کچھ پیدا کرنا ہمارا شیوہ نہیں۔ یاد رکھو جس قدر جلد خاکسار تحریک میں داخل ہوگے، جس قدر جلد دس لاکھ باوردی اور بابیلچہ سپاہی پیدا کرو گے اسی قدر جلد تمہاری بگڑی بن جائے گی۔ٍ      

(مورخہ: ۱۰ اگست ۱۹۳۶ء)

علامہ محمدعنایت اللہ خان المشرقی
٭٭٭٭