Pages

Time

یوم میلاد النبیؐ دین اسلام کے سمجھنے کی تقریب! - علامہ المشرقیؒ


یوم میلاد النبیؐ

دین اسلام کے سمجھنے کی تقریب !

٭ علامہ محمدعنایت اللہ خان المشرقی ؒ٭


اگر یوم میلادالنبی کو دنیا کے آخری پیغمبر کی سیرت پر کوئی نتیجہ خیز غوروخوض ہو سکتا ہے تو مسلمانو! اس امر پر غور کرو کہ اس پیغمبر کی تعلیم کیا تھی؟ اس کا لا یا ہوا مذہب کیا تھا؟ مذہب سے انسان کی تمام زندگی کا لگاﺅ ہے ہندو، سکھ، عیسائی، پارسی، بدھ وغیرہ سب اسی الجھن اور معمے میں اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں کہ ان کا مذہب سچا ہے سب کے سب اسی فرضی اطمینان میں ہیں کہ جو کچھ کر رہے ہیں ٹھیک کر رہے ہیں لیکن مسلمانو! تمہارے پیغمبر کی سیرت کاایک ایک لفظ واضح ہے تمہارے پیغمبر کا چھوٹے سے چھوٹا عمل تاریخ کے ورق پر صاف لکھا ہے۔ تمہارے سامنے قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی عملی زندگی روشن حروف میں لکھی ہے تمہیں معلوم ہے کہ مسلمان اپنے پیغمبر کے وصال کے بعد تمام دنیا پر چھا گئے ان کا منتہا کئی سو برس تک یہی رہا کہ دنیا کی تمام اقوام پر غالب آ جائیں۔تمہارے قرآن کے ایک ایک ورق پر صاف لکھا ہے کہ مومن وہی ہے جو اپنا مال اور اپنی جان جہاد بالسیف کرنے کے لئے تیار رکھتے ہیں۔ تمہارے قرآن میں جنت حاصل کرنے کی صاف شرط دشمن سے میدان جنگ میں لڑنا لکھی ہے۔ تمہارے پیغمبر نے اپنی زندگی میں دشمنوں سے کئی غزوئے کئے ان غزﺅں میں وہ بذات خود شریک ہوئے میدان جنگ میں خود سب سے آگے رہتے قرآن کریم نے میدان جنگ میں شریک نہ ہونے اور عذر کرنے والوں کو جہنم کی دھمکیاں دیں۔  ایمان والوں کی تعریف صاف الفاظ میں کر دی کہ اللہ نے میدان جنگ میں لڑنے کو مومنوں کے ایمان کا کافی ثبوت قرار دیا ہے "کفی اللہ المومنین القتال"  یہ تین چوتھائی کے قریب قرآن جہاد بالسیف اور فتح ظفر کے مذاکروں سے پر ہے۔ تمہارے نبی کا قول ہے کہ میدان جنگ میں ایک رات بسر کرنا ستر برس کی عبادت کے برابر ہے کیا۔ قرآن، حدیث اورتاریخ اسلام کیا ان صریح شہادتوں کے بعد تم ا پنے مذہب کو معمہ سمجھتے ہو؟  دین اسلام کے متعلق اختلاف رائے کر کے فرقہ بندیاں پیدا کرتے ہو۔ مذہب سے انسان کی دلچسپی صرف اسلئے ہے کہ اس پر چل کر موت کے بعد جنت ملے اور جہنم کی آگ سے نجات ہو۔ جب قرآن کے اندر صاف لکھا ہے کہ جنت اسی صورت میں مل سکتی ہے کہ میدان جنگ میں جانیں دو اور جہنم اسی بدبخت کے لئے ہے جو میدان جنگ میں جانے سے عذر کرتا ہے تو کیا پھر مذہب اسلام سپاہیانہ زندگی اختیارکرنے اور اس کو تمام عمر نبا ہنے کے سواکچھ اور ہو سکتا ہے؟ کیا دین اسلام کے سچے اور عالم آراءہونے کا یہ کھلا ثبوت نہیں کہ جب سے انسان پیدا ہوا ہے فتح اسی قوم کی رہی جس نے سب سے بہتر اور منظم تر سپاہیانہ زندگی اختیار کی۔ خدا اسی قوم کے ساتھ رہا جس نے مجاہدانہ وطیرہ اختیار کیا ذلت اور مسکنت اسی قوم پرلیس کر دی گئی جس کی جنگی طاقتیں مفقود ہو گئیں۔ کیا دین اسلام اور سپاہیانہ زندگی کے ہم معنی ہونے کی یہ روشن دلیل نہیں کہ جب سے مسلمانوں نے سپاہیانہ زندگی چھوڑ دی، جب سے مذہب کو سپاہیانہ زندگی اور دین کو دنیا سے الگ کر دیا خدا مسلمانوں سے ناراض ہو گیا۔ خدا نے بے دریغ مسلمانوں سے سلطنتیں چھین کر دوسری جنگی قوموں کے سپرد کر دیں کیا اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ سپاہیانہ زندگی کا چھوڑ دینا دین اسلام کو چھوڑ دینے کے متراد ف ہے۔


کسی کی مجال نہیں کہ خدا کے قرآن میں تحریف پیدا کر ے!


مسلمانو! بصیرت کی آنکھیں کھولو! تمہارے پیشوایان دین نے پچھلے کئی سو برس سے صحیح اسلام کو مشکل سمجھ کر نیا اسلام اپنی طرف سے کھڑا کر لیا ہے اب اس مذہب پر چل کر نہ کوئی دنیوی ثواب مل سکتا ہے نہ آخری نجات۔ تمہارے قرآن کا ایک ایک ورق جہاد اور عمل سے ﹸپر ہے۔ سورتوں کی سورتیں ہیں جن میں قتال اور میدان جنگ میں پیٹھ نہ پھرنے کی ترغیب دی گئی۔ مومنوں کے متعلق کہا گیا ہے کہ اللہ نے جنت کے بدلے ان کی جان اور ان کا مال خرید لیا ہے تو کیا ان تمام تصریحات کے بعد مولویوں سے مومن کی تعریف تمہارے دل کو تسلی دے سکتی ہے۔ کیا اللہ کے اپنے کلام کے ہوتے ہوئے خدا روزِ قیامت کو مولویوں کی سند پر تمہیں مومن قرار دے سکتا ہے کیا یہ سندروز جزا دسزا کو کوئی کام آسکتی ہے؟ رسول خدا خود اپنی بیٹی کو یہ تنبیہہ فرماتے ہیں کہ،”روز جزا کو میری شفاعت پر بھروسہ نہ کرنا“۔اپنے متعلق قرآن میں فرماتے ہیں کہ، ”مجھے یہ معلوم نہیں کہ روز جزا کو میرے ساتھ کیا سلوک ہو گا“اور تم مولوی کی غلط سند پر کہ اسلام صرف چند مسائل، شرعی وضع قطع ، عقیدوں ، قولوں یا حد سے حد چند عبادتوں کا مجموعہ ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو یاد رکھو ! کہ اگر مذہب اختیار کرنے کا مدعا روز آخرت کو نجات ہے تو تم ان آسان اور حسب پسند باتوں کے کر لینے سے خدا کی نظروں میں مسلمان نہیں بن سکتے اور روز آخرت کو اس کر توت پر کچھ نہیں مل سکتا تم صحابہ کرامؓ سے زیادہ خدا کے لاڈلے نہیں غزوئہ احد میں جب بعض صحابہؓ نے کمزوری دکھائی اور مورچہ چھوڑ کر چلتے بنے تو خدا نے قرآن میں اس سختی کے ساتھ دھتکارا کہ اس دھتکار کو یاد کر کے برسوں تک حضرت عمرفاروق ؓ روتے رہے۔ جب خود صحابہ کرامؓ بلکہ خود رسول خدا کو اللہ کے احکام ٹالنے کی مجال نہیں توتم اور تمہارے مولوی کس باغ کی مولی ہیں کہ اپنی سند سے خدا کے قرآن میں تحریف پیدا کر دیں، اپنے عقائد وضع کر کے عقیدوں پر لفظی طور پر قائم رہنے کو اسلام سمجھیں ۔

                یاد رکھو! کہ تمام قرآن کے طول وعرض میں ”عقیدے“کا لفظ کہیں موجود نہیں،نہ اس کا کوئی مشتق موجود ہے۔ قرآن میں صرف ”ایمان“ اورعمل صالحہ کے الفاظ موجود ہیں اور جو معنی ان الفاظ کے ہو سکتے ہیں ایک دنیا جانتی ہے۔


قرون اولیٰ کا مشکل اسلام!


مسلمانو!یوم میلادالنبی کو دین اسلام کے سمجھنے کی تقریب بناﺅ۔ نبیؐ کی ولادت کی سالگرہ کا مطلب یہ ہے کہ نبیؐ کو سمجھو۔ نبی نے تئیس برس تکلیفیں جھیل جھیل کر جو کچھ عرب کی کافر اور منافق قوم میں پیدا کر دیا تھا اس کو نہ بھولو۔ نبیؐ نے آٹھ برس کی مسلسل کوشش کے بعد صرف چالیس مرد اور پندرہ عورتیں مسلمان کی تھیں صرف مدینہ کی طرف ہجرت کے لئے تیار کئے تھے اس کو نہ بھولو۔ نبیؐ نے تمام عمر رنج اور تکلیف میں کاٹ کر چار یار پیدا کئے تھے اس کو نہ بھولو۔ نبیؐ کی مدت العمر کی تکلیفوں اور زہرہ گداز محنتوں کے باوجود ان کی وفات کے بعد ہی سارا عرب نبی سے برگشتہ اور دین اسلام سے مرتد ہو گیا تھا ا س کو نہ بھولو۔ نبیؐ کی وفات کے تیس برس بعد ہی عالم اسلام میں دین سے برگشتگی اور فرقہ بندی شروع ہو گئی تھی اس کو نہ بھولو۔  جب دنیا کے سب سے بڑے انسان کی تعلیم کو دنیانے اس مشکل سے اختیار کیا توکیا دین اسلام ہمارے ملاﺅں کی بنائی ہوئی کوئی آسان چیزہوسکتی ہے؟کیا برصغیر کے آٹھ کروڑ یا دنیا کے ساٹھ کروڑ(اب ڈیڑھ ارب)مسلمان صرف مسلمان کے گھر پیدا ہو کر مسلمان بن سکتے ہیں؟

دین اسلام یہ تھا کہ مسلمانوں کا جابر اور تندخوجرنیل عمرؓ مدینہ میں امیرالمومنینؓ ہے امیر المومنینؓ ہونے کے باوجود کھجور کے درخت کے نیچے سخت تپش میں کھجور کی چٹائی پر بیٹھا ہے۔ جسم پر لیٹنے کے باعث بدھیاں پڑی ہیں۔ ایک لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے چیتھڑوں کے پرتلوں میں حمائل کی ہوئی تلواروں اور کند نیزوں سے مدینہ سے ڈیڑھ ہزار میل دور دارا جمشید اور کیقباد کی سلطنت پر حملہ کیا ہوا ہے۔ روزانہ اونٹنی سوار قاصد اور برق رفتار عرب گھوڑوں کے شہسوارمخبر فاروق اعظمؓ کے حضور میں میدان جنگ کی خبریں دیتے اور فوجوں کی تقسیم کے احکام لینے کے لئے پہنچتے ہیں۔ نقشہ جنگ زمین پر پڑا ہے عمرؓ نماز ظہر جلد ازجلد ادا کرنے کے بعد اس فکر میں ہے کہ شاہ ایران یزدجرکو ہتھکڑی لگانے کے لیے فلاں بیس ہزار فوج کس طرف سے روانہ کی جائے قاصدامیرالمونین ؓکے جلال کے سامنے دم بخود حکم کا منتظر کھڑا ہے۔عمرؓ ڈیڑ ھ ہزار میل دور بیٹھ کر حکم دیتے ہیں کہ بیس ہزار کے فلاں دستے کو فلاں راستے سے فلاں مقام پر فوراً منتقل کر کے ہلہ بول دیا جائے۔ غور کا مقام ہے کہ یہ حکم پہنچتا ہے اور کوسوں دور اس کی تعمیل اسطرح ہوتی ہے کہ گویا عمرؓ میدان جنگ میں کھڑے حکم دے رہے ہیں۔

دین اسلام یہ تھا کہ اسی جنگ کے دوران میں قاصد نے اطلاع دی کہ مسلمانوں کے سالاراعظم سعد بن ابی وقاصؓ نے ملاقاتیوں کے ہجوم سے گھبرا کر یا شاید اپنے وقار کو زیادہ کرنے کے لئے کچی اینٹوں کی ڈیوڑھی بنالی ہے تا کہ لوگ اس میں آکر ملاقات کریں۔ ایک خبر تھی کہ سعدؓ کے بدن پر ریشمی کرتہ نظر آتا ہے فاروق اعظمؓ کا چہرہ ان خبروں کو سن کر تمتما اٹھتا ہے عین وسط جنگ میں درآنحا لیکہ ایران ابھی مکمل طور پر فتح نہ ہوا تھا قاصد کو حکم ملا کہ،”سعدؓ کی گردن میں اس کا عمامہ ڈال کر مدینہ حاضر کرو“۔ میرے چھوٹے سے دماغ میں کئی برس تک نہ سعدؓ کا جرم ہوا نہ عمرؓ کا حکم نہ اس کی سزا کی نوعیت سمجھ میں آئی سٹ پٹا رہا کہ الٰہی اس چھوٹے سے جرم پر اتنے بڑے جرنیل کو یہ توہین آمیز سزا اور سزا عین اس وقت جب کہ ایران میں مسلمانوں کی ایک لاکھ بیس ہزار فوج موجود تھی اور ادنیٰ سی سختی بھی دو ہزار میل دور فاروق اعظمؓ سے تمام مسلمانوں کی بغاوت کا پیش خیمہ ہو سکتی تھی۔کئی برس کی سوچ بچار کے بعد میں اس ہوشربانتیجے پر پہنچا کہ اس وقت مسلمان، مسلمان تھے ہندوستان کے فتنہ ساز اور ناکارہ مسلمان نہ تھے مسلمانوں میں نظام خدا کو پیش نظر رکھ کر پیدا ہوا تھا۔ مسلمان کا خدا اور صرف خدا حاکم تھا ۔عمرؓ اور سعدؓ حاکم نہ تھے۔ عمرؓ اگر حکم دیتے تھے تو خدا کے لئے اور سعدؓ تعمیل کرتے تھے تو خدا کے لئے مسلمان اگر دم بخود رہتے تھے تو اللہ کی رسی کو پکڑ کر جب تک اسلام کے موجودہ تخیل کو دماغ سے قطعاً علیحدہ نہ کیا یہ واقعہ قطعاً سمجھ میں نہ آیا الغرض دین اسلام یہ تھا اور اس شان سے صفحہ وجود پر چمکا کہ دماغ کی آنکھیں چکا چوند کر گیا۔


رسول خدا کی زندگی جہد مسلسل میں گذری!


رسول کی زندگی اعلان نبوت بلکہ احسان نبوت سے لے کر آخری دم تک ایک مسلسل ذہنی، اعضائی اور کرداری تگ ودو میں گذری تھی اسی تگ ودو نے ان کو جسمی طور پر بھی تندرست رکھا اور ذہنی حیثیت سے مفکر اعظم کے درجہ تک پہنچا دیا وہ کامیابی کی ہر نظری اور عملی منزل میں معلم اور مبصر یا مجاہد اور مقابل رہے اور ہر جہالت اور مخالف طاقت کو مات کر گئے۔ مکی زندگی میں یہ تگ ودو اکثر غوروفکر یا صبر و شکر یا تعمیر اخلاق کی تگ ودو تھی اور ان کے سامنے کا ئناتی حقائق کے اعلان فطری سچائیوں کے اظہار یا اطاعت وتسلیم کے مجسمے اور جسمانی طاقتوں کے انسانی دیو پیدا کرنا تھا۔

مدنی زندگی درحقیقت ان سب مقاصد کو بروئے کار لانے کی زندگی تھی دس برس کی مدت کوئی بڑی مدت انسانی زندگی کے اعتبار سے بھی نہ تھی لیکن وہ اسی مختصر مدت میں کامیابی کی داغ بیل ہر شق میں پورے طور پر لگا گئے۔حتیٰ کہ ان کا آخری ٹکراﺅ اس وقت کی عظیم ترین سلطنت سے بھی کامیاب طور پر ہوا اور وہ بادشاہ روم بھی رسول کے پیدا کئے ہوئے ایمان ویقین کے بے ہوشوں کے جنون کو دیکھ کر ٹھٹھک سا گیا یہی وہ مبادرت تھی جس کی تعلیم رسول اپنے پیروﺅں کو بدرجہ اتم دینے کا عزم رکھتے تھے اور اگلے تین سو برس کی مسلمانوں کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمان بڑی سے بڑی طاقت سے کبھی نہ ٹھٹکے اور ہر جسمی رکاوٹ کو سیلاب کی طرح بہا کر لے گئے علمی اور اخباری تگ ودو بھی نبی کی نبوت میں اس شان کی تھی کہ مسلمان اگر کماحقہ طور پر اس میں لگ جاتے تو باقی سب دنیا کو مات کر دیتے لیکن رسول کے بعد مسلمانوں کو ذہنی اور اعضائی تگ ودوﺅں کو مناسبت سے ساتھ ساتھ چلاتے رہنے کا سلیقہ نہ رہا اور وہ نظری اور اجتہادی فتنوں کی قیامت میں پھنس کر چلتے چلتے با لآخر دونوں طرف تھم گئے!

آج کے مسلمان کے لئے اس سکون وزوال میں رسول کی زندگی پھر ایک طلسم کارگر کا کام کر سکتی ہے کیونکہ رسول کی دی ہوئی علمی سچائیاں وہ عالم آراءاور آسمان سا سچائیاں ہیں کہ مغرب کی علمی دنیا ہنوز ان سے فی الجملہ بے بہرہ ہے اور مغرب کو ان سچائیوں پر تند ہی سے عمل کرنے کے لئے بغیر کسی شک وشبہ کے بلکہ دھڑلے سے اکسایا جا سکتا ہے۔ ادھر مادی دنیا لاکھ اپنے لوہے اور برق کے ہتھیاروں پر اتر تی رہے اور فطرت کے موانعات پر مکمل فتح پانے کے خواب میں انسان کے ایمان ویقین کو کوئی ہتھیار فی الحقیقت نہ سمجھے لیکن رسول ﷺ عرب کی زندگی کے مطالعے کے بعد یہ امر مسلم ہے کہ مضبوط یقین، زندہ ایمان اور روحانی جنون کے بغیر کائنات فطرت کی عظیم الشان چیستان کا حل پیدا ہو جانا ازبس مشکل ہے اس مطلب تک پہنچنے کے لئے نری مادی طاقت کچھ کام نہیں دے سکتی جب تک کہ اس طاقت کی رگ رگ میں فاطر زمین وآسمان،کو محبت، ولولے اور قلبی تڑپ سے تلاش کرنے کی فولادی سلاخیں جاری اور ساری نہ ہو جائیں اور با لآخر یہ کارخانہ جہاں مادیت اور روحانیت کے متفقہ آویزش اور زور پر دو زندہ اور باخبر روحوں کی باہمی آمیزش پہ مختتم نہ ہو!


روئے زمین کے تختہ پر محمد عربیؐ جیسا عظیم انسان پید انہیں ہوا!


میرا حسابی اور علمی یقین ہے کہ روئے زمین پر اتنا عظیم ترین انسان پیدا نہیں ہوا جس نے اس تھوڑی سی تعداد، اتنے تھوڑے سے سامان اور اس قلیل سرمائے سے جو اس کے پاس اس کی نبوت کے تئیس برس کے دوران میں رہا اتنے عظیم الشان اتنے قطعی اور حتمی اتنے یقینی اور پراز ممکنات نتائج پیدا کئے ہوں۔

میرے خیال میں یورپ، امریکہ اور روس کا بڑے سے بڑا اسائنسی عالم بھی اپنی بنائی ہوئی مشین کے پرزوں کے عمل کے متعلق اتنا قطعی اور یقینی علم نہیں رکھتا جتنا کہ عرب کے ریگستانوں کا یہ عجوبہ روز گار شخص اپنی مٹھی بھر مسلمانوں کی بے چارہ اور بے سروسامان جماعت کو با لآخر سب پرغالب کر دینے کا علم رکھتا تھا!!

بے علم اور بے بصرمولوی تو ضرور اس عظیم الشان شخص کے نام کو انگلیوں پر چوم کر یا اس کو کالی کملی والا رسول کہہ کر اس کی نبوت کا حق اپنے زعم میں ادا کر دیتا ہے لیکن جو بات ازروئے تاریخ اور ازروئے علم دیکھنے والی ہے یہ ہے کہ کیا مکہ کا یہ تاجر،کیا آمنہ کا لونڈیوں کے دودھ پر پلا ہوا یہ یتیم، کیا ابوسفیان اور ابو جہل کے ہاتھوں مکہ کا یہ قیدی اور قریش کا راندہ وماندہ بے کس ، جس نے چند درجن یا چند صد انسانوں میں اپنی تعلیم سے وہ جسمانی زور بھر دیا کہ عرب کے تمام کافروں اور قبیلوں کے سربراہوں کے منہ پھیر دیئے۔ فی الحقیقت ایک ”ان پڑھ“شخص تھا۔ جس کی اپنی تجویز اور تدبیر کچھ نہ تھی، جس کو جبرائیل کی طرف سے وحی آتی تھی کہ پڑھ (اقراء)اور وہ پڑھ بھی نہ سکتا تھا جو کمبل میں لپٹے ہوئے رہتا تھا اور اس کو دنیا ومافیہا کی خبر نہ تھی، جس کے سب کام خدا خود کرتا تھا کیونکہ وہ خدا کا ”محبوب اور معشوق“ تھا وغیرہ وغیرہ ان کامیاب مظاہروں سے جو رسول نے مدینہ میں خالص اپنی تجویزو تدبیر سے ڈنکے کی چوٹ دکھلائے اور جن کا تعلق کلام وحی سے صرف اس قدر ہوسکتاہے کہ وہ وحی ایک انتہائی طور بدکار قوم کے چند افراد تک پہنچی اور اس کی تعلیم کو انہوں نے برحق طور پر قبول کیا۔کوئی سلیم الذہن اور متناسب العقل یہ یقین نہیں کر سکتا کہ ان کارناموں میں کسی مجوز اور مدبر انسان کا کچھ دخل نہ تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ محمد امی یا مزمل یا مدثر یا تہمد پوش فقیر نہ تھا اگر معاذ اللہ خدا نہ تھا تو ضرور اس خدا کا نور علم اس میں تھا جو بار ہا بے بس اور بیکس انسانوں کو پروان چڑھا گیا!! یہ نور علم اس کو کسی زمینی استاد نے دیانہ تھا بلکہ تمام عمر کے مسلسل غوروفکر سے اس نے اپنے سمع وبصر اور قلب سلیم سے حاصل کیا تھا!!


رسول کا پیغام کوئی”مذہب“نہ تھا !


سر زمین عرب میں نبی کی وہ تحریک جو انہوں نے پیدا کی اور جس کو ان کے پیرو چودہ سو برس سے بودھوں‘ یہودیوں ‘ عیسائیوں وغیرہ کی طرح ایک ”مذہب“ سمجھ کر اور مدت سے رسموں اور رواجوں، داڑھیوں اور استنجاﺅں، تسبیحوں اور درودوں، نمازوں اور مصلاﺅں کے چکر میں ڈال کر اس حرکت کی روح ختم کر چکے ہیں اور دنیا ومافیہا کو خیر باد کہہ کر اخروی جنت کے خوابوں میں لگے ہیں۔ وہ تحریک تھی جس کا مقصد تو خیر اس ڈھانچے کا خواب وخیال تک بھی اس کے پیروﺅں میں قرنوں سے نہیں رہا اس حرکت اور نہضت کا صحیح اور اصلی خاکہ اسی وقت ذہن میں آسکتا ہے نہیں بلکہ قرآن عظیم جو اس نبی کا دعویٰ ہے کہ خدا نے بھیجا صحیح طور پر اور قلبی یقین کے ساتھ اس وقت تک خدا فرستادہ سمجھا نہیں جا سکتا جب تک نبی کی تئیس برس میں پیدا کردہ حرکت کے تمام واقعات تاریخ وار قلم بند کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی لائی ہوئی وحی کے ٹکڑوں کو بھی ان واقعات کے ساتھ رکھ کر یہ ثابت نہ کر دیا جائے کہ قرآن حکیم اور نبیوں کی کتابوں کی طرح کوئی مذہب یا الگ جماعت پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ اس کا مقصد جان ومال پر کھیل جانے والی ایک ایسی ناقابل شکست تنظیم پید اکر نا تھا جو روئے زمین کی باقی سب جماعتوں اور دینوں پر مکمل غلبہ حاصل کر کے سب انبیاءکے کارناموں پر پہلے پید اہوئے تفرقے مٹا دے اور تمام نبی نوع انسان کو بلا تفریق رنگ ونسل اس عظیم الشان، اس ہوشربا اور روح افزا اس ولولہ انگیز اور حیات افروز مقصد کے لئے متحد العمل اور سرفروش کر دے جس مقصد کے لئے فاطر السمٰوات والارض نے اس لامحدود کائنات کو پیدا کیا تھا۔

قرآن، چونکہ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ وہ بنی نوع انسان کو خدا کا آخری پیغام اس وقت تھا جبکہ انسان ادنیٰ حیوانوں اور ادنیٰ قسم کی تہذیبوں سے ارتقاءکر کے بہ حیثیت مجموعی کافی طور پر متمدن اور مہذب ہو چکا تھا۔ نیز چونکہ قرآن کا بنی نوع انسان سے خطاب بھی اور آسمانی صحیفوں کی غیر مانند براہ راست خدا کی طرف سے صیغہ متکلم میں تھا اس لئے ایسے آخری پیغام میں لازم تھا کہ خدا انسان پر واضح کرتا کہ میں نے فطرت کے اس عظیم الشان کارخانے کو کس مقصد کے لئے پیدا کیا اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انسان کے کیا فرائض ہیں جو اس پر لازم آتے ہیں۔


عالمگیر تحریک !


قرن اول میں چلائی ہوئی تحریک جو تئیس برس تک نبی نے خود چلائی اور ان کے بعد کئی قرنوں تک عالمگیر بن جانے کی کوشش میں نبی کے پیدا کئے ہوئے عظیم الشان انسانوں نے چلائی کوئی ”مذہب “ بنانے والی یا محمدی جماعت پیدا کرنے والی یا یہودیوں اور عیسائیوں اور بودھوں وغیرہ کی طرح دینی گروہ قائم کرنے والی تحریک نہ تھی جس کے چکر میں مسلمان آج خودپھنس کر اس کو ایک مذہب بنائے بیٹھا ہے اور اس ”مذہب“ کو آسان سے آسان تر بنانے میں مشغول ہو کر جنت کے خوابوں میں مگن ہے۔ بلکہ وہ خلاق ارض وسما کی طرف سے صرف عرب نہیں بلکہ انسان کی پوری نوع کو اپنی لپیٹ میں لینے کی ایک تحریک تھی۔تا کہ اس پوری نوع سے خدا مقصد پیدائش کائنات تک پہنچنے کاکام لے۔جب تک دواور دو چار کی طرح رسول صلعم کے لائے ہوئے پیغام یعنی قرآن کو اس کے اصلی رنگ میں لا کر یہ ثابت نہ کر دیا جائے نہ رسول کو سچاثابت کیا جا سکتا ہے اور نہ قرآن کے خدا کا پیغام ہونے کے بارے میں کوئی قطعی یقین پیدا ہو سکتا ہے۔


نبیؐ کا قاب قوسین کے بعد ”او ادنیٰ“ کا موجودہ مقام!


ہاں ! ایسے عظیم انسان کے متعلق یہ پست نگاہی کہ وہ دنیا سے چل بسے اور ان کی دی ہوئی تعلیم تقویم پارینہ بن کر رہ گئی بڑی تنگ نظری ہے چودہ سو برس کی انسانی تاریخ بزبانِ حال ثابت کر رہی ہے کہ خدائے عالمیان کا یہ قاصد فی الحقیقت ختم رسل تھا۔کیونکہ ان کے بعد کسی فردبشر کو جرات نہ ہو سکی کہ نبوت کا دعویٰ کرے۔

                ایسے خاتم النبیین اور متمم حجت خدا شخص کے متعلق اس کی دنیاوی زندگی کے بعد یہ تخیل کہ وہ بھی اور مرنے والوں کی طرح مر گیا صریحا ًبدگمانی ہے۔یقین اور علم اگر کسی طرف منطقی طور پر رہنمائی کر سکتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ یہ بندہ خدا اپنی زندگی کے تمام طوفان سے گذر کر دو کمان سے قریب تر ہو چکا ہے اور فکان قاب قوسین کے بعد اوادنیٰ کی منزل پر بیٹھا تماشا کر رہا ہے کہ بنی نوع انسان نے اس کے لائے ہوئے قرآن پرکیا عمل کیا اور ابھی اس پر عمل کرنے میں کیا کسر باقی ہے !!!


(بانی خاکسارتحریک........نقیبِ فطرت حضرت علامہ محمدعنایت اﷲخان المشرقی ؒ)