Pages

Time

Tajirana Shahanshahiyat aur Barayshgheer ki Siyasat

یازخم بن کہ خوں سے ہوپےدائش حیات  یاقتل ہوکہ ملت ماندہ ہے بے شعور


تاجرانہ شہنشاہیت اوربرصغیر کی سیاست

خاکساراعظم حضرت علامہ محمدعنایت اﷲخان المشرقی کا 11اگست1946ءکو موچی دروازہ لاہور میں خطاب
عالمگیرجنگ کے بعد دنیا کی سیاست کی صحیح پوزیشن

مسلمانواوردوسرے بھائےو!تم چالےس کروڑ انسان ایک ملک میں جمع ہو،وہ ملک دنیاکا سب سے بڑا آباداور زرخیزملک ہے۔اس ملک پر قبضہ کرنے کےلئے کم وبیش تین سو برس سے مغربی قومیں کشمکش کررہی ہےں، اور اگرچہ رسمی طورسے پچھلے کم وبیش ایک سو برس سے انگریزوں کی صرف چارکروڑقوم کا اس پر قبضہ ہے۔ لیکن ہندوستان کو انگریز سے چھین لینے کی کشمکش ابھی تک ختم نہیں ہوئی۔ اس ہندوستان پرقبضہ کے سلسلہ میں انگریز اوردوسری مغربی قوموں کاتسلط اور غلبہ تمام براعظم ایشیاء پرہوا، پانچ ہزاربرس کی انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ مغربی قوموں نے مشرقی قوموں کو اپنی زیرفرمان کیا، ان پر مغربی تہذیب،  مغربی تمدن، مغربی کلچرکا اثرڈال کر ہندو ستان اورایشیاءکی حیثیت کوغلامانہ بنادیا۔ اسی ایشیاء اور ہندوستان پر غلبہ کی وجہ سے مغربی قوموں نے دنیاکے باقی حصوں مثلاً افریقہ، آسٹریلیا اور امریکہ پرقبضہ کیا، اسی دنیا کی حکومت میں ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل کرنے اور ہندوستان پرقبضہ کرنے کےلئے پچھلے تیس پینتیس برس کے اندردو بڑی عالمگیرجنگیں ہوئیں جن میں ایک طرف دنیا کی حکومت کی حصہ دار سلطنت یعنی(HAVES)اور دوسری طرف دنیا کی حکومت کی بے نصیب سلطنتیں یعنی (HAVES NOTS) مقابل میں تھیں۔  ان دونوں گروہوں میں پانچ برس تک پہلی دفعہ اورچھ برس تک دوسری دفعہ تباہ کن جنگ ہوئی۔ جس کی مثال تاریخ پیش نہیں کرسکتی ان دو لڑائیوں کا نتیجہ آج یہ ہے کہ جرمنی، جاپان، اٹلی تین بڑی عظیم الشان سلطنتیں ایک بے مثال طورپر دہشت ناک ٹکراﺅ کے بعدملیامیٹ ہوچکی ہیں۔ روس کی بدنصیب سلطنت جس کو باقی دنیا کے ٹکڑے کرنے اور آپس میں تقسیم کرنے میں بڑا حصہ نہیں ملا، ابھی باقی ہے۔ امریکہ کی سلطنت جو فی الحقیقت انگریزی سلطنت کی کسی زمانے میں ایک شاخ تھی ۔ دونوں جنگوں میں ایک فیصلہ کن حیثیت حاصل کرنے کے بعد ایک شاہی قوم بن کر پہلی دفعہ نمودارہوئی ہے۔ فرانس کی شاہی سلطنت کا آفتاب کچھ پہلی جنگ عظیم میں غروب ہواتھا، لیکن اس آخری جنگ میں قطعاً غروب ہوچکاہے۔ اب اس وقت پوزیشن یہ ہے کہ دنیاپرحکومت کرنے کی دعویدارتین قومیں ہیں، پہلی دعوےدارانگریز قوم ہے، جس کے قبضے میں دنیاکے زیادہ سے زیادہ ٹکڑے ہیں اورجس کو فی الحقیقت دنیاکی عملی طورپر مالک کہاجاسکتاہے، لیکن اس قوم کے پاس دولت کے خزانے اور دنیا پر قبضہ قائم رکھنے کی علمی یعنی سائینٹیفک (SCIENTIFIC) طاقت نہیں۔  دوسری قوم امریکہ ہے، جس کے پاس دنیا کی دولت کے خزانے اوراےٹم بم ہے، لیکن دنیا کے کسی حصہ پراس کا قبضہ نہیں۔ تیسری قوم بےنصیب روس ہے جس کی جغرافیائی پوزیشن خراب ہے۔ جس کے پاس سمندر اور ساحل نہیں، دولت اور علم نہیں، کسی زرخیز ملک پر قبضہ نہیں، اور جو انگلستان اور امریکہ کی نظروں میں کم و بیش”ایک ایشیائی اوروحشی قوم“ہے۔ جس کا دنیا پر حکومت کرنے کا دعوے دار ہونا ان دونوں کو برا لگتا ہے۔ انگلستان اورامریکہ کی دونوں قوموں میں ایک بڑی اتفاق پیدا کرنے والی طاقت ان کی مشترکہ زبان ہے، لیکن چونکہ انگلستان قرضدارہے، اورامریکہ قرض خواہ ان دونوں رعایتوں کے ہونے کے باوجود ابھی تک آپس میں مل کر ایک ہوجانے کی کوئی صورت نہیں بنی بلکہ امریکہ اس بات کا خواہشمندہے کہ کینےڈاکوکسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ ملا کردنیا میں انگلستان کے نمونہ پر ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیادڈالے، اور مفلس اورنادہندہ انگلستان کو کچل کررکھ دے۔
چالیس کروڑ مسلمانو اور دوسرے بھائیو! اس بلند نقطہ نگاہ سے جو میں نے تمہیں پیش کیا ہے دنیا اور برصغیر کی پالیٹکس(POLITICS)کو دیکھو،  پینتیس برس کی دہشت ناک لڑائی کے بعد یہ قومیں صفحہ زمین پر نمودار ہوئی ہیں، اوراب لڑائی صرف ان تینوں بلکہ اگر زیادہ غورکرو تو دوقوموں یعنی انگلستان اورامریکہ میں ہے۔ انسان کی پانچ ہزار سال کی تاریخ کے بعدقضا وقدر کے محکمے سے جو فیصلہ ہوا ہے یہ ہے کہ دنیا کا صالح ترین حصہ یورپ ہے اور اس میں سے صرف ان تینوں قوموں کے ہاتھوں میں دنیا کی باگ ڈورہونی چاہیے لیکن اس دنیا کی باگ ڈور سنبھالنے کا قصہ ہندوستان پرقبضہ ہی سے پیدا ہوا اور ہندوستان پر قبضہ کرنا ہی دنیا کے تمام پالیٹکس کا محورہے۔ اسی کی چالیس کروڑ آبادی کے ایک ملک میں کیڑوں کی طرح جمع ہونے اور انتہائی طورپرزرخیز ہونے کے باعث تاجرانہ شہنشاہییت یعنی(TRADE IMPERIALISM)کا آغاز ہوا، شہنشاہیت کوتجارت کی غرض سے قائم رکھنے اور تجارت کو شہنشاہیت کی غرض سے فروغ دینے کا مسئلہ شروع ہوا، غلام قوموں کے ملکوں سے کچا مال اور کھانے کی چیزیں برآمدکر کے ان کوبھوکا مارنا، اورآپ آسودہ ہونا، اوربھوک پیدا کرکے ان کو اپنی اغراض کےلئے نچوڑنے کا نظریہ دنیا میں پیدا ہوا۔ یہ ہوش پہلی دفعہ دنیا میں آئی کہ زرخیزملکوں کی قومیں قدرتی طورپر کاہل اورکمزورہوجاتی ہیں۔ کیونکہ روٹی بغیرمشقت کے مل جاتی ہے، اور بھوکے ملکوں کاحق ہے کہ کمزورقوموں کو ہڑپ کرجائے
تمہیں تاریخ میں یاد ہوگا کہ ہندوستان پر قبضہ کرنے سے پہلے انگریزسمندری ڈاکوتھے۔ انگریزوں کے بادشاہ ان ڈاکوﺅں کے سردارتھے، دوسری قوموں کے مال سے لدے ہوئے جہازوں کولوٹ لینا ان کاپیشہ تھا، اسی سلسلے میں ایسٹ انڈیا کمپنی ہندوستان میں وارد ہوئی اوربعد کی تاریخ تمہیں سب کچھ معلوم ہے کہ کیونکر ہندوستان پرقبضہ کیا۔
الغرض ہندوستان کے باشندو! سوچو! کہ اس تین سوبرس میں دنیا میں کیاانقلاب رونماہوا۔ ہندو ستان پرقبضہ کرنے کے بعد اسلامی سلطنتیں کتنی جلدی سے مٹتی چلی گئیں۔ کس تیزرفتاری سے اےشیاءکی رہنمائی یعنی (LEADERSHIP)دنیامیں ختم ہوئی۔کیوں نادر شاہؒ، ٹیپوؒ اوراحمدشاہ ابدالی ؒپھرپیدا نہ ہوسکے۔ جاپان ایشیاءکی لڑائی کی آخری نشانی تھی، اوراب جاپان کے مٹنے کے بعدایشیاء میں کیا عظیم الشان دہرا انقلاب آنے کو ہے۔ سوچو کہ اس سے پہلے دنیا میں تاجرانہ شہنشاہیت ہرگز نہ تھی۔
آریہ لوگوں نے ہندوستان پرکئی ہزاربرس پہلے قبضہ کےا تھا، لیکن ہندوستان کو ہی اپنا وطن بنالیا، مسلمانوں نے ہندوستان ایک ہزاربرس تک سنبھالا، لیکن یہیں کے ہورہے۔ یہ اس طرح کی شہنشاہیت ہرگز نہ تھی، جوآج کل ہے۔ یہ شہنشاہیت راعی اوررعایا دونوں کے فائدے کےلئے تھی، اوربادشاہ اوررعیت،راجااور پراجا دونوں کاگزارہ ہوسکتاتھا، لیکن آج کل کی شہنشاہیت یہ ہے کہ مغلوب قوموں کوبھوکامارکربے بس، اس کے رہنماﺅں کومغربی تہذیب میں رنگ کر بے حس، اس کی سپاہیانہ قوتوں کوکرایہ پر لے کربیکار کرنا، اس کی تجارت اور صنعت پرقبضہ کرکے مفیدمطلب، اس کی سیاست کوفرقہ وارانہ سیاست بناکر بے اثراورکمزور، اس کے ذہنوں کو مفلوج کرکے پست، اس کی ذہنیت کو غلامانہ ، اس کے افق نظر یعنی (HORIZON) کو تنگ، اس کے علم کو کتابی، اسکولی اورغیرعملی، اس کی خواہشوں اورامنگوں کو طفلانہ، الغرض مغلوب قوم کی تمام ابھارنے والی خاصیتوں کو بےکارکرکے اسکوشہنشاہیت کے مطلب کیلئے مفید بنایا جائے، اورکوئی صورت پیدانہ ہوسکے، جس سے وہ غلام قوم یورپ کے پھندے سے آزادہوجائے۔
بھائیو!دنیاکی اس تمام پولیٹیکل حالت میں جو میں نے تمہیں پیش کی اور جنگ کے بعد دنیا کے سنبھالنے کا جو پروگرام اس وقت ان تین قوموں کی آپس کی رقابت میں مرتب ہورہاہے، اس کوسامنے رکھ کرمجھے بتاﺅ کہ، کےااس پروگرام میں ہندوستان کے جیسی قیمتی ملک کوآزاد کرنے کی تجویزکوکسی کونے میں جگہ دی جاسکتی ہے۔ تم چالیس کروڑانسان بھوک سے مررہے ہو، آٹا ڈیڑھ من فی روپیہ کی بجائے تین سیرفی روپےہ بک رہاہو، معمولی غذا کی چیزیں جن کے انبارتمہارے گھروں میں کسی زمانے میں ہوتے تھے تمہیں میسرنہ ہوں، دودھ، ترکاری،گھی،تیل کودیکھنے کےلئے تمہاری آنکھیں ترستی ہوں، تم میں ایک شخص تلوارتوخیرلاٹھی مارنے کے قابل نہ رہاہو۔ تمہاری تعلیم صرف اسکولوں کے امتحان پاس کرنے اور عینک لگاکربابو بننے یاحکومت کا ملازم بننے تک رہ گئی ہو، تمہاراکسی شے کوحاصل کرنے کاتخیل اتنابھی نہ رہاہو جتنا کہ ایک سڑک کے ڈاکوکاہوتا ہے۔ تمہاری آزادی حاصل کرنے کے ارمان صرف نعروں اور ریزولیوشنوں تک محدودہوں۔ تم ایک دوسرے کی جان کے لاگوبن کر ایک دوسرے کے خلاف مردہ بادکے نعرے لگاتے ہو۔ تمہارے سپاہی رہنماءتمہارے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف کپٹیں اور کنے بھربھرکر اپنی جے اور اپنے زندہ بادکے نعرے لگوارہے ہوں ، اور اپنی صدارتوں اورسیٹوں پرخوب براجمان ہوں۔ الغرض ! آزادی حاصل کرنے کے طریقوں کی”الف ب“سے بھی تم کو سوبرس کی غلامی میں محروم کردیاگیاہو، اور تم یہ شیخ چلی کے خواب دےکھ رہے ہو کہ سطح زمین کے پچاس ہزار میل قطر کے کرے کو بے ڈکار ہضم کرنے والی تین قوموں سے سب سے زیادہ خونخوار قوم کس نے اپنی مونچھوں کے بالوں سے انڈونیشیا اورسواراک کے نئے شکاروں کا خون ابھی نہیں پونچا، تم چالےس کروڑکواس حالت مےں کہ تم ہو، آزاد کردےگی۔
                ابھی ابھی چھ سال کی جنگ کے بعدیہ قومیں نیم مردہ ہو کر نکلی ہیں۔ چھ سال کے نقصانات،چھ سال کالین دین،چھ سال کی بھوک، چھ سال کی تہذیب کی ویرانیاں ان کے سامنے ہوں، اوریہ امریکہ قرض خواہ ہوکرمفلس انگریز سے سفارش کرے کہ تم اپنی سب سے بڑی جائیداد خیرات کردو، بھائیوں!تمہاری آنکھوں میں موتیابندہے،اگرتم اس برتے پرشیخ چلی کے خواب دےکھ رہے ہو۔
٭٭٭٭