Pages

Time

صحیفہ فطرت کے مطالعہ کے اندر ہی خدا کے احکام موجود ہیں

صحیفہ فطرت کے مطالعہ کے اندر ہی خدا کے احکام موجود ہیں

فطرت کی اس عظیم الشان حقیقت کو اس بے گمان طور پر تصدیق کرنے کے بعد، دنیا کا یہ سب سے زیادہ منطقی طور پر صحیح مذہب اور انسان کا سچا لائحہ عمل انسان کو اس دنیا میں مستقل کام دینے اور خدا کی صحیح معرفت کرانے کے لئے بیگماں الفاظ میں اس صحیفہ فطرت میں سے خدائی احکام، الہی دستور العمل اور قوموں کی زندگی کا سچا لائحہ عمل تلاش کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ ان ترغیبوں میں اِنَّ (فی الحقیقت) اور لَ (ضرور) کی دو تاکیدیں ہر جگہ موجود ہیں اور صاف بتلایا ہے کہ صرف اس قوم کو جو عقل رکھتی ہے: (لقوم یعقلونo ) ، علم رکھتی ہے: (لقوم یعلمونo) ، یقین رکھتی ہے: (لقوم یوقنونo) ، فکر رکھتی ہے: (لقوم یتفکرونo) ، سننے کی قابلیت رکھتی ہے: (لقوم یسمعونo) نعمتوں کو صحیح استعمال کرنے کی اہلیت رکھتی ہے: (لقوم یشکرونo) عبرت حاصل کرنے کی استعداد رکھتی ہے: (لقوم یذکرونo) ، ایمان رکھتی ہے: (لقوم یومنون ) ، سعی و عمل رکھتی ہے: (لقوم یعمکونo) ، مستقل مزاج اور محنتی اور قدردان ہے: (لکل صبار شکورo) ، خدا نے قانون سے خوفزدہ ہے: (لقوم یتقونo ) ، وغیرہ وغیرہ، ہاں صرف اِن قوموں کے لئے صحیفہ فطرت کے فلاں فلاں مظاہر اور مناظر میں اپنی قسمت کو درست کرنے، صحیح راہ پر چلنے، فطرت کا علم حاصل کر کے ترقی کے اعلیٰ ترین مدارج پر پہنچنے کیلئے بے شمار احکام (ایات)، لا تعداد اشارے (ایات)، بیگماں معجزات (ایات) اور راہ عمل موجود ہے!
یہ آیات جو قران حکیم میں تیس بلکہ اس سے بھی زیادہ مختلف موقعوں پر ہیروں اور موتیوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں، اُن کے علاوہ ہیں جن میں قران نے غیر فانی الفاظ میں زمین کی مخلوق کو صحیفہ فطرت کا مستقل علم اپنی طرف سے دیا ہے اور جو اس قدر حیران کن ہے کہ اس علم کا نام و نشان صفحہ زمین پر موجود نہ تھا جب کہ قران نازل ہوا۔ یہ بحث دراصل تذکرہ کی نویں جلد میں ہے اور ”علم القران“ کے عنوان سے ہے۔ اس کی ایک مختصر سی جھلک تذکرہ کی پہلی جلد میں مسئلہ ارتقاءکی بحث کے ضمن میں موجود ہے اور حدیث القران میں بھی اس کی ایک جھلک دکھلانے کی سعی کی جائے گی۔٭ لیکن قطع نظر قران حکیم کے اُس حِصّے سے جو علم قران ہے، قران حکیم کی ایک حیرت انگیز خصوصیت یہ حصہ ہے جس میں انسان کو فطرت کے مناظر کی طرف متوجہ کرنے اور ان سے احکام (ایات) حاصل کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان آیات میں جو شے قابل توجہ ہے یہ ہے کہ (۱) خطاب عام ہے اور ہر قوم کی طرف ہے اور دعویٰ ہے کہ جو قوم ان مناظر کی طرف توجہ کرے گی اس کو لامحالہ آیات ملیں گی۔ (۲) اُس قوم کے ساتھ ایک مخصوص لقب (مثلاً عقل، علم، یقین، فکر، سمع، شکر، تذکیر، ایمان، عمل، تقویٰ وغیرہ وغیرہ) لگا دیا ہے جس کا ذکر اوپر ہوا۔ (۳) ہر آیت یا مجموعہ آیات میں مطالعہ فطرت کی کئی شقیں ایسی ہیں جن پر مستقل علوم مسلمانوں نے ایجاد کئے یا ان کے بعد اب مغرب میں ایجاد ہوئے (مثلاً: اسٹرانومی یعنی علم النجوم، میٹرالوجی یعنی علم الریاّح، بوٹنی یعنی علم النباتات وغیرہ وغیرہ)۔ لیکن کئی شقیں ایسی ہیں جن کی طرف انسان نے ابھی تک مطلق توجہ نہیں کی( مثلاً رات اور دن کا علم، آسمان سے برسے ہوئے پانی کا علم، شہد کا علم، اختلافِ رنگ کا علم، موت پر رُوح کے قبض ہونے کا علم، بسط و قبض رزق کا علم، نیند کا علم، وغیرہ وغیرہ) (۴) چونکہ انسان کا مقام اس زمین پر بمنزلہ خلیفة اللہ یعنی خدا کا قائم مقام بننا ہے، نیز چونکہ انسان کے متعلق خدائے عزّوجلّ کا اقرار ہے کہ اس میں میری روح بھر دی گئی ہے اس لئے لازم ہے کہ انسان سمیع اور بصیر ہونے کے علاوہ (جس کا ذکر اوپر آیات نمبر(۸) میں ہوا) باقی سب اوصافِ خدا حاصل کرنے کی سعی کرے جن میں سے ایک بڑا وصف یقیناً خلاق ہونا (یعنی زندہ شے پیدا کرنے کا وصف رکھنا) ہے۔ اس نازک معاملہ پر بحث مفصلہ ذیل آیات کے نقل کرنے کے بعد آئے گی، لیکن میں یہاں پر اس واقعہ کی طرف اشارہ پیش از وقت کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے1918ء میں یعنی آج سے ۳۳ برس پہلے صوبہ سرحد کی ریاضی کی ایک علمی انجمن میں ایک معرکة الآرا تقریر کی تھی اور دلائل سے ثابت کیا تھا کہ دنیا کی موجودہ علمی ترقیاں جو پچھلے کئی ہزار برس میں ہوئیں اور جن کا نتیجہ موجودہ علم حساب اور علم طبیعات وغیرہ ہیں، بے حد ناقص اور نارسا اس لئے ہیں کہ ان سب کی بنیاد یونان کی مائی تھالوجی (علم الاوہام) کے منتہا یعنی نقطہ اور خط مستقیم اور دائرہ پر ہیں۔ حالانکہ نقطہ اور خط مستقیم اور دائرہ اگرچہ بادی النظر میں نہایت خوبصورت اور نصب العینی (آڈیو لوجیکل) وجود ہیں لیکن صحیفہ فطرت میں نہ نقطہ موجود ہے نہ دائرہ، نہ خطِ مستقیم، (جو دائرے کی ایک حالت ہے)۔ اسی مجلس میں جو حساب دانوں پر مشتمل تھی میں نے دعویٰ کیا تھا کہ چونکہ حساب کی بنیاد ان تین غیر فطری چیزوں پر ہوئی اور انہی تین چیزوں کو غلطی سے، اور یونانیوں کی خوشامد کر کے، نصب العین (یعنی آئیڈیل) تسلیم کر لیا گیا، نتیجہ یہ ہے کہ تمام علم حساب اور متعلّقہ علوم انہی تین چیزوں کے گردا گرد گھومتے رہے اور ان تین چیزوں کے چکّر سے نہ نکل سکے۔ ایسی غلطی کا المناک نتیجہ یہ ہے کہ ہم اقلیدس سے جیومیٹری اور جیومیٹری سے علم جرّ ثقیل (مکینکس) اور جرّ ثقیل سے مشینوں اور انجنوں کی خلّاقی کی طرف چلے گئے کیونکہ تمام مشینوں اور انجنوں کی بنیاد نقطہ، دائرہ اور خط مستقیم ہیں۔ اب انسان نے اگرچہ تھوڑی بہت خلّاقی ضرور کی ہے اور وہ بڑی عجیب و غریب مشینیں بنا سکتا ہے لیکن وہ مشینیں محض بے جان ہیں اور بیرونی طاقت کے ذریعے صرف گھومنا یا چلنا جانتی ہیں لیکن زندگی کا تمام راز بالکل نایافتہ پڑا ہے۔ بلکہ انسان نے اس مضمون کو قطعاً ہاتھ نہیں لگایا۔ اس مجلس میں میرے اس حیرت انگیز انکشاف سے بڑی سنسنی پھیل گئی اور اس کی آواز یورپ اور امریکہ تک پہنچی۔ 1926ء میں جب کہ میں موتمر خلافت میں مدعو ہوا، ڈاکٹر دورونوف اور پروفیسر آئن سٹین سے یورپ میں میری طویل ملاقاتیں اسی مسئلے پر ہوئیں اور انہوں نے میرے اس موقف کو بے حد سراہا اور کہا کہ ”اگر آپ اس مسئلے کو سنجیدہ طور پر دنیا میں پیش کریں تو ایک انقلاب عظیم برپا ہو سکتا ہے“ بلکہ ”دنیا آپ کو ایک بڑا محسن ماننے کے لئے تیار ہو سکتی ہے۔“ مجھے ان دو عظیم الشان پروفیسروں کی حوصلہ دہی سے بڑا اطمینان ہوا کیونکہ یہ خود اس مسئلے پر بڑے پریشان تھے کہ انسان باوجود اس کے کہ اس نے علم میں اس قدر ترقی کی ہے ابھی تک اس قابل نہیں ہو سکا کہ زندگی کے مسئلے کے متعلق معمولی معلومات بھی حاصل کر سکے۔ میں نے ان کو اصلی وجہ بتائی کہ دراصل ہم یونان کے پُجاری ہیں، صحیفہ فطرت اور خدا کے پجاری نہیں۔ اگر ہم خدا کے پجاری ہوتے تو ضرور اس وقت تک ہم خالقبھی بن جاتے۔ چونکہ اس وقت تک تذکرہ لکھا جا چکا تھا میں نے ان کو قرانی حقائق کئی نشستوں میں بیان کئے اور ان آیات کی طرف توجہ دلائی۔ ڈاکٹر ورونوف چونکہ وہ مشہور شخص ہے٭ جو بندروں کے غدود انسانوں کے خُصیوں میں لگا کربوڑھوں کو جوان کرتا تھا، وہ قران حکیم کی ان آیتوں کو دیکھ کر انتہائی طور پر سرگرم ہو گیا۔ اسی کے ذریعے اور پروفیسر آئن سٹائن کے ذریعے سے مجھے کئی اعزازی سوسائیٹیوں کا فیلو منتخب کیا گیا اور قریب تھا کہ میں بھی دنیا میں ایک علمی انقلاب برپا کروں۔ ۱۹۲۶ء کے بعد چونکہ مسلمانوں کے حالات ہندوستان میں بے حد خراب ہو گئے تھے اور کانگریس کے مقابلے میں کوئی جماعت مسلمانوں کی موجود نہ تھی اس لئے مجھے تذکرہ لکھنے کے بعد مسلمانوں کی قومی زندگی کی طرف رجوع کرنا پڑا اور یہ تمام انقلابی سلسلہ ۱۹۳۰ء  میں میری ملازمت کے ختم ہونے کے بعد ختم ہو گیا۔ ۱۳۹۱ءمیں انٹرنیشنل کانگریس آف اورینٹلسٹس٭ نے مجھے تذکرہ کی تصریحات کرنے کیلئے مدعو کیا لیکن چونکہ خاکسار تحریک شروع ہو چکی تھی میں نے دو بیڑیوں میں ٹانگ اڑانا مناسب نہ خیال کر کے علمی تلاش و تجسس کو یکدم خیرباد کہہ دیا!

          اس کہانی سے مقصد یہ ہے کہ ابھی انسان خلّاقی کے ادنیٰ ترین مراحل بھی طے نہیں کر سکا۔ انسان کی تمام جستجو جو اس وقت تک صحیفہ فطرت کے سلسلے میں ہوئی ہے نہایت سطحی اور عارضی ہے اس تمام تفتیش کی بنیاد علم حساب اور اس سے متعلقہ علوم پر ہے جن کی اساس یونانی نقطہ، یونانی دائرہ اور یونانی خط مستقیم پر ہے۔ علم طب کی بنیاد بھی اسی لحاظ سے محض تجربہ پر ہے۔ اگر کوئی دوا بیمار کو دے کر فائدہ ہوتا ہے تو اس کو تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ تشریح الابدان اور جرّاحی میں بھی صرف چیڑ پھاڑ اور تجربہ ہے حتی کہ چیرنے پھاڑنے والے اوزار بھی وہ ہیں جو فطرت میں موجود نہیں۔ اس تمام فطرت سے ہٹنے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہم فطرت میں زندگی کے راز کو ابھی تک دریافت نہیں کر سکے یا ہماری دریافت کی حد صرف اس تک ہے کہ زیادہ سے زیادہ ایک بیجان یعنی صرف ایک گھومنے والی مشین بنا سکیں، لیکن اڑنے والی مکھی سے ہم کلیتہً بے خبر ہوں حتی کہ ہم کو یہ بھی علم نہ ہو کہ انسان یا حیوان کی پیدائش کا عنصر اوّل یعنی پروٹاپلزم جو ایک خورد بینی غرفہ (یعنی سیل) میں رہتا ہے، کیا شے ہے، اس کے اندر زندگی کیوں ہے، یہ زندگی کیونکر پیدا ہوتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بحث ایک بہت طویل اور انتہائی طور پر علمی بحث ہے اور اس کے کرنے کا یہ مقام نہیں لیکن یہ چند سطریں اس لئے یہاں پر لکھ دی گئی ہیں کہ قران حکیم کی آئیتوں پر جو اس بحث کے ضمن میں آرہی ہیں، مسلمان انتہائی غوروفکر کریں اور ان کو مشعل راہ بنا کر نئے علوم مستنبط کریں اور یونانیوں کے پجاری بننے کی بجائے خدا کے پجاری بنیں تاکہ اُن کو دنیا میں انتہائی سرفرازی حاصل ہو۔ اس سلسلے میں میں چاہتا ہوں کہ آنے والی مسلمان نسلوں کو حوصلہ دلانے کیلئے یہ اشارہ بھی دے جاؤں کہ خلاقی کے سلسلے میں بھی اَور انسانی علوم کی طرح آنے والے مسلمان ہی پہل کریں گے کیونکہ قران حکیم میں ایک نہایت معنی خیز آیت خلاقی کے بارے میں موجود ہے۔ یہ وہ آیت ہے جو میں نے مذکورہ بالا دو پروفیسروں کو مسلمان بنانے کی ترغیب میں پیش کی تھی اور جس کو دیکھ کر وہ خوب سوچ میں پڑ گئے تھے: یا ایھا الناس ضرب مثل فاستمعوالہط ان الذین تدعون من دون اللہ لن یخلقوا ذبابا ولواجتمعوا لہط وان یسلبھم الذباب شیئا لا یستنقذوہ منہط ضعف الطالب والمطلوبo ما قدرواللہ حق قدرہط ان اللہ لقوی عزیز﴿۱۰/۲۲ (ترجمہ۔ اے لوگو! ایک مثال دی جاتی ہے غور سے سنو۔ تم جن انسانوں کو خدا سے قطع نظر کر کے پکارتے ہو وہ ہرگز مکھی نہ پیدا کر سکیں گے۔ خواہ سب کے سب اکٹھے بھی ہو جائیں اور اگر مکھی ان سے کوئی شے چھین لے تو اس سے لے نہیں سکیں گے۔ طالب اور مطلوب دونوں ہی کمزور ہیں۔ انہوں نے درحقیقت خدا کی عظمت کا اندازہ ہی نہیں لگایا بے شک خدا بڑا ہی قوت والا اور عظمت والا ہے) ۔ ان آیات میں مجھے خدائے عظیم کی طرف سے اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان بشرطیکہ اس نے خدا کی عظمت کا پورا اندازہ لگا لیا، ممکن ہے کہ خالق بھی بن سکے اور انشاءاللہ ضرور بن کر رہے گا۔
          مجھے کچھ رنج نہیں کہ مَیں نے کیوں اپنی توجہ علمی مشاغل کی طرف سے ہٹا کر قوم کو دی اور زندگی کے بہترین حصے میں کیوں مسلمان کی طرف لگا رہا، یا کیوں تذکرہ لکھا جس کی قوم نے قدر نہ کی، بہر نوع میں کافی سے زیادہ مطمئن ہوں کہ میں نے اپنا فرض ادا کیا۔

﴿علامہ عنایت اللہ خان المشرقی﴾
از حدیث القرآن صفحہ ۲۲ تا ۲۶