Pages

Time

صحیفہ فطرت کو مسخر کر کے قوم کو مضبوط کرنیوالے اشخاص ہی صالح العمل ہیں


صحیفہ فطرت کو مسخر کر کے قوم کو مضبوط کرنیوالے اشخاص ہی صالح العمل ہیں!

          ان سب تصریحات سے جن کی کوئی دوسری تشریح یا تاویل ممکن نہیں ایک ہی نتیجہ نکلتا ہےکہ خدا کے چنے ہوئے یہ بندے جن کو خدا کی طرف سے قوم کی امامت سپرد ہوئی تھی وہ بڑے جلیل القدر، صاحب جدّوجہد اور باعمل لوگ تھے جو اپنی اپنی قوموں کو فلک الافلاک تک پہنچا گئے، جنہوں نے صحیفہ فطرت کا علم حاصل کرنے میں (اُس وقت کے معیار کے مطابق) انتہائی کوشش کی، جنہوں نے حکومت اور سلطنت کی بنیاد حق پر رکھی، کسی ظن وگمان کو انہوں نے اپنے ذہنوں میں داخل نہ ہونے دیا، صحیفہ فطرت کو کسی عنوان سے باطل نہ سمجھا۔ اُن کی ”ا یابت“ قانون خدا کی طرف لوٹ لوٹ کر عمل کرنے والی ایابت تھی، وہ آج کل کے ملا کے قابل نفرت قول کے مطابق دن رات گوشوں میں بیٹھ کر اللہ اللہ پکارتے نہ تھے بلکہ خدا کی بنائی ہوئی فطرت کی ہر شے کی تسخیر کے درپے تھے اور یہی فطرت کو مسخر کرنا ان کا حسن عمل اورعملوا الصلحت تھا۔ وہ صحیح معنوں میں ہاتھوں والے اور آنکھوں والے انسان تھے جو قوموں کو نجات کی راہ دکھلا گئے، گوشوں میں تسبیح پھیرنے والے اور نرے اللہ اللہ کرنے والے یا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر اور آنکھیں میچ کر کمبل میں لپٹے ہوئے اُونگھنے والے بیکار شخص نہ تھے جن کے غول کے غول آج مسلمانوں کی خانقا ہوں، مسجدوں، گوشوں اور جنگلوں میں بیٹھے ہوئے خلق خدا کو اپنے قرب خدا کا دھوکہ کئی صدیوں سے دے رہے ہیں اور قوم کی کشتی کو ہلاکت کے منجدھار میں غرق کر کے خدا کے غیظ و غضب کی دعوت دے رہے ہیں۔
          دیکھنا یہ ہے کہ ۵ نبوی کے وسط میں اس سورت ص کے نزول سے مقصد، رسول صلعم کے مٹھی بھر ساتھیوں کو پہلی سورتوں کے کردار و اخلاق کا بلند تخیل، کفار سے بالآخر قتال و جہاد کرنے کا تخیل، خداکے حکموں کی پے در پے تعمیل کا تخیل، خدا کا دل میں مسلسل کھٹکا رکھنے کا تخیل، اطاعت امیر کا تخیل، کافروں کے برُے انجام کا تخیل، اپنے لئے بادشاہت زمین کا تخیل، خوبصورت عورتوں کے ملنے کا ذھن انگیز تخیل، خدا کے حضور میں صبح و شام پچھلے پہر، رات کو کھڑے ہوکر عاجزی محسوس کرنے کا تخیل، وغیرہ وغیرہ دے کر اب یہ تخیل بھی دینا تھا کہ فطرت واحد حقیقت ہے، فطرت کے بڑے کارندے یہ انبیا تھے جو اپنی قوم کو امن اور سلامتی دینے آئے تھے، وہ ہاتھوں اور آنکھوں والے ہوشمند بندے تھے، اسی لئے خدا نے اُن کو چن لیا تھا، چادروں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر لمبے لمبے سانس خدا کے سامنے عاجزی دکھلانے کے لئے بھرنا اسلام نہیں ہے، خدا کے حضور میں کھڑے ہونا صرف دلوں کو عمل کے لئے نرم کرنے کے لئے ہے، اس لئے ان سب تخیلات میں جو تم کو بذریعہ وحی دئیے جا رہے ہیں قسط و اعتدال سے رہو، کسی بات میں غلو نہ کرو، قل امر ربی بالقسط : کے آنے والے حکم کے مطابق ہر تخیل کو پورے طور پر نباہنا ہی اسلام ہے، قرآن کے ایک حکم سے غافل رہ کر دوسری طرف زیادہ جھک جانا بھی شیطانی وسوسہ ہے اس لئے ان لغزشوں سے بچتے رہو۔
          اس تصریح کے بعد سورة صٓ میں پھر وہی قصہ آدم اور شیطان کا دُہرایا کہ وہ مخلوق خدا کو تا روز قیامت بہکاتا رہے گا لیکن خدا کی دھمکی یہ ہے کہ وہ اور اس کے تمام حواری جہنم میں بھر دئےے جائےنگے۔ ان تمام تصریحات کی بنا پرقرآن کو سورت کے اخیر میں ان ہو الا ذکر للعلمین ﴿۵/۳۸کہا یعنی یہ قرآن تمام دُنیا جہان کے لئے باعث نصیحت و عبرت ہے!!

﴿علامہ عنایت اللہ خان المشرقی

از تکملہ  جلد اول ﴿سیرت النبی صفحہ ۱۹۴ تا ۱۹۶