Pages

Time

قرآن کی پریشاں ترتیبی کے علاوہ’’ فتنہ کتابت‘‘ زوالِ اسلام کا ذمہ دار ہے - علام المشرقی


قرآن کی پریشاں ترتیبی کے علاوہ’’فتنہ کتابت‘‘زوالِ اسلام کا ذمہ دار ہے

رسولِ خدا جس طرح کا مومن بنا کر گئے وہی مومن ہو سکتا ہے۔ خدا کا صحیح تصوّر کیا ہے ،ملاقات خدا کے لیے صحیح جدّوجہد ۔تحریک اسلام کا پھر احیاء کیونکر ہو سکتا ہے؟
لیکن میری دانست میں رسول خدا صلعم کی قرن اوّل میں چلائی ہوئی تحریک کے بالآخر اور مذہبوں کی طرح صرف ایک پُر سکون اور شخصی مذہب بنا دینے کا مجرم مسلمان کا مولوی یا اس کا اپنا نفس، یا بڑی مدّت کا گذر جانا ہی نہیں بلکہ اس کا زیادہ تر باعث تحریک کے رفتہ رفتہ مدّھم ہو جانے کے بعد وہ رنگ ہے جس رنگ میں کہ اسلام عام اور سکون زدہ مسلمانوں کے سامنے پیش کیا گیا۔ جوں جوں اسلام کی چلتی ہوئی گاڑی تھمتی گئی اور آگے چلانے کی ہمّت لوگوں میں نہ رہی، مسلمانوں نے دین اسلام کو سمجھنے کے لیے، قرن اوّل کا ماحول پھر چلانے کی بجائے، کتابوں، مکتبوں، تفسیروں، تلاوتوں اور درس و تدریس قرآن کو اپنی شمع راہ بنا لیا۔ اس فتنہ کتابت نے نہ صرف دین اسلام کی اصلی تصویر مسخ کر دی بلکہ قرآن کو اور مذہبی کتابوں کی طرح صرف تلاوت کرنے اور چوم کر بالائے طاق رکھنے والی شے بنا دیا۔ اُدھر سب سے بڑا ظلم جو قرآن کے ساتھ ہوا تھا کہ جس ترتیب سے وحی اُتری تھی (یا بالفاظ دیگر جس طریقے اور تدّبر سے مختلف اوقات میں اور طرح طرح کی ہدایتیں اور دھمکیاں یا ترغیبیں دے کر خدا نے عرب کے شدید ترین منافقوں اور کافروں کو دُنیا کے سب سے بڑے خدا کے جان نثار بنایا تھا) اس ترتیب کو قطعی طور پر نظر انداز کر کے قرآن کی سورتیں گڈ مڈ اس طرح کر دیں کہ ان کا کوئی سیاق و سباق نہ رہا۔ کسی کو خبر نہ رہی کہ وہ کیا ماحول تھا جس کی وجہ سے خدا کی طرف سے اس پیغام کا آنا، یا عذاب و ثواب اور جنّت اور دوزخ کے ذکر کو دُہرانا لازم ہو گیا تھا۔ وحی کا رسول خدا پر نازل ہونا بذات خوداتنا اہم واقعہ تھا کہ اس کی ایک ایک سورت اور آیت کے متعلّق اوقات اور واقعات پورے طور پر ضبط تحریر میں آنے چاہئیں تھے۔ آج مختلف سورتوں اور آیتوں کے وقت نزول کے متعلّق (بلکہ بعض سورتوں کے مکّی یا مدنی ہونے کے متعلّق بھی) اس قدر تفاوت ہے کہ حالات کی تہ تک پہنچنے کا متلاشی انسان پریشان ہوہو جاتا ہے۔ مہینوں کا تعیّن تو درکنار کئی اہم واقعات کے سنّ وقوع میں ہی اختلاف ہے۔ ان حالات میں دین اسلام کی رسولؐ کے ہاتھوں چلائی ہوئی تحریک کا دماغوں سے اوجھل ہو جانا لازمی امر تھا اور جب تک وہ واقعات چودہ سو سال کے بعد پھر اُسی تسلسل اور تواتر سے دُہرا کر قرآن اور رسولؐ پر پھر وہی سچا یقین پھر پیدا نہ کر دیا جائے بلکہ اعلان عام نہ کر دیا جائے کہ دین اسلام صرف وہی اسلام ہے جس پر رسول خدا اپنی تئیس برس کی نبّوت کے آخری دم تک عمل پیرا رہے اور نہ اسلام کو سوائے اس ڈھانچے کے جس میں رسول خدا نے اُسے ڈھالا تھا کسی اور شکل میں بدلا جا سکتا ہے، شکست خوردہ اَور ماندہ اُمّت کی قسمت کس طرح بدلی جا سکتی ہے؟
یہ امر تاریخ سے ثابت ہے کہ رسول خدا انتقال کے چند روز پہلے تک کفار سے جہاد بالسّیف کی مہم میں پابہ رکاب رہے۔ مدینہ کی دس برس کی جنگی زندگی میں انہوں نے ایک لمحے کے لیے کسی دوسرے اسلام کی تلقین نہ کی۔ مکّہ کی تیرہ برس کی نبّوت کے دوران میں وہ ایک لمحہ کے لیے کفّار کو شکست دینے والے مسلمان پیدا کرنے سے غافل نہ رہے۔ اس بنا پر کوئی شخص جو اُس اسلام پر آج عمل پیرا نہیں نہ مسلمان کہا جا سکتا ہے، نہ وہ سکون و اطمینان کی زندگی جو مسلمانوں نے اُن کے بعد اختیار کی دین اسلام کہی جا سکتی ہے، نہ ایمان کا کوئی اَور مفہوم سوائے اُس ایمان کے جو قرن اوّل کے تئیس برس کے مسلمانوں میں تھا، لیا جا سکتا ہے۔ نہ قرآن کی جزائیں اور جنّت کا مومنوں کو ملنا سوائے اُس قطع کے مومنوں کے جو قرن اوّل میں تھے کسی اَور قطع کے مسلمانوں پر عائد ہو سکتا ہے۔ یہ صرف اس لیے کہ رسول صلعم نے آخر دم تک کسی اَور قطع کا اسلام سکھلایا ہی نہ تھا بلکہ اُسی وضع قطع کے اسلام کو جو انہوں نے سکھلایا تھا اکملت لکم دینکم : (۵/۱  المائدہ) کی آخری وحی پیش کر کے مکمّل کر دیا۔ اور اس پر اپنی مہر لگا دی۔ اب جب اس ’’مکمّل‘‘ اسلام کے بعد کسی ترمیم کی گنجائش ہی باقی نہ رہی تو اسلام کی کوئی اور تعریف کیونکر ہو سکتی ہے؟ قرآن کی سورتوں اور آیتوں کو علی الحساب جمع کر دینے کا ظلم اور سب سے زیادہ یہ کہ اُن کے نازل ہونے کے ماحول و احوال کو ضبط تحریر میں نہ لانے کا ظلم قرون اولیٰ کے مسلمانوں کی طرف سے ایک بڑا تعجب خیز واقعہ اس لیے ہے کہ انہوں نے رسول خدا کی نبوی زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے واقعہ کو نہایت محنت اور دقّت سے قلمبند کیا تھا۔ حیرت ہے کہ رسولؐ کے ان شیدائیوں نے نزدلِ وحی کے اہم ترین واقعات کو کیونکر نظر انداز کر دیا اور کیونکر اس کو رسولؐ کی نبوی زندگی کا اہم جزو نہ سمجھا۔ اب بہر نوع جس گھاٹے میں مسلمان اس وجہ سے ہیں اُس کی تلافی اسی طرح ہو سکتی ہے کہ قرآن کو دوبارہ حتی الامکان اُسی ترتیب سے پھر پیش کیا جائے جس ترتیب سے کہ وہ نازل ہوا تھا اور پھر اُس ترتیب سے پیش کرنے کے ضمن میں ہی قرآن کی اُس تعلیم کو واضح کر دیا جائے جس تعلیم نے قرن اوّل کے وہ عدیم المثال ایمان والے لوگ پیدا کئے جنہوں نے بالآخر رُوئے زمین کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔

علامہ المشرقی 
تکملہ جلد (اول) صفحہ نمبر ۸۵ تا ۶۰