Pages

Time

Quran ko Samjhne k liye Bulandi Nigah kya ho! By Allama Mashriqi

قرآن کو سمجھنے کے لئے بلندی نگاہ کیا ہو!

کسی کتاب کے مفہوم کو جو مصنف کے ذہن میں ہے سمجھنے کے لئے اس کے مصنف کی حیثیت کو پیش نظر رکھنا بھی لازمی ہے قرآن اگر اس بے مثال وجود کا کلام ہے جس نے آسمان کے کروڑ در کروڑ ستاروں اور سیاروں کو پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ اس زمین کو بھی پیدا کیا اور یہ کلام اس وسیع زمین کے ایک چھوٹے وجود یعنی انسان کو اس نا پید کنار مخلوق میں راہ دکھانے کے لئے ہے تو لازمی ہے کہ اس کلام میں اس حد تک بڑائی ہو کہ جس کا تصور بھی انسان کے ذہن میں نہیں آسکتا یہ بڑائی ظاہر ہے کہ سمجھ میں نہیں آسکتی جب کہ انسانی نگاہ بھی کافی وسیع اور بلند نہ ہو انسان کی بلندئی نگاہ یہ ہے کہ وہ قرآن کو سمجھتے وقت تمام کائنات (بلکہ اس کی پچھلی داستان کو جب سے وہ پید اہوئی) آنکھوں کے سامنے رکھے قرآن کے نقطہ نظر کو سمجھنے کیلئے اپنے آپ کو آسمان کے افق اعلیٰ تک بلند کرے اور پھر وہاں کھڑا ہو کر سمجھنے کی کوشش کرے کہ قرآن نے کیا کہا مثلا ان فی السملوات والارض لایات للمومنین (۴۵/۳ سات الفاظ کی ایک چھوٹی سے آیت قرآن میں ہے جس میں وہ تاکیدی الفاظ ان یعنی (درحقیقت ) اورل یعنی(ضرور) کے ہیں اور ترجمہ ہے کہ بیشک آسمانوں اور زمین میں ایمان رکھنے والوں کیلئے ضرور بہت سے اشارے ہیں پست نظر انسان کی نگاہ جس نے آسمانوں اور زمین کو غور سے دیکھا ہی نہیں کہ یہ کارخانہ کیاہے ان دوتاکیدی الفاظ کے باوجود اس آیت کی اہمیت کو نہ سمجھے گی کہ قرآن نے انسان کو کیا کہا ایمان والوں پر کیا فرض عائد کیا آیات کا لفظ کہہ کر کیا مفہوم سمجھایا اور ان آیات کو پڑھنے کے بعد بغیر کسی تعجب کے بغیر کسی حرکت اور ولولے کے بغیر کسی ارادہ بنانے یا عمل کی راہ اختیار کرنے کے، وہ اس کو ایک بے معنی سی بات سمجھ کر گزر جائے گا اور اس آیت کا کوئی غم ذہن میں نہ رکھے گا حالانکہ یہ سات لفظ تیرہ سو ستر برس ہوئے اس فاطر زمین وآسمان نے کروڑوں اور اربوں برس کی مدت کے بعد نہیں لاکھوں اور کروڑوں برس کی محنت کے بعد ہوش اور سمجھ والے انسان کو پید اکر کے پہلی دفعہ اس کو یہ سمجھانے کیلئے کہے ہیں دیکھو اس وقت تک تو کوئی دوسری مخلوق میرے ان الفاظ کو اگر میں کہہ بھی دیتا سمجھنے کی اہل نہ تھی کیونکہ ذہن ہی نہ رکھتی تھی لیکن اب تم انسانوں کو آخری پیغمبر کے ذریعے سے کہتا ہوں کہ تم کافی سوچ اور سمجھ والے بن چکے ہو میں نے ان کروڑوں ستاروں اور سیاروں اور زمین کی ہر شے میں جو میں نے بنائی ہے ان انسانوں کیلئے جنہیں یقین ہے کہ میں نے کوئی شے بے مطلب نہیں بنائی اور جو ان کے لئے مفید ہونے پر ایمان رکھتے ہیں لاانتہا فائدے نسل انسانی بہتری اور بہبودی کیلئے رکھے ہیں اورمیں چاہتا ہوں کہ انسان ان سے فائدہ اٹھا کر اپنا آئندہ مقام حاصل کرے گویا یہ تمام سلسلہ کائنات ہی تم سمجھ دارانسانوں کے لئے بنایا ہے!
اس طرح کی یا بلند نگاہ سے کہی ہوئی دیگر صدآیتیں قرآن میں ملیں گی بڑی شخصیت کا کلام ہونے کی وجہ سے کئی جگہ ایک آیت کا تعلق ساتھ کی آیت سے واضح نہیں ہوتا کئی جگہ ذہن پریشان ہوتا ہے کہ بات کیا ملانوں والی کہہ دی کئی جگہ تمام سورت پڑھ لینے کے بعد بھی کسی نتیجے پر پہنچا نہیں جا سکتا قرآن میں کئی جگہ ایک آیت کے ایک حصے کا رابطہ اس کے دوسرے حصے سے نہیں ہوتا وغیرہ وغیرہ یہ سب اس لئے کہ اتنی بڑی ہستی کے مصنف کے شایان شان نہیں کہ وہ انسان کو بچوں کی طرح سمجھائے قرآن کا خطاب ہر اس قوم کی طرف ہے جو عمل کرے علم حاصل کرے ڈرے سنے اور ایمان لائے ۔انسان میں خودوہ ذہن موجود ہے کہ وہ اس تمام کائنات کو بحیثیت مجموعی سمجھ کر مالک زمین وآسمان کے کلام کے مفہوم کو سمجھنے کی کوشش کرے یہی مشکل صحیفہ فطرت میں ہے ہزاروں برس کی تحقیق وتلاش کے بعد انسان نے آگ یا تیل سے چلنے کا انجن یا بڑی ہلاکت پیدا کرنے والا ایٹم بم بنایا اور ابھی نہ جانے آگے چل کر اور کیا بنائے گا ۔

پس قرآن سے صحیح نتائج اخذ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ؛

1.         ہر آیت کے متعلق اس کے مفہوم کو سمجھنے کا زاویہ نگاہ بلند ہو،
2.      قرآن کے الفاظ کو ان کے اس وقت کے مفہوم اور معنوں میں دیکھا جائے جب کہ قرآن نازل ہو ا تھا جو معنی اب رسم درواج کے باعث ملائی بن چکے ہیں نہ لئے جائیں۔
3.       کسی لفظ کے معنی کی شرح خود قرآن سے لی جائے الایہ کہ وہ لفظ کسی دوسری جگہ موجود نہ ہو اور اس صورت میں مجبوراً لغت سے کام لیا جا سکتا ہے۔
4.       مختلف جگہوں پر ایک ہی مضمون کی آیتوں کو سامنے رکھ کر اور مقابلہ کر کے مفہوم تلاش کی جائے۔
5.      قرآن کے ہر حصے کو یکساں طور پر ضروری اور واجب العمل سمجھا جائے خواہ وہ سردست سمجھ میں آئے یانہ آئے۔
6.       اس بات کا لحاظ رکھا جائے کہ سینکڑوں یاہزاروں برس کے واقعات میں بیان میں یا پوری کائنات کی کسی حقیقت کو ایک قاعدے کے تحت لانے میں کس قدر دقت ہے اور ان چند لفظوں سے ہی پوری حقیقت پر حاوی ہونے کی سعی کی جائے۔
7.       سب سے ضروری یہ امرکہ یقین اس بات کا ہو کہ قرآن کے الفاظ زمین و آسمان کے پید اکرنے والے خدا کے الفاظ ہیں اس لئے اگر ان کا صحیح مفہوم معلوم ہو گیا تو بنی نوع انسان کیلئے مفید ہو گا۔
8.      قرآن کو غرض صرف رسمی مسلمانوں سے نہیں سب بنی نوع انسان سے ہے۔
9.        اگر قرآن کہتا ہے کہ زمین کے وارث صالح لوگ ہیں تو جو قومیں زمین کی اس وقت وارث ہیں اسی نسبت سے جس قدر وہ وارث ہیں صالح ہیں یا اگر قرآن کہتا ہے کہ کافر کو ہمیشہ شکست اور مومن کیلئے ہمیشہ فتح ہے تو جس قوم کو شکست مل رہی ہے وہ کافر اور جس کو فتح ہو اسی نسبت سے مومن ہے گویا قرآن کا تعلق صرف مسلمانوں کی موجودہ ملت سے نہیں سب سے ہے اور سب قرآن کی مخاطب ہیں۔

 ان تصریحات کے بعد جو باتیں قرآن کے متعلق سمجھنے والی ہیں وہ یہ ہیں قرآن مسلمانوں کی کوئی مذہبی کتاب نہیں جس سے انسانوں کے اس فرقہ کے مذہبی نشان اور شعائر (مثلاً داڑھی رکھنا یا تہمد پہننا یا تسبیح ہاتھ میں رکھنا وغیر ہ وغیرہ) معلوم ہوتے ہیں جس کا نام مسلمان ہے بلکہ وہ تمام بنی نوع انسان کے لئے خدا کا قانون ہے۔ قرآن انکار کرتا ہے ابراہیم یہودی تھا یا نصرانی بلکہ وہ خالص مسلم تھا ( یعنی خدا کے حکموں کو ماننے والا) اسی طرح قرآن میں مسلم وہ قوم ہے جو حکموں کو عملاً مانتی ہے عقیدةً قرآن کو ماننے والی قوم قرآن کے نزدیک کچھ نہیں پیغمبر کوئی فرقہ بنانے نہ آئے تھے نہ رسول خدا نے کوئی گروہ مسلمان بنایا قرآن میں کئی جگہ لقوم ، یملون، لقوم یتقون، لقوم، یسمعون، لقوم یومنون وغیرہ کے الفاظ ہیں اس لئے قرآن کا خطاب انسان کی ہر اس قوم کی طرف ہے جو عمل کرے علم حاصل کرے ڈرے سنے ایمان لائے وغیرہ وغیرہ مسلمان قوم کی کوئی تخصیص نہیں شیطان اور فرشتوں کا ذکر قرآن میں بطور خدائی قوتوں کے ہے جو خدا کے حکموں کی اس طرح تعمیل کرتی ہیں جس طرح سورج، چاند، ستارے وغیرہ یا درخت، حیوان، جمادات وغیرہ لیکن وہ صرف قوتیں ہیں انسان ان سے بہت اعلی پیدائش ہے انبیا ءعلیہم السلام کے قصے نہایت مختصر اور مغلق ہیں ان کو سمجھنا آسان نہیں چھوٹی چھوٹی سورتیں جو اکثرقرآن کے اخیر میں ہیں نہایت پیچیدہ معانی رکھتی ہیں ان کی تہہ تک پہنچنا آسان نہیں قیامت آخرت عاقبت وغیرہ الفاظ کے معانی قرآن حکیم میں ان سے بالکل مختلف ہیں جو لوگوں نے رواج دیئے ہیں قرآن کی کوئی ایک سورت مکمل مضمون ہے اور رکوع اس کے وہ وقفے ہیں جہاں سے نیا مضمون شروع ہوتا ہے لازم ہے کہ ایک سورة کے اندر کوئی مستقل سبق ہو اور اس کا استدلال مربوط ہو اگر کسی جگہ قرآن کی ایک آیت کا بعد کی آیتوں سے رابط پورے طور پر نہیں بیٹھتا تو مطالب کے سمجھنے میں خرابی ہے قرآن کا نقص نہیں ہر لفظ یا اصطلاح کا پور امفہوم قرآن میںموجود ہے اور مختلف جگہوں پر اس لفظ یا اصطلاح کے واقع ہونے والی آیتوں کا مقابلہ کر کے پورا مفہوم معلوم ہوتا ہے آخری بات جو قرآن کے متعلق ذہن میں رکھنے والی ہے یہ ہے کہ کروڑوں اور اربوں سال کامل خامشی کے بعد مہذب( یعنی متمدن) اور کافی طور پر ترقی یافتہ انسان کے ساتھ فاطر زمین وآسمان کی پہلی بات قرآن ہے اور یہی خدا کی آخری بات بھی ہے آخری بات میں لازم تھا کہ خدا اپنی کروڑوں اور اربوں مسائل کی مدت میں بنائی ہوئی فطرت کا بڑے شدومدسے ذکر کرتا انسان کو کہتا کہ دیکھو یہ میراواحد کا رنامہ ہے پہلے انبیاں کے وقت میں تو انسانوں کا ذہن اتنا ترقی یافتہ نہ تھا کہ فطرت کے متعلق میری پوری بات سمجھ سکتا اب میں پوری بات بتا کر تم سے رخصت ہوتا ہوں کہ اس کارخانہ فطرت کا ایک ایک ذرہ اور گوشہ تلاش کر مارواسی کے اندر سب کچھ ہے اسی کے اندر تمہاری نجات ہے میں نے اسی لئے کہ کوئی مخلوق میری حیرت انگیز صحیفہ فطرت کو سمجھ کر میری بڑائی کو پہچانے انسان کو پید اکیا اور یہی آفرینش کی منشا ہے چنانچہ اسی واسطے اس آخری کتاب میں اس شدومد سے صحیفہ فطرت کا ذکر ہے ۔

حدیث القرآن سے ماخوذ
علامہ عنایت اللہ خان مشرقی