Pages

Time

Fitna-e-Kitabat by Allama Mashriqi


مقالہ افتتاحیہ
فتنئہ کتابت
مطبوعہ ” الاصلاح
29مارچ1935ء مطابق 23ذی الحجہ 1353ھ

36ہزار شہروں اور قلعوں کو بارہ برس میں سر کرنے والے اسلام کو کیا ہوا؟ اس کی پاں پر کھڑا کر دینے والی تعلیم کیا ہوئی؟ اس کے پیدا کئے ہوئے دل اور جگر کدھر گئے ؟ حکم نامہ خدا پر چلنے اور قرآن کو چلانے والے کہاں گئے ؟ اسلام کی تلوار کیا ہوئی اور کیونکر مسلمان کے چہرے سیاہ ہو گئے ؟ ذلت اور سکنت ان پرکیون لیس دی گئی اور کیون خدا کے قہر و غضب میں آگئے ؟ان سب سوالا ت کا جواب دو مختصر الفاظ ” فتنئہ کتابت“میں ہے جو میری کتاب تذکرہ کی چوتھی جلد کا ایک باب ہے۔ اس باب میں ہندوں کے رہنما موہن داس کرم چند گاندہی کی تحریک چرغہ کی ایک مثال دیکر واضح کیا ہے کہ یہ اگر آج چلانے کی بجائے لکھ لی جائے تو آگے چل کر کیا ہو جائے گی؟ مسلمان بھی اسی فساد کتابت کا شکار ہو گئے ۔ اسی دن سے اسلام بدل گیا جس دن سے اسلام والوں نے قرآ ن کی تفسیریں اور حدیثوں کی کتابت شروع کی ۔ اسلام پہلے پہلے سینوں اور ذہنوں ، ہاتھوں اور پان ، دلوں اور جگروں کے اندر تھا ، پھر کاغذوں پر آگیا جب سے اسلام کا غذ پر آیا اس کا زوال شروع ہوا!
                                                                   عنایت اللہ خان المشرقی

فساد تخیل
تخیل کی ابتداء

          آج اس سر زمین ہند میں ایک مقتدر سیاسی رہنماآزادی کے نئے تخیل کو تیس کروڑ باشندگان ملک کے دلوں میں پیدا کرنے کی سعی کر رہا ہے۔ وقتی حکومت کا ہر امن اس کے نزدیک واجب القتل ، اور ہندوستان کی متحدہ قومیت کا راج اس کا نصب العین ہے۔ ایک مغرور اور زبردست سلطنت کے بالمقابل اس کے بے دست و پاسپاہیوں کی مجادلانہ طاقت صفر ہے، مگر حکومت کے شیرنر کو رام کرنے یااقلاً اس کے ناخن تراش دینے کے خیال سے اس نے دو ایک سبیل اختیار کر رکھے ہیں جو اس تمام تخیل کی جان ہیں ۔ اولاً ، سلطنت کے جنگی نظام کو بیکار کرنے اور ایک متکبر حکومت کے اشتعال کو حتی الامکان روکنے کی غرض سے اس نے عدم تشدد اور امن عام کا حکم دیا ہے ۔ حکام کی طرف سے رہ جبر و عدوان کو بہ طیب خاطر برداشت کرنا اس کا مذہب عمل ہے ۔ حکومت سے کسی امر میں تعاون کرنا اس کے نزدیک کفر ہے۔ مگر اس کے برخلاف کھلے طور پر آمادئہ پیکار ہونا بھی صریخ ظم ہے۔ حدود ملک کے اندر بین الملی مصالحت قائم کرنا اس کا منتہائے نظر ہے، مگر حکومت کی دستبرد اشتعال سے بچنے کے لئے اس متفقہ طاقت کو عمل میں لانا” خود کشی “ ہے اظہار رنج کا بہترین طریقہ اس کی نظروں میں کاروبار کی عام بندش ہے۔ شہداءکی یاد، مقتولین کا انتقام، اقربا کا رنج و الم سب کچھ اسی روحانی مقاطعے میں آجاتے ہیں۔ یہی پرامن تر ک عانت اور احتباس نفس، اخفائے طاقت اور امساک انتقام اس کے نزدیک حصول آزادی کی پہلی منازل ہیں۔ ثانیا، حکومت وقت کو اقتصادی
ور ملی زک دینے کی غرض سے اس نے مغربی معاشرت اور تمدن کی تقلید کو ممنوع قرار دیاہے ۔ وہ ایک ریئس التجار حکومت کی جلب منفعت اور جمع زر، جرمال اور فروخت اشیاءکی سب راہوں کو مسدود کرنے کی فکر میں ہے ۔اس کے نزدیک غیر ملکی ساخت کی اشیاءکا استعمال جرم ہے ۔ شاہی محکمہ قضا میں جاکر طلب عدل کرنا اعانت ظلم ہے، ضبطیہ شہر سے کسی معاملے، حتیٰ کہ حادثہ قتل میں بھی استمداد کرنا حصول سوراج کے نقیض ہے۔ اسکی نظروں میں ریلوں کا چلنا ملکی اغراض کے منافی ہے، شفاخانوں کی کثرت صحت عامہ کے لئے مضر ہے ، مدارس اور موجودہ نصاب تعلیم رعایا کو غلامی میں رکھنے کے ابلیسی اوزار ہیں، سرکاری عہدے اور اعزازی خطابات طغرائے اسروجبن ہیں۔ وکلاءکا ہر قریے میں ہجوم قوم کے لئے باعث افلاس و انحطاط ہے، گویا ملک کی حقیقی فلاح اس رجعت منعکس میں مضمر ہے جس کا تصور بھی ایک سطح بین نگاہ کو متحیر اور متنفر کر دیتا ہے۔ ثالثاً ،ملک کو اپنے پاں پر کھڑا کرنے اور اس کی مصنوعات کو حتی الوسع فروغ دینے کی غرض سے اس نے از منہ مظلمہ کی ایک بھولی بسری ، اورعصر جدید کی نگاہ میں ننگ تہذیب و شجاعت شے کو از سر نو رائج کردیا ہے۔
          جس کا نام چرخہ ہے ! ہرمردو زن پر اس کا کاتنا فرض کر دیا ہے ۔ یہی ایک عاجز اور بے بس رعیت کی وہ ” کلدارتوپ “ ہے جس کی زد اس کی نگاہ میں المانیہ اور افرنج کی جدید توپوں سے ” دور تر “ پڑتی ہے۔ اسی کے استعمال سے ” سوراج “ حاصل ہونا قطعی ہے۔ اسی کی گھوں گھوں میں ملک اور قوم کی ” دائمی فلاح “ اور” ابدی نجات “کا ترنم ہے۔ اسی کی گردش ان احرار قوم اور شہدا کا ” غم غلط “کر دیتی ہے۔جنہوں نے حریت اور مساوات کی راہ میں اپنی جانیں قربان کیں۔ اسی کی روئی کے گالے رعیت کے زخم خوردہ دلوں اور مظلوم جسموں پر ” مرھم کے پھاہے “ ہیں ۔ نہیں بلکہ اس تحریک جلیل کے علمبرداروں نے با ر ہا اپنی تقاریر میں عدم تشدد پرزور دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ قتل و فساد اس تحریک کے لئے مہلک ہے۔ جبر کا مقابلہ جبر سے کرنا سوراج کے نصب العین کو بالیقین دور کر دے گا۔ خون آشام حکومت کے تشدد کا جواب چرخہ ہے۔ اسی کی تیز گردش سوراج کو نزدیک کر رہی ہے ۔ جب کبھی حکومت کا طریق عمل تمہارے نائرئہ غیظ و غضب کو مشتعل کرے تو اس کو اور بھی تیز چلا! تمہارا انتقام لینے والا ، تمہارے غصے کوفرو کرنے والا ، تمہیں سوراج دینے والا یہی مہلک عدو اور گرانقدر چرخہ ہے!

تخیل کا رواج ، عروج اور زوال

          اب فرض کرو کہ یہی تخیل کسی فرد واحد کی قیاد ت میں تمام ملک پر حاوی ہو جاتا ہے اوراس کے زور عمل سے حریت اور سوراج کا گوہر مقصود بھی مل گیا ہے۔ کچھ مدت کے بعد اس مسلک عمل کے سب عاملین یکجا جمع ہوتے ہیں اور آیندہ نسلوں کی ہدایت اور استحکام سوراج کی غرض سے اسی تخیل کو ایک کتاب کی صورت میں قلمبند کر دیتے ہیں! امن پسند ی کی خوبیاں ، ترک موالات کے جوہر، ہڑتالوں اور مقاطعوں کا تزکیہ نفس ، حب وطن کے محاسن، غیر ملکی تمدن سے نفرت ، چرخے کے ” معجزے “ کھدر کے کرشمے، سوت کاتنے کا نتائج، الغرض اس تحریک کے تمام ضروری مراحل او امر و نواہی کے رنگ میں بیان ہوتے ہیں۔ شارع تخیل کو مامور من من اللہ “ اور اس کتاب کو ہندی مت کا ایک نیا شاستر قرار دیا جاتا ہے۔ ہندوستان کی متحدہ قومیت اس جدید تخیل کواپنی زندگی کا پیش نہاد سمجھ کر عامل ہو جاتی ہے۔ سو برس کے بعد، تبدیل احوال کے باعث، اس کے بعض احکام کا صحیح مفہوم ذہنوں سے سرکنے لگتا ہے تا ہم اس ناقص شاستر پر ایمان رکھنے کی غرض سے ہڑتالوں اور مقاطعوں کو ایک مقدس اعتقاد، کے طور پر مان لیا جاتا ہے، لوگ سال بھر میں چند ایک دن مقرر کر لیتے ہیں، ان میں برت رکھتے ہیں اور کچھ کاروبار نہیں کرتے، اسلامی جہاد و زکوٰة کی مانند اس اعتقاد کے نئے نئے معانی اور عجیب و غریب تاویلات کی جاتی ہیں، پھر شارحین کا ایک مستند گروہ اس کتاب کے مفقود مطالب کو ''محفوظ'' کرنے میں مستغرق ہو جاتا ہے ۔ عقل و نقل، ورایت و روایت، فکر ورائے سے جو کچھ بن پڑتا ہے لکھ دیا جاتا ہے۔ بڑی بڑی ضخیم جلدیں اس مختصر اور سیدھی سادھی کتاب کی شرح و بسط میں تیار ہوتی ہیں۔ لوگ ان کو شوق سے پڑھتے اور اندھا دھند ہضم کرتے جاتے ہیں۔ مگر کچھ نہیں سمجھتے! چرخے کے فضائل اور مناقب بار بار پڑھ سن کر اس کے تقدس کا خیال دلوں میں جمتا جاتا ہے۔ بالآخر اس کی پرستش گھر گھر شروع ہو جاتی ہے، اس کو غریب گائے کی طرھ ، ماتا اورپتا ، کے القاب دیئے جاتے ہیں، کھدر مذہبی شعار بن کر قشقہ و زنار کی طرح علامت زہد و اعتقاد بن جاتا ہے۔ گھر کی بیبیاں رسمی اورشرعی طور پر چند لمحوں کے لئے سوت کاتنا ” داخل ثواب “ سمجھ لیتی ہیں۔اسی اثنا ءمیں اس وہم پرست ،کج بین اور نافہم قوم سے جستہ جستہ وہ سب فضائل معدوم ہو جاتے ہیں جن کے برتے پروہ آغاز تحریک میں متحد العمل اور متفق الیقین ہوگئی تھی۔ فرقہ آرائیاں اور فساد شروع ہو جاتے ہیں۔ گھر گھر میں چرخے کا نیا بت پجنے لگتا ۔ با فندوں کا احترام اور کھدر کی تقدیس حد سے بڑھ جاتی ہے، ہرشخص اسکو اپنے اپنے طور پر سراہتا اور اس کی عبادت میں ہمہ تن منہمک رہتا ہے۔ بت خانے اورمندر ،شوالے اور پاٹھ شالے جا بجا قائم ہوتے ہیں، روئی کے بت اور جامہ پوش اصنام شارع تخیل کی یادگارمیں نصب کئے جاتے ہیں۔ بالآخر کذب و فساد کی اس المناک کشاکش ، اور جہل و دریا کی اس قیامت انگیز شکست و ریخت میں سوراج کا عزیز گوھر مقصود بھی ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ ایک بیدار مغز ، مستعد اور عصبیت میں شرابور قوم ملک پر حملہ کرتی ہے اور چشم زون میں اس نا خلف ملت کے سب اباطیل کومحو کر دیتی ہے!
وکذلک اخذ ربّک اذا اخذا لقری و ھی ظالمة ط انّ اخذہ الیم شدید ( ۱۱:۲۰۱)
ترجمہ : اور اے مخاطب ! اس جابر اور قاہر خدا کی پکڑ ایسی ہی ہوا کرتی ہے جب وہ ان بستیوں کوپکڑتا ہے جو اس کے معیا ر امتحان کے مطابق ظالم ٹھہرتی ہیں۔ اس میں شک نہیں کہ اس کی پکڑ بڑی دردناک اوربڑی ہی سخت ہے۔

تخیل کے بگاڑ کی آخری منزل

          اب فرض کرو کہ اس نئے تداول کے بعد جب کہ زمانہ کا رنگ قطعاً بدل چکا ہے، جب کہ ”چرخ فلک کی کجر فتاری “ یا بندگان خدا کی کج بینی اور بد شناسی نے عصبیت اور اتحاد ، قوت اور موالات کا وہ اگلا سماں سب بدل دیاہے اور آغاز تحریک کو بھی پورے ایک ہزار برس گزر چکے ہیں ، ذلت اور مسکنت کی گھٹا قوم کے سر پر چھائی ہوئی ہے، اور محکومی اور ادبار سے چہرے سیاہ ہو چکے ہیں، ایک بڑھیا اپنے نہاں خانئہ رنج و الم میں بیٹھی چرخہ کات رہی ہے! اس معبود صنعار کے خوشنما نقش و نگار ، اس کے ریشمیں پھندے ، اس کا رنگ تقدس او ر مذہبی روپ ، بڑھیا کے وہم پرست دل کو یک گونہ تسکین دےرہے ہیں ! وہ تار نکالتی ہے اور خوش ہے کہ رب ذو المنن کی نگاہ میں ایک نہایت محبوب اور مستحسن عمل کر رہی ہے ! یہ سب کچھ ہے مگر آہ!اس ضعیجہ کا نفس مدرکہ اور اخلاق عالم کی اس عاجز اور بے قصور بندی کا ذہن سلیم اس کو اندر ہی اندر سوال کر رہا ہے کہ آج تمہارے شاستر کے مطابق اس چرخے کو تیز تر چلانے سے تمہارے ” رنج و الم کیوں نہیں مٹتے“ ؟
” سوراج“ کیوں حاصل نہیں ہوتا؟ اس کی ” روئی کے گالے تمہارے زخموں کی مرہم کیوں نہیں بنتے “؟ دشمن کی دراز دستی کے بالمقابل تمہارے ” چرخے کی مارمیلوں تک کیوں نہیں پڑتی“؟ تمہارے بے رحم ہمسائے کو جس نے تمہیں اس قدر دکھ پہنچایا ہے کیوں ”سزا“ نہیں ملتی“؟تم ”امن پسند“ ہو ،” تارک موالات “ ہو، ہڑتالوں اور مقاطعوں پر”شرعی ایمان“ رکھتے ہو، تمہیں غیر ملکی تمدن سے یہ نفرت ہے کہ ہر اجنبی کو” ملیچھ اور بہر شٹ “ کہتے ہو، اس سے مل بیٹھنا تو درکنار ، اس کا چھونا بھی تمہیں پسند نہیں،ذات پات اور فرقہ نوازی کالحاظ سب کچھ تم میں ہے،مگر تمہاری ” دائمی فلاح“ اور ” ابدی نجات“ کے سامان کیوں پیدا نہیں ؟ شاستر کا وہ بے طرح اور بے رحم ” مفسر“جس نے اس کی تشریح میں صفحوں کے صفحے سیاہ کردیئے تھے اور زود اعتقادی کا وہ لاجواب کر دینے والا بھلا مانس جو نفس انسان میں ہر وقت آمادئہ تشریح رہتا ہے ۔ اس عجوزہ کو معاًکہہ دیتے ہیں کہ تمہاری ” عقل میں فتور“ اور ”ذہن میں خلل“ ہے تم کفر کی حد پرپہنچ رہی ہو۔ چرخہ ”بلاشبہ “ تمہاری نجات کا زبردست وسیلہ ہے، اس کے چلانے سے تمہارا رنج و الم بیشک مٹ جائیگا بشرطیکہ تم غلط کرنے کی سعی کرو۔ چھوت تمہارا” مذہبی اعتقاد “ ہے ، اس پر بلا حیل و حجت جمے رہے! ”نجات“ تمہیں آگے چل کر ملے گی جب تمہاری روح اس قفس عنصری سے پرواز کر جائے گی۔ سوراج تمہاری ”فلاح “ کی آخری منزل ہے جس کی کیفیت بیان کرنے سے ” انسان کی چھوٹی سی زبان از بس عاجز“ ہے یہ دنیا دارالعمل ہے دارالجزا نہیں ۔ تم ہر روز چرخہ چلانے میں التزام کے ساتھ مصروف رہو، ایشور کی کرپا اور مہاتما کی دیا سے تمہیں سب کچھ آخرت میں مل کر رہے گا!

دین اسلام کا بگاڑ

          اگر تمثیل کے طور پر فساد تخیل کی اس نیم فرضی مگر دستور انسانی کو مدنظر رکھ کر سچی تصویر کا مقابلہ مامضائے اسلام اور توحید سے کرنا سوئے ادب میں داخل نہیں تو اس غایت پر پہنچنا کچھ مشکل نہیں کہ آج دین اسلام بھی اسی قطع کے باطنی تحول اور نامحسوس انقلاب الیم کا شکار ہو چکا ہے۔ اس کی اگلی اور اصلی حیات انگیز اصولوں کا سچا کیف ذہنوں سے حرف غلط بن کربے نشان ہو گیا ہے۔ صدیوں کی غلط انداز نگاہ نقد و نظر نے قرآن کے اصلی مقاصد اور رائج الوقت مطالب کے درمیان تعصب اور اعتقاد کی ناقابل گذر خلیج حائل کر دی ہے۔ غلط تبلیغ ، غیر مجاز اشاعت م اورعقک و نقل کے ذہنی فتنہ و فساد نے اس پر وہم و جہل کے پے در پے غلاف چڑھا دیئے ہیں۔غارت گر حسن اور قزاق ، روح زمانے نے اس کی خوشنما صورت کی اگلی آ ب و تاب سب اچک لی ہے۔ اعما ل کے غلط مقاصد اور مقاصد کی غلط تشکیل نصب العین کونگاہوں سے الگ کر چکی ہے ۔ استلاف امت اور تمرکز عمل جن پرتوحید کی خوبی کا سب دارومدار تھا، دلوں سے کلیتہً محو ہوچکے ہیں۔ قرآن کا جنتی اور سوراجی منظر ، توحید کی لشکر انگیز روح ، تقویٰ کی جامع الناس قوت ، صلوٰة کے مزکی النفس ولولے ، اطاعت کے غلبہ افزا حوصلے ، صبر کا محکم عزم اضطراب ، توکل کا بے خطر اور فیصلہ کن تقدم ، سب یک بیک اپنی اصلی بنیاد سے ہٹ چکے ہیں، مہمات اورامر اورمقدم العمل احکام نسیان و التوا میں پڑ کر بے اثر ہو گئے ہیں، غیر ضروری اور مافوق الطبیعی باتیں ذہنوں میں داخل ہو کر شرارت پیدا کر گئی ہیں۔ الغرض موجودہ تخیل کے بے حس اور ناکاربر آر ، انفرادی اورمتفرق، مقصد سے دور اور دلیل سے ساقط ، مرکز سے علیحٰدہ اور قائد اعظم کے محتاج اسلام نے مسلمانان عالم کے اعمال کا رخ ایک ایسی وہمی اور نظری اقلیم کی طرف بدل دیا ہے جو متذکرہ صد ر بڑھیا کے سوراجی تصور سے کسی طرح کم مضحکہ انگیز اور فساد آلود نہیں!

اس کے پر پرزوں کا بے کار ہو جانا

          آج اس الہٰی تحریک کا عملی سقوط عالم انگیز اسلام کو وقف جمود، جامع الملل دین کو رہن اشتات ، مشترک الکل شریعت کو سپرد شخص، اجتماعی آئین کو مشق اعتکاف ، اور قاطع الوہم مذہب کو پابند رسم و رواج کر کے قرآن حکیم کے ازلی اور ابدی حقائق کو ایک المناک طریقے پر یک بیک جھٹلا رہا ہے۔ نمازیں فاحش اور منکر خیالات کو روکنے سے عاجز آگئی ہیں، ”مومن“اعلون کے مرتبے سے گر کر تنزل کے مقام نامحمود پر پہنچ چکا ہے۔” احزاب خدا“ غلبہ اسلام کے نصب العین کو ترک کر کے آپس میں لڑ مر کر مغلوب ہو رہے ہیں” ایمان اور اعما ل صالحہ“استخلاف فی الارض کے ایزدی میثاق کی ایک شرمناک طور پر تغلیط کر رہے ہیں۔ ”عبادت“ وراثت زمین سے الٹا محروم کر رہی ہے ، ” تقوی “ غیروں کی نگاہ میں حقیر و متبذل کر رہا ہے۔ ” زکوة “ خوف و حزن بیش از پیش دے رہی ہے۔ وہ اسلام جس کا کوئی عمل جماعت سے الگ ہو کر کچھ معنی نہیں رکھتا تھا ،جس کا منتہائے وحید اس دنیا میں علی الرغم اغیار اور علی کرہ اعدا توصیئہ حق اور غلبئہ خدا قائم کرنا تھا، جس کا دستورالعمل ابلیس کی حکومت کو دلوں سے محو کر کے ” خدا کا سوراج “حاصل کرنا تھا، جس کی دشمن کو صلائے جنگ اور دوست سے بزم صلح و امن ، جس کی سب انسانوں سے انس و مجالست اور نفس امارہ سے پیہم مقاطعے ، ایک عالم آرا انقلاب کا پیش خیمہ تھے، وہ دین آج ہر شخص کی آبائی ارث بن کر وقف عزل و ابتذال ہو رہا ہے اب ہر کس و ناکس بجائے خود اس بار عظیم کا حامل ہے۔ہر متنفس اس کو اپنے بل بوتے پر چلانے کی ضد پر ہے!آہ مگر ذاتیات کی اس مزاحمت ہائلہ اور انا نیت کی اس رستخیز عطل و جمود میں توحید کا وہ برق رفتار منجنیقی انجن جو تیرہ سو برس پہلے پہنائے جہاں میں اس شان و تمکنت سے روانہ ہوا تھا، آج کسی باہنر سائیق کے نہ ہونے کے باعث تھمتے تھمتے بالکل تھم گیا ہے!۔

علمائے دین کا دردناک قحط

          کلام الہٰی کی حقیقت اور توحید کے زور اثر پر صحیح ایمان و یقین اسی وقت سے کمزور ہوتا گیا ہے جب اس حیات آفیریں تخیل کے چلانے والے نہ رہے، اس حیرت انگیز برقی کل کے سائق چل بسے ، اس کے پرزوں کو سمجھنے والے، اس کے ظاہر و باطن کو پہچاننے والے، اس کے دقیق اورنازک حصوں کے عمل کو جاننے والے، باریک بین اور ہنر مند ، عالم اور عامل ، اہل کار اور اہل فن نہ رہے، جب صحبت رسول کا بے مثال علم و عمل نہ رہا، جب خلفائے راشدین ؓ کی فکر و تدبیر نہ رہی، جب ایک سورئہ بقر پر آٹھ برس تک غور کرنے والے ابن عمرؓ نہ رہے، جب صحابہ ؓ کرام کی عملی اور بالمشافہہ شرح و تفسیر نہ رہی، جب قرآن کرسنا اور بنا کر زندہ کر دینے والے رخصت ہو گئے اور سامعین کو چارو ناچار خود دیکھنا پڑا،(انّمایستجیب الّذین یسمعون و المرتٰی یبعثہم ،اللہ ثمّ الیہ یرجعون ( ۶:۶۳)ترجمہ : اور قرآن کو صحیح معنوں میں مانتے وہی لوگ ہیں جو اسکو صحیح معنوں میں سنتے ہیں اور مردہ قوم کو تو زندہ کرنیوالا خدا ہی ہے۔ پھر یہ لوگ خواہ ابھریں یا مرے رہیں جزا اور سزا کے واسطے اسی کی طرف رجوع کریں گے)۔ جب علمائے کرام اور ائمة عظام کا سینہ بہ سینہ علم نا پید ہو گیا!
بل ھوا یت بینت فی صدور الذین اوتوالعلم ط وما یجحد باٰتنا الالظمون﴿۸۴:۶۴
ترجمہ: اے لوگو! یہ قرآن عظیم ان لوگوں کے سینوں میں جن کو علم دیاگیا ہے، روشن اور اظہر من الشمس آیات ہیں۔ اور ہماری آیات بنیات کی تعمیل میں انکار یا شک کا پہلو وہی لوگ رکھتے ہین جو جہل کی ظلمتوں میں گھر کر ظالم بنے ہوئے ہیں۔

          آہ! یہ قرآن عظیم کی بے عدیل صحت اور عظمت پر کارکن یقین اسی روز سے کم ہونے لگا ہے جب مرور وقت، اور تبدیل احوال کے باعث سطح بین ذہنون سے مطالب سرکنے لگے، جب مقاصد کو چھوڑ کر الفاظ کی عبادت شروع ہو گئی، جب قرآن کا معجزہ بے حس قوموں کو زندہ کرنے، اور ظلمتوں کو دور کردینے کی بجائے سوق عکاظ کے شطحیات کی امتحانی محک اور ترہات فصاحت کا محل و مصرف بن گیا، جب کامل دو سو برس کی ناانجام شناسی اورمہلت کے بعد، محال اندیش اور فریب خوردگان فنا واجل نے رسول پاک صحبت کا عہد کہن تازہ کرنے کے وہم سے احادیث نبوی کی تدوین شروع کی ۔ پھر اس دن سے کلام خدا کا اکثر معاملہ خبر احاد ، اور ان کے ”دین و ایمان “پر چھوڑ دیا گیا۔ صدیوں کی بھولی بسری باتیں معرض تحریر میں آتے ہی جرو ایمان بن گئیں ۔ کل کی کہی ہوئی بات کو صحیح طور پر دہرانہ سکنے والا انسان ، پریروز کے ماجرائے ،کل و شرب کو بھی یاد نہ رکھ سکنے والا، اور بات بات میں نادانستہ غلو و توغل و استغراق کرنے والا بشر، خطا و نسیان سے یکسر بری ہو کر، رسول پاک کی ڈیڑھ سو برس پہلے کہی ہوئی اور سنی ہوئی باتوں کو اپنے جیسے بیسیوں ضیعف الخلق انسانوں کی روایت پر نہایت وثوق و ثقاہت سے سنانے لگا۔ بے رحم اور ناقد رشناس امت عرب ، خداکو چھوڑ کر پرستش رسول میں مصروف ہوگئی۔ ایک ٹکڑا کلام کا ادہر سے ،کچھ اُدھر سے ، کچھ جوڑ توڑ کر، کچھ رلا ملا کر ، کچھ غلط فہمی سے، کچھ غلط کاری سے ، کچھ ناموقع شناسی ، نا درو بینی ، اور نایا و داری سے، الغرض جس طرح بھی ہو سکااپنی خوش اعتقادی کا حق اداکیا۔ وہ کلمات خدا ، جو تیئس برس تک آتے آتے خیر الوری کی وفات سے صرف نو دن پہلے ختم ہوئے تھے، جن کے ایک حرف کے تسلسل وتواتر کے متعلق بھی شائبہ وہم نہ گزر سکتا تھا، جن کا زور اثر کلتہ عمل پر تھا، جن کی بیخ و بنیاد ہمہ تن صدق و عدل (قرآن حکیم میں ہے : و تمت کلمت ربّک صدقاً و عدلاً“)پرتھی،جن کی قلبی تصویر نے تین چار قرنوں تک عرب اور عجم میں تحرک عمل اور اضطرار حیات قائم رکھا تھا، جن پر عمل کرنے سے روئے زمین کی بادشاہت مل گئی تھی، جس نے فاروقؓ اعظم کی جمہورت اورسیاست کو شہرئہ آفاق کر دیا تھا، وہی کتاب مبین اب ناقص سمجھی جانے لگی، لایق شرح و بیان ہو گئی، طول امد اور مردر مدت کے باعث چیستان اور پہیلی بن گئی! پھر یقین کا فیصلہ وہم و تخمین سے ، حق کا اکتشاف افراط و تفریط سے، اور خدائی مقاصد کا تصفیہ راویوں کے شخصی اعتبار پر ہونے لگا ۔ انسان کی طبعی دا ماندگیوں ، ضعف خلق ، اور قصور بیان کی کچھ پروانہ کی گئی ۔سب وہ احادیث جن کا محل کلام معلوم نہیں، جن کا انداز بیان ممکن الادا نہیں، جن کے مطالب کی روح معلوم نہیں ، بشرط ثقاہت رواة و اسانید ایک سطح پر رکھ دی گئیں! اگر جیساکہ مسلمان آج کہتے ہیں اہل عرب اورصحابہؓ کرام کا حافظہ اس قدر بیمثال تھا کہ وہ حرف بحرف ہربات کو تمام عمر یا د رکھ سکتے تھے، تو حیرت ہے کہ رسول خدا نے کلام وحی کو فوراًزید بن ثابت سے لکھوا لینے کا اہتمام کیوں کیا، انہوں نے کیوں نہ صحابہ ؓ کے حافظے پر اعتماد کر کے قرآن کو بغیر لکھے چھوڑ دیا۔ مگر قرآن کو چھوڑ کر، رسول نوازی کی اس عالمگیر وضعداری اور جنون میں کذب و دروغ کا بازار بالاآخر وہ گرم ہوا کہ اس کی داستان اہل عرب کی راست گفتاری اور حق گوئی کے شایان شان ہر گز نہ رہی ۔موضوعہ احادیث کا ایک سیلاب عظیم ، سیاسی مصلحتوں، ذاتی کاوشوں اورفریق آرائی کی مستقل اغراض کو مد نظر رکھ کر ہر سو پھیل گیا۔ بڑے بڑے مشہور محدث جن کے رسمی زہد و اثقا ، کا ان کی حین و حیات میں بھی ایک زمانہ قائل تھا، اپنی کذب بانی کا اقرار عین مرتے وقت کر گئے ۔ کوفے کے ایک مشہور محدث (ابن ابی العوجائ) نے دوسری صدی کے وسط میں حاکم وقت کے روبرو، قتل سے کچھ دیر پہلے، با قرار صالح کہا کہ ”اس نے اپنی عمر میں چار ہزار احادیث وضع کیں!حلال کومسلمانوں پر حرام، اور حرام کوحلال کیا، افطار کے دن روزہ رکھوایا اورروزے کے دن افطار کرایا“ پیروان علیؓ کے دعوے ٰ امامت کو حق بجانب قرار دینے ، اور جامع قرآن کے عہد خلافت پر ایک بد نما داغ لگانے کی خاطر، زوجہ ءمطہرة بنی ( حضرت عائشہؓ) اور حضرت عمرؓ فارو ق کے نام پر، نقص قرآن اور تحریف مضامین کے متعلق ، حیرت انگیز اور زہرہ گداز حیا سوزروایات وضع کی گئیں!

فتنہ کتابت

          احادیث نبوی کی جمع و تدوین کے فوائد پر معناًاور بطور نظریے کے آج بھی کسی مسلمان شخص کو اعتراض نہیں ہو سکتا۔ سید البشر کی ہر بات ہر مسلمان کے سویدائے قلب میں ابتدائے اسلام سے ہی ایک محبوب ترین شے رہی ہے۔ یہ فی الحقیقت اس ایمان آفرین مصاحبت ، اوراعجاز نما تکلم کا اثر ہی تھا کہ ایک آنکھ کی جھپک میں سارا عرب زندہ ہو گیاتھا۔ اس کی حسرت بیشک صدیوں سے خلق خدا کو تڑپاتی چلی آئی ہے۔ مگر بعینہ یہی عقیدت مندی اور ارادت ،یہی غلو محبت اور عشق صحابہؓ کرام اور تابعین ؓ کو صدراسلام میں تدوین احادیث سے باز رکھتے رہے انہیں اس بات کا صحیح احساس تھاکہ رسول خدا کے کلام کی نقل و تدوین میں ادنیٰ سی سہوولغزش بھی دنیائے اسلام میں کس عالم گیر شرارت کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے! وہ کلام جس کا پورا حق رسولپاک کی زبان مبارک ہی بالمشافہہ ادا کر سکتی تھی، جس کا محل و موضوع، سائل یا مخاطب کے ذاتی اور مخصوص احوال کے ساتھ ملحق تھا، جس کا صحیح مفہوم ہمہ تن کیفیت مقام و زمان ، اور نوعیت سوال و جواب سے متعلق تھا، جو ہر گز ہر گز اس خیال سے نہیں کی گئی تھی کہ بعدمیں جا کر مدون ہو اور بند گان خدا کی مستقل اور دوامی ہدایت کا باعث ہو، ایسا منقول کلام ضبط تحریر میں آکر، امت کو کوئی یقینی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔ خیر الانام علیہ التحیةواسلام کی وفات کے بعد کتاب خدا یا ان کے دل ان کے لئے بس تھے ۔ یہ وجوہ تھے جن کے باعث اکثر، بلکہ بلااستثناءسب صحابہ کرام، احادیث کی جمع و کتابت کے شدید مخاف تھے۔ حضرت عمرؓ کویقین تھا کہ احادیث کا ٹھیک طور پر جمع ہونا از بس مشکل امر ہے، اور ان کی تدوین سے لامحالہ وہی خرابی پیداہو گی جو یہود کے ہاں جمع روایات و مزخرافات قصص سے بالآخر ہوئی۔ یہی حکمت نہ صرف اصحاب رسول بلکہ تابعین عظام کے ذہنون میں بھی گھر کرگئی تھی۔ دین کے متعلق،کتاب خدا کےماسوا، کسی عقیدے کی تدوین ان کو بے حدنا گوار گزرتی تھی۔ اس حقیقت کبریٰ کا مقصود بالذات حفظ تخیل اور تحفظ اسلام کے سوا کچھ نہ تھا! وہ نہیں چاہتے تھے کہ توحید جس کا صحیح مقام انسان کا ذہن وقلب ہے، جس کا سچا احساس بشر کے باطن اور تکیف دروں میں ہے، صفحئہ قرطاس پر اتر کر بے اثر ہوجائے، انما المومنون الّذین اذا ذکراللہ و جلت قلوبھم و اذ تلیت علیھم ایٰتہ زادتہم ایماناً (۸: ۲)(ترجمہ:لوگو ! ایمان والے تو وہی کھٹکے والے لوگ ہیں کہ جب ان کو اپنا سب سے بڑا حاکم خدایا د آجاتا ہے تو ان کے دل اس کھٹکے کے باعث لرز جاتے ہیں اورجب ان کو خدا کے حکم پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو ان کاان احکام پر عمل کرنے کا یقین اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ )یہی باعث تھا کہ نبی پاک کے زمانے میں قرآن کانقش تخیل بھی تمام تر ذہنوں ، سینوں ، اور جگروں کے اندر تھا۔ یہی حفظ قرآن کا سچا فلسفہ، اور دل میں یاد رکھنے کی بے حساب برکت تھی۔ اکثر مرخین کا خیال کہ عرب کا تمام دارومدار حافظہ پر تھا اور فن تصنیف وکتابت بھی اس وقت محض ابتدائی حالت میں تھے، اس لئے اول اول مذہب کی تدوین نہ وہ سکی۔ محض کذب و غلط اور سطح بینی ہے۔ سبع معلقات کی دیدہ زیب زرنگاری، اور فاروق ؓاعظم کے اکثر دو ا دین نظم و نسق اور وسائل تحریر وکتابت کے باوجود قرآن کریم کی عام تدوین اور تحریری اشاعت خلیفہ ثالث کے عہد سے پہلے نہ ہوئی ۔ غزوئہ یمامہ کے بعد حضرت عمرؓفاروق خلیفتہؓ الرسول کے پاس تشریف لائے اور اکثر قرا کے قتل ہو جانے کے باعث کتاب خداکے ضائع ہوجانے کا احتمال ، اور جمع قرآن کا ارادہ ظاہر کیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے توقف کیا اور کہا کہ ” میں کیونکر وہ کام کروں جوخود رسول خدا نے نہیں کیا۔ “ بالآخر ان کے اصرار پر صرف ایک نسخہ مرتب کیا گیا۔ جو خلفائے راشدین کی تحویل میں رہا۔بعینہ یہی تامل صحابہ کرام اورتابعین کو تحریر اصول ، تحدید عقائد، حتیٰ کہ کلام الہٰی کی کوئی تفسیر لکھنے سے بھی منع کرتا رہا۔ سعید ابن جبیرؓ سے جوکہ تابعین میں ایک ممتاز مقام رکھتے تھے کسی شخص نے آکر کہا کہ آپ قرآن کی تفسیر لکھیں۔ یہ سن کر ان کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا اور کہا کہ ” اگر کوئی بد بخت بھی میرے پاس آئے تو میں اس شخص سے زیادہ اس کو پسند کرونگا“! یہ تھا وہ سچاجذبہ دین ، اور یہ تھی وہ اسلامی عصبیت جس کے زور پرقرون اولیٰ کے مسلمان اطاعت خدا اور رسول کا حق ادا کر گئے تھے ۔ حفظ اسلام کی یہ وہ عملی تدبیر، اور دین خدا کی یہ وہ صحیح تعظیم تھی جس نے انہیں التہاب دروں اورعشق عمل کے ہوتے ہوئے، تحریر و نظر کے مضر اور روح کش اثرات سے بے نیاز کر دیاتھا۔ ایک حقیقت نگار شاعرکا قول ہے!
جس دل میں ہو پر تو کرسی و عرش، اس دل کی بلندی صلّ علیٰ جس سینے میں قرآن اترا ہو اس سینے کی عطمت کیا کہنا

قرون اولیٰ میں قرآن سینوں اور دلوں میں تھا

          لیکن خیرالقرون کے مسلمانوں کی یہ نادر اور دورس حکمت عملی اسلام کی براہ راست ہدایت و تعلیم کا نقش اثر تھی۔ رسول خدا کافیضان علم و عمل ، قرآن کریم کی بے مثال اور حیرت انگیز تعلیم کوہمہ تن سینوں کے سپرد کر گیا تھا۔ توحید کی جلیل القدر عظمت قلوب میں اثر کرچکی تھی ۔ قرآن کا بلاشبہ بالآخر ایک کتاب کی صورت میں روئے زمین پرشائع ہونا مقصود خدا تھا ، مگر عہد رسالت میں اسکے مقاصد دلوں کی تختیوں پر لکھے جاچکے تھے، خدا کے اس بر گزیدہ پیغمبر اور دانائے آئین جہاں نے اقلاً اپنی حین حیات میں، توحید کے محشرانگیز کو قلوب سے محو نہ ہونے دیا ۔ ان کے نزدیک اسلام سرتاپاایک ایک دعو تھی جس کی بنیاد و رس و تدریس کی خیال آرائیوں اور تعلیم تعلم کی خانہ نشینیوں کی بجائے یکسر کسب و عمل پر تھی۔ اسی نقطئہ نظر سے خلفائے راشدین بھی اہل عرب کا خانہ آباد اور متمدن ہونا پسند نہ کرتے اور ان کو حتی الامکان تدوین کتب سے باز رکھتے تھے ۔ اسی عصبیت اور اضطرار عمل کو برقرار رکھنے کی غرض سے حضرت عمر نے اپنے عہد خلافت میں اہل عرب کو زراعت اور ایسے اور خانہ پیشوں سے منع کر دیا تھا۔مگر خاص احادیث کے متعلق رویہ سرور کائنات کا اپنی طول حیات میں رہا مسلمانان عالم کے لئے بطور خود ایک عبرت آموز عملی سبق تھا، امام مسلم کے اپنے صحیح مجموعہ احادیث کے مطابق نبی خدا نے بالصراحت کہا کہ ” میری طرف سے ماسوائے قرآن کے کچھ معرض تحریر میں نہ لا۔ “ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول پاک نے احادیث کو لکھنے ے منع فریایا اور کہا کہ ” پہلی قومیں لکھنے ہی سے گمراہ ہوئیں “ آہ لیکن جس امت نے عشق رسول کے بہانے سے ، رحمتہ للعالمین کے صریح حکم کے برخلاف گمراہی کو خود تلاش کیاہو، جس نے خلفائے راشدین اور صحابہ عظام کے معمول کوبالائے طاق رکھ کر ہلاکت کواپنے ہاتھوں خریدا ہو، جس نے تلاش رسول کے غلط ارمانوں میں، اور اسوئہ حسنہ کے مفہوم کوغلط سمجھ کراور اس میں تو غل یا غلو عظیم کرکے، خود کشی کو اپنا دوست بنا لیا ہو، اورخدا کے صریح احکام کو پس پشت ڈالا ہو۔

یا اھل الکتٰب لا تفلوافی دینکم ولاتقولو علیٰ اللہ الا الحقّ انما لمسیح عیسی ابن مریم رسول اللہ وکلمتہ﴿۴:۱۷۱)

ترجمہ: اے وہ لوگو جن کو خدا کی طرف سے عمل کرنے کیلئے ایک قانون کتاب کی صورت میں بھیجا گیا ہے ، اپنے دین کی ناروا تعظیم میں حد سے بڑھ نہ جاؤ۔ بجائے اس کے کہ اس کتاب کے احکام پر عمل کرو اور اپنی حالت بہتر کرو ،بیہودہ سوالوں میں پڑ جا، اور کتاب لانے والے قاصد اور پیغمبر کی باتوں کو لیکر بال کی کھال نکالتے رہو۔ (لاتغلوا فی دینکم) اورخدا پر سوائے سچ بات کے اور کوئی افترا نہ باند ہو ،مسیح تو صرف خدا کا ایک قاصد ہی تھا ااور اس کے منہ میں خدا کا پیغام تھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہ تھا)۔اور اس کی ہٹ دہرمی اورضد، بےبلاتی اور جہالت میں کیا شک ہے؟ آج وہ قوم عمل کوچھوڑ کر ، اعتقاد و نظر کے اشغال لامتناہیہ وظنون واہمہ میں کچھ ایسی بے طرح پھنسی ہے اورصدیوں کے تقدم و عمران کے بعداپنی آبائی فلاکت، اورموروثی جہل کیطرف کچھ ایسی الٹے پاؤں پھر گئی ہے کہ ایک عالم اس کی بد امتیازی کی ہنسی اڑا رہا ہے۔

وما محمدالارسول قد خلت من قبلہ الرسول افائنمات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم و من ینقلب علیٰ عقبیہ فلن یضراللہ شیئاً وسیجزی اللہ الشکرین۔(۴:۳۴۱)

ترجمہ : اور اے لوگو! محمداس سے بڑھ کر اور کیا ہے کہ تمہاری طرف ہمارا بھیجا ہوا ایک بندہ ہے اور بس، وہ کوئی انوکھا رسول یامافوق الفطرة بشر نہیں ہے جوتم ہر بات پر اسی پر تکیہ لگائے بیٹھے رہو۔ اس سے پہلے اور بھی قطع کے رسول ہو گزرے ہیں اور مر چکے ہیں۔ تواگر یہ اپنی طبعی موت سے مرجائیں یا بالفرض مارے جائیں تو کیا تم اس کی برسوں میں دی ہوئی ہدایت ، یاقرآن پر پیداکیا ہوا عمل چھوڑ کر الٹے پیروں کفر کی طرف پھر لوٹ جا گے یا ہاتھ پر ہاتھ دھر کر ایک دوسرے کے مونہون کو تکتے رہو گے۔ اور یاد رکھو کہ جو شخص رسول خدا کے بعد پھر اپنی بد اعمالیوں اورغفلتوں کی طرف لوٹ گیا و ہ خدا کاتو کچھ بگاڑ بھی نہیںسکے گا۔ اور خدا عنقریب انہیں لوگوں کو نیک عوض دیگا جو احکام الہٰی کی دل سے قدر کر کے ان پرعمل کرتے ہیں۔

قل یا اھل الکتب لا تغلوافی دینکم غیر الحقّ ولا تبتعو ااھواءقوم قد ضلو من قبل و ضلو اکثیراًوضلو اعن سوائالسبیل ۵ لعن الذین کفرو من بنی اسرائیل علی لسان داؤد و عیسی ابن مریم ط ذٰلک بما عصووّ کانوا یعتدون۵ کانوا لا یتناھون عن منکرِِ فعلوہ لبئس ماکانو ایفعلون۵( ۵:۷۷:۹۷)ترٰی کثیراً منھم یتولّون الّذین کفرو لبئس ما قدّمت لہم انفسہم ان سخط اللہ علیہم وفی العذاب ھم خلدون۵ ولو کانوا یومنون باللہ و النبیّ وماانزل الیہ ما اتخذوھم اولیاءو لکنّ کثیراً منہم فاسقون۔(۵ف:۸)

ترجمہ: اے پیغمبر!کتاب خدا کے وارثو ں کو کہہ دو کہ اے اہل کتاب ! خدا کے بتائے دین میں نارو اغلو نہ کرو۔ اس کے سیدھے سادھے احکام میں ناحق پیچدگیاں اور ناجائز مشکلیں پیدا نہ کرو، ان کی دوراز کار تاویلیں نہ کرو، ذرہ ذرہ سی بات پر بال کی کھال نہ نکالو۔ اور ان لوگوں کی ذاتی خواہشوں اور نفسانی اغراض پر نہ چلو جو تم سے پہلے راہ راست سے بھٹک گئے ہیں، کئی پشتوں اور قرنوں کو گمراہ کر چکے ہیں۔ اور ہموار راستے سے بھٹک کر غلو اور تاویل ، تفریق اور تقلید کے ناہموار راستوں پر چل رہے ہیں۔

          مسلمانو! بگوش ہوش سن رکھو بنی اسرائیل میں سے بھی جن لوگوں نے احکام خدا کا عملاً انکار کیا تھا،غلو فی الدّین کر کے مذہب کی صورت مسخ کر دی تھی اور اسی وجہ سے کفر کی حد تک پہنچ چکے تھے، ان پر ان کے اپنے پیغمبروں یعنی داد اور عیسیٰ علیہ السلام کی درشت گوئیوں اور بد دعاں کی وجہ سے خدا کی پھٹکار پڑی تھی، خدا نے ان کو بد حال کر کے ہلاک کر دیا تھا ۔ اور یہ اس لئے کہ وہ لوگ احکام خدا کی صریح نافرمانی کیا کرتے تھے اور غلّو فی الّدین کرکے حد سے بڑھے جاتے تھے بہت ہی برا کرتے تھے۔ مسلمانو! تم ان افعال شیعہ سے قطعاًط احتراز کرتے رہو ایسا نہ کہ تمہارے اپنے پیغمبر ہی کی بد دعا سے تم بھی پھٹکارے جاؤ۔
          اے پیغمبر ! آج تو ان یہودیوں کو دیکھ رہا ہے ( اور انہی کو نہیں بلکہ عہد حاضر کے مسلمانوں کو بھی آج دیک لو، کہ اپنی جماعت کو چھوڑ کر کفار اور غیر جماعت کے لوگوں سے دوستی رکھتے ہیں، ان کے ساتھ محبت اور موالات سے پیش آتے ہیں، حالانکہ اغیار سے موالات کر کے اپنی جماعت کو نقصان پہنچانا ایمان کے نقیض ہے۔ آہ !انہوں نے اپنے حق میں بہت ہی بری تمہید اٹھائی ہوئی ہے، اپنی ہلاکت کی راہ میں خوب کانٹے بوئے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہو گیا ہے کہ خدا ان سے ناراض ہو گیا ہے اور یہ لوگ عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے ۔اور اگر یہ لوگ صحیح معنون میں اللہ اور اپنے بنی موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لاتے اور اس تورات پر عمل کرتے جو ان پر اتاری گئی تو کبھی اپنوں کو چھوڑ کر غیروں کے دوست نہ بنتے لیکن ان میں اکثر فاسق ہیں اور ان کی اجتماعی ہلاکت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔

صرف عمل انسان کو زندہ کر سکتا ہے کتابیں اور تفسیریں نہیں

          پس اے رسول خدا کے نافرمان امیتو، اور اے بنی پاک کی نعش کے پرستارو!آج تمہاری نا بینئی توحید اور نادانی قرآن کی بڑ ی وجہ یہی فتنہءکتابت ہے ۔ اسی انداز تعلیم و تعلم نے تمہارے تخیل کومنقسم ، تمہاری نیات کو پراگندہ، طاقت عمل کو بے اثر اور حوصلوں کو کالعدم کر دیا ہے۔ تمہارے اسلاف کے پیش نظر جذبات کے کارکن تلاطم اور عمل کے دریا تھے مگر تم نے ان کی محرک تصویر کاغذ کے بے اثر حروف میں کھینچی چاہی، تمہارے اجداد کو توحید نے، سب سے توڑ کر، رب لم یزل سے جوڑ دیاتھا مگر تم نے یہ ناممکن البیان کیف عاجز اور بے بس قلم کے سپرد کر دیا! تم کبھی خدا کا نام سنکر کانپنے اور لرزنے والے تھے مگر تم نے یہ ملکوتی تڑپ ناتواں لفظوں اور بے حس ورقوں کے حوالے کر دی! تم ماسوا کو بے شک ہیچ سمجھنے والوں سے تھے ، مگر تم نے وہ ربانی غنا اور وہ قدوسی دل پرزہ کاغذ پر لکھ کرمحو کر دیئے ! تم گوڈریاں پہن کر ، محمد کا پروانہ لئے ہوئے قیصروکسرےٰ کے تخت پر بے دھڑک بیٹھ جاتے تھے مگر آہ ! تم نے وہ لاہوتی جگر کتابوں پر رکھ کر مسخ کر دیئے ! تمہارے سینے عصبیت کے سر بمہر ہیجانوں کے امین ، اور تمہارے دل توحید کے سر بکف عندیوں کے نشیمن تھے مگر آہ ! تم ان سینوں اور دلوں کو کتابوں پر چیر کر کیا دکھا سکتے تھے، تم وہ مضضہ ہائے دل، اور وہ پارہ ہائے جگر صفحئہ قرطاس پر کہاں چپکا سکتے تھے ، تم شہدائے خدا کی شہادت، ان کی کیفیت قلب ،ان کی تڑپ اور ولولے ، ان کی وجدانیت اور حال و قال، بے چاری کلک نے سے کیا لکھو ا سکتے تھے۔تم میں اولو العزم انبیاءجیسا اسلوب عمل، اور رسولوں کا سا امتثال امر کہاں سے آگیاتھا جواپنے زور قلم اور نفوذ حکم سے ہی ایک عالم کے جذبات کو زندہ رکھ سکتے۔ تمہارے تخیل کے بہترین محافظ خود انسان اور ان کے عمل تھے ۔ ان کے گوشت اور خون سے بنے ہوئے دل و جگر تھے! ان کی خموش اور سوختہ زبانیں تھیں، ان کے مرعوب خدا اور مستغنی ماسوا قلب تھے ! ان کی راتوں کے وقت مصیبت کشا چیخیں تھیں، ان کے دلوں کو جہاد بالسیف تھے ! ان کے سفروں میں رتجگے تھے، ان کی میدانوں میں پنج وقتہ کراہیں تھیں! ان کی چیتھڑوں کے پرتلوں میں حمائل کی ہوئی تلواریں تھیں، ان کے رسیوں سے مرمت کئے ہوئے نیزے تھے ! ان کے ایوان گاہ کسرےٰ میں صید بازیاں اور آتشکدوں کے مناورں پر اللہ اکبر تھے! ان کے فراخ اور محبت پذیر حوصلے تھے ۔ ان کا ہر انسان سے شیوئہ سلوک تھا ! تم اس نا ممکن الرقم حال کو ضبط تحریر میں کیا لا سکتے، تم اس ارتعاش و حرکت ، اس تلملاہٹ اور اٹھان ، اس جوش اور ابال کا خاکہ تفسیر و تراجم میں کیا عیاں کر سکتے! قرآن کی تفسیر فی الحقیقت خدا کے بندے تھے ۔کتاب خدا صرف تمہارے قلبی تصور کی ایزدی سند اور تمہارے اعمال کی الہی رہنما تھی، بجائے خود تخیل نہ تھی۔ وہ یقین خدا جو تمہارے دلوں پر قرنوں تک جما رہا درس و تدریس قرآن کا پیدا کیاہوا۔ بیشتر نہ تھا۔ وہ اس رحمتہ للعلمین کی صحبت اور شہادت کا نقش تھاجو تم نے قبول کر لیا تھا ۔ ( یا یّھاالنبی انّا ارسلنک شاھدً و مبشراً و نذیراً۵ و داعیاً الی اللہ باذنہ و سراجا منیراً ۵ و بشّرالمومنین بانّ لہم من اللہ فضلاً کبیراً(۳۳: ۵۴:۷۴) ا نّا ارسلنا علیکم رسولاً ۵ شاھدًا علیکم کما ارسلنا الیٰ فرعون رسولا۵ (۳۷: ۵۱۱)
                  ( ترجمہ: اے نبی! ہم نے فی الحقیقت تم کو اپنے وجود کا عملی گواہ بنا کر، قومون کو اس دنیا میںعروج اورتمکن فی الارض کے دستور العمل پر چلانے کی خوشخبری دینے والا یا بصورت عصیاں قوموں کو ہلاکت کے عذاب سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ بلکہ تم کو وہ روشن چراغ بنا کر بھیجا ہے جو اقوام عالم کو خدا کے حکم سے قانون خدا کی تعمیل کی طرف کھینچ لاتا ہے۔ پس ان لوگوں کو جو تمہارے پیش کردہ دستور العمل پرحامل ہیں خوشخبری دے دو کہ خدا کے ہاں سے ان کو ایک بڑا عروج نصیب ہونے والا ہے)۔2۔ ترجمہ :ہم نے فی الحقیقت تم عرب قوم پر ایک خدا کے وجود کی ازروئے عمل گواہی دینے والے رسول کو اسی انداز سے بھیجا ہے جس انداز پر ہم نے ایک پیغامبر کو فرعون کے پاس بھیجا تھا۔ وہ ان صالح العمل انسانوں کی صبر گسل محنتوں کا اثر تھا جو تمام عمر خدا کی گواہی دیتے دیتے چل بسے ( لیکون الرّسول شھیدًا علیکم و تکونو ا شھداءعلی النّاس) (۲۲:۸۷)ترجمہ: (یہ اس لئے کہ رسول تم پر خدا کے وجود کا گواہ ٹھہرے اور پھر تم خدا ہونے کی گواہی دنیا جہان کے لوگوں کو اپنے عمل سے دو) وہ اس محلہ اتحاد و عمل کی خوبی تھی جس کے حیطئہ اثر میں تم سب آگئے تھے ۔ وہ اس لجئہ احسان و اصلاح کی آبیاری تھی جس لہریں سب کو سعی و عمل میں تر بتر کردیتی تھیں۔ ! یہی وہ سچی ہدایت اور بے مثال رہنمائی تھی جو عربیت قرآن ، بلاغت و فصاحت اور تناسب الفاظ، سب سے قطع نظر کر کے، خدائے عظیم کا یہ کارکن ، اور اولوالعزم نبی تم کو اپنی مدت العمر سعی و جدل کے بعد دے گیاتھا ۔ یہی وہ مینع الحصول ہدیٰ اور سیریع الاثر قلب ماہیت تھی جس نے آسمان و زمین بدل دینے تھے، جس نے ایک عالم کو خدائے واحد کی عبادت پر متفق العمل کر کے اس کے آگے ہمہ تن سر بسجود کر دینا تھا۔ ( یوم تبدّل الارض غیر الارض والسّمٰوٰات و برزو اللہ الواحد القہار۵ وتری المجرمین ۔ یومئذِِ مقرّنین فی الاصفاد ۵ (۴۱:۸۴:۹۱)ترجمہ:ا(س فیصلے کے دن یہ زمین و آسمان ہی کوئی اور زمین ہو جائیں گے اور خلاف معمول سب مخلوق خدائے جابر و قاہر کے آگے صف بصف کھڑی ہوگی۔ اس روز مجرم بیڑیوں میں جکڑے ہونگے) ۔ جس نے ہر مجرم اورمفسد قوم کو لوائے محمد کے نیچے پا بہ زنجیر کھڑا کر کے دین اسلام کا بول بالا کر دینا تھا! ھوا لّذی ارسل رسولہ بالھدٰی و دین الحقّ لیظھرہ علیٰ الّدین کلّہ و لوکرہ المشرکون(۱۶: ۹) ترجمہ : (وہی خدائے بزرگ و برتر ہے جس نے اپنے پیغامبر کو ہدایت اور صحیح طرز عمل کیساتھ اس غرض و غایت کے لئے بھیجا کہ اس کو تمام دنیا کے غلط دستور العملوں پر غالب کر دے خواہ یہ غلبہ منکرین قانون خدا کو برا ہی کیوں نہ لگے)۔ قرآن اب بھی تمہارے پاس بعینہ اسی طرح موجود ہے ،اس میں ایک حرف جتنا ردوبدل نہیں ہوا، اس کی ہدایت پکار پکار کر تمہیں بلا رہی ہے مگر آج اس طرح کیوں نہیں مانتے ، آج وہ ہدیٰ کدہر ہے ، تم میں وہ تخیل کیوں پیدا نہیں ہوتا؟ آہ! تخیل کی کوئی زبان نہیں، اس کا کچھ نوع بیان نہیںِ اس کو پیدا کرنے، اور قائم رکھنے والے محرر اور مقرر اکثر نہیں ہوتے ، وہ پڑھ کر یا لکھ کر کچھ دیانہیں کرتے ۔ان کا طلسمی عمل سے اس نموذج حیات میں ہوا کرتا ہے جن کو وہ لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ہیں۔ پھر اس کا متعدی اثر و با کی مانند بڑھتا، اور جراثیم کی طرح پھیلتا جاتا ہے، اس کی حدت تن بدن میں آگ لگا دیتی ہے، دل کی مشعلیں جل اٹھتی ہیں ، جی جاگ جاتے ہیں! یہی وہ میراث عظیم تھی جو رسول خدانے تمہارے قبضے میں دے دی تھی ، یہی وہ گرانقدر دولت تھی جسکو سینوں میں مقفل رکھنے کی ہدایت کر گئے تھے ، اسی برتے پرتم نے ایک عالم کو زیر کرنا تھا، اسی کے بل بوتے پر اقوام جہاں یک رائے ویک یقین ہو جانی تھیں۔ آہ ! مگر تم نے اس سب کیف و حال کوعرصئہ دل سے نکال کر تنگ نائے قرطاس ، اور نعش کدئہ کتاب پر دہر دیا۔ حروف کی گولائیاں ، الفاظ کی ندرتیں ، بندش کی چستیاں ، مطالبہ کے نظریے، مفسرین کی بلندبینیاں ، تمہارے شغل و اشغال بن گئے ، تم اٹھنے اور کرنے کی بجائے دیکھنے اور واہ واہ کرنے کے عادی بن گئے۔ تم عمل کو چھوڑ کر نقل کے مسحور ہو گئے۔ خدا اور رسول کے علم و یقین سے قطع نظر کر کے بندوں کی شریعتوں اور خیال آرائیوں ، ر اں اور طریقوں کے حامل بن گئے ! تمہیں تیئس برس کی جانکاہ مصائب کے بعد، ایمان کی حقیقت بتائی گئی تھی، تمہارا خدا خدا کر کے کفر توڑا گیا تھا، تمہارے ذہنوں اور دلوں کے اندر بصد مشکل، توحید بھر دی گئی تھی، تمہیں ولایت خدا پر آمادئہ عمل کر کے، ایک عالم کو متحرک کر دیا تھا، کفر کی ہولناک سزائیں ، شرک کی بے امان عقوبتیں، جہنم کے دہکتے ہوئے شعلے، عذاب کی ناگہاں بجلیاں تم پر بالآخر ایسے آشکارا ہو گئی تھیں کہ تم ان کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، تم نے خدا کی چاکری ( غلامی) اور رب العرش کی عبادت میں وہ لطف دیکھ لیا تھا کہ جہاں جاتے تھے ۔سلطنتیں تم پر نثار، اورحکومتیں قربان ہوتی تھی، تمہیں صلوٰة ، زکوٰة، توبہ و استغفار کا وہ رنگ نظر آگیا تھا کہ جدہر منہ اٹھاتے تھے قوت اور دولت کے مینہ لگا تار برستے، جنات زمین اور دریا  (انھارکاترجمہ دریاکیاگیاہے۔کٹھ ملاں نے جنتِِ تجری من تحتھاالانھار کا ترجمہ چھوٹے چھوٹے باغ اورچھوٹی چھوٹی نہریں کر دیاہے۔ فکر ہرکس بقدر ہمت اوست)تمہارے استقبال کو دوڑتے ،مگر تم نے رفتہ رفتہ خدا کی اس تمام ذہنی تصویر کورد کر دیا۔ گھوڑوں کی پیٹھ ، اورپتھروں کے مصلے چھوڑ کر زنان خانوں میں آگھسے ،مردوںکے ڈھنگ ، اورشہداءکے اطوار کو خیر باد کہہ کر ربات حجال پردہ نشین بن گئے، عورتوں کی طرح کتابوں کا نقاب اوڑھ لیا، عقائد کی تدوین شروع کر دی! پھر تم نے تیئس برس کے درس ایمان کا حق کلمئہ شہادت کے دو جملوں میں ادا کر دیا، عبادت خدا نماز کی چند رکعتوں میں ختم کر دی، توحید خدا کو منہ سے ایک کہنے پربس کر دی، کسی ننگ وجود ننگ دھڑنگ کو چار پیسے دے کر،جہاد بالمال کر لیا، جہاد بالسیف کو گراں سمجھ کر ، جہاد بالقلم قائم کیا، فی سبیل اللہ کے جانفزا علم کو گداگروں کے سپرد کر دیا، ”ترتیل“ و ” حفظ قرآن “ رسمیں بن گئیں ، اہل کتاب مشرک ،اور کافر بنا کر اپنے آپ کو موجد قرار دیا، دنیا طلبی کی برائیاں قرآن میں غلط دیکھ کر، سلطنتون اور حکومتوں پر لات مارنی شروع کی تسبیحوں ، دیدہ زیب آفتادوں اور مصلاں کو یکسر پکڑ لیا گویا اپنے زعم میں سب سے قطع تعلق کر کے خدا کے ساتھ رشتہ جوڑ لیا۔ تب ائتلاف امت اور اتحاد عمل کی برکتیں تم میں مفقود ہونے لگیں، اطاعت کے کرشمے نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ دنیا کی قوموں پر تمہارا ہول کم ہوتا گیا۔تمہارے نظم و نسق کی ہوا اکھڑنے لگی ، تمہارے شیرازے کے دھاگے یک بیک ٹوٹنے لگے، پھر فاقہ بازیوں نے رفتہ رفتہ تمہاری وحدت اور عصبیت کی جڑ کھوکھلی کردی، خلافت کو کئی مرکزوں میں تقسیم کیا، ملک ایک ایک کر کے چھنتے گئے ۔ سلطنت کے ثعنو و حدود تنگ ہو گئے۔ ذالک جزینا ھم بماکفرو او ھل نجزی الّا الکفور(۱) (۴۳:۷۱) ترجمہ : (یہ تھی وہ درد ناک سزا جوہم نے ان کو قانون خدا پر عمل سے انکار کے بدلے میں دی اور کیاہم منکرین قانون کے سوا بھی کسی کو سزا دیتے ہیں ان کل الّا کذّب الرّسل فحقّ عقاب(۲) (۸۳: ۴۱)ترجمہ :(یہ سب قومیں وہی جنہوں نے ہمارے پیغامبروںکے ذریعے بھیجے ہوئے احکام پرعمل نہ کیا۔ تو ان پر سزا لازم ہو گئی۔ قسمت کے یہ رنگ اورزمانے کے یہنارواڈھنگ دیکھ کر،پھرتمہیں اپنے خدا سے شرم آنے لگی، تم میں دین کی اشاعت کے حوصلے پست ہو گئے ۔تم میں خدا کا آوازہ بلند کرنے کی دلیریاں نہ رہیں۔ تم میں روٹھے ہوئے اللہکو منانے کے جگرنہ رہے! پھر جب اس ناہنجار صلاح، اس قسی القلب عبادت، اورناکاربرآر تقویٰ نے خدا کی دنیاوی زمین تم پر تنگکر دی، تم اس کے وارث نہ رہے اور زبور کے قدیم فیصلے کے رو سے حلقہءصلاح و عبودیت سے رفتہ رفتہ خارج کر دیئے تو تم نے اپنا ڈیرہ جنت کی موروثی زمینوں پر جما لیا۔ (انّ الارض یرثھا عبادی الصّلحون ) ترجمہ: لامحالہ اس زمین کی وارث میری وہی حکم بردار قوم ہو گی جس میں صلاحیت ہو گی۔میں تم نے الار کے معنی ارض جنت کر کے پشت در پشت مسلمانوں اورکروڑ در کروڑ بندگان خدا کے تخیل کا خون اپنی گردنوں پر لیا، تم نے ان کی رہی سہی ہمتوں کو چور کر دیا۔ تم نے ان کے کمزور حوصلوں کواور بھی شکست دی، تم نے کلام الہٰی کے مطالب میں دوراز وہم و قیاس تحریف کر کے، جراتوں کے شب خون کئے ۔ وجعلنا قلوبھم قاستہً یحرّفون الکلم عن مواضعہ و نسوخظاً ممّا ذکّرو بہ، (۵: ۳۱) ترجمہ : (اور ہم نے اس قوم کے دل پتھر کر دیئے ، وہ کام چوری کی وجہ سے خدا کے حکموں سے بچنے کی خاطر اس کے جملوں کی اپنے سیاق و سباق سے ہٹا کر تاویلیں کرتے تھے اور جو سبق ان کو یاد دلایا تھا اس کا بڑا حصہ بھول گئے ۔)تم نے مسلمانوں کی اقلیم قلب نامردیاں پھیلا دی ! تم نے ان کی کشور عمل و اردات میں خرابے بکھیر دیئے ! تم نے صر ان دو آیتوں کے مطالب کی غلط تبلیغ و اشاعت سے کروڑ ہا خلق خداکو اعتکاف خانوں میں بند کر دیا، ان کے شریف ، پاکیزہ ، اوراحسن الخلق ،اعضاءکو بیکار کیا، ان کو تسبیحوں کی اضطراری گردش میں محوکر کے ، توحید کی عظمت کو دریا غرق کر دیا، ان کے حیر ت انگیز قوائے عاملہ، ان کے بے مثال انگیز وتحمل ،ان کی طاقت شب زندہ داری اور جفا برداری کو غلط رستے پر چلا کر مسرف اور مفسد بنے، الذّین ینقضون عھد اللہ من بعد میثاقہ، و یقطعون ما امر اللہ بہٓ ان یوصل ویفسدون فی الارض ط اولئک ھم الخاسرون۔(۲: ۷۲)ترجمہ :(یہ و ہ لوگ ہیں جو مضبوط کرنے کے بعد اللہ سے باندھے ہوئے عہد و پیمان کوتوڑ دیتے ہیں اور جس چیز کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو توڑ دیتے ہیں اورزمین میں بد نظمی اورفساد مچاتے ہیں۔ تویہی وہ قوم ہے جو بالآخر گھاٹے میں رہے گی۔)فساد نقل ، اورفتنہ کتابت کی یہ وہ ادنیٰ شرارت تھی جس کی غلط شیخی پر تم نے اپنا خدا سے باندھا ھوا عہد توڑا۔ اپنے ہاتھ پاں کا غلط استعمال اور فطرت کا گناہ عظیم کر کے زمین میں فساد برپا کر دیا، آج کے برے روز حساب سے بے خوف ہو کر بے وقوف بنے، انّمایتذکّرو ولوالالباب۵ لا۔ الّذین یو فون بعھداللہ ولا ینقضون المیثاق ۵لا۔ والّذین یصلون ما امر اللہ بہ ان یوصل ویخشون ربّھم و یخافون سرعاً الحساب ۵ط(۳۱:۹۱:۱۲) ترجمہ :( صاحب عقل و دانش لوگ ہی عبرت پکڑتے ہیں اور یہ و ہ لوگ ہیں ، جو خدا سے باندھے ہوئے عہد و پیمان کو بناھتے ہیں اور اس کو نہیں توڑتے ۔اور یہ وہ لوگ ہیں جواس شے کو جس کا اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے۔ جوڑدیتے ہیں، خدا کے قانون سے خوفزدہ ہیں اور برے حساب سے ڈرتے رہتے ہیں۔ ) اپنے اعضاءکو بے کارو شل کرکے ذلت اور لعنت کا طوق گلوں میں ڈالا، والّذین ینقضون عہد اللہ من بعد میثاقہ ویقطعون ما امراللہ ربہ ان یوصل ویفسدون فی الارض، اولئک لھم الّعنتہ ولھم سٓو ءالدّار۔ (۳۱: ۵۲) ترجمہ : (اور یہ وہ لوگ ہیں جو مضبوط کرنے کے بعد اللہ سے باندھے ہوئے عہد و پیمان کو توڑ دیتے ہیں اور جس شے کو جوڑنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اس کو تور دیتے ہیں اورزمین میں بد نظمی اور فساد پھیلاتے ہیں۔ تو یہ وہ قوم ہے جس پرلعنت ہے اور ان کا ٹھکانا برا ہے۔)الغرض تم نے شارحین کی غلط راں اورمجمل فیصلوں پر اعتبار کر کے اپنے آپ کو سپرد اجل کردیا! جنت کا وعدہ تم سے ایک ہی شرط پر کیا گیا تھا، اور وہ شرط غلبہ اسلام تھی، انّ اللہ اشتری من المومین انفسہم و امر الھم بانّ لھم الجنّتہ یقاتلون فی سبیل اللہ فیقتلون و یقتلون قف(۹:۱۱۱) ترجمہ : (اللہ نے ایمان والوں سے جنت کے بدلے ان کی جانیں اور ان کے مال خریدلئے ہیں ، تو اب ان کاعمل یہ ہے کہ خدا کی راہ میں جہاد بالسیف کرتے ہیں، پھر قتل کرتے ہیں اورقتل ہوتے ہیں۔ )مگر تم نے چونتڑوں پر بیٹھ کر رام رام جپنے میں دین کی فتح سمجھی ، تم نے دانہ ہائے تسبیح کے سوراخوں کے اندر جنت کے سبز باغ دیکھے ، تم نے مشجر مصلان کے شاخ و گل قالین میں بہشت کے میوے چنے ۔ نہیں تمہیں اسی رہبانیت کی نفس کشی اور گوشہ نشینی کے فقرو افلاس میں جنت کی تکمیل شرط نظر آئی،تم نے اسی روح شکن ،اور مضعف ایمان و اعضا”عبادت“ کو جہادبالنفس سمجھا، تم نے تابعین کرام، صحابہ عظام ،بلکہ خودسرور عالم کے قتال کونظر انداز کر کے صلاح کا غلط تخیل،مفسرین کی شخصی رائے پر ، دلوں میں قائم کیا، آہ! مگربچارے شارحین قرآن بھی کیا قصوروار تھے۔ ان کے عاجز قلم تمہیں کیا کیا دکھاسکتے تھے، وہ دولفظوں کے اندر صلاح کی کیاتشریحیںکر سکتے تھے، وہ قلم برداشتہ ، عبادت ،کاکیا رنگ کاغذ پر جما سکتے تھے؟ تم نے خودغلط دیکھااور غلط سمجھا ۔ فرمودئہ خدا کی صحیح تصویر تمہارے ذہنون میں تبھی قائم رہ سکتی تھی جب تمہارے اسلاف صالحین کی عملی روائتیں، بتواتر عنل تم تک پہنچتیں! تمہارا سلسلہ خدا سے ٹوٹ گیا تھا، پھر سلف راشدین سے ٹوٹ گیا، قرآن کے سچے عاملین سے ٹوٹ گیا۔ اب اللہ کی رسی کو چھوڑ کر، رشتہءتسبیح سے کیا جڑ سکے گا جب تم آپ منکوں کی طرح روئے زمین پر بکھر چکے ہو، آج تمہیں غمزدوں کی یہ تنقید بھی بری لگتی ہے، اسے بے دھڑک شرک جلی، کفرو زندقہ، اورنہ جانے کیا کیا کہہ دو گے۔ مگر آہ ! تمہیں کیا خبر کہ تمہاری داستان پیشن میں ایک وہ زمانہ تھا جب قرآن کی تفسیرلکھنا بھی اسلام کے نقطئہ نظرسے بد ترین گناہ اور جرم تھا!


بارے گہر نمی کشد این تار نازک است
کم گو سخن کہ خاطر دلدار نازک است

          یا ھل الکتب لم تکفرون بایت اللہ و انتم تشھدون۔ یا ھل الکتب لم تلبسون الحقّ بالباطل و تکتمون وانتم تعلمون۔ (۳:۹۶: ۰۷)
          ترجمہ: اے کتاب خدا کے وارثو! تم کیوں خدا کے دین اور ناقابل انکار احکام کے بارے میں انکار کا باطنی پہلو دلوں میں چھپائے بیٹھے ہو، کیوں ان کے مقاصد کو نظر انداز کرتے ہو، ان میں تاویل اور مکر پیدا کرتے ہوحالانکہ تم ان کی غرض و غایت کو صاف دیکھ رہے ہو،(وانتم تشھدون)،اے کتاب خدا کے حاملو! تم کیوں حق بات اور صریح حکموں کو باطل کا لباس پہنا کر اس کی اصلیت کو مسخ کر دیتے ہواور جان بوجھ کر حقیقت اورواقع الامر کو تاویل کے پردوں میں چھپا دیتے ہو تا کہ تمہارے ذاتی عیوب اور کامچوریاں چھپی رہیں۔
          یا ھل الکتب لم تکفرون بایت اللہ واللہ شہیدعلیٰ ما تعملون۵ قل یاٰ ھل الکتب لم تصدّون عن سبیل اللہ من امن تبعونھا عوجاً وّانتم شہدٓا وما اللہ بغافل عمّا تعملون (۳:۷۹:۹۸)
          ترجمہ: اے پیغمبر قانون خداکے عاملوں سے کہہ کہ اے کتاب خدا کے وارثو!تم کیوں احکام خدا کے بارے میں عملاً انکار کا پہلو قائم کر رہے ہو حالانکہ جوکچھ تم عمل کر رہے ہو خدا اس کو بغور دیکھ رہا ہے۔ اے اہل کتاب ! تم کیوں خد ا کے بتائے ہوئے رستے میں مکر کے پہلو نکال کر اورتاویل کے زاویے کاٹ کر اس کو کج بنانے کے درپے ہو اور ایمان والوں کو اس پر چلنے سے روک رہے ہو، (کیوں جہاد فی سبیل اللہ کی مہتم بالشان حکمت کی ناروا تشریحیں کرکے اپنی پوشی کرتے ہو، کیوں زکوٰة کی صورت مسخ کر رہے ہو، توحید کو آسان بتاتے ہو، جنت کو سہل الحصول ظاہر کر رہے ،وغیرہ وغیرہ) حالانکہ تم جو کچھ کر رہے ہو، جان بوجھ کرکر رہے ہو ، ( وانتم شھدائ) اور یاد رکھو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو ، اس سے خدا ایک لحظہ غافل نہیں ۔ ام حسبتم ان تد خلو االجنّتہ و لمّا یاتکم مّثل الّذین خلوامن قبلکم ط مسّتہم الباسآءو الضّرّا ءو زلزلواحتّی یقول الرّسول والّذین اٰمنو معہ متٰی نصر اللہ الا انّ نصر اللہ قریب (۲:۴۱۲)
          ترجمہ: اے مسلمانو!کیا تم نے اپنے زعم میں یہ سمجھ لیا ہے کہ خدا کو منہ سے خدا کہہ کر مزے سے بہشت میں جا داخل ہو نگے حالانکہ ابھی تک تمہاری وہ حالت نہیں ہوئی جو تم سے پہلے ایمان والوں کی تھی انہوں نے اعلائے دین اور حفاظت اسلام کی خاطر وہ سختیاں ، وہ وہ درد ناک تکلیفیں اٹھائیں اور ان کے ضمن میں ان کے ایمان شدت ایذا اور تسلسل تکلیف کی وجہ سے ڈگمگائے ۔حتٰی کہ خود پیغمبر اور ان کے ایمان والے ساتھی بھی چلا اٹھے کہ اے خدا تیری مدد کے آنے کا کوئی وقت بھی ہے۔ پھر ہم نے ان کو تسلی دی اور کہا اے ایمان ولو! سنبھلو سنبھلو خدا کو مدد کا وقت قریب آگیا ہے!
           ام حسبتم ان تد خلو االجنّتہ و لمّا یعلم اللہ الّذین جاھدو امنکم ویعلم الصّبرین (۳:۱۴)
          ترجمہ: مسلمانو!کیا تم اس گمان میں ہو کہ خدا کو منہ سے خدا کہہ کر جھٹ پٹ جنت میں جا داخل ہو گے۔ حالانکہ خدا نے ابھی تک تم میں سے ان لوگوں کو جانا پہچانا ہی نہیں جو اس کی راہ میں قتال بالسیف کرتے ہیں اور اعلائے کلمتہ الحق اور تقویت اسلام کے لئے مسلسل تکالیف برداشت کرتے ہیں

عنایت اللہ خان المشرقی