Pages

Time

Tazkirah Mein Kya Likha? by Allama Mashriqi

کوئٹہ کیمپ بلوچستان علامہ مشرقی کا خطاب
تذکرہ میں لکھا کیا ہے؟
(۲۸جولائی ۱۹۳۹---الاصلاح)
بلوچستان میں صلاحیت اورخاکسار تحریک

          خاکسار سپاہیواور مسلمانو! بلوچستان کا وسیع اور آزاد نما ملک خدا کی طرف سے انگریزکو آخری انعام تھا جو اس قوم کو براعظم ہند میں حسن عمل کے بدلے میں دعا لیا، آزادی ہند کے تابوت پر آخری میخ تھی جو محکمہ قضاو قدر کے فرشتوں نے قہر خدا کے ہتھوڑوں سے گاڑ دی ، ہندوستان میں مسلمانوں کے تیرہ سوبرس کے شوکت اور جلال کی آخری جڑتھی جوبے دھڑک کاٹ کر رکھ دی گئی، بلوچستان کا ملک اب بھی اگر غور سے دیکھو کئی خوبیوں اور صلاحتیوں کا خزانہ ہے جو کسی صحت منداور صالح قوم میں ہو سکتی ہیں ، کئی ظاہری اور باطنی خاصیتوں کا مسکن ہے جو غلامی اور ذلت کی نقیض ہیں اس قوم کا سب سے آخر اور سب کے بعد غلامی کی آہنی گرفت میں آنا اس امرکی دلیل ہے کہ اس میں اور ہندوستانی صوبوں کے بالمقابل سب سے زیادہ صالحیت اورصلاحیت موجود تھی جو بالآخر مقصود ہوگئی بلوچستان تاریخ ان دافدار واقعات اور عیوب سے نسبتہ پاک ہے جو پچھلے دو سوبرس میں سرحد اور پنجاب میں ہوئے ان غدارانہ اور قوم کش تمدنی اور تبلیغی اثرات سے مقابلتہ آزاد ہے جن کے باعث سرحد سندھ اور پنجاب چند برسوں کے اندر ناتواں ہو کر بہ گئے - بلوچستان میں غلام اور عاجز ہندوستانی کی نگاہوں میں اشد شدید جہالت بے پناہ ظلمت اور پسماندگی لیکن بادشاہ اور صالح انگریز کے نقطئہ نظر سے آنکھوں اور ذہنوں میں خطرناک علم بیمگمان نور اور بیداری باقی ہے یہی وجہ ہے کہ انگریزاس صوبے کی ”حفاظت“ خاص طور پر کر رہا ہے آزادی کے تخلیل کی صدا تک سننے نہیں دیتا۔ سیاست کے نصب العین کی ہوالگنے تک کے خلاف ہے کانگرس کے پچھلے پچاس برس کی بھاگ دوڑ اور شوروشر کے باوجود بلوچستان میں اب تک ایک کانگرس کمیٹی نہ بن سکی، سب انجمنیں جن کا کام قوم کو بیدار کرنا تھا انگریز کی تیز نظر کا شکار ہو کررہ گئیں، آپس میں سرپھٹول کرنے والی اورچندہ خور مجلسیں اخلاقی کمزوری اور بزدلی کے باعث کچھ پیر نہ جما سکیں خاکسار تحریک صرف ایک برس ہوا اپنے خدمت خلق اور فیض عام کے پروگرام کو بے دھڑک لے کر آئی ہمارے بہادر سپاہیوں نے یہاں پہلی دفعہ دنیا میں نیکی کا ڈنکہ بجایا دشمن اور دوست سب کو معلوم تھا کہ ہم نیک ہیں نیکی پھیلا کر رہیں گے نیکی کو روکنے کا کوئی قانون دنیا میں موجود نہیں نیکی کو روکیں گے تو اور خطرناک ہو کر پھیلے گی الغرض دشمن ہار کر بیٹھ گئے اور دوست شامل ہوتے گئے کوئٹہ میں ہمارا علم پہنچتے ہی ہمارے ایک بہادر سپاہی فیروز بہادر نے ایک انسان کو تکلیف میں دیکھ کر اپنی جان کو پیش کیا اپنے عزیز جسم میں سے۰۰۵مکعب سنٹی یعنی قریبا آدھ سیر خون نکال کر برادرقوم کے ایک فرد کے سپرد کردیا کہ اس کی جان بچ جائے ! خون کے کرشمے دنیا کی تاریخ کے ہر ورق پر لکھے ہیں دنیا میں ہر زندگی اور ترقی کا نزد بان خون رہا ہے ہر بلندی اور رفعت کی پہلی اور آخری سیڑھی انسانی خون ہے ہاں! جان کو گھول گھول کر ہلاک کرنا اور نفس کو قوم کی خا طرتباہ کردینا ہے الغرض اس آدھ سیر خون کی پیشکش نے خاکسارتحریک کو بلوچستان میں چلتا کر دیا ادھر تمہارے ناظم اعلی محترم عبدالعزیز کی دن رات کی جان کو گھٹانے والی محنت اور خون سکھا دینے والے غم نے اس پودے کی خوب آبیاری کی تندیر ہوائیں اور آندھیاں بجلیاں اور بگولے خوب چلے اور یقینی امداد دے کر پودے کو موٹا کرتے گئے ان باغبانوں پر ہمارا سلام ہوکر انہوں نے اپنے ہاتھ سے نیکی کا بیج بویا اور آج اس سربفلک درخت کے سائے میں سے سب امن پارہے ہیں۔

ہرکمزور قوم ملا کی گرفت میں ہوتی ہے

خاکسار سپاہیو! اور مسلمانو! بلوچستان کی سرزمین نسبتہً اور زمینوں سے زیادہ مولوی زدہ اور ملا پرست ہے کسی قوم کا اس کے پیشہ ورمذہبی رہنماں کی خطرناک پکڑ میں ہونا اس امر کا ثبوت ہے کہ اس قوم میں قوت اوطاقت کاآخری نشان مٹ چکاہے وہ قوم اس دنیا میں اپنے لئے کچھ نہ دیکھ کر اور سب جسمانی جاہ وجلال ہار کاب ان غیر جسمانی اور غیر مری اشیاءکیطرف لگی ہے جن کو اس قوم کے خود ساختہ رہبر اپنی ویٹوں کو برقرار رکھنے کی خاطر تسیوں میں مبتلا کرنے کی غرض سے بتلاتے رہتے ہیں یہ لوگ اپنی دون ہمتی کے باعث دنی اکے نقدا نقد سے عمدا قطع نظر کر اکرآخرت کے ادھا ر پر اس لئے زور دیتے ہیں کہ انسان کی بڑی سے بڑی عیاری اور ہوشمندی آخرت کے بھید کو کھول نہیں سکتی آخرت کے متعلق وہ جو کچھ کہتے ہیں اس کی تصدیق ان دنیا وی آنکھوں سے ہونہیں سکتی ادھر انسان کو قدر تا آخرت سے انتہائی دلچسپی ہے اور ان مذہبی پیشہ وروں کی گرفت میں آئی ہوئی قوم یہ نہیں دیکھ سکتی کہ آخرت کے متعلق ان کے بے سندانعاموں کی آسان اور بے دھڑک تقسیم محضاس لئے ہے کہ ان ہیچکاں کو بھی اس دنیا میں بالآخر کچھ کما کر کھانا ہے جب تک یہ لوگ قوم کو جنت کے سبز باغ نہ دکھلاتے رہیں اور گری ہوئی قوم کو مفت جنت دلادلا کر انہیں سعی وعمل سے قطعا نا آشنا نہ کریں انکی دنیا نہیںبتنی انہیں روٹیاں کو ن دے گا؟ ان کوکون اپنا اخروی رہبرمان سکے گا؟ انہیںپیٹ بھر کر کھانے کو اس لئے ملتا ہے کہ مولوی اور ملانے اس دنیا کودین سے قطعا الگ کر دیا ہے قوم کی گری ہوئی طاقت کے لئے ایک ایسا خوبصورت عذر پیش کردیا ہے کہ اس دنیا کے چلے جانے کے بعد کسی کو دنیا پھر حاصل کرنے کا غم باقی نہ رہے تمام غفلتیں اور نادانیاں تمام بدمعاشیاں اور گناہ تمامبدکرداریاں اور برائیاں جن کے باعث قوم کی دنیا تباہ ہو گئی اور وہ غریب رات کی روٹی کی محتاج ہو گئی اسی لئے کسی ملامت کے لائق نہیں کہ مولوی چھٹ اپنے مطلب کے بناہنے کے لئے مشہور حدیث پیش کر دیتا ہے کہ دنیا مراد رہے اور اس کا طالب کتا ہے چھٹ فریب دیتا ہے کہ تم اس کے ہاتھ سے چلے جانے کا غم نہ کرو اس دنیا وی قوت اور جلال کے گم ہو جانے کا فکرکم رکھو یہ اس زمین پر طاقتور ہو کر رہنا صرف کا فروں کا شیوہ ہے تم اپنی نظر یں اس جنت اور اس آسمان کی طرف لگائے رکھو جس کا چودھری میں ازروئے قرآن وحدیث مقرر ہوں تم سب میں عالم یعنی جاننے ولا میں مشہور ہوں میرا عالم ہونا اس کی دلیل ہے کہ تم جاہل ہو خدا نے صرف تمہیں دنیاوی کان آنکھ اور دماغ دیا تھا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کے ہوتےہوئے بھی تمہارے پاس اس دنیا میں کچھ نہیں رہا مجھے روحانی آنکھ کا ن اور دماغ خدا کی جناب سے تیسرہیں جن کو تم دنیادار نہیں دیکھ سکتے اور میرے پاس جنت کے ہردروازے اور ہر دریچے کی کنجی ہے!

مسلمان کے لئے دنیا پہلے اور آخرت بعد میں ہے

مسلمانو! اور خاکسار سپاہیو! اس دنیا کا دین سے الگ کر دینا دنیا کو جھوٹ اور باطل ناقابل توجہ اور نالائق درک قرار دنیا دین کو ایک حقیقی کان اور آنکھ کی محسوس کی ہوئی نہیں بلکہ وہمی اور فرضی بات بنا دینا نقد کو چھوڑ کر ادھار آنکھیں جما دینا فوری مجموعی اور یقینی فائدے سے نظریں ہٹا کر اپنے دل سے گھڑی ہوئی باتوں کی آس لگا دینا مولوی کی مولویت کا اس دنیا میں سب سے بڑا کرشمہ ہے جنت اور آخرت کے متعلق دنیا کے سب سے بڑے پیغمبر صلعم کا قول لاعین رات ولااذن سمعت ولاخطرعلی قلب النشر یعنی اس جنت اور آخرت کو کسی آنکھ نے نہیں دیکھا اور نہ اس کا تخلیل ہی کسی انسان کے دل پر گزرا ہے الغرض جنت کی کیفیت سراب کی ہے کہ وہ کسی گوشت پونست کے انسان کو معلوم نہیں نہ اس کا وہم وخیال ہی ان کے جسمانی قوی سے ہوسکتا ہے ادھر اسی عدم واقضیت کے متعلق جناب باری تعالے کا ارشاد قرآن میں لاثقف مالیس لک بہ علمران السمع والبصروالفواو کل اولیک کان عندمس - یعنی اے پیغمبر !یااے انسان تو! اس شے کے پیچھے مت پڑ جس کا تمہیں تمہاری جسمانی آنکھ کان اور جسمانی دماغ کے ذریعے سے علم نہ ہو کیونکہ ان میں سے ہر ایک پر گرفت ہو گی کہ کیا تم نے فلال شے کو خود دیکھا تھا خود سنا تھا اور خود سمجھا تھا اب اس قرآنی ارشاد ار نبوی حدیث کے حکم کے عین مطابق کیا جنت یاآخرت کی کیفیت کے متعلق کوئی گوشت پوست کا انسان ایک حرف کہہ سکتا ہے کیا مولوی کا جنت کا چود ہرپن صرف انہی دوحکموں سے زائل نہیں ہو جاتا کیا جس شے کو خود آنکھ کان اور قلب سلیم نے محسوس نہیں کیا اور حدیث شریف کہتی ہے کہ وقعی کوئی آنکھ کان اور قلب جنت کو نہیں دیکھ سکتی اس شے کے پیچھے پڑجانا اور اس کی کہو ج لگانا درست ہے دین اسلام مسلمان کو صرف اس ایمان بالغیب پر قائم کرناچاہتا ہے کہ آخرت کا وقع ہونا اٹل ہے روزقیامت برحق ہے جنت ا وجود قطعی ہے اس سے زیادہ ہر گز کچھ نہیں دین اسلام ربنا اتبتا فے الدنیا حسنتہ وفے الاخرتہ حسنتہ (یعنی اے رب ہماری قوم کی دنیا کی حالت درست کراورپھر ہماری آخرت نجیر کر کہہ کر مسلمان کو سب سے پہلے اس دنیا کی طرف رجوع ہونے کی ترغیب دیتا ہے الدنیا مزدعتہ الاخرتہ( حدیث) کہہ کر صاف اس امرکی طرف توجہ دلاتا ہے کہ آخرت میں بھی نفع بھی ہے کہ دنیا میں کھیت ہرابھرا ہوا ماخلقنا السموت والارض ومابینھما باطلاذلک ظن الذین کفرو( یعنی ہم نے آسمانوں اور زمین میں جو کچھ پیدا کیا ہے وہ باطل اور رعبث نہیں دنیا کو چھوٹ سمجھنا ان کا گمان ہے جو خدا کے منکر ہیں کہہ کر صاف اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ دنیا کیہرشے جو پیدا کی گئی ہے حقیقت ہے ماخلقہ مما الا بالاحق ہے اس زمین وآسمان اس کائنات جہاں سے زیادہ بڑی حقیقت زیادہ بڑی سچائی اس دنیامیں موجود نہیں ان فی السموت والارض لایت لیمومنین کہہ کر یہ عظیم الشان حقیقت مسلم کرناچاہتا ہے کہ ایمان والوں کے لئے ایمان کی تلاش ایمان کی نشانیاں ایمان کی درک اسی آسمان وزمین کے اندر ہے من کان فی ھذہ اعمی فسھولاتی لآخرتہ اعمی واضل سییلا کہہ کر بے گمان طور پر یہ محاکمہ قائم کرنا چاہتا ہے کہ جس قوم کو اس دنیا کی بہتری اور کشائش مطلوب اور مقصود کی راہ نہیں ملی اس کو آخرت میں بھی کسی شے کا ملنا محال ہے اور وہ آخرت میں اس دنیا سے بڑھ کر گمراہ ہے!دین اسلام میں کسی قومکی صالحیت کا معیار صاف اور بیگماں الفاظ میں اور چار دفعہ تاکید کرنے کے بعد روزازل سے اس زمین پر بادشاہت ہے نہیں اس زمین کو بادشاہت ہے یہ زمین کا وارث ہونا ہی عباد یعنی خدا کا بندہ ہونےکی دلیل ہے عبادت یعنی خدا کی غلامی کا صحیح انعام ہے ولقد کتب فے الزبور من بعد الذکران الارض یرثھاعبادی الصلحون ان فے ھذالبلغالقو مر عابدین ، یہ صالح العمل بن کر زمین کے وارث ہوجانے کا رازسمجھا لینا ہی پیغمبر خدا صلعم کے رحمتہ للعالمین ہونے کی دلیل ہے کیونکہ ان دونوں آیتوں کے عین بعد ہی وماارسلنک الارحمة العالمین کے الفاظ آتے ہیں دین اسلام غزوئہ احد کی دنیا وی شکست کے بعد ہی فورا مسلمانوں کو تبیہیہ انتم الاعلون ان کنتم مومنین کے الفاظ میں کرتا ہے گویا صاف اور غیر مشکوک الفاظ میں کہتا ہے کہ اگر تم ایمان والے ہو تو تمہارا فتح مند اور سب پر غالب آنا اٹل ہے دین اسلام رھبانیتہ کونا جائز اس کو دین اسلام میں بدعت اور خلاف مرضی خدا قرار دیتا ہے الغرض دین اسلام کی مستند تعلیمات کے طول وعرض میں ایک آیت ایک فقرہ ایک لفظ موجود نہیں جس کی رو سے مسلمان کا رخ اس دنیا سے پھر کر آخرت کی طرف اس طرح منتقل کر دیا جائے کہ وہ دنیا جاہ وجلال شوکت اور سلطنت سے منہ موڑے دین اسلام میں تمام نیکیاں تمام اخروی اعمال تمام آخرت پر یقین اور وزجزا کا خوف صرف اس لئے ہے کہ مسلمان کی دنیا درست ہو اس کو لذات دنیوی اور خواہشات جسمانی سے ہٹایا اس لئے گیا ہے کہ وہ دنیا پر قابض ہو دنیا کو مرداراس لئے کہا گیا ہے کہ دنیا کی تمام غافل کردینے والی خواہشوں حاشاوحتما نہیں دنیا کو رد کر دینے کا فلسفہ مولوی کو اس لئے بھاتا ہے کہ وہ اسی کے ذریعے سے پانی روٹی کما سکتا ہے۔

دنیا میں کامیابی ہی آخرت کی درستی ہے

          مسلمانو! تمہارے نبی کریم صلعم نے اپنی تیئس برس کی نبوت میں یہی کر دکھایا تمہارے خلفا ئے راشدین نے اسی زمین کے کونے کونے پر قبضہ کرنے کے سامان پیدا کئے تمہارے سلف صالحین کے یہی اطوار تاریخ کے ہر ورق پر سنہری حروف میں ثبت میں تمہارے ہر رہنمانے جو کسی معنوں میں اسلام کا سچارہ نما تھا اسی دنیامیں کامیابی کو آخرت کی درستی کا واحد وسیلہ سمجھ کر بے پناہ عمل کیا یہی شیوہ تمہارے دین دار بزرگوں کا رہا یہی وطیرہ دنیادار بزرگوں کا تھا یہی آج تمہارے مصطفٰے کمال اور ان سعود کا ہے اسلام کی تیرہ سوبرس کی تاریخ تمام اس پرگواہ ہے کہ دین اسلام اس دنیا کو خوبی اور خوش اسلوبی سے نبیاہنا اور اس زمین پر غالب اور اعلون بنے رہنا ہے مگر مولوی دنیا کو چھوڑکر آخرت اور جنت پر ڈیرہ اس لئے جماتا ہے کہ اس دنیا کا تنکادھرا نہیں کر سکتا مفت میںقوم کی روٹیاں کھانے کا چسکا لگا ہے دنی اکے لئے سعی وعمل پر زور اس لئے نہیں دیتا کہ اسے خود کام کرنے پڑے گا قوم کو آخرت کی بڑی بڑی اور سراسر جھوٹی معلومات اس لئے دیتا ہے کہ ان کی آنکھوں سے تصدیق نہیں ہو سکتی اور وہ اپنے آپ کو عالم کہ کر فریب دے رہا ہے کہ اس نے خود دیکھی ہیں وہ قوم کو دنیا سے ہٹاتاہے تا کہ آخرت کی دھن میں لگے رہیں مضبوط ہونے نہیں دیتا تا کہ اس کے محتاج رہیں - مسلمانو! مولویوں کے نیچے میں گری ہوئی قوم موت کے نچبے میں ایک زخم کھایا ہوا جسم ہے!!

تذکرہ کی تصنیف کن حالات میں شروع کی گئی

خاکسار سپاہیو! اس اپنا الوسیدھا کرنیوالوں اور تمام باقی دنیا کو الوبنانے والے ملانوں کی اس ہلاکت انگیز تعلیم کے اثر کو دنیائے اسلام سے جلدازجلد دور کرنے کے لئے میں نے ۰۲۹۱ءمیں جب کہ یہ لوگ کانگریس کی ملی بھگت سے قوم کا پچھتر لاکھ روپیہ بے ڈکار ہضم کر کے اور پچیس ہزار انسانوں کو بغیر بلاوے کے افغانسان میں بے یار ومدد گارموت کے منہ میں دھکیل کر آپ اسی سرزمین ہندوستان میں گا تکیہ لگائے اپنی مونجچھیں پونچھ رہے تھے قرآن حکیم کی تشریخ میں ایک کتاب لکھنے کا عزم کیا میں قرآن حکیم پر غور وفکر اس وقت کم ازکم سترہ برس سے کر رہا تھا اور جوکچھ اس کتاب عظیم پر لکھا جا چکا تھا مطالعہ کر کے اپنے نتائج پر پہنچ چکا تھا یہ سمان اگست ۰۲۹۱ءکا ہے جب کہ یہ پچیس ہزار انسان مولویوں کی بتائی ہوئی ہجرت کر کے لنبو بنھمہ حسنتہ فی الدینا کے خدائی وعدے کے خلاف تمام گھر بار پھونکتے اور کشتیاں جلا دینے کے بعد تین مہینے کے اندر اندان قوم کش ملاں کی جرنیلی میں افغانستان سے سرجھکا ئے واپس آرہے تھے کابل سے لے کر وہ رخیبر تک اور تمام پہاڑیوں میں گرداگردلاشوں کے پشتے لگے تھے زمین کے شگافوں سے چیخیں نکلتی تھیں! معلوم اور کنواری لڑکیاںجن کے چہروں کو خدا کے سورج کے سوا کسی نے نہ دیکھا تھا عاجزی اور بے کسی کے عالم میں سڑکوں پر پڑی تھیں اور ان کے بدن پر چیتھڑ ا تک نہ رہا تھا میں نے خود اپنے کانوں سے ایک اٹھارہ برس کی بچی کو کہتے سنا کہ الہی ! موت دے ! کیونکہ اس عصمت کی دیوی کو نہ صرف رستہ کے ڈاکوں بلکہ دشمن کے مقرر کردہ ہمسفروں سے اس لئے خطرہ تھا کہ اس کا بوڑھا والد سفر کی تکان کی وجہ سے سڑک پر دم توڑ کر رہا تھا تین بھائی بہنیں سب خوبصورت اور جوان ساتھ تھے ان کا اسباب گدہوں پر تھا جن کو ایک ایک بچہ ہانکتا تھا میں سب کو موڑ میں بٹھا کر دوگھنٹے کے اندر اندر گھر پہنچا دیتا لیکن وہ گدھوں کو چھوڑ نانہ چاہتے تھے اور کہتے تھے گھر کہاں لے جا گے گھر گیارہ ہزار کا چار سو میں مہاجن نے جن نے لےلیا اب ہمارا گھر یہی گدیے ہیں ہم گدہوں کے بغیر کہیں نہ جائیں گے میں اس وقت پشاور سے ۰۴ میل کے فاصلے پر تھا اور شام کے چار بج چکے تھے! میری بیوی ساتھ تھی اور اس کی چیخیں نکل رہی تھیں گردا گرد سب مہاجرین تھے کوئی کسی کی نہ سنتا تھا اور ایک قیامت برپاتھی مسلمانو! میں نے آخرت کا سماں وہاں دیکھا اور فوراً اذجاوعلہلاخرتہ لیسوءوجوہھم کامفہوم میری آنکھوں کے سامنے صاف پھر گیا مشہور شاعر ڈاکٹر اقبال نے اپنے ایک شعر میں بتلایا ہے کہ جس معر کے کاغازی ملا ہواس کا انجام کیا ہوتا ہے میرے سامنے اس دن دہلی کے ان علاقوں کی تصویر عقریت سے زیادہ مہیب تر نظر آتی تھی جنہوں نے قرآن کودام تزدیر بنا کر سچے ایمان والے اور خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا دینے والے مسلمانوں کو قرآن حکیم کی حکمت کے صریحا خلاف اور اس سے کامل ناواقفیت کے سبب ہزار ہا کی تعداد میں ہندوستان سے ہجرت کرنیکا فتوی دیا تھا میں دل سے پوچھتا تھا کہ یہ علم قرآن کے دعویدار قرآن کی کونسی سطر پڑھتے ہوئے میں ان کو دین اسلام سے مئس کیا ہے انہوں نے دنیا کی کونسی مہم سر کی ہوئی ہے کونسادس اینٹوں کا قلعہ فتح یکا ہے کونسا چھ انچ لمبا چاقو ہاتھ میں پکڑا ہے کہ یہ بیس ہزار انسانوں کی ہجرت کا فتوی اس وقت دے رہے ہیں حقیقت یہ ہے کہ ان لوگوں کی ہر حرکت میں پچھلے کئی سوبرس سے نفس اور شیطان کا رفرما رہا ہے اور اس وقت بھی یہی حضرت کام کررہا تھا۔

تذکرہ کے متعلق عبار ت اور ملانوں کا پیشگی فتوے

          مسلمانو! خیر یہ توجملہ معترضہ تھا غرض یہ ہے کہ میں نے اس قیامت اور دنیا ہار کر مسلمان کی آخرت کی فکر کودیکھ کر تذکرہ لکھنا شروع کیا میں چونکہ قرآن کے غائز مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ مولوی اور ملاکاتمام بنایا ہوامذہب غلط ہے اور ان ے دماغ میں اس مسلک کے سمجھنے کی استعداد ہی نہیں رہی جس کو خدا کا آخری نبی اس زمین پر تیرہ سوبرس پہلے لایا تھا اس لئے میں نے تذکرہ کو ایسی سخت وقیق اور مغلق عبارت میں لکھا کہ کم ازکم ہندوستان کا بڑے سے بڑا مولوی اس کی ایک سطر کے مفہوم کو نہ سمجھ سکے اور اگر لیاقت کے اس بلند معیار پر اس کا علم پورا اتر تا ہے تو قرآں حکیم کی آخری تہ تک جلدازجلد پہنچ سکے میرا اندازہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ہزاروں بلکہ لاکھوں قابل مگر دنیا داراور اعلے تعلیمیافتہ لوگ تذکرہ کو اگر پہلی بار نہیں تو کم ازکم متواتر مطالعے کے بعد خوب سمجھ سکیں گے اور تذکر ہوشمند انسانوں کی دنیا میں فے الحقیقت ایک تہلکہ مچا دے گا میں جانتا تھا کہ قومیں کتابوں کے لکھنے سے اٹھا نہیں کرتیں لیکن کم از کم ذہنی قیامت کی یہ تمہید ضرور تھی۔ خدائے عزوجل کاشکر ہے کہ میرا تذکرہ صحیح ثابت ہوا اور تذکرہ نے دین اسلام کے متعلق ذہنوں کی اقلیم میں صوراسمرافیل کا کام دیا چار برس کے اندر اندر تذکرہ دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا اور بڑ سے بڑ اسلامی بادشاہ سے لے کربڑے سے بڑے دینی عالم تک ہوشخص نے اس کا خیر مقدم کیا ادھر یہ ہوا اور ادھر ہندوستان کے ملانوں کی ایک بڑی مجلس نے ۴۲۹۱ء میں تذکرہ شائع ہونے کے صرف ایک ہفتہ بعد جس کی ایک جلد میں نے خود بھیجی تھی اس کی عبارتوں کی چند سطریں کہیں کہیں سے رسما پڑھوا کر اس خیال سے کہ کہیں ان کی علمیت کا بھانڈا آگے چل کر پھوٹ نہ جائے علی الحساب اور پیشگی اعلان کر دیا کہ تذکرہ میں کفر والحاد کے جراثیم موجود ہیں گویا کفر موجود نہیں کفر کے چھوٹے چھوٹے خور ذبینی حیوان موجود ہیں یہ جاہل پھر اس تذکرہ کو گور مکھی کی پوتھی سمجھ کر چپ بیٹھ رہے اور اس اثنا میں تذکرہ تمام عالم پر حاوی ہو گیا۔

پندرہ برس کے بعد پھر تذکرہ کا ذکر

          خاکسار سپاہیو اور مسلمانو! اب جبکہ پندرہ برس کے بعد خون شہیداں رنگ لایا ہے اور تذکرہ کی ذہنی قیامت کے واقع ہونے کے بعد خاکسار تحریک نے کی سوبرس پہلے کے قرون اولے کے مسلمان پیدا کرنے پھر شروع کر دیئے ہیں یہ دین خدا کے سچے منکر اور قرون اولے کے اتنا فے الدنیا حسنة کی دعا مانگتے والوں کے سچے دشمن پھر اس گور مکھی کی کتاب کولے بیٹھے ہیں اور اس کے صفحوں کو اپنے سامنے الٹا رکھ کر اور کسی کے لگائے ہوئے نشانوں پر انگلیاں رکھ رکھ کر چیخ رہے ہیں دیکھوتذکرہ میں یہ یہ کفر لکھا ہے ! مولوی اب یہ دیکھ کر کہ مسلمان پھر کئی سوبرس کے بعد اپنی دنی اکی فکر میں لگاہے ار اس کی نرمی آخرت کا فریب کئی قرنوں کے بعد رسوا ہونے کو ہے بلکہ اس کا چوہدرپن خطرے میں ہے آستینیں چڑھا کر میدان میں نکلا ہے اور پکار پکار کو کہہ رہا ہے تذکرہ کے مصنف سے بچھو کی طرح بچو وہ تمہاری کئی قرنوں کی بنائی ہوئی پیاری آخرت خراب کر دےگا آخرت لینا چاہتے ہو تو بیلچے سے بچو یہ خاکسار تحریک یہ بیلچہ یہ سپاہیانہ قواعد یہ کیمپوں کے غلغلے یہ خدمت خلق اور نیکی کی طرف لپک سب لہودلعب ہیں گلی ڈنڈے کا کھیل ہے یہ دنیا سب کی سب لہود لعب ہے اس شریر النفس شخص کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو جس نے تمہاری آخرت خراب کرنے کی ٹھانی ہے۔

قرون اولیٰ میں دین اسلام پیچدار مذہب نہ تھا

خاکسار سپاہیواور مسلمانو! خدا نے تمہیں بھی ہوش وشعور دیا ہے دین اسلام کوئی گل بکالی کا باغ نہیں کہ مولوی کے سوا اس تک کوئی پہنچ نہ سکے یہ دین اس قدر آسان تھا کہ عرب کے جنگلی اور آن پڑھ لوگ بھی اس کو آنکھ کی جھپک میں سمجھ کر دنیا کے تختے پر چھاگئے تھے اس آسانی اور یقین سے اس خوبی ار شدت سے ان بدوں نے خدا کا کلام سمجھ لیا تھا کہ تین سوبرس تک تمام دنیائے معلوم کا تین چوتھائی حصہ اس دین کی لپیٹ میں آگیا اپنی آخرت بخیر کرنے کے لئے عرب اور عجم نے دنیا پر قبضہ کر لیا اس وقت نہ صرف تھی نہ نحو نہ تضسیریں نہ مولوی نہ ملا نہ قرآن کے حاشیہ دار ترجمے نہ مناظرے نہ قرآن کی تمہاری طرح کی جلدیں اور حلیں نہ ریشمی جزدان اور خوبصورت طاق یہ قرآن عظیم رسول خدا صلعم کے عہد میں بڈیوں چمڑوں اور پتوں پر لکھا ایک صندوق میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چار پائی کے سر ہانے پڑا رہتا تھا ہاں معمہ ماننا پڑے گا کہ مولوی اور ملا کے سواآج تک کسی نے قرآن نہ سمجھا اور معاذ اللہ عرب کے بدواور صحابہ کرام ( معاذاللہ) بھلا کیا جانتے تھے یا اس کے سوا اور کوئی نتیجہ نکل نہیں سکتا کہ دین اسلام بالکل سیدھا سادا اور بغیر پیچ کے دین تھا اور ان ملانوں نے اس کو معمہ ا س لئے بنایا کہ یہ اس کے ٹھیکیدار بنے رہیں یہ جاہل مجھے بھی یہی طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے سوا دین کوئی نہیں سمجھا میں کہتا ہوں کہ ہاں میں سمجھا یا وہ پہلے سیدھے سادے مسلمان کیونکہ ہم دونوں میں اتنی بدمعاشی اور مکاری نہ تھی کہ دین کو اپنے نفس کے پالنے کی دکان بنا دیتے۔ الدین یسر حدیث شریف ہے اور اگر دین آسانی سے سمجھ میں آنے والا نہیں تو اس دین کو تمام دنیا کیونکر قبول کر سکتی ہے تو ہاں خاکسار سپاہیو اور مسلمانو! تم میں اتنا شعور ضرور ہے کہ نیک وبد کو خود سمجھ سکو آ تمہیں بتاں کہ تذکرہ میں لکھا کیا ہے میں نے کیا کفر والحاد کی تعلیم دی ہے مسلمانوں کو کیا بداراہ کیا ہے کس حدیث اور کس قرآن کے خلاف کہا ہے کس کے ایمان پرڈاکہ زنی کی ہے میں چاہتا ہوں کہ اس جہالت کے گڑھ اور ملاں کے بڑے اڈے یعنی بلوچستان میں تمہیں وہ عرب کے بدوں والا سیدھا سادااسلام کئی قرنوں کے بعد پھر بتلاں جو معمولی سے معمولی عقل کے انسان کے دل میں بیٹھ کر معجز ے کیا کرتا تھا جس نے ایک صدی کے اندار اندر مسلمان کو دنیا جہاں کا بادشاہ اور آخرت کا سرتاج بنا دیا تھا میں تذکرہ کے اسلام کو اس جگہ اس لئے پیش کر رہا ہوں تا کہ معلوم ہو جائے کہ اس مشکل سے مشکل کتاب میں کیا آسان سے آسان اور معقول سے معقول اسلام لکھا ہے اس لئے کہ تم کسی مولوی کے فریب میں نہ پھنس سکو اور اس یقین انگیز اسلام کو پھر پکڑ کر اپنی دنیا درست کرنے کے بدلے میں آخرت درست سکو۔

تذکرہ میں کیا لکھا ہے

           خاکسار سپاہیو! اور مسلمانو! تذکرہ کی پہلی جلد قریبا چھ سو فل سکیپ صفحوں کی کتاب ہے اور اس سے زیادہ ولولہ انگیز اور یقین خیز چھ جلدیں میرے پاس اور لکھی رکھی ہیں جو آئندہ طبع ہوں گی تذکرہ جلد اول کا خلاصہ چند لفظوں میں حسب ذیل ہے- دنیا میں ہرشخص اپنا مذہب اپنے والدین سے لیتا ہے اور بغیر سوچے سمجھے اس کو سچ کہنے اور باقی سب مذہبوں کوجھوٹا کہنے پر ضد کرتا ہے حیرت ہے کہ انسان ک ضدکیوں اس قدر بڑھ گئی ہے کہ وہ ابھی تک سب کے سب خدا کو ایک ماننے پر بھی منفق نہیں ہوئے حالانکہ خدا کا ہونا سب سے بڑی سچائی ہے اس سے زیادہ حیرت یہ ہے کہ تمام دنیا علم حساب یاعلم طبیعات کی سچائیوں کوبلا تفاق اور بغیر کس پس وپیش کے مانتی ہے ان پر کسی قسم کی ضد نہیں کرتی کیوں صرف مذہب کے معاملے میں ضد کرتی ہے سچائی ہرجگہ ایک شے ہے اگر سب مذہب سچے ہیں تو ان میں فرق کیوں ہے اور اگر ایک مذہب دوسرے سے مختلف ہے تو پھر سب کی سچائی کا دعوےٰ کیسے ہو سکتا ہے۔

سب مذاہب کا پیغام ایک تھا

           پھر لکھا ہے کہ اگر مذہب سب کے سب خدا کی طرف سے آئے ہیں تو ان میں اختلاف ہو نہیں سکتا کیونکہ خدا کسی ایک پیغمبر کو ایک پیغام اور دوسرے کو اس کے خلاف دوسرا پیغام دیکر اپنی مخلوق کو آپس میں لڑا نہیں سکتا اس بناپر ضرورہے کہ سب پیغمبر ایک ہی پیغام خدا سے لائے ہوں جیسا کہ قرآن حکیم میں شرع لکمہ من الدین ارصی بہ موسی الخ کی آیت میں ہے قرآن کے متعلق قرآن میں ان لفی زبر الاولین اور ماقال لک الہ ماقد فیل للھل من قبلک لکھا ہے - یعنی یہ قرآن وہی ہے جو پہلے پیغمبر وں کو دیا گیا اس قرآن میں وہی لکھا ہے جو پہلی کتابوں میں لکھا ہوا تھا۔

ہرمذہب کا منتہا انسان کو مسلم بنانا تھا

اب معاملہ صاف ہو گیا کہ خدا نے ایک ہی پیغام بھیجا تھا لیکن بندوں نے اس پیغام کو توڑ مروڑ کر صند اور بغاوت سے فرقے بنائے لوگ بجائے اس کے کہ خدا کے پیغام کو سمجھیں اور خد اکے منشا کے مطابق ایک ہو جائیں خدا کے پیغامبروں کے پچھے لگ کر ضد سے اس پیغمبر کا گروہ بن گئے خدا نے سب کانام مسلم رکھا تھا لیکن لوگ مسلم یعنی خدا کے مطیع ہوجانے ہوجانے کی بجائے موسائی یاعیسائی بن گئے دنیا کے آخری نبی کا منشا بھی یہ تھا کہ سب نبی نوع انسان کو مسلم کر دیا جائے اور موسوی اور عیسوی کوئی فرقہ نہ رہے لیکن اب مسلمان خود ایک فرقہ ہیں جو منشائے قرآن کے خلاف ہے کیونکہ اسی قرآن میں ان ھذہ امتکمہ امتہ واحد لکھا ہے یعنی اے انسانو! خبر دار یہ تمہاری ایک امت ہے اس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔
 پھر لکھا ہے کہ غور کرو مختلف فرقوں نے خدا کے پیغام کو بدل کر اس میں تحریک کر دی اب اس کا کوئی علاج نہیں سوائے اس کے کہ اصلی الہامی کتابوں کو دیکھا جائے لیکن اصلی کتابیں سوائے قرآن کے دنیا میں موجود نہیں صرف قرآن ایسا ہے کہ اس میں ایک حرف ردوبدل نہیں ہوا اس لئے مذہب کی اصلیت کو معلوم کرنے یا یہ دریافت کرنے کے لئے کہ خدا کا اصلی پیغام کیا تھا دنیا کی تمام الہامی کتابوں میں سے صرف قرآن کو یلا جا سکتا ہے تمام دنیا متفق ہے کہ اس میں تبدیلی نہیں ہوئی باقی سب کتابوں کے الفاظ بدل چکے ہیں اب جبکہ قرآن ہی اصلی کتاب رہ گئی ہے تو قرآن کے اندر ایک ایسا پیغام ہونا چاہیئے جس کو تمام دنیا بغیر جھگڑے کے سچ مانے ہاں اسی طرح سچ مانے جس طرح کہ تمام دنیا علم حساب کی کسی حقیقت کو سچ مانتی ہے یا علم طبیعات کے کسی مسئلہ کو حق سمجھتی ہے قرآن میں خود قرآن کو علم لکھا ہے اور علم الحساب وہ شے ہے جس کی سچائی ماننے پر تمام دنیا مجبور ہے۔،،
مذہب کا منتہا کیا تھا

           اس کے بعد کہا ہے کہ غور کرو خدا کا پیغام اپنے بندوں کی طرف کیا ہو سکتا تھا غور کرو کہ خدا اس زمین کا خالق اور مالک تھا اور بئے یہ زمین ابتدایس انسان سے خالی تھی جب پہلے پہل انسان اس زمین پر آیا ہو گا تو خدا بحیثیت مالک مکان چاہتا ہو گا کہ انسان اس کی زمین کو آباد کریں اس پر اتحاد اور اتفاق سے رہیں اس خوبصورت مکان کو درست رکھیں اس کو آراستہ پیراستہ بنائیں اس پر پیدا کی ہوئی چیزوں کو جائز استعمال میں لائیں اپنی ترقی کریں اپنی قوت بڑھائیں وغیرہ وغیرہ ایک مالک مکان اپنے کرایہ دار سے اس کے سوا اور کیا خواہش رکھ سکتا ہے پس دین اسلام جو حضرت آدم کو ملا اور ا س کے بعد سب انبیاءکو ملتا رہا اس کا خلاصہ یہی تھا کہ انسان اس دنیا میں کیا کر ے کیونکر قوت حاصل کرے کیونکر ایک بنے اور نیک بنے تا کہ اس زمین پر طاقتور ہو زمین کی سب چیزوں کو مسنحر کرے ! اللہ کانائب ہو وغیرہ وغیرہ اس بنا پر انسان کو اجتماعی بہتری کے لئے ایک قانون وضع کیا گیا مثلا زنا یاقتل نہ کرے تا کہ سوسائٹی میں فساد نہ پیدا ہو ادیانتداری کرے تا کہ تجارت بڑھے علم سیکھے تا کہ کارخانہ فطرت کوزیادہ استعمال میں لاسکے خدا کاڈ رپیدا کر کے عمدہ عمل کر سکے وغیر وغیرہ جو قوم اس پروگرام پر عمل نہ کرے گی وہ کمزور رہے گی! وہی کافر ہے کیونکہ وہ خدا کے حکم پر عمل کرنے سے منکر ہے پس ثابت ہوا کہ خدا تمام پیغمبر وں کو پیغام انسان کی اس دنیا میں اجتماعی بہبودی کے اندر انفرادی دستورالعمل بھی ہے-
          پھر لکھا ہے کہ چونکہ اب نبی نوع انسان ایک امت نہیں رہی ہے بروبحر میں فساد پڑا ہے اس لئے اب یہ خدائی پروگرام ہر قوم کے لئے فرد ا فردا مفید ہے جو قوم اس پر چلے گی وہ طاقتور ہو گی جس حصہ زمین پریس رہی ہے اس پر قابض رہے گی جب کوئی قوم خدا کے بنائے ہوئے پروگرام پر نہیں چلتی وہ کمزور ہو جاتی ہے اس کو زمین سے خارج کر دیا جاتا ہے - قرآن قوموں کا دستور العمل ہے ہر قوم کا دستورالعمل ہے ذکر للعالمین ہے خدا کا آخری قانون ہے اس لئے دنیاکی سب قومیں قرآن کو عملا ماننے پر مجبور ہیں۔

اقوام بہتری ان کے سعی وعمل میں ہے

           پھر لکھا ہے کہ قوموں کی بہتری کی بنیادان کے افراد کے سعی و عمل پر ہے مجتنا سعی و عمل کس یقوم میں ہے اتنی ہی وہ قوم اس دنیا میں خوشحال ہے سعی وعمل قوم کو بلند بھی کر سکتا ہے کہ قوم متحدالعمل ہو سب کی سب ایک راہ پر لگی ہواس میں کوئی اندرونی فسادنہ ہو وغیرہ جبتک قوم یک رائے اور یک عمل ہے وہ قوت کی راہ پر گامزن ہے۔

کائنات کی بہتری خدا کی غلامی میں ہے

پھر لکھا ہے کہ غور کروخدا نے اس کا زحانہ کائنات کو بنایا اس کے سوا کوئی دوسرا خالق نظر نہیں آتا جب یہ حالت ہے تو یہ امرطبعی ہے کہ خدا اس کا رخانے کی بہتری کی بنیاد اپنی ہی غلامی پر رکھے جو قوم خدا کی غلامی کرے اس کو اس دنیا میں سرفراز کرے جو اس کے احکام سے بغاوت کرے اس کو فناکردے خدا کے لئے اس کارخانے کو بنا کر بعید ہے کہ انسان کی بہتری اس میں رکھے کہ وہ شیطان کے کہے پر چلے پس اس کائنات جہاں کی بہتری اس میں ہے کہ قومیں خدا کے احکام پر چلیں اس قانون پر چلیں جو فطرت اور طبیعت کا قانون ہے فطرت خدا کا کام ہے اور خدا کا کام اس کے کلام سے مختلف نہیں ہو سکتا پس وہی قوم دراصل خدا کو مانتی ہے جو اس کے کہے پر عمل کرتی ہے۔
جو اس کے قانون کی فرمانبردار ہے یہی توحید ہے یہی خدا کو ایک ماننا صحیح معنوں میں ہے وہ قوام خدا کو ایک مانتی ہے جو چوبیس گھنٹے خدا کے حکم پر چلتی ہے اور شیطان کے حکم کو رد کر دیتی ہے منہ سے کہنا کہ ہم خدا کو مانتے ہیں اور پانے اعمال میں شیطان کے کہے پر چلنا خدا کی گستاخی ہے مکرا اور فریب ہے توحید تویہ ہے کہ انسان چوبیس گھنٹے ان حکموں کو ردکرتا رہے جو انسان کا نفس اسکوہردم دیتا رہتا ہے الغرض جاہ ومال اولاد باغات زمینیں آرام پسندی کا ملی وغیرہ وغیرہ یہ سب وہ بت جن کی پرستش انسنا تمام عمر ہر لمحہ کرنا چاہتا ہے یہ وہ بت ہیں جو قوم میں اجتماعی حیثیت سے غفلت اتفاق بے عملی تفرقہ الغرض وہ تمام برائیاں پیدا کر دیتے ہیں جن کے باعث قوم ہلاکت کے گڑھے پر آن کھڑی ہوتی ہے خدا کے احکام مثال کے طور پر یہ ہیں آخس میں اتحاد کرو بھائی بھائی بنو ایک دوسرے پر رحم کرو ایک امیر کا کہا مانو خدا کی راہ میں جان ومال خرچ کرو غیبت نہ کرو وعدہ وفا کرو وغیرہ وغیر ہ یہی وہ احکام ہیں جن کے باعث قومیں اس دنیا میں طاقتور ہوتی ہیں بعینہ یہی حکم ہیں کہ انسان کا نفس ان پر عمل کرنے سے گریز کرتا ہے اور اسی بنا پر ان احکام پر چلنا نفس کے بتوں کو توڑنا اور خدا کو عملا اپنا حاکم ماننا ہے پس کائنات کی بہتری اور قوموں کی قوت کی بنیاد توحید ہے اور توحید یہ ہے کہ خدا کے حکم کے بالمقابل شیطان یا نفس کے حکم کی پروا قطعا نہ کی جائے۔

پیہم بت شکنی ہی عبادت ہے

پھر لکھا ہے کہ یہ عملی توحید ہی خداکی عبادت یعنی اس کا غلام بن کر رہنا ہے عبادت کے لفظی معنی غلامی کے ہیں اور غلامی مفہوم ہمیشہ سے یہ ہے کہ ایک شخص یا قوم ۴۲ گھنٹے اس طرح ازن میں رہے جس طرح کہ ایک نوکر اپنے آقا کے ازن میں ہوتا اور اس کی مرضی اور حکم کے بالمقابل اپنی رائے یا نفس کی تمام خواہشات فنا کر دیتا ہے پھر لکھا کہ مسلمانوں نے پانچوقت کی نماز کو خدا کی عبادت کہا ہے یہ نماز صرف اسی صورت میں خدا کی عبادت ہو سکتی ہے کہ نماز پڑھنے والا نماز پڑھنے کے بعد بھی خدا کے احکام مانتا رہے ورنہ اگر وہ رسمی سجدہ پانچوقت کر لیتا ہے اور سجدوں کے بعد شیطان کے حکم کو مانتا ہے تو اس کی نماز خدا کی عبادت نہیں اس کے سجدوں کے کچھ معنی نہیں وہ خدا سے فریب کرتا ہے نماز خدا کے حاکم ہونے کا صرف پنجوقت اقرار ہے نماز میں سجدہ اس امر کا اقرار ہے کہ ہم خدا کے احکام کے اگے سر جھکا دییں گے پاک نعبد اس لئے اگر غور سے دیکھا جائے تو نماز کے عمل کا وقت غلامی کے عمل میں داخل نہیں غلامی یعنی عبادت صحیح معنوں میں اس وقت شروع ہوتی ہے جب انسان نماز پڑھنے کے بعد خدا کے حکموں کی تعمیل میں لگے رہنا خدا کع عبادت اس بنا پر عبادت کے لئے کوئی وقت مقرر نہیں تمام چوبیس گھنٹے خدا کے حکموں کی تعمیل میں لگے رہنا خدا کی عبادت کرنا ہے۔

عباد ت کا اٹل نتیجہ طاقت ہے

          پھر لکھ اہے کہ جو قوم روزانہ اور ہر وقت خدا کی عبادت میں لگی ہے اور اپنے نفس کے بتوں کو پہیم توڑتی رہتی ہے و ہ دنیا میں طاقتور ہے خدا کی عابد ہے زمین کی وارث ہے صالح ہے ان لارض یر ثھا عبادی الصحون کی صحیح مصداق ہے جو قوم شیطان کی غلامی میں لگی ہے کمزور ہے متفرق ہے اس کا کوئی امیر نہیں ا س کے ہر فرد کا نفس اس پر حاکم ہے وہ شیطان کی غلامی میں لگی ہے اور اسی عبادت طاغوت کے باعث ہلاک ہو رہی ہے یہ پھر لکھا ہے کہ جو شخص یا قوم خدا کے حکموں پر چل رہی ہے اس کا خدا کے خدا ہونے پر پختہ عقیدہ ہے عقیدہ کے معنی پختگی یقین کے ہیں اور اس پغتگی یقین کی دلیل یہ ہے کہ خدا کے حکم پر عمل ہو رہا ہے لیکن جو قوم صرف منہ سے خدا کو خدا کہتی ہے اور اس کے احکام پر کچھ عمل نہیں کرتی بلکہ شیطان کے حکموں پر چلتی ہے اس کا عقیدہ خدا پر ہرگزنہیں اس کا اصلی خدا شیطان ہے وہ افر ایت من اتخذ الھہ ھواہ کی مصداق ہے پس نرالفطی عقیدہ بغیرعمل خدا کے نزدیک کچھ شے نہیں نہ اس کا کوئی اخروی ثواب ہے نہ اس سے کوئی دنیاوی نفع حاصل ہو سکتا ہے ملاں کا یہ کہہ دنیا کہ خدا کا منہ سے ماننا کافی ہے انتہائی طور پر غلط ہے۔

محض لفظی عقیدہ کچھ شے نہیں

پھر لکھا ہے کہ جو شخص یا قوم خدا کے حکم کو خدا کا حکم سمجھ کر یا اس کو قانون فطرت سمجھنے کے بعد مجبور ہو کر حکم کی تعمیل کرتی ہے اس کو اس دنیا میں اس کے کئے کا اجر ملنا ظاہر ہے ادنے سی حکومت بھی جبتک رعیت قانون پر عامل رہے تعمیل کا اجردیتی ہے کسی رعیت سے بادشاہ کے ہونے کا لفظی اقرار نہیں لیتی بعینہ اسی طرح بلکہ اس سے بے انت بڑھ چڑھ کر خدائے عزوچل کایہ کارخانہ عظمی اقوال سے حتابے نیاز ہے وہ اسی قوم آج سر فراز کر رہا ہے جو خدا کے کہے پر عمل کرتی ہے جو صرف کہتی ہے اور کرتی نہیں اس کی پرکاہ کے برابر پر واہ نہیں کرتا نیز چونکہ دنیا مرزعتہ آلاخرتہ ہے اور قرآن میں صاف من کان فی ہذا عمی فھو فی الاخرتہ اعمی لکھا ہے یعنی جس قوم کو اس دنیا میں اپنی بہتری کی راہ نہیں ملی اس کو آخرت بھی کچھ درست نہیں دنیا کا درست ہونا آخرت کے درست ہونے کا صحیح معیار ہے۔

کائنات کی بہتری کی بنےاد توحید عمل ہے

پھر لکھا ہے کہ توحید پر عمل کائنات کی بہتری کی بنیاد ہے توحید پر عمل کے معنی یہ ہیں کہ خدا تجھے عزوجل کے مقرر کردہ قاعدوں اور حکموں کی تعمیل کیجائے اور شیطان کے احکام کی طرف توجہ نہ کی جائے اگر سورج کا کرہ اپنے مقرر کردہ راستے پر بیچون وچراچل رہا ہے تو ہ توحید پر عمل کر رہا ہے خدا نے صاف ولوکان فیھا الھتہ الا اللہ لفسدتا لکھا ہے یعنی اگر اس زمین وآسمان میں خدا کے سوا کوئی دوسرے خدا ہوتے تویہ کارخانہ آج تک کبھی کا بگڑ گیا ہوتا گویا کائنات کا امن خدا کے عملا ایک ماننے میں ہے اسی طرح قوموں اور انسانوں کے گرہوں کا امن ان کی قوت ان کی فتح وظفر ان کا غلبہ ان کے افراد کے خدا کو عمل ایک ماننے میں ہے۔

توحید پر عمل اور دس اصول

جو قوم توحید پر چل رہی ہے وہ طاقتور ہے کیونکہ توحید پر عمل کرنے سے وہ کبھی آپس میں تفرقہ نہ ڈالے گی تفرقہ ہمیشہ نفس کے حکموں پر عمل کرنے بعض وعناد کابت پوجنے سے حاصل ہوتا ہے جب خدا کا حکم مانا جائے فورا اتحاد پید اہو جاتا ہے کیونکہ خدا کے ڈر سے لوگ ایک دوسرے سے لڑتے نہیں پس خدا کا سچا تقوئے اور خدا کا سچا ایمان لامحالہ قوم میں کام اتحاد پیدا کردیتے ہیں اسی طرح وہ قوم جو توحید پر عامل ہے اپنے مقرر کر دہ سردار کے حکم کی مکمل تعمیل کرے گی کونکہ ناکافی اور عصیان امیر نفس کو موٹا کرنے اور اپنی اعراض کا حکم ماننے کیونکہ سے پیدا ہوتے ہیں اس بنا پر جو قوم توحید پر عمل کرے گی اس میں اطاعت امیر کا ہونا اٹل ہے امیر کی اطاعت اسی وقت پیدا ہوتی ہے کہ انسان پانے نفیس کا حکم نہ مانے علی ہذالقیاس توحید پر عمل کرنے والی قوم میں جہاد بالسیف یعنی دشمن کے مقابلے میں تلوار سے لڑائی کرنے کا جوہر موجود ہونا لازمی ہے کیونکہ اپنے آپ کو دشمنوں سے بچانے کی یہ خاصیت اسی قوم میں زائل ہو جاتی ہے جس کو جان پیاری ہو جو خدا کی پرستش کو چھوڑ کر اپنی جان کا بت پوجے نفس کے کہنے پر تن آسانی میں غرق رہے بعینہ اسی طرح توحید پرعمل کرنے والی قوم میں جہاد بالمال یعنی قربانی مال کی خاصیت ہو گی کیونکہ وہ قوم روپیہ کے بت کی پرستش ہرگز نہ کرے گی اس قوم میں ہجرت یعنی قوم کی بہتری کی خاطر ترک وطن کی خاصیت موجود ہو گی کیونکہ خدا کی عبادت اور اس کی غلامی اختیار کرنیوالی قوم کبھی نفس کے کہے پر اپنے وطن سے ناروامحبت نہ کرے گی بلکہ وہ ان تمام لذات نفس کو ترک کرنے پر آمادہ ہو گی جو کسی قوم کی بہتری کے لئے ضروری ہیں اسی نہج سے توحید پر عمل کرنے والی قوم میں استقامت فی السعر والتو کل فی النتائج یعنی سعی وعمل میں استقلال اور نتائج کے بارہ میں خدا پر توکل ہو گا کیونکہ خدا کی غلامی کی شرط یہ ہے کہ چوبیس گھنٹے اور تمام عمر غلام رہے نہ یہ کہ صرف منہ سے خدا کو خدا کہہ کر تمام عمر شیطان کے کام کرتا رہے اعلی ہذا القیاس جو قوم خدا کے احکام عملا ان توحید پر عمل ہے اس کو خدا کا کام تلاش کرنے کی دھن ہو گی وہ اس صحیفہ فطرت کے پتے پتے کو چھان مارے گی اور اس کا علم حاصل کرنے میں دن رات ایک ر دیگی وہی مکارم اخلاق پر عامل ہو گی کیونکہ اس کو خدا کے احکام پر بالآخر مفیداورلائق ہونے کا کامل یقین ہے لیکن جس قوم نے اس دنیا میں کچھ کر کے نہ دکھایا اس کو خدا کے روز قیامت کو جنت دینے پر کیا بھروسہ ہے اس کا جنت پر ایمان محض اپنے نفس کو ہو کہ ہے۔

مومن قوم انہی دس اصول پر عامل ہے

پھر آیات قرآنی پیش کر کے طول وطویل بحث کے بعد دو اور دوچار کی طرح ثابت کر دیا ہے کہ جس قوم میں یہ دس اعمال یعنی توحید فے العمل وحدتہ الامتہ اطاعت امیر جہاد بالسیف والا نفس جہاد بالمال ہجرت علم استقامت فے السعی والتوکلفے التائج مکارم اخلاق اور ایمان بالاخرہ موجود ہوں قرآن اور خدا کی نگاہوں میں مومن ہے جہاں جہاں قرآن حکیم میں ایمان کی تعریف کی گئی ہے وہاں ان دس میں سے کوئی ضرور موجود ہے جہاں صراط مستقیم بتلایا ہے یا کہا گیا ہے وہاں اس دس میں سے کوئی ہے جہاں فاسق کی تعریف ہے وہاں اس دس کے خلاف عمل ہے جہاں ظالم قوم کے متعلق بتایا ہے وہاں ان دس کا نقیض موجود ہے جہاں شرک کا بیان ہے وہاں ان دس کا الٹ ضرور ہے جہاں جنت کی جزادی ہے وہاں یہ دس لازما ہیں جہاں متقی کا ذکر ہے وہاں یہ دس اس کے اعمال کے طور پر لکھے ہیں الغرض قرآن حکیم میں اسلام ایمان تقوے صراط مستقیم اور جنت کا حقدار بننے کے لئے ان دس اصول کی پیروی لازمی ہے شرک فسق ظلم جہنم کا حقدار ہونا وغیرہ وغیرہ ان دس اصولوں کے خلاف چلنے سے لازم آتا ہے لپس قرآن حکیم کی تمام حکمت کا نچوڑ یہ دس اصول ہیں جن پر انسانی اقوام کی بہتری کی تمام بنسپاد بنے ان آنکھوں سے آج دیکھ لو کہ جو قومیں آج ان دس اصول پر یا ان کے کسی حصے پرچل رہی ہیں ان کو خدا کی طرف سے نقد انقد انعام آج کیونکر مل رہے ہیں کیونکہ خدا ان کو دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رئیے جو قومیں ان اصولوں سے منحرف ہو رہی ہیں ان کو کیا ذل ومسکنت دے رہا ہے ان کی زندگی غلامی کی زندگی ہے وہ ان تتولو ایستبدل قوم غیر کم کے تحت میں ہر دم آرہی ہیں کوئی دن جاتا ہے کہ فقطع وابر القوم الذین ظلموا کے ماتحت ان کی جڑھ کاٹ کر رکھدی جائے گی ان کا حال حیوانوں کا حال ہے اولینک کا لا نعام بل ہم اضل کے وہ صحیح مصداق ہیں ھل یھلک الا القوم الفاسقون کا اطلاق ان پر پورا ہو رہا ہے ظلم فسق شرک کفر وغیرہ قرآنی اصطلاح میں صرف قوموں کے اجتماعی عمل سے متعلق ہیں عرف عامر میں جو کچھ مولویوں نے فسق اور شرک کہا ہے یا جومقولے شرک اور کفر کے اپنے اس سے گھڑ لئے ہیں ان کی سند قرآن حکیم کے اندر موجود نہیں قرآں حکیم میں قول کا لفظ بھی ہزار درہزار منہ سے کہہ دینے کے معنی میں نہیں آتا بلکہ اس قول وفعل سے مبدل کرنے کے معنوں میں آتا ہے ان الذین قالو اربنا للہ ثم استقامو اتتنزل علیھم الملئکتہ کے یہ معنی نہیں کہ تم منہ سے اللہ کو رب کہدوپھر تم پر فرشتے ضرورتریں گے اسی طرح قل ہو اللہ احد کے یہ معنی ہرگز نہیں کہ صرف منہ سے اللہ کو ایک کہدواوربس اگر یہ ہے تو لم تقولون مالا تفعلون کے ماتحت ایسا قول ازروئے قرآن گناہ کبیرہ بن جاتا ہے اسی طرح لقد کفروالذین قالوان اللہ ثالث ثلاثہ کے معنی بھی یہ ہرگز نہیں کہ جو لوگ خدا کو تین منہ سے کہتے ہیں وہ کافر ہیں بلکہ جن قوموں کا عملی پروگرام یہ ثابت کر رہا ہے کہ وہ اس خدائے واحد کے سوا کسی دواورخداں کے حکموں کی تعمیل کر رہے ہیں مثلا مسیح علیہ السلام کے حکم کو خد اکے حکم کے خلاف سمجھ کر اس کا تبتع کر رہے ہیں روح القدس کے حکم کو خدا کے حکم کا نقیض سمجھ کر اس کی تعمیل میں لگے ہیں ایسے تین خداں کو ماننے والے بالیقین کا فرمیں اور ان کی اجتماعی ہلاکت جزینھمہ بما کفرواوھل نجذی الاالکفری کے ماتحت قطعی ہے الغرض قرآن حکیم میں قول کا لفظ بھی دراصل عمل ہی ہے اس کے سوا کچھ نہیں اگر یہ ہوتا تو صحابہ کرام خلفائے راشدین اور سلف صالحین صرف اقوال پر اکتفا کر کے مسلمان بنے رہتے ان کو کیا ضرورت تھی کہ وہ دن رات اپنی زندگیاں مکارم اخلاق اور جہاد کے جانکاہ اعمال میں گذارتے اور پھر خدا کی جناب میں چیخیں مارتے کہ خدا ان کو بخشدے

اسلام دین فطرت کیونکر ہے

الغرض قرآن حکیم کا دستور العمل یہ دس اصول ہیں اور یہی دین فطرت ہے قرآن کا دعوے فطرت اللہ التی فطر الناس علیھا ہے یعنی یہ دین وہ دین ہے کہ تمام روئے زمین کے انسان اس دین کے ماننے پر مجبور بلکہ محبول ہیں فطرت کا تقاضایہ ہے کہ ہر شخص اس کو چارونا چار تسلیم کر ے اس سے گریز کرنے کی گنجائش نہ ہو اگر ایک شخص تمام رات نہیں سوتا تو اگلے دن اس کو نہ سونے کی سزا فورا مل جاتی ہے یہ اس لئے کہ سونا اس کی فطرت میں داخل ہے اور فطرت کی بغاوت کی اٹل سزا ہلاکت ہے پس اگر دین اسلام کا دعوے کہ وہ انسانوں کی فطرت اور فطرالناس علیہا ہے درست ہے تو ہر قوم کو جو اس روئے نہ مین پرموجود ہے اس دین اسلام سے بغاوت کی سزا ضرور اور فورا ملنی چاہیئے حالانکہ ہم ان آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ دنیا میں صدہا قومیں ایسی ہیںجنہوں نے کبھی اس مروجہ اور معروف اسلام کا نام نہیں سنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے قطعا ناواقف ہیں مکہ کے نام سے ناآشنا ہیں انہوں نے کبھی آج تک ایک نماز مسلمانوں والی نہیں پڑھی ایک روزہ مولویوں کے کہے پر نہیں رکھا کبھی مکہ شریف کا حج نہیں کیا کبھی کلمہ شہادت نہیں پڑھ لیکن وہی اسلام کا بے نیاز اور بے پروا عادل اور لطیف وخبیر خدا ہاں وہی واللہ خبیر بما تعملون اور لننظرکیف عملون والاخدا ان قوموں کو اپنے خزانہ عامرہ سے بیحساب بخش رہا ہے موجود مسلمان اقوام سے کئی گنازیادہ دے رہا ہے ہاں وہ ان کو قوت اور شوکت کے تمام لازمات دے رہا ہے ان پر اپنی رحمت کا موسلاد ھارمینہ برسارہا ہے حالانکہ اسی خدا کا قول ان الدین عند اللہ الاسلام یعنی خدا کے نزدیک صرف ایک ہی دین پسند ہے ار وہ اسلام ہے اور من تیبغ غیر الاسلام دنیا فلن یقبل منہ ہے یعنی جس قوم نے اسلام کے سوا کسی دین کی تلاش کی تو اس کا وہ مسلک اور وہ چلن ہرگز قبول نہ ہوگا ان تمام امور سے یہ نتائج صریحا نکلتے ہیں کہ دین فطرت یہ دس اصول ہیں جو ایمان تقوی صراط مستقیم وغیرہ کی تعریف ہیں آتے ہیں جن پر تمام زندہ قومیں حضرت آدم علیہ السلام سے اس وقت تک مجبور اور محبول ہیں کس ققوم کو ان دس اصول کے سواچارہ نہیں ان دس سے مفر نہیں یہی دین حضرت آدم کو ملا یہی تمام انبیاءعلیہم السلام کو وقتا فوقتا ملتا رہا یہی ان لفی زبر الاولین کے معنی ہیں یہی فی صحہف مکرمتہ کا مطلب ہے ورنہ موجود نماز روزہ حج زکوة اور کلمہ شہادت جو صرف تیرہ سو پچاس برس سے رائج ہیں ہر گز ہر گزان ظواہر اور ارکان کے ساتھ رسول خدا صلعم سے پہلے موجود نہ تھے حضرت ابراہیم کی الصلوة کے ارکان کچھ اور تھے حضرت دادکی الصلوة کچھ اور تھی حضرت عیسی کا حج یہ مکہ کا حج قطعا نہ تھا وغیرہ وغیرہ پس اگر مولویوں کا کہنا کہ دین اسلام صرف پانچ چیزیں ہیں درست ہے تو بتائیں کہ یہ پانچ چیزیں کیونکہ دین فطرت ہو سکتی ہیں کیونکر تمام نسل انسانی کا ناقابل گریز مذہب اور ناگزیر چلن ہو سکتی ہیں بتلا ان پانچ چیزوں کے نہ کرنے کی سزا اور قوموں کو فورا کیوں نہیں ملتی اگر یہ امرواقع ہے تو ضروروہ پیغام اور اسلام جو تما م انبیاءکو دیا گیا تھا اور سب آسمانی صحیفوں میں موجود تھا ان پانچ باتوں سے ضرور جدا ہو گا اسلامہ دین فطرت تب ہو سکتا ہے کہ اس پر چلنے کی سزا تمام دنیا کی ہر قوم کو ہماری آنکھوں کے سامنے ملے کوئی قوم اس دین سے ہٹ نہ سکے اور اگر ہٹے تو فورا مزا پائے پچاس برس کے اندر اندر مٹ جائے بیس برس یا سوبرس کے اندر اس کی ہلاکت کا ڈنکا بج جائے ہزاروں سے جو اس کو دی جائیں صاف ظاہر ہوکہ اس کو یہ رویہ قبول نہیں یہ دین تسلیم نہیں وغیرہ وغیرہ پھر لکھا ہے کہ غور کرواس وقت خدا کی سزا ئیں پچھلے دو سو برس سے سب سے زیادہ مسلمان اقوام کو مل رہی ہیں حالانکہ وہ رسمی اسلام پر سب کی سب قائم ہیں خدا کی خدمت میں یہ ظلمہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ ہم مسلمان ہو کر سزائیں کھائیں رات کو روٹی اور پہننے کو چیتھٹرا نصیف نہ ہو جو قومیں مسلمانو کی اصطلاع میں کافر ہیں ان کو خدا سب کچھ دے ایسا ظلم معاذ اللہ معاذ اللہ خدا کی خدائی کے شایان شان ہرگز ہرگز نہیں قرآن میں صاف ان اللہ لیس بظلامہ للعبید اور ان اللہ لا یظلم الناس شیئا ولکن الناس انفسھم یظلمون لکھا ہے - یعنی خدابندوں پر قطعا ظلم روانہیں رکھتا یہ خود بندے ہی ہیں جو اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔

دین اسلام کے پانچ رکن

           پھر کہا ہے کہ دین اسلام کے پنج ارکان یعنی کلمئہ شہادت ،نماز، روزہ ،حج زکوة اس اسلام کے رکن ضرور ہیں جو تیرہ سو پچاس برس سے روئے زمین پر آخری نبی صلعم کی وساطت سے آیا پانچ انہی معنوں میں رکن ہیں جن معنوں میں مثلا نماز کے مختلف رکن ہیں یا حج کے رکن میں وغیرہ وغیرہ چونکہ نماز حج وغیرہ کے رکن وہ رسمی شعائر ہیں جن سے اسلامی نماز اور اسلامی حج پنچانے جاتے ہیں اسی طرح کلمئہ شہادت نماز روزہ حج زکوة بھی رہ رسمی شعائر اور نشان ہیں جن سے محمد عربی صلے اللہ علیہ وسلم کا لایا ہو اسلام پہچانا جاتا ہے بعینہ جس طرح ایک چپڑاسی کے لئے جو کسی حاکم کا ملازم ہے ایک دردی ایک پیٹی ایک چپڑا س وغیرہ پہننا ضروری ہے اس کے بغیر وہ اس حاکم کا ملازم سمجھا نہیں جاتا بعینہ اسی طرح یہ پانچ ارکان مسلمان کے رسمی نشانات ہیں اور ان کے بغیر وہ مسلمان نہیں سمجھا جا سکتا لیکن اس اسلام کی بنیاد یہ دس اصول ہیں جو واضح کئے گئے ہیں اور جو قرآن میں بین الدفتین ایمان تقوئے اور صراط مستقیم وغیرہ کی تعریف میں محفوظ ومحصون ہیں

پنج ارکان دس اصول پر قائم ہیں

          پھر کہا ہے کہ یہی پانچ ارکان ان دس اصولوں پر حاوی ہیں گویا ان دس اصولوں کے اوپر یہ پانچ بنائیں ہیں جن پر اسلام قائم ہے مثلا نماز کو اگر غور سے دیکھا جائے تو وہ دن میں پانچو قت ایک سروار کے ماتحت خدا کے سپاہیوں کی حاضری ہے جس میں روزانہ پانجوقت صاف ایاک نعید کااقرار ہے یعنی اے خدا ہم سب اسلام کے سپاہی تیرے سوا کسی کی غلامی نہ کریں گے اس نماز میں شاہ وگداایک قطار میں کھڑے ہیں ایک امام کی اطاعت اور اس کی حرکتوں کے مطابق حرکت ہے گویا نماز کے اندر عملی توحید اتحاد امت اور اطاعت امیر کے تین اصول موجود ہیں اور نماز کی بنیادان تینوں پر ہے جس نمازے امت کو یہ تنیوں فائدے حاصل نہیں ہوتے وہ نماز نہیں یہی الفحشا یعنی شیطان کی بنائی ہوئی باتوں اور المنکر یعنی نفاق امت سے بچنا ہے علی مذالقیاس اگر غور سے دیکھا جائے تو اسی زکوة میں جہادبلمال کا صول پنہاں ہے حضرت صدیق اکبرؓ کی زکوة یہ ہے کہ غزوہ عسرة کے دن اپنا سارا مال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر ڈال دیا اسی روزے میں جہاد بالنفس کا اصول ہے گویا روزہ کا حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ اسلما کے سپاہی میدان جنگ میں بھوک برداشت کر سکیں حج کے حکم میں اتحاد امت کا صول پنہاں ہے الغرض ان دس اصولوں کی بنیاد پر یہ پانچ رکن قائم ہیں اور ان پانچ رکنوں کی بنیاد پر اسلام قائم ہے۔

تذکرہ میں رسمی مسلمانوں سے خطاب

           پھر کہا ہے کہ اے مسلمانو! شرم سے ڈوب کر مرجا کہ دوسری قومیں تمہارے ان اصولوں کو جو قرآن میں واضح طور پر لکھے تھے لے کر خدا ئے بے نیاز کے خزانہ عامرہ سے بے حساب انعام پارہی ہیں وہ اس اسلام پر اپنے ہاتھ پاں سے عمل کر رہی ہیں تم صرف قرآن کو چومتے ہو خدا کو منہ سے خدابول کر پھر شیطان کے حکم مانتے ہو یہ قومیں تمہاری طرح تسبیحوں کے رٹ نہیں لگاتیں تمہاری طرح لمبے چہرے بنا بنا کو خدا کا اقرار نہیں کرتیں لیکن خدا کے بتائے ہوئے قانون پر عامل ہیں اس لئے وہ خدا وہ خدا کے کئے اجرے رہا ہے وہ اگرچہ ہماری نظروں میں ہرگز ہرگز مومن نہیں لیکن خدا کی نگاہوں میں مومن ہیں خدا ا ن کے کئے کو وہی انعام رہا ہے آج دیتا ہے جو کسی زمانے میں مومنوں کو دیا کرتا تھا شرم سے ڈوپ مروکہ تم نے قرآن کو چھوڑ دیا خدا کو چھوڑ دیا خدا کے قانون کو چھوڑ دیا اپنے نفس کی پرستش میں لگ کر آسان بنا دیا اس کو چند قولوں اور مقولوں عقیدوں اور کلموں پر محدود کر دیا اب کیا عجیب ہے بلکہ مجھے خطرہ ہے کہ قیامت کے دن کہیں رسول خدا صلے اللہ علیہ وسلم بھی تمہیں اپنی امت تسلیم کرنے سے انکار کریں جب خدا تمہیں اس دنیا میں قبول نہیں کرتا تو رسول کیوں تمہاری شفاعت کریں گے انصاف سے بتا کہ تم میں کونسی سے ہے جو اتباع قرآن اور اطاعت رسول کے سلسلے میں ہے دنیوی نجات ممکن نہیں جتنا ان اصول کو پکڑ تے جا گے تمہاری حالت بہتر ہو جائے گی انہی اصولوں کو دین اسلام کی صحیح تعلیم مان کر تمام دنیا کو اس پر متفق کرو ان پر تمام دنیا متفق ہے لیکن تمام دنیا تمہارے اسلام پر متفق اس لئے نہیں کہ تم ان اصول کو اسلام کی تعلیم نہیں مانتے تمہارے نزدیک اسلام صرف ڈاڑھی تہمد استنجاوغیرہ میں ہے یہ باتیں اسلام کے شعائر ہو سکتی ہیں رسول خدا صلعم کے ہزار ہانیک اعمال میں سے ایک چھوٹا سارسمی عمل تھیں لیکن اسلام ی بنیاد ان شعائر پر ہرگز نہیں اگر دنیا کو اسلام پر متق کر کے تمام دنیا پر حاوی ہونا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اسلام کو ان لازوال بنیادوں پر قائم کرو جن سے کسی ہو شمند انسان کسی ذی شعور دماغ کو چارہ نہ ہو قرآن حکیم کے آگے تمام دنیا تبھی سرتسلیم خم کر سکتی ہے کہ قرآن حکیم میں وہ سچائیاں دیکھے جو ہزار باسال بعد میں سائنیس نے بڑی مشکل سے معلوم کیں قرآن میں برشل کا وہ موجودہ نظر یہ صاف دیکھے جس کی رو سے سورج کا کسی عارضی جائے قرار کی طرف حرکت کرنا تیرہ سو برس پہلے لکھا ہو علم طبقات الارض کی رو سے صاف معلوم ہو کہ یہ کائنات فی الحقیقت چھ دنوں یعنی چھ بڑے بڑے زمانوں کے اندر بنی ہے تمام زندگی کی بنیاد ایک ہے سب مخلوق خدا ایک پانی سے بنی فطرت کے ہر مظاہر کا جو آج خورد بینوں اور دوربینوں کی وساطت سے دریافت ہو رہے ہیں صحیح اس لئے نہیں مان سکتی کہ اس مذہب میں چند رسومات ہیں یاچند اقوال ہیں اور اس مذہب کے پیروآج دنیا میں ذلیل ترین افارد ہیں جن کو خودان کا خدا سزائیں دے رہا ہے۔

اصل توحید کیا ہے

پھر لکھا ہے کہ اے مسلمانو! سب سے پہلے خدا کو عملا مانو ماسواکے تمام احکام کی تعمیل چھوڑ دو کسی نفسانی بت کی پرستش مت کر ویہی تمہاری نفسانی خواہشات وہ خطرناک بت ہیں جو چوبیس گھنٹے تمہیں احکام خدا سے درخلاتے رہتے ہیں اور جن سے محبت کے باعث تم نے اپنے تمام دین کو قول میں بدل دیا ہے اور بت پرستی کو صرف پتھر کے بتوں کی پرستش بنایا ہے سب سے بڑے اور خطرناک سب سے زیادہ قومی قوتوں کے تباہ کرنے والے بت تمہارے دلوں کے اندر ہیں جن کو رسول خدا صلعم نے تمہاری لو خدا سے لگا کر توڑا پتھر کے بت بھی ضرور برے ہیں ان سے بھی اگر اسی طرح کی لو لگائی جائے جو نفس کے بتوں سے لگتی ہے تو قوم کا ستیانا اس ہو جاتا ہے خدا کو ان پتھر کے بتوں سے بھی نفرت ہے لیکن سب سےبڑا غصہ خدا کے دل میں اس وقت آتا ہے جب انسان خدا مخلوق ہو کر اور قطرئہ منی سےبن کر خدا کی بجائے اپنی اولاد کا حکم مانتا ہے بیوی کے حکم کو خدا کے حکم پر ترجیح دیتا ہے جہاد کے موقعہ پر انسان کے سردی اور گرمی کے عذر کو سنتا ہے اسوقت خدا قل نارجھنم اشد حرا کا حکم دیتا ہے اس وقت ان المنفقین فی الدرک الاسفل من النار کافرمان ایزدی ہوتا ہے اس وقت ان اللہ لایغفران یشرک بہ شیئاو یغفرمادون ذلک کافرمان ایزدی رواں ہوتا ہے پتھر کے بے حس وحرکت اور حکم نہ دینے والے بت سے جن کو تم آج صحیح بت بنائے بیٹھے ہوا اور اس زعم میں کہ تم ان پتھروں کو نہیں پوجتے موحد بنے بیٹھے ہو خدا کی دشمنی کونسی زیادہ ہو سکتی ہے خدا کے اصلی دشن تو وہ گوشت پوست والےبت ہیں جو صاف تمہارے دلوں حکم دے کر تم کو خدا کے نافرمان بنا دیتے ہیں پھر لکھا ہے اگر کعبہ کے تین سوساٹھ پتھر کے بتوں کو توڑنا ہی صحیح معنوں میں قرآن کی توحید اور دین اسلام کا واحد منتہا تھا اور رسول خدا صلعم صرف ان تین سوساٹھ بتوں کو توڑنے ہی آئے تھے تو حیرت ہے کہ اس وقعے کا ادنے ساذکر قرآن میں موجود نہیں جس کا مصنف تمہارے دعوے کے مطابق پتھر کے بتوں کا جانی دشمن تھا اس حدیث میں موجود نہیں جس کے کہنے والے کا سب سے بڑا کار نامہ تمہارے زعم میں انہی تین سوساٹھ بتوں کو توڑنا تھا اور جس کی تکمیل کے لئے اس نیک سیرت نبی نے اپنی زندگی کے تیئس برس جانکاہ تکلیف میں گذارے ابولہب رسول خدا صلعم کا ایک دشمن تھا خدا کا ایک دشمن تھا اسلام کا ایک دشمن تھا اس ابولہب کو جہنم میں گندھے ہوئے رسے سے گھسیٹنے کی سزا اک پوری سورت میں قرآن حکیم کےاندر موجود ہے لیکن تین سو ساٹھ بتوں کے کعبہ میں گرائے جانے کا ذکر تک نہیں۔

تذکرہ میں بادشاہان اسلام سے خطاب

آخر میں لکھا ہے کہ اے مسلمانوں کے بادشا ہو اسلام کی اس بنیاد پر قائم ہو جا جس پر چل کر تمام قوموںکی زندگی ہے یہ بنیاد وہ اصول ہیں جو قرآن کی آیتوں کی شہادت دے کر تمہارے سامنے پیش کئے گئے ہیں تم ان اصولوں پر نہایت شدت سے عمل کر کے نصاری کی جوتمہیں اس دنیا میں ہڑپ کر جانا چاہتے ہیں ازروئے آیات قرآن گردنیں اڑادو ان کی انگلیوں کے پور پورکاٹ دوان کو جو تمہارے جانی دشمن ہیں اور تمہیں آہستہ آہستہ اس اللہ کی زمین سے نکال رہے ہیں اپنے بے پناہ زور سے شکست دو یہ یادرکھو کہ تم ان انصاری کی محض ایک سطحی سی نقل کر کے یا ان جیسا لباس پہن کر اور وضع قطع اختیار کر کے فلاح نہیں پاسکتے تمہاری فلاح اس میں ہے کہ قرآن حکیم پر عملا چلواور کسی کی نقل نہ کرو یہ تمہارے دشمن اس قرآن سے ہی اپنی فلاح کی تعلیم حاصل کر رہنے ہیں تمہاری غیرت کا تقاصا نہیں کہ تم ان کی سی شکلیں بنا ان کے سے کوٹ پتلون پہن کر پھر سمجھو کہ خدا ہم سے بھی راضی ہو جائے گا خدا کے نزدیک اگر یہ مومن ہیں تو اس لئے کہ وہ قرآن پر کچھ نہ کچھ عمل کررہے ہیں ار ہم کچھ نہیں کرتے تم ان کو اپنے نزدیک ہرگز مومن نہ سمجھو اوران کو ایسی شکست فاش دوکہ تم مومن نجا اور یہ خدا اور انسان دونوں کے نزدیک کافر ہو جائیں
خاکسار سپاہیو اور مسلمانو! چھ سو صفحے کی بڑی تقطیع کی کتاب کا خلاصہ اگر چند منٹوں میں بیان ہو سکتا ہے تو میں نے تمہیں پانی عالمگیر کتاب تذکرہ کا خلاصہ آج دے دیا ہے میں اس بددیانتی کے جوملانے اس کتاب ے ساتھ اس وجہ سے کی ہے کہ یہ کتاب بڑی مہنگی اور بڑی وقیق ہے اور اس لئے تمام پبلک تک نہیں پہنچ سکتی اور اس بنا پرہم جو کچھ طوفان اس کے برخلاف مچائیں گے پبلک تسلیم کرے گی ہاں میں اس بددیانتی کے بخیئے آج ادھیڑ کر ملا کو بالکل بے درست وپا کرنا چاہتا ہوں ذلیل اور بے غیرت ملا کے پاس اس کے ماتھے پر تلک لگانے والے آقاں کی شہ پراس کے سوا کوئی ہتھیار باقی نہیں رہا کہ وہ تذکرہ کی ایک پڑھنے کی قابلیت نہ رکھ کر پندرہ برس کے بعد علے الحساب کہتا پھرے کہ اس میں کفر بھرا ہے اور اصل مقصد صرف خاکسار تحریک کو مٹانا ہے مسلمانو! تم انصاف سے خود بتا کہ میں نے اس کتاب میں کونسا کفر بولا ہے اس میں کیا الحادوزند قہ ہے کونسے عقیدے پر بحث سے کونسی ایک بات ہے جوسچ نہیں کون سی ایک بات ہے جو سچ نہیں کون سی ہے جو خدا لگتی نہیں اس میں کیا تحریف دین ہے کیا بات ہے جودل کو نہیں لگتی ان بے غرتوں سے پوچھو کہ کیا انند بھون کے پندت اور مہاتما صرف اسلئے پکے عقیدے کے مسلمان بن گئے کہ وہ تم ذلیلوں کو چند تانبے کے پیسے روزانہ عنایت کرتے ہیں اور تم ان سے پیٹ کا دوزخ پال رہے ہو؟
مسلمانو! تذکرہ کی قدر وقیمت ابھی دنیا کو معلوم نہیں ہو سکتی ابھی صرف اس کے چند ہزار یا چند لاکھ واہ واہ کرنے والے یا اس کو پڑھ پڑھ کر چٹخارے لینے والے پیدا ہوئے ہیں حضرت امام سنو سی علیہ الرحمہ امیر طرابلس کا مجھے لکھنا کہ میں تم سے اس کی باقی جلدوں کے شائع کرنے کا مطالبہ کرتا ہوں تم نے مجھے قرآن کانو ردے دیا ہے تذکرہ کی صحیح قدر ومنزلت نہیں تذکرہ کی صحیح قدر آج سے کئی قرنوں کے بعد اس وقت ہو گی جب کہ یورپ کی تمام سائنیس اور سائنیس کے تمام حیرت انگیز انکشافات بھی انسان کے دل کو مطمئن نہ کر سکیں گے اور انسان خد اکے پیغام کی طرف نا چارہو کر رجوع کرے گا اس وقت خدا کی صحیح معرفت کرنے والا انسان سمجھے گا کہ تذکرہ میں اتحاد عالم کی کیا عظیم الشان بنیاد اور دنیا کی واحد اور بیادی حقیقت کا کیا ذکر ہے اس وقت معلوم ہو گا کہ بنیاد قیام عالم اور احساس رضائے خدا کیا ہے! بیچارہ قسمت کا مارا باسی ٹکڑے کھانے والا جاہل مولوی کیا سمجھے کہ
تذکرہ میں کیا لکھا ہے سپاہیو ! تمہیں تذکرہ کے متعلق صرف اس قدر کہا گیا ہے کہ اس پر بحث نہ کرو اس کو تحریک کی کتاب نہ سمجھو اور آگے بڑھے چلو۔

۲۱ جولائی ۱۹۳۹
عنایت اللہ خان المشرقی