Pages

Time

Islam ki Sahi Tasveer by Allama Mashriqi

اسلام کی صحیح تصویر

          مسلمان نوجوانو! تمہارے دارا لعلوم میں حاضر ہو کر کچھ کہنے میں رضامندی اس امر کی تمہید ہے کہ پچاس برس کے نقصان دہ تفرنج اور تمسلم کے بعد مغرب زدہ اور طلسم خوردہ مسلمان طلباء کا ایک طبقہ اپنے تعلم اور تعلیم کے نتائج کا جائزہ لینے کےلئے اٹھا ہے اور خوف و عجز ،کساد بازاری اور مایوسی، گھاٹے اور نقصان کے ماحول میں ایک مجلس“ یعنی بیٹھنے کی جگہ قائم کی ہے کہ اپنی عمرگذشتہ کے پچاس برس کی کارگزاری کا حساب لے۔ پچاس برس کی نیند کے بعد علی گڑھ ہوش میں آنے لگا ہے کہ گئے وقت کا حساب لینا ضروری ہے تاکہ آنے والی فرصت مفید ہو سکے۔ پچھلے سفر کو ناپ لینا صحیح ہے تاکہ آئندہ منزل کی دوری کا اندازہ لگے۔
میں بالعموم کسی بیٹھنے والی مجلس میں حاضر نہیں ہوتا،جہاں سے کچھ کہنے کی دعوت آئی مسکرا کر ٹھکرا دیتا ہوں اور ذہنوں میں زخم لگا کر مسلمان میں سوچنے کی ٹیس پیدا کرنا چاہتا ہوں کہ مجھے کیوں تمہاری مجلسوں اور انجمنوں، تمہارے جلسوں اور جلوسوں، تمہارے بیٹھ جانے کے ڈھنگوں اور مردہ ہو ہو کر جینے کے حیلوں سے عام بغاوت ہے۔ مسلمان کو کئی قرنوں کے فریب دہ سکون اور گناہ بے لذت کے بعد احساس دلانا چاہتا ہوں کہ تمہارے اٹھنے اور قوم کو اٹھانے کے فریب، کرسیوں پر بیٹھ کر مجلس کرنے اور مجلسی رنگ جمانے سے چل نہیں سکتے۔ تم اگر اٹھنا چاہتے ہو تو اٹھنے کا طریقہ اور آئین فی الحقیقت صرف ایک ہی ہے کہ اپنے پاں پر اٹھ کر کھڑے ہو جا، بیٹھنے اور آرام لینے کے عنوان قائم کر کے قوم سے اٹھنے کی توقع کرنا فریب نفس ہے، وقت کو ضائع اور عمر کو رائیگاں کرنا ہے۔ میرے کسی مجلس یا انجمن میں عام طورپر کچھ نہ کہنے کی توجیہہ یہ ہے اور ِمیں سمجھتا ہوں کہ اس ناملائم سلوک نے پچھلے برسوں میں بہت سے دل بدل دیئے ہےں۔ مسلمان اب عام طورپر وعظ و پند کے جلسوں، مرثیہ خوانی کی بیٹھکوں، کچھ نہ کرنے اور سب کچھ کہنے والی انجمنوں، موت کا فیصلہ کرنے والی پنچائتوں بلکہ کہیں نہ بیٹھنے والے جیتے جاگتے اور چلتے جلوسوں سے بےزار ہو چکا ہے۔ وہ اپنے سو برس کے تمام پچھلے کئے سے بےزار ہے، کرنے کے پروگرام سے بےزار ہے، فکر اصلاح کے فریب سے بےزار ہے، غم زوال کے مکر سے بےزار ہے، موت دےنے والے خدا سے بےزار ہے!
مسلمان نوجوانو! تمہاری مجلس اسلامیات کے متعلق تمہارے بیدار مغز قائد محترم ڈاکٹر سید ظفر الحسین نے یقین دلایا ہے کہ بیٹھنے والوں کے مجلس نہ ہو گی۔ مجھے بتایا ہے کہ اٹھنا، اٹھ کر کرنا اور قوم کو فی الحقےقت اٹھا دینا اس کا کام ہوگا۔ پچھلے اور اگلے عمل کے تمام مکر وفریب نہ کرنے اور بیٹھ کر کام کرنے کا دعویٰ کرنے کے تمام حیلے، عمروں کے طے شدہ حساب اور ناکارہ پن کے دفتروں کے دفتر اس مجلس میں نہ ہوں گے۔ صرف منزل تک پہنچنا اور منزل تک پہنچنے کی سعی میں جانیں لڑا دینا اس کے پیش نظر ہوگا۔ مساوات، اخوت، اتحاد،عمل، اطاعت امیر، خدمت خلق، بے پناہ تنظیم، غلبہ اسلام اس جماعت کے کارفرما اصول ہوں گے۔ الغرض اگر دین ِ اسلام کا فوجی اور کرداری منظر خاکسارتحریک ہے تو اس کا مجلسی منظر یہ انجمن اسلامیات ہوگی۔
میں دنیا میں ہر حقیقت اور سچائی کو صرف ایک ہی صورت میں دیکھتا رہا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ حق ہر جگہ یک رنگ، بے مثال اور لا شریک رہا ہے۔ میں اعلانیہ منکر ہوں کہ دین ِ اسلام کے کئی رنگ اور کئی لباس ہو سکتے ہےں۔ لیکن اگر ادنیٰ اور سفلی مصلحت کے تقاضے کمزور اور ضعیف الخلق انسان کو اسلام کی کئی تصویروں اور دین ِ خدا کو کئی لباسوں میں جلوہ گر کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ تمہاری مجلس اسلامیات اس دور عجز و استبداد میں دین ِاسلام کی ایک ناقابلِ تحمل جماعت ہے۔ میں خوش ہوں کہ اس جماعت کوخاکسارتحریک“ سے دوستانہ نسبت ہے۔
مسلمان نوجوانو! میں قوم کے پچھلے سو برس کے ناکارہ پن کا سب سے بڑا مجرم قوم کے ناکارہ اور ناکاربرآرادب کو یقین کرتا ہوں۔ میراحسابی اندازہ ہے کہ پچھلی دو قرنوں کی سب بے عملی کی صحیح بنا وہ خواب آور اور جمود انگیز اسلامی ادب ہے جس کے نشے نے قوم کے جسم کی باریک رگوں تک سے کسب و عمل کا آخری خون نچوڑ لیا ہے۔ ناعاقبت اندیش اور نا حقیقت شناس مسلمان ایک ہزار برس کے جہادِ سیف سے پیدا کی ہوئی سلطنت کو اس لئے اس قدر جلد ہارا کہ اس کے رہنما تلوار چھوڑ کر قلم کے دھنی بن گئے تھے۔ مغل سلطنت کا آخری بے نام و نشان بادشاہ تیمور اور بابر کے تہلکہ انگیز کارناموں کو بھول کر ایک ادنیٰ عشق گو اور قافیہ ساز لغو نویس بن گیا تھا۔ الغرض وراثت زمین کا بلند نصب العین زمین شعر پر کاغذی گھوڑے دوڑا کر بدل دیا گیا۔ تخیل کی اس شرمناک پستی نے ہندوستان میں مسلمان کی حکومت کا تختہ چشم زدن میں الٹ دیا۔ اس دن سے آج تک قوم”جہاد ِقلم“کے خطرناک فریب میں گرفتار ہے۔ دین ِ اسلام کردار وعمل کی بلند سطح سے اتر کر قول و قلم کے چکر میں پھنسا ہے۔ مسلمان کی دنیا اس قدر بدلی ہے کہ اس کو دنیا سے ادنیٰ سروکار نہیں رہا۔ آنکھیں، نگاہوں کے بہشت انہی کاغذوں کے میدانوں میں ڈھونڈ رہی ہیں۔ ذہنی عیاشیوں نے اعضا ہمہ تن شل کر دیئے ہیں۔ اب قوم کے جس میدانِ فکر کی طرف نظر دوڑاؤ وہاں علم ادب حکمران ہے۔ کتب اور رسالے، تفاسیر اور تشریحیں ہیں، مکتب اور مدرسے ہیں، مضامین اور مباحثے کے چٹخارے ہیں، ذہنوں میں ہر شے کو پڑھنے کا سرور ہے۔ قومی مسائل اور مشکلات پر لکھنے کا سرور ہے۔ قومی مرثیہ خواں، قومی شاعر، قومی مورخ، قومی مناظر، قومی مبلغ، قومی خادم، قومی واعظ، قومی مفکر، قومی نقاد، قومی ایڈیٹر اور جرنلسٹ، قومی صحافت اور مصنف، قومی لیڈر اور رہنما الغرض قوم کو فتح وظفر کی آخری منزل تک پہنچانے کےلئے قلم اور زبان کی سب جدید ترین توپیں اور طیارے موجود ہیں۔ نامردی اور نامرادی کی اس عظیم الشان طاعون میں قوم کے سب نوجوان پل رہے ہیں، نوجوان ابل رہے ہیں کہ ہر طرف زندگی کی چلبلاہٹ ہے، قسمت ہنس رہی ہے کہ اس قوم کی سزا یقیناً موت ہے۔
نوجوانو! ادب کی اس زہرآلودہوا میں جس کا ہر جھونکا قوم کو موت اور سکون کی ننید سلا رہا ہے میں تمہاری مجلس اسلامیات کے نام سے بہت گھبرایا ہوں مجھے ڈر ہے کہ ”مجلس“کا لفظ جمودانگیز ہے۔ مجھے خطرہ ہے کہ اسلامیات کا لفظ خواب آور ہے۔ میں ان دونوں لفظوں میں علی گڑھ کی پچھلی پچاس برس کی ناکارگذاری کی تصویر پھر دےکھ رہا ہوں۔ میں اندیشہ کرتا ہوں کہ تم نے ایک قرن کی بیکاری کے بعد نفس لوامہ کو مطمئن کرنے کےلئے کام کرنے کی ایک سبیل نکالی تھی، لیکن ڈر ہے کہ اس کام کی حقیقت کہیں انہی لفظوں سے عیاں نہ ہو جو تم نے اختیار کی ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ تم بیٹھو گے اور پڑھو گے۔ مجلس“کا لفظ تمہیں بیٹھنے پر مجبور کر دے گا۔”اسلامیات“کا لفظ تمہیں پڑھنے اور لکھنے پر مجبور کردے گا۔ یاد رکھو!کہ آج قوم کا علاج بیٹھنے اور پڑھنے میں ہرگز نہیں صرف اٹھنے اور کرنے میں ہے۔
نوجوانو! اس بڑے اعتراض کے جواب میں تمہارے قائد محترم ڈاکٹر ظفرالحسین نے مجھے یقین دلایا ہےکہ مجلس اسلامیات کے عمل کی بڑی اہم شق اسلامیات کا پیدا کرنا بھی ہے۔ ان کی دلیل ہے کہ ”اسلامیات“کے مطالعہ سے لامحالہ اسلامیات پیدا ہوگی۔ بڑے بڑے اورقاہر مسلمان پیدا ہوں گے۔ خالد اور طارق پیدا ہوں گے، عمر اور ابوعبیدہ پیدا ہوں گے۔ مجھے اس تمام نرالی منطق میں جوکم از کم ایک سو برس پرانی ہے اور جس نے زوال سلطنت کے زمانے سے مسلمانوں کے فکر و تخیل بلکہ کسب و عمل کی جڑ کھوکھلی کر دی ہے ہمیشہ سے کلام رہا ہے میں اپنی زندگی میں صرف ٹھوس حقائق اور HARD FACTSکو دیکھتا رہا ہوں۔ یہی میری تمام کامیابی کی مشعل راہ ہے۔ میں نے کنج عافیت میں بنائے ہوئے نظریات کی طرف کبھی نظر نہیں کی اور یہی وجہ ہے کہ بڑی سوچ بچار کے بعد آج نہ صرف تمہاری اس مجلس کے نصب العین کے متعلق قلب ماہیت کرنے آیاہوں۔ بلکہ چند لفظوں میں صاف بتلانے آیا ہوں کہ اسلام اور اسلامیات آج تک کسی مرحلے میں پڑھ کر اور مطالعہ کر کے پیدا نہیں ہوئے۔ ہمیشہ اور بہر حال صرف عمل سے اور کام کر کے پیدا ہوئے۔ عمل کے ماحول کو بنا کر پیدا ہوئے نہ عرب بدوؤں کو تین سو برس تک کسی مدرسے یا انجمن میں اسلام کے متعلق کچھ پڑھنے کی فرصت ہوئی نہ ایک بڑی مدت تک قرآن کی کوئی تفسیر جلوہ گر ہوئی ، نہ حدیث کی تدوین کی طرف اس اثنا میں کسی نے دھیان گیا، نہ فلسفیانہ بحثوں اور ذہنی عیاشیوں کے پیدا کئے ہوئے مناظروں کا اس وقت وجود تھا۔ مسلمان کی دنیا میں بے دھڑک تقدم کی گاڑی اسی وقت رکی جب مسلمان میدانِ عمل چھوڑ کر اسلامیات کے مطالعہ میں لگ گیا۔ اسی دن سے سلطنتیں یک بیک ہاتھ سے نکلنے لگیں۔ تفرقے پیدا ہو گئے، اتحاد فکر اور اتحاد عمل ٹوٹ گئے۔ اسلامیات تمہاری مجلس میں اسی روز سے پیدا ہونے لگے گی جب تم اسلامیات کو عملی نقطہ نظر سے دہکھ سکو گے، لفظوں اور نگاہوں کی عیاشی سے یادرکھو قومیں ہرگز نہیں بنتیں۔
قوم کے نوجوانو! قوم کی امیدیں قوم کے نوجوانوں سے ہمیشہ وابستہ رہتی ہےں۔ تمہارے محترم قائد نے حزم و احتیاط سے اس نازک ماحول میں نوجوانوں کی ایک مجلس قائم کی ہے جس کا مدعا اسلام کو پھر بلند کرنا ہے۔ اس مجلس کی تاسیس میں محترم نے ان تمام اصولوں کو مدنظر رکھا ہے جو قوم کا کیریکٹر بلند کرنے میں انتہائی طورپر کار آمدہوں۔ مجلس کا منتہائے نظر اسلامیات کو پھر پیدا کرنا اور مسلمان کو دائرہ عمل میں لاناہے۔ یہ سب کچھ
یہ لیکن اس تمام تگ و دو میں جو تم کر رہے ہو سب سے زیادہ اہم سوال اس امر کا قطعی اور حتمی فیصلہ کرنا ہے کہ”اسلامیات اور مسلمان ہونا کیا شے ہے؟“ میں تمہیں اس موقع پر اسلام کی ماہیت کے متعلق وہ باتیں بتلانا چاہتا ہوں جس کواخذ کر لینے کے بعد”اسلام کی صحیح تصویر“ تمہارے ذہنوں میں نقش ہو جائے گی۔ میرے نزدیک جب تک کسی شے پر عمل کر نے کےلئے اتحاد فکر موجود نہیں اتحاد عمل ناممکن ہے۔
اسلام کے نوجوانو! اسلام کو سمجھنے کےلئے کسی بڑے عقیدوں کو حل کرنے کی ضرورت نہیں الدین یسراورلقدےسرنا القران الذرکے مقولے اس امر کی تائید میں ہیں اسلام کے ایک سادہ اور غیر پیچیدارانہ مذہب ہونے کی بڑی دلیل یہ ہے کہ اس کو ایک سادہ اور اجڈ قوم نے تیرہ سو برس پہلے لےا اور اپنے شدت یقین سے دنیا کی کایا پلٹ دی۔ سلطنتوں کے تختے الٹ دیئے گئے، قوموں کی زندگیاں بدل گئیں، نقطہ نظر بدل گئے، نہیں بلکہ اجسام اور ارواح بدل گئے۔ اگر دین ِ اسلام آسان اور قرآن غیر ذی عوج(بغیر کجی کے)نہ ہوتا تو ایک ان پڑھ اور سادی معاشرت والی قوم اس کو اس قدر جلد قبول نہ کرتی، ایک سادہ لوح قوم اس قدر جلد اس کے نفع کو نہ سوچ لیتی۔ اگر دین ِ اسلام فی الحقیقت پیچددار ہوتا اور دماغوں میں جلد جلد نہ آسکتا تو ایک معمولی سمجھ کی اور غیر متمدن قوم اس وحدت اور اتحادِفکر کے ساتھ اس کو تسلیم نہ کرتی۔
یادرکھو! سادہ اور آسان اصول ہی ہمیشہ دنیا میں عالمگیر ہوتے ہیں۔ اگر اسلام کی بنا آسانی اور سادگی پر نہ ہوتی تو اسلام اس قدر جلد کیوں کر پھیلتا۔ الغرض اہلِ عرب کا شدتِ یقین، قوتِ انقلاب اور اتحادِ عمل دین ِ اسلام کے سیدھے سادے ہونے کی صاف دلیلیں ہیں۔ یہی اشیاء اسلام کے عروج کا باعث تھیں اور آج انہی چیزوں کا فقدان نہ صرف اسلام کے پیچیدہ مذہب ہوجانے بلکہ اس کے خطرناک زوال کا باعث ہیں۔ آج کل کا مولوی اسلام کوپیچیدہ اس لئے بتاتا ہے کہ ”مذہب مولوی کی ذاتی ملکیت بن چکا ہے“۔ قرون اولیٰ میں مولوی کا وجود ہی نہ تھا اور مذہب ہر شخص کے خدا سے براہ راست تعلق کا نام تھا۔ ہر شخص قرآن کو خود کھولتا تھا اور خدا سے بلا واسطہ احکام لیتا تھا۔ آج مولوی اسی دین کو مسلمان کے پاس قیمتاً فروخت کرتا ہے اور جب تک وہ اس میں الجھنیں اور مشکلیں پیدا نہ کر دکھائےخاطر خواہ قیمت نہیں ملتی۔ ادھر چونکہ ہر مولوی اپنا مال بڑھ بڑھ کر بیچنا چاہتا ہے اس لئے سب مولویوں میں دردناک اختلاف پیدا ہو گیا ہے۔ ہر دوکاندار اس میں ذرا سی تبدیلی پیدا کر کے کھرا مال جتلانا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اب کسی کو کھرے مال کی پہچان نہیں رہی۔ گاہک اور دوکاندار دونوں لڑ رہے ہیں اور منڈی کے بازار کی طرح ہر طرف کہرام مچا ہے۔
تم نے سنا ہو گا کہ ہندوں میں برہمنوں نے ایک مدت دراز سے یہ عقیدہ قائم کیا ہے کہ، ”برہمن کے سوا کوئی کھتری یا دیش یا شودر ویدوں کو سمجھنے کی قابلیت نہیں رکھتا“۔ ہندوؤں میں شودر کے وید پڑھنے کی سزا لوہے کی سلاخ تپا کر انکھیں نکال دےنا بلکہ اس سے بھی زیادہ خطرناک سزائیں لکھی ہیں۔ یہ سب اس لئے کہ برہمن کی روزی قائم رہے۔ یہی حال یہودیوں اور عیسائیوں کے احبار اور راہبان کا تھا۔ وہ لوگوں کو خدا سے علیحدہ کرکے آپ رب بنے بیٹھے تھے۔ مولوی نے بعینہ یہی سلوک قرآن اور اسلام سے کیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ دین ایک مخصوص گروہ کی ملکیت بن جائے۔ سب اس منڈی سے سودا لیں اور مذہبی شے کے بدلے دنیاوی قیمت ادا کریں۔ قرآن لاتشترو وابایتی ثمنا قلیلا کے لفظ میں اس تجارت سے بہ شدت منع کرتا رہا ہے لیکن انسان نے اس حکم پر توجہ نہ دی اور مولوی نے پچھلے تیرہ سو برس میں قرآن کو اپنے نصاب درس سے بھی آہستہ آہستہ الگ کردیا ہے۔ تاکہ امت اس خطرناک طور پر آسان کتاب تک خود نہ پہنچ سکے اور مولوی کی برائیوں کا بھانڈا نہ پھوٹ جائے۔
مسلمانو! تفریق و انتشار اور سوداگری کی اس خطرناک حالت میں مسلمان کا مسلک صاف ہے۔ وہ یہ کہ مسلمان اسلام کی اصلی حالت قرآن میں خود دیکھے اور سب ماسوا سے بے نیاز ہو جائے۔ قرآن کو خود دیکھنے سے تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ اسلام کا تمام دارومدار، نہیں، انسانی عمل کے صحیح اور نتیجہ خیز ہونے کا تمام حصر انفرادی اور اجتماعی بہتری کا پورا انحصار، نہیں اجتماعی بہبودی اور تمدن کے تمام استحکام خالق کائنات کی توحیدکو صحیح طورپر تسلیم کرنے میں ہے۔ اس توحید کو صحیح معنوں میں اور صحیح طورپر سمجھنا اس کو اپنے ہر عمل کے خمیر میں داخل کرنا، اس سے ہر مشکل کے وقت عملی مدد لینا، اس کی روح اور اس کے عمل کو ہر لحظہ اور ہر آن صحیح طورپر سمجھنا اسلام ہے۔ اس کے ماسوا قرآن کے طول و عرض میں کوئی شے اسلام نہیں سب اوامر اور نواہی اسی توحید پر عمل کرنے میں شامل اور اسی توحید کے عمل میں داخل ہےں۔ اسلام کا کوئی حکم چھوٹا ےا بڑا، انفرادی یا اجتماعی، ادنیٰ یا اعلیٰ ایسا نہیں جس کی اصل توحید نہ ہو۔ کوئی ایسا نہیں جس کی جڑ توحید اور بے ہمتائی پر ختم نہ ہو۔
قرآن حکیم میں اس توحید کا اظہار صرف دو عظیم الشان جملوں ےعنی اعبدوا ولا تشرک بی شیاءکے الفاظ میں ہے۔ باقی تمام کتاب ِخدا انہی دو جملوں کی تفسیر بلکہ درحقیقت ان میں سے کسی ایک جملے کی تفسیر ہے۔ ان دو عظیم الشان جملوں کے معانی صاف ہیں اور وہ یہ ہےں کہ:

”اے انسانو! خدا کے غلام بن کر رہو، اور خدا کے حکم کوکسی شے کے حکم کے برابر نہ سمجھو“۔

یہ ان دو جملوں کا لفظی ترجمہ ہے اور انہی دو جملوں کے صحیح مفہوم کو دنیا کی تمام مولویانہ طاقتیں ہر دم چھپانے اور اس کی تاویل کرنے میں مصروف ہےں۔ ان احکام کی تشریح قطعاً صاف ہے۔ ادنیٰ سا تامل ان دو احکام کی اہمیت کو صاف واضح کردیتا ہے۔ غور سے حقیقت کھل جاتی ہے کہ کائنات کی بہبودی کا دارومدار یہی دو جملوں پر ہے۔ غور کرو! خدا کی غلامی دراصل خدا کے ہر حکم کی اطاعت اورخدا کے ہر حکم کی اطاعت دراصل قانونِ فطرت کی اطاعت ہے۔ جو شخص صرف خدا کے حکم مانتا ہے اور سب ماسوا کے حکموں کو ٹھکرا دیتا ہے وہی دراصل خدا کو ایک سمجھ رہا ہے۔ جو خدا کے حکم کے بالمقابل اپنے بیٹے یابیوی کے حکم کو ترجیح دیتا ہے وہ قطعاً خدا کو ایک نہیں مانتا۔ پھر غور کرو! خدا کا ہر حکم انسان کی اپنی یا اس کی جماعت کی بہتری کےلئے ہے۔ خدا کے اپنے فائدے کےلئے کچھ نہیں اس بنا پرخدا کے حکموں کی پیہم تعمیل میں ہی انسان کی انفرادی یا اجتماعی بہتری ہے۔ غور کرو! جس شخص نے خدا کو چھوڑ کر ماسوا کے حکموں کی تعمیل کی وہ قانونِ فطرت سے ہٹ گےااور قانونِ فطرت سے ہٹنے کی سزا صاف ہلاکت ہے۔
مزید توضیح کےلئے چند مثالیں دیتا ہوں تاکہ مسئلہ اور صاف ہو جائے۔ جوشخص چوری کرتا ہے اس نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر نفس کی اطاعت کی، اس بنا پر وہ توحید سے الگ ہوگیا۔ ایک شخص زنا کرتا ہے، اس نے خدا کے حکم کو چھوڑ کر لذات شہوانی کی اطاعت کی، وہ توحید سے الگ ہوگیا۔ اسی طرح ایک جماعت نے اپنے اندر تفرقہ پیدا کیا، وہ خدا کے حکم کو چھوڑ کر اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں لگ گئی، گویا توحید سے الگ ہو کر شکست کھا گئی۔ ایک جماعت نے بزدلی سے میدانِ جنگ سے منہ موڑ لیا، گویا خدا کے حکم کو چھوڑ کر نفس کے بتوں کو پوجا، ایسی جماعت توحید سے الگ ہو گئی اور اسی جرم میں ٹکڑے ٹکڑے کر دی گئی۔ ایک فرد نے امیر جماعت کے حکم کی خلاف ورزی کی، گویا خدا سے برگشتہ ہوکر اپنے نفس کے حکم کو مانا ایسے شخص نے نافرمانی کرکے اپنی اخلاقی حالت کو خراب کےا جماعت میں بدنظمی پیدا کر کے اس کو جہنم کے گھاٹ اتارا۔ یہ سب جماعتےں توحید سے منحرف ہوئیں اور ان کی دین و دنیا خراب ہوگئیں۔
مجلس اسلامیات کے نوجوانو! المختصر یہ کہ اپنے چوبیس گھنٹے کے ہر فعل کو کرنے سے پہلے آزمائش کرو۔ اگر فعل خدا کا حکم ہے تو تم توحید پر چل رہے ہو، تم خدا کو لاشریک حاکم مان رہے ہو۔ اگر فعل ماسوا یا تمہارے نفس کا حکم ہے تو تم توحید سے ہٹ کرمشرک بن رہے ہو۔ جب تک تم توحید پر چل رہے ہو تمہاری انفرادی اصلاح ہو رہی ہے اور اسی توحید پر چلنے کے بدلے میں دنیاوی انعام مل رہے ہیں۔ جب توحید سے ہٹے تمہاری انفرادی یا اجتماعی شکست شروع ہو گئی اور تم اس قانونِ خدا سے ہٹنے کے باعث خدا کی سزا میں آگئے۔ الغرض اگر غور سے دیکھو تو دنیا کی ہر نیکی اور بدی کی تقسیم اسی توحید اور شرک کے زمرے میں داخل ہو سکتی ہے۔ ہر فتح اور ہر اصلاح توحید پر چلنے کا منطقی نتیجہ ہے ہر شکست اور ہر گناہ توحید سے ہٹنے کا لازمی صلہ ہے۔ دنیا میں تمام نیکیاں خدا کے حکم پر چل کر اور بدیاں خدا کے حکم سے ہٹ کر پیدا ہوتی ہیں۔ اگر انسان کو اس دنیا میں کامیاب و کامران ہو کر رہنا ہے تو اس پر لازم ہے کہ ایک لمحہ خدا کی غلامی سے نہ ہٹے۔ ایک لمحہ خدا کے دائرہ عبودیت سے خارج نہ ہو۔ ایک لمحہ ماسوا کے حکم کی طرف رجوع نہ کرے۔ایک لمحہ شیطان کے حکموں پر نہ چلے۔ ایک لمحہ نفس کا محکوم نہ بنے۔ مسلمانو! اگر غور کی نظر سے دیکھو تو تمام قرآن، تمام اسلام، تمام کائنات کی بہتری، تمام افراد اور تمام جماعت کی بہبودی اسی توحید کو ہر دم نباہتے رہنااور اسی توحید پر صحیح عمل کرنے میں ہے۔
اگر تم اسی نہایت مختصرتشریح کو توحید کی صحیح روح جان کر قانون سزا وجزا کو سمجھ چکے ہو تو مسلمانو! ےادرکھو! کہ آج سے تمہارا کوئی عمل دین ِاسلام کے خلاف نہیں ہو سکتا۔ جب تک خدا کو دیانتداری سے اپنے آپ پر حاکم سمجھتے رہو گے، ایک عمل دین ِاسلام کے خلاف سرزد نہیں ہو سکے گا۔ ایک جماعت اس دنیا میں ابدالاباد تک شکست نہ کھا سکے گی۔ ایک ادنیٰ سا نظام بھی نہ بگڑ سکے گا۔ آپس میں سب بھائی بھائی بن کر رہےں گے کیونکہ نفاق اور انتشار صرف نفسانی حکموں کے ماننے سے پیدا ہوتا ہے۔ تم سب اپنے امیر کے ہر دم مطیع رہو گے کیونکہ امیر کی اطاعت اپنے نفس سے برگشتگی اور خدا سے وابستگی کا دوسرا نام ہے۔ خدائے علیم نے قرآن میں صاف فرمادیا ہے کہ،”کائنات میں تمام فساد خدا کو چھوڑ کر کسی ماسوا کو حاکم ماننے کے باعث سے ہے اگر اس زمین و آسمان میں خدائے برتر کے سوا کوئی دوسرا خدا ہوتا تو یہ دونوں کبھی کے بگڑ گئے ہوتے۔ کبھی ایک دوسرے سے برسرپےکار ہو کر مٹ گئے ہوتے۔ لوکان فےھا الھہ الااکفسدتا۔ اگردنیا میں امن قائم ہے تو اس لئے کہ کائنات کی ہر شے خدا کے سوا کسی دوسرے خدا کا حکم نہیں مانتی۔ ا یسجد من فی السمٰوات والارض طوعاً وکرھاً۔ اگر کسی فرد میں صلاحیت ہے تو محض اس وجہ کہ اس جماعت کا ہر فعل خالق کائنات کے حکم کے مطابق ہے۔ وہ جماعت، وہ فرد، وہ شے سب کے سب خدا کا حکم مان رہے ہےں صرف توحید پر چل رہے ہےں۔ جہاں امن ہے وہاں صرف خدائے واحد کی حکومت ہے جہاں فساد ہے وہاں اس وجہ سے ہے کہ دو عملی کی خطرناک برائیاں اس جسم پر مسلط ہیں۔
مسلمان نوجوانو! یہ وہ سیدھا سادہ اور بے خطا اسلام ہے جو قرون اولیٰ میں قرآن حکیم کی وساطت سے دیا گیا تھا۔ اس اسلام میں کوئی کجی، کوئی ٹیڑھا پن، کوئی پیچیدگی ہر گز نہ تھی۔ اس اسلام کا ایک شمہ، ایک ذرہ، ایک حبہ مولوی نے پچھلے کئی سوبرس سے ہمیں نہیں بتلایا کیونکہ اس اسلام کو ہر مسلمان چند لمحوں میں سیکھ کر نجات حاصل کر سکتا ہے۔ اس اسلام کو سمجھنے کےلئے کسی تنخواہ دار معلم کی ضرورت نہیں۔ اس اسلام کے بعد کسی گروہ میں سرپھٹول باقی نہیں رہتی۔ اس اسلام کے بعد کسی جماعت کے اندر فساد کا امکان نہیں۔ اس اسلام کی سچی مہک اور کسوٹی خود انسان کا اپنا ضمیر ہے۔ اس دین ِ فطرت کے بعد کسی مصنوعی دین کی ضرورت نہیں۔ جو قومیں آج سیدھے سادے دین پر چل رہی ہیں دیکھ لو کس قدر طاقتور ہیں۔ دیکھ لو کس قدر جلد جلد خدا سے انعام پا رہی ہیں۔ دیکھ لو ان کے افراد میں کس قدر شدت یقین ، کسی قدر اتحادِعمل اورکس قدر طاقتِ انقلاب موجود ہے۔
مجلس اسلامیات کے ارکان کو میں دعوت دیتا ہوں کہ وہ آج سے زندگی کے ہر لمحے کے بعد اپنا احتساب کریں کہ آیا وہ توحید پر چلتے ہیں یا شرک پر۔ اس احتساب کو روزبروز سخت تر اور دشوار تر کرتے جائیں۔ پھر دیکھیں کہ مجلس اسلامیات کے افراد کس قدر جلد مکارمِ اخلاق کی بلندیوں تک پہنچتے ہیں۔ کس قدر جلد ان میں غزوہ بدر کے تین سو تیرہ مجاہدوں کی جماعت پیدا ہوتی ہے۔ کس قدر جلد ان کے افراد روئے زمین پر قبضہ کرتے ہیں۔ جو افراد یا قوم خدا کی ہو رہی سب ماسوا سے کٹ گئی۔ اگر خدا اس کا اس دنیا میں حامی نہ ہو تو انصاف سے کہو کون ہو۔

خطاب مجلس ِاسلامیات (علیگڑھ)
مورخہ: 3اپریل1937
حضرت علامہ محمدعنایت ا خان المشرقی