Pages

Time

Islami Jamhoriyat by Allama Mashriqi

اسلامی جمہوریت

پاکستان کے مسلمان بھائیو!
          اس وقت پاکستان ناگز یر حالات سے گذر رہا ہے اور پچھلے چند دنوں کا تاریخی واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے امیر یعنی گورنر جنرل بہادر نے حالات کو آخری حد تک پہنچتے دیکھ کر اپنی اخلاقی جرات سے پاکستان کی سب سے زیادہ با اختیار فیز آئین ساز مجلس کو جو سات سال سے آئین سازی نہیں بلکہ آئیں بائیں شائیں کر رہی تھی بیک جنبش قلم توڑ کر پاکستان پر حکومت کرنے والی ایک عبوری کا بینہ مقرر کی ہے ا ن ناگزیر حالات میں کہ معاملات انتہا کو پہنچ چکے ہیں پاکستان کے مسلمان کے لئے ایک ہی صورت ہے کہ وہ سات برس کی دھاندلی کے بعد بہتر حالات کے پیدا کرنے میں گورنر جنرل بہادر کی انتہائی مدد کرے اور پاکستان کو مضبوط سلطنت بنانے کی دھن میں سات سال کے بعد نئے سرے سے غور کرے ۔
          مسلمانو! یورپ یا انگریزوں کے آئین کے مطابق گورنر جنرل پاکستان کا ایک نمائشی سردار ہی سہی لیکن اسلامی آئین کی رو سے وہ پاکستان کا امیر مطلق ہے دونوں آئین کی رو سے وہ تمام پارٹیوں اور تفرقوں سے بلا تر ہے اور وہ حکومت کسی پارٹی (مسلم لیگ ) کی طرف سے نہیں کر رہا بلکہ تمام قوم اور ملت کا نمائندہ ہے ا ن حالات میں گورنر جنرل کے سامنے ایک ہی راہ ہے وہ یہ کہ جس طرح اس نے پچھلے سات سال کی دھاندلی کو دیکھ کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئین ساز اسمبلی اپنے فرائض کو پورا نہیں کر سکی اور پاکستان کے اندر روز بروزنئی بدعنوانیاں صوبائیت اور نفع اندوزی خطر ناک صورتوں میں ظاہر ہو رہی ہیں وغیرہ وغیرہ اسی طرح اور اسی بلند نگاہی سے اس مسئلے پر بھی غور کرے کہ آئندہ ملک وملت کی تشکیل کن خطوط پر ہونی چاہیئے تا کہ ملک ہمیشہ کے لئے ا ن مشکلات سے بچ سکے جن میں وہ سات سال تک پڑا رہا اور جن کے باعث ملک میں ہر جگہ بے چینی اور مایوسی ہے گورنر جنرل کو حق پہنچتا ہے کہ جہاں اس نے ملک کی سب سے بڑی اور بااختیار مجلس کے ناگوار افراد کو حد سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اس کی ہستی کو مٹا دیا ہے وہاں وہ ملک کے اس مقتدر گروہ کے ناگوار افراد کا جائزہ بھی لے جس نے برسراقتدار پارٹی یعنی مسلم لیگ کا دباوہ اوڑھ کر ملک میں انتہائی بے چینیاں پیدا کر دی ہیں اور عوام الناس کے خون کا آخری قطرہ نچوڑ کر رکھ دیا ہے۔
          میرے نزیک اس سات سال کے تجربہ کے بعد گورنر جنرل کو نہ صرف بحیثیت اسلامی امیر بلکہ یورپی نقطہ نظر سے بحیثیت آئینی سردار بھی حق پہنچتا ہے کہ وہ ناگزیر حالات کے مد نظر پاکستان کے تمام مسلمانوں کو ایک پارٹی قرار دے مسلمانوں کی تمام پارٹیاں بشمولیت مسلم لیگ کا العدم کر دے مسلم لیگ کے بڑے آدمیوں کی ہفت سالہ بدعنوانیوں کا پورا جائزہ لے اور اپنی عبوری کا بینہ کے ذریعہ سے پاکستان کو نئے سرے سے نئی بنیادوں پر کھڑا کرنے کے لئے صرف اہلیت دیانت داری اور محنت کو حکومت کا معیار مقرر کرے اس کی حکمت عملی کی بنیادیں اس پر ہوں کہ آنے والے انتظام میں اوپر سے نیچے تک اور ایک ایک محکمے میں صرف ان تین چیزوں کو دیکھا جائے گا اعلان کرے کہ مسلمان ایک امت ہیں اس لئے مسلمانوں کی حکومت تمام ملت کی حکومت ہو گی اعلان کرے کہ پارٹیوں کی حکومت نے پاکستان میں ذاتی خود غرضی اور جماعتی ضد کے باعث وہ ہولناک بیماریاں پیدا کر دی ہیں جو پاکستان کی سالمیت کو انتہائی خطرہ میں ڈال رہی ہیں اس لئے اب سے پاکستان کے انتظامی معاملات میں کسی پارٹی کے لیبل کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا بلکہ ہر معاملہ میں اوپر سے نیچے تک صرف قابلیت دیانت اور محنت پیش نظر ہوں گے ۔
          مسلمانو! اسلامی امیر کی شان یہ ہے کہ وہ پوری ملت اور تمام ملک کی بہتری کو سامنے رکھتا ہے اس کے سامنے کسی پارٹی یا فرقہ یا گروہ کی ضد نہیں وہ جو کرتا ہے اس شے کو مدنظر رکھ کر کرتا ہے کہ تمام ملک کدھر جا رہا ہے اسے امیر اس لئے بنایا جاتا ہے کہ وہ تمام سلطنت کی حفاظت کرے سلطنت کو اندرونی اور بیرونی دونوںدشمنوں سے بچایا جائے امیر کی نگاہ اس قدر بلند ہو کہ وہ ملک کے کسی ایک صوبے یا ایک گروہ بلکہ کسی ایک فرد کی طرف نہ دیکھے بلکہ جو دیکھے بحیثیت مجموعی دیکھے جو قانون وضع کرے یا کرائے اس میں تمام ملک کی بہتری سامنے ہو وغیرہ وغیرہ۔
          مسلمانو! دین اسلام میں امیر کی حیثیت بطور حاکم ناطق اور مطلق امیر کی ہے اور اسی حیثیت کا ایک بھونڈا سا چربہ یورپ والوں نے اسلام سے نقل کیا ہے امیر ناطق کو حکم ہو کام کرے باہمی مشورے سے کرے لیکن اس کا مشورہ کسی مستقل یا لیبل لگی ہوئی پارٹی سے نہیں ہوتا بلکہ ہر حالت میں اس خاص صورت حال کے مطابق جودرپیش ہے تمام امت کے مناسب اہل اور دیانتدار افراد سے مشہور ہ ہوتا ہے یورپ والوں نے اسلام کی بھونڈی بھی نقل کر کے اس شوریٰ کو مستقل پارٹی کی شکل دے دی ہے اور اس کے انتخاب کو اپنے نقطئہ نظر سے اور مکمل کرنے کے لئے ایک نہایت فرضی جمہوریت کے رنگ میں رنگ دیا ہے جس میں اکثر روپیہ مار سوخ اور رشوت کے زور سے پارٹیوں کے نمائدے منتخب ہو جاتے ہیں وہ نمائندے پھر اپنے جماعتی تعصب کی رو سے اس قدر ضدی اور فرقہ بند ہو جاتے ہیں جیسا کہ پاکستان میں سات سال کا تجربہ ہو چکا ہے کہ ملک کی سالمیت کو بھی خطرہ میں ڈال دیتے ہیں اس میں شک نہیں کہ یورپ اور امریکہ میں انتخابات اس حد تک برے نہیں جس قدر کہ ہم مشرقی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں دیکھتے ہیں وہاں ہر شخص کے سامنے پارٹی کا تخیل (آئیڈ یالوجی) یا نصب العین کا کا تخیل ہے جس کا بادی النظر عام طور پر ملک کی بہتری ہے لیکن پاکستان میں پارٹی کا تخیل صرف ذاتی نفع اندوڑی ذاتی رسوخ اور ذاتی حکمرانی کا تخیل ہے ان حالات میں انتخابات کے ذریعے سے کسی پارٹی کو فروغ دینا یا دلانا نہ صرف ابتدائی اسلامی قدروں بلکہ مغربی آئینیت کی بھی توہین ہے اس وقت اسلامی قدروں کے بالمقابل چونکہ مغربی تخیل ہمارے ذہنوں پر زیادہ حاوی ہے گورنر جنرل بہادر کو یہ کہنا کہ وہ پاکستان کی مجلس شورے ہر حالت میں پیش شدہ حالت کے مطابق اہل محنتی اور دیانت دار افراد پر قائم کرے یعنی اگر صحت یا تعلیم یا انجینئری یا قانون سازی کا مسئلہ درپیش ہو تو صرف صحت تعلیم انجینئر قانون دانوں کا مشورہ طلب کرے اور کوئی مستقل پارٹی قائم نہ کرے جو ملک میں پارٹی بازی کرتی رہے ممکن ہے کہ ہمارے یورپ زدہ سیاسی اشخاص کو یہ انوکھا تخیل نظر آئے لیکن جب تک کوئی ایسی صورت موثر طور پر بنیادی لحاظ سے پیدا نہ کی جائیگی اور مجلس قانون ساز یعنی دستور یہ کہ صرف ماہرین ملک کی ایک مجلس بلا لحاظ پارٹی نہ بنایا جائیگا پاکستان میں یہی دکھڑے قائم رہیں گے اس وقت تک وزراءاور ممبران اسمبلی ملک کو صرف اپنی ذاتی اغراض کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں سات سال میں انہوں نے ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک ملک کی بیخ اکھاڑ کر رکھ دی ہے نمائندگی کے ابتدائی اصول پر عمل کرنے سے بھی اکثر وزیر اوراکثر ممبر بے نیاز ہیں اور اپنے آپ کو صرف اپنے نفس کا نمائندہ سمجھتے ہیں لیکن جب تک ان بنیادی امور کو مدنظر رکھ کر آئندہ اسمبلیوں اور مجلسوں کی تشکیل نہ ہو گی ملک کا صحیح معنوں میں ترقی کے راستوں پر گامزن ہونا محال ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ پارٹیوں کے ہوتے ہوئے بھی صوبائی اور مرکزی دونوںقسم کی حکومتوں کی تشکیل غیر فرقہ دارانہ بنیادوں پر کی جائے پارٹیوں کی قوت دکھلانے کے مظاہرے صرف انہی امور میں ہوں جو ملک کی عام ترقی خوشحالی اور اقتصادیات کی بہتری میں حائل نہ ہوں پارٹیاں صرف اس حد تک حکومت کے انتظام میں دخل دیں جس حد تک وہ ملک کی عام حالت کی بہتر کر سکتی ہیںاگر مغربی جمہوریت کے آداب کو مدنظر رکھ کر یہ امر ممکن نہ ہو تو اخلاقی جرات بلکہ میں کہوں گا کہ رندانہ جرات سے کام لے کر پارٹیوں کا ختم کر دیا جائے اور جمہوریت کی تاریخ میں پہلی دفعہ پھر اس اسلامی جمہوریت کی طرف آیا جائے جو قانون خدا ہے۔
          مسلمانو! اسلامی جمہوری کی ابجد یہ ہے کہ اس میں امیروغریب مکمل مساوات ہے جو پانچ وقت کی ایک قطار میں نماز اور مٹی کی زمین پر سجدہ کرنے سے ظاہر ہے اس جمہوریت میں امیر وغریب دونوں کا اصرف ایک ہی ووٹ ہے جس ووٹ کی قیمت برابر ہے اور امیر غریب کے ووٹ کو کسی حالت میں خرید نہیں سکتا اس جمہوریت میں ظاہر ہے کہ چونکہ ہر ملک میں غریب اکثریت میں ہیں اس لئے اسلامی جمہوریت کا لازمی نتیجہ غریب کی حکومت غریب کا غلبہ اور غریب کی وزارت ہے بر خلاف اس کے انگریزی جمہوریت میں خاص کر ان ملکوں میں جہاں مغربی جمہوریت کی صرف سطحی نقل کی جاتی ہے اگرچہ ظاہرہ طور پر امیر اور غریب دونوں کا ایک ہی ووٹ ہے مگر اکثر بلکہ ہمیشہ امیر کی چڑھ بنتی ہے کیونکہ امیر غریب کے ووٹ روپیہ رشوت اور رسوخ سے خرید لیتا ہے اس لئے مغہوریت دولت مند اور غنی کو آئینی طور پر بلند کرنے کا صرف ایک دھوکہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ نہ صرف مشرقی بلکہ مغربی ملکوں میں بھی غریب کی حکومت کسی جگہ صحیح معنوں میں نہیں ۔
          مسلمانو! اس وقت گورنرجنرل بہادر کے لئے نادر موقع ہے کہ وہ ملک میں اسلامی جمہوریت قائم کرکے دنیا میں ایک تہلکہ مچا دے اور یورپ پر ثابت کر دے کہ جمہوریت کا اسلامی تخیل ان کے دھوکوں اور فریبوں سے بدر جہا افضل ہے گورنر جنرل اس نازک موقع پر کہ اسنے اسمبلی کو توڑ کر جرات مندناہ قدم اٹھایا ہے انتخابات کے طریقوں بلکہ وسیلوں کو بنیادی طور پر بدلے حلقہ ہائے انتخابات اسی طرح الگ مقرر کرے جس طرح کہ عیسائیوں اور ہندوں کے الگ ہوا کرتے ہیں ہر شخص کو جس کی آمدنی تین سو چار سو یا پانچ سو روپیہ ماہوار سے کم ہے متوسط الحال کے حلقے میں داخل کرے اور ان سے ا وپر کی آمدنی والوں کا امیر حلقہ ہو جس میں صرف امیر ہی کھڑے ہوں غریبوں کے حلقے میں صرف غریب لوگ اور متوسط الحال حلقے میں صرف متوسط لوگ کھڑے ہوں لیکن اس طرح پر کہ اسمبلی میں غریبوں کے قریباً اسی فی صدی حلقے متوسط الحال کے پندرہ اور امیروں کے صرف پانچ حلقے ہوں اسی ممبریاں غریبوں کو ملیں گی اور حکومت صرف غریب کی ہو گی یہ نقشہ اگر پاکستان میں جم گیا تو تمام دنیا کے گوشے گوشے میں آگ بھڑک اٹھے گی جو خرابات اور سرمایہ داری کو بھسم کر دے گی اوردنیا اپنی اصلی اسلامی جمہوریت پر ہزار ہا سال کے ظلم وستم کے بعد آجائے گی پاکستان دنیا کے تمام ملکوں میں حقیقی جمہوریت کا سچا معمار متصور ہو گا اور چشم زدن میں دین اسلام کی بے پناہ بر تری ہر کس وناکس پر عیاں ہو جائے گی اس ضمن میں قرآن جاننے والوں کو یہ بتا نا ضروری ہے کہ قرآن حکیم نے انسانوں میں صرف ایک تفریق روارکھی ہے وہ اغنپا اور فقراءکی تقسیم ہے کسی اور طرح کی تقسیم کو قرآن گوار نہیں کرتا۔
          مسلمانو! اس جمہوریت میں جس کا دھند لا سانقشہ میں نے اوپر کے الفاظ میں ظاہر کیا ہے وہ انقلابی صورت ہے جو نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کا نقشہ بدل سکتی ہے اگر پاکستان اس جمہوریت کے قائم کرنے میں الویت کی بازی لے گیا تو اس نے تمام دنیا سے بازی جیت لی ا ور وہ دنیا میں سب سے زیادہ جمہوری ملک صحیح معنوں میں شمار ہو گا بلکہ سیاسیات کی تمام ظلمات میں جس میں انسانوں نے انسان کو اپنے نفع کے لئے استعمال کرنے کا اندھیر مچایا ہوا ہے مشعل راہ ثابت ہو گا جمہوریت کی ایجاد کی اولیت کے متعلق انگلستان کی تمام بکواس اس لئے ماند پڑ جائے گی کہ قرآن حکیم نے سب سے پہلے انسانی مساوات قائم کی۔
          مسلمانو! دین اسلام کی آئیڈ یالوجی جو میں پچھلے کئی ماہ سے دنیا کے تمام عملی اور علمی رہنماں کے سامنے پیش کر رہا ہوں جو بالکل نئی اور اچھوتی ہے میں آج اس مجمع میں اس لئے پیش کر رہا ہوں کہ پاکستان مجلس دستور ساز کے ختم ہونے کے بعدازسر نوسیاں حالت (یعنی Fluid State) بلکہ ایک رو سے انقلابی حالت میں ہے اور ان جیسی حالتوں میں ہی سلطنتوں کے اندر بنیادی انقلاب پیدا کئے جا سکتے ہیں میرے نزدیک یہی وہ وقت ہے جبکہ مسلمانوں کی سب سے بڑی سلطنت کا امیر یعنی گورنر جنرل بہادر پاکستان کی تعمیر کی تمام بنیادیں ازسر نو استوار کرنے کے لئے ایسے انقلابی اعلان کر سکتا ہے جو سلطنت کی تمام پیشتر کی خرابیوں کا قلع قمع کر سکے ملک کو نیا نصب العین دے کر اس میں زندگی کی نئی روح پیدا کرے جو سات سال کی پاکستان میں اسی فی صدی غریب رعیت کی بے بسی اور بے چارگی کا ادنےٰ سا حوصلہ ہو سکے اور جو مسلمان قوم کو بالآخرسات سال کے لا امتناہی مصائب کے بعد یہ نوید جانفزادے سکے کہ پاکستان میں مسلمان کی آزادی کا دور فے الحقیقت اب شروع ہوا ہے اور اس آزادی کے دو روں کی بنیاد اس اسلامی شریعت پر ہے جو لازوال اور بدرجہ اولےٰ فطری ہے اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مسلمانو!خود اسلام کے قریباً تیرہ سو پچاس برس کے دور میں انسانی آزادی کا یہ رنگ جو میںنے پیش کیا ہے دیکھنے میں نہیں آتا یعنی یہ کہ چونکہ ازروئے اسلام شاہ وگدا اور غریب وغنی فی الحقیقت اور بہر حقیقت برابر ہیں اس لئے حکومت صرف اسی گروہ کی ہو سکتی ہے جو اکثر یت میں ہے ہاں ہاں چونکہ انسانی آزادی کا رنگ ان تیرہ سو پچاس برس میں خود اسلام کے کا رفرماں نے صحیح معنوں میں عملی طور پر پیش نہیں کیا ۔ اور اسلام جیسے خدائی مذہب میں بھی انسان نے انسان کو ذاتی طور پر استعمال کر کے غریب اور ناوار کا گلا گھونٹ ہے اس لئے اگر اس نازک وقت میں پاکستان کا گورنر جنرل دین اسلام کے اس انقلابی اصول کو اپنی انتظامیہ کا ایک اصل اصول بنا کر دنیا کو صحیح جمہوریت کی دعوت پہلی بار دیتا ہے تو میرے نزدیک یہ وہ کارنامہ ہو گا جس کا روئے زمین کی تاریخ میں سنہری حروف میں ابدا لآ باد تک لکھا جانا اٹل ہے۔
          گورنر جنرل بہادر کو مسلمانو! اس خاص رنگ میں جو میں نے پیش کیا ہے اور انہی الفاظ میں جو میں نے کہے ہیں اپنی آئندہ دستور یہ وضع کرنے میں کئی وقتیں ہیں اولایہ کہ حکومت کے جھوٹے وقار کے باعث آ ج تک کسی معمولی حاکم کو گوارا نہیں ہو اکہ وہ دوسروں کی بتائی ہوئی تجویزوں پر من وعن عمل کرے اس لئے پاکستان کا گورنر جنرل میری تجویز کو صرف اسی صورت میں من وعن لے سکتا ہے کہ وہ غیر معمولی حاکم ہو اور اسے کسی سچائی کو اختیار کرنے میں ادنےٰ شرم نہ ہو مسلمانو! سچائی کسی شخص کی جائیداد نہیں سچائی ہر جگہ سورج کی طرح روشن ہے اس کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی وہ خود اپنی روشنی سے چمکتی ہے اور دلیل اور منطق کی مانگی ہوئی روشنی کی اسے ضرورت نہیں پڑتی اس بنا پر میرا یہ کہنا کہ جمہوریت کے معنی صرف یہ ہیں کہ جمہور یعنی اکثریت یعنی صرف غریب کی حکومت ہو ایک ایسی سچائی ہے جو انسان کے پید اہونے کے پہلے دن سے ہیرے اور موتی کی طرح چمک رہی ہے اگرچہ انسان کے انسان پر ظلم نے اس سچائی کو ظلم کی اندھیر کوٹھڑیوں میں چھپانے کی ہزارہا سال تک کوشش کی ہے یہ سچائی میری جائیداد ہر گز نہیں یہ اظہر من انشمس ہے اس پر ہزاروں برس سے مغربی جمہوریت انسانی تشدد مشرقی جہالت اور نہ جانے کس کس ذاتی یا مجموعی اثرات نے وہ وہ پردے پے درپے ڈال رکھے ہیں کہ آج اس سچائی کو پھر ظاہر کرنا بہت کچھ انوکھا نظر آتا ہے اب جبکہ دنیا کے غریب مزدور کو سرمایہ داری کے صدیوں سے مظالم سہنے کے بعد کچھ نہ کچھ ہوش آنے لگی ہے اس سچائی پر مزید پردہ ڈالنے کے لئے کچھ مت سے کمیونزم کا نیا لچ پنا ظاہر ہوا ہے جس کا ولفریب نعرے مردور کو روٹی دو گھر دو کپڑا دو ایک دنیا پر جادو کا اثر کا رہا ہے یہ وہ پکا لچ پنا ہے جو درماندہ اور عاجز مزدور کو جس کی سوچ کی طاقتیں سرمایہ دار کے صدیوں کے ظلم وتشدد نے فنا کر دی ہیںروٹی کا سبز باغ دکھا کر مزدور کی تمام ملکیت اس کے گھر اس کے پسینہ کی کمائی ہوئی ددولت بلکہ اس کی شخصیت کو بھی اپنے مکمل قبضہ میں لے کر اس کی رہی سہی قوتوں کو اورشل کرنے کے درپے ہے اور دنیا میں دو تین صدیوں تک نیا اندھیر پیدا کرے نئی اور انتہائی قسم کی سرمایہ داری کو رائج کرنا چاہتا ہے انسان کے جہاں انسان پر ظلم سخت ترین ہیں وہاں انسان کی عقل بھی اتنی کم ہے کہ وہ کمیونزم کے لچ پنے کے پچھلے چالیس برس سے انسان کی نجات کا آخری وسیلہ سمجھ رہا ہے اور جوق در جوق ملک کے ملک کمیونسٹ بنے جا رہے ہیں الغرض جس بات پر میں خاص طور پر ازور دنیا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ سچائی نہایت روشن شے ہے لیکن اس کو دنیا میں چلانے کے لئے بڑے جگوے والے آدمی ہونے چاہئیں ہمارے گورنر جنرل بہادر کو اگر وہ معمولی حاکم ہے آج ممکن ہے شرم محسوس ہو کہ دنیا کو اس سچائی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے کہ جمہوریت کا لازمی نتیجہ غریب کی حکومت ہے اور جو جمہوریت غریب کی حکومت قائم نہیں کرتی وہ بڑا غریب ہے مجھے جمہوریت کے فیشن ایبل حلقو ں یعنی امریکہ اور یورپ کے سامنے شرمندہ ہونا پڑے گا لوگ کہیں گے کہ تم نے تمام دنیا کے فیشن کے خلاف کو جمہوریت کے معنی دراصل سرمایہ دار کی چڑھ ہے یہ کی انیا اور ملائی ڈھنگ شروع کر دیا تمہارا حقہ پانی ہمارے فیشن ابیل حلقوں میں بند کیا جاتا ہے کیونکہ تم درحقیقت(Enlightened Politician) یعنی متنور سیاست دان نہیں رہے اور ایک دنیا جہاں کے باولے مشرقی کے دام میں خواہ مخواہ پھنس گئے ہو۔
          مسلمانو! دوسری وقت جو پاکستان کی حکومت یعنی گورنر جنرل غلام محمد کو موجودہ پارٹی بازی کے فنا کرنے میں پیدا ہو گی وہ پاکستان سیاسی کی موجودہ فضا ہے جو سات سال میں حکومت کے گرد اگرد پید اہوئی ہے اور جس سیاست اٹھا کر گورنر جنرل بنا دیا اسی فضا نے خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل سے ہٹا کر وزیر اعظم بن جانے پر تیار کیا اسی اندرونی اور خفیہ کشمکش کے باعث مسٹر محمد علی جناح وزیراعظم بنے اور ایسی فضا کی مزید پرورش سے آخری وزیراعظم کی کا بینہ کے بعض ارکان ہٹا دیئے گئے وغیرہ وغیرہ۔
          ان حالات کے ہوتے ہوئے موجودہ گورنر جنرل نے جو قدم اس وقت اٹھایا ہے اس قدر لائق صد تحسین وآفرین ہے کہ ہزایکسینسی ملک غلام محمد کو گورنر جنرلوں کا ہیرو بلاشک وشبہ کہا جا سکتا ہے اس قدر ضرور ہے کہ خواہ میرے اس کہے پر کئی خفیہ نکتہ چینیاں ہوں کہ ہمارے موجودہ حاکم کو سیاسی الجھنوں سے نکلنے کا خاص ملکہ ہے الجھنوں حل کرنے کے متعلق وسیع نظر ی بلکہ بالغ نظری غیر معمولی حد تک ہے لوگ مجلس دستور ساز کو توڑنے کے اسباب اندرونی طور پر کچھ ہی بیان کریں مگر پچھلے دونوں موقعوں پر گورنرجنرل نے ذاتی مشکلات کے ہوئے ہوئے بڑی فراست سے کام لیا ہے اور جوں جوں مزید واقعات مثلاً بہاولپور کی وزارت کے واقعات اور کانگرسی وزراءکو مرکزی وزارت میں لینے کا واقعہ منصہ شہود پر ظاہر ہوتے جاتے ہیں مطلع صاف ہوتا جاتا ہے کہ گونر جنرل کے ارادے پاکستان میں وسیع پیمانے پر اصلاح پیدا کرنے کے ہیں۔
          مسلمانو! اس قطع کی کئی اور وقتیں ہیں جو دنیا میں سچائی رائج کرنے کے وقت آئیں یہ ایک ہنسی دلانے والا تاریخی واقعہ ہے کہ جب ریل کے موجد نے انگلستان میں اپنا انجن لوگوں کو دکھانے کے لئے جلایا تو تمام ملک میں تھلکہ مچ گیا کسی نے کہا کہ موجد جادو گر ہے اس کو زندہ جلا دیا جائے بالآ انگلستان کی پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر بحث ہوئی بڑے بڑے سیاستدانوں نے کہا کہ ریل کے چلنے سے ہمارے مویشی کھیتوں میں بدک جائیں گے اسلئے اسکے چلنے کی اجازت نہ دی جائے ایک شخص نے نہایت متانت سے کہا کہ موجد کا دماغ خراب ہے اور ایسی ایجادیں ذہنی اختلال کا نتیجہ ہیں۔
          رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب دنیا میں عالم اور حقیقت کا انکشاف کیا تو عرب کے مخالفین پکارا ٹھے کہ ہو نہ ہو یہ تو ایک پاگل یا جادو گر ہے گلیلیو کو دوربین ایجاد کرنے پر پھانسی دے دی گئی سقراط کو اس کی تھیوریوں پر ذہر دیا گیا الغرض جو سچائی بھی دنیا میں چلی ہے انتہائی دکھ اور مصیبت کے بعد چلی ہے آج اگر کوئی پارلیمنٹ کا ممبر کھڑا ہو کر تجویز کرے کہ ریل کو بند کر دینا چاہئیے یا دوربین بیکار شے ہے تو اس کا پاگل خانے میں بند کرنے کے سوا چارہ نہ ہو گا۔
          ان بناں پر ہمارے گورنر جنرل کو اس حقیقت کا احساس پاکستان کی اس سیمال حالت میں کرنا چاہئیے کہ اگر اس نفسیاتی لمحے میں کہ ہر شے دیگ کے اندر نئے انداز سے ڈالی جارہی ہے تا کہ نئی چیز پکے گورنر جنرل بہادر نے پاکستان میں انتخابات کی کایا پلٹ دینے کا عزم کیا اور غریب مسلمان متوسط طبقہ کے مسلمان اور امیر مسلمان کے الگ الگ حلقے قائم کر کے نئے انتخابات کرادیتے تو پارٹی بازی کی جنگ مسلم لیگ کے خرانٹ ممبری بازوں سے ہٹ کر ایک ایسا رخ اختیار کرے گی جس میں اسی فیصدی مسلمانوں کی چڑھ بن کر رے گی انہی اسی فی صدی مسلمانوں کے اندربہترین ذہن کے بہترین علم کے بہترین اخلاق کے اور بہترین کردار کے مسلمان موجود ہوں گے وہ لامحالہ ممبر منتخب ہوں گے حکومت کی باگیں انہی ہوشمند مسلمانوں کے ہاتھوں میں ہوں گی تمام لچے اور شہدے امیر مسلمان جن کا اوڑھنا بچھونا نفع اندوزی ہے ماند پڑ جائیں گے اور پاکستان میں دین اسلام کا نیا دور اس چھوٹے سے ٹوٹکے سے شروع ہو جائیگا۔
          مسلمانو! اس موضوع پر جس کی ایک ادنےٰ سی جھلک میں نے تمہیں اوپر دی ہے میں مستقل طور پر چار کتابیں قید میں لکھی ہیں اور میں اسی سچائی کو اب دنیا کے عملی علمی حلقوں میں پھیلانے کا تبینہ کر رہا ہوں بڑے بڑے سائنس دان میرے اس انکشاف پر اور جمہوریت کی سچی اور فطری تعریف پر متحیر ہو رہے ہیں اور ہر ملک کا کافی بڑا حلقہ میرے ساتھ ہو رہا ہے میں اگر سچائی کو دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہو گیا تو میری زندگی کی تمام آرزوں کا نچوڑ ہو گا میں سمجھوں گا کہ قرآن اور دین اسلام کے مطالعے کے بعد میں دنیا کو ایک نئی اور قطعی راہ پر لگا گیا جس میں بنی نوع انسان کی قطعی نجات ہے لیکن ان تجاویز سے قطع نظر جن کا تعلق خاص طور پر ہمارے گورنر جنرل سے ہے پاکستان کے موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر کئی اور معاملات ہیں جن پر اس وقت انتہائی غور وخوض درکار ہے سب سے پہلا مسئلہ مسلم لیگ کی اصلاح کا ٹیڑھا مسئلہ ہے ایک جماعت جس میں پاکستان بلکہ دنیا کا بڑے سے بڑا مسلمان قائداعظم کا نام طلسم کے طور پر چوم کر اور دو آنے ادا کر کے بغیر روک ٹوک کے شامل ہو جاتاہے اور بعدازاں شیطانی کاری شروع کر دیتا ہے اس میں شک نہیں کہ مسلم لیگ ہی کی جماعت ہے جو پاکستان کو جوں توں کچھ قابلیت سے چلا رہی ہے کمیونسٹوں یا مولویوں کی جماعت ہوتی تو روس ہندو سے رشوت لے کر اب تک پاکستان کی ہستی کو ختم کر دیتی۔
          لیکن مسلم لیگ کی افتاد روز اول سے کچھ ایسی پڑی ہے کہ اس میں انگریز سے ذاتی نفع اندوزی کا سوال ہر دل میں غالب رہا اور انگریز چونکہ ا ن لوگوں کو اپنے مطلب کے لئے استعمال کرتا رہا یہ لوگ اسی طبیعت کے بنتے گئے کہ قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کریں خود قائداعظم جو آخر میں ان کا سردار بنا اس جماعت سے ازحد متنفر تھا اور کوئٹہ میں ایک تقریر کے موقع پر اس نے برملا کہ دیا کہ میرے سکے سب کھوٹے ہیں ان نقائص سے قطع نظر بڑا نقص جس نے اس جماعت کو بدکرداریوں کا حامل کر دیا ہے کہ خود یہ لوگ کسی بڑے کردار کے مالک نہ تھے سستی اور عیاشی ان کا شیوہ تھا دولت اور آرام انہیں وراثت میں ملے تھے اور اس پر ۔۔ یہ کہ بغیر کسی سعی وعمل کے یہ لوگ سلطنت کے وارث بنا دیئے گئے ان حالات میں مسلم لیگ کے متعلق یہ دعوے کرنا کہ ان کے بڑوں میں کسی قسم کی اصلاح ان کی اپنی کوشش سے پیدا ہو سکے گی قریباً محال ہے پاکستان کے بننے کے بعد مسلم لیگ کے کئی افراد نے بااختیار ہونے کی حیثیت میں وہ دھاندلی مچائی کہ بدکرداری کی تاریخ میں شاید یاد گار زمانہ رہے لیکن جوں جوں اسکی ہردلعزیزی ختم ہوتی گئی مسلم لیگ والوں نے اپنی بدنامی کے مضراثرات کو ردکرنے کی غرض سے اس سال میں کئی دفعہ اپنی اصلاح کا نشوروشرعوام میں اس نیت سے مچایا کہ پبلک ان کے متعلق کچھ اور مت تک خوش فہمی میں مبتلا رہے کئی مرتبہ یہ جماعت اپنے آپ کو قائد اعظم کا ورثہ کہ کر اپنے دن لمبے کرتی رہی کئی دفعہ اس جماعت نے اپنے آپ کو مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کہہ کر عوام میں ہر دلعزیزی پیدا کی کئی دفعہ اس نے انتخابات میں بے پناہ دھاندلیاں مچائیں اور عوام پر یہ ثابت کیا کہ وہ ان کی واحد نمائندہ جماعت ہے کئی دفعہ عوام میں یہ دہراکر کہ مسلم لیگ ہی نے پاکستان حاصل کیاہے یہ لوگ مسلمانوں میں خود کو نمایاں کرتے رہے الغرض ان ہتھ کنڈوں سے جو برابر سات سال تک مسلم لیگیوں کی طرف سے چلتے رہے مسلمان سخت پریشان ہے کہ ان کی گرفت سے ان کا چھٹکار اکب ہو گا اور اب تک باوجود اس کے کہ بے بس اور بے چارہ رعیت میں ان کا ایک فیصدی حامی بھی نظر نہیں آتا ان کا اقتدار مجال نہیں بڑے سے بڑے حاکم سے لے کر تحصیل کے چپڑاسی اور پولیس کے سپاہی تک سب کے سب مسلم لیگی بن کر رعیت کو ڈس رہے ہیں اور جب رعیت کے دلوں سے حد سے زیادہ چیخیں نکلنے لگی ہیں تو یہ لوگ مسلم لیگ میں اصلاح پید اکرنے کا نعرہ مکروفریب سے لگا کر پھر رعیت کو کچھ مدت کے لئے سلا دینا چاہتے ہیں تا کہ اصلاح کے انتظار میں کچھ اور مدت وہ ا ن کے ساتھ لگی رہے۔
          مسلمانو! یہ لوگ پچھلے چھ سال سے عوام میں یہ شرروشر پیدا کر رہے ہیں کہ مسلم لیگ کو نئے سرے سے زندہ کیا جائیگا پچھلے ایک سال سے اصلاح واحیاءکا یہ شور نسبتاً زیادہ باقاعدہ طور پر ہو رہا ہے اور آئے دن تاریخیں مقرر ہوتی ہیں کہ اس مردہ کو فلاح تاریخ کو زندہ کیا جائے گا پچھلے چھ سال سے مستقل بغاوت عوام الناس کی مسلم لیگ کے خلاف شروع ہو چکی ہے جس کا پہلا اظہار کئی لوگوں کا مسلم لیگ سے کٹ کر الگ جماعت قائم کرنا ہے پاکستان کے پہلے وزیراعظم کے عہد میں ہی یہ جماعت قریب المگرگ ہو چلی تھی اورعام نعرہ مسلم لیگ کو ختم کر دو بلند ہو چکا تھا مگر شہید وزیراعظم نے خود پنجاب پہنچ کر مسلم لیگ کو بچا لیا اور کچھ مدت کے لئے اس جماعت کی عمر میں اضافہ ہو گیا مسلم لیگیوں کا مسلم لیگ سے کٹ جانے پر اس کو ایک اور کاری زخم لگا جس نے اس کو قریباً ادھ موا کر دیا تھا لیکن مسلم لیگ والے اپنی اصلاح کاشور مچا مچا کر اپنی زندگی لمبی کرتے گئے اور چوں کہ پولیس اور فوج حکومت کے ہاتھ میں تھی مسلم لیگ کو باوجود تمام بیماریوں کے نصیب رہی اور یہ اپنی بدکرداریوں میں بدستور اضافہ کرتی رہی آخری اور کاری شکست مسلم لیگ کو بنگال میں ملی جب ان کا سہارا ٹوٹنے پر آیا لیکن پولیس اور فوج نے انہیں پھر بچالیا اور اس اثناءمیں اس نے اپنی اصلاح کا شور نسبتاً زیادہ مچانا شروع کر دیا تا کہ عوام الناس اس ڈنڈے کے زور پر دھوکے میں مبتلا رہیں لیکن ان سب ضربوں سے کاری ضرب ڈیڑھ سال پہلے ان کی آپس میں پھوٹ تھی جس میں دوسرے وزیراعظم کو بیک بینی ودوگوس نکال دیا گیا اور کئی وزرات اور بڑے بڑے مسلم لیگ آپس میں کٹ کر علیحدہ ہو جانے یا کسی نئی پارٹی میں شامل ہونے کی بجائے اسی مسلم لیگ میں شامل رہے اور اب گویا مسلم لیگ بجائے خود پھوٹ کا ایک اڈا ہے جو غالباً بلکہ ایک رو سے یقینا اسکی آخری موت کا نقارہ ہے۔
          مسلمانو! اگر انتہائی غور سے دیکھو تو اٹھارہ ماہ پہلے کی وزارت کی برطرنی جو گورنر جنرل بہادر نے حالات کی تہ تک پہنچے کے بعد اپنے اختیار سے کی مسلم لیگ کے زندہ درگور ہو جانے کی پہلی منزل تھی گورنر جنرل چونکہ کسی معنوں میں مسلم لیگی نہ تھے اور مسلم لیگ کے اندر پھوٹ پڑ چکی تھی بہترین علاج یہی تھا کہ نا اہل وزارت کو ختم کر دیا جائے گویا مسلم لیگ کے ڈھنگ کو مصتم کر دینے کا پہلا قدم اٹھ چکا تھا یہ رخصت شدہ لوگ چونکہ گھر کی اپنی پھوٹ کے باعث زک خور دہ تھے گدیوں سے اتر نے کے بعد بھی مسلم لیگ میں شامل رہے اور مسلم لیگ کی اندر کی پھوٹ مستقل بن گئی اس اندر کی گو مگو پارٹی بازی کا نتیجہ یہ ہو اکہ حالات اندرونی طور پر بگڑ گئے اور مسلم لیگ میں سالمیت جیسی کہ کچھ نہ کچھ پہلے تھی باقی نہ رہی اس سے کچھ پہلے خود ختم نبوت کی تحریک میں مسلمانوں کو شکست مسلم لیگ کے کرتا دھرتاں کو مسلمانوں سے جدا کرنے کے لئے کافی تھی نتیجہ یہ ہوا کہ رہی سہی عوام کی ہمدردی ہٹ جانے سے مسلم لیگ کے اوپر کے طبقہ میں زبردست انتشار پید اہو چکا تھا آخری علاج گورنر جنرل بہادر کی طرف سے یہ ہو اکہ دستور یہ کو توڑنے کے سوا چارہ نہ رہاگلے قدم جو اٹھائے گئے ہیں اسی سلسلے میں ہیں اور بہاول پور کی وزارت کا ختم ہونا بھی اس سلسلے کی ایک کڑی ہے ادھر مرکزی وزارت میں غیر مسلم لیگی اشخاص کی آمد اس امرکی آئینہ دار ہے کہ گورنر جنرل کو آٹھ سال کے بعد اس امر کا کافی طور پر احساس ہو چکا ہے کہ جب تک بہترین اشخاص بلالحاظ پارٹی حکومت کو نہ چلائیں گے صرف ایک پارٹی کے اشخاص موثر طور پر نہیں چلا سکتے مسلم لیگ کنونشن کے بار بار ملتوی ہونے کے باعث بھی وہ کھلبلی مسلم لیگ کے حلقوں میں پیدا ہوئی ہے کہ یہ تاش کے پتوں کا گھر عنقریب ختم ہونے والا ہے حکومت کی باگ ڈور قریباً تمام غیر مسلم لیگی ہاتھوں میں ہے دستوریہ نے سات سال ہیں جو آئیں بائیں شائیں اسلامی آئین کے متعلق کی تھی وہ بھی کالعدم ہو چکی ہے اور اگر موجودہ گورنر جنرل نے دانش مندی سے کام لے کر طریق انتخاب کا کوئی ایسا موثر طریقہ اختیار کیا جس سے بدکردار اشخاص کا اوپر آنا ناممکن ہو گیا تویہ امر یقینی ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت کسی جگہ بھی قائم نہ ہو سکے گی۔
          مسلمانوں! جہاں ہیں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ جب تک آئندہ انتخابات میں نہ صرف طریقوں بلکہ وسیلوں میں وہ تبدیلی پیدا نہ ہو گی جس سے بہترین اشخاص بلا لحاظ پارٹیوں کے اسمبلی کے ممبر بن سکیں اس وقت تک پاکستان کو پھر خوشحال یا مضبوط بنانا ناممکن ہے میں اس بات پر بھی زور دوں گا کہ گورنر جنرل پاکستان کی حکومت کے ہر محکمے میں اخلاق اور کردار کو بلند کرنے کے لئے وسائل اختیار کرے اگر صرف اسمبلیوں کے ممبر مناسب آدمی منتخب ہوئے اور حکومت کی مشینری درست نہ ہوئی تو سب ڈھانچہ خراب رہے گا اس وقت سب سے بڑی مصیبت جس کی زد رعیت پر آئے دن اور ہر لمحہ بڑھتی رہتی ہے اور جس کی وجہ سے رعیت نڈھال ہے حکومت کے محکموں کا ظلم ہے ادنےٰ سے لے کر اعلےٰ تک ہر افسر سستی غفلت تن آسانی رشوت ستائی غریب پر ظلم کرنے میں سرشار ہے وہ اپنی کرسی پر بیٹھ کر غریب رعیت کو پاں کی ٹھکروں سے لہولہان کرنے میں مصروف ہے رعیت چیخ رہی ہے کہ کیا آزادی یہی تھی جس کے لئے ہمیں قربانیوں کے لئے پکارا گیا تھا پولیس کا ادنےٰ سے ادنے ٰ سپاہی راہ چلتے چلتے رعیت سے کسی فرضی گناہ کے پیسے وصول کر لیتا ہے ہر سفید پوش کو جو کسی مشکل میں پھنس گیا ہے بڑے افسر سے لے کر ادنےٰ سپاہی تک رشوت کے لئے تنگ کرتا ہے ماسوا چند دیانت دار افسروں کے جن کا خوف خدا کی وجہ سے اخلاق بلند ہے اکثر افسر اپنے فرائض سے شدید طور پر غافل ہیں جن کی وجہ سے ا ن کو تنخواہ مل رہی ہے انگریزوں کے عہد میں ایک بات مشہور تھی کہ دھلی کی حکومت ہند سے بھی کسی درخواست کے تسلی بخش جواب کے آنے میں پندرہ دن صرف ہوتے تھے لیکن یہاں چھوٹ چھوٹے ضلع بلکہ شہر بلکہ محلہ کے محکمے سے رعیت کی کسی درخواست کا مہینوں میں جواب آنا مشکل ہے مجھے ابھی ابھی کسی شخص نے بتایا ہے کہ ایک چھٹی کے جواب کو لکھنے میں حکومت کے ایک محکمہ کو ڈھائی مہینے لگے اور چپڑاسی نے اس چھٹی کو سائل کے گھر تک پہنچانے میں پورے پندرہ دن لئے اور جب افسران بالا سے بذریعہ ٹیلیفون شکایت کی گئی تو وہ ہنس دیئے محکموں کی ناہلی کی اس قیامت میں جو پاکستان میں سات سال سے مچ رہی ہے۔ اور جس کی حد یہاں تک آ پہنچی ہے کہ محکموں کے افسروں کے لئے آفس میں لیٹنے کے لئے چار پائیاں بچھا دی جاتی ہیں اور افسروں کی میزوں پر حقے چلائے جاتے ہیں آجکل کے گر سے ہوئے مسلمانوں کی نگاہوں میں آزادی کی کوئی منزل ہو لیکن اس کو مادرپدر آزادی کھناز یادہ درست ہو گا اور گورنر جنرل بہادر کو اس آزادی کا قلع قمع بنیاد سے کر دینا چاہیئے اور یہ اس لئے ضروری ہے کہ دشمن ایسی سلطنت کے پر خچے چند دنوں میں اڑاسکتا ہے میں نے حکومت کے محکموں کی اس لاا یالپت کا نقشہ پاکستان بننے کے چند ماہ بعد ہی اپنے انگریزی اخبار الاصلاح میں تفصیلی طور پر کھینچا تھا لیکن اس وقت پاکستان کے نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا تھا اس وقت ہمارے رہنماں کے سامنے پاکستان کے بن جانے کی رنگ رلیاں تھیں اور وہ کہا کرتے تھے کہ ابھی ہم نو زائیدہ ہیں سب کام خود بخود درست ہو جائیں گے۔
          مسلمانو! محکموں انتظامیہ کی رستی کی طرف گورنر جنرل بہادر کی توجہ دلانے کے بعد اس سے بھی زیادہ ضروری ہے کہ اس سات سال کی مدت میں عام مسلمانوں کے اخلاق اور کردار انہتائی طور پر کر چکے ہیں لوگوں کے دلوں میں گناہ کرنے کی منطق یہ ہے کہ جب ہمارے بڑے لیٹرے ہیں ہم کیوں نہ بنیں بڑوں کو تو بدیانتی کرنے کی ضرورت ہی نہیں ان کے پاس لاکھوں اور کروڑوں روپیہ ہے تو ہم جن کو ایک وقت کا کھانا بھی پورے طور پر میسر نہیں کیوں نہ بے ایمانی کریں کیوں نہ کم تولیں کیوں نہ بلیک کریں کیوں نہ راہ چلتے کو لوٹ لیں کیوں نہ جھوٹٹ بولیں کیوں نہ فریب کریں وغیرہ وغیرہ گورنر جنرل کو میں کہو ں گا کہ یہ منطق کتنی ہی حیوانی اور غیر اسلامی ہے لیکن اس کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ۔الناس علیٰ دین ملکو کھم۔ یعنی رعیت کا بھی وہی چلن ہوتا ہے جو سرداروں کا ہوتا ہے ایک مشہور اور درست ضرب المثل ہے اس لئے مسلمانوں کے اخلاق کے اس بے مثال حد تک گرجانے کی ذمہ داری پہلی حکومت پر ہے جس کو ابھی ابھی گورنر جنرل نے ختم کر دیا ہے اب مسلمانوں کے اخلاق وکردار کو بہتر بنانے کی ذمہ داریاں بھی گورنر جنرل پر آپڑتی ہیں اس لئے میں ضرور کہوں گا کہ رعیت کو درست کرنے کا ہتھیار ڈنڈا ہے صرف فوری سزا کا خوف ہی رعیت کو درست کر سکتا ہے رعیت یہ بکواس کہ چونکہ بڑے لوگ بھی برے ہیں ہمیں بھی برا بننا چاہیئے اس کا علاج بھی ڈنڈا ہے یہ ڈنڈا ضروری بلکہ لازمی اس لئے ہے کہ خدائے عظیم نے صاف طور پر قرآن میں فرمایا ہے کہ جب ہم کسی قوم کو ہلاک کرنا چاہتے ہیں تو اس قوم کے آسودہ حال لوگوں کو بدکار کر دیتے ہیں قوم اسی وقت موت کے منہ میں چلی جاتی ہے ب وہ سرداروں کی دیکھا دیکھی خود بھی بدکاربن جاتی ہے اس لئے تمام پاکستان کو تباہی سے بچانے کے لئے لازمی ہے کہ ڈنڈے سے قوم کو درست کیا جائےاگر پاکستان رعیت کی بدکرداریوں کے سبب موت کے منہ میں چلا گیا تو پھر سب کی موت ہے ہندوں کے پنڈت نہرو نے ابھی ابھی پاکستان کو کاٹ کھانے والا طعنہ دیا ہے کہ مسلمانان پاکستان تو ان سات سالوں میں آپس میں لڑتے رہے اور ہم ہندوں نے کافی ترقی کی ہے کیا اس طعنہ کے بعد کوئی غیر ت مند مسلمان برا رہ سکتا ہے مسلمان قوم اس قدر اصیل قوم ہے کہ اگر اس کی اصلاح کرنے والا عزم اور ارادے والا حاکم پیدا ہو گیا تو چھ ماہ کے اندر اندر سڑکوچلتی ہوئی مخلوق اللہ اللہ پکارے گی۔
          جمہور کی اصلاح کے مطابق جو جو بات انصافاً مجھے کہنا باقی ہے یہ ہے کہ قوم اور عامر مسلمان کی بدکاری اکثر وبلکہ میں دعوےٰ سے کیوں گا مکمل طور پر بھوک اور ننگ کی جوہ سے ہے امراءکی بدکاری اور بدیانتی روپیہ جمع کرنے کی شھوت سے ہے لیکن غرریب اور بے بس عوام کی رور سرہ بدکاریاں بدیانتیاں جھوٹ اور فریب حتےٰ کہ زنا کاریاں اور سینما بازیاں بھی پیٹ خالی ہونے کی وجہ ہیں میرا یقین ہے کہ وہ شخص زنا بھی کم کرے گا جس کا پیٹ بھرا ہوا ہو جسکے پیٹ میں پوری خوراک موجود ہے وہ دھوکہ کیوں کرے گا اس لحاظ سے حکومت کا پہلا کام یہ ہونا چاہئیے کہ کچھ دیر کے لئے ملک کی فرضی اور نمائشی ترقی کے کروڑوں روپے کے منصوبو ں کو چھوڑ جن منصوبوں کے کروڑوں رپویہ کا بڑا حصہ افسران بالا اور ٹھیکیداروں اور یورپ میں سیر کرنے والے خریداروں کی نذر ہوتا ہے۔ وہ سب سے پہلی فکر ۔۔ کے پیٹ بھرنے کریں۔ میں نے چھ ماہ ہوئے وزیراعظم بہادر کے سامنے تجویز کر دی تھی کہ گندم فی الفور روپے من کر دی جائے وزیراعظم نے کہا تھاکہ مجھ سے ملک کے اقتصادیات کو پیش نظر رکھ کر اس مسئلہ پر بحث کر کے یقین دلا دو میں وہ یقین دلانے کو ہر وقت تیار ہوں وزیراعظم بہادر پھر اپنے جھملیوں میں پڑ گئے یا امریکہ چلے گئے اور وقت نہ ملا اب پانچ روپے من گندم گورنر جنرل کرے اور عوام کی دعا لے۔
          مسلمانو! اگر اتنخابات درست ہو گئے محکموں کے کارندے اپنا کام دیانت داری سے کرنے لگے عوام کے لوگوں نے بدکرداری چھوڑ دی اور روٹی سستی ہو گئی تو میرا یقین ہے کہ پاکستان کی ترقی اسی دن سے شروع ہو جائیگی نہرو کا طعنہ کہ ہم پاکستانی سات سال صرف لڑتے رہے اور کچھ نہ کیا اور ہندوں نے ان سات سال میں بے حد ترقی کی کافور ہو جائے گا ہم پیٹ بے خوش کردار وخوش اخلاق نوجوان مونچھوں پر تا دے کر نہرو کے سامنے آئیں گے اور چھ ماہ کے اندر کشمیر کے دارا لخلافہ سرینگر میں پاکستان کا جھنڈا لہرا رہے ہوں گے نہرو اگر کشمیر کو سات سال سے نہیں چھوڑتا تو اس لئے یہ برہم زادہ خوب سمجھتا ہے کہ پاکستان کی کمزوری کا اصلی باعث وہ دھاندلی ہے جو پاکستان میں اوپر سے نیچے تک مچی ہے یہ مغرو ر برہم قوموں کی زندگی کے راز سمجھتا ہے ہم شاعری اور گیتوں اور قوالیوں میں لگے رہے اور شاعروں اور گویوں کو اپنا راہنما بنا لیا لیکن ہندو نے ان سات برس میں وہ عظیم الشان ترقی اپنی دوگز کی دھوتیاں اور ململ کی ٹوپیاں پہنے ہوئے کیں کہ ان پر عقل دنگ ہے ابھی ایک سال نہیں ہوا کہ پاکستان کے ایک بڑے افسر نے مجھے لکھا ہوا دکھایا کہ ہندو نے ہر بیس ہزار دیہاتی پر ایک ڈگری یافتہ زراعتی افسر مقرر کر دیاہے تاکہ ان کو زراعت کرنے کے عمدہ طریقے سکھلائے موٹر ہوائی جہاز اور ایٹم بم کے کارخانوں اور ہندو کے سپاہیانہ وردیوں کے متعلق تو آپ پڑھتے ہی رہتے ہیں میرے خیلا میں پاکستان کے پاس تو پانچ فیصد زراعتی تریجوایٹ بھی ہرگز نہ ہوں گے ہندوستان نے اس سات سال میں چالیس ہزار پید اکر لئے ہیں۔
          مسلمانو! کشمیر نہ ملنے کا باعث تمام ملت کی بھوک ننگ اور بدکرداری کی کمزوری ہے اسی وجہ سے ہمارے حاکم بھی جرات نہیں کر سکتے کہ وہ نہرو کو آنکھیں دکھا سکیں اور اس ہندو سے جواب تک صرف آنکھیں دکھنانے ہی سے کشمیر واپس کر سکتا ہے کشمیر چھین لیں ملت کی یہ کمزوری صرف ان حالات میں رفع ہو سکتی ہے کہ گورنر جنرل بہادر اور اس کی حکومت چھانٹ چھانٹ کر پاکستان کے ہر گوشے سے قابل ترین آدمی نکالے چراغ لے لے کر ڈھونڈے جو گوشوں میں چھپے ہوئے ہوں دیانت دار اور خدا ترس انسانوں کے ہاتھ پکڑ پکڑ کر نکالے جو پاکستان والوں کے کر توت دیکھ دیکھ کر اور انگشت بدنداں رہ رہ کر مایوس ہو گئے ہیں اور کسی عمدہ وقت کا انتظار کر رہے ہیں ان لوگوں کو ان کی اہلیت کے مطابق جگہ ملنی چاہئے تا کہ وہ پاکستان کو پھر گلستان بنا دیں اہلیت دیانت اور محنت کی طاقت کے سوا اور کسی شے کا لحاظ نہ کیا جائے اور ان حاکموں کو جو کنبہ پروری رشوت اور بدیانتی کے باعث بڑے بڑے عہدوں پر ہیں بیک بینی ودوگوش عہدوں سے علیحدہ کر دیا جائے اس مطلب کے لئے حکومت ایک ایمر جنسی پبلک سروس کمشن مقرر کرے جو چند ماہ کے اندر اندر ہر محکمے کو موثر طور پریس کر دے حکومت کے دفاتر میں بدنظمی زیادہ تر اس خلا کی وجہ سے ہے جو انگریزوں کے چلے جانے سے پید اہوئی اور اگر یہ خلا اور دیر تک رہا تو حکومت کی تمام مشینری شل ہو جائے گی اگر حکومت کا داخلی نظام مشین کی طرح باقاعدہ ہو گیا تو ہم نے پاکستان کی بازی آدھی جیت لی اور دشمن کو پہلے وار میں پچھار دیا ۔
          مسلمانو!کشمیر کا مسئلہ نہرو سے نپٹنے کا اتنا نہیں جتنا کہاپنے آپ سے نپٹنے کا ہے ہم نے ابھی تک اس سات سال میں اپنے گھر کو درست نہیں کیا اس لئے نہرو بہادر ہم پپتیاں اڑہیں مجھے چھ برس ہوئے ایک بڑے وزیر نے کم ازکم دس لمبی لمبی کہانیاں 47ء کی عبوری حکومت کے متعلق سنائیں جبکہ نہرو پٹیل قائداعظم خان لیاقت اور دورے مسلمان وزراءعبوری حکومت کے رکن انگریزوں کے دور میں تھے اور ابھی پاکستان بنا نہ تھا وہ وزیران کہانیوں سے یہ ثابت کرنا چاتا تھا کہ ہندوں کے سامنے ہم مسلمان وزیروں کی بات چل نہ سکتی تھی وہ ہم کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھتے تھے ہماری قابلیتوں سے کچھ متاثر نہ تھے بلکہ بعض دفعہ اپنی معلومات کے مقابلے میں ہمارا مخول اڑارتے تھے اس وزیر نے بالآخر کہا کہ یہ وجوہات تھیں جن کے باعث ہم اپنی علیحدہ سلطنت بنانے پر مجبور ہو گئے اس سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ کشمیر اب تک کیوں نہیں ملا اور ہندو کیوں ہمیں بیڈ منٹن کی چڑیا کی طرح کبھی بین الملکیتی کانفرنسوں کبھی ورلڈ بنک اور کبھی یو۔ این۔او کی طرف پھینک دیتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہم کسی ایک جگہ بھی نپٹ سکیں گے کیونکہ حکومت کی مشینری کے کئی پرزے اس قابلیت کے مالک نہیں کہ مکار اور پورے طور پر تیار ہندو سے نپٹ سکیں ایسی حالت میں حکومت کی مشینری کے پرزوں کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے اور اسکا علاج ان نازک حالات میں یہی ہو سکتا ہے جو میں نے پیش کیا ہے یہ نہیں کہ ہم دس برس تک اور انتظار کریں تا کہ ہمارے موجودہ نوجوان حاکم مزید تجربہ حاصل کرلیں۔
          مسلمانو! پاکستان کی سلطنت کو پچھلے سات سال میں ایک اور عجیب وغریب مرض لاحق ہے جو اس کی جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے یہ مرض صوبائی تعصب ہے جسکی ایجاد مسلم لیگ کے آدمیوں نے اس نیت پر کی کہ رعیت کمزور رہے اور ہم اس پر دیر تک حکومت کر سکیں انگریزوں نے بھی اپنے زمانے میں اس صوبائیت کی لعنت کو کافی حد تک پیدا کیا تھا مگر اس میں ہرگز ہر گزوہ شدت نہ تھی جو پچھلے سات سال میں پید اہوئی اس صوبائیت کی ابتدائی وجہ بھی نفع اندوزی ہے جو پاکستان کے خود غرض حاکموں میں اس وجہ سے پید اہوئی ہے کہ پاکستان میں کئی صوبے پیداکر کے وہ اپنے اپنے عہدوں کو برقرار رکھ سکیں یہ بدیانتی بعینہ اس قطع کی بدیانتی ہے جو ایک مسجد کے مولوی کو مجبور کر دیتی ہے کہ وہ اپنے باسی ٹکڑوں کی خاطر ایک مسجد کے نمازیوں کو دوسری مسجد کے نمازیوں کے خلاف کرتا رہے مولوی کہتاہے کہ میں اپنی چھوٹی سی مسجد کا کھڑ پنچ ہوں اگر میں نے جامع مسجد کے امام پیچھے نماز پڑھی تو میری کھڑ پنچی اور باسی ٹکڑے ختم ہو جائینے گہ ہمارے حاکم بھی یہی چاہتے ہیں کہ پاکستان بھی چار پانچ کیا بیس صوبوں میں بٹ جائے تا کہ پندرہ بیس گورنر ہوں پندرہ بیس وزیراعظم سودوسو چھوٹے وزیر اسی طرح سے درجنوں محکموں کے چھوٹے نفع اندروزی ہے اور اسی لیئے ہر حاکم یہی چاہتا ہے کہ میرے صوبے کے لوگ ساتھ کے صوبوں کے لوگوں سے لڑتے رہیں ہنسی کا بات یہ ہے کہ مشرقی بنگال کی آبادی کٹنے کے بعد بھی مغربی پاکستان کی آبادی سے کافی زیادہ ہے اور پورے بنگال کی آبادی تو ڈھائی گنا زیادہ تھی ڈھائی سو برس سے بنگال انگریزوں کے زمانے میں ایک صوبہ رہا اور سات برس سے یہ کٹا ہوا حصہ بھی ایک صوبہ ہے لیکن مغربی پاکستان کے5 صوبے پاکستان بننے کے بعد اسی طرح سے 5صوبے بنے رہے بلکہ اب ان کا آپس میں تعصب انگریزوں کے وقت سے کئی گنا زیادہ ہو چکا ہے ان تعصبات کا جو عہداً پھیلائے گئے ہیں لازمی نیتجہ اب یہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کی سالمیت خطرے میں پڑتی جا رہی ہے اور مزایہ ہے کہ ہندوستان کے ہندو ڈھائی سو کے قریب ریاستوں کو ہندو ستان میں ملا کر بھارت کو ایک ملک بنا رہے ہیں اور ہم دنیا میں مساوات اخوت کے مدعی مسلمان پٹھانپنجابی سندھیبلوچی اور ریاستی بن کر ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کے صوبے بنا رہے ہیں اور اپنی اسلامی وحدت بری طرح ختم کر رہے ہیں کہ یہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی سلطنت شیطانوں کا اکھاڑہ نظر آ رہا ہے۔
          میرے نزدیک اس خاص صوبائی تعصب کا جو پاکستان میں اسکے اسلامی سلطنت بن جانے کے بعد پید اہوا ہے واحد علاج یہ ہے کہ بڑے پیمانہ پر تبادلہ آبادی کیلئے مسلمان کو اسلام کا واسطہ دے کر تیار کیا جائے یہ تبادلہ آبادی نہ صرف اس لئے ناگزیر ہے کہ ملک کئی صوبوں میں بٹ کر صوبائی تعصب کا شکار بری طرح ہو رہا ہے بلکہ بدرجہ اولیٰ اس لئے کہ ملک کے دوٹکڑے چودہ سو میل دور ہیں اور ان میں کوئی قابل ذکر وسیلہ ایک طرف سے دوسری طرف جانے کا نہیں ملک کا مشرقی حصہ ان لوگوں سے آباد ہے جو پشت درپشت سے جسمانی طور پر کمزور ہیں اور کسی بڑی جنگی صلاحیت کے مالک نہیں اگر کسی انگریز کی سند مانگتے ہوا اور وہ تمہیں زیادہ مطمئن کر سکتی ہے تو سنو! کہ لارڈ میکالے نے بنگالیوں کے متعلق اگر مجھے ٹھیک یاد ہے لکھا تھا کہ وہ چاول کھا کھا کر بزدل ہو گئے ہیں اور بنگال کا بابونرادفتر کا کلرک ہی ہے اس کا اطلاق بدرجہ اولےٰ بنگالی مسلمانوں پر زیادہ اسلئے ہو سکتاہے کہ بنگال میں مسلمانوں کی اقتصادی حالت ہندں سے بدرجہ خراب ہے اور جسمی اور جنسی بیماریاں ان میں نسبتاً زیادہ ہیں بابر اور دوسرے مغلیہ بادشاہوں نے بنگال کے متعلق جو کچھ کہا اس سے بدتر ہے ادھر تبادلہ آبادی کی ایک بڑی وجہ اس کے علاوہ یہ بھی ہے کہ وہ ملک چاروں طرف سے ہندوستان سے گھرا ہوا ہے پندرہ سو میل لمبی سرحد رکھتا ہے اور ہندو جس وقت چاہے چار دن میں حیدر آباد دکن کی طرح اس پر قبضہ کر سکتاہے بلکہ یہ بات حیدر آباد دکن پر قبضہ کرنے کے بعد ہندوستان کے کمانڈر انچیف اور ہندو ریز یڈنٹ چوہدری اور منسی کے درمیان مکالمے کے طور پر اخبارات میں چھپی ہے یہ وجہ بذات خود اس امر پر مجبور کر دیتے ہے کہ بنگال کی حفاظت کے لئے بنگال کے لوگوں میں پ نجاب سرحد اور سندھ کے جنگجو انسانوں کا تبادلہ آبادی کر کے اس ملک کو جنگی طور پر مضبوط کیا جائے ان امور کے علاوہ بنگال والوں کی بنگال کے متعلق مصیبت خواہ وہ ہندوہوں یا مسلمان ان کی زبان اور رہت بہت اور تمدن کے نقطئہ نظر سے اس قدر شدید ہے کہ 1905ءمیں تقسیم بنگال کے متعلق بنگالیوں نے انگریز جیسی مضبوط سلطنت کو خطرے میں ڈال دیاتھا اور بالآخر لارڈ کرزن کو بنگال کی تقسیم منسوخ کرناپڑی یہ تاریخی واقع بعینہ ان مشکلات کو دہراتا ہے جنکی وجہ سے مغلیہ سلطنت کو بھی اس کے چار سو برس کے عہد میں حالانکہ وہ جغرافیائی لحاظ سے ایک ملحق اور متواتر سلطنت تھی انتظامی امور میں بڑی دقتیں پیش آئیں اور بالآخر انہوں نے کئی بار تبادلہ آبادی کیا تا کہ انتظام مکمل ہو سکے میں نے پاکستان بننے کے شروع ہی میں تبادلہ آبادی کی تجویز بڑے شدومد سے کی تھی اور صاف طور پر کہا تھا کہ پاکستان کے تمام صوبے خسارے کے صوبے ہیں اور ان کی وجہ سے پاکستان میں اقتصادی توازن کی مشکلات بڑھ چڑھ کر ہو نگی بنگالی زبان کا مسئلہ اگر اب نہیں تو آگے چل کر لازمی طور پر پیش ہو گا وغیرہ وغیرہ اور جب تک بڑے پیمانے پر تبادلہ آبادی مشرقی اور مغربی پاکستان میں کسی عنوان سے یہ دونوں خطے اسلامی نقطئہ نظر سے وحدت میں پروئے نہ جاسکیں گے اب جبکہ تقسیم کا دکھ بنگالیوں کا بھی حقیقت سے منہ پھیرتا ہے اور اس تقسیم کے بعد اب تک بنگال کے مسلمانوں کی رہت بہت تمدن اور زبان بنیادی طور پر بدل کر ان کو اسلامی طریق کلام طریق رہائشی طریق تخیل اور طریق تعمل پر نہ لایا جائے نہیں بلکہ جب تک ان دونوں ٹکڑوں کے لوگ بنیادی طور پر ایک ہی رنگ ایک ہی طرح کے مالک نہ ہوں اسلام کی URGEیعنی اکساہٹ گورے کالے موٹے اور پتلے زور آور اور کمزور کے تعصب کو مٹا کر دونوں آبادیوں کو ایک نہ کر دیں پای سلطنت جس کو اس دنیا میں ہزاروں برس تک پائیدار اور پائندہ طور پر رہنا ہے مضبوط نہیں ہو سکتی۔
          مسلمانو! سلطنتوںکو پائیدار کرنے کی حکمت کے بالمقابل انسانوں کے چھوٹے چھوٹے تعصب کوئی حقیقت نہیں رکھ سکتے اگر چنگیزی ترکوں اور مغلوں بہت تمدن زبان اورتخیل کا مقابلہ جو منگولیا کے خوفناک پہاڑوںسے نکل کر دنیا پر حملہ آور ہوتے تھے اور جنہوں نے بغداد کی عظیم الشان سلطنت کو تاخت وتاراج کر کے خلافت اسلامیہ کا زوال پیدا کیا تھا آجکل کے مغلوں اور ترکوں سے کیا جائے تو زمین وآسمان کا فرق نظر آئے گا بہر نوع یہ تعصب کہ بنگالیوں کے ادھر آنے یا پنجابیوں کے ادھر جا کر بسنے سے ہمارے چہروں کے رنگ خراب ہو جائیں گے ہماری اردو زبان بگڑ جائے گی ہمارے تمدن میں فرق آجائے گا ہم خدا کو بنگالی زبان میں بھگوان کہا کریں گے وغیرہ وغیرہ یہ وہ تعصبات ہیں جوج مسلمانوں جیسی عالمگیر اور عالم آرا قوم کو زیب نہیں دیتے میں نے قید کے دوران میں جبکہ میں شاعر بنا ہوا تھا اور اس جوش میں چار انقلاب انگیز کتابیں لکھ ماریں جو عنقریب شائع ہوں گی تین برس ہوئے شاید اسی صوبائی تعصب کو پیش نظر رکھ کر کہا تھا۔

نہ قوم اس کی نہ نسل ورنگ و مہذب
خدا کی انجمن کوئی نہیں ہے
مسلمان کا خدا جب ہر جگہ ہے
مسلم کا وطن کوئی نہیں ہے

          الغرض ہمارے تنگ نظر اور کرسی نشین سیاست دانوں نے جو صوبائی تعصب پھیلا پھیلا کر پاکستان کا بیڑا غرق کر دیاہے اگر تبادلہ آبادی کی حکمت عملی کو نہ سمجھا اور تندہی سے اسکے لئے ابھی سے ہوا پید انہ کی تو یہ یاد رکھو کہ پاکستان کے یہ چودہ سو میل دور دو ٹکڑے کسی عنوان سے یکجان ویکزبان نہ ہو سکیں گے مشرقی بنگال کا ٹکر وہ یقینی طور پر آگے چل کر ہندوستان کے ساتھ ہی جائے گا اور پھر اس کے بعد مغربی پاکستان بھی یقیناً مٹ جائے گا ہندو کی تمام پچھلی پانچ ہزار سال کی تاریخ یہ بات عیاں کر رہی ہے کہ ہندوں نے ہند میں کسی دوسری قوم کو برداشت نہیں کیامقولوں پر جو میں کہہ رہا ہوں میرے سات بلکہ دس پندرہ برس پہلے مقولے گواہ میں جو آج حرف بحرف پورے ہو رہے ہیں مسلمان کی زبان رو ہے نہ بنگالی نہ پنجابی نہ سندھی مسلمان کا رنگ نہ پیلا ہے نہ کالا نہ سفید نہ سرخ مسلمان کی نسل نہ عربی ہے نہ چینی نہ شامی نہ ایرانی مسلمان ایک عالمگیر اور عالم آراقوم ہے اور جو قوم رنگ اور نسل کے تعصبات میں پھنسی ہوئی ہے وہ اور کچھ بھی ہو کم ازکم مسلمان کہلانے کی مستح نہیں۔
          مسلمانو! اس وقت کہ گورنر جنرل بہادر پاکستان کے انتظامیہ میں بیادی تبدیلیاں پیدا کرنے میں مصروف ہیں اور امید کی جھلک صاف نظر آرہی ہے بلکہ سابق وزیراعظم بہاولپور جیسے حکومت کے لاڈلے گورنر جنرل کی بنائی ہوئی تندی کی دھنک سے روئی کے گالوں کی طرح اڑ رہے ہیں اور آگے چل کر نہایت خوبصورت اور مضبوط کپڑا بنے جانے کی تیاری ہو رہی ہے پاکستان کی پبلک کو خاص طور پر کہوں گا کہ وہ اس عظیم الشان مہم میں تن من دھن سے ان کے فقط نظر کی پوری حمایت کریں کا ہر مسلمان خواہ وہ کسی آئیڈ یالوجی اور نصب العین سے متعلق ہو خواہ وہ اس تمام منظر کو جو آئے دن نت نئی حیرانیوں کے ساتھ سامنے آرہا ہے حکومت کے کارندوں کے ذاتی مناقشات پر محمول کرتا ہو یا نہ کرتا ہو اس نازک وقت میں گورنر جنرل کی پوری تائید کرے کم ازکم یہ سوچے کہ اس وقت تک دستوریہ کے توڑنے اہل وزیروں کو نکالنے وزیراعظم محمد علی کو برقرار رکھنے جنر ل ایوب کو ڈیفنس منسٹر بنانے یا نئے مرکزی وزیر چنئے میں بہاول پور کی بدکردار منسٹری کو توڑنے مرکزی حکومت کے خلا ف معمول اکثر غیر مسلم لیگی وزیر بنائے مسلم لیگ کی صدارت کو بدستور وزیراعظم کے ہاتھ میں رکھنے مسلم لیگ کنونشن کو ملتوی کرنے وغیرہ وغیرہ کے متعلق جو کچھ اب تک ہوا ہے وہ نہایت امیدافزا ہے مجھے یقین ہے کہ گورنر جنرل کبھی گوارانہ کرے گا کہ وہ لوگ جو مسلم لیگ میں بدنام ہو چکے ہیں پھر برسراقتدار آئیں کبھی گورانہ کرے گا کہ وہ نقشہ جو سات سال سے مسلم لیگ نے پاکستان میں پیدا کیا تھا پھر جمے مجھے اگر اور کچھ نہیں تو کم ازکم یہ امید ضرور ہے کہ ذاتی مناقشات کے طوفان میں جو پچھلے کئی ماہ سے جاری تھا اس قدر اخلاقی جرات دکھانے والا گورنر جنرل ضرور کسی مستقل پروگرام کا مالک ہو گا جس پروگرام کو سامنے رکھ کر اس نے یہ حیرت انگیز اقدامات کئے ہیں ان بناں پر اس وقت انتہائی طور پر ضروری ہے کہ گورنر جنرل کی حمایت میں پاکستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سرگرمی اور مخلصانہ وفاداری کا ایک طوفان اٹھے جو غلط حمایت یا صحیح حمایت کے نظر یتے کو بالائے طاق رکھ کر پاکستان کو انہیں ذاتی مناقشات کے صدقے میں مضبوط کر دے اس وقت اگر مخالفت کی آوازیں اٹھیں تو وہ پاکستان کو ختم کر دیں گی ہم مسلمانوں کی صرف پاکستان کی بہتری کی طرف نظر کرنی چاہئے اوپر کے لوگ اگر آپس میں لڑ رہے ہیں تو ہم بے بس رعیت کو جس میں تمام پارٹیاں اور سب قطع کے مسلمان شامل ہیں رموز سلطنت خویش خسرواں دانندہ گدائے گوشہ تو حافظا مخروش کا شعر پڑھ کر یہ سوچنا چاہیئے کہ یہ مناقشات ہمارے دائرہ بحث سے خارج ہیں اور جب تک کوئی عمدہ اقدام پاکستان کی بہتری کے لئے کسی طرف سے کیا جا رہا ہے ہمیں اس اقدام کی ہمہ تن تائید کرنا چاہئیے میرا یقین ہے کہ اگر پاکستان کا انتظامیہ ان خطوط پر جن کا اظہار میں نے اس خطاب میں کیاہے بنتا گیا اور ابھی تک کوئی وجہ نہیں کہ میں گورنر جنرل کے کسی اقدام کو غلط کہوں تو صرف یہی نہیں کہ آئندہ انتخابات بھی ایسے ہوں گے جن میں کوئی نامناسب نااہل اور پارٹی باز اسمبلی کا ممبر منتخب نہ ہو سکے گا بلکہ مجھے یقین ہے کہ گورنر جنرل بہادر کو اس امر کا پورا احساس ہے کہ پاکستان کے ہر فرد کی اقتصادی حالت یقینی طور پر خراب ہو چکی ہے وہ آٹا جوانگریز کے زمانے میں ابھی پندرہ برس نہیں ہوئے دوروپے بلکہ ڈیڑھ روپے من تک بکتا رہا ہے اب تیرہ چودہ روپے من بلکہ خالص دیسی گندم سولہ سترہ روپے من بک رہی ہے اور لوگوں کے گھروں سے رات کی سیاہی میں بھوک اور ننگ دکھ اور رنج کی وجہ سے چیخیں اٹھتی ہیں کہ اے خدا! تو میرا کیوں نہ رہا ایسے وقت می یقین ہے کہ گورنر جنرل کو سب سے پہلے اس کا ارمان ہو گا کہ آٹا سستا کر دیا جائے الغرض اس وقت حالات ازبس ساز گار ہیں مسلم لیگ کی حکومت کی جگہ ایسی حکومت کی آمد آمد ہے جو بہت ممکن ہے کہ سات سال کی پچھلی قیامت کو اگر بہشت نہیں تو کم ازکم اعراف میں بدل سکے۔
          مسلمانو!ان تمام مسائل کی بنا پر جو اس وقت قوم کو درپیش ہیں میں اسلام لیگ کے کونسلران کے مجھے سونپے ہوئے اختیار کی رو سے اس کی ایک مجلس نافذہ کا ڈھانچہ بنانے میں کامیاب ہو گیا ہوں جس کا اجلاس پرسوں ہو گیا ہے میں نے پاکستان ببنے کے فوراً بعد ایک کروڑ انسانوں کی ہلاکت اور بربادی کا سماں دیکھ کرر اسلام لیگ کی بنیاد 1947ءمیں پانچ کروڑ ہندوستانی مسلمانوں کی حمایت اور حفاظت کی بنا پر رکھی تھی اسلام لیگ تو خیر حکومت پاکستان بھی ان پانچ کروڑ 33لاکھ مسلمانوں کی حفاظت نہ کر سکی اور اب یہ مسئلہ نراڈھونگ سا نظر آتا ہے مگر چونکہ ازروئے اسلام ہم مسلمان نہیں رہ سکتے جب تک ان بدقسمت مسلمانوں سے جو دوسری طرف ہیں کسی نہ کسی طرح اظہار ہمدردی نہ کریں اور ایک مستقل جماعت میں آواز بلند نہ کریں ہم مجبوراً اور رسماً قائم ہیں اور اس ناامیدی میں کہ ان مسلمانوں کے لئے کچھ نہیں ہو سکتا پانے آپ کو منتشر بھی نہیں کاہتے اس حالت میں اسلام لیگ سات سال سے جوں توں چل رہی ہے اور اس کی کارگذاری حکومت کی بے بسی کے ہوتے ہوئے صرف لفظی ہمدردی تک ہے یہ پبلک کی انتہائی بے حسی کی دلیل ہے کہ مسلمان نے خاکسار تحریک کے بعد ایسی بے ضرر اور خالصتہً بے غرض جماعت کو بھی صحیح معنوں میں قبول نہیں کیا ورنہ اب تک ہمارے ہاتھ سیاسی طاقت بھی ہوتی اور ہم کشمیر نہروں کے پانی جوناگڑھ حیدر آباد دکن تو کیا پانچ کروڑ مسلمانوں کو جوادھر ہیں ہیں نجات دلا سکے پبلک کو اس امر کا احساس س اگر نہیں تو جو سزائیں عوام الناس کو خدا کی طرف سے مل رہی ہیں ا سی طرح ملتی رہیں گی کیونکہ خدا یقینااس امر کو گوارانہیں کر سکتا کہ مسلمان مسلمان کے دکھ سے بے نیاز ہو جائے میں چونکہ خود مسلمانوں کی کسی پارٹی سے متعلق ہونا نہیں چاہتا اور باوجود یہ کہ اسلام لیگ مسلمانوں کی کوئی پارٹی نہیں بلکہ عام مسلمانوں کی حمایت میں کھڑی ہے میں نے اسلام لیگ میں کوئی عہدہ قبول نہیں کیا لیکن بانی ہونے کے باعث میں نے اس کی مجلس نافذہ کو مرتب کیا ہے جو موجودہ سیاسی حالات کو پیش نظر رکھ کر اسلام لیگ کی مستقل پالیسی آئینی طور پر وضع کرے گی اس حکمت عملی کی بنیادی شق لازماً یہ ہو گی کہ پاکستان کی اسلامی سلطنت کی حفاظت بیرونی دشمنوں سے کی جائے اس حفاظت میں ان تمام مشکلات کا حل بھی شامل ہے جس میں پاکستان اس وقت گھرا ہوا ہے حکومت پاکستان کی بہتری کی تجویز میں تعاون کرے اگر حکومت پاکستان کے مفاد کے خلاف کچھ کر رہی ہے تو اس کی مخالفت کرے الغرض یہ نافذہ کمیٹی جو 7نومبر کو اپنا لائحہ عمل مرتب کر چکی ہے اسلام لیگ کی رہنمائی ناطق ہو گی اس مجلس نافذہ کے اندر جہاں تک مجھے محسوس ہوا ہے دو طرح کے عنصر ہیں ایک عنصر مسلم لیگ کو ناقابل اصلاح سمجھتا ہے اور دوسرا وہ جو مسلم لیگ کی اصلاح کر کے اور اس میں داخل ہو کر ملک کی ترقی چاہتا ہے لیکن غالب عنصر وہ متوسط طبقہ ہے جو پاکستان کو مولویا نہ اسلام پر نہیں بلکہ ان مشترکا نہ اسلامی خطوط پر لانا چاہتا ہے جس کے باعث مسلمان قرون اولےٰ میں سر فراز ہوئے تھے اور جس اسلام کے باعث آج یورپ اور امریکہ جیسی زندہ قومیں طاقت حاصل کر رہی ہیں میرا یقین ہے کہ یہ مجلس نافذہ اپنی آئندہ سوچ بچار میں اسلام لیگ کے لئے ایک ایسا لائحہ عمل وضع کرے گی جو مسلمانوں کے انتہائی طور پر تعلیم یافتہ اور مزدور طبقہ کو جلد ازجلد اپنے اندر جذب کرے جس سے نہ صرف یہ کہ صحیح معنوں میں روشن دماغ طبقہ پورے طور پر متاثر ہو بلکہ اس روشن دماغ طبقے کو اپنے ساتھ لے کر پاکستان میں وہ پاکستان گیراثرورسوخ حاصل کرے جس سے حکومت ہر دم متاثر ہو میں چاہتا ہوں کہ اسلام لیگ کی مجلس نافذہ پاکستان کے طول وعرض میں ایک ہمہ گیر لائحہ عمل کی مالک ہو ہر طبقے کے لوگ اس کے غیر فرقہ درانہ اعمال سے متاثر ہو کر اس میں جو ق درجوق شامل ہوں دین اسلام کے مقام سے ہٹ کر اس کا کای عمل نہ ہو اس میں سچے اور مخلص کا رکن انتہائی سرگرمی سے عمل کریں ان کا عمل بے غرضانہ ہو ان کا اقدام مجاہدانہ ہو وہ حکومت کے مشوروں میں داخل ہوں لیکن اگر حکومت کوئی غلط اقدام کرے تو اسے اسکی ہمدردی حاصل نہ ہو اس بنا پر میں چاہتا ہوں کہ ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ اسلام لیگ کے 2 کے ممبر بنیں عوام الناس اس کے جلسوں میں دلچسپی کا اظہار کریں بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگ اسکے ممبربنیں کہ حکومت کے آدمی اسلام لیگ کو ایک انتہائی طور پر قابل احترام متوازن لیکن سرگرم جدوجہد کی مجلس سمجھیں اور ہمارے آدمیوں سے مدد ہر عنوان سے لیں یعنی میرے تصور میں اس قطع کی حکومت جو پارٹیوں سے بالا تر ہو جو اس وقت گورنر جنرل کے نئے اقدام سے وجود میں آرہی ہے اور اگر اس کا غالب عنصر مسلم لیگی ہو اتو اسلام لیگ والوں کو کوئی باک نہ ہونا چاہئیے کہ وہ سب کی سب مسلم لیگ میں شامل ہو جائے تا کہ پاکستان کی عام بہتری ہو اور اگر وہ عنصر پارٹیوں سے بالا تر ہوا تو اسلام لیگ ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت کے طور پر اپنی ہستی کو برقرار رکھے اور ملک کابہترین عنصر اپنی جماعت میں اپنے زورعمل اور حسن عمل سے شامل کرے میں نے اسلام لیگ کی نئی بنیاد ان خطوط پر رکھ دی ہے اور مجھے یقین ہے کہ میرے اس مجلس میں شامل نہ ہوتے ہوئے بھی مجلس نافذہے ملت کی کشتی کو حسن اسلوب سے پار لگا کر رہے گی۔
          مسلمانو!اس وقت جس شے کی پاکستان میں کمی ہے وہ صرف قحط الرحابی ہے صرف لوگ ایسے نہیں ملتے جو مخلصانہ طور پر کام کرنے کے لئے دکھ اٹھائیں صرف قربانی کرنے والے کم یاب ہیں ادھر مشکل یہ ہے کہ جن لوگوں کی اس وقت ضرورت ہے وہ گوشوں میں چھپے بیٹھے ہیں اور صرف مولویانہ طور پر فضل خدا کے انتظار میں ان کے دلوں میں کام کرنے کی ہوس ہے لیکن میدنا میں آکر کام کرنے کی جرات نہیں صدہا نہیں بلکہ ہزار ہااشخاص کا کیریکٹر اسقدر بلند ہے کہ اگر وہ چاہیں تو پاکستان کو آسمان تک اٹھالیں یہ ضروری نہیں کہ اس اصلاح کیلئے حکومت کی کرسی ہی ملے میرے نزدیک تو حکومت کی کرسیاںدماغ اور اور ذہن خراب کر دیتی ہیں لوگ اس کرسی کی عینک سے حالات کو صحیح طور پر دیکھ نہیں سکتا اسلئے ان لوگوں کو جن کا کیریکٹر بند ہے میں خاص طور پر اپیل کرتا ہوں کہ وہ آگے آئیں بے دھڑک اسلام لیگ کے ممبر بنیں یہاں پر جھگڑ گھڑ کر اپنے لئے کام لیں ہزاروں کام ہیں جو پاکستا ن میں کرنیوالے ہیں یہاں تمہارا آدے کا آدا بگڑ ہوا ہے یہ ضروری نہیں کہ آپ مجلس نافذہ ہی کے ممبر بنیں مجلس نافذہ کے ممبر تو بدلتے ہی رہتے ہیں وہ ہی رہ جا ئیں گے جو سب سے زیادہ کام کرنے والے ہوں گے وہی رہیں گے جنکی آواز اور جنکا کام پبلک اور حکومت پر اثر رکھیں گے اسلئے سب تعلیم یافتہ اصحاب سب مشور حلقے سب عملی اور علمی طور پر نمایاں اشخاص اسلام لیگ میں خود بخود آئیں اور عمل شروع کر دیں میں یورپ اور امریکہ سے واپس آکر ان بوڑھی آنکھوں سے خود دیکھوں کہ گلزار لگا ہوا ہے۔
          مسلمانو!آخر میں مجھ سے بار بار استفسار کیا گیا ہے کہ امریکہ کی مدد کے بارے میں میری کیا رائے ہے شاعرانہ طور پر اگر مجھ سے پوچھتے ہو تو میں اس کا جواب حسب ذیل دو شعروں میں دیتا ہوں جو میرے جیل کے لکھے ہوئے ہیں جن کے انددر اس جواب کی پوری تفصیل موجود ہے۔

بپھرتے ہیں کہ ہے امریکہ کی مدد ہم کو
خوشا ضعیف کی خوش فہمی وفاداری
ادھر ادھر سے اٹھاریزے پھینک دیتا ہے
غریب کی تو ہے قسمت ہی زلہ یرداری

          اس سوال کا جواب شعر کے لباس میں تو یہ ہے جو کہے گئے ہیں لیکن موجود ہ سیاست کے لباس اورپاکستان کے موجودہ حالات کے رنگ میں میں کہوں گا کہ محمد علی وزیراعظم قابل صدستائش ہیں کہ انہوں نے پاکستان کی اس کمزوری اور بے بسی کی حالت میں امریکہ سے مدد حاصل کی میں جانتا ہوں کہ امریکہ صرف اپنی مدد کرتا ہے اوو خدا نہی کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں لیکن ایسی حالت میں کہ پاکستان دشمنوں سے گھرا ہوا ہے امریکہ سے ایسی امداد لینا جو کہ دشمنوں کو پریشان کر دے ایک کارنامہ ہے اور اسی لحاظ سے میں نے وزیراعظم کو مبارکباد دی ہے لیکن دل میں ایک کانٹا ہے جو کھٹک رہا وہ یہ کہ اے کاش ہم امریکہ کی مدد سے بے نیاز ہوتے اور انشاءاللہ العزیز اگر میری بتائی ہوئی تجاویز پر حکومت نے کماحقہ عمل کیا تو وہ دن آرہے ہیں کہ ہم اپنے پاں پر نہ صرف کھڑے ہوئے ہوں گے بلکہ بے نیازی سے امریکہ کی مدد کو کالائے بدبرسرس ماند کہہ کر بصداحترام واپس کر دیں گے۔
اب میں آپ سے رخصت ہوتا ہوں خدا آپ کے ساتھ ہو!
علامہ عنایت اللہ خان المشرقی
5نومبر 1954ئ