Pages

Time

قوموں کا زوال اور اس کا علاج ! - علامہ المشرقی


قوموں کا زوال اور اس کا علاج !

          قومیں جب موت اور زوال کے چکر میں آجاتی ہیں تو کسی کو سوجھتا نہیں کہ بگاڑ کہاں ہے، کون سا پرزہ ڈھیلا ہے،کیا معاملہ ہے،کہاں جھگڑا ہے، یہ کیونکر گرے، کس طرف چل کر عروج تھا، کیا کریں، کہاں جائیں،کہاں سر پھوڑیں.... ادھر بیمار جسم کے صحیح علاج میں دیر ا ور فیس طلب اور مطلب پرست نہیں بلکہ نیک پرست اور بے غرض نیم حکیموں کے غلط نسخے طاقت کے زوال کو دوبالا کر دیتے ہیں اور مسئلہ لاےنحل ہوتا جاتا ہے۔لیکن اگر کائنات فطرت کے ہر جسم کا زوال اس لئے ہے کہ اس کے جسم کے حصوں نے اپنا اپنا عمل چھوڑ دیا ہے۔ جگر اپنے فعل سے منکر ہے دل اپنی پہلی خوبی سے حرکت نہیں کرتا، دماغ کا ایکشن درست نہیں ہے۔ ہاتھوں میں اگلی سکت نہیں رہی بدن میں خون کا وہ دوران نہیں، پیروں میں وہ چستی نہیں وغیرہ وغیرہ تو قوم کے جسم کا زوال بھی یقیناً اور لازماً اسی وجہ سے ہے کہ اس قوم کے اندروہ پہلا عمل، وہ فعل، وہ حرکت، وہ ایکشن، وہ سکت، وہ دوران، وہ چستی نہیں رہی۔ اگر گوشت پوست والے کسی جسم کے اندر زوال کی یہ علامت ہے کہ اس کے جسم میں عمل نہیں رہا تو یقینا یہی اس کی وجہ بھی ہے اور گوشت پوست والے جسم کو پھر تندرست کرنے کا علاج خواہ کچھ بھی ہو وہ علاج کسی کو سوجھے یا نہ سوجھے کسی بڑے سے بڑے حکیم یا ڈاکٹر کے پاس اس مرض کی دوا ہو یا نہ ہو لیکن ایک قوم کو پھر زندہ، پھر تندرست، پھر چالو، پھر طاقتور، پھر غالب کرنے کا علاج صرف ایک ہی ہے کہ اس میں پھر عمل اور پھر ایکشن پیدا کر دیا جائے قوموں کے زوال کا سچا باعث عدم عمل ہے۔ یہی ان کے زوال کی علامت ہے، لیکن اس کا واحد اور تیر بہدف علاج بھی بعینہ یہ ہے کہ اس قوم میں عمل، فعل، حرکت، ایکشن، سکت، دوران اور چستی کے لوازمات پھر جمع کر دیئے جائیں پس اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے توقوم کو بلند کرنے کے لئے کسی نسخے یا علاج بلکہ کسی حکیم یا ڈاکٹر کی ضرورت نہیں ہے قوم کا مرض خود ہی اس کے علاج کی طرف اشارہ کر رہا ہے اور جو قوم مریض ہو کر علاج اور حکیم کی تلاش میں ٹامک ٹوئیے مارتی پھرتی ہے اس کو کہہ دو کہ تمہارا علاج تمہاری مرض کے ماتھے پر لکھا ہے۔ تم قوم کے ہر فرد میں ہمت، طاقت، چستی، ولولہ، حوصلہ، پیروں کی حرکت ہاتھوں اور جسموں کی حرکت، جانوں کی حرکت، ارادوں کی حرکت الغرض عمل پید اکرو پھر دیکھو قوم کیوں کر نہیں بنتی!

علامہ عنایت اللہ خان المشرقی
(ماخوذ ازقول فیصل ٭ 1935)